سرورق
چند معروضات
انتساب
عرض ناشر
ہر حقیقت کو بانداز تماشا دیکھا
یادش بخیر جب وہ تصور میں آگیا
کوئی جیتا کوئی مرتا ہی رہا
گداز عشق نہیں کم جو میں جواں نہ رہا
دل کو سکون روح کو آرام آگیا
شعر ونغمہ، رنگ ونکہت جام وصہبا ہوگیا
التفات چشم ساقی کی سبک تابی نہ پوچھ
پرائے ہاتھوں جینے کی ہوس کیا
یک لحظہ خوشی کا جب انجام نظر آیا
کچھ رات رہے ساقی جو اٹھا کہتا ہوا ہر میخوار اٹھا
تیرا تصوّر شب ہمہ شب
سینے میں اگر ہو دل بیدار محبت
غم ہے کیا زینۂ صفات و ذات
دنیائے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد
حسین دل، متبسم نگاہ پیدا کر
خطرۂ موت اب نہ فکر حیات
نغمہ ترا نفس، جلوہ ترا نظر نظر
محبت میں جگر گزرے ہیں ایسے بھی مقام اکثر
کیوں کررہے نہ حسن حقیقت نگر سے دور
تری رحمت خطا بخش وخطا پوش
مجسّم وتعبیر خواب محبّت
اللہ رے اس گلشن ایجاد کا عالم
غم کی ہر موج موج طوفاں خیز
جنوں کم جستجو کم، تشنگی کم
رکھتے ہیں خضر سے نہ غرض رہنما سے ہم
یہ ذرّے جن کو ہم خاک رو منزل سمجھتے ہیں
یہ تو نہیں کہ عرض غم درخوار اعتنا نہیں
مقامات ارباب جاں اور بھی ہیں
دل میں کسی کے راہ کیے جا رہا ہوں میں
بے کیف دل ہے اور جیے جارہا ہوں میں
جو مسترتوں میں خلش نہیں جو اذّیتوں میں مزا نہیں
اس رخ پہ اژدہام نظر دیکتھا ہوں میں
جز عشق معتبر یہ کسی کو خبر نہیں
محبت میں یہ کیا مقام آرہے ہیں
کہاں کے لالۂ وگل کیا بہار توبہ شکن
اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں
جب تک انساں پاک طینت ہی نہیں
بے ربط حسن وعشق یہ کیف واثر کہاں
عشق کی بربادیوں کو رائیگاں سمجھا تھا میں
سب ہی انداز حسن پیارے ہیں
یہ صحن وروش یہ لالۂ وگل ہونے دو جو ویراں ہوتے ہیں
غم معتبر نہیں ہے مکمّل خوشی نہیں
کوئی یہ کہہ دے گلشن گلشن
ہستی شاعر اللہ اللہ!
ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں
عشق لا محدود جب تک رہنما ہوتا نہیں
شیطاں نہیں فرشتہ نہیں یا غدا نہیں
اب کوئی تیر دل کے پار نہیں
انسان ہے زندگی سے نالاں
غم میں بھی جس کو اک سرور نہیں
یوں وہ بے گانہ وار ملتے ہیں
جب تک کہ غم انساں سے جگر، انسان کا دل معمور نہیں
عمر بھر روح کی اور جسم کی یکجائی ہو
داغ دل کیوں کوئی مجروح پذیرائی ہو
ممکن نہیں کہ جذبۂ دل کا گرنہ ہو
پھول بسر کرتے ہیں خاروں کے ساتھ
ابھی نہ روک نگاہوں کو پیر میخانہ
سراپا حقیقت، مجسم فسانہ
یہ فلک یہ ماہ وانجم یہ زمین یہ زمانہ
وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ
اے شبنم آسماں چکیدہ
بے غم عشق وبے دل آگاہ
محبت کار فرمائے دو عالم ہوتی جاتی ہے
طبیعت ان دنو بیگانۂ غم ہوتی جاتی ہے
کیا کشش حسن بے پناہ میں ہے
کسی صورت نمود سوز پنہانی نہیں جاتی
تکلف سے تصنع سے بری ہے شاعری اپنی
اگر شامل نہ در پردہ کسی کی آرزو ہوتی
وہی اس نظر میں ہیں کھب جانے والے
آنکھوں میں بس کے دل میں سما کر چلے گئے
وہ جو روٹھیں یوں منانا چاہیے
برابر سے بچ کر گزر جانے والے
سودا جواب ہے سر میں وہ سودا ہی اور ہے
یو پر سش ملال وہ فرما کے رہ گئے
پھر دل ہے قصد کوچۂ جاناں کیے ہوئے
ہم نے دنیا ہی میں دنیائے حقیقت دیکھی
واعظ نے اور نہ زاہد شب زندہ وارنے
شب فراق ہے اور نیند آئی جاتی ہے
نقاب حسن دو عالم اٹھائی جاتی ہے
نہ اب مسکرانے کو جی چاہتا ہے
جلوہ بہ قدر ذوق نظر دیکھتے رہے
یہ مصرع کا ش نقش ہر درو دیوار ہوجائے
محبت صلح بھی پیکار بھی ہے
نہ تاب مستی نہ ہوش ہستی کہ شکر نعمت ادا کریں گے
کس کا خیال کون سی منزل نظر میں ہے
زندگی ہے مگر پرائی ہے
اگر جمال حقیقت سے ربط محکم ہے
حسن صورت کے نہ حسرت کے نہ ارمانوں کے
اللہ رے بے بسی کہ غم روز گار بھی
راز جو سینۂ فطرت میں نہاں ہوتا ہے
حسن جس رنگ میں ہوتا ہے جہاں ہوتا ہے
آج بھی یوں تو ہر اک رند جواں ہے ساقی
ہر وہ حلقہ جو تری کا کل شب گیر میں ہے
شرماگئے، لجا گئے دامن چھڑا گئے
یوں تو ہونے کو گلستاں بھی ہے ویرانہ بھی ہے
ہر تجلّی یہیں نظر آئی
خود وہ اٹھے ہیں جام لیے
جان کر منجملۂ خاصان میخانہ مجھے
آپڑا کچھ وقت ایسا گردش ایّام سے
جہل خرد نے دن یہ دکھائے
صحن کعبہ نہ سہی کوے صنم خانہ سہی
یہ راز ہم پر ہوا نہ افشا کسی کی خاص اک نظر سے پہلے
اگر نہ زہرہ جبینوں کے درمیاں گزرے
آدمی آدمی سے ملتا ہے
وہ سبزہ ننگ چمن ہے جو لہلہا نہ سکے
صد آرزوئے خوشگوارو سرگراں لیے ہوئے
نہ بدلے بحر کو بھی تشنگی سے
کیا اجیاری کیسی اندھیری
ہمت جو ہو بلند تو کچھ اس سے کام لے
صیّاد پہ ظاہر ابھی یہ راز نہیں ہے
اک یہی حسن یقیں تسکین جان و دل سہی
جب ہر اک شورش غم ضبط فغاں تک پہنچے
طوفاں کو موج موج کو طوفاں نہ کرسکے
محبت زندگی ہی زندگی ہے
لب ترستے ہیں التجا کے لیے
یہ سب لالۂ وگل یہ سب چاند تارے
افشاں
منظو مات
تجدید ملاقات
یاد
سراپا
قحط بنگال
پھرتے ہیں آستینوں میں خنجر لیے ہوئے
آج کل
گاندھی جی کی یاد میں
آوازیں
گزرجا
نوائے وقت
زمانے کا آقا غلام زمانہ
دل حسیں ہے تو محبت بھی حسیں پیدا کر
اعلان جمہوریت
ساقی سے خطاب
نذر غالب
گیت
قند پارسی
نعت شریف
کلام تازہ
دو غیر مطبوعہ غزلیں
سرورق
چند معروضات
انتساب
عرض ناشر
ہر حقیقت کو بانداز تماشا دیکھا
یادش بخیر جب وہ تصور میں آگیا
کوئی جیتا کوئی مرتا ہی رہا
گداز عشق نہیں کم جو میں جواں نہ رہا
دل کو سکون روح کو آرام آگیا
شعر ونغمہ، رنگ ونکہت جام وصہبا ہوگیا
التفات چشم ساقی کی سبک تابی نہ پوچھ
پرائے ہاتھوں جینے کی ہوس کیا
یک لحظہ خوشی کا جب انجام نظر آیا
کچھ رات رہے ساقی جو اٹھا کہتا ہوا ہر میخوار اٹھا
تیرا تصوّر شب ہمہ شب
سینے میں اگر ہو دل بیدار محبت
غم ہے کیا زینۂ صفات و ذات
دنیائے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد
حسین دل، متبسم نگاہ پیدا کر
خطرۂ موت اب نہ فکر حیات
نغمہ ترا نفس، جلوہ ترا نظر نظر
محبت میں جگر گزرے ہیں ایسے بھی مقام اکثر
کیوں کررہے نہ حسن حقیقت نگر سے دور
تری رحمت خطا بخش وخطا پوش
مجسّم وتعبیر خواب محبّت
اللہ رے اس گلشن ایجاد کا عالم
غم کی ہر موج موج طوفاں خیز
جنوں کم جستجو کم، تشنگی کم
رکھتے ہیں خضر سے نہ غرض رہنما سے ہم
یہ ذرّے جن کو ہم خاک رو منزل سمجھتے ہیں
یہ تو نہیں کہ عرض غم درخوار اعتنا نہیں
مقامات ارباب جاں اور بھی ہیں
دل میں کسی کے راہ کیے جا رہا ہوں میں
بے کیف دل ہے اور جیے جارہا ہوں میں
جو مسترتوں میں خلش نہیں جو اذّیتوں میں مزا نہیں
اس رخ پہ اژدہام نظر دیکتھا ہوں میں
جز عشق معتبر یہ کسی کو خبر نہیں
محبت میں یہ کیا مقام آرہے ہیں
کہاں کے لالۂ وگل کیا بہار توبہ شکن
اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں
جب تک انساں پاک طینت ہی نہیں
بے ربط حسن وعشق یہ کیف واثر کہاں
عشق کی بربادیوں کو رائیگاں سمجھا تھا میں
سب ہی انداز حسن پیارے ہیں
یہ صحن وروش یہ لالۂ وگل ہونے دو جو ویراں ہوتے ہیں
غم معتبر نہیں ہے مکمّل خوشی نہیں
کوئی یہ کہہ دے گلشن گلشن
ہستی شاعر اللہ اللہ!
ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں
عشق لا محدود جب تک رہنما ہوتا نہیں
شیطاں نہیں فرشتہ نہیں یا غدا نہیں
اب کوئی تیر دل کے پار نہیں
انسان ہے زندگی سے نالاں
غم میں بھی جس کو اک سرور نہیں
یوں وہ بے گانہ وار ملتے ہیں
جب تک کہ غم انساں سے جگر، انسان کا دل معمور نہیں
عمر بھر روح کی اور جسم کی یکجائی ہو
داغ دل کیوں کوئی مجروح پذیرائی ہو
ممکن نہیں کہ جذبۂ دل کا گرنہ ہو
پھول بسر کرتے ہیں خاروں کے ساتھ
ابھی نہ روک نگاہوں کو پیر میخانہ
سراپا حقیقت، مجسم فسانہ
یہ فلک یہ ماہ وانجم یہ زمین یہ زمانہ
وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ
اے شبنم آسماں چکیدہ
بے غم عشق وبے دل آگاہ
محبت کار فرمائے دو عالم ہوتی جاتی ہے
طبیعت ان دنو بیگانۂ غم ہوتی جاتی ہے
کیا کشش حسن بے پناہ میں ہے
کسی صورت نمود سوز پنہانی نہیں جاتی
تکلف سے تصنع سے بری ہے شاعری اپنی
اگر شامل نہ در پردہ کسی کی آرزو ہوتی
وہی اس نظر میں ہیں کھب جانے والے
آنکھوں میں بس کے دل میں سما کر چلے گئے
وہ جو روٹھیں یوں منانا چاہیے
برابر سے بچ کر گزر جانے والے
سودا جواب ہے سر میں وہ سودا ہی اور ہے
یو پر سش ملال وہ فرما کے رہ گئے
پھر دل ہے قصد کوچۂ جاناں کیے ہوئے
ہم نے دنیا ہی میں دنیائے حقیقت دیکھی
واعظ نے اور نہ زاہد شب زندہ وارنے
شب فراق ہے اور نیند آئی جاتی ہے
نقاب حسن دو عالم اٹھائی جاتی ہے
نہ اب مسکرانے کو جی چاہتا ہے
جلوہ بہ قدر ذوق نظر دیکھتے رہے
یہ مصرع کا ش نقش ہر درو دیوار ہوجائے
محبت صلح بھی پیکار بھی ہے
نہ تاب مستی نہ ہوش ہستی کہ شکر نعمت ادا کریں گے
کس کا خیال کون سی منزل نظر میں ہے
زندگی ہے مگر پرائی ہے
اگر جمال حقیقت سے ربط محکم ہے
حسن صورت کے نہ حسرت کے نہ ارمانوں کے
اللہ رے بے بسی کہ غم روز گار بھی
راز جو سینۂ فطرت میں نہاں ہوتا ہے
حسن جس رنگ میں ہوتا ہے جہاں ہوتا ہے
آج بھی یوں تو ہر اک رند جواں ہے ساقی
ہر وہ حلقہ جو تری کا کل شب گیر میں ہے
شرماگئے، لجا گئے دامن چھڑا گئے
یوں تو ہونے کو گلستاں بھی ہے ویرانہ بھی ہے
ہر تجلّی یہیں نظر آئی
خود وہ اٹھے ہیں جام لیے
جان کر منجملۂ خاصان میخانہ مجھے
آپڑا کچھ وقت ایسا گردش ایّام سے
جہل خرد نے دن یہ دکھائے
صحن کعبہ نہ سہی کوے صنم خانہ سہی
یہ راز ہم پر ہوا نہ افشا کسی کی خاص اک نظر سے پہلے
اگر نہ زہرہ جبینوں کے درمیاں گزرے
آدمی آدمی سے ملتا ہے
وہ سبزہ ننگ چمن ہے جو لہلہا نہ سکے
صد آرزوئے خوشگوارو سرگراں لیے ہوئے
نہ بدلے بحر کو بھی تشنگی سے
کیا اجیاری کیسی اندھیری
ہمت جو ہو بلند تو کچھ اس سے کام لے
صیّاد پہ ظاہر ابھی یہ راز نہیں ہے
اک یہی حسن یقیں تسکین جان و دل سہی
جب ہر اک شورش غم ضبط فغاں تک پہنچے
طوفاں کو موج موج کو طوفاں نہ کرسکے
محبت زندگی ہی زندگی ہے
لب ترستے ہیں التجا کے لیے
یہ سب لالۂ وگل یہ سب چاند تارے
افشاں
منظو مات
تجدید ملاقات
یاد
سراپا
قحط بنگال
پھرتے ہیں آستینوں میں خنجر لیے ہوئے
آج کل
گاندھی جی کی یاد میں
آوازیں
گزرجا
نوائے وقت
زمانے کا آقا غلام زمانہ
دل حسیں ہے تو محبت بھی حسیں پیدا کر
اعلان جمہوریت
ساقی سے خطاب
نذر غالب
گیت
قند پارسی
نعت شریف
کلام تازہ
دو غیر مطبوعہ غزلیں
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔