سر ورق
انتساب
اپنی بات
مناجات
نظمیں
لکیر
پاراڈاکس
سجاتا
نئی صبح
تجربے
پچھتاوا
سمندر کنارے
ایک اک کرکے سارے ٹوٹ گئے
خاکہ
وقتِ آخر
سرِ رہگزر
پھر بھی
ستارے
ملاقات
تھکن
فرار
آثارِ قدیمہ
بات بات میں
شبِ وصل
کنارا
کتب خانہ
آج کی شام
آج کی رات
نچیکیتا
تالاب
تلاش
آٹھواں دروازہ
جنوں خیزی
میل کا پتھر
رنگ محل
وہاں چلو
واہمہ
صداقت
ہمارے مندر ہمارے مسجد
غزلیں
کس نے دیکھی ہے بہاروں میں خزاں میرے سوا
جو ہم بھی سایۂ دیوار کی طرف جاتے
خواب امید سے سرشار بھی ہو جائے تو کیا
پانو کے چھالوں کا جیسے کہ ہنر ختم ہوا
ہم کو معلوم نہیں تم کو خبر ہو شاید
بات جو بھی ہے کسی بات کے سائے میں ہے
کہیں پہ یاد جواں ہے کہیں نہیں بھی ہے
ذرا سی آنکھ لگی تھی کہ خواب جاگ گئے
دل کی ڈگر سے دور کسی رہگزر میں ہیں
ریت پر اک نشان ہے شاید
خدا بھی کیسا ہوا خوش مرے قرینے پر
شبِ فراق میں کچھ ایسی کج روی آئی
چھٹی نہیں ہے ابھی دھند ہر علامت سے
بنیاد بھی نئی ہے دیوار و در نئے ہیں
ہر نیا رنگ ہے حالانکہ گوارا بھی بہت
یقیں سراب پہ وہم و گماں پہ رہنے دے
نقوشِ عشق! سرِ رہگزار میں بھی ہوں
گرفت بڑھنے لگی دل پہ یاد کی پھر سے
ریت کے شانوں پہ شبنم کی نمی رات گئے
دشت و صحرا میں چراغوں کو جلانے والے
خزاں کا مرثیہ کیسا قصیدہ کیا بہاروں پر
خدا کے جیسا تھ لیکن خدا نہیں تھا وہ
آگ میں رہتے ہوئے آگ کا نم ہو جانا
کچھ شوق ہیں اور کچھ امیدیں، کچھ وہم و گماں اور خواب ہیں کچھ
نہ ہم غلام کے حامی نہ بادشاہ کے ساتھ
نہ کام ہم کو وضاحت نہ استعاروں سے
گرجا میں مسجدوں میں شوالوں میں تو بھی ہے
میں بدحواس تھا محوِ قیاس تم بھی تھے
گناہ کرنے سے پہلے ثواب سے پہلے
کوئی امید تھم گئی پھر سے کوئی سایہ بکھر گیا پھر سے
رات میں سرخ و سیہ دن میں ہری ہوتی ہے
کچھ نقش تختِ دل پہ بنائے نہ جائیں گے
خبر ہے گرم کہ ماحول شہر کا بدلا
خواب کی طرح نظر آیا ہے
کسی کی چھت کسی کا در نہیں ہے
یہ جام تلخ بہت ہے پیا نہیں جاتا
نیند آجاتی ہے پر خواب کہاں سے لائیں
مرے گھر میں وہ کہکشاں ڈھونڈتے ہیں
خوشی کے رنگ میں گھل جائے بے بسی جیسے
گھٹن کو ساز لہو کو شراب ہونا ہے
آزاد ہیں کچھ خواب گرفتار بہت ہیں
خلوتِ جاں سے چلی بات زباں تک پہنچی
زمیں کو چھوڑ قدم آسماں پہ لے آیا
سر ورق
انتساب
اپنی بات
مناجات
نظمیں
لکیر
پاراڈاکس
سجاتا
نئی صبح
تجربے
پچھتاوا
سمندر کنارے
ایک اک کرکے سارے ٹوٹ گئے
خاکہ
وقتِ آخر
سرِ رہگزر
پھر بھی
ستارے
ملاقات
تھکن
فرار
آثارِ قدیمہ
بات بات میں
شبِ وصل
کنارا
کتب خانہ
آج کی شام
آج کی رات
نچیکیتا
تالاب
تلاش
آٹھواں دروازہ
جنوں خیزی
میل کا پتھر
رنگ محل
وہاں چلو
واہمہ
صداقت
ہمارے مندر ہمارے مسجد
غزلیں
کس نے دیکھی ہے بہاروں میں خزاں میرے سوا
جو ہم بھی سایۂ دیوار کی طرف جاتے
خواب امید سے سرشار بھی ہو جائے تو کیا
پانو کے چھالوں کا جیسے کہ ہنر ختم ہوا
ہم کو معلوم نہیں تم کو خبر ہو شاید
بات جو بھی ہے کسی بات کے سائے میں ہے
کہیں پہ یاد جواں ہے کہیں نہیں بھی ہے
ذرا سی آنکھ لگی تھی کہ خواب جاگ گئے
دل کی ڈگر سے دور کسی رہگزر میں ہیں
ریت پر اک نشان ہے شاید
خدا بھی کیسا ہوا خوش مرے قرینے پر
شبِ فراق میں کچھ ایسی کج روی آئی
چھٹی نہیں ہے ابھی دھند ہر علامت سے
بنیاد بھی نئی ہے دیوار و در نئے ہیں
ہر نیا رنگ ہے حالانکہ گوارا بھی بہت
یقیں سراب پہ وہم و گماں پہ رہنے دے
نقوشِ عشق! سرِ رہگزار میں بھی ہوں
گرفت بڑھنے لگی دل پہ یاد کی پھر سے
ریت کے شانوں پہ شبنم کی نمی رات گئے
دشت و صحرا میں چراغوں کو جلانے والے
خزاں کا مرثیہ کیسا قصیدہ کیا بہاروں پر
خدا کے جیسا تھ لیکن خدا نہیں تھا وہ
آگ میں رہتے ہوئے آگ کا نم ہو جانا
کچھ شوق ہیں اور کچھ امیدیں، کچھ وہم و گماں اور خواب ہیں کچھ
نہ ہم غلام کے حامی نہ بادشاہ کے ساتھ
نہ کام ہم کو وضاحت نہ استعاروں سے
گرجا میں مسجدوں میں شوالوں میں تو بھی ہے
میں بدحواس تھا محوِ قیاس تم بھی تھے
گناہ کرنے سے پہلے ثواب سے پہلے
کوئی امید تھم گئی پھر سے کوئی سایہ بکھر گیا پھر سے
رات میں سرخ و سیہ دن میں ہری ہوتی ہے
کچھ نقش تختِ دل پہ بنائے نہ جائیں گے
خبر ہے گرم کہ ماحول شہر کا بدلا
خواب کی طرح نظر آیا ہے
کسی کی چھت کسی کا در نہیں ہے
یہ جام تلخ بہت ہے پیا نہیں جاتا
نیند آجاتی ہے پر خواب کہاں سے لائیں
مرے گھر میں وہ کہکشاں ڈھونڈتے ہیں
خوشی کے رنگ میں گھل جائے بے بسی جیسے
گھٹن کو ساز لہو کو شراب ہونا ہے
آزاد ہیں کچھ خواب گرفتار بہت ہیں
خلوتِ جاں سے چلی بات زباں تک پہنچی
زمیں کو چھوڑ قدم آسماں پہ لے آیا
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.