سرورق
مطلع پھاٹک بن گیا اللہ کی درگاہ کا
لکھنے پڑھنے میں مرا رٹو رواں ہو جائیگا
کچھ نہ سوجھی وہ ندیدہ طور ہی پر رہ گیا
کنگھی چوٹی سے کبھی مجھ کو سروکار نہ تھا
مردوئے پر کیا اثر ہو بات کا
ہو چکی لکھا پڑھی سب ولولہ جاتا رہا
بندی کا کوئی کام کا اب دل نہیں رہا
کیون نہ روئے کون اب اسکا وطن میں رہ گیا
مردوا پیچھے پڑا تھا مجھے معلوم نہ تھا
دنیا کوعورتوں نے مزیدار کر دیا
گھر سے عورت کا جو باہر قدم اماں نکلا
اپنوں سے کچھ امید بھروسا نہ یار کا
میں بھی کرتی ہوں بہن کیسی فضیحت دیکھنا
رخصتی کا صبح دم میرے جو ساماں ہو گیا
سخت پتھر سے سوا ہے دل موئے بے پیر کا
یہاں چوا نہیں چلنے کا اے باجی کسی خانکا
آیا مدت میں تو گھر کرنے کو برباد آیا
دیکے مصرعہ طرح کا شیداؔ کو دیوانہ کیا
کیسی قسمت ہے نصیبیں کی نہیں برملتا
نہ یار ہی کوئی آیا نہی غمگسار آیا
نہ آئی شرم اے بیٹا زمانے نے تمہیں تھوکا
ہے کہیں آرسی مصحف کہیں سہرا سہرا
نہیں کچھ اختیار اس میں کسی کا
غرور اتنا دماغ ایسا خدا حافظ ہے جاہل کا
سب کچھ تھا گھر میں کیا نہ تھا اللہ کا دیا
خوش رہیں جی جان سے مجسے خفا ہیں کیا ہوا
کس طرح پہونچیگا سر تک کام یہ پھیلا ہوا
بیٹا وہی بگڑ گیا جس کا کہ پیار تھا
بلا کر رنڈیاں گھر میں مرے آباد کیا کرتا
کھانے کو اگر گھر بیٹی نہ بھرا ہوتا
واہ بی نو بہار کیا کہنا
قسم لیتے تھے وہ چھوٹا بڑا گھر کا ہراساں تھا
مرمر کے بچی مجھ کو چچا نے بھی نہ پوچھا
حال دنیا میں ہوا رحم کے قابل اپنا
بہوؤں کا دکھڑا نہ ردمت کر گلا داماد کا
کیا ملا بیٹا جو تو جورو سے بد ظن ہو گیا
بیٹی بیاہی امیر گھر پایا
خاک اڑتی تھی نگوڑی کیا تماشا کر دیا
اپنی اپنی دھن میں سب تھے کسکو کسکا ہوش تھا
بندی پہ انکا دانؤں اندھیرے میں چلے گا
لاکھ سمجھا تھکی بیٹا نہ ترا دل سمجھا
کچھ نہ خسمانے نہ ان کی کلبل نے کیا
آئینہ جب حال میرا اسپہ گوئیاں ہو گیا
مرے نصیب برے ہیں مری زبان خراب
آئینہ چھین لے گئے بیکار بے سبب
ب
پ
بگڑیں نہ اپنی لونڈی پہ اتنا حضور آپ
ہوسے کریں گے یوں ہی جو ہرروز آکے آپ
ت
کوئی سنتا مری تمہاری بات
بھٹیارنوں میں گزری ہے آخر تمام رات
قدر کیا جانے کوئی کیا ہے بوا آجکی رات
پہلے ہوتے تھے نیک کام بہت
کیا کہوں میں نے کیسی کھائی چوٹ
ٹ
تیری ہو جاؤں میں اور تو مرا بن جا وارث
ث
ج
جانا ہے نہ جاؤنگی بوا انکے میں گھر آج
دھوم ہے جشن ہے اللہ کی سرکار میں آج
سمجھیں بھی دونوں کر رہی ہیں کیا یہ چار پانچ
چ
کیسے کیسے مجھے نچائے ناچ
میں بھی چل دیتی جو بے پیر کی جورو کی طرح
مہر کہتے ہیں کسے کیسا نکاح
ح
وہ یار میں ہے لگی میری یا بھتار میں روح
یہ ابتدا ہے یہ انتہا کی شاخ
لاڈ نے دونوں کو کر رکھا ہے کیسا گستاخ
خ
د
میں بھی تو سمجھوں کہ وہ کہتے ہیں کیا میرے بعد
ماں پہ کر بیٹی نہ نانی پر گھمنڈ
ڈ
سوت ہر جائی کو ہے کتنا گھمنڈ
ذ
جب نہیں تب یہ کیا کرتی ہے گنڈا تعویذ
نہ انوکھا ہے نہ دنیا سے نرالا تعویذ
میں نہیں جانتی سادہ تھا کہ لکھا کاغذ
ر
واروں نہ کیوں خسم کو بوا ایسے یار پر
آج بھی اتوار کا وعدہ جو ٹالا پیر پر
بچھوائی پلنگڑی مری مسند کے برابر
سر جھاڑ پھاڑ ڈٹی ہیں پلنگ پر
نیچی کرتے نہیں نظریں جو اٹھا کے اوپر
مردوئے پر کوئی حق میرا نہ کچھ اولاد پر
منکر کو تو دے گا جواب کیونکر
جب سے تم گھر کر گئے بیٹا اجاڑ
ڑ
ز
جس کی بندی نے دیکھ پائی چیز
بندے نے رکھ کے طاق پہ قرآن چند روز
س
داماد پر فدا ہے بہو پر نثار ساس
ش
اماں ادھر سے شاد ہیں ادھر سے خوش
ص
پھر کنواری بن گئیں دیکھا خواص
ض
نہ باپ ماں سے نہ باجی چچی چچا سے غرض
بھتیجے ہیں وہ تو ہفتے وار خط
ط
اٹھ گیا دنیا سے کچھ ایسا لحاظ
ظ
بندی نے تیرے ہاتھ کیا ہے مکاں بیع
ع
غ
شمع میا کی ہے بابا کا چراغ
ڈھونڈھ کر لائے تھے وہ بازار سے سستا لحاف
ف
بچ جاتا دشمنوں سے جو انکے بلوں سے طاق
ق
ک
خبر لو گھر بار کی بھی اب کچھ رہو گے بیٹا خراب کبتک
کرو اتنا ہی بھر پاؤ جہاں تک
گ
مردوئے نوج ہو اسی کسی آزار میں آگ
کوئی دن خالی نہیں جاتا ہے گوئیاں آجکل
ل
لت پان کی ابھی سے نہ اسکو نال ڈال
روز میرے بال سلجھاتے ہو تم
باجی وہ یہاں تک کبھی آئیں تو کہیں ہم
م
جو یہ کہے فرشتہ ہے بی بی بشر نہیں
ن
کیا کھلا دیتے ہیں کیا اوئی پنھا دیتے ہیں
قسم ہے باجی کہ مجھ کو ملال کچھ بھی نہیں
کوڑی رکھتے ہیں گرہ میں نہ تو زر رکھتےہیں
بابا آدم کیا کریں اب ماما حوا کیا کریں
بالوں نے کر لیا ہے بدن کو حصار میں
کردیتی آپ پر میں نچھاور کھڑے کھڑے
دن گنتے میری گزری ہے دائی خدا کسوں
ہوتی نہ تھی بو رجبی پیشتر یہاں
ہو گزر ہمسائی تیرا بے خسم ممکن نہیں
غیر تو غیر ہیں اپنے نہیں کام آتے ہیں
نہیں ہے گانٹھ میں کوڑی میاں بانسوں اچھلتے ہیں
جیسی تھیں ہو گئیں اب اس سے بھی بدتر آنکھیں
بخیلی بڑھتی جاتی ہے توانگر ہوتے جاتے ہیں
سب ٹوہ لیتی رہتی ہوں بیٹھی یہیں سے میں
چوکی کسی دواسے نہ کوئی دعا سے میں
اکیلا روز گھر میں مجھ گوئیاں چھوڑ جاتے ہیں
چندوبچونگی کیسے اب ایسی بہن سے میں
پوچھا جو میں نے کیا لئے جاتی ہے قاب میں
بالشت بھر کی منہ میں ہوئی یہ زباں نہیں
لونڈیا کے غم میں دب کر رہ گیا اب دل کہاں
لڑکا کہتا ہے نہ کیسے آپ کو میں یاد ہوں
وہاں چاہیں وہاں کر لیں یہاں چاہیں یہاں کرلیں
سونٹھ کی ناس لئے بیٹھے ہیں
بہو کو روپیہ دے آئے سمدھیانے میں
ہوں نہیں کرتیں دادی بی سیدھی سی اک نیاز میں
عورتیں ہیٹی نہیں تدبیر میں تقدیر میں
مجھے رسوا کریں گے وہ کریں ساری خدائی میں
تمام کنبے کے سر پر بہن سوار ہوں میں
میرا دکھڑا سنانے جاتے ہیں
بال داڑھی کے وہ چباتے ہیں
جس کے گھر بیٹی نہیں بیٹا نہیں
بات کو تھاپ چاہئے اچھے برے کہاں نہیں
وہ تیرے بھائی ہیں دوزخ کو جو آباد کرتے ہیں
شریفوں کے لئے ہے کنیا کا بوجھ دنیا میں
کمائی باپ دادا کی بھلا خطرے میں کیا آئے
بہو کے ہاتھ بھی جوڑوں تو ناگوار نہیں
نہ رات بھابی جاگی ہیں نہ ڈوبی ہیں خمار میں
جوروہریاں سے کیا کام اسے کیا دیکھیں
و
نہیں آسان اے بیٹا کوئی انسان کامل ہو
ایک کانٹا تو مرے دلکا نکل جانے دو
ہو لیں اٹھتی ہیں کچھ اچھا نہیں لگتا مجھ کو
کسی صورت سے جب ہوتی نہ تھی گوئیاں شفا ہم کو
جس کے پلے سے بندھی ہوں اس کا کہنا کیوں نہ ہو
کیا نہ ہو جورو نہ ہو یا گھر نہ ہو
کالا ڈانڈا ہے جگہ افسوس کی
اک منٹ رکنا نہ بیٹا پاتے ہی اس تار کو
کل شام سے جولے کے پڑے تم بخار کو
بہن ڈل کی ضرورت تھی اگر ایسی ہی سمدھن کو
دانت کردوں گی میں کھٹے کہیں کچھ بات تو ہو
تم ہی مری زمیں ہو جی تم ہی آسماں ہو
ہ
جانے کو میں تو جاؤں بوا دلربا کے ساتھ
سڑکر کریں گے الٰہی موئی دلربا کے ہاتھ
تیزیاں باجی زباں کی رہیں کفار کے ساتھ
کبھی تلوار کے بل اور کبھی تیر کے ساتھ
کسے آنکھیں دکھاتے ہیں کسے دیتے ہیں یہ دھمکی
ی
اپنی دولت تو خسم کے پیچھے سب برباد کی
ان سے مجھ سے لات جوتی کی جو نوبت آگئی
ایسی باہر نہ تھی قابو سے طبیعت میری
کچھ نہ تھی بیگم موئے انسان کی بنیاد بھی
تمہاری پینچ کی باتیں ہیں سیدھی گفتگو میری
میری طوطا میری مینا بت گڑھن آہی گئی
فضول کرتے ہیں باغوں میں جستجو میری
محبت تجھ سے کیا کی مردوئے مینے عداوت کی
کیا رہوں اب اس میں جس دنیا میں رسوائی ہوئی
بچوں کے رکھ رکھاؤ میں میں اوئی مر گئی
وہ مصیبت مجھے اب ہو گی کہ راحت ہوگی
سسر کی ساس نندوں کی خسم کی باپ کی ماں کی
صفت لکھ رہی ہوں دوا مرتضیٰ کی
خدا کی خدائی تھی قبضے میں ان کے
غم نے یہ سوت کے مری حالت تباہ کی
جاکر جوانی کھول گئی راہ آہ کی
اے بنفشہ بے دوا کے موت ہے بیمار کی
تکلیف نہیں ہوتی کہ ایذا نہیں ہوتی
ان پر کوئی بلا ہے یہ مشکل سے جائیگی
سر اپنا پھوڑ ڈالے کہ پیٹا کرے کوئی
پہلوانی پلنگوں پر نہیں کرتا میاں کوئی
جوڑا ہے سو برس کا تقدیر ہو تو ایسی
نہ ہو لاہور دیکھیں گے نہ وہ کشمیر دیکھیں گے
ے
ہزار مرد کی عورت پہ داب ہوتی ہے
ابھی جاتی ہوں اک ضرورت سے
پنچ کے سامنے طوفان لگا کے اٹھے
کب کہا بندی نے اٹھوایا ہے قرآں ہم سے
ہر بات میں ہاں ہاں ہے تو ہرہاں میں نہیں ہے
مردوئے جو مرے گھر آئے مجھے مان گئے
چڑھا آتا ہے اوپر ہوش کر کیوں بلبلایا ہے
ادھر میکا ادھر سسرال اک خانم کی ہستی ہے
اکیلے گھر میں اے گوئیاں نگوڑا دل دہلتا ہے
طلاق دے گا نہ جب تک لکھا کتاب میں ہے
نہیں دیتے کرایہ سال بھر سے
مردوئے سینے پہ انّا کے نظر تو کرتے
آجکل کی لڑکیاں ہیں گل کھلانے کے لئے
لیا تو کرتے ہیں لیکن دیا نہیں کرتے
مرا پورا کرو لا کر کہیں سے
کیا سمجھتا ہے تو اپنے کو جو براتا ہے
نہ سہی عطر میاں تیل کا ساماں کرتے
ہلّڑ مچا رہے تھے گولے چھٹے جو سن کے
پڑا ہے گھر دیکھ لیجئے سب چنیں نہیں ہے چناں نہیں ہے
بی بی اٹکی ہوئی ہیں نوکر سے
خبر لوں نوج میں اس کی موا اب روئے یا بلکے
گالیاں دو ماں کو ایسا چاہئے
ڈرتی نہیں چڑیل نڈر انتہا کی ہے
رہوں پھر کس کی ہو کر میں کہ گھر بھر میرا دشمن ہے
سوت ہی کے گھر رہیں نبٹیں اسی مردار سے
ہو چکی بدنام تم سے کل میں یہ مشہور ہے
وہ دو ہی دن تو میرے یہاں میہماں رہے
بھڑا کر چار پائی سے بچھاتا ہے
کچھ تجھ سے شکایت موئے بے پیر نہیں ہے
لے چلوں گی گھر نہ مانوں گی کسی تدبیر سے
چھٹولی ہے کہ بچہ ہے وہ ننھی ہے کہ ناداں ہے
اس سے کیا مجھ کو بہن ہو وہ اگر بدنام ہے
مانا یہ مینے حصے برابر کے ہوگئے
سونپ آئے نگوڑی کو بڑا کام کر آئے
ماں کا کہنا ٹالئے جورو کا کہنا کیجئے
آنے والے ہیں نہ بھڑوے کوئی جانے والے
پڑی چلایا کرتی میں ادھر رخ بھی میاں کرتے
کسبی بچی سے عقد کو تیار ہو گئے
بہوؤں پہ بوجھ بیٹیوں پر بار ہوگئے
رخصتی کا کہیں اس کی بھی نہ ساماں ہو جائے
مسالہ چک گیا بڑا بھس نگوڑا دل میں باقی ہے
مجھے کیا واسطہ احمد رضا سے
ہوں تو عورت کم نہیں لیکن کسی جلاد سے
جورو ہر جائی کی اس کے آگے کیا توقیر ہے
نور کا میرا پیٹ ہے نور کی میری ناف ہے
تیری غرض ہے مجھ کو بھی مطلب سے کام ہے
آج کچھ کل کچھ مجھے لاکر چچا دینے لگے
جورو کو دیکھا اور ہی دستور ہو گئے
ناک نقشہ دیکھئے بہوؤں کے زیور دیکھئے
یہی دنیا رہے یا دوسری دنیا ہو جائے
جب ایسی ان کی بیٹی ہے کسی قابل کو ڈھونڈھیں گے
ناک رکھنی ہو تو بند اپنی یہ ہوں ہاں کیجئے
بیٹھے ہیں گھر میں آبرو اپنی لئے ہوئے
وہ ہوتے کون ہیں لوگو مرا دل دیکھنے والے
صدقے اس تقدیر کے قربان اس تدبیر کے
چچی اماں کے مرنے پر بڑے قصے بوا نکلے
کوئی آیا نہ گیا مفت کی رسوائی ہے
خصم بھی ہے مرا بچپن کا آشنا بھی ہے
اس ہانک کو اب چھوڑ دو بیگم کہ وہیں ہے
راس آیا نہ زمانے میں بوا گوش مجھے
اچھی دل سوز ہے کیا سمجھی ہے دیوانہ مجھے
مزا آئے جو شادی کا یہی دستور ہو جائے
لگا لائے ہو یہ علت کہاں سے
دونوں کے حلق پر تو بیٹا چھری چلا دے
کوئی کنبے میں نہ باقی رہے چوپٹ ہو جائے
انسان کام عقل سے بھی کچھ لیا کرے
چلّے کے جاڑے آگئے بڑھیا مزا کرے
کمبخت تو سنار سے کیوں جاکے لڑ گیا
متفرق اشعار
سلام
یہ پتلے خاک کے جسوقت سر اٹھاتے ہیں
لیا شہزادے قاسم نے جب اپنے ہاتھ میں نیزہ
بواسینہ ہو شہ کا اور زانو شمر شیطاں کا
بہن ہر سانس دیتی ہے خبر مجھ کو محرم کی
اماموں کی امامت ہے نبوت ہے پیمبر کی
سلامی کہتی تھی رو رو کے صغرا یہ پیمبر سے
کوئی زینب ہے زمانے میں کوئی شبیر ہے
بی بیو جب روئیں زینب اپنے بھائی کیلئے
شمر کے حلق کا دربان نوالا ہو جائے
نگوڑے شمر کے کاندھے پہ نیزہ ہے کہ کالا ہے
یزید اللہ سے ڈر مفت سید سے اٹکتا ہے
یہاں کے واسطے چھوڑا نہ کچھ وہاں کے لئے
قصیدیاں
راتکو آنکھ مری لگ گئی جب بستر پر
قصیدیاں نیمۂ شعبان کی تہنیت میں
فاطمہ بی بی نے آغوش میں تجھ کو لے کر
مطلع
جو کچھ قسمت میں ہے جس کی نیا دانہ نیا پانی
عیاں ہے بی بی نرجس کے محل کی نور افشانی
تری دادی نے خود آنچل میں گھٹی جنتی چھانی
بھلائی کا کوئی ساتھی نہیں ہو باپ یا بھائی
اجی سنتے ہو میری کچھ خبر ہے شبرات آئی
مطلع
خدا نے بی بی نرجس کو بوا وہ رات دکھلائی
اڑ گئی خاک زمانے میں یہ آثار ہیں کیا
دھوم عالم میں ہے اک نور ہے گھر گھر پھیلا
کسی سے کیوں کرے شکوہ کسی سے کیوں شکایت ہو
کنگھی چوٹی پر نہ اتراؤ بہت بی نوبہار
سانچ کو کیا آنچ جھوٹی بات چلتی ہے کہاں
مطلع
شاہزادہ وہ کہ جس پر جانیں ہم سب کی نثار
مطلع
بیٹھی ہیں استانی جی منہ تکتی ہے ہر لونڈیا
شاہزادہ وہ بارہواں پیدا ہوا پیدا ہوا
امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی مسند نشینی کی تہنیت میں
مری اچھی سی باجی ہے نکھار اک اک مسلماں پر
نہ ہو کیوں فخر اس مسند نشینی کو سلیماں پر
بدل گئے ہیں زمانے کے ایسے کچھ اطوار
خدا کا شکر کرو بیبیو ہزار ہزار
قصیدیاں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت کی تہنیت میں
دریچے آسماں کے کھلے از خود محبت سے
وہی نسبت ہے دنیا میں امامت کو نبوت سے
اب اسکو رحمت سے کہوں یا اسکی قدرت سے
دھنوا پسنہاری کی وفات کی تاریخ جو گھرکا کام کاج بھی کرتی تھی
ملک الموت نے چھاتی پہ دلی جب کودوں
آرسی کے چھپنے کی تاریخ
شکر ہے لو آگئی مطبع سے چھپ کر آرسی
AUTHORShaida Allahabadi
YEAR1932
CONTRIBUTORAnjuman Taraqqi Urdu (Hind), Delhi
PUBLISHER Matba Sleemi Barqi, Allahabad
AUTHORShaida Allahabadi
YEAR1932
CONTRIBUTORAnjuman Taraqqi Urdu (Hind), Delhi
PUBLISHER Matba Sleemi Barqi, Allahabad
سرورق
مطلع پھاٹک بن گیا اللہ کی درگاہ کا
لکھنے پڑھنے میں مرا رٹو رواں ہو جائیگا
کچھ نہ سوجھی وہ ندیدہ طور ہی پر رہ گیا
کنگھی چوٹی سے کبھی مجھ کو سروکار نہ تھا
مردوئے پر کیا اثر ہو بات کا
ہو چکی لکھا پڑھی سب ولولہ جاتا رہا
بندی کا کوئی کام کا اب دل نہیں رہا
کیون نہ روئے کون اب اسکا وطن میں رہ گیا
مردوا پیچھے پڑا تھا مجھے معلوم نہ تھا
دنیا کوعورتوں نے مزیدار کر دیا
گھر سے عورت کا جو باہر قدم اماں نکلا
اپنوں سے کچھ امید بھروسا نہ یار کا
میں بھی کرتی ہوں بہن کیسی فضیحت دیکھنا
رخصتی کا صبح دم میرے جو ساماں ہو گیا
سخت پتھر سے سوا ہے دل موئے بے پیر کا
یہاں چوا نہیں چلنے کا اے باجی کسی خانکا
آیا مدت میں تو گھر کرنے کو برباد آیا
دیکے مصرعہ طرح کا شیداؔ کو دیوانہ کیا
کیسی قسمت ہے نصیبیں کی نہیں برملتا
نہ یار ہی کوئی آیا نہی غمگسار آیا
نہ آئی شرم اے بیٹا زمانے نے تمہیں تھوکا
ہے کہیں آرسی مصحف کہیں سہرا سہرا
نہیں کچھ اختیار اس میں کسی کا
غرور اتنا دماغ ایسا خدا حافظ ہے جاہل کا
سب کچھ تھا گھر میں کیا نہ تھا اللہ کا دیا
خوش رہیں جی جان سے مجسے خفا ہیں کیا ہوا
کس طرح پہونچیگا سر تک کام یہ پھیلا ہوا
بیٹا وہی بگڑ گیا جس کا کہ پیار تھا
بلا کر رنڈیاں گھر میں مرے آباد کیا کرتا
کھانے کو اگر گھر بیٹی نہ بھرا ہوتا
واہ بی نو بہار کیا کہنا
قسم لیتے تھے وہ چھوٹا بڑا گھر کا ہراساں تھا
مرمر کے بچی مجھ کو چچا نے بھی نہ پوچھا
حال دنیا میں ہوا رحم کے قابل اپنا
بہوؤں کا دکھڑا نہ ردمت کر گلا داماد کا
کیا ملا بیٹا جو تو جورو سے بد ظن ہو گیا
بیٹی بیاہی امیر گھر پایا
خاک اڑتی تھی نگوڑی کیا تماشا کر دیا
اپنی اپنی دھن میں سب تھے کسکو کسکا ہوش تھا
بندی پہ انکا دانؤں اندھیرے میں چلے گا
لاکھ سمجھا تھکی بیٹا نہ ترا دل سمجھا
کچھ نہ خسمانے نہ ان کی کلبل نے کیا
آئینہ جب حال میرا اسپہ گوئیاں ہو گیا
مرے نصیب برے ہیں مری زبان خراب
آئینہ چھین لے گئے بیکار بے سبب
ب
پ
بگڑیں نہ اپنی لونڈی پہ اتنا حضور آپ
ہوسے کریں گے یوں ہی جو ہرروز آکے آپ
ت
کوئی سنتا مری تمہاری بات
بھٹیارنوں میں گزری ہے آخر تمام رات
قدر کیا جانے کوئی کیا ہے بوا آجکی رات
پہلے ہوتے تھے نیک کام بہت
کیا کہوں میں نے کیسی کھائی چوٹ
ٹ
تیری ہو جاؤں میں اور تو مرا بن جا وارث
ث
ج
جانا ہے نہ جاؤنگی بوا انکے میں گھر آج
دھوم ہے جشن ہے اللہ کی سرکار میں آج
سمجھیں بھی دونوں کر رہی ہیں کیا یہ چار پانچ
چ
کیسے کیسے مجھے نچائے ناچ
میں بھی چل دیتی جو بے پیر کی جورو کی طرح
مہر کہتے ہیں کسے کیسا نکاح
ح
وہ یار میں ہے لگی میری یا بھتار میں روح
یہ ابتدا ہے یہ انتہا کی شاخ
لاڈ نے دونوں کو کر رکھا ہے کیسا گستاخ
خ
د
میں بھی تو سمجھوں کہ وہ کہتے ہیں کیا میرے بعد
ماں پہ کر بیٹی نہ نانی پر گھمنڈ
ڈ
سوت ہر جائی کو ہے کتنا گھمنڈ
ذ
جب نہیں تب یہ کیا کرتی ہے گنڈا تعویذ
نہ انوکھا ہے نہ دنیا سے نرالا تعویذ
میں نہیں جانتی سادہ تھا کہ لکھا کاغذ
ر
واروں نہ کیوں خسم کو بوا ایسے یار پر
آج بھی اتوار کا وعدہ جو ٹالا پیر پر
بچھوائی پلنگڑی مری مسند کے برابر
سر جھاڑ پھاڑ ڈٹی ہیں پلنگ پر
نیچی کرتے نہیں نظریں جو اٹھا کے اوپر
مردوئے پر کوئی حق میرا نہ کچھ اولاد پر
منکر کو تو دے گا جواب کیونکر
جب سے تم گھر کر گئے بیٹا اجاڑ
ڑ
ز
جس کی بندی نے دیکھ پائی چیز
بندے نے رکھ کے طاق پہ قرآن چند روز
س
داماد پر فدا ہے بہو پر نثار ساس
ش
اماں ادھر سے شاد ہیں ادھر سے خوش
ص
پھر کنواری بن گئیں دیکھا خواص
ض
نہ باپ ماں سے نہ باجی چچی چچا سے غرض
بھتیجے ہیں وہ تو ہفتے وار خط
ط
اٹھ گیا دنیا سے کچھ ایسا لحاظ
ظ
بندی نے تیرے ہاتھ کیا ہے مکاں بیع
ع
غ
شمع میا کی ہے بابا کا چراغ
ڈھونڈھ کر لائے تھے وہ بازار سے سستا لحاف
ف
بچ جاتا دشمنوں سے جو انکے بلوں سے طاق
ق
ک
خبر لو گھر بار کی بھی اب کچھ رہو گے بیٹا خراب کبتک
کرو اتنا ہی بھر پاؤ جہاں تک
گ
مردوئے نوج ہو اسی کسی آزار میں آگ
کوئی دن خالی نہیں جاتا ہے گوئیاں آجکل
ل
لت پان کی ابھی سے نہ اسکو نال ڈال
روز میرے بال سلجھاتے ہو تم
باجی وہ یہاں تک کبھی آئیں تو کہیں ہم
م
جو یہ کہے فرشتہ ہے بی بی بشر نہیں
ن
کیا کھلا دیتے ہیں کیا اوئی پنھا دیتے ہیں
قسم ہے باجی کہ مجھ کو ملال کچھ بھی نہیں
کوڑی رکھتے ہیں گرہ میں نہ تو زر رکھتےہیں
بابا آدم کیا کریں اب ماما حوا کیا کریں
بالوں نے کر لیا ہے بدن کو حصار میں
کردیتی آپ پر میں نچھاور کھڑے کھڑے
دن گنتے میری گزری ہے دائی خدا کسوں
ہوتی نہ تھی بو رجبی پیشتر یہاں
ہو گزر ہمسائی تیرا بے خسم ممکن نہیں
غیر تو غیر ہیں اپنے نہیں کام آتے ہیں
نہیں ہے گانٹھ میں کوڑی میاں بانسوں اچھلتے ہیں
جیسی تھیں ہو گئیں اب اس سے بھی بدتر آنکھیں
بخیلی بڑھتی جاتی ہے توانگر ہوتے جاتے ہیں
سب ٹوہ لیتی رہتی ہوں بیٹھی یہیں سے میں
چوکی کسی دواسے نہ کوئی دعا سے میں
اکیلا روز گھر میں مجھ گوئیاں چھوڑ جاتے ہیں
چندوبچونگی کیسے اب ایسی بہن سے میں
پوچھا جو میں نے کیا لئے جاتی ہے قاب میں
بالشت بھر کی منہ میں ہوئی یہ زباں نہیں
لونڈیا کے غم میں دب کر رہ گیا اب دل کہاں
لڑکا کہتا ہے نہ کیسے آپ کو میں یاد ہوں
وہاں چاہیں وہاں کر لیں یہاں چاہیں یہاں کرلیں
سونٹھ کی ناس لئے بیٹھے ہیں
بہو کو روپیہ دے آئے سمدھیانے میں
ہوں نہیں کرتیں دادی بی سیدھی سی اک نیاز میں
عورتیں ہیٹی نہیں تدبیر میں تقدیر میں
مجھے رسوا کریں گے وہ کریں ساری خدائی میں
تمام کنبے کے سر پر بہن سوار ہوں میں
میرا دکھڑا سنانے جاتے ہیں
بال داڑھی کے وہ چباتے ہیں
جس کے گھر بیٹی نہیں بیٹا نہیں
بات کو تھاپ چاہئے اچھے برے کہاں نہیں
وہ تیرے بھائی ہیں دوزخ کو جو آباد کرتے ہیں
شریفوں کے لئے ہے کنیا کا بوجھ دنیا میں
کمائی باپ دادا کی بھلا خطرے میں کیا آئے
بہو کے ہاتھ بھی جوڑوں تو ناگوار نہیں
نہ رات بھابی جاگی ہیں نہ ڈوبی ہیں خمار میں
جوروہریاں سے کیا کام اسے کیا دیکھیں
و
نہیں آسان اے بیٹا کوئی انسان کامل ہو
ایک کانٹا تو مرے دلکا نکل جانے دو
ہو لیں اٹھتی ہیں کچھ اچھا نہیں لگتا مجھ کو
کسی صورت سے جب ہوتی نہ تھی گوئیاں شفا ہم کو
جس کے پلے سے بندھی ہوں اس کا کہنا کیوں نہ ہو
کیا نہ ہو جورو نہ ہو یا گھر نہ ہو
کالا ڈانڈا ہے جگہ افسوس کی
اک منٹ رکنا نہ بیٹا پاتے ہی اس تار کو
کل شام سے جولے کے پڑے تم بخار کو
بہن ڈل کی ضرورت تھی اگر ایسی ہی سمدھن کو
دانت کردوں گی میں کھٹے کہیں کچھ بات تو ہو
تم ہی مری زمیں ہو جی تم ہی آسماں ہو
ہ
جانے کو میں تو جاؤں بوا دلربا کے ساتھ
سڑکر کریں گے الٰہی موئی دلربا کے ہاتھ
تیزیاں باجی زباں کی رہیں کفار کے ساتھ
کبھی تلوار کے بل اور کبھی تیر کے ساتھ
کسے آنکھیں دکھاتے ہیں کسے دیتے ہیں یہ دھمکی
ی
اپنی دولت تو خسم کے پیچھے سب برباد کی
ان سے مجھ سے لات جوتی کی جو نوبت آگئی
ایسی باہر نہ تھی قابو سے طبیعت میری
کچھ نہ تھی بیگم موئے انسان کی بنیاد بھی
تمہاری پینچ کی باتیں ہیں سیدھی گفتگو میری
میری طوطا میری مینا بت گڑھن آہی گئی
فضول کرتے ہیں باغوں میں جستجو میری
محبت تجھ سے کیا کی مردوئے مینے عداوت کی
کیا رہوں اب اس میں جس دنیا میں رسوائی ہوئی
بچوں کے رکھ رکھاؤ میں میں اوئی مر گئی
وہ مصیبت مجھے اب ہو گی کہ راحت ہوگی
سسر کی ساس نندوں کی خسم کی باپ کی ماں کی
صفت لکھ رہی ہوں دوا مرتضیٰ کی
خدا کی خدائی تھی قبضے میں ان کے
غم نے یہ سوت کے مری حالت تباہ کی
جاکر جوانی کھول گئی راہ آہ کی
اے بنفشہ بے دوا کے موت ہے بیمار کی
تکلیف نہیں ہوتی کہ ایذا نہیں ہوتی
ان پر کوئی بلا ہے یہ مشکل سے جائیگی
سر اپنا پھوڑ ڈالے کہ پیٹا کرے کوئی
پہلوانی پلنگوں پر نہیں کرتا میاں کوئی
جوڑا ہے سو برس کا تقدیر ہو تو ایسی
نہ ہو لاہور دیکھیں گے نہ وہ کشمیر دیکھیں گے
ے
ہزار مرد کی عورت پہ داب ہوتی ہے
ابھی جاتی ہوں اک ضرورت سے
پنچ کے سامنے طوفان لگا کے اٹھے
کب کہا بندی نے اٹھوایا ہے قرآں ہم سے
ہر بات میں ہاں ہاں ہے تو ہرہاں میں نہیں ہے
مردوئے جو مرے گھر آئے مجھے مان گئے
چڑھا آتا ہے اوپر ہوش کر کیوں بلبلایا ہے
ادھر میکا ادھر سسرال اک خانم کی ہستی ہے
اکیلے گھر میں اے گوئیاں نگوڑا دل دہلتا ہے
طلاق دے گا نہ جب تک لکھا کتاب میں ہے
نہیں دیتے کرایہ سال بھر سے
مردوئے سینے پہ انّا کے نظر تو کرتے
آجکل کی لڑکیاں ہیں گل کھلانے کے لئے
لیا تو کرتے ہیں لیکن دیا نہیں کرتے
مرا پورا کرو لا کر کہیں سے
کیا سمجھتا ہے تو اپنے کو جو براتا ہے
نہ سہی عطر میاں تیل کا ساماں کرتے
ہلّڑ مچا رہے تھے گولے چھٹے جو سن کے
پڑا ہے گھر دیکھ لیجئے سب چنیں نہیں ہے چناں نہیں ہے
بی بی اٹکی ہوئی ہیں نوکر سے
خبر لوں نوج میں اس کی موا اب روئے یا بلکے
گالیاں دو ماں کو ایسا چاہئے
ڈرتی نہیں چڑیل نڈر انتہا کی ہے
رہوں پھر کس کی ہو کر میں کہ گھر بھر میرا دشمن ہے
سوت ہی کے گھر رہیں نبٹیں اسی مردار سے
ہو چکی بدنام تم سے کل میں یہ مشہور ہے
وہ دو ہی دن تو میرے یہاں میہماں رہے
بھڑا کر چار پائی سے بچھاتا ہے
کچھ تجھ سے شکایت موئے بے پیر نہیں ہے
لے چلوں گی گھر نہ مانوں گی کسی تدبیر سے
چھٹولی ہے کہ بچہ ہے وہ ننھی ہے کہ ناداں ہے
اس سے کیا مجھ کو بہن ہو وہ اگر بدنام ہے
مانا یہ مینے حصے برابر کے ہوگئے
سونپ آئے نگوڑی کو بڑا کام کر آئے
ماں کا کہنا ٹالئے جورو کا کہنا کیجئے
آنے والے ہیں نہ بھڑوے کوئی جانے والے
پڑی چلایا کرتی میں ادھر رخ بھی میاں کرتے
کسبی بچی سے عقد کو تیار ہو گئے
بہوؤں پہ بوجھ بیٹیوں پر بار ہوگئے
رخصتی کا کہیں اس کی بھی نہ ساماں ہو جائے
مسالہ چک گیا بڑا بھس نگوڑا دل میں باقی ہے
مجھے کیا واسطہ احمد رضا سے
ہوں تو عورت کم نہیں لیکن کسی جلاد سے
جورو ہر جائی کی اس کے آگے کیا توقیر ہے
نور کا میرا پیٹ ہے نور کی میری ناف ہے
تیری غرض ہے مجھ کو بھی مطلب سے کام ہے
آج کچھ کل کچھ مجھے لاکر چچا دینے لگے
جورو کو دیکھا اور ہی دستور ہو گئے
ناک نقشہ دیکھئے بہوؤں کے زیور دیکھئے
یہی دنیا رہے یا دوسری دنیا ہو جائے
جب ایسی ان کی بیٹی ہے کسی قابل کو ڈھونڈھیں گے
ناک رکھنی ہو تو بند اپنی یہ ہوں ہاں کیجئے
بیٹھے ہیں گھر میں آبرو اپنی لئے ہوئے
وہ ہوتے کون ہیں لوگو مرا دل دیکھنے والے
صدقے اس تقدیر کے قربان اس تدبیر کے
چچی اماں کے مرنے پر بڑے قصے بوا نکلے
کوئی آیا نہ گیا مفت کی رسوائی ہے
خصم بھی ہے مرا بچپن کا آشنا بھی ہے
اس ہانک کو اب چھوڑ دو بیگم کہ وہیں ہے
راس آیا نہ زمانے میں بوا گوش مجھے
اچھی دل سوز ہے کیا سمجھی ہے دیوانہ مجھے
مزا آئے جو شادی کا یہی دستور ہو جائے
لگا لائے ہو یہ علت کہاں سے
دونوں کے حلق پر تو بیٹا چھری چلا دے
کوئی کنبے میں نہ باقی رہے چوپٹ ہو جائے
انسان کام عقل سے بھی کچھ لیا کرے
چلّے کے جاڑے آگئے بڑھیا مزا کرے
کمبخت تو سنار سے کیوں جاکے لڑ گیا
متفرق اشعار
سلام
یہ پتلے خاک کے جسوقت سر اٹھاتے ہیں
لیا شہزادے قاسم نے جب اپنے ہاتھ میں نیزہ
بواسینہ ہو شہ کا اور زانو شمر شیطاں کا
بہن ہر سانس دیتی ہے خبر مجھ کو محرم کی
اماموں کی امامت ہے نبوت ہے پیمبر کی
سلامی کہتی تھی رو رو کے صغرا یہ پیمبر سے
کوئی زینب ہے زمانے میں کوئی شبیر ہے
بی بیو جب روئیں زینب اپنے بھائی کیلئے
شمر کے حلق کا دربان نوالا ہو جائے
نگوڑے شمر کے کاندھے پہ نیزہ ہے کہ کالا ہے
یزید اللہ سے ڈر مفت سید سے اٹکتا ہے
یہاں کے واسطے چھوڑا نہ کچھ وہاں کے لئے
قصیدیاں
راتکو آنکھ مری لگ گئی جب بستر پر
قصیدیاں نیمۂ شعبان کی تہنیت میں
فاطمہ بی بی نے آغوش میں تجھ کو لے کر
مطلع
جو کچھ قسمت میں ہے جس کی نیا دانہ نیا پانی
عیاں ہے بی بی نرجس کے محل کی نور افشانی
تری دادی نے خود آنچل میں گھٹی جنتی چھانی
بھلائی کا کوئی ساتھی نہیں ہو باپ یا بھائی
اجی سنتے ہو میری کچھ خبر ہے شبرات آئی
مطلع
خدا نے بی بی نرجس کو بوا وہ رات دکھلائی
اڑ گئی خاک زمانے میں یہ آثار ہیں کیا
دھوم عالم میں ہے اک نور ہے گھر گھر پھیلا
کسی سے کیوں کرے شکوہ کسی سے کیوں شکایت ہو
کنگھی چوٹی پر نہ اتراؤ بہت بی نوبہار
سانچ کو کیا آنچ جھوٹی بات چلتی ہے کہاں
مطلع
شاہزادہ وہ کہ جس پر جانیں ہم سب کی نثار
مطلع
بیٹھی ہیں استانی جی منہ تکتی ہے ہر لونڈیا
شاہزادہ وہ بارہواں پیدا ہوا پیدا ہوا
امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی مسند نشینی کی تہنیت میں
مری اچھی سی باجی ہے نکھار اک اک مسلماں پر
نہ ہو کیوں فخر اس مسند نشینی کو سلیماں پر
بدل گئے ہیں زمانے کے ایسے کچھ اطوار
خدا کا شکر کرو بیبیو ہزار ہزار
قصیدیاں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت کی تہنیت میں
دریچے آسماں کے کھلے از خود محبت سے
وہی نسبت ہے دنیا میں امامت کو نبوت سے
اب اسکو رحمت سے کہوں یا اسکی قدرت سے
دھنوا پسنہاری کی وفات کی تاریخ جو گھرکا کام کاج بھی کرتی تھی
ملک الموت نے چھاتی پہ دلی جب کودوں
آرسی کے چھپنے کی تاریخ
شکر ہے لو آگئی مطبع سے چھپ کر آرسی
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.