محضر
معروض مرتب
نوائے احساس
کر رہا ہوں بزم میں ماضی کا ماتم اس لئے
مقصود کار
ایک مولوی دوست سے
مجاہدان صف شکن بڑھے چلو بڑھے چلو
ترانۂ جہاد
خوفناک خموشی
فغان با اثر ہے بے زبانی فاقہ مستوں کی
فراغت کی شبوں میں خواب راحت دیکھنے والو
نفیر وقت
عید کے دن دید کے قابل ہے عالم کا نظام
مزدور کی عید
وصیت
ادھر دیکھ اے نشاط روح اے آنکھوں کے تارے سن!
ہسپتال
حفیظ جاویدؔ کی علالت سے تھا کچھ ایسا ملال مجھ کو
مگر وہ مفلس کہ جن کا کوئی جہان میں آسرا نہیں تھا
جو بقا ہے اسے فنا کیسی؟
دنیا
برسات اور مزدور
اٹھا ہے ابر پھر آئی ہے برسات
درد ناک گمراہی
چکرارہا ہے گنبد مشرق میں آفتاب
مجھے جلسے میں لیجانے کی خاطر دلنشیں باتیں
ہنگامی جذبہ
آج دیوالی کی شب ہے خلق میں رقصاں ہے نور
مزدور کی دیوالی
رباعی
تو نور بصارت سے ہے مطلق محروم
الہام سحر
ظلمتوں کا جب در تنویر پر جھکتا ہے سر
ایک اسٹیشن پہ ہنگام غروب آفتاب
دومائیں
فقدان معاش
ایک دفتر کی طرف کل ہوگیا میرا گذر
رباعی
اللہ یہ نیرنگئ فطرت کیا ہے
امیر ملک کے فقیر باشندے
سردی کے نکلتے موسم میں اللہ رے پھبن بازاروں کی
شعلہ افشاں ہے زمانے بھر میں گرمی کا شباب
لکڑہارا
اے غلام آباد! اے ہندوستاں ! اے بدنصیب!
مہمیز سخن
میری موسیقی پسندی
تری یہ بزم موسیقی مرے کس کام کی مطرب
الجھ پرنے کو ہے سیل بلا اے بے خبر تجھ سے
شباب
باغی کا خواب
شعر
دیکھے بہار میں کوئی بربادیاں مری
تیلن اور لیڈی
بج گئے ہیں دن کے دس گرما گیا ہے آفتاب
ناقوس بیداری
ہوشیار اے ہند، اے مفلوک، اے اجڑے دیار
مصروف گشت ہے کسی زر دار کی برات
برات
بے خبر! آبتاؤں کیا شے ہے
دیں بوسی
اے انیس دشت اے میرے بہادر ہم معاش!
ایک شکاری دوست سے
پایابئ فردا میں سفینہ کی نہیں خیر
امروز وفردا
دی ہے خالق نے تجھے دختر نہ ہوا ندوہگیں
میلاد دختر
کل تھا گرم گفتگو اس طرح اک احرام پوش
امید آزادی
کتا اور مزدور
روئے مشرق پر تجلی جلوہ گر ہونے کو تھی
تعمیر وتخریب
نصب تعمیر پہ تخریب کا پرچم کردے
طفل بیمار
کل سے ہے بیمار اک مزدور کا لخت جگر
رباعی
تحقیق کو بے سود سمجھنے والے!
دوپہر کی دھوپ ڈھلنے کے لئے تیار تھی
مزدور کا چالان
دعا کیا ہے شب زندہ داروں کا سکہ
سکے
عیاش حرم
تان سے قوال کی گونجی ہوئی ہے خانقاہ
ڈھل چکی ہے رات اور تو ہے ابھی ساغر بدست
ملت فروش شرابی
اے گروہ جاہلاں اے نامرادی کے شکار
مزدور وں کے جاہل طبقہ سے
جنت میں دوزخی
سری ؔ نگر میں نہ پوچھو ہوں شادیا ناشاد
موزوں نہیں یہ بزم ترانے کے لئے
رباعی
لاہور کے ایک کالج کے سامنے سے گذرتے ہوئے
کالجیئٹ اور مزدور
حماقت ہے یقیں کرنا غلاموں کی محبت کا
غلامی کی خصوصیات
دو آتشہ
وہ دل ہی کیا جو تسلی سے بیقرار نہ ہو
غزلیات
دیکھ کر پھول پہ شبنم تھا تبسم کا گماں
الاماں اے نگاہ شعلہ طراز
جلا ہے ہائے کس جان چمن کی شمع محفل سے
طور پر ہوش گنوا کر ترا جلوہ دیکھا
رات فیض چشم ساقی حیرت میخانہ تھا
اک نگاہ شوق کیوں ٹھہرے بھلا تقصیر وار
محتسب قصد عبث ہے مرے سمجھانے کا
پھر کوئی اعجاز اے ساقی دکھانا چاہئیے
زندگی میں اس کو کیف زندگی حاصل نہیں
یہ مانا ضبط کیا اور بر ملا نہ کہا
اٹھو عاشقوآرہے ہیں وہ شاید
صورت دوا کی دیکھ کے بیمار چل بسا
ہر گام پر ہزار نشان سجود ہیں
ہردم خیال جلوۂ جانا نہ چاہئیے
نہ جانے سحر یہ کیا تونے چشم یا رکیا
حوصلے مایوس ، ذوق جستجو ناکام ہے
جس کے دل میں ہیں ترے جلوے مکیں
ابر چھایا ہے برستی ہے گلستاں میں شراب
ادھر ترآنسؤوں سے اپنا دامن ہوتا جاتا ہے
دیدۂ عشق بھی ہے واحسن بھی ہے بہار پر
جھکیں کس کس کے آگے المدد اے خالق عالم!
آج بھڑکی رگ وحشت ترے دیوانوں کی
یہی شبنم کی بوندیں جو ہیں لرزاں سبزہ زاروں پر
جہان ضبط غم میں عام کیوں رسم فغاں کر لوں
ہر اک سروچمن پر چھا رہا ہے طور کا عالم
اٹھا ہوں اک ہجوم تمنا لئے ہوئے
تیری جنبش پہ ہے سانسوں کے تسلسل کا مدار
بہار آئی ہے پھر جھوم کر سحاب اٹھا
کیا فسوں تجھ میں نگاہ نرگس مستانہ تھا
سیماب دار ہے نگہ بیقرار کیوں
وہ حسن عالم آرا جب تجلی بار ہوتا ہے
رندان تشنہ کام کو جاکر خبر کریں
قلب سے راہ ورسم رکھ، آنکھ کا آشنا نہ بن !
فریب نظر ہیں یہ سب اوج وپستی
جادۂ نو
تفیر فطرت
چراغاں
نوائے کار گر
خضر عروض
جادۂ نو
چراغاں
محضر
معروض مرتب
نوائے احساس
کر رہا ہوں بزم میں ماضی کا ماتم اس لئے
مقصود کار
ایک مولوی دوست سے
مجاہدان صف شکن بڑھے چلو بڑھے چلو
ترانۂ جہاد
خوفناک خموشی
فغان با اثر ہے بے زبانی فاقہ مستوں کی
فراغت کی شبوں میں خواب راحت دیکھنے والو
نفیر وقت
عید کے دن دید کے قابل ہے عالم کا نظام
مزدور کی عید
وصیت
ادھر دیکھ اے نشاط روح اے آنکھوں کے تارے سن!
ہسپتال
حفیظ جاویدؔ کی علالت سے تھا کچھ ایسا ملال مجھ کو
مگر وہ مفلس کہ جن کا کوئی جہان میں آسرا نہیں تھا
جو بقا ہے اسے فنا کیسی؟
دنیا
برسات اور مزدور
اٹھا ہے ابر پھر آئی ہے برسات
درد ناک گمراہی
چکرارہا ہے گنبد مشرق میں آفتاب
مجھے جلسے میں لیجانے کی خاطر دلنشیں باتیں
ہنگامی جذبہ
آج دیوالی کی شب ہے خلق میں رقصاں ہے نور
مزدور کی دیوالی
رباعی
تو نور بصارت سے ہے مطلق محروم
الہام سحر
ظلمتوں کا جب در تنویر پر جھکتا ہے سر
ایک اسٹیشن پہ ہنگام غروب آفتاب
دومائیں
فقدان معاش
ایک دفتر کی طرف کل ہوگیا میرا گذر
رباعی
اللہ یہ نیرنگئ فطرت کیا ہے
امیر ملک کے فقیر باشندے
سردی کے نکلتے موسم میں اللہ رے پھبن بازاروں کی
شعلہ افشاں ہے زمانے بھر میں گرمی کا شباب
لکڑہارا
اے غلام آباد! اے ہندوستاں ! اے بدنصیب!
مہمیز سخن
میری موسیقی پسندی
تری یہ بزم موسیقی مرے کس کام کی مطرب
الجھ پرنے کو ہے سیل بلا اے بے خبر تجھ سے
شباب
باغی کا خواب
شعر
دیکھے بہار میں کوئی بربادیاں مری
تیلن اور لیڈی
بج گئے ہیں دن کے دس گرما گیا ہے آفتاب
ناقوس بیداری
ہوشیار اے ہند، اے مفلوک، اے اجڑے دیار
مصروف گشت ہے کسی زر دار کی برات
برات
بے خبر! آبتاؤں کیا شے ہے
دیں بوسی
اے انیس دشت اے میرے بہادر ہم معاش!
ایک شکاری دوست سے
پایابئ فردا میں سفینہ کی نہیں خیر
امروز وفردا
دی ہے خالق نے تجھے دختر نہ ہوا ندوہگیں
میلاد دختر
کل تھا گرم گفتگو اس طرح اک احرام پوش
امید آزادی
کتا اور مزدور
روئے مشرق پر تجلی جلوہ گر ہونے کو تھی
تعمیر وتخریب
نصب تعمیر پہ تخریب کا پرچم کردے
طفل بیمار
کل سے ہے بیمار اک مزدور کا لخت جگر
رباعی
تحقیق کو بے سود سمجھنے والے!
دوپہر کی دھوپ ڈھلنے کے لئے تیار تھی
مزدور کا چالان
دعا کیا ہے شب زندہ داروں کا سکہ
سکے
عیاش حرم
تان سے قوال کی گونجی ہوئی ہے خانقاہ
ڈھل چکی ہے رات اور تو ہے ابھی ساغر بدست
ملت فروش شرابی
اے گروہ جاہلاں اے نامرادی کے شکار
مزدور وں کے جاہل طبقہ سے
جنت میں دوزخی
سری ؔ نگر میں نہ پوچھو ہوں شادیا ناشاد
موزوں نہیں یہ بزم ترانے کے لئے
رباعی
لاہور کے ایک کالج کے سامنے سے گذرتے ہوئے
کالجیئٹ اور مزدور
حماقت ہے یقیں کرنا غلاموں کی محبت کا
غلامی کی خصوصیات
دو آتشہ
وہ دل ہی کیا جو تسلی سے بیقرار نہ ہو
غزلیات
دیکھ کر پھول پہ شبنم تھا تبسم کا گماں
الاماں اے نگاہ شعلہ طراز
جلا ہے ہائے کس جان چمن کی شمع محفل سے
طور پر ہوش گنوا کر ترا جلوہ دیکھا
رات فیض چشم ساقی حیرت میخانہ تھا
اک نگاہ شوق کیوں ٹھہرے بھلا تقصیر وار
محتسب قصد عبث ہے مرے سمجھانے کا
پھر کوئی اعجاز اے ساقی دکھانا چاہئیے
زندگی میں اس کو کیف زندگی حاصل نہیں
یہ مانا ضبط کیا اور بر ملا نہ کہا
اٹھو عاشقوآرہے ہیں وہ شاید
صورت دوا کی دیکھ کے بیمار چل بسا
ہر گام پر ہزار نشان سجود ہیں
ہردم خیال جلوۂ جانا نہ چاہئیے
نہ جانے سحر یہ کیا تونے چشم یا رکیا
حوصلے مایوس ، ذوق جستجو ناکام ہے
جس کے دل میں ہیں ترے جلوے مکیں
ابر چھایا ہے برستی ہے گلستاں میں شراب
ادھر ترآنسؤوں سے اپنا دامن ہوتا جاتا ہے
دیدۂ عشق بھی ہے واحسن بھی ہے بہار پر
جھکیں کس کس کے آگے المدد اے خالق عالم!
آج بھڑکی رگ وحشت ترے دیوانوں کی
یہی شبنم کی بوندیں جو ہیں لرزاں سبزہ زاروں پر
جہان ضبط غم میں عام کیوں رسم فغاں کر لوں
ہر اک سروچمن پر چھا رہا ہے طور کا عالم
اٹھا ہوں اک ہجوم تمنا لئے ہوئے
تیری جنبش پہ ہے سانسوں کے تسلسل کا مدار
بہار آئی ہے پھر جھوم کر سحاب اٹھا
کیا فسوں تجھ میں نگاہ نرگس مستانہ تھا
سیماب دار ہے نگہ بیقرار کیوں
وہ حسن عالم آرا جب تجلی بار ہوتا ہے
رندان تشنہ کام کو جاکر خبر کریں
قلب سے راہ ورسم رکھ، آنکھ کا آشنا نہ بن !
فریب نظر ہیں یہ سب اوج وپستی
جادۂ نو
تفیر فطرت
چراغاں
نوائے کار گر
خضر عروض
جادۂ نو
چراغاں
Thanks, for your feedback
अध्ययन जारी रखने के लिए कृपया कोड अंकित करें। कुछ सुरक्षा कारणों से यह आवश्यक है। इस सहयोग के लिए आपके आभारी होंगे।