سرورق
ترتیب
پیش لفظ
اعتراف
میں نہیں مانتا (احمد بشیر)
جالب کی انفرادیت (احمد ندیم قاسمی)
آج کا نظیر اکبر آبادی (انتظار حسین)
انقلابی حقیقت کی ایک مثال ۔ جالب (انور سدید)
اختلاف کا شاعر (توقیر چغتائی)
یہ عشق نہیں آساں (زاہدہ حنا)
روداد وفادار پہ (زہرہ نگاہ)
سچا عوامی شاعر (سبط حسن)
اچھوت شاعر (سلیم اختر)
روبہ برو (شاہد شیدائی)
نظریئے کا شاعر (عبادت بریلوی)
یہ جرم ہے مرا کہ مجھے ہو گئی خبر (عبدالقادر حسن)
گریبان چاک جالب (عبداللہ ملک)
ایک سچا عوامی شاعر حبیب جالب (فارغ بخاری)
مخالف ہواؤں کا شاعر (فردوس حیدر)
دل دریدہ ، سرکشیدہ (محسن حسان)
حبیب جالب ایک جائزہ (محمد حسن)
حبیب جالب (وزیر آغا)
حبیب جالب کا شعری سفر (وحید قریشی)
غزلیں کلام جالب
اس نے جب ہنس کے نمسکار کیا
اب نہ وہ غزل اپنی نہ وہ بیاں اپنا
اک مستقل عذاب کو سر پر بٹھا لیا
پھول سے ہونٹ چاند سا ماتھا
اور سب بھول گئے حرف صداقت لکھنا
تم سے پہلے وہ جو ایک شخص یہاں تخت نشیں تھا
تباہیوں پہ بھی دل کو ذرا ملال نہ تھا
چور تھا زخموں سے دل زخمی جگر بھی ہو گیا
جانا ہے تمہیں دہر سے ایمان ہے اپنا
وہ بات چھیڑ جس میں جھلکتا ہو سب کا غم
دل پر جو زخم ہیں وہ دکھائیں کسی کو کیا
دل پر شوق کو پہلو میں دبائے رکھا
دل ہے اب پہلو میں یوں سہما ہوا
شوق آوارگی میں کیا نہ ہوا
شہرت سے بستی سے ویرانے سے دل گھبرا گیا
غزلیں تو کہی ہیں کچھ ہم نے ان سے نہ کہا احوال تو کیا
غالب ویگانہ سے لوگ بھی تھے جب تنہا
فرنگی کا جو میں دربان ہوتا
کوئی شعر نیا کوئی بات نئی کہنے کا جتن کرتے رہنا
لوگ گیتوں کو نگر یاد آیا
نہ گفتگو سے نہ وہ شاعری سے جائے گا
ہوا ئے جورو ستم سے رخ وفا نہ بجھا
ہم جو اب تک اٹھا رہے ہیں ستم
حسن کا ہم نے کیا چرچا بہت
کیسے کہیں کہ یاد یار جا رات جا چکی بہت
بڑے بنے تھے جالب صاحب پٹے سڑک کے بیچ
ہوتا ہے سر شام سلاخوں کا جو در بند
کون اس انجمن میں ہے اہل نظر
پھولوں کو دیکھنے سے ایک نظر
کتنا سکوت ہے رسن و دار کی طرف
ویراں ہے میری شام پریشاں مری نظر
تیری بھیگی ہوئی آنکھیں ہیں مجھے یاد اب تک
تو رنگ ہے غبار ہیں تیری گلی کے لوگ
پھر دل سے آرہی ہے صدا اس گلی میں چل
جدھر جائیں وہی قاتل مقابل
ذرے ہی سہی کوہ سے ٹکرا تو گئے ہم
اس کوئے ملامت پہ ہی موقوف نہیں ہے
کٹی اب کٹی منزل شام غم
نہ کوئی شب ہو شب غم یہ سوچتے ہیں ہم
ہجوم دیکھ کے رستہ نہیں بدلتے ہم
یہ اور بات تیری گلی میں نہ آئیں ہم
اپنوں نے وہ رنج دیئے ہیں بیگانے یاد آتے ہیں
اب تیری ضرورت بھی بہت کم ہے مری جاں
اٹھ گیا ہے دلوں سے پیار یہاں
اجنبی دیاروں میں پھر رہے ہیں آوارہ
اس رعونت سے وہ جیتے ہیں کہ مرنا ہی نہیں
اور کیا اس کے سوا چاہتے ہیں
اگر دامن نہیں ان کا میسر
باتیں تو کچھ ایسی ہیں کہ خود سے بھی نہ کی جائیں
اے دل وہ تمہارے لیے بے تاب کہاں ہیں
جنہیں ہم چاہتے ہیں والہانہ
جدھر نگاہ اٹھائیں کھلے کنول دیکھیں
درد کی دھوپ ہے خوف کے سائے ہیں
جیون مجھ سے میں جیون سے شرماتا ہوں
دل کی بات لبوں پر لاکر اب تک ہم دکھ سہتے ہیں
زندہ ہیں ایک عمر سے دہشت کے سائے ہیں
شعر ہوتا ہے اب مہینوں میں
شعر سے شاعری سے ڈرتے ہیں
شہرویراں اداس ہیں گلیاں
فرضی مقدمات ہیں جھوٹی شہادتیں
کچھ لوگ خیالوں سے چلے جائیں تو سوئیں
کبھی تو مہرباں ہو کر بلا لیں
کسی سے حال دل زار مت کہو سائیں
کراہتے ہوئے انسان کی صدا ہم ہیں
مشکلیں دنیا میں اوروں کی تو آساں ہو گئیں
ملا کرتی نہیں عظمت یونہی تو
مہتاب صفت لوگ یہاں خاک بسر ہیں
میں تو مایوس نہیں اہل وطن سے یارو
میں غزل کہوں تو کیسے کہ جدا ہیں میری راہیں
میں چپ ہوں فدا ڈوبتے خورشید سے پوچھو
نگاہوں کے قفس میں اور ہوں چہروں کے زنداں میں
نہ ڈگمگائے کبھی ہم وفا کے رستے میں
ہر گام پر تھے شمس و قمر اس دیار میں
وہ جن کی رفعتوں کے سامنے ہے گرد آسماں
ہم لڑیں امریکیوں کی جنگ کیوں
ہم نے سنا تھا صحن چمن میں کیف کے بادل چھائے ہیں
یہ زندگی گزار رہے ہیں جو ہم یہاں
ہم ہی جب آئیں گے تو بنے گی بات میاں
آج ہمارے حال پہ ہنس لو شہر کے عزت دارو
گھر کے زنداں سے اسے فرصت ملے تو آئے بھی
اٹھتا ہوا چمن سے دھواں دیکھتے چلو
جاگنے والو تابہ سحر خاموش رہو
دل والو کیوں دل سی دولت یوں بیکار کرتے ہو
جہاں خطرے میں ہے اسلام اس میدان میں جاؤ
شب کو چاند اور دن کو سوج بن کر روپ دکھاتی ہو
لوگوں ہی کا خوں بہ جاتا ہے ہوتا نہیں کچھ سلطانوں کو
آج اس شہر میں کل نئے شہر میں بس اسی لہر میں
آگ ہے پھیلی ہوئی کالی گھٹاؤں کی جگہ
اگر ہے تو بس حسن کی ذات برحق
اس دیس کا رنگ انوکھا تھا اس دیس کی بات نرالی تھی
بہت روشن ہے شام غم ہماری
کیسی ہوا گلشن میں چلی
اس گلی کے لوگوں کو منہ لگا کے پچھتائے
اس شہر خرابی میں غم عشق کے مارے
بجلیوں کی یورش سے شاخ شاخ لرزاں ہے
اے دوست رہ زیست میں زنداں نہ رہیں گے
بڑھائیں گے نہ کبھی ربط ہم بہاروں سے
بکھیری زلف جب کالی گھٹا نے
بھلا بھی دے اسے جو بات ہوگئی پیارے
پھر کبھی لوٹ کر نہ آئیں گے
ترے ماتھے پہ جب تک بل رہا ہے
تم سادہ معصوم ہو اور ہم ہیں گنہگار
جس کی آنکھیں غزل ہر ادا شعر ہے
جاگ اٹھے سوئے ہوئے درد تمناؤں کے
جب کوئی کلی صحن گلستاں میں کھلی ہے
جھوٹی خبریں گھڑنے والے جھوٹے شعر سنانے والے
جی دیکھا ہے مر دیکھا ہے
حسرت رہی کوئی تو یہاں دیدہ ور ملے
درخت سوکھ گئے رک گئے ندی نالے
دشمنوں نے جو دشمنی کی ہے
دنیا ہے کتنی طالم ہنستی ہے دل دکھا کے
زندگی بھر ذہن و دل پر خوف کے سائے رہے
شام غم کو سحر کہوں کیسے
سونی ہیں آنکھوں کی گلیاں دل کی بستی ویراں ہے
ظلمت کو جو فروغ ہے دیدہ وروں سے ہے
عشق میں نام کر گئے ہوں گے
قسمت پہ ناز ہے تو اسی اعتبار سے
غم وطن جو نہ ہوتا تو مقتدر ہوتے
کون بتائے کون سمجھائے کون سے دیس سدھار گئے
کیا یہ کس نے تقاضا ہمیں شراب ملے
کہیں آہ بن کے لب پر ترا نام آ نہ جائے
گلشن کی فضا دھواں دھواں ہے
بہت مہرباں تھیں وہ گلپوش راہیں
محبت کی رنگینیاں چھوڑ آئے
منصف ہوئے بیدار اسیروں کی فغاں سے
میرو غالب بنے یگانہ بنے
میری بانہوں میں رہے میری نگاہوں میں رہےے
نظر نظر میں لیے تیرا پیار پھرتے ہیں
وطن سے الفت ہے جرم اپنا یہ جرم تازندگی کریں گے
نہ وہ ادائے تکلم نہ احتیاط زباں
ہم کو نظروں سے گرانے والے
ہم آوارہ گاؤں گاؤں بستی بستی پھرنے والے
یہ اجرے باغ ویرانے پرانے
یونہی پیارے کوئی منصور بنا کرتا ہے
حبیب جالب کا ایک یادگار انٹرویو
میرا بھائی میرا باپ (سعید پرویز)
وہ جالب ہم کو چھوڑ گیا (منظور اے چودھری)
بیاد جالب
حبیب جالب (احمد ندیم قاسمی)
زمین کا آدمی (افضل توصیف)
جالب کے دو کبوتر (سعید انجم)
حبیب جالب ۔۔۔ایک یاد گار ملاقات (سلیمان اطہر جاوید)
نوک نشتر (فہیم انصاری)
حبیب جالب (عوامی شاعر)
ایک بنجارہ عوامی شاعر (مشرف عالم ذوقی)
عوام کا محبوب شاعر ۔ حبیب جالب (نند کشور وکرم)
مرحوم حبیب جالب (وحید انور)
نظمیں
آپ چین ہو آئے آپ روس ہو آئے
آرمینیا کے لوگوں کا نوحہ
اپنی جنگ رہے گی
اپنی بات کرو
اپنے بیٹے طاہر عباسی کی یاد میں
اپنے بچوں کے نام
اٹھو مرنے کا حق استعمال کرو
اجرائے مساوات
ادیبوں کے نام
ارباب ذوق
بگیا لہولہان
امریکہ نہ جا
امریکہ یاترا کے خلاف
ایک شام
اے اہل عرب اے اہل جہاں
اے جہاں دیکھ لے !
اکتوبر انقلاب
اے لخت لخت دیدہ ورو
ایک یاد
اے مدیر امن
بدبخت سیاستدانو
لوگو
1971ء کے خوں آسام بنگال کے نام
بھیک نہ مانگو
بیٹھا ہے
بھئے کبیراداس
بیاد شاہ عبداللطیف بھٹائی
بیس گھرانے
پاکستان کا مطلب کیا ؟
پس دیوار زنداں
ترانہ
ترانۂ دوستی
تیرے ہونے سے
تیز چلو
جاگ مرے پنجاب
جمہوریت
جواں آگ
14؍ اگست
حسب فرمائش
خدایا یہ مظالم بے گھروں پر
خدا ہمارا ہے
خطرے میں اسلام نہیں
دادا امیر حیدر
داستان دل دونیم
دستور
رخصتی کا گیت
رخصتی
رخشندہ زویا سے
روئے بھگت کبیر
ریگن
ریفرینڈم
سر مقتل کی ضبطی پر
سفید بینا
سوجا
سلام لوگو !
شب الم کا سفر
شکوہ نہ کر
سچ ہی لکھتے جانا
شہر ظلمات کو ثبات نہیں
صحافی سے
طلبہ کے نام
گھیراؤ
صدر امریکہ نہ جا
صدا تو دے
ضابطہ
عورت
علمائے سو کے نام
عورتوں کا ترانہ
عہد سزا
فلسطین
غاصبوں کے ساتھیو !
قصہ خوانی کے شہیدوں کی نذر
کافی ہاؤس
کہنے کی بات
کراچی میں جب صاحب جاہ نے جھونپڑے جلائے
کوٹ لکھپت جیل
گوشے میں قفس کے
لبنان چلو
ماتم شہر کراچی
مادر ملت
لمبی نہیں ہے ظلم کی عمر
مادر ملت
مادر ملت کی پہلی برسی پر
ماں
متاع غیر
مرثیہ خاک نشیناں
مستقبل
مشروط رہائی
مشاعرہ
مشیر
ملاقات
ممتاز
منشور
میری بچی
مولانا
نذر شہیداء
ناداں نہیں ہیں ہار
نام کیا لوں
نہتّی لڑکی
ننّھی جا سو جا
نیلو
وطن کو کچھ نہیں خطرہ
نئی پود
نہیں بدلتے ہم
وہ وہ گئے وزیر
ہتھکڑی
ولی خاں
یوری گیمگرین
ہم دیکھتے ہیں
یزید سے ہیں بنرد آزما فلسطینی
یوم آزادیٔ صحافت پر
یوم اقبال پر
یوم مئی
یہ وزیران کرام
دیباچے پیش لفظ
حرف سردار (الطاف گوہر)
انسان دوست (امین مغل)
شوق آوارگی (سعیدہ گذدر)
برگ آوارہ (عندلیب شادانی)
قفس در قفس (قسور گردیزی)
روشن مستقبل شاعر (مخدوم علی خان)
پیش نامہ (ہمایوں گوہر)
متفرق کلام
اردو کلام
جنگوں سے دور امن سے انسان کی طرح
عزت سے جینا ہے اگر تو بجٹ گھٹاؤ مولانا
جن کے ہونٹوں پر لگی ہیں ڈالروں کی چیپیاں
کہاں نسبت انہیں کعبے سے بھائی
آج پھر تم نظر نہیں آتے
نیری آنکھوں کا عجب طرز سماں دیکھا ہے
شہر پہ خوف کے سائے ہیں
بھیگیں نہ آنسوؤں سے کنارے سویز کے
ظلمت کو ضیا صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
نام چلے ہر نام داس کا کام چلے امریکہ کا
ہندوستان بھی میرا ہے اور پاکستان بھی میرا ہے
صحافی سے
وطن فروش
صد شکر
نہ کلیوں میں رنگت نہ پھولوں میں باس
فصل قرار آئے گی
آدم جی ایوارڈ
رائٹرز گلڈ
اے لوگو !
شہر بدر طلبا کے نام
آج کل
رحم آتا ہے
برق پاشی
میں خوش نصیب شاعر
احمد ریاض کی یاد میں
حسن ناصر
بیاد جوش
نذر ساحر
بیاد سید سبط حسن
بیاد فراق
بیاد فیضؔ
لتا
میرا جی
نذر مارکس
نذر مصحفیؔ
نور جہاں
یوسف کامران
شہر دہلی
لائل پور
استاد دامن
پنجابی کلام
اک شاہ سخن
اک مجبور عورت داگیت
اک نظم
امریکہ توں جنگ اوندی اے
بوٹاں دی سرکار
غزل
بازآجاؤ
دو جاگیت
دھمی کمی دی ، ڈھول سپاہی
رات کلینی
کُڑے ، گل سن چنپا
ماں بولی
منڈیا ، میاں عبدالخالق
وچھڑے دل دی مل سکدے نے
جالب کی چند تحریرں خطوط
بخط جالبؔ
سر آغاز
منو بھائی ، افضل صدیقی کے نام
حبیب جالب بحیثیت فلمی نغمہ نگار
فلمی نغمے
پنجابی فلمی نغمے
نذر جالب(افضل صدیقی)
حبیب جالبؔ (بخش لائپوری)
نذر جالب (سیدہ در نجف زیبی)
قطعۂ تاریخ وفات حبیب جالب
نذر جالب (شاہد شیدائی)
نظم (فاضل جمیلی)
از کجا آید ایں آواز دوست (رومی)
نذر حبیب جالبؔ (محسن بھوپالی)
ابھی تو موسم ہے عاشقوں کا (نوحہ)
نذر جالب (مظفر وارئی)
نذر جالب (نجیب احمد)
حبیب جالب کی نظر
خراج عقیدت
الطاف حسین قریشی
رشید مصباحی ، ضیاء علیگ
فیروز مکرجی
قتیل شفائی ، شوکت چودھری ، قمر یورش
یوسف حسن
یونس ادیب
YEAR1994
CONTRIBUTORNand Kishor Vikram
PUBLISHER Publisher & Advertisers, Delhi
YEAR1994
CONTRIBUTORNand Kishor Vikram
PUBLISHER Publisher & Advertisers, Delhi
سرورق
ترتیب
پیش لفظ
اعتراف
میں نہیں مانتا (احمد بشیر)
جالب کی انفرادیت (احمد ندیم قاسمی)
آج کا نظیر اکبر آبادی (انتظار حسین)
انقلابی حقیقت کی ایک مثال ۔ جالب (انور سدید)
اختلاف کا شاعر (توقیر چغتائی)
یہ عشق نہیں آساں (زاہدہ حنا)
روداد وفادار پہ (زہرہ نگاہ)
سچا عوامی شاعر (سبط حسن)
اچھوت شاعر (سلیم اختر)
روبہ برو (شاہد شیدائی)
نظریئے کا شاعر (عبادت بریلوی)
یہ جرم ہے مرا کہ مجھے ہو گئی خبر (عبدالقادر حسن)
گریبان چاک جالب (عبداللہ ملک)
ایک سچا عوامی شاعر حبیب جالب (فارغ بخاری)
مخالف ہواؤں کا شاعر (فردوس حیدر)
دل دریدہ ، سرکشیدہ (محسن حسان)
حبیب جالب ایک جائزہ (محمد حسن)
حبیب جالب (وزیر آغا)
حبیب جالب کا شعری سفر (وحید قریشی)
غزلیں کلام جالب
اس نے جب ہنس کے نمسکار کیا
اب نہ وہ غزل اپنی نہ وہ بیاں اپنا
اک مستقل عذاب کو سر پر بٹھا لیا
پھول سے ہونٹ چاند سا ماتھا
اور سب بھول گئے حرف صداقت لکھنا
تم سے پہلے وہ جو ایک شخص یہاں تخت نشیں تھا
تباہیوں پہ بھی دل کو ذرا ملال نہ تھا
چور تھا زخموں سے دل زخمی جگر بھی ہو گیا
جانا ہے تمہیں دہر سے ایمان ہے اپنا
وہ بات چھیڑ جس میں جھلکتا ہو سب کا غم
دل پر جو زخم ہیں وہ دکھائیں کسی کو کیا
دل پر شوق کو پہلو میں دبائے رکھا
دل ہے اب پہلو میں یوں سہما ہوا
شوق آوارگی میں کیا نہ ہوا
شہرت سے بستی سے ویرانے سے دل گھبرا گیا
غزلیں تو کہی ہیں کچھ ہم نے ان سے نہ کہا احوال تو کیا
غالب ویگانہ سے لوگ بھی تھے جب تنہا
فرنگی کا جو میں دربان ہوتا
کوئی شعر نیا کوئی بات نئی کہنے کا جتن کرتے رہنا
لوگ گیتوں کو نگر یاد آیا
نہ گفتگو سے نہ وہ شاعری سے جائے گا
ہوا ئے جورو ستم سے رخ وفا نہ بجھا
ہم جو اب تک اٹھا رہے ہیں ستم
حسن کا ہم نے کیا چرچا بہت
کیسے کہیں کہ یاد یار جا رات جا چکی بہت
بڑے بنے تھے جالب صاحب پٹے سڑک کے بیچ
ہوتا ہے سر شام سلاخوں کا جو در بند
کون اس انجمن میں ہے اہل نظر
پھولوں کو دیکھنے سے ایک نظر
کتنا سکوت ہے رسن و دار کی طرف
ویراں ہے میری شام پریشاں مری نظر
تیری بھیگی ہوئی آنکھیں ہیں مجھے یاد اب تک
تو رنگ ہے غبار ہیں تیری گلی کے لوگ
پھر دل سے آرہی ہے صدا اس گلی میں چل
جدھر جائیں وہی قاتل مقابل
ذرے ہی سہی کوہ سے ٹکرا تو گئے ہم
اس کوئے ملامت پہ ہی موقوف نہیں ہے
کٹی اب کٹی منزل شام غم
نہ کوئی شب ہو شب غم یہ سوچتے ہیں ہم
ہجوم دیکھ کے رستہ نہیں بدلتے ہم
یہ اور بات تیری گلی میں نہ آئیں ہم
اپنوں نے وہ رنج دیئے ہیں بیگانے یاد آتے ہیں
اب تیری ضرورت بھی بہت کم ہے مری جاں
اٹھ گیا ہے دلوں سے پیار یہاں
اجنبی دیاروں میں پھر رہے ہیں آوارہ
اس رعونت سے وہ جیتے ہیں کہ مرنا ہی نہیں
اور کیا اس کے سوا چاہتے ہیں
اگر دامن نہیں ان کا میسر
باتیں تو کچھ ایسی ہیں کہ خود سے بھی نہ کی جائیں
اے دل وہ تمہارے لیے بے تاب کہاں ہیں
جنہیں ہم چاہتے ہیں والہانہ
جدھر نگاہ اٹھائیں کھلے کنول دیکھیں
درد کی دھوپ ہے خوف کے سائے ہیں
جیون مجھ سے میں جیون سے شرماتا ہوں
دل کی بات لبوں پر لاکر اب تک ہم دکھ سہتے ہیں
زندہ ہیں ایک عمر سے دہشت کے سائے ہیں
شعر ہوتا ہے اب مہینوں میں
شعر سے شاعری سے ڈرتے ہیں
شہرویراں اداس ہیں گلیاں
فرضی مقدمات ہیں جھوٹی شہادتیں
کچھ لوگ خیالوں سے چلے جائیں تو سوئیں
کبھی تو مہرباں ہو کر بلا لیں
کسی سے حال دل زار مت کہو سائیں
کراہتے ہوئے انسان کی صدا ہم ہیں
مشکلیں دنیا میں اوروں کی تو آساں ہو گئیں
ملا کرتی نہیں عظمت یونہی تو
مہتاب صفت لوگ یہاں خاک بسر ہیں
میں تو مایوس نہیں اہل وطن سے یارو
میں غزل کہوں تو کیسے کہ جدا ہیں میری راہیں
میں چپ ہوں فدا ڈوبتے خورشید سے پوچھو
نگاہوں کے قفس میں اور ہوں چہروں کے زنداں میں
نہ ڈگمگائے کبھی ہم وفا کے رستے میں
ہر گام پر تھے شمس و قمر اس دیار میں
وہ جن کی رفعتوں کے سامنے ہے گرد آسماں
ہم لڑیں امریکیوں کی جنگ کیوں
ہم نے سنا تھا صحن چمن میں کیف کے بادل چھائے ہیں
یہ زندگی گزار رہے ہیں جو ہم یہاں
ہم ہی جب آئیں گے تو بنے گی بات میاں
آج ہمارے حال پہ ہنس لو شہر کے عزت دارو
گھر کے زنداں سے اسے فرصت ملے تو آئے بھی
اٹھتا ہوا چمن سے دھواں دیکھتے چلو
جاگنے والو تابہ سحر خاموش رہو
دل والو کیوں دل سی دولت یوں بیکار کرتے ہو
جہاں خطرے میں ہے اسلام اس میدان میں جاؤ
شب کو چاند اور دن کو سوج بن کر روپ دکھاتی ہو
لوگوں ہی کا خوں بہ جاتا ہے ہوتا نہیں کچھ سلطانوں کو
آج اس شہر میں کل نئے شہر میں بس اسی لہر میں
آگ ہے پھیلی ہوئی کالی گھٹاؤں کی جگہ
اگر ہے تو بس حسن کی ذات برحق
اس دیس کا رنگ انوکھا تھا اس دیس کی بات نرالی تھی
بہت روشن ہے شام غم ہماری
کیسی ہوا گلشن میں چلی
اس گلی کے لوگوں کو منہ لگا کے پچھتائے
اس شہر خرابی میں غم عشق کے مارے
بجلیوں کی یورش سے شاخ شاخ لرزاں ہے
اے دوست رہ زیست میں زنداں نہ رہیں گے
بڑھائیں گے نہ کبھی ربط ہم بہاروں سے
بکھیری زلف جب کالی گھٹا نے
بھلا بھی دے اسے جو بات ہوگئی پیارے
پھر کبھی لوٹ کر نہ آئیں گے
ترے ماتھے پہ جب تک بل رہا ہے
تم سادہ معصوم ہو اور ہم ہیں گنہگار
جس کی آنکھیں غزل ہر ادا شعر ہے
جاگ اٹھے سوئے ہوئے درد تمناؤں کے
جب کوئی کلی صحن گلستاں میں کھلی ہے
جھوٹی خبریں گھڑنے والے جھوٹے شعر سنانے والے
جی دیکھا ہے مر دیکھا ہے
حسرت رہی کوئی تو یہاں دیدہ ور ملے
درخت سوکھ گئے رک گئے ندی نالے
دشمنوں نے جو دشمنی کی ہے
دنیا ہے کتنی طالم ہنستی ہے دل دکھا کے
زندگی بھر ذہن و دل پر خوف کے سائے رہے
شام غم کو سحر کہوں کیسے
سونی ہیں آنکھوں کی گلیاں دل کی بستی ویراں ہے
ظلمت کو جو فروغ ہے دیدہ وروں سے ہے
عشق میں نام کر گئے ہوں گے
قسمت پہ ناز ہے تو اسی اعتبار سے
غم وطن جو نہ ہوتا تو مقتدر ہوتے
کون بتائے کون سمجھائے کون سے دیس سدھار گئے
کیا یہ کس نے تقاضا ہمیں شراب ملے
کہیں آہ بن کے لب پر ترا نام آ نہ جائے
گلشن کی فضا دھواں دھواں ہے
بہت مہرباں تھیں وہ گلپوش راہیں
محبت کی رنگینیاں چھوڑ آئے
منصف ہوئے بیدار اسیروں کی فغاں سے
میرو غالب بنے یگانہ بنے
میری بانہوں میں رہے میری نگاہوں میں رہےے
نظر نظر میں لیے تیرا پیار پھرتے ہیں
وطن سے الفت ہے جرم اپنا یہ جرم تازندگی کریں گے
نہ وہ ادائے تکلم نہ احتیاط زباں
ہم کو نظروں سے گرانے والے
ہم آوارہ گاؤں گاؤں بستی بستی پھرنے والے
یہ اجرے باغ ویرانے پرانے
یونہی پیارے کوئی منصور بنا کرتا ہے
حبیب جالب کا ایک یادگار انٹرویو
میرا بھائی میرا باپ (سعید پرویز)
وہ جالب ہم کو چھوڑ گیا (منظور اے چودھری)
بیاد جالب
حبیب جالب (احمد ندیم قاسمی)
زمین کا آدمی (افضل توصیف)
جالب کے دو کبوتر (سعید انجم)
حبیب جالب ۔۔۔ایک یاد گار ملاقات (سلیمان اطہر جاوید)
نوک نشتر (فہیم انصاری)
حبیب جالب (عوامی شاعر)
ایک بنجارہ عوامی شاعر (مشرف عالم ذوقی)
عوام کا محبوب شاعر ۔ حبیب جالب (نند کشور وکرم)
مرحوم حبیب جالب (وحید انور)
نظمیں
آپ چین ہو آئے آپ روس ہو آئے
آرمینیا کے لوگوں کا نوحہ
اپنی جنگ رہے گی
اپنی بات کرو
اپنے بیٹے طاہر عباسی کی یاد میں
اپنے بچوں کے نام
اٹھو مرنے کا حق استعمال کرو
اجرائے مساوات
ادیبوں کے نام
ارباب ذوق
بگیا لہولہان
امریکہ نہ جا
امریکہ یاترا کے خلاف
ایک شام
اے اہل عرب اے اہل جہاں
اے جہاں دیکھ لے !
اکتوبر انقلاب
اے لخت لخت دیدہ ورو
ایک یاد
اے مدیر امن
بدبخت سیاستدانو
لوگو
1971ء کے خوں آسام بنگال کے نام
بھیک نہ مانگو
بیٹھا ہے
بھئے کبیراداس
بیاد شاہ عبداللطیف بھٹائی
بیس گھرانے
پاکستان کا مطلب کیا ؟
پس دیوار زنداں
ترانہ
ترانۂ دوستی
تیرے ہونے سے
تیز چلو
جاگ مرے پنجاب
جمہوریت
جواں آگ
14؍ اگست
حسب فرمائش
خدایا یہ مظالم بے گھروں پر
خدا ہمارا ہے
خطرے میں اسلام نہیں
دادا امیر حیدر
داستان دل دونیم
دستور
رخصتی کا گیت
رخصتی
رخشندہ زویا سے
روئے بھگت کبیر
ریگن
ریفرینڈم
سر مقتل کی ضبطی پر
سفید بینا
سوجا
سلام لوگو !
شب الم کا سفر
شکوہ نہ کر
سچ ہی لکھتے جانا
شہر ظلمات کو ثبات نہیں
صحافی سے
طلبہ کے نام
گھیراؤ
صدر امریکہ نہ جا
صدا تو دے
ضابطہ
عورت
علمائے سو کے نام
عورتوں کا ترانہ
عہد سزا
فلسطین
غاصبوں کے ساتھیو !
قصہ خوانی کے شہیدوں کی نذر
کافی ہاؤس
کہنے کی بات
کراچی میں جب صاحب جاہ نے جھونپڑے جلائے
کوٹ لکھپت جیل
گوشے میں قفس کے
لبنان چلو
ماتم شہر کراچی
مادر ملت
لمبی نہیں ہے ظلم کی عمر
مادر ملت
مادر ملت کی پہلی برسی پر
ماں
متاع غیر
مرثیہ خاک نشیناں
مستقبل
مشروط رہائی
مشاعرہ
مشیر
ملاقات
ممتاز
منشور
میری بچی
مولانا
نذر شہیداء
ناداں نہیں ہیں ہار
نام کیا لوں
نہتّی لڑکی
ننّھی جا سو جا
نیلو
وطن کو کچھ نہیں خطرہ
نئی پود
نہیں بدلتے ہم
وہ وہ گئے وزیر
ہتھکڑی
ولی خاں
یوری گیمگرین
ہم دیکھتے ہیں
یزید سے ہیں بنرد آزما فلسطینی
یوم آزادیٔ صحافت پر
یوم اقبال پر
یوم مئی
یہ وزیران کرام
دیباچے پیش لفظ
حرف سردار (الطاف گوہر)
انسان دوست (امین مغل)
شوق آوارگی (سعیدہ گذدر)
برگ آوارہ (عندلیب شادانی)
قفس در قفس (قسور گردیزی)
روشن مستقبل شاعر (مخدوم علی خان)
پیش نامہ (ہمایوں گوہر)
متفرق کلام
اردو کلام
جنگوں سے دور امن سے انسان کی طرح
عزت سے جینا ہے اگر تو بجٹ گھٹاؤ مولانا
جن کے ہونٹوں پر لگی ہیں ڈالروں کی چیپیاں
کہاں نسبت انہیں کعبے سے بھائی
آج پھر تم نظر نہیں آتے
نیری آنکھوں کا عجب طرز سماں دیکھا ہے
شہر پہ خوف کے سائے ہیں
بھیگیں نہ آنسوؤں سے کنارے سویز کے
ظلمت کو ضیا صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
نام چلے ہر نام داس کا کام چلے امریکہ کا
ہندوستان بھی میرا ہے اور پاکستان بھی میرا ہے
صحافی سے
وطن فروش
صد شکر
نہ کلیوں میں رنگت نہ پھولوں میں باس
فصل قرار آئے گی
آدم جی ایوارڈ
رائٹرز گلڈ
اے لوگو !
شہر بدر طلبا کے نام
آج کل
رحم آتا ہے
برق پاشی
میں خوش نصیب شاعر
احمد ریاض کی یاد میں
حسن ناصر
بیاد جوش
نذر ساحر
بیاد سید سبط حسن
بیاد فراق
بیاد فیضؔ
لتا
میرا جی
نذر مارکس
نذر مصحفیؔ
نور جہاں
یوسف کامران
شہر دہلی
لائل پور
استاد دامن
پنجابی کلام
اک شاہ سخن
اک مجبور عورت داگیت
اک نظم
امریکہ توں جنگ اوندی اے
بوٹاں دی سرکار
غزل
بازآجاؤ
دو جاگیت
دھمی کمی دی ، ڈھول سپاہی
رات کلینی
کُڑے ، گل سن چنپا
ماں بولی
منڈیا ، میاں عبدالخالق
وچھڑے دل دی مل سکدے نے
جالب کی چند تحریرں خطوط
بخط جالبؔ
سر آغاز
منو بھائی ، افضل صدیقی کے نام
حبیب جالب بحیثیت فلمی نغمہ نگار
فلمی نغمے
پنجابی فلمی نغمے
نذر جالب(افضل صدیقی)
حبیب جالبؔ (بخش لائپوری)
نذر جالب (سیدہ در نجف زیبی)
قطعۂ تاریخ وفات حبیب جالب
نذر جالب (شاہد شیدائی)
نظم (فاضل جمیلی)
از کجا آید ایں آواز دوست (رومی)
نذر حبیب جالبؔ (محسن بھوپالی)
ابھی تو موسم ہے عاشقوں کا (نوحہ)
نذر جالب (مظفر وارئی)
نذر جالب (نجیب احمد)
حبیب جالب کی نظر
خراج عقیدت
الطاف حسین قریشی
رشید مصباحی ، ضیاء علیگ
فیروز مکرجی
قتیل شفائی ، شوکت چودھری ، قمر یورش
یوسف حسن
یونس ادیب
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.