قرینہ
خیال خلقی اور زبان انتظاری کی شاعری
آب رواں
ربط ویابس
گلافتاب
غبار آلو دسمتوں کا سراغ
سرعام
عیب وہنر
وہم وگماں
اطراف
ہے ہنومان
تفاوت
ترتیب
تماشا
تقویم
غزل تنقید
تمجید
محمد حنیف رامے کی یاد میں
کھیت پر ہے نہ تھان پر ہے تو
ابر پر، کوہسار میں ہے تو
زخم کے اندمال میں ہے تو
شور دریا ے خواب تجھ سے ہے
میرا رنگ کلام تجھ سےہے
اپنی بپتا سناؤں گا تجھ کو
کچطھ اس طرح کا یہ فسانہ ہے تجھ سے
کبھی دن سے باہر، کبھی رات میں تو
شام تو ہے مری، سحر تو ہے
جھجکنے سے ہر گز نہ ڈرنے سے تو
نام تو ہے مرا نسب تو ہے
یوں سفر کا ہے استعارہ تو
وہم تیرا ہے گماں تیرا ہے
میرے ہر سمت ہوا ہے تیری
قید ہو کر ہی قفس میں تیرے
یہ جہاں طرفہ بنایا تونے
سانس تیرے لیے، سر تیرے لیے
نور ظہور کا ہالہ تو
مسکینوں کے سہارے تم
پکے ہو اور سچے تم
ہمیں تھما کر کاسے تم
کتنے ہو، کیسے ہو تم
آنی جانی تجھ سے ہے
باطن تو، ظاہر بھی تو
پردہ ترت اتارا تونے
دن اور رات ہیں تیرے
جی اور جان ہمارے
جو بھی کام تمھارے ہیں
دل میں گماں سب تیرا ہے
تو ہے صبح سویرے میں
اپنے خواب دکھایا کر
اپنے چاند ستارے ہوں گے
اعلیٰ تو ہے، عالی تو ہے
دل کا راج دلارا تو ہے
دل کی بےآرامی تو ہے
پھول ہیں تیرے، پات ہیں تیرے
بخشش کافی دے مولا
بھوکا ہے دل، بھات چاہیے
آدھا کر یا سارا کر
جا سکتے ہو، آسکتے ہو
دنیا تیری گورکھ دھندا
پکڑو کبھی ہمارا پلہ
رہا پیڑ پر پھول نہ پتا
عشق خدا میں پھنسے ہیں
اللہ صاحب کھرے ہیں
روئے ہوئے ہو، گائے ہوئے ہو
نامعلوم میں پڑے ہوئے ہو
یاد تری جب آجاتی ہے
یوں تو میری زبان پر ہو تم
ہر اک طرح کا ہنر آزمانے والے ہو
پچھلی بات ہمارے پر ہے
وارے ہوتے جائیں
دم ہے رکا ہوا اللہ جی
بندے تو ہم عام سے ہیں
آنکھ ملانے سے ڈرتا ہوں
روئے پھر بھی گایا پھر بھی
آدھے، سارے لگتے ہو
حال بتایا ہی نہیں
کچھ نہیں ہر سو رہے گا
آنسو عرض گزراتے
حمد اس کی لکھتا رہوں
بیچ بزار سنایا میں نے
غور دوبارہ ہو سکتا ہے
بڑی گنہ کی لڑی ہے
دامن نہیں ہمارا صاف
جو بھی تماشا کیا ہے
اس کو پکڑا پیر ہے
جرم سے کچھ انکار ہے
کبھی بہانہ کرے گا
کچھ نہیں اپنے پاس
تیرے بھجن ہی گائے
ایسی طرز نکالی میں نے
پڑے تمھارے پیٹے
حشر کو ہاہا کار پڑے گی
در زنداں نہ کھلا میرے خدا
ہوں پڑا میں بھی ادھر، میرے خدا
زندگی قید بنی ،میرے خدا
پیؤں اس حمد کی مے میرے خدا
حمد کرتا ہوں سبو، میرے خدا
دور ہیں میں اور تو میرے خدا
آن تمہاری ، بان تمہاری
کھیت ہوئے ویران ہمارے
ہٹیں ذرا دربان تمہارے
اب کیا ہوں امکان ہمارے
جان ہوئی بے جان ہماری
ملاقات ہو سکتی ہے
انتظام ہو سکتا ہے
تم ہو بڑے اور کام تمہارا بڑا ہے
کروں جو تیری شان بیان
سبب اس دل کی ناصبوری ہے
حمد خود میرے پاس آتی ہے
آدھی سن یا ساری سن
دل کے اندر چور ہے
مختصر یہ کہ بے مثال ہے تو
انکساری بھی تجھ سے ہے
روز وشب اور صبح وشام ترے
یہ زمان و مکاں کہاں کے ہیں
سب میں چرچا کریں گے
آخر ہے یہ سب کیا راز
ہیرا پھیری خوب ہے
برقع اٹھانا کوئی دن
جب بھی سوچ بنائی ہے
میرا اور تمہارا کچھ
قول وقرآن بھی اسی کا ہے
کام ہے کیا حیرانی والا
برا ہوا یا اچھا ہوگا
بدعائے ہوئے نہیں تھے ہم
زیر زبر نے کرنا ہے
کچھ کم نہیں تھے ہوا کے اسرار
صبح کو شام سمجھتا ہوں میں
زمین وآسماں کا کھیل کیا ہے
سب کو تیری طرف بلاؤں گا
ایسا ہے یا ویسا ہے
تو ہے مشکل کشا اے خدا اے خدا
گور کنارے کھڑے ہیں
روتے گاتے جائیں گے
بحر وبر ہے یہ آپ کا صاحب
ہیں اگر آج دو بدو صاحب
چاہیے لطف اور کرم صاحب
پاس کچھ بھی نہیں مگر صاحب
آپ تو تھے ہی لا مکاں صاحب
تقویم
سوچتے تھے فضا ہے نامانوس
چمر جتنی بھی کائنات کی ہے
دلدل سی ایک ہے کہ ہیں جس میں دھنے ہوئے
ملتا جو کائنات کے آغاز کا سراغ
ہماری کہکشاں ہے یا تمہاری کہکشاں ہے
جوبھی جہاں تھا
پیٹے جیسا، تانے جیسا
کیا کوئی دیکھتا راستا
ہیں یہ کیسے رات دن،کس طرح کا ماحول ہے
اک بار رہ گئی جو خسارے میں کائنات
اس نے خود آکے مجھ کو بتایا ہے طول موج
پکارتی ہے بہت دور سے زمیں مجھ کو
باہر کی روانی ہو کہ اندر کی روانی
اصل میں میرے سوا ہے دریافت
بے شک یہ تماشا ہے تمنا کے مساوی
ڈھونڈوں جو ستارے کو ستارہ نہیں ملتا
ٹھہرے کہیں وقت ہی کی رفتار
پھیلتا جاتا ہے کاغذ پہ علاقہ میرا
یہ جواب ہے تو ہے کبھی کا غبار
گردش کرتی ہوئی زمین
کہیں میٹھا ہے نہ کھاری پانی
کچھ زمیں کچھ آسماں پر ہوں
ہم نہیں ہیں کوئی ستارہ شناس
ہوگی یہ بھی کہاں کی پیمایش
جب ہمارا ہوا حساب کتاب
بند آنکھیں نہیں کرتا کوئی
پرزہ پرزہ ہونا ہے
کبھی انار درخت ہیں
اور ہی کوئی جل رہی ہے اؑٓگ
ڈھیلے ڈھالے لوگ ہیں
کیسی کالی دھوپ ہے
دوبارہ اس زمیں پر پانو دھرنا چاہتا ہوں
خون میں خواب ہمارے تیرے
مجھے ہی گھورتا رہتا ہے تھکنے والا ہے
پھنسا ہوا ہوں دلدّر میں
ہوتا رہتا ہے خود ہمارا کام
آنکھوں پار ستارہ تھا
اپنی صورت بدل رہی ہے آگ
ہوا کے آگے بھی ہوا
نامعلوم ہوائیں
اپنے اوپر پڑی ہے
بادل بن کر چھایا موسم
کہاں ہے اپنا دانہ پانی
دروازہ کھولا پانی میں
روشنی ہے سارے پانی میں
خاک سے جو خدا کے رشتے ہیں
چلتی ہے زمین یا کھڑی ہے
زمیں پہ چاند اتارا ہے، آؤ دیکھو تو
رہ سکتے نہیں اپنے کناروں میں ستارے
یہ زمیں گردش میں ہے یا آسماں گردش میں ہے
چلتا ہوا رکے ہوئے پانی میں آسماں
کوئی گڑبڑ کریں گے مل کر زمین وآسماں
آزما بیٹھے ہنر سارے زمین و آسماں
آپ رہ جائیں گے بیش وکم زمین وآسماں
پہلے ایسے تو نہ ہوتے تھے زمین وآسماں
جھومتے دیکھو گے متوالے، زمین وآسماں
ہیں حقیقت یا کہ افسانے زمین وآسماں
کب ہوئے تھے اتنے برفیلے زمین وآسماں
لے کے آئے تھے کوئی الجھن زمین وآسماں
پانو رکھے سر پہ اور بھاگے زمین وآسماں
میں بھی ایسے ہی سمجھ بیٹھا زمین وآسماں
سربسر مشکل تھے ہر عنواں زمین وآسماں
خاک پر تو بلا تماشا ہے
جس قدر غور کر رہا ہوں میں
پہنچے ہیں ان حالوں میں
جس قدر ہیں رواں کہکشائیں
کچھ اضافہ ہے کچھ کمی بھی ہے
یہ مبتو چاند ستارے ہیں
رواں دواں ہریالی ہے
زمیں آسماں ہرے
کہکشاں بدن زرد
جدھر چل پڑو گے ادھر راستے ہیں
کب سے آگے سورج ہے
آگے چاند ستارہ
چاند کی طرح دمک سکتی ہے
جدھر ستارے جائیں
ناچ رہے ہیں دل میں تارے
صبح وشام حیرانی
اندر باہر شور ہے
نیا پرانا دھواں ہے
شام ڈھلے جب آئی بارش
کڈھب کرشمہ عجب تماشا، فلک پہ بجلی، زمیں پہ باراں
ہے بے آب سمندر
آنکھیں میچے دریا
گورا دن اور کالی ریت
ایسے اڑے ہمارے ذرّے
ایسی بھائی گرد
لگا بہت ہی بھولا چاند
آسمان سے ٹوٹا تارا
اپنی بلائی ہوئی
کائنات کی حیرانی ہے
ستارہ دور کیوں ہے
کس جنگل میں کھوئے
زمیں زیر و زبر کب ہو رہی ہے
یہ ہوتا کیوں نہیں تھا ہونے والا
ایک خلا یا اور خلا
کوئی ستارہ چاہیئے
نیلی مٹی، پیلی مٹی
ایک ستارہ ہرا
نیلم پری سی ہے کوئی ساروں کے درمیاں
یہ اندر ہو کہ باہر آسماں کے سامنے ہے
اسی دشت میں کوئی تھا سبزہ زار
وقت سے جیسے ماورا دن ہے
ہر طرف دھندے ہے پھیلی ہوئی سیارے پر
آسمانوں سے اترتی ہوئی شام
اک جگہ پر تو ٹھہرتے نہیں سارے موسم
تازہ وصاف لہکتی ہمہ سو آب و ہوا
ہے اور بات بہت میری بات سے آگے
کوئی شاید جواب دے آواز
پہلے تو فقط ہوا ہے رفتار
موسم کا ہاتھ ہے نہ ہوا ہے خلاؤں میں
بے وجہ بلندی سے اترتے نہیں بادل
گرد میں دھند ہے، غبار میں دھند
مجھے ہر بار ہی لگی آواز
اس طرح کی بھی ہے کہیں آواز
رکتی رکتی، ڈری ڈری آواز
نہیں دیتے ہیں رفتگاں آواز
روشنی کا یہ پل اندھیرے میں
پھول کیسا کھلا اندھیرے میں
اتنی گہرائی تھی اندھیرے میں
ہم خزاں کے ڈرے ڈرے صاحب
تشکیل
ہواے وادی دشوار سے نہیں رکتا
دریا مرے راستے میں آیا
اس طبع خام کی جو روانی رکی رہی
کہیں پہ خوار ہوئے ہیں کہیں زبو ہوئے ہم
نہ گھاٹ ہے کوئی اپنا نہ گھر ہمارا ہوا
کچھ وعدہ وعید چاہیے ہے
دیکھو تو کچھ زیاں نہیں کھونے کے باوجود
اس شہر سے جارہا ہوں کب سے
ستارے،چاند، سورج سب تھکے ہارے لگے مجھ کو
نہ اس کو بھول پائے ہیں نہ ہم نے یاد رکھا ہے
گیرائی دریا کو زنہار نہیں پہنچا
جیسا بھی ہے وہ ، اس کی تمنا بری نہیں
اک دشت اور بھی مرے گھر کے بجاے تھا
سراسر ختم ہو کر بھی جوانی اور باقی ہے
ہم نے اسے مدد کو پکارا تو ٹھیک ہے
کچھ اب کے میں بہ انداز دگر جاگا ہوا ہوں
ایسی کوئی درپیش ہوا آئی ہمارے
وہی اک خواب ہے آنکھوں میں تازہ رہنے والا
تمہارے پرس میں رکھانہ اس کی جیب میں ڈالا
یہ اپنی ذات بھی اپنا تماشا خود بناتی ہے
شناسائی بہت ہے، آشنائی چاہتا ہوں
اندر تو جھانک بیٹھے ہیں، باہر بھی دیکھتے
محبت ہو چکی تھی مبتلا ہونے سے پہلے ہی
ہو بھی جائے تو کہیں گے یہ کہیں ہو سکتی
بینائی سے باہر، کبھی اندر مجھے دیکھے
بظاہر تو سبھی کچھ مبتلا رہنے سے ہو گا
اگر کبھی ترے آزار سے نکلتا ہوں
یہ بھی ہے دن ہی کے ہنگامۂ حالات کا وقت
ہمیں ادھر کبھی ہونا نہیں جدھر کوئی ہے
کچھ ایسے لگتا ہے باہر بھی اپنا گھر کوئی تھا
سلامنت واپس آیا ہی نہیں گھر جانے والا
دو گھڑی کے لیے چلتے ہیں ٹھہرتے ہیں کہیں
تھا خواب تو کیا خواب نما کرتے اسے ہم
جیسا وہ سمجتے ہیں ویسا بھی نہی ہوں میں
جھوٹا ہے نہ سچا ہے تو ہے اور بھی اچھا
چیزوں کو درمیاں سے ہٹایا ہوا نہیں
پرندوں، بادلوں کا ساتھ مل کر ایک ہونا
بے شک رکا ہوا ہے ، روانی بنائے گا
میں حسن کے حالات سے غافل بھی نہیں تھا
بھلے کرتا رہے ،انکار سے بھی کچھ نہیں ہوتا
کچھ ہے بھی سہی، لیکن، انتا تو نہیں سب کچھ
آتا نہیں کوئی، کہیں جاتا نہیں کوئی
نہ گماں رہنے دیا ہے نہ یقیں رہنے دیا
اس کو آنکھوں میں گھر بنا دیا ہے
دھیان جس کا ہے ابھی ایک زمانے کی طرف
یہی زمین کبھی اور تھی، فصا کوئی اور
نتیجہ کوئی تو اچھا برا نکل سکتا
بچھا ہے سبزہ یہاں بھی کہیں دکھائی تو دے
محبت کام ہے ایسا جسے باری سے کرتی ہیں
اپنے انکار کے برعکس برابر کوئی تھا
کہیں اپنے لیے محفوظ اشارے کوئی ہے
ہمارے درمیاں جو گھٹتا بڑھتا فاصلہ ہے
مل کے بیٹھے نہیں خوابوں میں شراکت نہیں کی
جیتے ہیں تیرے ساتھ نہ مرتے ہیں تیرے ساتھ
آنے کی دیر ہے کبھی جانے کی دیر ہے
بھلے ہی اب تو پرانی ہو یا نئی تحریر
نہیں کہ دل میں ہمیشہ خوشی بہت آئی
روا بھی ہونی تھی،اور،ناروا بھی ہونی تھی
اسے کیا جانے کس دیوانہ پن سے دیکھتا ہوں
ایک ہی خواب ہے آنکھوں میں، کہیں مل سکتے
پھول دل میں جو کھلا ہے تو پتا لگنے دے
اچھا ہے محبت میں سبکسار نہ ہونا
موجود بھی رہنا ہے، دکھائی نہیں دینا
مرے نواح میں دنیا زیادہ ہو گئی ہے
خواب پرزور کی بارش ہوئی، اور، پھول جھڑے چاروں طرف
اتنا ٹھہرا ہوا ماحول بدلنا پڑ جائے
بہت کچھ کہ چکے تھے مہرباں ہونے سے پہلے ہی
نیا طریقۂ اظہار خود بناتے ہیں
چمکے گا ابھی میرے خیالات سے آگے
بام ہوا پہ کوئی اشارہ ہے یا چراغ
دمک رہی ہے زمیں آسماں چمکتا ہے
شکرہے کچھ تو افاقہ ہوا بیماری سے
صحرا فریب ہے کبھی دریا فریب ہے
خواب خواہش کی دمک سے ہر مکاں روشن ہوا
خود جسے دل سے نکالا تھا، یہیں موجود ہے
بھلا بیٹھے، نہیں تھی جو محبت بھولنے والی
رسوا زمانے بھر میں ہمارا ہی نام ہے
نیت ہے کوئی اور، عمل اور طرح کا
مرے نشان بہت ہیں، جہاں بھی ہوتا ہوں
غرض نہیں ہے بیاباں سے، بن سے کام نہیں
سمجھ میں کچھ نہیں آتا یہاں کیا کیا برابر ہے
سینۂ دشت سے اک چشمہ ابلتا ہوا ہے
کالی کھا، یا بھوری کھا
کچھ وہ ہی زیادہ گوری تھی
طلسم ہوش ربا میں پتنگ اڑتی ہے
ادنی ہو یا اعلیٰ ہو
ددنیا نہیں حسب حال
کرتے بات سلیقے سے
اندھیرا ذرا اور گوڑھا ہوا
ریڑھی والا بھی پیار کرتا ہے
میں نے کہاں بسنت ہے، آؤ، پتنگ اڑاؤ
چولا جو بھی ماپ کا ہے
طعنہ سا گم رہی کا
آر سے پار کسی اور طریقے سے ہوا
دل میں داخل ہو گیا
کہا بھی، سہا بھی نکل آئے گا
یا تو آنے والا ہوں
روز ایسا تو نہیں ہونا ہے
آتا جاتا رہتا ہوں
سیر ہو جیسے مدینے کی طرف
کھیلا اپنی جان پر
روکے نہیں رکتے، ہم
رونے سے کیا ملا ہے
کوئی آتا ہمارے راستے میں
جو کہتے ہو، ٹھیک ہے
آنا جانا کافی ہے
سفر پہلے ہی جیسا ہے
بھیجا خالی ہو گیا
کچھ پسینے کو پتا لگنے دے
یہ اچھی ظفر، اس کی قیمت لگائی
گھر کے اندر بیٹھا ہوں
اب کیا کہتے ہو
تلخیوں کے ساتھ ہوں
جتنا جیسے نیچے ہے
گھر میں شام اندھیرا
گرتے پڑتے ہوئے بھی
کچھ تو کرنا پڑے گا
شور شرابا مزے کا
اور کچھ کہ نہیں سکتے فی الحال
ایسی رات گزاری ہوگئی
اتنی باریکیاں، مرے صاحب
تجاوز
کچھ زاویۂ منظر دنیا تو نیا ہو
زندہ بھی خلق ہوں، مرا بھی ہوا ہوں میں
جہاں کھڑا ہوں بہت ہی وہاں سے آگے ہے
ٹوٹتی کیوں نہیں،دیوار کے اندر کیا ہے
بے رنگ صبح و شام ابھی اور آئیں گے
جاتا کہاں تصویر تماشا سے نکل کر
دوبارہ اپنے عہد جوانی میں آؤں گا
کچھ تو ہوتا فقط آشفتہ بیانی کے سوا
تھا سوگوار یوں تو ہمارے مآل پر
یہی پانا اگر ہے، اس کو کھوتے بھی تو کیا تھا
ساتھ ہی عزت واکرام سے باہر ہوئے ہم
خبر کو خواب کا ومساز ہم نے کر دیا ہے
ملی جلی مجبوری جسیا
کیوں اسے اشارہ نہیں کیا
اور کچھ کہ نہیں سکتے فی الحال
دیتے ہوئے بیان بہت
فقرے کستے بھی ہیں
گھر میں اُگے ہوئے ہیں نہ باہر اگے ہوئے
میرے جیسا ہو جا
جو ہم سے شاعری میں گہرائی چاہتے ہیں
شاعری کا بدل چکا ماحول
اور احساسات ہیں، دل اور ہیں
اندر کی جھل رہا ہو پکھّی
جس قدر بھی کہو، نہیں بھرتا
رستے سے اگرچہ ہٹ گیا ہے
آخر ہکے بکّے سے
اصل تو جھگڑا اور ہے
ذائقہ بدلنا ہے
جھگڑا نہیں کیا کرتے
جیسی یہ شاعری ہے، ویسوں میں لا رہا ہوں
شعر وسخن بھی چاہیے
کیا کریں، اب زندگی ہوتی نہیں
اس اچھلتے ہوئے دریا سے بہت پیچھے ہوں
دھواں دھار مرغولہ کیسا
ہوگی درپیش ابھی اور بھی کیا کی مشکل
اسی دشت میں کوئی تھا سبزہ زار
درپیش ہے صحرا وہی صحرا سے گزر کر
جہاں تہاں مرا ہونا ہی تھا خسارے میں
اندھیرا ہوا یا اجالا ہوا
خدائی نے پیچھا کیا دیر تک
دیکھنے میں یوں تو یہ سارے کا سارا پھول ہے
اس کا گلاب، اپنا گریبان جائے گا
کوئی شعبدہ تھا کہ اعجاز تھا
کوئی باقی ہے ابھی دل میں تماشا لگنا
کسی خواب سے سر خرو ہونے والا
کسی ہجوم ہوا کو تلاش کرتا ہوں
طلوع سا کوئی صبح صدا کے ساتھ آیا
کنارے تھے، لیکن ، کنارے سے کم
نہ تھے اس قدر اپنی باری سے کم
حقیقت جو بھی ہو، انکار کرکے دیکھنا ہے
دمک رہا تھا لگاتار سے اترتا ہوا
ممکن ہی نہ ہو سکا سوال کرتے جاتے
سرسراتے ہیں مرے پتے، صبا پوشیدہ ہے
کچھ نظر آتا نہی، سب کچھ کہاں پوشیدہ ہے
باہر بھی خواب تھا، مرے اندر بھی خواب تھا
چمن میں رنگ تھے، لیکن سبھی پھولوں سے باہر تھے
ریزہ رینزہ بکھر رہا ہوں میں
شاید اس سے ہی کچھ میسر ہو
تھک گیا ہوں جو اپنے ہونے سے
تھا تو آخر یہیں کی پیداوار
اسے رہنا تو کہ نہیں سکتے
کیسی کیسی بگڑ رہی ہے شکل
کم رہا گرچہ اعتبار مرا
کچھ بھی میرا سراغ مل نہ سکا
اس نے جانے کو کہلوایا ہے
اور، حرص و ہوس کے جنگل کا
مجھ سے کیا فلسفہ بگھارتے ہو
ذائقہ اس کا تھا الگ سب سے
ہو کے صر صر ہی مجھ کو چلنا تھا
گلاب سا کوئی گلزار ہونے والا تھا
لگی اچھی بھی ہمیں کار گزاری اپنی
شورش تھی رات بھر جہاں دریاے خواب کی
حشر الفاظ کا بپا کیا جائے
کرن کرن مرا سورج ہے روشنی کے بغیر
نہیں کسی اور کے اشارے سے آنے والا
عجب خرابہ ہے، دن ہے یہاں نہ رات ہماری
پانو کے نام پہ سر لکھنا ہے
جو بندۂ خدا تھا، خدا ہونے والا ہے
کیوں کر نہ ہو پانا یہاں کھونے کے برابر
کوئی مشکلیں ہیں نہ آسانیاں ہیں
وہاں ہونا بھی ہے اب تو یہاں کی دوسری جانب
چھپا ہوا جو دوبارہ دکھائی دے رہا تھا
ملا جلا کے ہمارا تمھارا ہو رہا تھا
یہ کاروبار صرف خسارے میں ہی نہیں
اگرچہ تھا کوئی بستر نہ بوریا مرے پاس
قریب و دور نہیں کوئی بھی یہاں مرے پاس
نہیں جو حوصلۂ عرض آرزو مرے پاس
رکھا ہوا تھا جو کاندھوں پہ میرا گھر مرے پاس
ہے کیفیت کوئی جیسے ملی جلی مرے پاس
میں آسمان کا مالک نہ ہے زمیں مرے پاس
جو عکس دور تھے آکر وہی پڑے مرے پاس
اتنا شاداب اور شگفتہ جو تمہارا باغ ہے
اس پری وش کا بدن تھا یا سراسر باغ تھا
یہ سوال روبرو ہے کہ جواب چل رہا ہے
خبر نہ تھی کہ یونہی بند راستا رہے گا
یہیں کہیں تھا ابھی، ناگہاں کہاں گیا ہے
تمھارے دل میں ارادہ نہیں تو رہنے دو
دیر تک سلسلۂ صبح و صبا میں ہونا
بھٹک رہے ہیں فضاؤں میں دھیان کے ٹکڑے
ہم نے دیکھا ہی نہیں ایسا تماشا کام تھا
کس طرح کی یہ تاک ہے اور جھانک
ایک تھا دراصل،اور، دو کے برابر کام تھا
دکھائی دی ہوا جیسے ہوا کی دوسری جانب
جاگتے میں بھی عجب خواب دکھاتے ہوئے دن
گزرا ہے مرے حال پریشاں کی طرف سے
گرنے کا مرحلہ نہ سنبھلنے کا وقت ہے
کم تر کی ہوس میں جو برابر کی ہوا تھی
یہاں کے چاروں طرف یاوہاں کے چاروں طرف
طبع رسا تھی، اور، روانی کا رنگ تھا
پہلے دیکھی نہیں ایسی کبھی دن رات پہ دھند
خاص کر چھایا ہوا یہ عام جیسا رنگ ہے
روز روز یہ لمبی تان کے سونا، اور، نہ ہونا
ایک پہاڑ کی چوٹی ہے، اور، اس کے رخ پر شعلہ
دھوپ سے انکار ہے، اور، دھوپ ہے
نکلا ہے زور میں کسی جھرنے سے ماہتاب
اندر کے ستارے ہیں نہ باہر کے ستارے
خشکی پہ دھوپ دھار ہے، پانی میں آفتاب
جمع ہونے لگے رستوں پہ بکھرتے ہوئے رنگ
ملتی نہیں اب اس کی نشانی زمین میں
کہیں لکھا ہوا ہے یا زبانی فاصلہ ہے
جاتے ہیں آرام پر
بات سن، بات ہے جواب طلب
دیکھ بھال کر
آشنا کا نہ اجنبی کا مزاج
ایک جنگل ہے دوشیر ہیں
پھر جنگل میں ناچار مور
مانتا ہوں، وہ بھی کہیں مانتا
اوسطاً چھوٹی کہ لمبی بحر میں
بے گھر ہے، جگہ کوئی ٹھکانے کے لیے دو
کیا رہے گا یہاں نہ کیا بالفرض
کھیل تو کھیلا پیار کا
زور و زوری کھلا ہے
چلتے چلتے ایک دم
جیب کاٹ کر لے گئے
دیکھے نہیں پال کے کبوتر
گل ہیں سیاہ پوش، صبا سوگوار ہے
کچھ نہیں ہے چرا و چوں صاحب
توارد
یہ بھلاوا سا اگر بار دگر شیشے کا ہے
میں تو سمجھا تھا کہ خالی آسماں شیشے کا ہے
کبھی خطا، کسی لمحے سزا گزرتا ہوں
اس بہانے لے چلو یا اس بہانے لے چلو
ہوں گے فارغ شتاب دنیا سے
گئے آئے ہزار دنیامیں
ہے کوئی اختیار دنیا پر
دکھائے تھے جو اس نے خواب سارے
سیانے پڑ گئے بیمار سارے
بہت بے سر ہوئے سر تال سارے
نظر آنے لگے انجام سارے
یہاں پر تھے جو گاڑی بان سارے
کپڑے تو کافی ہیں بدن پر، کٹا پھٹا جیسا بھی ہوں
کوئی ہے جو برگ وثمر تو دکھائیں
یکسو بھی لگ رہا ہوں بکھرنے کے باوجود
نئی نکور بھٹیچر جیسی لگتی ہے
دن پر سوچ سلگتی ہے یا کبھی رات کے بارے میں
پہنچی ہوئی دعا کی طرح مستجاب ہو
جیسی اب ہے، ایسی حالت میں نہیں رہ سکتا
تازہ و صاف، مہکتی ہمہ سو آب وہوا
مدعا زور سے منوا بھی کہاں سکتا ہوں
ابھی آنکھوں میں بسایا بھی نہیں تھا ہم نے
یک طرفہ عاشقی کا مزہ بھی اسی میں ہے
کس طرح کے ہیں وہ باغات، نہیں کہ سکتے
سارے سربستہ اشارات سمجھنے کے لیے
وہیں اک شہر بھی سنسان ہوتا جا رہا ہے
جائیں گے اس بزم میں پوری ہی تیاری سے ہم
صبر کر رہا ہوں، انتظار کررہا ہوں میں
وہ دائیں دائیں تو ہے، سامنے نہیں ہوتا
اپنی ہی جستجو کے جنگل میں کھو گئے ہم
وہ ایک طرح سے اقرار کرنے آیا تھا
وہ کہ تھا ہی ایک مدّت سے مرا جانا ہوا
پڑے گا اس کو بے مفہوم ہونا
میری طبع کو کیا رواں کر دیا
کیا خواب تھا، اور، اس کا ستاروں میں چمکنا
ایسی ہی روشنی ہے جیسوں میں لا رہا ہوں
دل طلبگار نہیں رہ گیا ہے
آئے گا رخ پہ رنگ نہ تاثیر گھاس میں
جس قدر اپنے کیے پر یہ ندامت ہے مجھے
یہ نفرت کس طرح کی ہے، محبت کون سی ہے
عشق یہ کیا ہے کہ زحمت نہیں کرنی آتی
وہ جو کاندھے پہ اس کے تھیلا تھا
بظاہر پا رہی یا کھو رہی ہے
آئی، آکر رہی جو ٹل کر بھی
سب سے چھوٹی کا مزہ
موسم ہی وہ رہے نہیں اثناے آرزو
نام نہ ہوتا کیسے رووشن
ہوئی جو شام تو منظر کئی بدلنے لگے
کیا خبر یاد رہا کون، کسے بھول گئے
سفر باقی ہے کتنا، اور، دھارا کس طرف ہے
ابتدا سب جانتے ہیں، انتہا معلوم ہے
جو سر ہی سر ہیں یہاں، بے خطا اضافے ہیں
ہمیشہ کام کسی اور کا سنبھالتا ہوں
یہاں سنتا نہیں کوئی صدا جانے والے کو
ویسا نہیں ممکن ہے تو ایسا ہی مزہ لیں
بولی بول گیا
واہمے سب داغ سے نکلے
گفتگو ہے سب رعایا، خامشی سردار ہے
کسی اندرونی سہارے پہ تھا
بھنور ہی مرا منتظر تھا کہ میں
وہ دریا تھا، اور، دیکھتے دیکھتے
توڑتا ہوں، کہیں بناتا ہوں
اک ستارے کو توڑ کر اس سے
نیند کو مخملیں بناتے ہوئے
ہیں کس طرح کے بام و در تو دکھاؤ
وہ میرے دل کے جو اندر نہیں دکھائی دیا
محبت سوچیے تو سلسلہ تنہائی والا ہے
حقیقت میں ہماری آپ کی یکجائی والا ہے
بہت محفوظ ہوں، گرد سفر میں آگیا ہوں
گرنے کی ندامت کہ سنبھلنے کا نتیجہ
میں آگ پھانکتا ہوں، اور دھواں پلٹتا ہے
وہی ہے رات دن کی یہ مصیبت، اور، ہم دونوں
کسی کے اور نہ ہمارے ہی رکھ رکھاو کے ہیں
بجھے ہی گا یہ ستاروں کا سلسلہ کسی دن
فضاؤں کے لیے بے رونقی مقسوم کر دوں گا
خوش نہیں تیری رفاقت کے بغیر
ہوگا کسی طرح کے اشارے میں آسماں
آخر کہاں سے اس نے اتاری ہے کائنات
کل جانے کیا ہو، آج یہ دنیا تو دیکھ لوں
ایک ایسی بے یقینی کا سفر در پیش ہے
یہ بھاگ دوڑ ہے کیسی ، کہاں سے آگے ہوں
مشکل کوئی پہلے جیسی کیوں نہیں لگتی
جو دکھائی دے رہا ہے ماجرا پہلے ہی تھا
جی اٹھے مرکے تو اک خواب کو دہرانا تھا
یہ پھیلتی ہے یا کہ سکڑتی ہے کائنات
آیا نہیں فی الحال ستارے پہ ستارہ
کہیں سے کردیا خالی، کہیں پہ بھر دیا ہے
اگرچہ کوئی اکیلا نہیں دکھائی دیا
نہ جاگا ہوا ہوں نہ سویا ہوا
پہلے ہی شب عمر گھنیری تھی، مرے یار
میں بظاہر ہی بس ادھورا ہوں
ٹٹو ہم نے کہاں پر
بچا کھچا یہ دل اس پر نثار کرنا ہے
اڑا جو عکس تو اس میں کوئی اشارہ بھی تھا
آنے کی اب نہ کچھ وہاں جانے کی بات ہے
اندھیرے چھار ہے تھے یا اجالا ہونے والا تھا
اتنا کچھ ہو کر بھی یہ گنجایش باقی رہ گئی تھی
اس مکان وزماں کے تھے ہی نہیں
ہے اگر اپنے آرپار میں کچھ
یہ آنکھیں چوم سکتا ہوں کہ ماتھا چوم سکتا ہوں
کچھ ہماری ہاو ہو، اور، کچھ تمہارا شور ہے
کسی خواب نے ان آنکھوں سے اوجھل ہو جانا تھا
اس پر کوئی دعویٰ تو ہمارا بھی نہیں تھا
یہ بھی مجھ کو ہی بہ انداز دگر چاہتے ہو
سپاہ ابلق و شمشیر ہے اللہ اکبر
یہ بھی نہیں کہ ہم کو محبت نہیں ملی
وہ رنگ دل ہے، مگر، کیا خبر ،رنگ دنیا کہاں رہ گیا ہے
جگنو ہے دیکھ لو کہ ستارہ ہے پھول میں
وہ تو کریں گے طلب ہر گئے پل کا حساب
بڑھتا ہوا جو ایک طرف سے اندھیر ہوں
کیا ہوئے آنسوؤں کے ہار پروانے والے
خدا ہے بھی اگر تو ماورا کے کس طرف ہے
وہ پھول ہو کہ شرارہ، ادھر سے آتا ہے
تنی ہوئی کوئی چادر سی آبشار کی تھی
بناؤں کس طرح تصویر اس کے عکس عریاں کی
بار بار ابتر یہ حالت ہوتی رہنی چاہیے
میں یہ سوچتا ہوں سوار کوئی غبار میں نہیں رہ گیا
نہیں داؤ کوئی بھی کار گر، کسی چال میں نہیں آرہا
سچ پوچھیے تو اپنی رسائی میں نہیں تھا
کوئی عیش، کوئی نشاط اب مرے نام کا نہیں رہ گیا
رہے ہم آپ بھی، اس کو بھی قیل وقال میں رکھا
آنا جانا کہیں نہیں اپنا اب اور، مگر، دیکھو
دیر کا سویا ہوا رنگ ہوا جاگ اٹھا
مانگا نہیں سہارا میں نے
چل نکلا ہوں اور طرف کو
خس خانے میں جا رکھا ہے
جھوٹ بول کر ترت لگایا
رکھنا ہے مشکوک ہی سب کچھ
کیا ہے خون کے پیاسے کوہی
یہ حضوری جو ہے ملی صاحب
تساہل
دیوار سی دریچہ و در کے بغیر ہو
فارغ ہوں دل سے، اور، دعا کے بغیر تھا
رہتے نہیں زیادہ وکم کے بغیر تم
چلتا ہے سلسلہ من و تو کے بغیر کب
اس مسئلے کو دیکھنا حل کے بغیر کچھ
بے حال ہیں جو حال زبوں کے بغیر ہم
اہل وطن بھی ہوں تو وطن کے بغیر ہوں
گرے پڑے ہوئے دن رات سے گزرتے ہوئے
میں سختی ستم و جور سے گزرتے ہوئے
ہواے تند صفت چال سے گزرتے ہوئے
سکوں ملا کسی طوفان سے گزرتے ہوئے
ملیں گے آکے مری خاک سے گزرتے ہوئے
کہیں کہیں روش ورنگ سے گزرتے ہوئے
سمٹ رہا ہوں بڑے داو سے گزرتے ہوئے
پتا چلا کوئی گرداب سے گزرتے ہوئے
ابھی کہاں یونہی آرام سے گزرتے ہوئے
سہولت آئےگی دشوار سے گزرتے ہوئے
ستارہ وار گزرتا نہیں دکھائی دیا
وہ رنگ شور شبانہ نہیں دکھائی دیا
کوئی فسوں، کوئی جاؤو نہیں دکھائی دیا
وہ چاند، اور وہ ہالہ نہیں دکھائی دیا
یہی نہیں کہ کجاوہ نہیں دکھائی دیا
ہمارے ہاتھ مںی کاسہ نہیں دکھائی دیا
کوئی اشارہ کنایہ نہیں دکھائی دیا
کوئی چلن، کوئی چارہ نہیں دکھائی دیا
سمجھ رہے ہیں کہ افلاک سے لگے ہوئے ہیں
وہی تھے جو کبھی انجیل سے لگے ہوئے تھے
ہمارے ساتھ وہ مجبور سے لگے ہوئے تھے
بظاہر آپ جو مجود سے لگے ہوئے ہوں
ہمارے دل پہ جو تاخیر سے لگے ہوئے ہیں
ظفر، کسی کے طلسمات سے لگے ہوئے ہو
یہی نہیں کہ خدوخال سے لگی ہوئی ہے
یہ ہم جو سلسلۂ خواب سے لگے ہوئے ہیں
جو ماہتاب ترے بام سے لگا ہوا ہے
تری ہی دی ہوئی تکرار سے لگا ہوا ہوں
ہر شے آنی جانی کر
بیٹھا ڈنڈمچائی کر
ساری گئی گواتی کر
خدمت کوئی بتایا کر
ملک سخن کا والی کر
خوشبو کا ایک رنگ مچلتا ہے اور بس
دل سے خیال سا وہ گزرتا ہے اور بس
چھٹتا ہے اور نہ کھل کے برستا ہے اور بس
دنیا میں آئے ہیں تو یہ دنیا ہے اور بس
وہ بھی زیادہ تر تو بقیایا ہے اور بس
اس رات کی رگوں سے گزارا ہے اور بس
رنگ ایک دوسرے میں ملاتا ہوں اور بس
منظر کوئی ہوا کا دکھاتے ہیں اور بس
پانے سے پہلے ہی اسے کھوتا ہوں اور بس
اپنے ہی آپ سے یہ جھگڑتی ہے اور بس
کرنا ہے جو آپی کر
ماسی کر یا مامی کر
پوری کر یا آدھی کر
تازی کر یا باسی کر
ہوسکتا ہوں، کبابی کر
بہت کوشش میں تھا قرآن سارا
اٹھا کر عشق میں نقصان سارا
منافع لے گئے حیوان سارا
کریڈٹ لے گئے نادان سارا
یہ سر میں شور، یہ خلجان سارا
نکلتا ہی نہیں ارمان سارا
اگرچہ مجھ سے نہ دریافت ہو سکی دنیا
جو مجھ سے پوچھتا کوئی تو ہے عجب دنیا
جو کام اپنے ہیں اتنے، نبیڑتی دنیا
جو میرے ساتھ کوئی دن گزراتی دنیا
ابھی تو دیکھ سکا ہوں یہ سرسری دنیا
کہاں مرے لیے گھر ڈھونڈتی پھرے دنیا
چھپی رہے گی کہاں تک، نہ یوں چھپا دنیا
کھڑی ہے اپنے کسی اعتبار پر دنیا
عجب نہیں جو ابھی خواب ہے، ابھی دنیا
کبھی کبھار جو ہوتی ہے دوبدو دنیا
یہاں جو بکھری ہوئی ہے جہاں تہاں دنیا
جو شبوے گل بدن جو مرے ارد گرد ہے
کیسے کرے اثر جو مرے ارد گرد ہے
اتنی یہ ہاو ہو جو مرے ارد گرد ہے
یہ ہالۂ ہوس جو مرے ارد گرد ہے
گردش میں گم زمیں جو مرے ارد گرد ہے
سب کچھ بہم کروں جو مرے ارد گرد ہے
طومار بیش وکم جو مرے ارد گرد ہے
انبار این و آں جو مرے ارد گرد ہے
ہلچل یہ جا بجا جو مرے ارد گرد ہے
تاریک روشنی جو مرے ارد گرد ہے
ناآشنا ازل سے، ابد کے بغیر ہے
لالچ سے ماورا نہ گنہ کے بغیر تھے
معجز نمائی جسم کی جاں کے بغیر تھی
کوئی اقرار سا انکار کے آگے پیچھے
خامشی کیوں نہیں کہرام کے آگے پیچھے
مچھلیاں جیسے ہوں تالاب کے اندر باہر
واہ کے ایک طرف، آہ کے اتر دکھن
جب سے خالی ہوئے بھر پور کے پورب پچھم
لے کے آجائے گی پھر گھوم کے اندر باہر
خامشی جیسے کسی بات کے آلے دوالے
سب کچھ اس نے بھی کیا آن کے اوپر نیچے
عکس کیوں کر نہ ہو تصویر کے اوپر نیچے
شعبدے تھے مرے اعجاز کے آسے پاسے
لاکھ ڈھونڈا کیے بے سود کے دائیں بائیں
الجھا ہوا جو دل سے امنگ انتظار تھا
میرا جواب تھا کہ سوال انتظار تھا
کیا سرخیاں تھیں،، کیسا گلاب انتظار تھا
سچ پوچھیے تو صبح سے شام انتظار تھا
ایسا وہ بے شمار و قطار انتظار تھا
یوں بھی نہیں کہ شام وسحر انتظار تھا
ہر وہم انتظار، گمان انتظار تھا
جیسا عدوے صبر وسکوں انتظار تھا
موسم کی طرح چھایا ہوا انتظار تھا
کہنے کو یوں تو سارا جہاں انتظار تھا
ملبوس انتظار مکان انتظار تھا
چڑھتی ہوئی ندی سا رواں انتظار تھا
وہ عرض انتظار کہ طول انتظار تھا
رات کا رنگ ہے پانی جیسا
بے وفا، اور،کمینہ جیسا
نیا نکور نرالے جیسا
تھا کوئی خواب پرانے جیسا
چھلملاتے ہوئے تارے جیسا
ہم تو ہو کر بہم رکے ہوئے ہیں
دم بہ دم جابہ جا رکی ہوئی ہے
راستا اور گھر رکا ہوا ہے
سمجھ لو کہ سوتے ہوئے تھک گیا ہوں
نہیں یہ کہ چلتے ہوئے تھک گیا ہوں
بگڑتے سنورتے ہوئے تھک گیا ہوں
تری سمت جاتے ہوئے تھک گیا ہوں
پاکستانی غزل
عرض ناصر
قرینہ
خیال خلقی اور زبان انتظاری کی شاعری
آب رواں
ربط ویابس
گلافتاب
غبار آلو دسمتوں کا سراغ
سرعام
عیب وہنر
وہم وگماں
اطراف
ہے ہنومان
تفاوت
ترتیب
تماشا
تقویم
غزل تنقید
تمجید
محمد حنیف رامے کی یاد میں
کھیت پر ہے نہ تھان پر ہے تو
ابر پر، کوہسار میں ہے تو
زخم کے اندمال میں ہے تو
شور دریا ے خواب تجھ سے ہے
میرا رنگ کلام تجھ سےہے
اپنی بپتا سناؤں گا تجھ کو
کچطھ اس طرح کا یہ فسانہ ہے تجھ سے
کبھی دن سے باہر، کبھی رات میں تو
شام تو ہے مری، سحر تو ہے
جھجکنے سے ہر گز نہ ڈرنے سے تو
نام تو ہے مرا نسب تو ہے
یوں سفر کا ہے استعارہ تو
وہم تیرا ہے گماں تیرا ہے
میرے ہر سمت ہوا ہے تیری
قید ہو کر ہی قفس میں تیرے
یہ جہاں طرفہ بنایا تونے
سانس تیرے لیے، سر تیرے لیے
نور ظہور کا ہالہ تو
مسکینوں کے سہارے تم
پکے ہو اور سچے تم
ہمیں تھما کر کاسے تم
کتنے ہو، کیسے ہو تم
آنی جانی تجھ سے ہے
باطن تو، ظاہر بھی تو
پردہ ترت اتارا تونے
دن اور رات ہیں تیرے
جی اور جان ہمارے
جو بھی کام تمھارے ہیں
دل میں گماں سب تیرا ہے
تو ہے صبح سویرے میں
اپنے خواب دکھایا کر
اپنے چاند ستارے ہوں گے
اعلیٰ تو ہے، عالی تو ہے
دل کا راج دلارا تو ہے
دل کی بےآرامی تو ہے
پھول ہیں تیرے، پات ہیں تیرے
بخشش کافی دے مولا
بھوکا ہے دل، بھات چاہیے
آدھا کر یا سارا کر
جا سکتے ہو، آسکتے ہو
دنیا تیری گورکھ دھندا
پکڑو کبھی ہمارا پلہ
رہا پیڑ پر پھول نہ پتا
عشق خدا میں پھنسے ہیں
اللہ صاحب کھرے ہیں
روئے ہوئے ہو، گائے ہوئے ہو
نامعلوم میں پڑے ہوئے ہو
یاد تری جب آجاتی ہے
یوں تو میری زبان پر ہو تم
ہر اک طرح کا ہنر آزمانے والے ہو
پچھلی بات ہمارے پر ہے
وارے ہوتے جائیں
دم ہے رکا ہوا اللہ جی
بندے تو ہم عام سے ہیں
آنکھ ملانے سے ڈرتا ہوں
روئے پھر بھی گایا پھر بھی
آدھے، سارے لگتے ہو
حال بتایا ہی نہیں
کچھ نہیں ہر سو رہے گا
آنسو عرض گزراتے
حمد اس کی لکھتا رہوں
بیچ بزار سنایا میں نے
غور دوبارہ ہو سکتا ہے
بڑی گنہ کی لڑی ہے
دامن نہیں ہمارا صاف
جو بھی تماشا کیا ہے
اس کو پکڑا پیر ہے
جرم سے کچھ انکار ہے
کبھی بہانہ کرے گا
کچھ نہیں اپنے پاس
تیرے بھجن ہی گائے
ایسی طرز نکالی میں نے
پڑے تمھارے پیٹے
حشر کو ہاہا کار پڑے گی
در زنداں نہ کھلا میرے خدا
ہوں پڑا میں بھی ادھر، میرے خدا
زندگی قید بنی ،میرے خدا
پیؤں اس حمد کی مے میرے خدا
حمد کرتا ہوں سبو، میرے خدا
دور ہیں میں اور تو میرے خدا
آن تمہاری ، بان تمہاری
کھیت ہوئے ویران ہمارے
ہٹیں ذرا دربان تمہارے
اب کیا ہوں امکان ہمارے
جان ہوئی بے جان ہماری
ملاقات ہو سکتی ہے
انتظام ہو سکتا ہے
تم ہو بڑے اور کام تمہارا بڑا ہے
کروں جو تیری شان بیان
سبب اس دل کی ناصبوری ہے
حمد خود میرے پاس آتی ہے
آدھی سن یا ساری سن
دل کے اندر چور ہے
مختصر یہ کہ بے مثال ہے تو
انکساری بھی تجھ سے ہے
روز وشب اور صبح وشام ترے
یہ زمان و مکاں کہاں کے ہیں
سب میں چرچا کریں گے
آخر ہے یہ سب کیا راز
ہیرا پھیری خوب ہے
برقع اٹھانا کوئی دن
جب بھی سوچ بنائی ہے
میرا اور تمہارا کچھ
قول وقرآن بھی اسی کا ہے
کام ہے کیا حیرانی والا
برا ہوا یا اچھا ہوگا
بدعائے ہوئے نہیں تھے ہم
زیر زبر نے کرنا ہے
کچھ کم نہیں تھے ہوا کے اسرار
صبح کو شام سمجھتا ہوں میں
زمین وآسماں کا کھیل کیا ہے
سب کو تیری طرف بلاؤں گا
ایسا ہے یا ویسا ہے
تو ہے مشکل کشا اے خدا اے خدا
گور کنارے کھڑے ہیں
روتے گاتے جائیں گے
بحر وبر ہے یہ آپ کا صاحب
ہیں اگر آج دو بدو صاحب
چاہیے لطف اور کرم صاحب
پاس کچھ بھی نہیں مگر صاحب
آپ تو تھے ہی لا مکاں صاحب
تقویم
سوچتے تھے فضا ہے نامانوس
چمر جتنی بھی کائنات کی ہے
دلدل سی ایک ہے کہ ہیں جس میں دھنے ہوئے
ملتا جو کائنات کے آغاز کا سراغ
ہماری کہکشاں ہے یا تمہاری کہکشاں ہے
جوبھی جہاں تھا
پیٹے جیسا، تانے جیسا
کیا کوئی دیکھتا راستا
ہیں یہ کیسے رات دن،کس طرح کا ماحول ہے
اک بار رہ گئی جو خسارے میں کائنات
اس نے خود آکے مجھ کو بتایا ہے طول موج
پکارتی ہے بہت دور سے زمیں مجھ کو
باہر کی روانی ہو کہ اندر کی روانی
اصل میں میرے سوا ہے دریافت
بے شک یہ تماشا ہے تمنا کے مساوی
ڈھونڈوں جو ستارے کو ستارہ نہیں ملتا
ٹھہرے کہیں وقت ہی کی رفتار
پھیلتا جاتا ہے کاغذ پہ علاقہ میرا
یہ جواب ہے تو ہے کبھی کا غبار
گردش کرتی ہوئی زمین
کہیں میٹھا ہے نہ کھاری پانی
کچھ زمیں کچھ آسماں پر ہوں
ہم نہیں ہیں کوئی ستارہ شناس
ہوگی یہ بھی کہاں کی پیمایش
جب ہمارا ہوا حساب کتاب
بند آنکھیں نہیں کرتا کوئی
پرزہ پرزہ ہونا ہے
کبھی انار درخت ہیں
اور ہی کوئی جل رہی ہے اؑٓگ
ڈھیلے ڈھالے لوگ ہیں
کیسی کالی دھوپ ہے
دوبارہ اس زمیں پر پانو دھرنا چاہتا ہوں
خون میں خواب ہمارے تیرے
مجھے ہی گھورتا رہتا ہے تھکنے والا ہے
پھنسا ہوا ہوں دلدّر میں
ہوتا رہتا ہے خود ہمارا کام
آنکھوں پار ستارہ تھا
اپنی صورت بدل رہی ہے آگ
ہوا کے آگے بھی ہوا
نامعلوم ہوائیں
اپنے اوپر پڑی ہے
بادل بن کر چھایا موسم
کہاں ہے اپنا دانہ پانی
دروازہ کھولا پانی میں
روشنی ہے سارے پانی میں
خاک سے جو خدا کے رشتے ہیں
چلتی ہے زمین یا کھڑی ہے
زمیں پہ چاند اتارا ہے، آؤ دیکھو تو
رہ سکتے نہیں اپنے کناروں میں ستارے
یہ زمیں گردش میں ہے یا آسماں گردش میں ہے
چلتا ہوا رکے ہوئے پانی میں آسماں
کوئی گڑبڑ کریں گے مل کر زمین وآسماں
آزما بیٹھے ہنر سارے زمین و آسماں
آپ رہ جائیں گے بیش وکم زمین وآسماں
پہلے ایسے تو نہ ہوتے تھے زمین وآسماں
جھومتے دیکھو گے متوالے، زمین وآسماں
ہیں حقیقت یا کہ افسانے زمین وآسماں
کب ہوئے تھے اتنے برفیلے زمین وآسماں
لے کے آئے تھے کوئی الجھن زمین وآسماں
پانو رکھے سر پہ اور بھاگے زمین وآسماں
میں بھی ایسے ہی سمجھ بیٹھا زمین وآسماں
سربسر مشکل تھے ہر عنواں زمین وآسماں
خاک پر تو بلا تماشا ہے
جس قدر غور کر رہا ہوں میں
پہنچے ہیں ان حالوں میں
جس قدر ہیں رواں کہکشائیں
کچھ اضافہ ہے کچھ کمی بھی ہے
یہ مبتو چاند ستارے ہیں
رواں دواں ہریالی ہے
زمیں آسماں ہرے
کہکشاں بدن زرد
جدھر چل پڑو گے ادھر راستے ہیں
کب سے آگے سورج ہے
آگے چاند ستارہ
چاند کی طرح دمک سکتی ہے
جدھر ستارے جائیں
ناچ رہے ہیں دل میں تارے
صبح وشام حیرانی
اندر باہر شور ہے
نیا پرانا دھواں ہے
شام ڈھلے جب آئی بارش
کڈھب کرشمہ عجب تماشا، فلک پہ بجلی، زمیں پہ باراں
ہے بے آب سمندر
آنکھیں میچے دریا
گورا دن اور کالی ریت
ایسے اڑے ہمارے ذرّے
ایسی بھائی گرد
لگا بہت ہی بھولا چاند
آسمان سے ٹوٹا تارا
اپنی بلائی ہوئی
کائنات کی حیرانی ہے
ستارہ دور کیوں ہے
کس جنگل میں کھوئے
زمیں زیر و زبر کب ہو رہی ہے
یہ ہوتا کیوں نہیں تھا ہونے والا
ایک خلا یا اور خلا
کوئی ستارہ چاہیئے
نیلی مٹی، پیلی مٹی
ایک ستارہ ہرا
نیلم پری سی ہے کوئی ساروں کے درمیاں
یہ اندر ہو کہ باہر آسماں کے سامنے ہے
اسی دشت میں کوئی تھا سبزہ زار
وقت سے جیسے ماورا دن ہے
ہر طرف دھندے ہے پھیلی ہوئی سیارے پر
آسمانوں سے اترتی ہوئی شام
اک جگہ پر تو ٹھہرتے نہیں سارے موسم
تازہ وصاف لہکتی ہمہ سو آب و ہوا
ہے اور بات بہت میری بات سے آگے
کوئی شاید جواب دے آواز
پہلے تو فقط ہوا ہے رفتار
موسم کا ہاتھ ہے نہ ہوا ہے خلاؤں میں
بے وجہ بلندی سے اترتے نہیں بادل
گرد میں دھند ہے، غبار میں دھند
مجھے ہر بار ہی لگی آواز
اس طرح کی بھی ہے کہیں آواز
رکتی رکتی، ڈری ڈری آواز
نہیں دیتے ہیں رفتگاں آواز
روشنی کا یہ پل اندھیرے میں
پھول کیسا کھلا اندھیرے میں
اتنی گہرائی تھی اندھیرے میں
ہم خزاں کے ڈرے ڈرے صاحب
تشکیل
ہواے وادی دشوار سے نہیں رکتا
دریا مرے راستے میں آیا
اس طبع خام کی جو روانی رکی رہی
کہیں پہ خوار ہوئے ہیں کہیں زبو ہوئے ہم
نہ گھاٹ ہے کوئی اپنا نہ گھر ہمارا ہوا
کچھ وعدہ وعید چاہیے ہے
دیکھو تو کچھ زیاں نہیں کھونے کے باوجود
اس شہر سے جارہا ہوں کب سے
ستارے،چاند، سورج سب تھکے ہارے لگے مجھ کو
نہ اس کو بھول پائے ہیں نہ ہم نے یاد رکھا ہے
گیرائی دریا کو زنہار نہیں پہنچا
جیسا بھی ہے وہ ، اس کی تمنا بری نہیں
اک دشت اور بھی مرے گھر کے بجاے تھا
سراسر ختم ہو کر بھی جوانی اور باقی ہے
ہم نے اسے مدد کو پکارا تو ٹھیک ہے
کچھ اب کے میں بہ انداز دگر جاگا ہوا ہوں
ایسی کوئی درپیش ہوا آئی ہمارے
وہی اک خواب ہے آنکھوں میں تازہ رہنے والا
تمہارے پرس میں رکھانہ اس کی جیب میں ڈالا
یہ اپنی ذات بھی اپنا تماشا خود بناتی ہے
شناسائی بہت ہے، آشنائی چاہتا ہوں
اندر تو جھانک بیٹھے ہیں، باہر بھی دیکھتے
محبت ہو چکی تھی مبتلا ہونے سے پہلے ہی
ہو بھی جائے تو کہیں گے یہ کہیں ہو سکتی
بینائی سے باہر، کبھی اندر مجھے دیکھے
بظاہر تو سبھی کچھ مبتلا رہنے سے ہو گا
اگر کبھی ترے آزار سے نکلتا ہوں
یہ بھی ہے دن ہی کے ہنگامۂ حالات کا وقت
ہمیں ادھر کبھی ہونا نہیں جدھر کوئی ہے
کچھ ایسے لگتا ہے باہر بھی اپنا گھر کوئی تھا
سلامنت واپس آیا ہی نہیں گھر جانے والا
دو گھڑی کے لیے چلتے ہیں ٹھہرتے ہیں کہیں
تھا خواب تو کیا خواب نما کرتے اسے ہم
جیسا وہ سمجتے ہیں ویسا بھی نہی ہوں میں
جھوٹا ہے نہ سچا ہے تو ہے اور بھی اچھا
چیزوں کو درمیاں سے ہٹایا ہوا نہیں
پرندوں، بادلوں کا ساتھ مل کر ایک ہونا
بے شک رکا ہوا ہے ، روانی بنائے گا
میں حسن کے حالات سے غافل بھی نہیں تھا
بھلے کرتا رہے ،انکار سے بھی کچھ نہیں ہوتا
کچھ ہے بھی سہی، لیکن، انتا تو نہیں سب کچھ
آتا نہیں کوئی، کہیں جاتا نہیں کوئی
نہ گماں رہنے دیا ہے نہ یقیں رہنے دیا
اس کو آنکھوں میں گھر بنا دیا ہے
دھیان جس کا ہے ابھی ایک زمانے کی طرف
یہی زمین کبھی اور تھی، فصا کوئی اور
نتیجہ کوئی تو اچھا برا نکل سکتا
بچھا ہے سبزہ یہاں بھی کہیں دکھائی تو دے
محبت کام ہے ایسا جسے باری سے کرتی ہیں
اپنے انکار کے برعکس برابر کوئی تھا
کہیں اپنے لیے محفوظ اشارے کوئی ہے
ہمارے درمیاں جو گھٹتا بڑھتا فاصلہ ہے
مل کے بیٹھے نہیں خوابوں میں شراکت نہیں کی
جیتے ہیں تیرے ساتھ نہ مرتے ہیں تیرے ساتھ
آنے کی دیر ہے کبھی جانے کی دیر ہے
بھلے ہی اب تو پرانی ہو یا نئی تحریر
نہیں کہ دل میں ہمیشہ خوشی بہت آئی
روا بھی ہونی تھی،اور،ناروا بھی ہونی تھی
اسے کیا جانے کس دیوانہ پن سے دیکھتا ہوں
ایک ہی خواب ہے آنکھوں میں، کہیں مل سکتے
پھول دل میں جو کھلا ہے تو پتا لگنے دے
اچھا ہے محبت میں سبکسار نہ ہونا
موجود بھی رہنا ہے، دکھائی نہیں دینا
مرے نواح میں دنیا زیادہ ہو گئی ہے
خواب پرزور کی بارش ہوئی، اور، پھول جھڑے چاروں طرف
اتنا ٹھہرا ہوا ماحول بدلنا پڑ جائے
بہت کچھ کہ چکے تھے مہرباں ہونے سے پہلے ہی
نیا طریقۂ اظہار خود بناتے ہیں
چمکے گا ابھی میرے خیالات سے آگے
بام ہوا پہ کوئی اشارہ ہے یا چراغ
دمک رہی ہے زمیں آسماں چمکتا ہے
شکرہے کچھ تو افاقہ ہوا بیماری سے
صحرا فریب ہے کبھی دریا فریب ہے
خواب خواہش کی دمک سے ہر مکاں روشن ہوا
خود جسے دل سے نکالا تھا، یہیں موجود ہے
بھلا بیٹھے، نہیں تھی جو محبت بھولنے والی
رسوا زمانے بھر میں ہمارا ہی نام ہے
نیت ہے کوئی اور، عمل اور طرح کا
مرے نشان بہت ہیں، جہاں بھی ہوتا ہوں
غرض نہیں ہے بیاباں سے، بن سے کام نہیں
سمجھ میں کچھ نہیں آتا یہاں کیا کیا برابر ہے
سینۂ دشت سے اک چشمہ ابلتا ہوا ہے
کالی کھا، یا بھوری کھا
کچھ وہ ہی زیادہ گوری تھی
طلسم ہوش ربا میں پتنگ اڑتی ہے
ادنی ہو یا اعلیٰ ہو
ددنیا نہیں حسب حال
کرتے بات سلیقے سے
اندھیرا ذرا اور گوڑھا ہوا
ریڑھی والا بھی پیار کرتا ہے
میں نے کہاں بسنت ہے، آؤ، پتنگ اڑاؤ
چولا جو بھی ماپ کا ہے
طعنہ سا گم رہی کا
آر سے پار کسی اور طریقے سے ہوا
دل میں داخل ہو گیا
کہا بھی، سہا بھی نکل آئے گا
یا تو آنے والا ہوں
روز ایسا تو نہیں ہونا ہے
آتا جاتا رہتا ہوں
سیر ہو جیسے مدینے کی طرف
کھیلا اپنی جان پر
روکے نہیں رکتے، ہم
رونے سے کیا ملا ہے
کوئی آتا ہمارے راستے میں
جو کہتے ہو، ٹھیک ہے
آنا جانا کافی ہے
سفر پہلے ہی جیسا ہے
بھیجا خالی ہو گیا
کچھ پسینے کو پتا لگنے دے
یہ اچھی ظفر، اس کی قیمت لگائی
گھر کے اندر بیٹھا ہوں
اب کیا کہتے ہو
تلخیوں کے ساتھ ہوں
جتنا جیسے نیچے ہے
گھر میں شام اندھیرا
گرتے پڑتے ہوئے بھی
کچھ تو کرنا پڑے گا
شور شرابا مزے کا
اور کچھ کہ نہیں سکتے فی الحال
ایسی رات گزاری ہوگئی
اتنی باریکیاں، مرے صاحب
تجاوز
کچھ زاویۂ منظر دنیا تو نیا ہو
زندہ بھی خلق ہوں، مرا بھی ہوا ہوں میں
جہاں کھڑا ہوں بہت ہی وہاں سے آگے ہے
ٹوٹتی کیوں نہیں،دیوار کے اندر کیا ہے
بے رنگ صبح و شام ابھی اور آئیں گے
جاتا کہاں تصویر تماشا سے نکل کر
دوبارہ اپنے عہد جوانی میں آؤں گا
کچھ تو ہوتا فقط آشفتہ بیانی کے سوا
تھا سوگوار یوں تو ہمارے مآل پر
یہی پانا اگر ہے، اس کو کھوتے بھی تو کیا تھا
ساتھ ہی عزت واکرام سے باہر ہوئے ہم
خبر کو خواب کا ومساز ہم نے کر دیا ہے
ملی جلی مجبوری جسیا
کیوں اسے اشارہ نہیں کیا
اور کچھ کہ نہیں سکتے فی الحال
دیتے ہوئے بیان بہت
فقرے کستے بھی ہیں
گھر میں اُگے ہوئے ہیں نہ باہر اگے ہوئے
میرے جیسا ہو جا
جو ہم سے شاعری میں گہرائی چاہتے ہیں
شاعری کا بدل چکا ماحول
اور احساسات ہیں، دل اور ہیں
اندر کی جھل رہا ہو پکھّی
جس قدر بھی کہو، نہیں بھرتا
رستے سے اگرچہ ہٹ گیا ہے
آخر ہکے بکّے سے
اصل تو جھگڑا اور ہے
ذائقہ بدلنا ہے
جھگڑا نہیں کیا کرتے
جیسی یہ شاعری ہے، ویسوں میں لا رہا ہوں
شعر وسخن بھی چاہیے
کیا کریں، اب زندگی ہوتی نہیں
اس اچھلتے ہوئے دریا سے بہت پیچھے ہوں
دھواں دھار مرغولہ کیسا
ہوگی درپیش ابھی اور بھی کیا کی مشکل
اسی دشت میں کوئی تھا سبزہ زار
درپیش ہے صحرا وہی صحرا سے گزر کر
جہاں تہاں مرا ہونا ہی تھا خسارے میں
اندھیرا ہوا یا اجالا ہوا
خدائی نے پیچھا کیا دیر تک
دیکھنے میں یوں تو یہ سارے کا سارا پھول ہے
اس کا گلاب، اپنا گریبان جائے گا
کوئی شعبدہ تھا کہ اعجاز تھا
کوئی باقی ہے ابھی دل میں تماشا لگنا
کسی خواب سے سر خرو ہونے والا
کسی ہجوم ہوا کو تلاش کرتا ہوں
طلوع سا کوئی صبح صدا کے ساتھ آیا
کنارے تھے، لیکن ، کنارے سے کم
نہ تھے اس قدر اپنی باری سے کم
حقیقت جو بھی ہو، انکار کرکے دیکھنا ہے
دمک رہا تھا لگاتار سے اترتا ہوا
ممکن ہی نہ ہو سکا سوال کرتے جاتے
سرسراتے ہیں مرے پتے، صبا پوشیدہ ہے
کچھ نظر آتا نہی، سب کچھ کہاں پوشیدہ ہے
باہر بھی خواب تھا، مرے اندر بھی خواب تھا
چمن میں رنگ تھے، لیکن سبھی پھولوں سے باہر تھے
ریزہ رینزہ بکھر رہا ہوں میں
شاید اس سے ہی کچھ میسر ہو
تھک گیا ہوں جو اپنے ہونے سے
تھا تو آخر یہیں کی پیداوار
اسے رہنا تو کہ نہیں سکتے
کیسی کیسی بگڑ رہی ہے شکل
کم رہا گرچہ اعتبار مرا
کچھ بھی میرا سراغ مل نہ سکا
اس نے جانے کو کہلوایا ہے
اور، حرص و ہوس کے جنگل کا
مجھ سے کیا فلسفہ بگھارتے ہو
ذائقہ اس کا تھا الگ سب سے
ہو کے صر صر ہی مجھ کو چلنا تھا
گلاب سا کوئی گلزار ہونے والا تھا
لگی اچھی بھی ہمیں کار گزاری اپنی
شورش تھی رات بھر جہاں دریاے خواب کی
حشر الفاظ کا بپا کیا جائے
کرن کرن مرا سورج ہے روشنی کے بغیر
نہیں کسی اور کے اشارے سے آنے والا
عجب خرابہ ہے، دن ہے یہاں نہ رات ہماری
پانو کے نام پہ سر لکھنا ہے
جو بندۂ خدا تھا، خدا ہونے والا ہے
کیوں کر نہ ہو پانا یہاں کھونے کے برابر
کوئی مشکلیں ہیں نہ آسانیاں ہیں
وہاں ہونا بھی ہے اب تو یہاں کی دوسری جانب
چھپا ہوا جو دوبارہ دکھائی دے رہا تھا
ملا جلا کے ہمارا تمھارا ہو رہا تھا
یہ کاروبار صرف خسارے میں ہی نہیں
اگرچہ تھا کوئی بستر نہ بوریا مرے پاس
قریب و دور نہیں کوئی بھی یہاں مرے پاس
نہیں جو حوصلۂ عرض آرزو مرے پاس
رکھا ہوا تھا جو کاندھوں پہ میرا گھر مرے پاس
ہے کیفیت کوئی جیسے ملی جلی مرے پاس
میں آسمان کا مالک نہ ہے زمیں مرے پاس
جو عکس دور تھے آکر وہی پڑے مرے پاس
اتنا شاداب اور شگفتہ جو تمہارا باغ ہے
اس پری وش کا بدن تھا یا سراسر باغ تھا
یہ سوال روبرو ہے کہ جواب چل رہا ہے
خبر نہ تھی کہ یونہی بند راستا رہے گا
یہیں کہیں تھا ابھی، ناگہاں کہاں گیا ہے
تمھارے دل میں ارادہ نہیں تو رہنے دو
دیر تک سلسلۂ صبح و صبا میں ہونا
بھٹک رہے ہیں فضاؤں میں دھیان کے ٹکڑے
ہم نے دیکھا ہی نہیں ایسا تماشا کام تھا
کس طرح کی یہ تاک ہے اور جھانک
ایک تھا دراصل،اور، دو کے برابر کام تھا
دکھائی دی ہوا جیسے ہوا کی دوسری جانب
جاگتے میں بھی عجب خواب دکھاتے ہوئے دن
گزرا ہے مرے حال پریشاں کی طرف سے
گرنے کا مرحلہ نہ سنبھلنے کا وقت ہے
کم تر کی ہوس میں جو برابر کی ہوا تھی
یہاں کے چاروں طرف یاوہاں کے چاروں طرف
طبع رسا تھی، اور، روانی کا رنگ تھا
پہلے دیکھی نہیں ایسی کبھی دن رات پہ دھند
خاص کر چھایا ہوا یہ عام جیسا رنگ ہے
روز روز یہ لمبی تان کے سونا، اور، نہ ہونا
ایک پہاڑ کی چوٹی ہے، اور، اس کے رخ پر شعلہ
دھوپ سے انکار ہے، اور، دھوپ ہے
نکلا ہے زور میں کسی جھرنے سے ماہتاب
اندر کے ستارے ہیں نہ باہر کے ستارے
خشکی پہ دھوپ دھار ہے، پانی میں آفتاب
جمع ہونے لگے رستوں پہ بکھرتے ہوئے رنگ
ملتی نہیں اب اس کی نشانی زمین میں
کہیں لکھا ہوا ہے یا زبانی فاصلہ ہے
جاتے ہیں آرام پر
بات سن، بات ہے جواب طلب
دیکھ بھال کر
آشنا کا نہ اجنبی کا مزاج
ایک جنگل ہے دوشیر ہیں
پھر جنگل میں ناچار مور
مانتا ہوں، وہ بھی کہیں مانتا
اوسطاً چھوٹی کہ لمبی بحر میں
بے گھر ہے، جگہ کوئی ٹھکانے کے لیے دو
کیا رہے گا یہاں نہ کیا بالفرض
کھیل تو کھیلا پیار کا
زور و زوری کھلا ہے
چلتے چلتے ایک دم
جیب کاٹ کر لے گئے
دیکھے نہیں پال کے کبوتر
گل ہیں سیاہ پوش، صبا سوگوار ہے
کچھ نہیں ہے چرا و چوں صاحب
توارد
یہ بھلاوا سا اگر بار دگر شیشے کا ہے
میں تو سمجھا تھا کہ خالی آسماں شیشے کا ہے
کبھی خطا، کسی لمحے سزا گزرتا ہوں
اس بہانے لے چلو یا اس بہانے لے چلو
ہوں گے فارغ شتاب دنیا سے
گئے آئے ہزار دنیامیں
ہے کوئی اختیار دنیا پر
دکھائے تھے جو اس نے خواب سارے
سیانے پڑ گئے بیمار سارے
بہت بے سر ہوئے سر تال سارے
نظر آنے لگے انجام سارے
یہاں پر تھے جو گاڑی بان سارے
کپڑے تو کافی ہیں بدن پر، کٹا پھٹا جیسا بھی ہوں
کوئی ہے جو برگ وثمر تو دکھائیں
یکسو بھی لگ رہا ہوں بکھرنے کے باوجود
نئی نکور بھٹیچر جیسی لگتی ہے
دن پر سوچ سلگتی ہے یا کبھی رات کے بارے میں
پہنچی ہوئی دعا کی طرح مستجاب ہو
جیسی اب ہے، ایسی حالت میں نہیں رہ سکتا
تازہ و صاف، مہکتی ہمہ سو آب وہوا
مدعا زور سے منوا بھی کہاں سکتا ہوں
ابھی آنکھوں میں بسایا بھی نہیں تھا ہم نے
یک طرفہ عاشقی کا مزہ بھی اسی میں ہے
کس طرح کے ہیں وہ باغات، نہیں کہ سکتے
سارے سربستہ اشارات سمجھنے کے لیے
وہیں اک شہر بھی سنسان ہوتا جا رہا ہے
جائیں گے اس بزم میں پوری ہی تیاری سے ہم
صبر کر رہا ہوں، انتظار کررہا ہوں میں
وہ دائیں دائیں تو ہے، سامنے نہیں ہوتا
اپنی ہی جستجو کے جنگل میں کھو گئے ہم
وہ ایک طرح سے اقرار کرنے آیا تھا
وہ کہ تھا ہی ایک مدّت سے مرا جانا ہوا
پڑے گا اس کو بے مفہوم ہونا
میری طبع کو کیا رواں کر دیا
کیا خواب تھا، اور، اس کا ستاروں میں چمکنا
ایسی ہی روشنی ہے جیسوں میں لا رہا ہوں
دل طلبگار نہیں رہ گیا ہے
آئے گا رخ پہ رنگ نہ تاثیر گھاس میں
جس قدر اپنے کیے پر یہ ندامت ہے مجھے
یہ نفرت کس طرح کی ہے، محبت کون سی ہے
عشق یہ کیا ہے کہ زحمت نہیں کرنی آتی
وہ جو کاندھے پہ اس کے تھیلا تھا
بظاہر پا رہی یا کھو رہی ہے
آئی، آکر رہی جو ٹل کر بھی
سب سے چھوٹی کا مزہ
موسم ہی وہ رہے نہیں اثناے آرزو
نام نہ ہوتا کیسے رووشن
ہوئی جو شام تو منظر کئی بدلنے لگے
کیا خبر یاد رہا کون، کسے بھول گئے
سفر باقی ہے کتنا، اور، دھارا کس طرف ہے
ابتدا سب جانتے ہیں، انتہا معلوم ہے
جو سر ہی سر ہیں یہاں، بے خطا اضافے ہیں
ہمیشہ کام کسی اور کا سنبھالتا ہوں
یہاں سنتا نہیں کوئی صدا جانے والے کو
ویسا نہیں ممکن ہے تو ایسا ہی مزہ لیں
بولی بول گیا
واہمے سب داغ سے نکلے
گفتگو ہے سب رعایا، خامشی سردار ہے
کسی اندرونی سہارے پہ تھا
بھنور ہی مرا منتظر تھا کہ میں
وہ دریا تھا، اور، دیکھتے دیکھتے
توڑتا ہوں، کہیں بناتا ہوں
اک ستارے کو توڑ کر اس سے
نیند کو مخملیں بناتے ہوئے
ہیں کس طرح کے بام و در تو دکھاؤ
وہ میرے دل کے جو اندر نہیں دکھائی دیا
محبت سوچیے تو سلسلہ تنہائی والا ہے
حقیقت میں ہماری آپ کی یکجائی والا ہے
بہت محفوظ ہوں، گرد سفر میں آگیا ہوں
گرنے کی ندامت کہ سنبھلنے کا نتیجہ
میں آگ پھانکتا ہوں، اور دھواں پلٹتا ہے
وہی ہے رات دن کی یہ مصیبت، اور، ہم دونوں
کسی کے اور نہ ہمارے ہی رکھ رکھاو کے ہیں
بجھے ہی گا یہ ستاروں کا سلسلہ کسی دن
فضاؤں کے لیے بے رونقی مقسوم کر دوں گا
خوش نہیں تیری رفاقت کے بغیر
ہوگا کسی طرح کے اشارے میں آسماں
آخر کہاں سے اس نے اتاری ہے کائنات
کل جانے کیا ہو، آج یہ دنیا تو دیکھ لوں
ایک ایسی بے یقینی کا سفر در پیش ہے
یہ بھاگ دوڑ ہے کیسی ، کہاں سے آگے ہوں
مشکل کوئی پہلے جیسی کیوں نہیں لگتی
جو دکھائی دے رہا ہے ماجرا پہلے ہی تھا
جی اٹھے مرکے تو اک خواب کو دہرانا تھا
یہ پھیلتی ہے یا کہ سکڑتی ہے کائنات
آیا نہیں فی الحال ستارے پہ ستارہ
کہیں سے کردیا خالی، کہیں پہ بھر دیا ہے
اگرچہ کوئی اکیلا نہیں دکھائی دیا
نہ جاگا ہوا ہوں نہ سویا ہوا
پہلے ہی شب عمر گھنیری تھی، مرے یار
میں بظاہر ہی بس ادھورا ہوں
ٹٹو ہم نے کہاں پر
بچا کھچا یہ دل اس پر نثار کرنا ہے
اڑا جو عکس تو اس میں کوئی اشارہ بھی تھا
آنے کی اب نہ کچھ وہاں جانے کی بات ہے
اندھیرے چھار ہے تھے یا اجالا ہونے والا تھا
اتنا کچھ ہو کر بھی یہ گنجایش باقی رہ گئی تھی
اس مکان وزماں کے تھے ہی نہیں
ہے اگر اپنے آرپار میں کچھ
یہ آنکھیں چوم سکتا ہوں کہ ماتھا چوم سکتا ہوں
کچھ ہماری ہاو ہو، اور، کچھ تمہارا شور ہے
کسی خواب نے ان آنکھوں سے اوجھل ہو جانا تھا
اس پر کوئی دعویٰ تو ہمارا بھی نہیں تھا
یہ بھی مجھ کو ہی بہ انداز دگر چاہتے ہو
سپاہ ابلق و شمشیر ہے اللہ اکبر
یہ بھی نہیں کہ ہم کو محبت نہیں ملی
وہ رنگ دل ہے، مگر، کیا خبر ،رنگ دنیا کہاں رہ گیا ہے
جگنو ہے دیکھ لو کہ ستارہ ہے پھول میں
وہ تو کریں گے طلب ہر گئے پل کا حساب
بڑھتا ہوا جو ایک طرف سے اندھیر ہوں
کیا ہوئے آنسوؤں کے ہار پروانے والے
خدا ہے بھی اگر تو ماورا کے کس طرف ہے
وہ پھول ہو کہ شرارہ، ادھر سے آتا ہے
تنی ہوئی کوئی چادر سی آبشار کی تھی
بناؤں کس طرح تصویر اس کے عکس عریاں کی
بار بار ابتر یہ حالت ہوتی رہنی چاہیے
میں یہ سوچتا ہوں سوار کوئی غبار میں نہیں رہ گیا
نہیں داؤ کوئی بھی کار گر، کسی چال میں نہیں آرہا
سچ پوچھیے تو اپنی رسائی میں نہیں تھا
کوئی عیش، کوئی نشاط اب مرے نام کا نہیں رہ گیا
رہے ہم آپ بھی، اس کو بھی قیل وقال میں رکھا
آنا جانا کہیں نہیں اپنا اب اور، مگر، دیکھو
دیر کا سویا ہوا رنگ ہوا جاگ اٹھا
مانگا نہیں سہارا میں نے
چل نکلا ہوں اور طرف کو
خس خانے میں جا رکھا ہے
جھوٹ بول کر ترت لگایا
رکھنا ہے مشکوک ہی سب کچھ
کیا ہے خون کے پیاسے کوہی
یہ حضوری جو ہے ملی صاحب
تساہل
دیوار سی دریچہ و در کے بغیر ہو
فارغ ہوں دل سے، اور، دعا کے بغیر تھا
رہتے نہیں زیادہ وکم کے بغیر تم
چلتا ہے سلسلہ من و تو کے بغیر کب
اس مسئلے کو دیکھنا حل کے بغیر کچھ
بے حال ہیں جو حال زبوں کے بغیر ہم
اہل وطن بھی ہوں تو وطن کے بغیر ہوں
گرے پڑے ہوئے دن رات سے گزرتے ہوئے
میں سختی ستم و جور سے گزرتے ہوئے
ہواے تند صفت چال سے گزرتے ہوئے
سکوں ملا کسی طوفان سے گزرتے ہوئے
ملیں گے آکے مری خاک سے گزرتے ہوئے
کہیں کہیں روش ورنگ سے گزرتے ہوئے
سمٹ رہا ہوں بڑے داو سے گزرتے ہوئے
پتا چلا کوئی گرداب سے گزرتے ہوئے
ابھی کہاں یونہی آرام سے گزرتے ہوئے
سہولت آئےگی دشوار سے گزرتے ہوئے
ستارہ وار گزرتا نہیں دکھائی دیا
وہ رنگ شور شبانہ نہیں دکھائی دیا
کوئی فسوں، کوئی جاؤو نہیں دکھائی دیا
وہ چاند، اور وہ ہالہ نہیں دکھائی دیا
یہی نہیں کہ کجاوہ نہیں دکھائی دیا
ہمارے ہاتھ مںی کاسہ نہیں دکھائی دیا
کوئی اشارہ کنایہ نہیں دکھائی دیا
کوئی چلن، کوئی چارہ نہیں دکھائی دیا
سمجھ رہے ہیں کہ افلاک سے لگے ہوئے ہیں
وہی تھے جو کبھی انجیل سے لگے ہوئے تھے
ہمارے ساتھ وہ مجبور سے لگے ہوئے تھے
بظاہر آپ جو مجود سے لگے ہوئے ہوں
ہمارے دل پہ جو تاخیر سے لگے ہوئے ہیں
ظفر، کسی کے طلسمات سے لگے ہوئے ہو
یہی نہیں کہ خدوخال سے لگی ہوئی ہے
یہ ہم جو سلسلۂ خواب سے لگے ہوئے ہیں
جو ماہتاب ترے بام سے لگا ہوا ہے
تری ہی دی ہوئی تکرار سے لگا ہوا ہوں
ہر شے آنی جانی کر
بیٹھا ڈنڈمچائی کر
ساری گئی گواتی کر
خدمت کوئی بتایا کر
ملک سخن کا والی کر
خوشبو کا ایک رنگ مچلتا ہے اور بس
دل سے خیال سا وہ گزرتا ہے اور بس
چھٹتا ہے اور نہ کھل کے برستا ہے اور بس
دنیا میں آئے ہیں تو یہ دنیا ہے اور بس
وہ بھی زیادہ تر تو بقیایا ہے اور بس
اس رات کی رگوں سے گزارا ہے اور بس
رنگ ایک دوسرے میں ملاتا ہوں اور بس
منظر کوئی ہوا کا دکھاتے ہیں اور بس
پانے سے پہلے ہی اسے کھوتا ہوں اور بس
اپنے ہی آپ سے یہ جھگڑتی ہے اور بس
کرنا ہے جو آپی کر
ماسی کر یا مامی کر
پوری کر یا آدھی کر
تازی کر یا باسی کر
ہوسکتا ہوں، کبابی کر
بہت کوشش میں تھا قرآن سارا
اٹھا کر عشق میں نقصان سارا
منافع لے گئے حیوان سارا
کریڈٹ لے گئے نادان سارا
یہ سر میں شور، یہ خلجان سارا
نکلتا ہی نہیں ارمان سارا
اگرچہ مجھ سے نہ دریافت ہو سکی دنیا
جو مجھ سے پوچھتا کوئی تو ہے عجب دنیا
جو کام اپنے ہیں اتنے، نبیڑتی دنیا
جو میرے ساتھ کوئی دن گزراتی دنیا
ابھی تو دیکھ سکا ہوں یہ سرسری دنیا
کہاں مرے لیے گھر ڈھونڈتی پھرے دنیا
چھپی رہے گی کہاں تک، نہ یوں چھپا دنیا
کھڑی ہے اپنے کسی اعتبار پر دنیا
عجب نہیں جو ابھی خواب ہے، ابھی دنیا
کبھی کبھار جو ہوتی ہے دوبدو دنیا
یہاں جو بکھری ہوئی ہے جہاں تہاں دنیا
جو شبوے گل بدن جو مرے ارد گرد ہے
کیسے کرے اثر جو مرے ارد گرد ہے
اتنی یہ ہاو ہو جو مرے ارد گرد ہے
یہ ہالۂ ہوس جو مرے ارد گرد ہے
گردش میں گم زمیں جو مرے ارد گرد ہے
سب کچھ بہم کروں جو مرے ارد گرد ہے
طومار بیش وکم جو مرے ارد گرد ہے
انبار این و آں جو مرے ارد گرد ہے
ہلچل یہ جا بجا جو مرے ارد گرد ہے
تاریک روشنی جو مرے ارد گرد ہے
ناآشنا ازل سے، ابد کے بغیر ہے
لالچ سے ماورا نہ گنہ کے بغیر تھے
معجز نمائی جسم کی جاں کے بغیر تھی
کوئی اقرار سا انکار کے آگے پیچھے
خامشی کیوں نہیں کہرام کے آگے پیچھے
مچھلیاں جیسے ہوں تالاب کے اندر باہر
واہ کے ایک طرف، آہ کے اتر دکھن
جب سے خالی ہوئے بھر پور کے پورب پچھم
لے کے آجائے گی پھر گھوم کے اندر باہر
خامشی جیسے کسی بات کے آلے دوالے
سب کچھ اس نے بھی کیا آن کے اوپر نیچے
عکس کیوں کر نہ ہو تصویر کے اوپر نیچے
شعبدے تھے مرے اعجاز کے آسے پاسے
لاکھ ڈھونڈا کیے بے سود کے دائیں بائیں
الجھا ہوا جو دل سے امنگ انتظار تھا
میرا جواب تھا کہ سوال انتظار تھا
کیا سرخیاں تھیں،، کیسا گلاب انتظار تھا
سچ پوچھیے تو صبح سے شام انتظار تھا
ایسا وہ بے شمار و قطار انتظار تھا
یوں بھی نہیں کہ شام وسحر انتظار تھا
ہر وہم انتظار، گمان انتظار تھا
جیسا عدوے صبر وسکوں انتظار تھا
موسم کی طرح چھایا ہوا انتظار تھا
کہنے کو یوں تو سارا جہاں انتظار تھا
ملبوس انتظار مکان انتظار تھا
چڑھتی ہوئی ندی سا رواں انتظار تھا
وہ عرض انتظار کہ طول انتظار تھا
رات کا رنگ ہے پانی جیسا
بے وفا، اور،کمینہ جیسا
نیا نکور نرالے جیسا
تھا کوئی خواب پرانے جیسا
چھلملاتے ہوئے تارے جیسا
ہم تو ہو کر بہم رکے ہوئے ہیں
دم بہ دم جابہ جا رکی ہوئی ہے
راستا اور گھر رکا ہوا ہے
سمجھ لو کہ سوتے ہوئے تھک گیا ہوں
نہیں یہ کہ چلتے ہوئے تھک گیا ہوں
بگڑتے سنورتے ہوئے تھک گیا ہوں
تری سمت جاتے ہوئے تھک گیا ہوں
پاکستانی غزل
عرض ناصر
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.