قرینہ
ادبی منشیات
مزاحیہ کسر نفسی
وغیرہ
وہم و گماں
بازار بھی ایک راستہ ہے
کیا ہے جو بھی کچھ اس سے سوا کرتا رہوں گا
کسی بات سے تھی ہر ایک بات جڑی ہوئی
نیلے پیلے رنگ بدلتی رہتی ہے
لگا نہیں جو تماشا، لگا ہی رہ جاتا
تنکا سا کوئی ایک پڑا ایک طرف ہے
پورم پور خزانہ خالی ہو سکتا ہے
کہیں پر ہے نشاں میرا نہ کوئی نام رکھتا ہوں
بار ہستی اتار دینا ہے
خود سے حیوان کو انسان سمجھنے والا
کسی موہوم کا جو یندہ بھی ہوں
بات بنتی نہیں، اتنا تو بتا تا آکر
کچھ تجھ سے شکایت ہی نہیں ہے مجھ کو
خاطر کے واسطے ہوں کہ خدمت کے واسطے
ثمر بھی ہے کبھی قسمت میں کیا حساب لگانا
اگر چہ بحث تو بیکار بھی نہیں کرتا
نتیجہ کچھ بھی ہو، سر میں کوئی سودا تو رکھا ہے
محبت کر ہی بیٹھے ہیں تو پھر اظہار کیا کرتے
مرے سامنے صلۂ سفر نہیں آرہا ہے
سفر خشکی پہ ہونا تھا، قدم پانی میں رکھتا ہوں
اس کے مقابلے کو اٹھا اور کیوں نہیں
اب زمیں سے نہ آسماں سے نکال
سخن آرائی میں کیوں اور کب کوئی نہیں ہے
زیادہ اثر ہونے والا نہیں
اس کے گلاب، اس کے چاند جس کی بھی قسمت میں ہیں
عشق میں اظہار ضروری نہیں
منکر ہے وہ تو اس کے سوا اور کون ہے
اپنا پیچھا نہیں چھوڑا میں نے
وہ ایسا کرنے والے ہیں کہ ویسا کرنے والے ہیں
تغافل اور کیا کچھ ہے، شکایت اور کتنی ہے
ابھی میں کسی کے برابر نہیں آ سکا
بیچ میں پڑ گیا سمجھنا کیا
نہ ہو سکنا جو پہلے تو دوبارہ اور ہو جانا
اپنے سمندروں سے جو اٹھتی ہوائیں ہیں
بات کہنی ہے جو کہتا بھی نہیں
کمرے میں ہو مڈ بھیڑ کہ زینے پہ ملاقات
کیسے نظر آئے کہیں امکان ہمارا
راہ کزر تاریکی میں ہے
پجھے ہوئے ہیں ستارے، زمیں چمکتی ہے
انکار بھی ایک راستہ ہے
بیابان ہوا آراستہ کوئی نہیں تھا
کبھی سیدھا کبھی الٹا نظر آتا ہے مجھے
پہلے جیسا اب نہیں
جو بھی تھا، بس فالتو تھا، جو بھی ہے، بیکار ہے
بات کرتا ہوں کہ گفتار کی گنجایش ہے
رہ جاتی ہے بس بیچ میں ہی بات ہماری
یہاں کے ساتھ نہیں یا وہاں کے ساتھ نہیں
جب طبیعت ہوئی دلگیر دوبارہ میری
ہنگامے کہیں ہیں پس دیوار ہمارے
رکا ہوا سہی، لیکن، اگر گزر جائے
پھر اؑٓواز لگانا بھولتا جاتا ہوں
میں آسانی میں ہوتا ہوں کہ دشواری میں رہتا ہوں
میں دشمنی میں ہوا سر خرو نہ یاری میں
کبھی ہجوم صفت صد ہزار سا میں تھا
سفر کی اک نئی تشکیل کرنا چاہتا ہوں
ہوا کے رخ پر کیسا بہتا جاتا ہوں
شور شرابے کی بہتات زیادہ ہے
مشکل ہوں تو آسان بھی ہو سکتا ہوں
برا ہے یا کہ اچھا کر رہا ہوں
اندر سے ہے درست، بظاہر غلط سہی
بھیک مطلوب ہے جس کو نہ صدا کرتا ہے
ہے دور قواعد سے نزدیک بھی لگتا ہے
مسئلہ میرا ہے، اٹھے گا نمایاں ہو کر
جو کہیں ہے اور ناموجود ہے
اصل کس قدر ہوگا اور گمان کتنا ہے
شہر خوابیدہ کے اندر نہیں جانے والی
کس طرح کا ہے کس کا ہے کیوں کر ستارہ ہے
اپنے سر پر سوار ہوں اتنا
دیکھتا رہتا ہے آنکھوں کی مثال آئنہ ہے
انہدام رہتا ہے
ڈرتا ہوں بیاباں میں نہ اب گھر نکل آئے
بجھی ہے آگ تو کیا ہے دھواں تو رہنے دو
چھوٹا تھا یا بڑا رہا
میسر جو بھی ہے اس پر گزارہ کیوں نہیں ہوتا
پہلے یہ گلہ تھا کہ محبت نہیں ملتی
خطا کاری میں سالم چیز کا بٹوارا کرتا ہوں
سرسوں، خواب، ہوا، تصویر
کبھی انکار بدل ہے کبھی اقرار بدل ہے
محبت ہے، مگر اس کو خبر ہونے سے ڈرتا ہوں
مرے چاروں طرف ہر دم برابر گھومتا ہے
وہ رنگ نہیں کھلتے، وہ ذات نہیں آتی
جا چکا ہے وہ مگر شام جدائی خوب صورت ہے
اس پر ہوا ے دل کا اثر دیکھنا تو ہے
شعر کی چھابڑی لگاتا ہوں
تیغ جفا کے سامنے آپ ہی ڈھال ہو گئے
ظفر اقبال کا ’’وہم و گماں‘‘
اطراف
نئے ذائقوں کے زخم
یہاں کم وبیش ہوں کہ اکثر نکل رہا ہوں
لاحقے اور لاؤ میرے لیے
کم خواب کی روش پر، پتھر کے راستے سے
کودا عشق ہمارے کو
پھو لوں سی کیا ریاں ہیں تو سبزہ ہے ساتھ ساتھ
ڈرتا رہتا ہوں ضرر سے اتنا
جو لپٹتا نہیں اسی کو لپیٹ
قاعدہ توڑ کیوں نہیں سکتے
کیا جاؤں گا تصویر تماشا کی طرف سے
شبہ سا رہتا ہے، یہ زندگی ہے بھی کہ نہیں
کمتر کے سامنے ہے نہ بر تر کے سامنے
کسی دن انتظار کارواں رکھتا ہوا ہوں
بڑھ گئی اور کہانی آگے
مت سمجھو زین ہماری ہے
نئے سرے سے اس کو بسانا چاہتا ہوں
تماشا ہو رہا ہوں یا تماشا کر رہا ہوں
لہر سی ٹوٹ گئی ہے مجھ میں
بہتی ہوئی چاروں طرف آواز پگھل کر
بیٹھے بیٹھے کھو گیا
ہاتھوں ہاتھ اب تو ہے لیتی دنیا
لفظ پتوں کی طرح اڑنے لگے چاروں طرف
سوئے سوئے ہوئے الفاظ
اک اور شور سہی اس کے جی میں آیا ہوا
جہاں لمحۂ شام بکھیر دیا
کیا کچھ بھی نہیں ہے، اور، معافی چاہتا ہوں
انکار زمیں ہے کہیں اقرار زمیں ہے
کاغذ پر اک باغ بنایا کرتا ہوں
لیے ہوئے لاچاری کو
ہر سو کیا جھولتا ہے مصرع
پتا چلتا خبر ہونے سے پہلے
میں تو ہوں آواز کرنے کے لیے
گفتگو کا تکلف اٹھانے والا ہوں
ڈر رہا تھا کہیں جاتا ہوں ہو جانے سے
چھوڑی حلوہ پوڑی میں نے
روز میں اپنے کنارے تک چلا جاتا ہوا
کن چیزوں کے لیے تر ستا رہتا ہوں
جہاں میری کبھی تیری پڑی ہے
نہ ہمارے نہ تمھارے جھلمل
لفظوں کو لٹکا دیتا ہوں
چار سو پھیلا ہوا چوکور ہے
یہ کس اینٹ پتھر سے پیراستہ ہوں
کسی نقش کی ہے خبر نشان کے درمیاں
سماں دھوپ کی دھار کا
پہلا نہیں، دوبارہ والا
بالآخر حال سے بے حال کرکے
پکڑے گئے ہاہا کاری میں
یوں اگر دیکھو تو ظاہر میں غبار امکان ہے
ذکر اس کا ہی کیا کرتا ہوں
کچھ رابطے رہے قریبی سے
برا ہوتے کہ اچھا ہوتے ہوتے
دولت خود رہی روانی میں
جو آن کے ہمسایے ہمارے میں رہیں گا
سارا دانہ پانی لے گئے
کہے کو چھوڑ دیا، ان کہے کو چھوڑ دیا
راستے سے جو گزرتا ہوا ہو جاتا ہوں
ملے جلے منظر کرنا
سورج اوپر نیچے سا ہونے لگتا ہے
ابر ہے ٹھنڈی ہوا کے ارد گرد
بے عیب رہ گیا تو ہنر کیسے آئیں گا
دکان بڑھا ہی دوں گا اک دن
کچھ میٹھا، مسا ہو جاؤں
ٹوٹنے پھوٹنے سے پہلے ہی
مرے الفاظ ہیں سب کچھ معانی کے بجاے
سنیں گے آپ بھی شاید نئے طریقے سے
جہاں سے خود بھی سلامت نکل نہیں سکتا
مرا بھی عکس لرزتا ہو سبز آنکھوں میں
جہاں ملا وہ مجھے، خود وہاں پہ تھا ہی نہیں
بھگت رہا ہوں میں جو ہے مرے مقدر میں
سروں کو ڈھانپ تو رکھا ہے بے طریقہ ہی
مجھے بسانی پڑی اپنی ایک الگ دنیا
جو بے طریقہ ہی سب کا میاب تر ہیں یہاں
ادب تو خوب روا رکھتا ہوں مگر، اس کو
جو اڑ بھی سکتا ہے کچھ دیر میں کسی جانب
یہاں تو پوچھ بھی سکتے کہ ہم سب کو
جب پیچ پڑا ناکامی سے
لوٹ کر آنے لگا ہونے لگا ہوں
رنڈی نہیں چاہتا ہوں ، بھائی
بھلے ہی اتنا وہ بھولا ہے اور بھاونا ہے
پیچھے پیچھے آتا ہوں
تقاضا ہو چکی ہے اور تمنا ہو رہا ہے
میں جو کچھ شور وغوغا کر رہا ہوں
طبیعت رک گئی ہے پھر رواں ہونے کی خاطر
کوچۂ خواب میں جاتا ہوا ہو سکتا ہوں
گزرتی رات جس دوران رک جاتی ہے ڈھل کر
وہ ستارہ وار سا شام ڈھلتے ہی بے تکان بچھا ہوا
مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
ہے ہنومان
آتو بھی دیکھ تاب تماشا تجھے بھی تھی
ہنومان جی اور ہم
تاج ہے سر پر ہنومان کے
دم کی اپنی شان ہے
بال ہوئے پوشاک
کاندھے پر گرز جمائے ہو
لگتے ایسے ویسے ہو
جرأت سے کچھ ڈرتے کچھ
یہ جڑی بوٹیاں ہی کیا لائے
ٹھیک ٹھاک انسان ہو
جس بندریا سے گئے ہو پھنس
ہنومان کو پکڑا پیر
پل میں کہاں گئے ہنومان
سب سے آگے آگے آئے
میرے جیسے ہیں کہ تمھارے جیسے ہیں
کچھ تو ہلو جلو ہنومان
سچائی کی صدا کچھ ہو
قسمت کھوٹی ہے، ہنومان
تاج کہاں سے پایا تم نے
جیتے جی اب مرو بھی
قائم سے ہیں، ڈولے سے ہیں
ہنومان نے کھولا پب
ہنومان جی، بے مثال سے کیوں ہیں
بے ہتھیارے لڑتے ہو
آدھا سچ اور آدھا کھوٹ
دو ہی پانو پر کھڑے ہوئے
سنا نہیں تھا ایسا ناچ
سوئیں کبھی ہمارے ساتھ
سپنا دیکھا پاپ کا
ہنومان کی پوجا کر
جنگل جنگل شور ہے
آہنومان
کب چھوڑو گے جان جی
بندر تھورا ہنومان
بندریاؤں سے پرے ہیں
بن پر کوئی مصیبت آئے
آنکھوں سے دیکھے ہنومان
آؤ! پکاریں ہنومان کو
ہیں شرمائے ہوئے ہنومان
ہاتھ سے نکلا جائے زمانہ
آدھی رات سمے ہوگی
ہنومان ہم سے شرمائے
تھے ڈرتے ہنومان سے
چاروں سمت اسی کا نرم نظارا ہے
ہنومان کا رتبہ عالی
آخر کیا ہوگی ان کی مجبوری
آخر ہم یہ کب تک سنتے جائیں
پیڑ پہ چڑھ کر پیڑ ہوگئے
آبادی سے ہوگئے تنگ
مہک رہی ہے گھاس
پھٹی جرابیں ہنومان کی
جتنی کیجے چھان پھٹک
میں سمجھا تھا ہوں بس میں
جھنڈا کیا یہ گاڑا میں نے
میں تو ہوا ہوں گم
بڑی ہی مشکل سے جا کھو سے
ملا جو انگ بھبھوت
بندر جاتی وہی ہے سڑؒتی گلتی
آپ بھی اب رستے سے ہٹنے والے ہیں
کچے سے کچھ کاٹھے سے
تھی مشہور بھگوڑی
آپ سے اب کیا بولیں، صاحب!
رشی ولی رہنے نہ دیا
سارے بیٹیاں بیٹے
لٹے ہوئے دردانہ کے
جب بھی ہوئے متلاشی
صاف خدا کی مار پڑی
تھی اتنی نا چاتی
رہتا ہوں ہنومانوں میں
تھامی جب کلہاڑی
ہر ناری پر لٹو ہونا
چاروں جانب دیکھا بھالا بندر
سب سے اونچا ہے ہنومان
ہنومان، سپنے میں آؤ
بھگت بنے ہو رام کے
نسدن ٹیڑھی ہنومان کی دم
ہنومان جی بڑے ہیں
اپنے ہونے کی سزا تھی
کچھوا مارا، پری نکل آئی
منہگائی اتنی ہنومان!
چاند پہ خوب جھپٹ سکتے ہو
توڑیں جنگل کی جیل اک دن
جو ہنومانی ہیں
بچپن ہی میں گزر گئے تھے
بھگتی میں بھگوان تھا
ادھر ادھر بھی جاتے ہو
ہنومانی اشارہ ہو رہا ہے
ہنومان ہرجائی سے
ہر آن ہنومان
سب کے ساتھ ہی بھاگے ہو
آپ تو ہیں چار دانگ
بدلے جنگل کا قانون
گھوڑ بازرای ہے کیا
پہنے ہوئے وہ گہنے سے
ایک سے ہے دو تین
رٹے ہوئے کچھ ہوتے ہیں
آگے جاؤ تو ہرا
کھا کر سب کا حق
کرتے کرتے غل
بیٹھے ہوئے لگا کر ٹیک
پتنی کو دیکھا توجھٹ
تفاوت
پیرتے پھرتے یہ دل میں کبھی دالان میں ہاتھ
یہ جہاں آدھا فقط آہنگ سے پیدا ہوا
اے میرے سوا ساری دنی کے رب
اگر منہ نہ موڑو ہماری طرف
جھگڑے کچھ اس طرح سے کہ جھگڑا کیا خراب
جھوٹ سچ کو دیکھ لیتے، یہ تمھارا کام تھا
یوں تو دیوار ہوا کے ساتھ سارا خواب ہے
جہاں بھی میرا نشاں تھا وہاں اڑی مری خاک
بور آیا تو مہکنے کی صدا آئی مجھے
ہے بظاہر تو کافی اچھا مال
اب سوجھتی ہے سمت ستارے بغیر بھی
کسی صبح سفر کی شام کرنا چاہتا ہوں
تھک ہار کے رکنا کہ لگاتار میں چلنا
زمیں ششدرتھی، اور، برباد ہونا ہو چکا تھا
میرے کی بدولت نہ تمھارے کی بدولت
مشکل تھا کسی اور حوالے سے چمکنا
اقرار میں جھلمل کبھی انکار میں جھلمل
ہوا نہ ہو بھی تو شام و سحر لرزتا ہوں
کچھ اب تو آب وہوا چاہیے کہیں نئی ہو
غیر مانوس، نئی، اور طرف سے آتا
ختم ہو گئی ساری چاے
کاغذ پہ کوئی لفظ اتارا ہے زبر دست
سفر میں اس دفعہ چاہو گے جیسا سامنے ہوگا
ہوا ہوں پہلے تو اس کائنات سے باہر
دل اس طرح بھی ترے خواب سے نکلتا ہے
ہمیشہ رنج سفر کے غبار میں ہونا
ہوا اقرار تو انکار کے اوپر سے ہوا
میں اس کے ساتھ ساتھ، کوئی میرے ساتھ ساتھ
اگر چہ کہنے کو یہ موت بھی نہیں ہرگز
ضد ہی کام آتی نہ اصرار بہت کام آیا
خوش بھی نہ ہوئے اتنے ملاقات کے برعکس
تھی بھی تکلیف اگر کوئی تو چارہ نہ کیا
اپنی ضد سے نہ کسی اور سہارے پہ کیا
مجھے مارنے کو جو بیل آگیا
کچھ ایسے لگتا ہے باہر بھی اپنا گھر کوئی تھا
ہمیں ادھر کبھی ہونا نپیں، جدھر کوئی ہے
اگر کبھی ترے آزار سے نکلتا ہوں
ہمارے سر سے وہ طوفاں کہیں گزرگئے ہیں
ہمیشہ کے لیے سینے میں سو بھی سکتی ہے
کچھ بیاں کرنے میں، اور، کچھ سوچنے میں رہ گیا
جیسے میرے ہی ٹھکانے کی طرف سے آیا
سر بسر اپنے برابر سے نکالا ہے کہیں
شاید اپنے ہی کسی کام سے باہر نکلا
پرندوں، بادلوں کے ساتھ مل کر ایک ہونا
جو میسر ہی نہیں، شاید وہ مہلت کام آئے
کبھی اوّل نظر آن، کبھی آخر ہونا
وہی مرے خس و خاشاک سے نکلتا ہے
مصیبت مستقل سر پر کوئی طاری تو رکھتے ہم
سینۂ دشت سے اک چشمہ ابلتا ہوا ہے
بچہ یوں بھوک سے نہ مرتا
شعلہ اوپر سے کبھی اور طرف سے آیا
رنج اگر ہے بہت اس کا نہ ہو کر مجھے
لٹکی رہی کچھ روز جو عجلت کے بجاے
یہاں پہ عیب سخن بیشتر کسی کا نہیں
نہیں کہ دل میں ہمیشہ خوشی بہت آئی
پڑا ہوا تھا کسی خوش نما کے ایک طرف
یہ نہیں چون وچرا قابل غور
ہو رہا ہے جو تماشا سردست
اک فضا چاہیے ہے
باغ کا باغ ہی تھا قابل دید
چھتوں پہ چڑھ کے برابر پتنگ اڑاتے ہیں
فقرہ جو ہے ابھی اسے مصرع بناؤں گا
چھت کا پنکھا چل رہا ہے
بات مشکل ہے، نظارا بند ہے
طعنہ سا گمرہی کا
آر سے پار کسی اور طریقے سے ہوا
تھوڑا بہت جواب و سوال اس کے ساتھ ہے
جوبوڑھا ہوں تو کیوں دل میں محبت زور کرتی ہے
جڑا ہوا تھا میں اس خاکداں سے پہلے ہی
ہو جیسے چہرہ کوئی خدّوخال سے خالی
جھوٹا کہنا چاہتے ہو
پاس ہونے بھی نہ دے، ہونٹ بھگونے بھی نہ دے
بر ملا لکھی ہوئی ہو، یا زبانی چاہیے
پائے ہوئے اس وقت کو کھونا ہی بہت ہے
رہے کچھ راہ سے ہٹ کر، کبھی تھے راہ کے اندر
سمندر کا کنارہ دیکھنا کافی نہی تھا
کسی پیاس کی پاسبانی میں ہے
تھر تھری بھیلی ہوئی ایک زمانے تک ہے
سبزہ تھا، اور، باغ تھے صحرا کے دائیں بائیں
اکیلے کیا کبھی گھر میں کبھی دفتر میں ہونا ہے
یہیں کہیں تھا، مگر، ہمارے لیے نہیں تھا
رستہ بھی ہو جیسے کہیں دیوار کے برعکس
منت کے باوجود، منانے کے باوجود
نہیں کہ تیرے اشارے نہیں سمجھتا ہوں
ملا نہیں تو چھینا ہے
کبھی غبار میں ہوں،، اور کبھی فشار میں ہوں
گرنے کی طرح کا نہ سنبھلنے کی طرح کا
یہی نہیں کہ دل زار سے الجھتا ہے
اگر چہ اور بہت انتظار میں کچھ تھا
منزل خواب دوام آگے ہے
جو سلسلہ سا بظاہر دن اور ات کا ہے
نکال لائے ہیں جانے کہاں کہاں سے مجھے
کوئی آتا ہمارے راستے میں
اتا پتا کرتے رہنا
کسی روک میں کسی تھام سے اسے روکنا
کس کے روح و رواں تھے
ہے جو میرا ہی اثر شامل حال
نزدیک و دور یوں ہی خدا ہے بذات خود
آنوں والی، شانوں والی
اندر کی سمت وسعت صحرا تو ہوئے گی
حق بات ہے افسانہ و افسوں کے مقابل
عالم خواب میں بہتا نہیں دریا فی الحال
وہ کچھ ایسا مرے مخالف ہے
پیچھا خمار کا ہے نہ آگا خیال کا
کلام ہوتا ہے اپنا بھی دل گدا ختیہ
ویسے بھی راستے میں ہی پڑتی دکان ہے
کہاں گئی وہ امید موہومہ، او معصومہ!
کوئی اپنی تھی ادا اس میں، کوئی اور کی تھی
زمیں کا رنگ ترے آسماں میں شامل تھا
ساتھ اپنے کوئی غم ہے نہ خوشی رہ گئی ہے
نہیں کہتا کہ زیب داستاں ہونے دے مجھ کو
پلٹا نہیں شام کا کبوتر
فسوں طرازی میں سو فسانے نکالتا ہوں
نہ اس کو بھول پائے ہیں نہ ہم نے یاد رکھا ہے
سرا سر اہل دنیا سے کبھی بیزار ہو جانا
میں اتنے تنگ جو ہر لحظہ ہائے وائے سے ہم
زندہ بھی خلق میں ہوں، مرا بھی ہوا ہوں میں
سب کو معلوم ہے تو نے ہمیں کتنا چاہا
جو توڑتا ہوں، مکرر نہیں بناتا ہوں
ہوا بدل گئی اس بے وفا کے ہونے سے
اس فضا میں نئے لفظوں کی جو پروازیں ہیں
ترتیب
صورت اشک تپاں ہوئی ہوئی
کچھ زاویۂ دنیا تو نیا ہو
کہیں میرے ترے سوا کوئی ہے
یونہی اک دوسرے سے کب جدا ہوتا ہے کوئی
یہاں سب سے الگ سب سے جدا ہونا تھا مجھ کو
نئی تحریر فلک سے کوئی جاری تو کرے
دور رہ کر نہ ، اسے پاس بلانے سے کیا
چلو، کسی بت رعنا پہ ہاتھ ڈالتے ہیں
چشم روزن نہ کسی در کی طرف سے آئی
کب سے رکی ہوئی جو ملاقات کوئی ہے
سنبھل گئے ہیں، شکایت بہت زیادہ نہیں تھی
امید عاقبت کا رکے برابر ہے
بظاہر صحت اچھی ہے جو بیماری زیادہ ہے
نت نئے خواب دکھانے کی طرف سے آیا
خورجین سے بندھی ہے خبر، خواب ساتھ ہے
پھیلا ہے چار سو جو تماشا بھی دیکھ لوں
تجھے پانا جو ایسا ہو، تجھے کھونا ہی ایسا تھا
کوئی کیا اوڑھتا اس کو بچھونا ہی کچھ ایسا تھا
پھر کوئی شکل نظر آنے لگی پانی پر
کیا تماشا ہے کہ اب تک بھی وہی کرتا ہروں
برسنا ہے کہیں اس کو نہ کھل کر چھانے والا ہے
سحر سے پیشتر ہی رات میں نے ختم کر دی ہے
غلط کیا ہے مرے ہونے میں، کیسا ہوتا جاتا ہوں
پردۂ شب سے پرے چاند جھجکنے لگا
دل بجھ گیا تو کیا ہے کہ دنیا تو ہے ابھی
اگر اب بھی مری عزت نہی ںکی جاسکتی
کرنے سے زیادہ ہوں نہ کرنے میں نمودار
موسم ہواؤں کا مرے اندر نہیں کھلا
باقی تھا ابھی دن کے بجی رات کی نوبت
مرے خیال میں جنگل گھنا بھی ہوتا ہے
رکاوٹ پڑی ہے، روانی ملے
جو شور سا کوئی میری صدا کے اوپر ہے
جیسے کتاب میں سوکھے پھول کی ایک مہک رہ جاتی ہے
جلدی ہی ٹل گئی جو مصیبت ہی نہیں تھی
مشکل میں پڑا ہوں کسی آساں کی بدولت
پہنچنا ہے مجھے دریا کنارے راستے پر
حسن اتنا ہے کہ بس دیکھتے جاؤ!
ہیں صرف کناروں ک نہ دھاروں کے مخالف
سر بھی میرا نہیں، وحشت بھی کسی اور کی ہے
کس طرح کا یہ ظفرؔ ذوق نمو آگے ہے
شیشے کی شباہت کوئی پتھر سے نکالوں
دیتے آواز کبھی میرے پکارے ہوئے خواب
تنہا یہ بار خواب اٹھانا پڑا مجھے
دکھایا اور کچھ تھا اور اب کیا دے رہا ہوں
کہیں اپنی رسائی میں تو وہ بے شک نہیں تھا
حسرت لیے پھرو، کبھی حیرت لیے پھرو
قیامت آنے والی ہے یہ سارا کیا بنے گا
کہیں تو جائیں جو یہ راستے نکالتا ہوں
رونا جو ہے جڑا ہوا گانے کے ساتھ ساتھ
کفر سے یہ جو منور مری پیشانی ہے
قافلے میں کہیں شامل بھی نہیں ہو سکتا
منظر کوئی اس کہنہ فضا سے نہیں نکلا
سر بسر محسوس اپنی ہی کمی ہونے لگی ہے
کف ہوا نہ کسی آئنے کو ملتا ہے
رکا ہوا ہوں کہ آگے کہیں رواں ہوں میں
سننے کے لیے ہوں نہ سنانے کے لیے ہوں
لگ رہا ہے یہ محبت کا تماشا کیا کیا
آر میں آئی ہے، پار میں آئی ہے
غلط بھی ہونے سے انکار تو نہیں کرتا
میرے شش جہات کی ہاوہو کے علاوہ ہے
کچھ دنوں سے میری ہر جانب جو حیرانی سی ہے
کبھی کسی کا ہماری کتاب میں ہونا
کرتے تو ہیں سبھی وہ حماقت جو ہم نے کی
کچھ اس نے سوچا تو تھا، مگر کام کر دیا تھا
آنکھوں کو آہٹوں پہ جمانے سے آئے گا
کرتا ہوں سفر راہگزاروں سے بہت دور
آْوارۂ سفر ہوں ٹھکانا کہیں نہیں
کہتے رہو، باتوں میں اثر کچھ نہیں آنا
کیا اتر اائے سارے مرے ہر طرف
اپنی جو اس کے ساتھ عداوت ہی رہ گئی
تسلیم بھی کیا اسے، بیعت بھی ہم نے کی
گھر بھی مطلوب ہے، آنگن بھی مجھے چاہیے ہے
سفر کااپنے بہانہ ہی اور ہوتا ہے
کوئی اس کی خبر نہیں آئی
تھوڑے تھوڑے سہی، سارے نہیں تھے
جہاں قیام ہے اس کا، وہیں سے ہٹ کر ہے
براے نام ہے یا سر بسر محبت ہے
دھند میں دھوپ سی کھڑکیوں سے نکل آئی ہے
نفع ہے یا ضرر ہے، یا کچھ اور
اگثر تو یہ افتاد طبیعت نہیں پڑتی
خسارہ جانچنا ہے، اور، منافع دیکھنا ہے
گھر میں ہوگا کوئی زخموں کے سوا اور چراغ
نکل نہیں پاؤں گا جہاں جا کے پھنس گیا ہوں
محبت سے مکر جانے کی گنجایش نہیں ہے
دریا دور نہیں، اور، پیاسا رہ سکتا ہوں
صرف آنکھیں تھیں، ابھی ان میں اشارے نہیں تھے
ویسے تو بھرے شہر میں کیا کیا نہی چلتا
جو سامنے نہیں، لگتا بھی تیرے سامنے ہے
جو کچھ باتیں بتانا چاہتا ہوں
ہم نے سامان سفر میں تری حسرت رکھ لی
رفتہ رفتہ کسی راکھ میں ڈھلتا رہتا ہے
اسے خبر نہیں جو اتنا لاتعلق ہے
کھلتے ہیں جب آشفتہ بیانی کے معافی
کوئی گرا ہوا منظر سنبھل کے دیکھتا ہوں
یہ کیا طراوت دریا سے واپس آیا ہوں
جو خوش ہو رہے تھے، خفا کر دیے ہیں
جیسا بھی ہے احوال، سنانے کے نہیں ہم
نیا ہے یا پرانا، کچھ پتا چلتا نہیں ہے
کوئی بتاؤ، کہاں اور کدھر گزار چکا ہوں
جیسے ہو کسی دشت سے آہو کا نکلنا
زمیں کم ہے تو جا کر آسماں پر چومنا ہے
یہ کشف سب کے لیے عام بھی نہیں ہوتا
کسی طرح کا کوئی اہتمام بھی نہیں تھا
پانا ہے کوی چیز نہ کھونا کیس کے ساتھ
ممکن ہے کہ وہ صاف اشارہ بھی نہ سمجھے
مواد جو بھی ہے سارا کہاں سے آتا ہے
بہت مصروف ہوں چھوٹا سا کوئی گھر بنانے میں
نہیں معلوم کہ ہے کس لیے ہونے والی
یہ آنکھیں اور ہونی تھیں، تماشا اور ہونا تھا
ہم نے کاغذ پہ اگر حشر بپا کر لیا ہے
پھر کوئی سعی سخن ساز کہیں سے کریں ہم
بات ایسی بھی کوئی نہیں کہ محبت بہت زیادہ ہے
گماں گزر نہیں سکتا ہے، خواب آنہیں سکتا
ہر طرف پھیلتی خوشبو کی حفاظت کرنا
دور ہی دور ترسنے کی ضرورت کیا ہے
نہ جینا چاہتے ےہیں، اور نہ مرنا چاہتے ہیں
اندر سے دیکھتا نہ ہی باہر سے دیکھتا
اس حاضر و غائب میں خلل ہے مرا ہونا
جواب اور بھی دینا محال ہو گئے ہیں
بھلا سا تھا کوئی، میں اس کا نام بھول گیا ہوں
کسی لرزتے ہوئے ستارے پہ جار ہا تھا
تماشا
تھی اگر ختم تو پھر بات بڑھائی کیوں ہو
ہنسی ہنسی میں جو اس رات وہ جدا ہوا ہے
زمیں پہ ایڑی رگڑ کے پانی نکالتا ہوں
شدید شور کے اندر، غبار کے نیچے
نفع سمجھو اسے یا خسارہ، بس اتنا ہی تھا
وہ خواب انتظار بسر ہی نہیں ہوا
ہوا تھی، اور، گرہ در گرہ خیال اس کے
ہجر کے سارے عذابوں سے گزر جانا ہے
مجھے شام تماشا سے نکالا کس لیے ہے
چاند سا کوئی لب بام بھی آجاتا ہے
یہ دنیا ہے تو پھر اس کے کنارے کون سے ہیں
سانسیں جو ہوئیں ختم، ہوا نے مجھے دیکھا
کشتیاں رہتی ہیں دھارے سے الگ
کیسے کیسے منظر مہتاب تھے چاروں طرف
فتنہ اٹھا ہوا اس کے قدو قامت سے بھی تھا
جہاں نہیں کوئی اس خاکداں کے چاروں طرف
دنیا کی طرف سے، کبھی عقبیٰ کی طرف سے
دھویں میں لتھڑی ہوئی گفتگو زیادہ ہے اب کے
کچھ اب کی بار بطرز دگر نکال رہا ہوں
سفر کیا نہیں، رنج سفر وہی کچھ ہے
سخت مشکل ہے کسی اور طرح کا ہونا
اک بار الجھ کر وہ دو بارہ سے الجھنا
ہے راس بہت اپنے ہی آثار میں ہونا
اپنے مشاغل سے یوں آپ جو فرصت میں ہیں
وہی دریا تھا، مگر، اور ہی گہرائی میں تھا
اس مرے جسم نے اب تک تو سنبھالی مری جاں
شرم سے دور، شرافت کے بغیر
مصیبتوں کے مضافات سے نکال دیا
جھڑپ، اور جھگڑا تو ہونا ہی تھا
شاید کسی موہوم اشارے پہ کھڑا ہوں
ملتا نظر آئے بھی تو حاصل نہیں کرنا
دور و نزدیک بہت اپنے ستارے بھی ہوئے
نا چار اعتبار تمہارا ہی کرتے ہیں
قیمت سے پرے، خواب خریدار سے ہٹ کر
بھول بیٹھا تھا، مگر، یاد بھی خود میں نے کیا
خیال اندر خیال کرنا پڑے گا اس کو
باہر کے علاوہ ہے کہ اندر کے علاوہ
یہ عمر گزرتی مرے منشا کے مطابق
اہل دنیا سے تو اتنا ربط کیا رکھتے تھے ہم
اس دل کے اندھیرے میں تری رات سے آگے
مہر بانی نہ عنایت کے لیے دیکھتا ہوں
ہجوم جمع ہوا اس کو دیکھنے کے لیے
رونق راہ گھٹی ہے نہ تماشا کم ہے
کیا خبر سلسلۂ ناز ہی بدلا ہوا ہو
جہاں کھڑا ہوں بہت ہی وہاں سے آگے ہے
دیکھو تو کچھ زیاں نہیں کھونے کے باوجود
ٹوٹتی کیوں نہیں، دیوار کے اندر کیا ہے
بات جب ہے جو کسی کی بھی رسائی ہوئی ہو
فقط الفاظ ہیں، الفاظ کی تاثیر غائب ہے
دل کے اندر جی سکتی ہے، مر سکتی ہے
پرانی بات کا کوئی نیا مفہوم لینا ہے
کس طرف ، اور کہاں آگے ہے
نظر سے دور وہ رہنا، نظر بھی آجانا
جتنا حاصل تھا ہمیں اس سے سوا چھوڑ دیا
محبت کا اعلان کرنا پڑا
یہ بھی ہو سکتا ہے باتیں سبھی مانے ہوئے ہوں
ہم نے آواز نہ دی برگ و نوا ہوتے ہوئے
میرے جانے، ترے آنے پہ نہیں ہے موقوف
نفرت ہے کہ نخرا ہے، ابھی کچھ نہیں معلوم
باہر حساب تھا کبھی اندر حساب تھا
آگ پکڑی ہے تو شعلہ سا لپکنے لگے ہم
اس کی بابت کبھی سوچا ہی نہیں کرتے ہم
باہر کے رنگ چھوڑ کے گھر واپس آئے گا
یہ بھی ممکن ہے کہ آنکھیں ہوں، تماشا ہی نہ ہو
تھا اپنے ہی اندر کے اشارے سے نکلنا
نت نئے رنگ بدلتے ہوئے آثار سے تھی
غبار دل مری چشم ہنر میں کیا رہتا
سنگینی صدمات کے مارے کی طرف سے
ہمارا جمگھٹا ہے یا تمھارا جمگھٹا ہے
مطلب اب مائل پرواز تو ہونے لگا ہے
اس کے علاوہ اور بھی ہیں اس خدائی میں
کہیں آسکنے والے ہیں نہ ہم جاسکنے والے ہیں
کشاکش میں نہ ایسی نا صبوری پر کھڑے ہیں
عجیب ذکر تھا، اور، داستاں میں چھوڑ دیا
عشق یہ کیا ہے کہ ہوتے ہوئے سائل تیرے
نظر آتے ہیں سر ہی سر، سو، اتنا جمگھٹای ہے
دل تو بیگانہ ہے، دنیا بھی کسی اور کی ہے
کچھ آتش معینی میں پگھلتا بھی نہیں ہوں
کسی کے وصل کا سامان تو نہی کیا ہے
میں نے کب دعویٰ کی اتھا، سر بسر باقی ہوں میں
باہر نہیں رہا کبھی اندر نہیں گیا
ہوا ہی اور ہے، بچے سیانے ہو چکے ہیں
ابھی نہیں کوئی غم، روزگار چلتا ہے
بدن بہار ہے یا پیرہن تماشا ہے
اس آئنے میں جھلکتے ہی، دل دھڑکتے ہی
کسی بھی طرح سے اقرار تو نہیں کیا تھا
ڈھونڈو مجھے نہ میرے ٹھکانے کے آس پاس
سمندروں میں سراسر پہاڑ جھونکتا ہوں
جھگڑا کبھی خود سے ، کبھی دنیا سے رہا ہے
میں ہوں براے نام، ہوا ہے براے نام
اثر بھی ہے تو کوئی شے اثر سے غائب ہے
ناکام ابر و باد کی سازش نہیں ہوئی
بے نشاں تھا وہ، اگر، اس کو نشاں کیسا کیا
کچھ نہ کچھ گرتی ہوئی ساکھ سنبھالی ہوئی ہے
یہ سہولت ہی کوئی ہے نہ سہارا ہونا
جو سمندر ہے اسے کس لیے ساحل کرنا
ہاتھوں سے اس کے چہرے کو پیالہ ہی کرتے ہم
جسے ہم ڈھونڈتے ہیں وہ کہیں پر بھی نہیں ہے
بظاہر زنگ پیدا کر رہا ہوں
تماشا ہونے والا ہے نہ وحشت کرنے والے ہیں
کیا تو ہوگا، مگر، دوبارہ نہیں کیا تھا
جو بھی ہے شب وصل کا ہنگام بہت ہے
جہاں خواب کی کوئی خامشی ہے مری صدا سے جڑی ہوئی
گراں جانی وہی ہے، اور، سبکساری نہیں آئی
محبت ہو چکی، ملنا ملانا رہ گیا ہے
پھر سر راہ کسی دوست کے مارے ہوئے ہیں
کبھی آکر وہ اگر شکل دکھا جاتا ہے
غم زلف سیہ میں اس دل رنجور کا گھلنا
کچھ ایسا ہے کہ اس کو بے سبب چاہوں جہاں چاہوں
شاہنشہ زماں کا جو فرمان جنگ ہے
آئیں گی ہر طرف سے صدائیں نئی نئی
میری طرف جو اس کا ذرا سا جھکاو تھا
پھر وہی دائرۂ کار سے باہر ہونا
ہجوم شہر کی حالت بیاں ہی کر سکتا
کچھ ڈوبنے کی ہے نہ ابھرنے کی اطلاع
دل ہے کسی گماں کے یقیں سے بھرا ہوا
دیکھا پھر اس کو دھوپ کنارے پڑے ہوئے
خواہشوں کے جو مخالف تھے نہ خوابوں کےخلاف
چراغ بجھ گئے سارے، چمن خراب ہوا
ہماری تمہاری ملاقات چمکی نہیں
کئی دن سے یہ کیسے آئنوں میں آرہا ہوں
تمہاری رات کا ہوں آج بطی تنہا مسافر
ستارے گنتے گنتے دن نکل آتا ہے اکثر
ابھی تو لوگ ہیں اور شور ہے میرے پس وپیش
نہ جانے کب سے اشیاے ضرورت کی طرح سے
مرے درجات برھتے جا رہے ہیں رفتہ رفتہ
درختوں اور درندوں پر مصیبت کی گھڑی ہے
جہاں سارے کے سارے خون کے پیاسے ہیں میرے
مجھے لے جائے گا کتنی بلندی پر بہ ہر حال
گھروں کو چھوڑنے والوں سے میرا رابطہ ہے
مرے رخ اور بھی ہیں غور سے دیکھو تو جانو
کہیں عمر گذشتہ کی سبھی برکات لے کر
عرض ناشر
قرینہ
ادبی منشیات
مزاحیہ کسر نفسی
وغیرہ
وہم و گماں
بازار بھی ایک راستہ ہے
کیا ہے جو بھی کچھ اس سے سوا کرتا رہوں گا
کسی بات سے تھی ہر ایک بات جڑی ہوئی
نیلے پیلے رنگ بدلتی رہتی ہے
لگا نہیں جو تماشا، لگا ہی رہ جاتا
تنکا سا کوئی ایک پڑا ایک طرف ہے
پورم پور خزانہ خالی ہو سکتا ہے
کہیں پر ہے نشاں میرا نہ کوئی نام رکھتا ہوں
بار ہستی اتار دینا ہے
خود سے حیوان کو انسان سمجھنے والا
کسی موہوم کا جو یندہ بھی ہوں
بات بنتی نہیں، اتنا تو بتا تا آکر
کچھ تجھ سے شکایت ہی نہیں ہے مجھ کو
خاطر کے واسطے ہوں کہ خدمت کے واسطے
ثمر بھی ہے کبھی قسمت میں کیا حساب لگانا
اگر چہ بحث تو بیکار بھی نہیں کرتا
نتیجہ کچھ بھی ہو، سر میں کوئی سودا تو رکھا ہے
محبت کر ہی بیٹھے ہیں تو پھر اظہار کیا کرتے
مرے سامنے صلۂ سفر نہیں آرہا ہے
سفر خشکی پہ ہونا تھا، قدم پانی میں رکھتا ہوں
اس کے مقابلے کو اٹھا اور کیوں نہیں
اب زمیں سے نہ آسماں سے نکال
سخن آرائی میں کیوں اور کب کوئی نہیں ہے
زیادہ اثر ہونے والا نہیں
اس کے گلاب، اس کے چاند جس کی بھی قسمت میں ہیں
عشق میں اظہار ضروری نہیں
منکر ہے وہ تو اس کے سوا اور کون ہے
اپنا پیچھا نہیں چھوڑا میں نے
وہ ایسا کرنے والے ہیں کہ ویسا کرنے والے ہیں
تغافل اور کیا کچھ ہے، شکایت اور کتنی ہے
ابھی میں کسی کے برابر نہیں آ سکا
بیچ میں پڑ گیا سمجھنا کیا
نہ ہو سکنا جو پہلے تو دوبارہ اور ہو جانا
اپنے سمندروں سے جو اٹھتی ہوائیں ہیں
بات کہنی ہے جو کہتا بھی نہیں
کمرے میں ہو مڈ بھیڑ کہ زینے پہ ملاقات
کیسے نظر آئے کہیں امکان ہمارا
راہ کزر تاریکی میں ہے
پجھے ہوئے ہیں ستارے، زمیں چمکتی ہے
انکار بھی ایک راستہ ہے
بیابان ہوا آراستہ کوئی نہیں تھا
کبھی سیدھا کبھی الٹا نظر آتا ہے مجھے
پہلے جیسا اب نہیں
جو بھی تھا، بس فالتو تھا، جو بھی ہے، بیکار ہے
بات کرتا ہوں کہ گفتار کی گنجایش ہے
رہ جاتی ہے بس بیچ میں ہی بات ہماری
یہاں کے ساتھ نہیں یا وہاں کے ساتھ نہیں
جب طبیعت ہوئی دلگیر دوبارہ میری
ہنگامے کہیں ہیں پس دیوار ہمارے
رکا ہوا سہی، لیکن، اگر گزر جائے
پھر اؑٓواز لگانا بھولتا جاتا ہوں
میں آسانی میں ہوتا ہوں کہ دشواری میں رہتا ہوں
میں دشمنی میں ہوا سر خرو نہ یاری میں
کبھی ہجوم صفت صد ہزار سا میں تھا
سفر کی اک نئی تشکیل کرنا چاہتا ہوں
ہوا کے رخ پر کیسا بہتا جاتا ہوں
شور شرابے کی بہتات زیادہ ہے
مشکل ہوں تو آسان بھی ہو سکتا ہوں
برا ہے یا کہ اچھا کر رہا ہوں
اندر سے ہے درست، بظاہر غلط سہی
بھیک مطلوب ہے جس کو نہ صدا کرتا ہے
ہے دور قواعد سے نزدیک بھی لگتا ہے
مسئلہ میرا ہے، اٹھے گا نمایاں ہو کر
جو کہیں ہے اور ناموجود ہے
اصل کس قدر ہوگا اور گمان کتنا ہے
شہر خوابیدہ کے اندر نہیں جانے والی
کس طرح کا ہے کس کا ہے کیوں کر ستارہ ہے
اپنے سر پر سوار ہوں اتنا
دیکھتا رہتا ہے آنکھوں کی مثال آئنہ ہے
انہدام رہتا ہے
ڈرتا ہوں بیاباں میں نہ اب گھر نکل آئے
بجھی ہے آگ تو کیا ہے دھواں تو رہنے دو
چھوٹا تھا یا بڑا رہا
میسر جو بھی ہے اس پر گزارہ کیوں نہیں ہوتا
پہلے یہ گلہ تھا کہ محبت نہیں ملتی
خطا کاری میں سالم چیز کا بٹوارا کرتا ہوں
سرسوں، خواب، ہوا، تصویر
کبھی انکار بدل ہے کبھی اقرار بدل ہے
محبت ہے، مگر اس کو خبر ہونے سے ڈرتا ہوں
مرے چاروں طرف ہر دم برابر گھومتا ہے
وہ رنگ نہیں کھلتے، وہ ذات نہیں آتی
جا چکا ہے وہ مگر شام جدائی خوب صورت ہے
اس پر ہوا ے دل کا اثر دیکھنا تو ہے
شعر کی چھابڑی لگاتا ہوں
تیغ جفا کے سامنے آپ ہی ڈھال ہو گئے
ظفر اقبال کا ’’وہم و گماں‘‘
اطراف
نئے ذائقوں کے زخم
یہاں کم وبیش ہوں کہ اکثر نکل رہا ہوں
لاحقے اور لاؤ میرے لیے
کم خواب کی روش پر، پتھر کے راستے سے
کودا عشق ہمارے کو
پھو لوں سی کیا ریاں ہیں تو سبزہ ہے ساتھ ساتھ
ڈرتا رہتا ہوں ضرر سے اتنا
جو لپٹتا نہیں اسی کو لپیٹ
قاعدہ توڑ کیوں نہیں سکتے
کیا جاؤں گا تصویر تماشا کی طرف سے
شبہ سا رہتا ہے، یہ زندگی ہے بھی کہ نہیں
کمتر کے سامنے ہے نہ بر تر کے سامنے
کسی دن انتظار کارواں رکھتا ہوا ہوں
بڑھ گئی اور کہانی آگے
مت سمجھو زین ہماری ہے
نئے سرے سے اس کو بسانا چاہتا ہوں
تماشا ہو رہا ہوں یا تماشا کر رہا ہوں
لہر سی ٹوٹ گئی ہے مجھ میں
بہتی ہوئی چاروں طرف آواز پگھل کر
بیٹھے بیٹھے کھو گیا
ہاتھوں ہاتھ اب تو ہے لیتی دنیا
لفظ پتوں کی طرح اڑنے لگے چاروں طرف
سوئے سوئے ہوئے الفاظ
اک اور شور سہی اس کے جی میں آیا ہوا
جہاں لمحۂ شام بکھیر دیا
کیا کچھ بھی نہیں ہے، اور، معافی چاہتا ہوں
انکار زمیں ہے کہیں اقرار زمیں ہے
کاغذ پر اک باغ بنایا کرتا ہوں
لیے ہوئے لاچاری کو
ہر سو کیا جھولتا ہے مصرع
پتا چلتا خبر ہونے سے پہلے
میں تو ہوں آواز کرنے کے لیے
گفتگو کا تکلف اٹھانے والا ہوں
ڈر رہا تھا کہیں جاتا ہوں ہو جانے سے
چھوڑی حلوہ پوڑی میں نے
روز میں اپنے کنارے تک چلا جاتا ہوا
کن چیزوں کے لیے تر ستا رہتا ہوں
جہاں میری کبھی تیری پڑی ہے
نہ ہمارے نہ تمھارے جھلمل
لفظوں کو لٹکا دیتا ہوں
چار سو پھیلا ہوا چوکور ہے
یہ کس اینٹ پتھر سے پیراستہ ہوں
کسی نقش کی ہے خبر نشان کے درمیاں
سماں دھوپ کی دھار کا
پہلا نہیں، دوبارہ والا
بالآخر حال سے بے حال کرکے
پکڑے گئے ہاہا کاری میں
یوں اگر دیکھو تو ظاہر میں غبار امکان ہے
ذکر اس کا ہی کیا کرتا ہوں
کچھ رابطے رہے قریبی سے
برا ہوتے کہ اچھا ہوتے ہوتے
دولت خود رہی روانی میں
جو آن کے ہمسایے ہمارے میں رہیں گا
سارا دانہ پانی لے گئے
کہے کو چھوڑ دیا، ان کہے کو چھوڑ دیا
راستے سے جو گزرتا ہوا ہو جاتا ہوں
ملے جلے منظر کرنا
سورج اوپر نیچے سا ہونے لگتا ہے
ابر ہے ٹھنڈی ہوا کے ارد گرد
بے عیب رہ گیا تو ہنر کیسے آئیں گا
دکان بڑھا ہی دوں گا اک دن
کچھ میٹھا، مسا ہو جاؤں
ٹوٹنے پھوٹنے سے پہلے ہی
مرے الفاظ ہیں سب کچھ معانی کے بجاے
سنیں گے آپ بھی شاید نئے طریقے سے
جہاں سے خود بھی سلامت نکل نہیں سکتا
مرا بھی عکس لرزتا ہو سبز آنکھوں میں
جہاں ملا وہ مجھے، خود وہاں پہ تھا ہی نہیں
بھگت رہا ہوں میں جو ہے مرے مقدر میں
سروں کو ڈھانپ تو رکھا ہے بے طریقہ ہی
مجھے بسانی پڑی اپنی ایک الگ دنیا
جو بے طریقہ ہی سب کا میاب تر ہیں یہاں
ادب تو خوب روا رکھتا ہوں مگر، اس کو
جو اڑ بھی سکتا ہے کچھ دیر میں کسی جانب
یہاں تو پوچھ بھی سکتے کہ ہم سب کو
جب پیچ پڑا ناکامی سے
لوٹ کر آنے لگا ہونے لگا ہوں
رنڈی نہیں چاہتا ہوں ، بھائی
بھلے ہی اتنا وہ بھولا ہے اور بھاونا ہے
پیچھے پیچھے آتا ہوں
تقاضا ہو چکی ہے اور تمنا ہو رہا ہے
میں جو کچھ شور وغوغا کر رہا ہوں
طبیعت رک گئی ہے پھر رواں ہونے کی خاطر
کوچۂ خواب میں جاتا ہوا ہو سکتا ہوں
گزرتی رات جس دوران رک جاتی ہے ڈھل کر
وہ ستارہ وار سا شام ڈھلتے ہی بے تکان بچھا ہوا
مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
ہے ہنومان
آتو بھی دیکھ تاب تماشا تجھے بھی تھی
ہنومان جی اور ہم
تاج ہے سر پر ہنومان کے
دم کی اپنی شان ہے
بال ہوئے پوشاک
کاندھے پر گرز جمائے ہو
لگتے ایسے ویسے ہو
جرأت سے کچھ ڈرتے کچھ
یہ جڑی بوٹیاں ہی کیا لائے
ٹھیک ٹھاک انسان ہو
جس بندریا سے گئے ہو پھنس
ہنومان کو پکڑا پیر
پل میں کہاں گئے ہنومان
سب سے آگے آگے آئے
میرے جیسے ہیں کہ تمھارے جیسے ہیں
کچھ تو ہلو جلو ہنومان
سچائی کی صدا کچھ ہو
قسمت کھوٹی ہے، ہنومان
تاج کہاں سے پایا تم نے
جیتے جی اب مرو بھی
قائم سے ہیں، ڈولے سے ہیں
ہنومان نے کھولا پب
ہنومان جی، بے مثال سے کیوں ہیں
بے ہتھیارے لڑتے ہو
آدھا سچ اور آدھا کھوٹ
دو ہی پانو پر کھڑے ہوئے
سنا نہیں تھا ایسا ناچ
سوئیں کبھی ہمارے ساتھ
سپنا دیکھا پاپ کا
ہنومان کی پوجا کر
جنگل جنگل شور ہے
آہنومان
کب چھوڑو گے جان جی
بندر تھورا ہنومان
بندریاؤں سے پرے ہیں
بن پر کوئی مصیبت آئے
آنکھوں سے دیکھے ہنومان
آؤ! پکاریں ہنومان کو
ہیں شرمائے ہوئے ہنومان
ہاتھ سے نکلا جائے زمانہ
آدھی رات سمے ہوگی
ہنومان ہم سے شرمائے
تھے ڈرتے ہنومان سے
چاروں سمت اسی کا نرم نظارا ہے
ہنومان کا رتبہ عالی
آخر کیا ہوگی ان کی مجبوری
آخر ہم یہ کب تک سنتے جائیں
پیڑ پہ چڑھ کر پیڑ ہوگئے
آبادی سے ہوگئے تنگ
مہک رہی ہے گھاس
پھٹی جرابیں ہنومان کی
جتنی کیجے چھان پھٹک
میں سمجھا تھا ہوں بس میں
جھنڈا کیا یہ گاڑا میں نے
میں تو ہوا ہوں گم
بڑی ہی مشکل سے جا کھو سے
ملا جو انگ بھبھوت
بندر جاتی وہی ہے سڑؒتی گلتی
آپ بھی اب رستے سے ہٹنے والے ہیں
کچے سے کچھ کاٹھے سے
تھی مشہور بھگوڑی
آپ سے اب کیا بولیں، صاحب!
رشی ولی رہنے نہ دیا
سارے بیٹیاں بیٹے
لٹے ہوئے دردانہ کے
جب بھی ہوئے متلاشی
صاف خدا کی مار پڑی
تھی اتنی نا چاتی
رہتا ہوں ہنومانوں میں
تھامی جب کلہاڑی
ہر ناری پر لٹو ہونا
چاروں جانب دیکھا بھالا بندر
سب سے اونچا ہے ہنومان
ہنومان، سپنے میں آؤ
بھگت بنے ہو رام کے
نسدن ٹیڑھی ہنومان کی دم
ہنومان جی بڑے ہیں
اپنے ہونے کی سزا تھی
کچھوا مارا، پری نکل آئی
منہگائی اتنی ہنومان!
چاند پہ خوب جھپٹ سکتے ہو
توڑیں جنگل کی جیل اک دن
جو ہنومانی ہیں
بچپن ہی میں گزر گئے تھے
بھگتی میں بھگوان تھا
ادھر ادھر بھی جاتے ہو
ہنومانی اشارہ ہو رہا ہے
ہنومان ہرجائی سے
ہر آن ہنومان
سب کے ساتھ ہی بھاگے ہو
آپ تو ہیں چار دانگ
بدلے جنگل کا قانون
گھوڑ بازرای ہے کیا
پہنے ہوئے وہ گہنے سے
ایک سے ہے دو تین
رٹے ہوئے کچھ ہوتے ہیں
آگے جاؤ تو ہرا
کھا کر سب کا حق
کرتے کرتے غل
بیٹھے ہوئے لگا کر ٹیک
پتنی کو دیکھا توجھٹ
تفاوت
پیرتے پھرتے یہ دل میں کبھی دالان میں ہاتھ
یہ جہاں آدھا فقط آہنگ سے پیدا ہوا
اے میرے سوا ساری دنی کے رب
اگر منہ نہ موڑو ہماری طرف
جھگڑے کچھ اس طرح سے کہ جھگڑا کیا خراب
جھوٹ سچ کو دیکھ لیتے، یہ تمھارا کام تھا
یوں تو دیوار ہوا کے ساتھ سارا خواب ہے
جہاں بھی میرا نشاں تھا وہاں اڑی مری خاک
بور آیا تو مہکنے کی صدا آئی مجھے
ہے بظاہر تو کافی اچھا مال
اب سوجھتی ہے سمت ستارے بغیر بھی
کسی صبح سفر کی شام کرنا چاہتا ہوں
تھک ہار کے رکنا کہ لگاتار میں چلنا
زمیں ششدرتھی، اور، برباد ہونا ہو چکا تھا
میرے کی بدولت نہ تمھارے کی بدولت
مشکل تھا کسی اور حوالے سے چمکنا
اقرار میں جھلمل کبھی انکار میں جھلمل
ہوا نہ ہو بھی تو شام و سحر لرزتا ہوں
کچھ اب تو آب وہوا چاہیے کہیں نئی ہو
غیر مانوس، نئی، اور طرف سے آتا
ختم ہو گئی ساری چاے
کاغذ پہ کوئی لفظ اتارا ہے زبر دست
سفر میں اس دفعہ چاہو گے جیسا سامنے ہوگا
ہوا ہوں پہلے تو اس کائنات سے باہر
دل اس طرح بھی ترے خواب سے نکلتا ہے
ہمیشہ رنج سفر کے غبار میں ہونا
ہوا اقرار تو انکار کے اوپر سے ہوا
میں اس کے ساتھ ساتھ، کوئی میرے ساتھ ساتھ
اگر چہ کہنے کو یہ موت بھی نہیں ہرگز
ضد ہی کام آتی نہ اصرار بہت کام آیا
خوش بھی نہ ہوئے اتنے ملاقات کے برعکس
تھی بھی تکلیف اگر کوئی تو چارہ نہ کیا
اپنی ضد سے نہ کسی اور سہارے پہ کیا
مجھے مارنے کو جو بیل آگیا
کچھ ایسے لگتا ہے باہر بھی اپنا گھر کوئی تھا
ہمیں ادھر کبھی ہونا نپیں، جدھر کوئی ہے
اگر کبھی ترے آزار سے نکلتا ہوں
ہمارے سر سے وہ طوفاں کہیں گزرگئے ہیں
ہمیشہ کے لیے سینے میں سو بھی سکتی ہے
کچھ بیاں کرنے میں، اور، کچھ سوچنے میں رہ گیا
جیسے میرے ہی ٹھکانے کی طرف سے آیا
سر بسر اپنے برابر سے نکالا ہے کہیں
شاید اپنے ہی کسی کام سے باہر نکلا
پرندوں، بادلوں کے ساتھ مل کر ایک ہونا
جو میسر ہی نہیں، شاید وہ مہلت کام آئے
کبھی اوّل نظر آن، کبھی آخر ہونا
وہی مرے خس و خاشاک سے نکلتا ہے
مصیبت مستقل سر پر کوئی طاری تو رکھتے ہم
سینۂ دشت سے اک چشمہ ابلتا ہوا ہے
بچہ یوں بھوک سے نہ مرتا
شعلہ اوپر سے کبھی اور طرف سے آیا
رنج اگر ہے بہت اس کا نہ ہو کر مجھے
لٹکی رہی کچھ روز جو عجلت کے بجاے
یہاں پہ عیب سخن بیشتر کسی کا نہیں
نہیں کہ دل میں ہمیشہ خوشی بہت آئی
پڑا ہوا تھا کسی خوش نما کے ایک طرف
یہ نہیں چون وچرا قابل غور
ہو رہا ہے جو تماشا سردست
اک فضا چاہیے ہے
باغ کا باغ ہی تھا قابل دید
چھتوں پہ چڑھ کے برابر پتنگ اڑاتے ہیں
فقرہ جو ہے ابھی اسے مصرع بناؤں گا
چھت کا پنکھا چل رہا ہے
بات مشکل ہے، نظارا بند ہے
طعنہ سا گمرہی کا
آر سے پار کسی اور طریقے سے ہوا
تھوڑا بہت جواب و سوال اس کے ساتھ ہے
جوبوڑھا ہوں تو کیوں دل میں محبت زور کرتی ہے
جڑا ہوا تھا میں اس خاکداں سے پہلے ہی
ہو جیسے چہرہ کوئی خدّوخال سے خالی
جھوٹا کہنا چاہتے ہو
پاس ہونے بھی نہ دے، ہونٹ بھگونے بھی نہ دے
بر ملا لکھی ہوئی ہو، یا زبانی چاہیے
پائے ہوئے اس وقت کو کھونا ہی بہت ہے
رہے کچھ راہ سے ہٹ کر، کبھی تھے راہ کے اندر
سمندر کا کنارہ دیکھنا کافی نہی تھا
کسی پیاس کی پاسبانی میں ہے
تھر تھری بھیلی ہوئی ایک زمانے تک ہے
سبزہ تھا، اور، باغ تھے صحرا کے دائیں بائیں
اکیلے کیا کبھی گھر میں کبھی دفتر میں ہونا ہے
یہیں کہیں تھا، مگر، ہمارے لیے نہیں تھا
رستہ بھی ہو جیسے کہیں دیوار کے برعکس
منت کے باوجود، منانے کے باوجود
نہیں کہ تیرے اشارے نہیں سمجھتا ہوں
ملا نہیں تو چھینا ہے
کبھی غبار میں ہوں،، اور کبھی فشار میں ہوں
گرنے کی طرح کا نہ سنبھلنے کی طرح کا
یہی نہیں کہ دل زار سے الجھتا ہے
اگر چہ اور بہت انتظار میں کچھ تھا
منزل خواب دوام آگے ہے
جو سلسلہ سا بظاہر دن اور ات کا ہے
نکال لائے ہیں جانے کہاں کہاں سے مجھے
کوئی آتا ہمارے راستے میں
اتا پتا کرتے رہنا
کسی روک میں کسی تھام سے اسے روکنا
کس کے روح و رواں تھے
ہے جو میرا ہی اثر شامل حال
نزدیک و دور یوں ہی خدا ہے بذات خود
آنوں والی، شانوں والی
اندر کی سمت وسعت صحرا تو ہوئے گی
حق بات ہے افسانہ و افسوں کے مقابل
عالم خواب میں بہتا نہیں دریا فی الحال
وہ کچھ ایسا مرے مخالف ہے
پیچھا خمار کا ہے نہ آگا خیال کا
کلام ہوتا ہے اپنا بھی دل گدا ختیہ
ویسے بھی راستے میں ہی پڑتی دکان ہے
کہاں گئی وہ امید موہومہ، او معصومہ!
کوئی اپنی تھی ادا اس میں، کوئی اور کی تھی
زمیں کا رنگ ترے آسماں میں شامل تھا
ساتھ اپنے کوئی غم ہے نہ خوشی رہ گئی ہے
نہیں کہتا کہ زیب داستاں ہونے دے مجھ کو
پلٹا نہیں شام کا کبوتر
فسوں طرازی میں سو فسانے نکالتا ہوں
نہ اس کو بھول پائے ہیں نہ ہم نے یاد رکھا ہے
سرا سر اہل دنیا سے کبھی بیزار ہو جانا
میں اتنے تنگ جو ہر لحظہ ہائے وائے سے ہم
زندہ بھی خلق میں ہوں، مرا بھی ہوا ہوں میں
سب کو معلوم ہے تو نے ہمیں کتنا چاہا
جو توڑتا ہوں، مکرر نہیں بناتا ہوں
ہوا بدل گئی اس بے وفا کے ہونے سے
اس فضا میں نئے لفظوں کی جو پروازیں ہیں
ترتیب
صورت اشک تپاں ہوئی ہوئی
کچھ زاویۂ دنیا تو نیا ہو
کہیں میرے ترے سوا کوئی ہے
یونہی اک دوسرے سے کب جدا ہوتا ہے کوئی
یہاں سب سے الگ سب سے جدا ہونا تھا مجھ کو
نئی تحریر فلک سے کوئی جاری تو کرے
دور رہ کر نہ ، اسے پاس بلانے سے کیا
چلو، کسی بت رعنا پہ ہاتھ ڈالتے ہیں
چشم روزن نہ کسی در کی طرف سے آئی
کب سے رکی ہوئی جو ملاقات کوئی ہے
سنبھل گئے ہیں، شکایت بہت زیادہ نہیں تھی
امید عاقبت کا رکے برابر ہے
بظاہر صحت اچھی ہے جو بیماری زیادہ ہے
نت نئے خواب دکھانے کی طرف سے آیا
خورجین سے بندھی ہے خبر، خواب ساتھ ہے
پھیلا ہے چار سو جو تماشا بھی دیکھ لوں
تجھے پانا جو ایسا ہو، تجھے کھونا ہی ایسا تھا
کوئی کیا اوڑھتا اس کو بچھونا ہی کچھ ایسا تھا
پھر کوئی شکل نظر آنے لگی پانی پر
کیا تماشا ہے کہ اب تک بھی وہی کرتا ہروں
برسنا ہے کہیں اس کو نہ کھل کر چھانے والا ہے
سحر سے پیشتر ہی رات میں نے ختم کر دی ہے
غلط کیا ہے مرے ہونے میں، کیسا ہوتا جاتا ہوں
پردۂ شب سے پرے چاند جھجکنے لگا
دل بجھ گیا تو کیا ہے کہ دنیا تو ہے ابھی
اگر اب بھی مری عزت نہی ںکی جاسکتی
کرنے سے زیادہ ہوں نہ کرنے میں نمودار
موسم ہواؤں کا مرے اندر نہیں کھلا
باقی تھا ابھی دن کے بجی رات کی نوبت
مرے خیال میں جنگل گھنا بھی ہوتا ہے
رکاوٹ پڑی ہے، روانی ملے
جو شور سا کوئی میری صدا کے اوپر ہے
جیسے کتاب میں سوکھے پھول کی ایک مہک رہ جاتی ہے
جلدی ہی ٹل گئی جو مصیبت ہی نہیں تھی
مشکل میں پڑا ہوں کسی آساں کی بدولت
پہنچنا ہے مجھے دریا کنارے راستے پر
حسن اتنا ہے کہ بس دیکھتے جاؤ!
ہیں صرف کناروں ک نہ دھاروں کے مخالف
سر بھی میرا نہیں، وحشت بھی کسی اور کی ہے
کس طرح کا یہ ظفرؔ ذوق نمو آگے ہے
شیشے کی شباہت کوئی پتھر سے نکالوں
دیتے آواز کبھی میرے پکارے ہوئے خواب
تنہا یہ بار خواب اٹھانا پڑا مجھے
دکھایا اور کچھ تھا اور اب کیا دے رہا ہوں
کہیں اپنی رسائی میں تو وہ بے شک نہیں تھا
حسرت لیے پھرو، کبھی حیرت لیے پھرو
قیامت آنے والی ہے یہ سارا کیا بنے گا
کہیں تو جائیں جو یہ راستے نکالتا ہوں
رونا جو ہے جڑا ہوا گانے کے ساتھ ساتھ
کفر سے یہ جو منور مری پیشانی ہے
قافلے میں کہیں شامل بھی نہیں ہو سکتا
منظر کوئی اس کہنہ فضا سے نہیں نکلا
سر بسر محسوس اپنی ہی کمی ہونے لگی ہے
کف ہوا نہ کسی آئنے کو ملتا ہے
رکا ہوا ہوں کہ آگے کہیں رواں ہوں میں
سننے کے لیے ہوں نہ سنانے کے لیے ہوں
لگ رہا ہے یہ محبت کا تماشا کیا کیا
آر میں آئی ہے، پار میں آئی ہے
غلط بھی ہونے سے انکار تو نہیں کرتا
میرے شش جہات کی ہاوہو کے علاوہ ہے
کچھ دنوں سے میری ہر جانب جو حیرانی سی ہے
کبھی کسی کا ہماری کتاب میں ہونا
کرتے تو ہیں سبھی وہ حماقت جو ہم نے کی
کچھ اس نے سوچا تو تھا، مگر کام کر دیا تھا
آنکھوں کو آہٹوں پہ جمانے سے آئے گا
کرتا ہوں سفر راہگزاروں سے بہت دور
آْوارۂ سفر ہوں ٹھکانا کہیں نہیں
کہتے رہو، باتوں میں اثر کچھ نہیں آنا
کیا اتر اائے سارے مرے ہر طرف
اپنی جو اس کے ساتھ عداوت ہی رہ گئی
تسلیم بھی کیا اسے، بیعت بھی ہم نے کی
گھر بھی مطلوب ہے، آنگن بھی مجھے چاہیے ہے
سفر کااپنے بہانہ ہی اور ہوتا ہے
کوئی اس کی خبر نہیں آئی
تھوڑے تھوڑے سہی، سارے نہیں تھے
جہاں قیام ہے اس کا، وہیں سے ہٹ کر ہے
براے نام ہے یا سر بسر محبت ہے
دھند میں دھوپ سی کھڑکیوں سے نکل آئی ہے
نفع ہے یا ضرر ہے، یا کچھ اور
اگثر تو یہ افتاد طبیعت نہیں پڑتی
خسارہ جانچنا ہے، اور، منافع دیکھنا ہے
گھر میں ہوگا کوئی زخموں کے سوا اور چراغ
نکل نہیں پاؤں گا جہاں جا کے پھنس گیا ہوں
محبت سے مکر جانے کی گنجایش نہیں ہے
دریا دور نہیں، اور، پیاسا رہ سکتا ہوں
صرف آنکھیں تھیں، ابھی ان میں اشارے نہیں تھے
ویسے تو بھرے شہر میں کیا کیا نہی چلتا
جو سامنے نہیں، لگتا بھی تیرے سامنے ہے
جو کچھ باتیں بتانا چاہتا ہوں
ہم نے سامان سفر میں تری حسرت رکھ لی
رفتہ رفتہ کسی راکھ میں ڈھلتا رہتا ہے
اسے خبر نہیں جو اتنا لاتعلق ہے
کھلتے ہیں جب آشفتہ بیانی کے معافی
کوئی گرا ہوا منظر سنبھل کے دیکھتا ہوں
یہ کیا طراوت دریا سے واپس آیا ہوں
جو خوش ہو رہے تھے، خفا کر دیے ہیں
جیسا بھی ہے احوال، سنانے کے نہیں ہم
نیا ہے یا پرانا، کچھ پتا چلتا نہیں ہے
کوئی بتاؤ، کہاں اور کدھر گزار چکا ہوں
جیسے ہو کسی دشت سے آہو کا نکلنا
زمیں کم ہے تو جا کر آسماں پر چومنا ہے
یہ کشف سب کے لیے عام بھی نہیں ہوتا
کسی طرح کا کوئی اہتمام بھی نہیں تھا
پانا ہے کوی چیز نہ کھونا کیس کے ساتھ
ممکن ہے کہ وہ صاف اشارہ بھی نہ سمجھے
مواد جو بھی ہے سارا کہاں سے آتا ہے
بہت مصروف ہوں چھوٹا سا کوئی گھر بنانے میں
نہیں معلوم کہ ہے کس لیے ہونے والی
یہ آنکھیں اور ہونی تھیں، تماشا اور ہونا تھا
ہم نے کاغذ پہ اگر حشر بپا کر لیا ہے
پھر کوئی سعی سخن ساز کہیں سے کریں ہم
بات ایسی بھی کوئی نہیں کہ محبت بہت زیادہ ہے
گماں گزر نہیں سکتا ہے، خواب آنہیں سکتا
ہر طرف پھیلتی خوشبو کی حفاظت کرنا
دور ہی دور ترسنے کی ضرورت کیا ہے
نہ جینا چاہتے ےہیں، اور نہ مرنا چاہتے ہیں
اندر سے دیکھتا نہ ہی باہر سے دیکھتا
اس حاضر و غائب میں خلل ہے مرا ہونا
جواب اور بھی دینا محال ہو گئے ہیں
بھلا سا تھا کوئی، میں اس کا نام بھول گیا ہوں
کسی لرزتے ہوئے ستارے پہ جار ہا تھا
تماشا
تھی اگر ختم تو پھر بات بڑھائی کیوں ہو
ہنسی ہنسی میں جو اس رات وہ جدا ہوا ہے
زمیں پہ ایڑی رگڑ کے پانی نکالتا ہوں
شدید شور کے اندر، غبار کے نیچے
نفع سمجھو اسے یا خسارہ، بس اتنا ہی تھا
وہ خواب انتظار بسر ہی نہیں ہوا
ہوا تھی، اور، گرہ در گرہ خیال اس کے
ہجر کے سارے عذابوں سے گزر جانا ہے
مجھے شام تماشا سے نکالا کس لیے ہے
چاند سا کوئی لب بام بھی آجاتا ہے
یہ دنیا ہے تو پھر اس کے کنارے کون سے ہیں
سانسیں جو ہوئیں ختم، ہوا نے مجھے دیکھا
کشتیاں رہتی ہیں دھارے سے الگ
کیسے کیسے منظر مہتاب تھے چاروں طرف
فتنہ اٹھا ہوا اس کے قدو قامت سے بھی تھا
جہاں نہیں کوئی اس خاکداں کے چاروں طرف
دنیا کی طرف سے، کبھی عقبیٰ کی طرف سے
دھویں میں لتھڑی ہوئی گفتگو زیادہ ہے اب کے
کچھ اب کی بار بطرز دگر نکال رہا ہوں
سفر کیا نہیں، رنج سفر وہی کچھ ہے
سخت مشکل ہے کسی اور طرح کا ہونا
اک بار الجھ کر وہ دو بارہ سے الجھنا
ہے راس بہت اپنے ہی آثار میں ہونا
اپنے مشاغل سے یوں آپ جو فرصت میں ہیں
وہی دریا تھا، مگر، اور ہی گہرائی میں تھا
اس مرے جسم نے اب تک تو سنبھالی مری جاں
شرم سے دور، شرافت کے بغیر
مصیبتوں کے مضافات سے نکال دیا
جھڑپ، اور جھگڑا تو ہونا ہی تھا
شاید کسی موہوم اشارے پہ کھڑا ہوں
ملتا نظر آئے بھی تو حاصل نہیں کرنا
دور و نزدیک بہت اپنے ستارے بھی ہوئے
نا چار اعتبار تمہارا ہی کرتے ہیں
قیمت سے پرے، خواب خریدار سے ہٹ کر
بھول بیٹھا تھا، مگر، یاد بھی خود میں نے کیا
خیال اندر خیال کرنا پڑے گا اس کو
باہر کے علاوہ ہے کہ اندر کے علاوہ
یہ عمر گزرتی مرے منشا کے مطابق
اہل دنیا سے تو اتنا ربط کیا رکھتے تھے ہم
اس دل کے اندھیرے میں تری رات سے آگے
مہر بانی نہ عنایت کے لیے دیکھتا ہوں
ہجوم جمع ہوا اس کو دیکھنے کے لیے
رونق راہ گھٹی ہے نہ تماشا کم ہے
کیا خبر سلسلۂ ناز ہی بدلا ہوا ہو
جہاں کھڑا ہوں بہت ہی وہاں سے آگے ہے
دیکھو تو کچھ زیاں نہیں کھونے کے باوجود
ٹوٹتی کیوں نہیں، دیوار کے اندر کیا ہے
بات جب ہے جو کسی کی بھی رسائی ہوئی ہو
فقط الفاظ ہیں، الفاظ کی تاثیر غائب ہے
دل کے اندر جی سکتی ہے، مر سکتی ہے
پرانی بات کا کوئی نیا مفہوم لینا ہے
کس طرف ، اور کہاں آگے ہے
نظر سے دور وہ رہنا، نظر بھی آجانا
جتنا حاصل تھا ہمیں اس سے سوا چھوڑ دیا
محبت کا اعلان کرنا پڑا
یہ بھی ہو سکتا ہے باتیں سبھی مانے ہوئے ہوں
ہم نے آواز نہ دی برگ و نوا ہوتے ہوئے
میرے جانے، ترے آنے پہ نہیں ہے موقوف
نفرت ہے کہ نخرا ہے، ابھی کچھ نہیں معلوم
باہر حساب تھا کبھی اندر حساب تھا
آگ پکڑی ہے تو شعلہ سا لپکنے لگے ہم
اس کی بابت کبھی سوچا ہی نہیں کرتے ہم
باہر کے رنگ چھوڑ کے گھر واپس آئے گا
یہ بھی ممکن ہے کہ آنکھیں ہوں، تماشا ہی نہ ہو
تھا اپنے ہی اندر کے اشارے سے نکلنا
نت نئے رنگ بدلتے ہوئے آثار سے تھی
غبار دل مری چشم ہنر میں کیا رہتا
سنگینی صدمات کے مارے کی طرف سے
ہمارا جمگھٹا ہے یا تمھارا جمگھٹا ہے
مطلب اب مائل پرواز تو ہونے لگا ہے
اس کے علاوہ اور بھی ہیں اس خدائی میں
کہیں آسکنے والے ہیں نہ ہم جاسکنے والے ہیں
کشاکش میں نہ ایسی نا صبوری پر کھڑے ہیں
عجیب ذکر تھا، اور، داستاں میں چھوڑ دیا
عشق یہ کیا ہے کہ ہوتے ہوئے سائل تیرے
نظر آتے ہیں سر ہی سر، سو، اتنا جمگھٹای ہے
دل تو بیگانہ ہے، دنیا بھی کسی اور کی ہے
کچھ آتش معینی میں پگھلتا بھی نہیں ہوں
کسی کے وصل کا سامان تو نہی کیا ہے
میں نے کب دعویٰ کی اتھا، سر بسر باقی ہوں میں
باہر نہیں رہا کبھی اندر نہیں گیا
ہوا ہی اور ہے، بچے سیانے ہو چکے ہیں
ابھی نہیں کوئی غم، روزگار چلتا ہے
بدن بہار ہے یا پیرہن تماشا ہے
اس آئنے میں جھلکتے ہی، دل دھڑکتے ہی
کسی بھی طرح سے اقرار تو نہیں کیا تھا
ڈھونڈو مجھے نہ میرے ٹھکانے کے آس پاس
سمندروں میں سراسر پہاڑ جھونکتا ہوں
جھگڑا کبھی خود سے ، کبھی دنیا سے رہا ہے
میں ہوں براے نام، ہوا ہے براے نام
اثر بھی ہے تو کوئی شے اثر سے غائب ہے
ناکام ابر و باد کی سازش نہیں ہوئی
بے نشاں تھا وہ، اگر، اس کو نشاں کیسا کیا
کچھ نہ کچھ گرتی ہوئی ساکھ سنبھالی ہوئی ہے
یہ سہولت ہی کوئی ہے نہ سہارا ہونا
جو سمندر ہے اسے کس لیے ساحل کرنا
ہاتھوں سے اس کے چہرے کو پیالہ ہی کرتے ہم
جسے ہم ڈھونڈتے ہیں وہ کہیں پر بھی نہیں ہے
بظاہر زنگ پیدا کر رہا ہوں
تماشا ہونے والا ہے نہ وحشت کرنے والے ہیں
کیا تو ہوگا، مگر، دوبارہ نہیں کیا تھا
جو بھی ہے شب وصل کا ہنگام بہت ہے
جہاں خواب کی کوئی خامشی ہے مری صدا سے جڑی ہوئی
گراں جانی وہی ہے، اور، سبکساری نہیں آئی
محبت ہو چکی، ملنا ملانا رہ گیا ہے
پھر سر راہ کسی دوست کے مارے ہوئے ہیں
کبھی آکر وہ اگر شکل دکھا جاتا ہے
غم زلف سیہ میں اس دل رنجور کا گھلنا
کچھ ایسا ہے کہ اس کو بے سبب چاہوں جہاں چاہوں
شاہنشہ زماں کا جو فرمان جنگ ہے
آئیں گی ہر طرف سے صدائیں نئی نئی
میری طرف جو اس کا ذرا سا جھکاو تھا
پھر وہی دائرۂ کار سے باہر ہونا
ہجوم شہر کی حالت بیاں ہی کر سکتا
کچھ ڈوبنے کی ہے نہ ابھرنے کی اطلاع
دل ہے کسی گماں کے یقیں سے بھرا ہوا
دیکھا پھر اس کو دھوپ کنارے پڑے ہوئے
خواہشوں کے جو مخالف تھے نہ خوابوں کےخلاف
چراغ بجھ گئے سارے، چمن خراب ہوا
ہماری تمہاری ملاقات چمکی نہیں
کئی دن سے یہ کیسے آئنوں میں آرہا ہوں
تمہاری رات کا ہوں آج بطی تنہا مسافر
ستارے گنتے گنتے دن نکل آتا ہے اکثر
ابھی تو لوگ ہیں اور شور ہے میرے پس وپیش
نہ جانے کب سے اشیاے ضرورت کی طرح سے
مرے درجات برھتے جا رہے ہیں رفتہ رفتہ
درختوں اور درندوں پر مصیبت کی گھڑی ہے
جہاں سارے کے سارے خون کے پیاسے ہیں میرے
مجھے لے جائے گا کتنی بلندی پر بہ ہر حال
گھروں کو چھوڑنے والوں سے میرا رابطہ ہے
مرے رخ اور بھی ہیں غور سے دیکھو تو جانو
کہیں عمر گذشتہ کی سبھی برکات لے کر
عرض ناشر
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔