فہرست
منظومات
جگر میری نظر میں
دیباچہ
غزلیات
ہر حقیت کو بانداز تماشا دیکھا
یاد ش بخیر جب وہ تصور میں آگیا
کوئی جیتا کوئی مرتا ہی رہا
گداز عشق نہیں کم جو میں جواں نہ رہا
دل کو سکون روح کو آرام آگیا
شعر و نغمہ رنگ ونگہت جام وصبا ہوگیا
قطعہ
اللہ اللہ یہ مری ترک وطلب کی وسعتیں
وہ بروئے دوست ہنگام سلام آہی گیا
پرائے ہاتھوں جینے کی ہوس کیا
یک لحظہ خوشی کا جب انجام نظر آیا
تیرا تصور شب ہمہ شب
سینے میں اگر ہو دل بیدار محبت
غم ہے کہ زینہ صناف و ذات
دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد
قطعہ
مدت ہوئی اک حادثۂ عشق کو لیکن
حسین دل متبسم نگاہ پیدا کر
شاہد وساقی و بہار سے دور
قطعہ
خطرۂ موت اب نہ فکر حیات
نغمہ ترا نفس نفس جلوہ ترا نظر نظر
آج مری جان انتظار آمیرے آفتاب شوق
محبت میں جگر گذرے ہیں ایسے بھی مقام اکثر
تری رحمت خطا بخش وخطا پوش
وہ احساس شوق جواں اوّل اوّل
اللہ رے اس گلشن ایجاد کا عالم
حسن کافر شباب کا عالم
جنوں کم جستجو کم تشنگی کم
رکھتے ہیں خضر سے نہ غرض رہنما سے ہم
یہ ذرے جن کو ہم خاک رہ منزل سمجھتے ہیں
یہ تو نہیں کہ عرض درخوراعتنا نہیں
مقامات ارباب جاں اور بھی ہیں
دل میں کسی کے راہ کئے جارہا ہوں میں
بے کیف دل ہے اور جئے جارہا ہوں میں
جو مسرتوں میں خلش نہیں جو اذیتوں میں مزا نہیں
اس رخ پہ اژدہام نظر دیکھتا ہو نہیں
جز عشق معتبر یہ کسی کو خبر نہیں
محبت میں یہ کیا مقام آرہے ہیں
کہاں کے لاوگل کیا بہار توبہ شکن
اللہ اگر توفیق نہ دے انساں کے بس کا کام نہیں
اب مفظ بیاں سب ختم ہوئے اب دیدہ ودل کا کام نہیں
جب تک انساں پاک طینت ہیں نہیں
بے ربط حسن وعشق یہ کیف واثر کہاں
عشق کی بربادیوں کو رائیگاں سمجھاتھا میں
سبھی انداز حسن پیارے ہیں
یہ صحن دروش یہ لالہ وگل ہونے دو جو ویراں ہوتے ہیں
غم معتبر نہیں ہے مکمل خوشی نہیں
کوئی یہ کہدے گلشن گلشن
کلام ادھورا اور آزادی
قطعہ
ہستئی شاعر اللہ اللہ
قطعہ
قطعہ
کانٹوں کا بھی حق ہے کچھ آخر
ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں
عشق لامحدود جب تک رہنما ہوتا نہیں
جو طوفانوں میں پلتے جارہے ہیں
عمر بھر روح کی اور جسم کی یک جائی ہو
دل کیوں کوئی مجروح پذیرائی ہو
ممکن نہیں کہ جذبۂ دل کار گر نہ ہو
پھول بسر کرتے ہیں خاروں کے ساتھ
ابھی نہ روک نگاہوں گو پیرمے خانہ
وہ ایک شعر مجسم وہ ایک پیکر حسن
قطعہ
سراپہ حقیقت مجسم فسانہ
مسلسل
یہ فلک یہ ماہ وانجم یہ زمیں یہ زمانہ
طبیعت ان دنوں بیگانۂ غم ہوتی جاتی ہے
وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ
مرے ہمصیفر بلبل مرا ترا ساتھ ہی کیا
قطعہ
محبت کار فرمائے دو عالم ہوتی جاتی ہے
کیا کشش حسن بے پناہ میں ہے
کسی صورت نمود سوز پنہانی نہیں جاتی
تکلف سے تصنع سے بری ہے شاعری اپنی
اگر شامل نہ در پردہ کسی کی آرزو ہوتی
وہی اس نظر میں ہیں کھب جانے والے
آنکھوں میں بس کے دل میں سما کر چلے گئے
وہ جو روٹھیں یوں منانا چاہئیے
برابر سے بچ کر گذر جانے والے
سودا جواب ہے سر میں وہ سودا ہی اور ہے
یوں پر سش ملال وہ فرما کے رہ گئے
پھر دل ہے قصد کوچۂ جاناں کئے ہوئے
آئے ہیں پھر وہ عزم دل وجاں کئے ہوئے
ہم نے دنیا ہی میں دنیائے حقیقت دیکھی
واعظ نے اور نہ زاہد شب زندہ دار نے
شب فراق ہے اور نیند آئی جاتی ہے
نقاب حسن دو عالم اٹھائی جاتی ہے
نہ اب مسکرانے کو جی چاہتا ہے
جلوہ بقدر ظرف نظر دیکھتے رہے
ایسے مصرع کا ش نقش ہر درو دیوار ہو جائے
محبت صلح بھی پیکار بھی ہے
نہ تاب مستی نہ ہوش ہستی کہ شکر نعمت ادا کریں گے
کس کا خیال کونسی منزل نظر میں ہے
زندگی ہے مگر پرائی ہے
اگر جمال حقیقت سے ربط محکم ہے
حسن وصورت کے نہ حسرت کے نہ ارمانوں کے
رگ رگ میں ایک برق خراماں لئے ہوئے
شرم گناہ سے بڑھ کے ہے ہر عفو گناہ کی شرم
اللہ رے بے بسی کہ غم روز گار بھی
کس کا خیال ہے دل مصطرلئے ہوئے
قطعہ
جو سینۂ فطرت میں نہاں ہوتا ہے
قطعہ
قطعہ
امتحاں گاہ محبت میں نہ رکھے وہ قدم
کہیں ایسا تو نہیں وہ بھی ہو کوئی آزار
حسن جس رنگ میں ہوتا ہے جہاں ہوتا ہے
آج بھی یوں تو ہر اک رند جواں ہے ساقی
ہر وہ حلقہ جو تری کاکل شبگیر میں ہے
شرما گئے لجا گئے دامن چھڑا گئے
یوں تو ہونے کو گلستاں بھی ہے ویرانہ بھی ہے
ہر تجلی یہیں نظر آئی
کار گاہ حیات میں اے دوست
قطعہ
خود وہ اٹھے ہیں جام لئے
جان کر منجملہ خاصان مے خانہ مجھے
پڑا کچھ وقت ایسا گردش ایام سے
جہل خرد نے یہ دن دکھائے
حسن وہی ہے حسن جو ظالم
راہ جیوں آسان ہوئی ہے
قطعہ
صحن کعبہ نہ سہی راہ صنم خانہ سہی
یہ راز ہم پر ہوا نہ افشا کسی کی خاص اک نظر سے پہلے
اگر نہ زہرہ جبینوں کے درمیاں گذرے
قطعہ
ابھی سے تجھ کو بہت ناگوار ہیں ہمدم
آدمی آدمی سے ملتا ہے
طیف طبع کو لازم ہے سوز غم بھی لطیف
افشاں
منظومات
تجدید ملاقات
مدت میں پھر وہ تازہ ملاقات کا عالم
یاد
آئی جب ان کی یاد تو آتی چلی گئی
سراپا
وہ حسن کافر اللہ اکبر
بنگال کی میں شام وسحر دیکھ رہا ہوں
قحط بنگال
ہندوستان میں خیر سے ان کی کمی نہیں
پھرتے ہیں آستینوں میں خنجر لئے ہوئے
آج کل
لشکر جمیل خواب پریشاں ہے آج کل
وہی ہے شور ہائے وہو وہی ہجوم مردو زن
گاندھی جی کی یاد میں
آوازیں
اگر چہ صدیاں گذر چکی ہیں مگر زہے کارو بار فطرت
گذرجا
بازیچۂ ارباب سیاست سے گذرجا
اٹھو اٹھو! کہ زندگی ہی زندگی پہ بار ہے
نوائے وقت
زمانے کا آقا غلا م زمانہ
کدھر ہے تو اے جرأت باغیانہ
پہلے تو حسن عمل حسن یقیں پیدا کر
دل حسیں ہے تو محبت بھی حسیں پیدا کر
اعلان جمہوریت
خدا کرے کہ یہ دستور ساز گار آئے
کہاں سے بڑھ کے پہنچے ہیں کہاں تک علم وفن ساقی
ساقی سے خطاب
فند پارسی
بہ سر تو ساقی من بہ سرور بے طلبی خوشم
فہرست
منظومات
جگر میری نظر میں
دیباچہ
غزلیات
ہر حقیت کو بانداز تماشا دیکھا
یاد ش بخیر جب وہ تصور میں آگیا
کوئی جیتا کوئی مرتا ہی رہا
گداز عشق نہیں کم جو میں جواں نہ رہا
دل کو سکون روح کو آرام آگیا
شعر و نغمہ رنگ ونگہت جام وصبا ہوگیا
قطعہ
اللہ اللہ یہ مری ترک وطلب کی وسعتیں
وہ بروئے دوست ہنگام سلام آہی گیا
پرائے ہاتھوں جینے کی ہوس کیا
یک لحظہ خوشی کا جب انجام نظر آیا
تیرا تصور شب ہمہ شب
سینے میں اگر ہو دل بیدار محبت
غم ہے کہ زینہ صناف و ذات
دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد
قطعہ
مدت ہوئی اک حادثۂ عشق کو لیکن
حسین دل متبسم نگاہ پیدا کر
شاہد وساقی و بہار سے دور
قطعہ
خطرۂ موت اب نہ فکر حیات
نغمہ ترا نفس نفس جلوہ ترا نظر نظر
آج مری جان انتظار آمیرے آفتاب شوق
محبت میں جگر گذرے ہیں ایسے بھی مقام اکثر
تری رحمت خطا بخش وخطا پوش
وہ احساس شوق جواں اوّل اوّل
اللہ رے اس گلشن ایجاد کا عالم
حسن کافر شباب کا عالم
جنوں کم جستجو کم تشنگی کم
رکھتے ہیں خضر سے نہ غرض رہنما سے ہم
یہ ذرے جن کو ہم خاک رہ منزل سمجھتے ہیں
یہ تو نہیں کہ عرض درخوراعتنا نہیں
مقامات ارباب جاں اور بھی ہیں
دل میں کسی کے راہ کئے جارہا ہوں میں
بے کیف دل ہے اور جئے جارہا ہوں میں
جو مسرتوں میں خلش نہیں جو اذیتوں میں مزا نہیں
اس رخ پہ اژدہام نظر دیکھتا ہو نہیں
جز عشق معتبر یہ کسی کو خبر نہیں
محبت میں یہ کیا مقام آرہے ہیں
کہاں کے لاوگل کیا بہار توبہ شکن
اللہ اگر توفیق نہ دے انساں کے بس کا کام نہیں
اب مفظ بیاں سب ختم ہوئے اب دیدہ ودل کا کام نہیں
جب تک انساں پاک طینت ہیں نہیں
بے ربط حسن وعشق یہ کیف واثر کہاں
عشق کی بربادیوں کو رائیگاں سمجھاتھا میں
سبھی انداز حسن پیارے ہیں
یہ صحن دروش یہ لالہ وگل ہونے دو جو ویراں ہوتے ہیں
غم معتبر نہیں ہے مکمل خوشی نہیں
کوئی یہ کہدے گلشن گلشن
کلام ادھورا اور آزادی
قطعہ
ہستئی شاعر اللہ اللہ
قطعہ
قطعہ
کانٹوں کا بھی حق ہے کچھ آخر
ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں
عشق لامحدود جب تک رہنما ہوتا نہیں
جو طوفانوں میں پلتے جارہے ہیں
عمر بھر روح کی اور جسم کی یک جائی ہو
دل کیوں کوئی مجروح پذیرائی ہو
ممکن نہیں کہ جذبۂ دل کار گر نہ ہو
پھول بسر کرتے ہیں خاروں کے ساتھ
ابھی نہ روک نگاہوں گو پیرمے خانہ
وہ ایک شعر مجسم وہ ایک پیکر حسن
قطعہ
سراپہ حقیقت مجسم فسانہ
مسلسل
یہ فلک یہ ماہ وانجم یہ زمیں یہ زمانہ
طبیعت ان دنوں بیگانۂ غم ہوتی جاتی ہے
وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ
مرے ہمصیفر بلبل مرا ترا ساتھ ہی کیا
قطعہ
محبت کار فرمائے دو عالم ہوتی جاتی ہے
کیا کشش حسن بے پناہ میں ہے
کسی صورت نمود سوز پنہانی نہیں جاتی
تکلف سے تصنع سے بری ہے شاعری اپنی
اگر شامل نہ در پردہ کسی کی آرزو ہوتی
وہی اس نظر میں ہیں کھب جانے والے
آنکھوں میں بس کے دل میں سما کر چلے گئے
وہ جو روٹھیں یوں منانا چاہئیے
برابر سے بچ کر گذر جانے والے
سودا جواب ہے سر میں وہ سودا ہی اور ہے
یوں پر سش ملال وہ فرما کے رہ گئے
پھر دل ہے قصد کوچۂ جاناں کئے ہوئے
آئے ہیں پھر وہ عزم دل وجاں کئے ہوئے
ہم نے دنیا ہی میں دنیائے حقیقت دیکھی
واعظ نے اور نہ زاہد شب زندہ دار نے
شب فراق ہے اور نیند آئی جاتی ہے
نقاب حسن دو عالم اٹھائی جاتی ہے
نہ اب مسکرانے کو جی چاہتا ہے
جلوہ بقدر ظرف نظر دیکھتے رہے
ایسے مصرع کا ش نقش ہر درو دیوار ہو جائے
محبت صلح بھی پیکار بھی ہے
نہ تاب مستی نہ ہوش ہستی کہ شکر نعمت ادا کریں گے
کس کا خیال کونسی منزل نظر میں ہے
زندگی ہے مگر پرائی ہے
اگر جمال حقیقت سے ربط محکم ہے
حسن وصورت کے نہ حسرت کے نہ ارمانوں کے
رگ رگ میں ایک برق خراماں لئے ہوئے
شرم گناہ سے بڑھ کے ہے ہر عفو گناہ کی شرم
اللہ رے بے بسی کہ غم روز گار بھی
کس کا خیال ہے دل مصطرلئے ہوئے
قطعہ
جو سینۂ فطرت میں نہاں ہوتا ہے
قطعہ
قطعہ
امتحاں گاہ محبت میں نہ رکھے وہ قدم
کہیں ایسا تو نہیں وہ بھی ہو کوئی آزار
حسن جس رنگ میں ہوتا ہے جہاں ہوتا ہے
آج بھی یوں تو ہر اک رند جواں ہے ساقی
ہر وہ حلقہ جو تری کاکل شبگیر میں ہے
شرما گئے لجا گئے دامن چھڑا گئے
یوں تو ہونے کو گلستاں بھی ہے ویرانہ بھی ہے
ہر تجلی یہیں نظر آئی
کار گاہ حیات میں اے دوست
قطعہ
خود وہ اٹھے ہیں جام لئے
جان کر منجملہ خاصان مے خانہ مجھے
پڑا کچھ وقت ایسا گردش ایام سے
جہل خرد نے یہ دن دکھائے
حسن وہی ہے حسن جو ظالم
راہ جیوں آسان ہوئی ہے
قطعہ
صحن کعبہ نہ سہی راہ صنم خانہ سہی
یہ راز ہم پر ہوا نہ افشا کسی کی خاص اک نظر سے پہلے
اگر نہ زہرہ جبینوں کے درمیاں گذرے
قطعہ
ابھی سے تجھ کو بہت ناگوار ہیں ہمدم
آدمی آدمی سے ملتا ہے
طیف طبع کو لازم ہے سوز غم بھی لطیف
افشاں
منظومات
تجدید ملاقات
مدت میں پھر وہ تازہ ملاقات کا عالم
یاد
آئی جب ان کی یاد تو آتی چلی گئی
سراپا
وہ حسن کافر اللہ اکبر
بنگال کی میں شام وسحر دیکھ رہا ہوں
قحط بنگال
ہندوستان میں خیر سے ان کی کمی نہیں
پھرتے ہیں آستینوں میں خنجر لئے ہوئے
آج کل
لشکر جمیل خواب پریشاں ہے آج کل
وہی ہے شور ہائے وہو وہی ہجوم مردو زن
گاندھی جی کی یاد میں
آوازیں
اگر چہ صدیاں گذر چکی ہیں مگر زہے کارو بار فطرت
گذرجا
بازیچۂ ارباب سیاست سے گذرجا
اٹھو اٹھو! کہ زندگی ہی زندگی پہ بار ہے
نوائے وقت
زمانے کا آقا غلا م زمانہ
کدھر ہے تو اے جرأت باغیانہ
پہلے تو حسن عمل حسن یقیں پیدا کر
دل حسیں ہے تو محبت بھی حسیں پیدا کر
اعلان جمہوریت
خدا کرے کہ یہ دستور ساز گار آئے
کہاں سے بڑھ کے پہنچے ہیں کہاں تک علم وفن ساقی
ساقی سے خطاب
فند پارسی
بہ سر تو ساقی من بہ سرور بے طلبی خوشم
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔