قرینہ
شعریات ظفر:چند باتیں
تنسیخ
خواب میں خاک اڑانے کی طرف جانا ہے
ہو کے یکسو جو بکھر نے کی طرف جانا تھا
اپنے اپنے ہی ستارے کی طرف جائیں گے
داغ دھبے کوئی دھونے کی طرف جاتے ہوئے
یوں تو ہے زیر نظر ہر ماجرا دیکھا ہوا
جو زمیں برتی ہوئی تھی، آسماں دیکھا ہوا
اب جو پہلا سا نہیں ہے سر بسر دیکھا ہوا
ہو بھی سکتا ہے وہ، لیکن ہو بہو دیکھا نہیں
پیغام اس کا ٹھکرانا ہے یا نہیں
کسی طرف میں جو آنے جانے پہ جا رہا تھا
کسی نئی طرح کی روانی میں جا رہا تھا
جو ایک مدّت سے وارداتوں میں آرہا تھا
کوئی نفاست کئی نشانوں میں آرہی تھی
ہوا کے جھونکے سے ریگزاروں میں آرہے تھے
بندھی ہے بھینس کھونٹے سے نہ کوئی گائے رکھتے ہیں
بہت سلجھی ہوئی باتوں کو بھی الجھائے رکھتے ہیں
سفر میں کچھ نئے، رفتار کے پیرائے رکھتے ہیں
یہ کیسے لوگ ہیں، کیسی یہ ہائے وائے رکھتے ہیں
نقش خیال تیرے نشاں کے علاوہ ہے
اپنی رسائی خواب و خبر کے علاوہ ہے
یہ تازگی فضا میں ہوا کے علاوہ ہے
رونے کا اختیار جو غم کے علاوہ ہے
ویسے تو ہم بھیجتے ہیں اس کو دن رات سلام
سچی بات کہیں، اپنا تو گیا بے کار سلام
سارا سارا دن ہم ہیں، اور، یہ پرنام سلام
اپنی تو اب رہتی ہے سب سے ہی دعا سلام
جہاں پہ تھا ہی نہیں، پھر وہاں سے غائب ہے
مجھے یقیں ہے، سراسر یہیں سے غائب ہے
ترے طلسم نہ میری دعا سے غائب ہے
گلاب سا کہیں جیسے چمن سے غائب ہے
چڑھاؤ پر جو ندی تھی، اترنے والی ہے
مجھے ہی گھورتا رہتا ہے، تھکنے والا ہے
کوئی خبر ہی نہیں، کس زمانے والے ہیں
ہمیں غرض نہیں مرنے کہ جینے والے ہو
کہیں نکلنے، کسی میں سمونے والا ہوں
وہیں پہ رہ گیا فقرہ جو کسنے والی تھی
میں روکتا نہیں آگے نکلنے والوں کو
اپنی محنت، اپنے خون پسینے والی
ایک اداسی گلشن میں پھیلانے والا
ڈوبنے والے تھے یا پار اترنے والے
خود بھی موجود ہیں، امکاں بھی کسی اور کا ہے
اجنبی میں ہی نہیں، گھر بھی کسی اور کا ہے
خون میں خواب ہمارے، تیرے
رنگ تھوڑا سا ہے کالا تیرا
غنیمت اس کو سمجھ لو کہ رات آخری ہے
بہار آخری ہے، انتظار آخری ہے
خیال آخری ہے یا گمان آخری ہے
امید آخری ہے، احتمال آخری ہے
مقام آخری ہے، اور، قیام آخری ہے
رکا ہوا ہی سہی، انقلاب آخری ہے
یوں بھی ہوتا ہے کہ یک دم کوئی اچھا لگ جائے
ہم اپنے پاس بیٹھیں یا تمہارے ساتھ جائیں
وصل کا رنگ جمایا نہیں جاتا مجھ سے
ہاتھ اس شوخ پہ ڈالا نجہیں جاتا مجھ سے
بوجھ اٹھا کر یہ سدھارا نہیں جاتا مجھ سے
کیا کروں، شور شبینہ نہیں جاتا مجھ سے
کفر ایسا ہے کہ تولا نہیں جاتا مجھ سے
یوں تو جینے کا جھمیلا نہیں جاتا مجھ سے
اس کو گلاب روپ کہو یا شراب رنگ
صبحیں کئی دنوں سے جو ہیں میری شام رنگ
اسے خیال ہو میرا، مرا خیال نہیں
میں سانس لیتا ہوں،لیکن، ہوا بھی ہے کچھ کیا
کتنا مجبور ہے دل، اس کو بتانا ہی پڑا
ہوا کے آئنے میں عکس آرزو کوئی تھا
کھپت ہوئی ہے ویسی مال کی جیسی ضرورت ہو
پلکوں پہ چھلکتا ہوا آنسو ہی بہت ہے
آمد و رفت کو دشوار بھی کر سکتا ہوں
میرے احوال پہ جو حزن وملال آپ کا ہے
کچھ خدانے بھی ہے ان حالات میں رکھا ہوا
میں سوچتا ہوں کہیں تیرے پاس آسکتا
کرتا نہیں تھا رخ جو زمانہ مری طرف
یہ بھی مجھ کو ہی بہ انداز دگر چاہتے ہو
اس پر کوئی دعویٰ تو ہمارا بھی نہیں تھا
میں آگ بھیجتا ہوں، اور، دھواں پلٹتا ہے
وہی ہے رات دن کی یہ مصیبت، اور،ہم دونوں
ویسا نہیں ممکن ہے تو ایسا ہی مزہ لیں
مری طبع کو کیا رواں کر دیا
عشق یہ کیا ہے کہ زحمت نہیں کرنی آتی
جرس تبدیلی کردی، قافلہ تونے بدل ڈالا
مدعا زور سے منوا بھی کہاں سکتا ہوں
ابھی آنکھوں میں بسایا بھی نہیں تھا ہم نے
بہت بری طرح گرتے گرتے سنبھل گیا ہوں
شور کرنا تو ہوا،دھوم مچانا تو ہوا
نہ ہمارا نہ تمہارا ہی رہے
ہوں ابھی پار کہ آر آیا ہوں
ہر گھڑی خواب نظر سامنے ہے
موسم ہے عجب، آب وہوا اور ہی کچھ ہے
جیسا بھی رہ گیا ہوں، جتنا بھی رہ گیا ہوں
آر کی ہے نہ کوئی پار کی بیماری ہے
صبح کی ہے نہ مجھے شام کی بیماری ہے
یہ بظاہر تو کوئی حال کی بیماری ہے
دن چڑھے تک بھی وہی رات کی بیماری ہے
آنے والے نئے موسموں کے لیے چھوڑ دوں
آشنا ہے جسے اجنبی کے لیے چھوڑ دوں
عزم ہے، لیکن اس کو عمل کے لیے چھوڑ دوں
کس طرح یہ جہاں اس جہاں کے لیے چھوڑ دوں
سوچتا ہوں کہ اپنی رضا کے لیے چھوڑ دوں
یہ سفر پھر سے خواب سفر کے لیے چھوڑ دوں
اک حسد سے بھری گفتگو کے لیے چھوڑ دوں
خزاؤں میں کہ بہاروں میں مارے جائیں گے
کسی ہوا کی روانی میں مارے جائیں گے
خیال وخواب کے عالم میں مارے جائیں گے
جو زندہ ہیں، اسی حالت میں مارے جائیں گے
یہاں بہانوں بہانوں میں مارے جائیں گے
اہل دنیا سہی، دنیا میں نہیں رہ سکتا
لفظ جس طرح معا نی میں نہیں رہ سکتا
ہو کوئی ایک تو اکثر میں نہیں رہ سکتا
یہ جو قابو نہیں لگ رہا
کوئی چارہ نہیں لگ رہا
عیب عالی نہیں لگ رہا
بوجھ اتارا نہیں لگ رہا
آنی جانی نہیں لگ رہا
میں جو مرتا نہیں لگ رہا
پاس آتا نہیں لگ رہا
آشیانہ نہیں لگ رہا
باہر اندر نہیں لگ رہا
میں جو حیراں نہیں لگ رہا
مجھ کو ایسا نہیں لگ رہا
پہنچی ہوئی دعا کی طرح مستجاب ہو
چھپا ہوا جو نمودار سے نکل آیا
ہجوم حسرت و آلام سے نکل آیا
تحلیل
صد چاک جو کرتے سو گریبان ہی نشتے
ارمان ہی نشتے، سروسامان ہی نشتے
آغاز اے نشتے، کتے انجام ای نشتے
تقریر ای نشتے، کوئی تحریر ای نشتے
جس جال میں پھنسنے لگے اور جال ای نشتے
اقرار دی خبرون میں انکار دی خبرون
ملتی ہیں کہاں تازہ تر آفات دی خبرون
آئی ہیں بہت سلسلۂ راز دی خبرون
پھیلی ہیں جو ہر سو روش عام دی خبرون
آتی ہیں کجھ ایسے کئی اصحاب دی خبرون
دروازہ نکالیں کہاں، دیوار ای نشتے
عاشق ہوں تو معشوق فقط دور ای نشتے
دنیا وی نظر وچ تاں ایہ اعزاز ای نشتے
خط لکھتے اگر ہیں وہی تو القاب ای نشتے
کھیلن گے ہن دوبدو کیا طرفین ملا کھڑا
یہ سنگ چاہییں نشتے، کوئی صنم روڑا
وہی پھر آپ توں بیزار سن بھلو چنگو
ہمارے آرسی اور پار سی بھلو چنگو
کسے خبر سی یونہی کم سے کم دروکا دیر
جیون دا جوایہ حال اے، مرجائیں گے وخرا
ہوتے ہیں اور کبھی نہیں ہوتے ہیں آپتی
پوچھا جو میں نے آپ نوں ہے مجھ سے پیار چھنت
ہمارے چاروں طرف ہے ایہ، آسماں تالان
نظر تے آ ای رہیا سی کوئی کھلا امباز
ہاسے ہاسے سو جھرو
دل بے تاب دے اوڑ وپاڑو
ہے دریا پار اربیلو
بے رنگی اے رنگ سدائیں
صف بہ صف بھنبھر کواے
اصل ظاہر ہو یا ہوریاں ہوریاں
پھیرا جو لگائے گا ٹپالی
کھلدا گیا اپنی ہی تب وتاب میں گڑکھو
اس بات دا روائن کدی اس بات دا روائن
باغ دا باغ تھا اچھوا جرو
لگا سی جس قدر دشوار مونکھی
اوہ دلبر ہمارا پھر ندر گرندڑ
کوئی بھر پور تماشا ٹمٹار
ہمارے ہاتھ نیں جیسے دعا میں ہورو سور
کوئی ہے ارض وسماتے کاردات
ٹھنڈی جو پڑی گرمی بازار اناگت
ایہ جو ہیں زرد ہوا دے ارسن
جو وی ہوتے ہیں عام خاص ملور
ایہ ہوا کیوں اے دربدر انکس
میں جہاں ڈھونڈتا رہا دلگوش
جس قدر سی مرید گفتار میں سرا برّا
کتے اگر مرا جینا نہیں ہوا تالان
خود نوں جو کر سکے نہیں تیرے میں ہورتور
اس نے سو طرح سے ماری اے پگار
غلطی سے ای آج ہو دلگوش
اوہ تھا جتا جتا گری
شیشہ دل دا ہورت آرت
دروازہ نکالا کوئی ناچار اناگت
اگرچہ اس دا بظاہر تے میں ای تھا آماچ
کوئی خدائی داسی یا خدا دا نندارہ
لگا ہمیں کیہ اچھا چرمٹ
اگر کیجے گا نظر چکے
دریا توں واتری ہو کہ صحرا توں واتری
ظاہرا تے ہوا مکاں ڈرتگ
ایک نکلا تے دوسرا اے ژند
مشکلوں تھیں بہت بنایا لوغ
اس دل دے آس پاس مرا گھر نہیں انوں
دن تے جاری اے رات دی الگار
نیا خواب آکر دکھاتا اے چوش
جو دیکھو نہ صحرا نہ دریا اے ایش
عجب نہیں جے سزا و جزا اے یک نیمگ
انسان سبھ جو ہوگئے حیوان یک دمان
گھٹ اے نہ سارا ہوار
اوہ جو نہ تھا اندیختہ
چاندنی وچ سی تے چنار میں ہور
حسن دا رنگ سی ہوا داسے
جو نہیں اے کتے نہیں، پہ خدائے
بھلایا اسے، تے نکالا کشالہ
نال ہمارے آنے بانے
جس نوں دیکھو آشنانا آشنا نندارچی
رکھدی اے کوئی مجھ سے بہت کام رپندے
یہاں نہیں اے فقط انتظار وچ درغل
ڈر رہے سن جو سفر توں پخوا
اک شک جیہا اے گرمی گفتار دے پسے
کٹے پیڑ پودے، چمن شاڑ اے
جو وی سی آپ نے دکھائی لار
وہاں پہ لوگ تھے خاص اور عام زرغونہ
یوں وی کجھ سی مرا ارادہ پوخ
گیا اے نہ جانے کدھر کونترہ
یہاں جو پھیلی ہوئی اے ادھر ادھر زمکہ
مرے نواح میں ویسے تے جس تھا لگ لگ
حال چنگا نہیں سم دلاس
جدوں کوئی فتنہ اٹھا اے جتی
جو کجھ یہاں اے سارے دا سارا تو ہان جو
کیا کیا ٹھیل ٹکیل
زندگی کیکاند اے
شام پیندے تیرگی نے سر نکالا اوجتو
آیا اے اندھکار
اس انتظام تام
ایک پولار دے اوپر پولار
اج وی کس طراں نہ ہوندا گاس
قبل از شام بھنبھر کو
برا ہوا کہ بالآخر ہوا بھلا اپتم
چھا گئی اے جو باہر اندر برد
اساڈا جو کار وا اے اڑوئی
فقط قافیہ ای ملاندا اے بس
تیرا مجھ پر اگر نہ چلتا دوکھ
خوب سی اوہ بنا بنایا سیت
نہپیں آئے مرے شمار میں سرف
کیہ جانے کدتوں اپنے سراں تے کھڑا اے نب
ابتدا اے کہ انتہا دا دروگ
کتھے تک گھمایا پھرایا اسے
نہیں رہ گئے اتنے لاچار اس
اسیں جو وی کدی نکالا کیم
عموماً تے ہندا اے آٹا دروگ
لیا کام اپنا ودن دان توں
حیلے اور بہانے یتھ
رشتے ناتے ہیں یتہ
سی ہنیرا بہت، جلایا ژونگ
وہی روز اگوں بجھا ندا اے بس
کیسی پوہنچ تے کیسی واتھن
بھرے شہر وچ جد ہوئی پرژہ گار
جے کول آئے وی تے کہیا، ہور کن
حساب آکے دیکھا جو اپنا پتم
جیہڑا ہویا نہیں اتنا پیرون
پہلے تے سی فقط لہو وچ تیڑ
باہر اندر اے کیسا کیسا بڈ
کیہی کشتی، کیہا بوٹھ
ہم تے یہی سمجھے ساں کہ ہیں کام وچ آدر
ساہمنے قصر ہوا اے لورت
جھلملاندے نیں بجھدے جلدے ژونگ
تقلیل
ہے کوئی طرز تمہاری جیسا
بلبل تھا یا بوم تھا
ہنگامہ تو گرم تھا
تنہا وہ مہمان تھا
بچا کھچا جو خواب تھا
تو ہی عرش نژاد تھا
موقع تو مسعود تھا
مرنا ایک وبال تھا
وہی خیال خام تھا
تھوڑا سا اقرار تھا
کعبہ تھا یا دیر تھا
دل کے اندر چور تھا
رنگ تھا وہ یا ڈھنگ تھا
جنگ وجدل سے دور تھا
ایک طرف حلوائی تھا
یہ جو روے زمیں تھا
جس میں اپنا سفر تھا
وہ اتنا ہی ورے تھا
وہ جو دل میں لہو تھا
ایک ہوا کا دیا تھا
جان گیا ہوں وہی تھا
ہر شے آنی جانی کر
بیٹھا ڈنڈ مچائی کر
ساری گئی گواتی کر
خدمت کوئی بتایا کر
ملک سخن کا والی کر
کرنا ہے جو آپی کر
ماسی کریا مامی کر
پوری کر یا آدھی کر
تازی کریا باسی کر
ہوسکتا ہوں، شرابی کر
اسی نے آکر جکڑی تھی
دوندی تھی یا چھگڑی تھی
بہت زیادہ ربڑی تھی
چکنی، چپڑی چپڑی تھی
جھوٹی تھی یا سچڑی تھی
سیدھی تھی یا ٹیڑھی تھی
چتکبری یا گرزی تھی
ترچھی تھی یا آڑی تھی
نیم تو کڑوی کوڑی تھی
ناک سے ذرا پکوڑی تھی
ساؤنی میں بھی ہاڑی تھی
زور لگا کر توڑی تھی
نیل گوں فلک نیل
تھا کبھی سفر نیل
نہیں اب کوئی سبز
چل پڑی ہوا سبز
ہے یہ آسماں سرخ
ایک رہگذر سرخ
نہیں تن بدن زرد
ہے جو سو بہ سو زرد
چہرے پڑتے گئے سفید
کھل رہی تھی کل سفید
لاکھ پہلے سے کم سیاہ
لکھ رہا ہوں غزل سیاہ
حسن چارسو کھلا
تھا جو میہماں تنگ
صرف ہے جبیں گرم
ہے بہت خدا گرم
آج ہے نہ کل سرد
پھر رہا ہرن کھلا
جب سے ہے قبا بند
نرم ہے کہیں سخت
تھا وہ ایک دم سخت
نیند سے پرے نرم
مست ماجرا نرم
تھی ہوا کھڑی بند
تھا جو پیش وپس کھلا
یوں ہے گفتگو سرد
کچھ نہیں یہاں سرد
طبع کی وہ تھی گرم
آگ تھی بھری گرم
عکس کارواں گرد
تھا کوئی سفر دھند
یہ نہیں نئی دھول
دل دھڑک اٹھا تیز
کیوں ہوا سفر سست
کر گیا عمل سست
کیوں نہ ہو لہو تیز
کچھ نمک ہوا تلخ
تھی وہ گفتگو شہد
تھا وہ سر بسر شہد
تھی بہت ز باں تلخ
آپ ہیں جہاں دور
تھی بہت پری پاس
رات بھر رہا پاس
شاخ سے شجر دور
انتظار باہر
ہے خراب اندر
دل کہاں اپنی سپر ہے،پر ہے
اک طرف سبز پھبن ہے، بن ہے
واردات اندر
تھا نہ کام باہر
ہوئی ہے کہیں صبح
چل پڑی جدھر شام
ساری گفتگو شام
دور ہے اگر صبح
راہ میں ملی گرد
ہیں زمیں زماں گرد
وہی چارسو دھند
پھیلنے لگی دھند
سب سے ہے سفر برا
ہے یہ آسماں برا
لگ رہا بدن بھلا
ہے جو روبرو بھلا
رہے گی کمی ابھی
ہو چکا ہے کیا ابھی
چین تو پڑے کبھی
ساتھ چل پڑو کبھی
آسماں زمیں سست
کیا ہوا چلی سست
سست میں پھنسا چست
نیند سے بھری چپ
شام کا مچا شور
پردہ سا کہیں ہٹا ہوا تھا
ظاہر میں گھڑی کھڑی ہوئی تھی
خوشیوں سے جو دل بھرے ہوئے تھے
جیسی تھیں جہاں جسی ہوئی تھیں
کچھ اگر بے کنار ہے مجھ میں
یہ جو خواب وخیال ہے مجھ میں
چار سو کوئی شام ہے مجھ میں
تخفیف
یہ جو دریاے خواب ہے مجھ میں
وہم ہے یا گمان ہے مجھ میں
دن ڈھلا ہے نہ رات ہے مجھ میں
یہ جو تیر وتفنگ ہے مجھ میں
اشک ہیں، اور، سکون ہے مجھ میں
آتش و انجماد ہے مجھ میں
نیستی کا وفور ہے مجھ میں
رنگ پیماں ہیں، راز ہے مجھ میں
زور نہیں تو زاری کر
ڈاکے مار،کمائی کر
مرضی یا مجبوری کر
درمیان میں چھوڑی چائے
موسم کا پنیترا نکل آیا
گھر سے جوڈری ڈری نکل آئی
مولی سے مونگرے نکل آئے
عمّامہ آدمی ہوں
دیوانہ آدمی ہوں
آئینہ آدمی ہوں
مایوس آدمی ہوں
بے باک آدمی ہوں
بدحال آدمی ہوں
بدنام آدمی ہوں
بے آس آدمی ہوں
مضروب آدمی ہوں
مفقود آدمی ہوں
معزور آدمی ہوں
معمول آدمی ہوں
پچیس آدمی ہوں
گرداب آدمی ہوں
خیرات آدمی ہوں
بنیاد آدمی ہوں
الفاظ آدمی ہوں
الجھاو آدمی ہوں
تنہائی آدمی ہوں
گجراؤ آدمی ہوں
نخچیر آدمی ہوں
بیمار آدمی ہوں
الجھیڑ آدمی ہوں
مدقوق آدمی ہوں
ہشاش آدمی ہوں
پرجوش آدمی ہوں
مش روم آدمی ہوں
بے شم آدمی ہوں
نیرنگ آدمی ہوں
تعظیم آدمی ہوں
ایک رنگ ملال بھی تھے ہم
کیسے کیسے اداس بھی تھے ہم
خوش بھی تھے، اور ملول بھی تھے ہم
کوشش ناکام کیوں ہوئی ہے
پیدا یہ غبار کیوں ہوا ہے
محبت کا موسم بدلنے کو ہے
ہوا میں کوئی رنگ بھرنے کو ہے
نیا اک زمانہ جو آنے کو ہے
ابھی ہوتے ہوتے جو ہنسنے کو ہے
وہم زر ومال کیوں ہوا ہے
یہ عام سا، خاص کیوں ہوا تھا
یہ زمیں کون تھی، آسماں کون تھا
دیکھتے تھے جدھر کو، ادھر کون تھا
میرے اندر وہ میرے سوا کون تھا
گم ہوا دیکھتے دیکھتے کون تھا
پیغام اس کا ٹھکرانا ہے یا نہیں
سوچ بھی ہو کب لال
ہو رہی زمیں لال
تری سمت جاتے ہوئے تھک گیا ہوں
بگڑتے سنورتے ہوئے تھک گیا ہوں
نہیں یہ کہ چلتے ہوئے تھک گیا ہوں
سمجھ لو کہ سوتے ہوئے تھک گیا ہوں
گھر میں داخل نہیں لگ رہا
فن بھی اب فن نہیں لگ رہا
کام اعلیٰ نہیں لگ رہا
یہ جو بندر نہیں لگ رہا
وہ جو اپنا جہاں تھا
شب بھر یا دن بھر ہونے دے
سارے کا سارا ہونے دے
کم ہو کہ زیادہ، ہونے دے
اب تو یکجائی ہونے دے
وہ تحریر سے یا زبانی کھلا
وہی ہے تماشے کا مضمون بند
پڑھ غزل
پیچ و خم
بات کر
گفت گو
تم جہاں
جو کیا ہے اس انتظام کو دیکھ
تھک گیا ہوں، چلا نہیں جاتا
دل سے اس کا دھواں نہیں جاتا
اس قدر بے خبر نہیں جاتا
جیسے تیسے رہ جاتا ہے
جان لو، ان کے کیا ارادے ہیں
وہم سا اعتبار میں دیکھا
ترے آسماں کی زمیں ہو گیا ہوں
سفر میں ہوں، گرد سفر ہو گیا ہوں
میں سوکھا ہوا تا، ہرا ہو گیا ہوں
بہت پوچھ بیٹھے ہو، کیوں ہو گیا ہوں
میں وہ ہوگیا ہوں کہ یہ ہوگیا ہوں
زمانے سے پھر دو بدو ہو گیا ہوں
عجب کوئی زور بیاں ہو گیا ہوں
ہر روز چڑھنیاں کہ فلک سے اترنیاں
جدائی میں اپنی قرار انتظاری
خیال انتشاری، گمان، انتظاری
ہر گھڑی رخ بدلنیاں میری
کبھی دیکھو گے آنیاں میری
چوری چوری وہ تکنیاں تیری
روشنی گھر میں کرنیاں اس کی
چمکی ہوئی رات کو سیاہا
جب بھی کسی خواب کو خیالا
کچھ امکاں تو تھے ہی ملاقات کے
ہیں مجبور باہر نکلنے سے ہم
پڑے تنگ جب ناز اٹھانے سے ہم
اگر بچ رہے پانو دھرنے سے ہم
بہت خوف رکھتے ہیں سونے سے ہم
یہ زمین آسمان کا ممکن
تھا پشیمان دریچے کے قریب
کوئی پھر سے نہ کردے یہ فضا ویراں
اندھیرے بھی ہیں کچھ خواب
آسکے گا نہ پہچان میں اجنبی
اس گلی جاتے ہیں اور آتے ہیں ہم
تلوار کو نیام دے رہا ہوں
زاہد کو شراب دے رہا ہوں
چاند پیچھے، بام سے آگے ہوا
جس طرح سیلاب سے آگے ہوا
اس گل و گلزار سے آگے ہوا
ڈھونڈتا ہوں رات سے آگے ہوا
زندگی کچھ نہیں، مرےبھائی
آن وایں کچھ نہیں، مرے بھائی
ہوبہو کچھ نہیں ، مرے بھائی
روز وشب کچھ نہیں، مرے بھائی
جابجا کچھ نہیں، مرے بھائی
سر بسر کچھ نہیں، مرے بھائی
اب تک
ترکیب
اولے پڑے ورساد ماں
ڈوبا ہے گھرورسادماں
کچھ ہو نہ ہو ورساد ماں
خود ہی وہ آجائے گا، بے سی رہو
کیسی جلدی ہے کوئی، بے سی رہو
کون آیا ہے آردھی راتے
یہ جو باہر ہے آردھی راتے
کس کو آنا ہے آردھی راتے
بار بار مون بولے چھے
جل ترنگ مون بولے چھے
نال نال مون بولے چھے
بے تکان مون بولے چھے
باغ سارا ہوا میں تھاپرگٹ
میرے خواب ہنر میں تھا پرگٹ
رنگ ایسا لہو میں تھا پرگٹ
جسم کے آرپار تھا پرگٹ
رہا سہا اوڈنگی جا
ملے جلے اوڈنگی جا
اپنا دیا جلائے بیٹھا اچھے اہیں
منظر کہیں دکھاؤ، بیٹھا اچھے اہیں
اگر نہ آیا پچھی شوں کرشو
کٹا سفر تو پچھی شوں کرشو
کوئی چراغ جلائے رکھنا، سورج نو وشواس نہ کروو
آنا جانا، سورج نو وشواس نہ کروو
کرتا ہوں کیا گمان، منے کیں خبر نتھی
تھا کس کا انتظار، منے کیں خبر نتھی
پھیلے ہوئے ہیں جال، منے کیں خبر نتھی
کرتا ہوں کیوں سلام، منے کیں خبر نتھی
آیا وہ آدھی رات منے کیں خبر نتھی
آیا تھا کیا خیال منے کیں خبر نتھی
پھیلا ہے کیا غبار منے کیں خبر نتھی
وہ ہے کہاں منے خیال پن نتھی
ادھر اُدھر منے خیال پن نتھی
کہاں چلے، منے خیال پن نتھی
جی مچلتا رہا، آنکھ جوتی رہی
صبح کرتا رہا، آنکھ جوتی رہی
آتا جاتا رہا، آنکھ جوتی رہی
تیرا میرا جو تھا، آنکھ جوتی رہی
چڑھتے ہوئے خمار کی پہلی ج رات چھے
اپنے خیال خام کی پہلی ج رات چھے
الجھے ہوئے خیال کی پہلی ج رات چھے
اس کے خیال و خواب کی پہلی ج رات چھے
دھوپ تھی دل ماں یا اندھ کار
اندر اور باہر اندھکار
چاند کے ساتھ گہن اندھکار
جم ہی گیا وہاں اندھکار
میں نے پکارا لواندھکار
آئے کوئی جائے، ہوں جویا کروں
کیا ہوا منجدھار، ہوں جویا کروں
کورا دیا جواب تو کونے کہیش توں
پوچا نہ اس نے حال تو کونے کہیش توں
ہویا نہ انتظام تو کونے کہیش توں
کچھ یہاں بیش وکم نتھی ہوتوں
جس مسافر کا گھر نتھی ہوتوں
میں جو ہوتا ہوں تب نتھی ہوتوں
قول جب تک عمل نتھی ہوتوں
مجھ سے جو ہوا، شوں کہوں تنے
چاہے اور ہنس، شوں کہوں تنے
کیا ہے گفتگو، شوں کہوں تنے
یہ زندگی سے بہار ابھو چھوں
ادھر اُدھر سے بہار ابھو چھوں
کسی ستم سے بہار ابھو چھوں
ہم ہیں دور دور،کون مانشے
ہوگئی ہے شام، کون مانشے
بجھ گیا وہ خواب، کون مانشے
میں آرہوں نہ پار تمارا گیا پچھی
دیتا رہا دہائی تمارا گیا پچھی
خالی لگا مکان تمارا گیا بچھی
دن ڈھل گیا تو شام سے آگڑجتا رہیا
ہر طرح کے غبار سے آگڑجتا رہیا
شاید ترے خیال سے آگڑ جتا رہیا
کر رہا تھا تنگ می ںہنستو رہیو
جیت میں تھی مات، میں ہنستورہیوں
تھا جو پاٹے خان میں ہنستو رہیو
ہے اندر نہ باہر، گھنا دور چھے
سمندر کنارہ گھنا دور چھے
کہیں آنا جانا گھنا دور چھے
ملنے آیا بھر بپورے
خاک اڑائی بھر بپورے
چڑھتا ہے نیا سال، روکاؤ رتو ساروں
امید ملاقات ہے، تھی جائے تو ساروں
شام تھی جائے تو ساروں
تنگ تھی جائے تو ساروں
باقی ہے ابھی شام، روکاؤ تو ساروں
کوئی راستہ نجیک چھے
ہر طرح کا ڈر نجیک چھے
ہر عیاں نہاں نجیک چھے
کوئی روبرو نجیک چھے
آشیاں نجیک چھے
اس کا گھر نجیک چھے
افسون انتظار کا پوپٹ آڈی گئیو
رات آئی اور شام کا پوپٹ اڈی گئیو
باغوں سے ڈال ڈال کا پوپٹ اُڈی گئیو
سب کا پوپٹ اڈی گئیو
ماسی، پوپٹ اُڈی گئیو
اکثر پوپٹ اُڈی گئیو
رہے اس کا آنا وگیرے وگیرے
مرے پاس آیا وگیرے وگیرے
وہی گھر میں ڈالی وگیرے وگیرے
پڑا اتنا گھاٹا وگیرے وگیرے
ہمیشہ ہی بیمار جویا کرے چھے
بہت خاص ہے عام جویا کرے چھے
یہ جیسی بھی گزاری ہے، منے چپ چاپ مروا دو
کوئی آواز آئی ہے، منے چپ چاپ مروا دو
خدا چھے دو قدم آگڑ
رکی چھے دو قدم آگڑ
سفر چھے دو قدم آگڑ
جس جگہ تم نے کہا چھے ہوں ہجی پن تیاج ابھوچھوں
شور کیسا ہے دھیان راکھوں چھوں
اصرار نتھی ہوتوں
ہر شام نتھی ہوتوں
کائیں کائیں کر رہا تھا کا گڑو مری گئیو
گھر سے دور کاگڑو مری گئیو
بول چال کا گڑو مری گئیو
پھول پات کاگڑو مری گئیو
پکارتے پکارتے کیا جیی پہونچیا
دم بدم کیاں جی پہونچیا
ہمارا ٹھکانا گھنوں دور چھے
سحر کا کنارہ گھنوں دور چھے
ملا وہ جھوٹ موٹ تو اسے نیال تھیی گیا
مطلع لکھا ورساد ماں
چوتھی کھونٹ کا مسافر
تشکیک
پھول پتے چاند سورج تھے جہاں آواز تھی
یہ نہیں کہتا کہ دوبارہ وہی آواز دے
کچھ پتا چلتا نہیں کس طرح کی آواز ہے
دیر تک آتی ہوئی یا مختصر آواز تھی
اس اندھیرے میں اگر بندقیا درکار ہے
اور بھی اس کی طرف سے پیش وپش درکار ہے
کچھ یہاں درکار ہے اور کچھ وہاں درکار ہے
خاک اڑانے کے لیے، رہنے کو گھر درکار ہے
آگ کا رشتہ نکل آئے کوئی پانی کے ساتھ
سنگ بھی موجود ہوں گے آئنہ خانوں کے ساتھ
رفتہ رفتہ لگ چکے تھے ہم بھی دیواروں کے ساتھ
ہر طرح سے مطمئن ہیں اپنی یکتائی کے ساتھ
ہمیں تلاش کسی کی نہیں، کوئی مل جائے
کم سے کم ملا ہو یا بیشتر میسر ہو
روز سانس لینے کو گر ہوا میسر ہو
اس طرح کی عیاشی پھر کہاں میسر ہو
کسی کو خوش تو کسی کو خفا کیا ہوا ہے
وہ دائرہ سا کہ جس میں سفر کیا ہوا ہے
یہ اپنی خاک جسے کہکشاں کیا ہوا ہے
نہیں ہے وصل، مگر ہو بہو کیا ہوا ہے
سفر کا راہ میں ہی اختتام کیوں کر ہو
خیال جب سے پریشاں ہے خواب کیوں کر ہو
کہیں وہ ہے تو سہی، دوستی نہیں، پھر کیا
لہر کی طرح کنارے سے اچھل جانا ہے
کہیں ایسا نہ ہو اندازہ ہی الٹا نکل آئے
ہماری موت کا اب اور کیا منظر نکل آئے
سمجھ رہے تھے جو آساں، محال ہے اب تک
ادھر اُدھر جو یہ موجود میرا مطلب ہے
ہے اپنے آپ سے انکار، میرا مطلب ہے
اب بھی ہے اسی طرح تگ وتاز میں شامل
ترغیب سے نہ میری تب وتاب سے ہوا
کچھ تو خراب صورت احوال سے ہوا
جھگڑا نسب سے تھا نہ مرے نام سے ہوا
کچھ بھی نہ اس کی زینت وزیبائی سے ہوا
اگر ہوا سی کوئی رکی ہوئی ہے
طلسم سا جو کوئی چارسو رکا ہوا ہے
کسی طرف سے کوئی راستا رکا ہوا ہے
کھڑی ہے شام کہ خواب سفر رکا ہوا ہے
یہ دنیا ہے تو آخر خواب دنیا کس طرف ہے
میلا سا ہے لگا ہوا باہر مری طرف
کیسی رکی ہوئی تھی روانی مری طرف
گرتے ہیں ٹوٹ کر جو ستارے مری طرف
طبعاً تو وہ اتنا کوئی بدخو بھی نہیں ہے
زمین ٹھہری ہوئی، آسماں رکا ہوا ہے
ایک ہی بار نہیں ہے وہ، دوبارہ کم ہے
کچھ دنوں سے جو طبیعت مری یکسو کم ہے
پانی اتنا ہے کہ اس کے لیے دریا کم ہے
شور اگلا سا جو ہر سمت برابر کم ہے
جب اپنی موج میں سوتے ہوئے گذرتا ہوں
کسی سفر سے پلٹتا ہوا گذرتا ہوں
میں اپنی چال ہی چلتا ہوا گذرتا ہوں
ہوا کے ساتھ گذرتا ہوا گذرتا ہوں
بات سندیسا تھی اس کی، گفتگو پیغام تھا
دربدر پیغام تھا یا جابجا پیغام تھا
وہ زمیں پیغام تھا، یا آسماں پیغام تھا
کچھ نہیں سمجھا ہوں، اتنا مختصر پیغام تھا
دل کو رہین بند قیامت کیا کرو
اس کی تو کچھ خبر نہیں کیوں مت کیا کرو
دن رات میرے دل سے گذرمت کیا کرو
دل میں طرح طرح کے گماں مت کیا کرو
ہزار بندش اوقات سے نکلتا ہے
وہ جس طرح کے بھی ہنگام سے نکلتا ہے
جہاں یہ دل ترے جنجال سے نکلتا ہے
کہاں وہ کوشش بسیار سے نکلتا ہے
مزہ کچھ تو ملے گا موج کو منجدھار کرنے میں
ہیں نقصانات یوں تو اور بھی تعجیل کرنے میں
رہ رہ کے زبانی کبھی تحریر سے ہم نے
بدلہ یہ لیا حسرت اظہار سے ہم نے
جوڑا ہے کسی اور ہی انجام سے ہم نے
ٹکرا دیا بھر پور کو پایاب سے ہم نے
ہوتے گئے تھے جمع ہی ارمان ہمارے
چلتی نہیں اب کوئی جو تدبیر ہماری
اگرچہ ہم لوگ داستاں میں پڑے ہوئے ہیں
یہ موت ہے یا کہ زندگی میں پڑے ہوئے ہیں
ظفر، یہ کس طرح کے سفر میں پڑے ہوئے ہیں
الگ الگ، اور، جا بجا میں پڑے ہوئے ہیں
جہاں پہ ہونا نہیں، وہیں سے لگے ہوئے ہیں
گل وسمن سے نہ رنگ وبو سے لگے ہوئے ہیں
نظر نہیں آرہا جدھر سے لگے ہوئے ہیں
غبار غربت میں بھی وطن سے ملے ہوئے ہیں
جو دوستی سے نہ دشمنی سے ملے ہوئے یں
مقام ہی اور تھا جہاں سے ملے ہوئے تھے
چراغ تھے جس قدر ہوا سے ملے ہوئے تھے
عرب سے اٹھ کر کہیں عجم سے جڑے ہوئے ہیں
عجب نہیں ہے جو رفتگاں سے جڑے ہوئے ہیں
کسی گماں سے، کسی یقیں سے جڑے ہوئے ہیں
کہیں پہ موجود، اور، کہیں سے ہٹے ہوئے ہیں
ٹھہر گئے ہیں تو ہم سہاروں میں رہ گئے ہیں
ظفر، فسانوں کہ داستانوں میں رہ گئے ہیں
گذر گئیں مدتیں، برابر کھڑے ہوئے ہیں
ہیں نقش دیوار، جا بجا سے مٹے ہوئے ہیں
بجھے بجھے، اور، راستوں پر پڑے ہوئے ہیں
کہیں ہم اپنی ہی بے کرانی میں رہ گئے ہیں
کچھ سبب ہی نہ بنے بات بڑھا دینے کا
بے نام جس قدر ہیں انھیں نام دے سکوں
الگ الگ اور جدا جدا سے بندھے ہوئے ہیں
پتا نہیں چل رہا کہاں سے بندھے ہوئے ہیں
کسی بہانے سے اب دوبارے کھلے ہوئے تھے
ہمارے اندر تو کوئی باہر لکھے ہوئے تھے
اصل تھا یا کسی ہونے کا اشارہ ہوا میں
خرچ ہوتا ہوں اسی چال سے چلتا ہوا میں
آخری ہوں کہ ترے گھاٹ پہ پہلا ہوا میں
پہلے ہی ٹھیک طرح سے ہوں ٹٹولا ہوا میں
یہ بھی کیا ہوں کسی جانب سے جھجکتا ہوا میں
جیسے ہوں شہر بدر شہر میں آیا ہوا میں
کچھ رویے ہی تھے ایسے کہ غصیلا ہوا میں
وقت بے وقت کہ ویلے سے کویلا ہوا میں
کس نئے خواب میں رہتا ہوں ڈبویا ہوا میں
راکھ ہوتا ہوا، ہر لحظہ نبڑتا ہوا میں
ہوں وہ پہلا سا پرانا کہ نرالا ہوا میں
مسترد ہوگیا جب تیرا قبولا ہوا میں
جب تمھارے اور اپنے درمیاں ہوتا ہوں میں
ترے راستوں سے جبھی گذر نہیں کر رہا
کوئی چیز بھی میں یہاں وہاں نہیں کر رہا
جو یہ تیرے بارے میں گفتگو نہیں کر رہا
اس اندھیرے دل میں جو روشنی نہیں کر رہا
مرے گھر تو کیا سر رہگذر نہیں آرہا
کچھ کام اس زمین پہ کرنے تو دے مجھے
مکان پھر متلاشی ہوئے مکینوں کے
تمھارے ہوگئے ہیں اور ہمارے ہو گئے ہیں
منکر ہے آج کل جو سلام وکلام سے
عرض ناشر
قرینہ
شعریات ظفر:چند باتیں
تنسیخ
خواب میں خاک اڑانے کی طرف جانا ہے
ہو کے یکسو جو بکھر نے کی طرف جانا تھا
اپنے اپنے ہی ستارے کی طرف جائیں گے
داغ دھبے کوئی دھونے کی طرف جاتے ہوئے
یوں تو ہے زیر نظر ہر ماجرا دیکھا ہوا
جو زمیں برتی ہوئی تھی، آسماں دیکھا ہوا
اب جو پہلا سا نہیں ہے سر بسر دیکھا ہوا
ہو بھی سکتا ہے وہ، لیکن ہو بہو دیکھا نہیں
پیغام اس کا ٹھکرانا ہے یا نہیں
کسی طرف میں جو آنے جانے پہ جا رہا تھا
کسی نئی طرح کی روانی میں جا رہا تھا
جو ایک مدّت سے وارداتوں میں آرہا تھا
کوئی نفاست کئی نشانوں میں آرہی تھی
ہوا کے جھونکے سے ریگزاروں میں آرہے تھے
بندھی ہے بھینس کھونٹے سے نہ کوئی گائے رکھتے ہیں
بہت سلجھی ہوئی باتوں کو بھی الجھائے رکھتے ہیں
سفر میں کچھ نئے، رفتار کے پیرائے رکھتے ہیں
یہ کیسے لوگ ہیں، کیسی یہ ہائے وائے رکھتے ہیں
نقش خیال تیرے نشاں کے علاوہ ہے
اپنی رسائی خواب و خبر کے علاوہ ہے
یہ تازگی فضا میں ہوا کے علاوہ ہے
رونے کا اختیار جو غم کے علاوہ ہے
ویسے تو ہم بھیجتے ہیں اس کو دن رات سلام
سچی بات کہیں، اپنا تو گیا بے کار سلام
سارا سارا دن ہم ہیں، اور، یہ پرنام سلام
اپنی تو اب رہتی ہے سب سے ہی دعا سلام
جہاں پہ تھا ہی نہیں، پھر وہاں سے غائب ہے
مجھے یقیں ہے، سراسر یہیں سے غائب ہے
ترے طلسم نہ میری دعا سے غائب ہے
گلاب سا کہیں جیسے چمن سے غائب ہے
چڑھاؤ پر جو ندی تھی، اترنے والی ہے
مجھے ہی گھورتا رہتا ہے، تھکنے والا ہے
کوئی خبر ہی نہیں، کس زمانے والے ہیں
ہمیں غرض نہیں مرنے کہ جینے والے ہو
کہیں نکلنے، کسی میں سمونے والا ہوں
وہیں پہ رہ گیا فقرہ جو کسنے والی تھی
میں روکتا نہیں آگے نکلنے والوں کو
اپنی محنت، اپنے خون پسینے والی
ایک اداسی گلشن میں پھیلانے والا
ڈوبنے والے تھے یا پار اترنے والے
خود بھی موجود ہیں، امکاں بھی کسی اور کا ہے
اجنبی میں ہی نہیں، گھر بھی کسی اور کا ہے
خون میں خواب ہمارے، تیرے
رنگ تھوڑا سا ہے کالا تیرا
غنیمت اس کو سمجھ لو کہ رات آخری ہے
بہار آخری ہے، انتظار آخری ہے
خیال آخری ہے یا گمان آخری ہے
امید آخری ہے، احتمال آخری ہے
مقام آخری ہے، اور، قیام آخری ہے
رکا ہوا ہی سہی، انقلاب آخری ہے
یوں بھی ہوتا ہے کہ یک دم کوئی اچھا لگ جائے
ہم اپنے پاس بیٹھیں یا تمہارے ساتھ جائیں
وصل کا رنگ جمایا نہیں جاتا مجھ سے
ہاتھ اس شوخ پہ ڈالا نجہیں جاتا مجھ سے
بوجھ اٹھا کر یہ سدھارا نہیں جاتا مجھ سے
کیا کروں، شور شبینہ نہیں جاتا مجھ سے
کفر ایسا ہے کہ تولا نہیں جاتا مجھ سے
یوں تو جینے کا جھمیلا نہیں جاتا مجھ سے
اس کو گلاب روپ کہو یا شراب رنگ
صبحیں کئی دنوں سے جو ہیں میری شام رنگ
اسے خیال ہو میرا، مرا خیال نہیں
میں سانس لیتا ہوں،لیکن، ہوا بھی ہے کچھ کیا
کتنا مجبور ہے دل، اس کو بتانا ہی پڑا
ہوا کے آئنے میں عکس آرزو کوئی تھا
کھپت ہوئی ہے ویسی مال کی جیسی ضرورت ہو
پلکوں پہ چھلکتا ہوا آنسو ہی بہت ہے
آمد و رفت کو دشوار بھی کر سکتا ہوں
میرے احوال پہ جو حزن وملال آپ کا ہے
کچھ خدانے بھی ہے ان حالات میں رکھا ہوا
میں سوچتا ہوں کہیں تیرے پاس آسکتا
کرتا نہیں تھا رخ جو زمانہ مری طرف
یہ بھی مجھ کو ہی بہ انداز دگر چاہتے ہو
اس پر کوئی دعویٰ تو ہمارا بھی نہیں تھا
میں آگ بھیجتا ہوں، اور، دھواں پلٹتا ہے
وہی ہے رات دن کی یہ مصیبت، اور،ہم دونوں
ویسا نہیں ممکن ہے تو ایسا ہی مزہ لیں
مری طبع کو کیا رواں کر دیا
عشق یہ کیا ہے کہ زحمت نہیں کرنی آتی
جرس تبدیلی کردی، قافلہ تونے بدل ڈالا
مدعا زور سے منوا بھی کہاں سکتا ہوں
ابھی آنکھوں میں بسایا بھی نہیں تھا ہم نے
بہت بری طرح گرتے گرتے سنبھل گیا ہوں
شور کرنا تو ہوا،دھوم مچانا تو ہوا
نہ ہمارا نہ تمہارا ہی رہے
ہوں ابھی پار کہ آر آیا ہوں
ہر گھڑی خواب نظر سامنے ہے
موسم ہے عجب، آب وہوا اور ہی کچھ ہے
جیسا بھی رہ گیا ہوں، جتنا بھی رہ گیا ہوں
آر کی ہے نہ کوئی پار کی بیماری ہے
صبح کی ہے نہ مجھے شام کی بیماری ہے
یہ بظاہر تو کوئی حال کی بیماری ہے
دن چڑھے تک بھی وہی رات کی بیماری ہے
آنے والے نئے موسموں کے لیے چھوڑ دوں
آشنا ہے جسے اجنبی کے لیے چھوڑ دوں
عزم ہے، لیکن اس کو عمل کے لیے چھوڑ دوں
کس طرح یہ جہاں اس جہاں کے لیے چھوڑ دوں
سوچتا ہوں کہ اپنی رضا کے لیے چھوڑ دوں
یہ سفر پھر سے خواب سفر کے لیے چھوڑ دوں
اک حسد سے بھری گفتگو کے لیے چھوڑ دوں
خزاؤں میں کہ بہاروں میں مارے جائیں گے
کسی ہوا کی روانی میں مارے جائیں گے
خیال وخواب کے عالم میں مارے جائیں گے
جو زندہ ہیں، اسی حالت میں مارے جائیں گے
یہاں بہانوں بہانوں میں مارے جائیں گے
اہل دنیا سہی، دنیا میں نہیں رہ سکتا
لفظ جس طرح معا نی میں نہیں رہ سکتا
ہو کوئی ایک تو اکثر میں نہیں رہ سکتا
یہ جو قابو نہیں لگ رہا
کوئی چارہ نہیں لگ رہا
عیب عالی نہیں لگ رہا
بوجھ اتارا نہیں لگ رہا
آنی جانی نہیں لگ رہا
میں جو مرتا نہیں لگ رہا
پاس آتا نہیں لگ رہا
آشیانہ نہیں لگ رہا
باہر اندر نہیں لگ رہا
میں جو حیراں نہیں لگ رہا
مجھ کو ایسا نہیں لگ رہا
پہنچی ہوئی دعا کی طرح مستجاب ہو
چھپا ہوا جو نمودار سے نکل آیا
ہجوم حسرت و آلام سے نکل آیا
تحلیل
صد چاک جو کرتے سو گریبان ہی نشتے
ارمان ہی نشتے، سروسامان ہی نشتے
آغاز اے نشتے، کتے انجام ای نشتے
تقریر ای نشتے، کوئی تحریر ای نشتے
جس جال میں پھنسنے لگے اور جال ای نشتے
اقرار دی خبرون میں انکار دی خبرون
ملتی ہیں کہاں تازہ تر آفات دی خبرون
آئی ہیں بہت سلسلۂ راز دی خبرون
پھیلی ہیں جو ہر سو روش عام دی خبرون
آتی ہیں کجھ ایسے کئی اصحاب دی خبرون
دروازہ نکالیں کہاں، دیوار ای نشتے
عاشق ہوں تو معشوق فقط دور ای نشتے
دنیا وی نظر وچ تاں ایہ اعزاز ای نشتے
خط لکھتے اگر ہیں وہی تو القاب ای نشتے
کھیلن گے ہن دوبدو کیا طرفین ملا کھڑا
یہ سنگ چاہییں نشتے، کوئی صنم روڑا
وہی پھر آپ توں بیزار سن بھلو چنگو
ہمارے آرسی اور پار سی بھلو چنگو
کسے خبر سی یونہی کم سے کم دروکا دیر
جیون دا جوایہ حال اے، مرجائیں گے وخرا
ہوتے ہیں اور کبھی نہیں ہوتے ہیں آپتی
پوچھا جو میں نے آپ نوں ہے مجھ سے پیار چھنت
ہمارے چاروں طرف ہے ایہ، آسماں تالان
نظر تے آ ای رہیا سی کوئی کھلا امباز
ہاسے ہاسے سو جھرو
دل بے تاب دے اوڑ وپاڑو
ہے دریا پار اربیلو
بے رنگی اے رنگ سدائیں
صف بہ صف بھنبھر کواے
اصل ظاہر ہو یا ہوریاں ہوریاں
پھیرا جو لگائے گا ٹپالی
کھلدا گیا اپنی ہی تب وتاب میں گڑکھو
اس بات دا روائن کدی اس بات دا روائن
باغ دا باغ تھا اچھوا جرو
لگا سی جس قدر دشوار مونکھی
اوہ دلبر ہمارا پھر ندر گرندڑ
کوئی بھر پور تماشا ٹمٹار
ہمارے ہاتھ نیں جیسے دعا میں ہورو سور
کوئی ہے ارض وسماتے کاردات
ٹھنڈی جو پڑی گرمی بازار اناگت
ایہ جو ہیں زرد ہوا دے ارسن
جو وی ہوتے ہیں عام خاص ملور
ایہ ہوا کیوں اے دربدر انکس
میں جہاں ڈھونڈتا رہا دلگوش
جس قدر سی مرید گفتار میں سرا برّا
کتے اگر مرا جینا نہیں ہوا تالان
خود نوں جو کر سکے نہیں تیرے میں ہورتور
اس نے سو طرح سے ماری اے پگار
غلطی سے ای آج ہو دلگوش
اوہ تھا جتا جتا گری
شیشہ دل دا ہورت آرت
دروازہ نکالا کوئی ناچار اناگت
اگرچہ اس دا بظاہر تے میں ای تھا آماچ
کوئی خدائی داسی یا خدا دا نندارہ
لگا ہمیں کیہ اچھا چرمٹ
اگر کیجے گا نظر چکے
دریا توں واتری ہو کہ صحرا توں واتری
ظاہرا تے ہوا مکاں ڈرتگ
ایک نکلا تے دوسرا اے ژند
مشکلوں تھیں بہت بنایا لوغ
اس دل دے آس پاس مرا گھر نہیں انوں
دن تے جاری اے رات دی الگار
نیا خواب آکر دکھاتا اے چوش
جو دیکھو نہ صحرا نہ دریا اے ایش
عجب نہیں جے سزا و جزا اے یک نیمگ
انسان سبھ جو ہوگئے حیوان یک دمان
گھٹ اے نہ سارا ہوار
اوہ جو نہ تھا اندیختہ
چاندنی وچ سی تے چنار میں ہور
حسن دا رنگ سی ہوا داسے
جو نہیں اے کتے نہیں، پہ خدائے
بھلایا اسے، تے نکالا کشالہ
نال ہمارے آنے بانے
جس نوں دیکھو آشنانا آشنا نندارچی
رکھدی اے کوئی مجھ سے بہت کام رپندے
یہاں نہیں اے فقط انتظار وچ درغل
ڈر رہے سن جو سفر توں پخوا
اک شک جیہا اے گرمی گفتار دے پسے
کٹے پیڑ پودے، چمن شاڑ اے
جو وی سی آپ نے دکھائی لار
وہاں پہ لوگ تھے خاص اور عام زرغونہ
یوں وی کجھ سی مرا ارادہ پوخ
گیا اے نہ جانے کدھر کونترہ
یہاں جو پھیلی ہوئی اے ادھر ادھر زمکہ
مرے نواح میں ویسے تے جس تھا لگ لگ
حال چنگا نہیں سم دلاس
جدوں کوئی فتنہ اٹھا اے جتی
جو کجھ یہاں اے سارے دا سارا تو ہان جو
کیا کیا ٹھیل ٹکیل
زندگی کیکاند اے
شام پیندے تیرگی نے سر نکالا اوجتو
آیا اے اندھکار
اس انتظام تام
ایک پولار دے اوپر پولار
اج وی کس طراں نہ ہوندا گاس
قبل از شام بھنبھر کو
برا ہوا کہ بالآخر ہوا بھلا اپتم
چھا گئی اے جو باہر اندر برد
اساڈا جو کار وا اے اڑوئی
فقط قافیہ ای ملاندا اے بس
تیرا مجھ پر اگر نہ چلتا دوکھ
خوب سی اوہ بنا بنایا سیت
نہپیں آئے مرے شمار میں سرف
کیہ جانے کدتوں اپنے سراں تے کھڑا اے نب
ابتدا اے کہ انتہا دا دروگ
کتھے تک گھمایا پھرایا اسے
نہیں رہ گئے اتنے لاچار اس
اسیں جو وی کدی نکالا کیم
عموماً تے ہندا اے آٹا دروگ
لیا کام اپنا ودن دان توں
حیلے اور بہانے یتھ
رشتے ناتے ہیں یتہ
سی ہنیرا بہت، جلایا ژونگ
وہی روز اگوں بجھا ندا اے بس
کیسی پوہنچ تے کیسی واتھن
بھرے شہر وچ جد ہوئی پرژہ گار
جے کول آئے وی تے کہیا، ہور کن
حساب آکے دیکھا جو اپنا پتم
جیہڑا ہویا نہیں اتنا پیرون
پہلے تے سی فقط لہو وچ تیڑ
باہر اندر اے کیسا کیسا بڈ
کیہی کشتی، کیہا بوٹھ
ہم تے یہی سمجھے ساں کہ ہیں کام وچ آدر
ساہمنے قصر ہوا اے لورت
جھلملاندے نیں بجھدے جلدے ژونگ
تقلیل
ہے کوئی طرز تمہاری جیسا
بلبل تھا یا بوم تھا
ہنگامہ تو گرم تھا
تنہا وہ مہمان تھا
بچا کھچا جو خواب تھا
تو ہی عرش نژاد تھا
موقع تو مسعود تھا
مرنا ایک وبال تھا
وہی خیال خام تھا
تھوڑا سا اقرار تھا
کعبہ تھا یا دیر تھا
دل کے اندر چور تھا
رنگ تھا وہ یا ڈھنگ تھا
جنگ وجدل سے دور تھا
ایک طرف حلوائی تھا
یہ جو روے زمیں تھا
جس میں اپنا سفر تھا
وہ اتنا ہی ورے تھا
وہ جو دل میں لہو تھا
ایک ہوا کا دیا تھا
جان گیا ہوں وہی تھا
ہر شے آنی جانی کر
بیٹھا ڈنڈ مچائی کر
ساری گئی گواتی کر
خدمت کوئی بتایا کر
ملک سخن کا والی کر
کرنا ہے جو آپی کر
ماسی کریا مامی کر
پوری کر یا آدھی کر
تازی کریا باسی کر
ہوسکتا ہوں، شرابی کر
اسی نے آکر جکڑی تھی
دوندی تھی یا چھگڑی تھی
بہت زیادہ ربڑی تھی
چکنی، چپڑی چپڑی تھی
جھوٹی تھی یا سچڑی تھی
سیدھی تھی یا ٹیڑھی تھی
چتکبری یا گرزی تھی
ترچھی تھی یا آڑی تھی
نیم تو کڑوی کوڑی تھی
ناک سے ذرا پکوڑی تھی
ساؤنی میں بھی ہاڑی تھی
زور لگا کر توڑی تھی
نیل گوں فلک نیل
تھا کبھی سفر نیل
نہیں اب کوئی سبز
چل پڑی ہوا سبز
ہے یہ آسماں سرخ
ایک رہگذر سرخ
نہیں تن بدن زرد
ہے جو سو بہ سو زرد
چہرے پڑتے گئے سفید
کھل رہی تھی کل سفید
لاکھ پہلے سے کم سیاہ
لکھ رہا ہوں غزل سیاہ
حسن چارسو کھلا
تھا جو میہماں تنگ
صرف ہے جبیں گرم
ہے بہت خدا گرم
آج ہے نہ کل سرد
پھر رہا ہرن کھلا
جب سے ہے قبا بند
نرم ہے کہیں سخت
تھا وہ ایک دم سخت
نیند سے پرے نرم
مست ماجرا نرم
تھی ہوا کھڑی بند
تھا جو پیش وپس کھلا
یوں ہے گفتگو سرد
کچھ نہیں یہاں سرد
طبع کی وہ تھی گرم
آگ تھی بھری گرم
عکس کارواں گرد
تھا کوئی سفر دھند
یہ نہیں نئی دھول
دل دھڑک اٹھا تیز
کیوں ہوا سفر سست
کر گیا عمل سست
کیوں نہ ہو لہو تیز
کچھ نمک ہوا تلخ
تھی وہ گفتگو شہد
تھا وہ سر بسر شہد
تھی بہت ز باں تلخ
آپ ہیں جہاں دور
تھی بہت پری پاس
رات بھر رہا پاس
شاخ سے شجر دور
انتظار باہر
ہے خراب اندر
دل کہاں اپنی سپر ہے،پر ہے
اک طرف سبز پھبن ہے، بن ہے
واردات اندر
تھا نہ کام باہر
ہوئی ہے کہیں صبح
چل پڑی جدھر شام
ساری گفتگو شام
دور ہے اگر صبح
راہ میں ملی گرد
ہیں زمیں زماں گرد
وہی چارسو دھند
پھیلنے لگی دھند
سب سے ہے سفر برا
ہے یہ آسماں برا
لگ رہا بدن بھلا
ہے جو روبرو بھلا
رہے گی کمی ابھی
ہو چکا ہے کیا ابھی
چین تو پڑے کبھی
ساتھ چل پڑو کبھی
آسماں زمیں سست
کیا ہوا چلی سست
سست میں پھنسا چست
نیند سے بھری چپ
شام کا مچا شور
پردہ سا کہیں ہٹا ہوا تھا
ظاہر میں گھڑی کھڑی ہوئی تھی
خوشیوں سے جو دل بھرے ہوئے تھے
جیسی تھیں جہاں جسی ہوئی تھیں
کچھ اگر بے کنار ہے مجھ میں
یہ جو خواب وخیال ہے مجھ میں
چار سو کوئی شام ہے مجھ میں
تخفیف
یہ جو دریاے خواب ہے مجھ میں
وہم ہے یا گمان ہے مجھ میں
دن ڈھلا ہے نہ رات ہے مجھ میں
یہ جو تیر وتفنگ ہے مجھ میں
اشک ہیں، اور، سکون ہے مجھ میں
آتش و انجماد ہے مجھ میں
نیستی کا وفور ہے مجھ میں
رنگ پیماں ہیں، راز ہے مجھ میں
زور نہیں تو زاری کر
ڈاکے مار،کمائی کر
مرضی یا مجبوری کر
درمیان میں چھوڑی چائے
موسم کا پنیترا نکل آیا
گھر سے جوڈری ڈری نکل آئی
مولی سے مونگرے نکل آئے
عمّامہ آدمی ہوں
دیوانہ آدمی ہوں
آئینہ آدمی ہوں
مایوس آدمی ہوں
بے باک آدمی ہوں
بدحال آدمی ہوں
بدنام آدمی ہوں
بے آس آدمی ہوں
مضروب آدمی ہوں
مفقود آدمی ہوں
معزور آدمی ہوں
معمول آدمی ہوں
پچیس آدمی ہوں
گرداب آدمی ہوں
خیرات آدمی ہوں
بنیاد آدمی ہوں
الفاظ آدمی ہوں
الجھاو آدمی ہوں
تنہائی آدمی ہوں
گجراؤ آدمی ہوں
نخچیر آدمی ہوں
بیمار آدمی ہوں
الجھیڑ آدمی ہوں
مدقوق آدمی ہوں
ہشاش آدمی ہوں
پرجوش آدمی ہوں
مش روم آدمی ہوں
بے شم آدمی ہوں
نیرنگ آدمی ہوں
تعظیم آدمی ہوں
ایک رنگ ملال بھی تھے ہم
کیسے کیسے اداس بھی تھے ہم
خوش بھی تھے، اور ملول بھی تھے ہم
کوشش ناکام کیوں ہوئی ہے
پیدا یہ غبار کیوں ہوا ہے
محبت کا موسم بدلنے کو ہے
ہوا میں کوئی رنگ بھرنے کو ہے
نیا اک زمانہ جو آنے کو ہے
ابھی ہوتے ہوتے جو ہنسنے کو ہے
وہم زر ومال کیوں ہوا ہے
یہ عام سا، خاص کیوں ہوا تھا
یہ زمیں کون تھی، آسماں کون تھا
دیکھتے تھے جدھر کو، ادھر کون تھا
میرے اندر وہ میرے سوا کون تھا
گم ہوا دیکھتے دیکھتے کون تھا
پیغام اس کا ٹھکرانا ہے یا نہیں
سوچ بھی ہو کب لال
ہو رہی زمیں لال
تری سمت جاتے ہوئے تھک گیا ہوں
بگڑتے سنورتے ہوئے تھک گیا ہوں
نہیں یہ کہ چلتے ہوئے تھک گیا ہوں
سمجھ لو کہ سوتے ہوئے تھک گیا ہوں
گھر میں داخل نہیں لگ رہا
فن بھی اب فن نہیں لگ رہا
کام اعلیٰ نہیں لگ رہا
یہ جو بندر نہیں لگ رہا
وہ جو اپنا جہاں تھا
شب بھر یا دن بھر ہونے دے
سارے کا سارا ہونے دے
کم ہو کہ زیادہ، ہونے دے
اب تو یکجائی ہونے دے
وہ تحریر سے یا زبانی کھلا
وہی ہے تماشے کا مضمون بند
پڑھ غزل
پیچ و خم
بات کر
گفت گو
تم جہاں
جو کیا ہے اس انتظام کو دیکھ
تھک گیا ہوں، چلا نہیں جاتا
دل سے اس کا دھواں نہیں جاتا
اس قدر بے خبر نہیں جاتا
جیسے تیسے رہ جاتا ہے
جان لو، ان کے کیا ارادے ہیں
وہم سا اعتبار میں دیکھا
ترے آسماں کی زمیں ہو گیا ہوں
سفر میں ہوں، گرد سفر ہو گیا ہوں
میں سوکھا ہوا تا، ہرا ہو گیا ہوں
بہت پوچھ بیٹھے ہو، کیوں ہو گیا ہوں
میں وہ ہوگیا ہوں کہ یہ ہوگیا ہوں
زمانے سے پھر دو بدو ہو گیا ہوں
عجب کوئی زور بیاں ہو گیا ہوں
ہر روز چڑھنیاں کہ فلک سے اترنیاں
جدائی میں اپنی قرار انتظاری
خیال انتشاری، گمان، انتظاری
ہر گھڑی رخ بدلنیاں میری
کبھی دیکھو گے آنیاں میری
چوری چوری وہ تکنیاں تیری
روشنی گھر میں کرنیاں اس کی
چمکی ہوئی رات کو سیاہا
جب بھی کسی خواب کو خیالا
کچھ امکاں تو تھے ہی ملاقات کے
ہیں مجبور باہر نکلنے سے ہم
پڑے تنگ جب ناز اٹھانے سے ہم
اگر بچ رہے پانو دھرنے سے ہم
بہت خوف رکھتے ہیں سونے سے ہم
یہ زمین آسمان کا ممکن
تھا پشیمان دریچے کے قریب
کوئی پھر سے نہ کردے یہ فضا ویراں
اندھیرے بھی ہیں کچھ خواب
آسکے گا نہ پہچان میں اجنبی
اس گلی جاتے ہیں اور آتے ہیں ہم
تلوار کو نیام دے رہا ہوں
زاہد کو شراب دے رہا ہوں
چاند پیچھے، بام سے آگے ہوا
جس طرح سیلاب سے آگے ہوا
اس گل و گلزار سے آگے ہوا
ڈھونڈتا ہوں رات سے آگے ہوا
زندگی کچھ نہیں، مرےبھائی
آن وایں کچھ نہیں، مرے بھائی
ہوبہو کچھ نہیں ، مرے بھائی
روز وشب کچھ نہیں، مرے بھائی
جابجا کچھ نہیں، مرے بھائی
سر بسر کچھ نہیں، مرے بھائی
اب تک
ترکیب
اولے پڑے ورساد ماں
ڈوبا ہے گھرورسادماں
کچھ ہو نہ ہو ورساد ماں
خود ہی وہ آجائے گا، بے سی رہو
کیسی جلدی ہے کوئی، بے سی رہو
کون آیا ہے آردھی راتے
یہ جو باہر ہے آردھی راتے
کس کو آنا ہے آردھی راتے
بار بار مون بولے چھے
جل ترنگ مون بولے چھے
نال نال مون بولے چھے
بے تکان مون بولے چھے
باغ سارا ہوا میں تھاپرگٹ
میرے خواب ہنر میں تھا پرگٹ
رنگ ایسا لہو میں تھا پرگٹ
جسم کے آرپار تھا پرگٹ
رہا سہا اوڈنگی جا
ملے جلے اوڈنگی جا
اپنا دیا جلائے بیٹھا اچھے اہیں
منظر کہیں دکھاؤ، بیٹھا اچھے اہیں
اگر نہ آیا پچھی شوں کرشو
کٹا سفر تو پچھی شوں کرشو
کوئی چراغ جلائے رکھنا، سورج نو وشواس نہ کروو
آنا جانا، سورج نو وشواس نہ کروو
کرتا ہوں کیا گمان، منے کیں خبر نتھی
تھا کس کا انتظار، منے کیں خبر نتھی
پھیلے ہوئے ہیں جال، منے کیں خبر نتھی
کرتا ہوں کیوں سلام، منے کیں خبر نتھی
آیا وہ آدھی رات منے کیں خبر نتھی
آیا تھا کیا خیال منے کیں خبر نتھی
پھیلا ہے کیا غبار منے کیں خبر نتھی
وہ ہے کہاں منے خیال پن نتھی
ادھر اُدھر منے خیال پن نتھی
کہاں چلے، منے خیال پن نتھی
جی مچلتا رہا، آنکھ جوتی رہی
صبح کرتا رہا، آنکھ جوتی رہی
آتا جاتا رہا، آنکھ جوتی رہی
تیرا میرا جو تھا، آنکھ جوتی رہی
چڑھتے ہوئے خمار کی پہلی ج رات چھے
اپنے خیال خام کی پہلی ج رات چھے
الجھے ہوئے خیال کی پہلی ج رات چھے
اس کے خیال و خواب کی پہلی ج رات چھے
دھوپ تھی دل ماں یا اندھ کار
اندر اور باہر اندھکار
چاند کے ساتھ گہن اندھکار
جم ہی گیا وہاں اندھکار
میں نے پکارا لواندھکار
آئے کوئی جائے، ہوں جویا کروں
کیا ہوا منجدھار، ہوں جویا کروں
کورا دیا جواب تو کونے کہیش توں
پوچا نہ اس نے حال تو کونے کہیش توں
ہویا نہ انتظام تو کونے کہیش توں
کچھ یہاں بیش وکم نتھی ہوتوں
جس مسافر کا گھر نتھی ہوتوں
میں جو ہوتا ہوں تب نتھی ہوتوں
قول جب تک عمل نتھی ہوتوں
مجھ سے جو ہوا، شوں کہوں تنے
چاہے اور ہنس، شوں کہوں تنے
کیا ہے گفتگو، شوں کہوں تنے
یہ زندگی سے بہار ابھو چھوں
ادھر اُدھر سے بہار ابھو چھوں
کسی ستم سے بہار ابھو چھوں
ہم ہیں دور دور،کون مانشے
ہوگئی ہے شام، کون مانشے
بجھ گیا وہ خواب، کون مانشے
میں آرہوں نہ پار تمارا گیا پچھی
دیتا رہا دہائی تمارا گیا پچھی
خالی لگا مکان تمارا گیا بچھی
دن ڈھل گیا تو شام سے آگڑجتا رہیا
ہر طرح کے غبار سے آگڑجتا رہیا
شاید ترے خیال سے آگڑ جتا رہیا
کر رہا تھا تنگ می ںہنستو رہیو
جیت میں تھی مات، میں ہنستورہیوں
تھا جو پاٹے خان میں ہنستو رہیو
ہے اندر نہ باہر، گھنا دور چھے
سمندر کنارہ گھنا دور چھے
کہیں آنا جانا گھنا دور چھے
ملنے آیا بھر بپورے
خاک اڑائی بھر بپورے
چڑھتا ہے نیا سال، روکاؤ رتو ساروں
امید ملاقات ہے، تھی جائے تو ساروں
شام تھی جائے تو ساروں
تنگ تھی جائے تو ساروں
باقی ہے ابھی شام، روکاؤ تو ساروں
کوئی راستہ نجیک چھے
ہر طرح کا ڈر نجیک چھے
ہر عیاں نہاں نجیک چھے
کوئی روبرو نجیک چھے
آشیاں نجیک چھے
اس کا گھر نجیک چھے
افسون انتظار کا پوپٹ آڈی گئیو
رات آئی اور شام کا پوپٹ اڈی گئیو
باغوں سے ڈال ڈال کا پوپٹ اُڈی گئیو
سب کا پوپٹ اڈی گئیو
ماسی، پوپٹ اُڈی گئیو
اکثر پوپٹ اُڈی گئیو
رہے اس کا آنا وگیرے وگیرے
مرے پاس آیا وگیرے وگیرے
وہی گھر میں ڈالی وگیرے وگیرے
پڑا اتنا گھاٹا وگیرے وگیرے
ہمیشہ ہی بیمار جویا کرے چھے
بہت خاص ہے عام جویا کرے چھے
یہ جیسی بھی گزاری ہے، منے چپ چاپ مروا دو
کوئی آواز آئی ہے، منے چپ چاپ مروا دو
خدا چھے دو قدم آگڑ
رکی چھے دو قدم آگڑ
سفر چھے دو قدم آگڑ
جس جگہ تم نے کہا چھے ہوں ہجی پن تیاج ابھوچھوں
شور کیسا ہے دھیان راکھوں چھوں
اصرار نتھی ہوتوں
ہر شام نتھی ہوتوں
کائیں کائیں کر رہا تھا کا گڑو مری گئیو
گھر سے دور کاگڑو مری گئیو
بول چال کا گڑو مری گئیو
پھول پات کاگڑو مری گئیو
پکارتے پکارتے کیا جیی پہونچیا
دم بدم کیاں جی پہونچیا
ہمارا ٹھکانا گھنوں دور چھے
سحر کا کنارہ گھنوں دور چھے
ملا وہ جھوٹ موٹ تو اسے نیال تھیی گیا
مطلع لکھا ورساد ماں
چوتھی کھونٹ کا مسافر
تشکیک
پھول پتے چاند سورج تھے جہاں آواز تھی
یہ نہیں کہتا کہ دوبارہ وہی آواز دے
کچھ پتا چلتا نہیں کس طرح کی آواز ہے
دیر تک آتی ہوئی یا مختصر آواز تھی
اس اندھیرے میں اگر بندقیا درکار ہے
اور بھی اس کی طرف سے پیش وپش درکار ہے
کچھ یہاں درکار ہے اور کچھ وہاں درکار ہے
خاک اڑانے کے لیے، رہنے کو گھر درکار ہے
آگ کا رشتہ نکل آئے کوئی پانی کے ساتھ
سنگ بھی موجود ہوں گے آئنہ خانوں کے ساتھ
رفتہ رفتہ لگ چکے تھے ہم بھی دیواروں کے ساتھ
ہر طرح سے مطمئن ہیں اپنی یکتائی کے ساتھ
ہمیں تلاش کسی کی نہیں، کوئی مل جائے
کم سے کم ملا ہو یا بیشتر میسر ہو
روز سانس لینے کو گر ہوا میسر ہو
اس طرح کی عیاشی پھر کہاں میسر ہو
کسی کو خوش تو کسی کو خفا کیا ہوا ہے
وہ دائرہ سا کہ جس میں سفر کیا ہوا ہے
یہ اپنی خاک جسے کہکشاں کیا ہوا ہے
نہیں ہے وصل، مگر ہو بہو کیا ہوا ہے
سفر کا راہ میں ہی اختتام کیوں کر ہو
خیال جب سے پریشاں ہے خواب کیوں کر ہو
کہیں وہ ہے تو سہی، دوستی نہیں، پھر کیا
لہر کی طرح کنارے سے اچھل جانا ہے
کہیں ایسا نہ ہو اندازہ ہی الٹا نکل آئے
ہماری موت کا اب اور کیا منظر نکل آئے
سمجھ رہے تھے جو آساں، محال ہے اب تک
ادھر اُدھر جو یہ موجود میرا مطلب ہے
ہے اپنے آپ سے انکار، میرا مطلب ہے
اب بھی ہے اسی طرح تگ وتاز میں شامل
ترغیب سے نہ میری تب وتاب سے ہوا
کچھ تو خراب صورت احوال سے ہوا
جھگڑا نسب سے تھا نہ مرے نام سے ہوا
کچھ بھی نہ اس کی زینت وزیبائی سے ہوا
اگر ہوا سی کوئی رکی ہوئی ہے
طلسم سا جو کوئی چارسو رکا ہوا ہے
کسی طرف سے کوئی راستا رکا ہوا ہے
کھڑی ہے شام کہ خواب سفر رکا ہوا ہے
یہ دنیا ہے تو آخر خواب دنیا کس طرف ہے
میلا سا ہے لگا ہوا باہر مری طرف
کیسی رکی ہوئی تھی روانی مری طرف
گرتے ہیں ٹوٹ کر جو ستارے مری طرف
طبعاً تو وہ اتنا کوئی بدخو بھی نہیں ہے
زمین ٹھہری ہوئی، آسماں رکا ہوا ہے
ایک ہی بار نہیں ہے وہ، دوبارہ کم ہے
کچھ دنوں سے جو طبیعت مری یکسو کم ہے
پانی اتنا ہے کہ اس کے لیے دریا کم ہے
شور اگلا سا جو ہر سمت برابر کم ہے
جب اپنی موج میں سوتے ہوئے گذرتا ہوں
کسی سفر سے پلٹتا ہوا گذرتا ہوں
میں اپنی چال ہی چلتا ہوا گذرتا ہوں
ہوا کے ساتھ گذرتا ہوا گذرتا ہوں
بات سندیسا تھی اس کی، گفتگو پیغام تھا
دربدر پیغام تھا یا جابجا پیغام تھا
وہ زمیں پیغام تھا، یا آسماں پیغام تھا
کچھ نہیں سمجھا ہوں، اتنا مختصر پیغام تھا
دل کو رہین بند قیامت کیا کرو
اس کی تو کچھ خبر نہیں کیوں مت کیا کرو
دن رات میرے دل سے گذرمت کیا کرو
دل میں طرح طرح کے گماں مت کیا کرو
ہزار بندش اوقات سے نکلتا ہے
وہ جس طرح کے بھی ہنگام سے نکلتا ہے
جہاں یہ دل ترے جنجال سے نکلتا ہے
کہاں وہ کوشش بسیار سے نکلتا ہے
مزہ کچھ تو ملے گا موج کو منجدھار کرنے میں
ہیں نقصانات یوں تو اور بھی تعجیل کرنے میں
رہ رہ کے زبانی کبھی تحریر سے ہم نے
بدلہ یہ لیا حسرت اظہار سے ہم نے
جوڑا ہے کسی اور ہی انجام سے ہم نے
ٹکرا دیا بھر پور کو پایاب سے ہم نے
ہوتے گئے تھے جمع ہی ارمان ہمارے
چلتی نہیں اب کوئی جو تدبیر ہماری
اگرچہ ہم لوگ داستاں میں پڑے ہوئے ہیں
یہ موت ہے یا کہ زندگی میں پڑے ہوئے ہیں
ظفر، یہ کس طرح کے سفر میں پڑے ہوئے ہیں
الگ الگ، اور، جا بجا میں پڑے ہوئے ہیں
جہاں پہ ہونا نہیں، وہیں سے لگے ہوئے ہیں
گل وسمن سے نہ رنگ وبو سے لگے ہوئے ہیں
نظر نہیں آرہا جدھر سے لگے ہوئے ہیں
غبار غربت میں بھی وطن سے ملے ہوئے ہیں
جو دوستی سے نہ دشمنی سے ملے ہوئے یں
مقام ہی اور تھا جہاں سے ملے ہوئے تھے
چراغ تھے جس قدر ہوا سے ملے ہوئے تھے
عرب سے اٹھ کر کہیں عجم سے جڑے ہوئے ہیں
عجب نہیں ہے جو رفتگاں سے جڑے ہوئے ہیں
کسی گماں سے، کسی یقیں سے جڑے ہوئے ہیں
کہیں پہ موجود، اور، کہیں سے ہٹے ہوئے ہیں
ٹھہر گئے ہیں تو ہم سہاروں میں رہ گئے ہیں
ظفر، فسانوں کہ داستانوں میں رہ گئے ہیں
گذر گئیں مدتیں، برابر کھڑے ہوئے ہیں
ہیں نقش دیوار، جا بجا سے مٹے ہوئے ہیں
بجھے بجھے، اور، راستوں پر پڑے ہوئے ہیں
کہیں ہم اپنی ہی بے کرانی میں رہ گئے ہیں
کچھ سبب ہی نہ بنے بات بڑھا دینے کا
بے نام جس قدر ہیں انھیں نام دے سکوں
الگ الگ اور جدا جدا سے بندھے ہوئے ہیں
پتا نہیں چل رہا کہاں سے بندھے ہوئے ہیں
کسی بہانے سے اب دوبارے کھلے ہوئے تھے
ہمارے اندر تو کوئی باہر لکھے ہوئے تھے
اصل تھا یا کسی ہونے کا اشارہ ہوا میں
خرچ ہوتا ہوں اسی چال سے چلتا ہوا میں
آخری ہوں کہ ترے گھاٹ پہ پہلا ہوا میں
پہلے ہی ٹھیک طرح سے ہوں ٹٹولا ہوا میں
یہ بھی کیا ہوں کسی جانب سے جھجکتا ہوا میں
جیسے ہوں شہر بدر شہر میں آیا ہوا میں
کچھ رویے ہی تھے ایسے کہ غصیلا ہوا میں
وقت بے وقت کہ ویلے سے کویلا ہوا میں
کس نئے خواب میں رہتا ہوں ڈبویا ہوا میں
راکھ ہوتا ہوا، ہر لحظہ نبڑتا ہوا میں
ہوں وہ پہلا سا پرانا کہ نرالا ہوا میں
مسترد ہوگیا جب تیرا قبولا ہوا میں
جب تمھارے اور اپنے درمیاں ہوتا ہوں میں
ترے راستوں سے جبھی گذر نہیں کر رہا
کوئی چیز بھی میں یہاں وہاں نہیں کر رہا
جو یہ تیرے بارے میں گفتگو نہیں کر رہا
اس اندھیرے دل میں جو روشنی نہیں کر رہا
مرے گھر تو کیا سر رہگذر نہیں آرہا
کچھ کام اس زمین پہ کرنے تو دے مجھے
مکان پھر متلاشی ہوئے مکینوں کے
تمھارے ہوگئے ہیں اور ہمارے ہو گئے ہیں
منکر ہے آج کل جو سلام وکلام سے
عرض ناشر
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.