پیش لفظ
سوتے جاگتے ان آنکھوں نے تیرا نام لیا
ایک پل میں ٹوٹنے کو ہے سمندر کا سکوت
چمک جو ابکے بڑھی ہے سراب میں کچھ اور
مرجھا کے گر رہے ہیں افق سے دھنک کے پھول
یہاں اب شور ہی کوئی نہ سرگوشی کسی کی
یاد کے نیلے سمندر میں سنہری کشتیاں
دھوپ آتی رہی اس کانچ کے گھر میں خود ہی
بنیں گے مال غنیمت میں حصہ دار تو سب
تمام دھوپ تو کہسار کھینچ لیتا ہے
تجھ سے پہلے غم کی اس درجہ فراوانی نہ تھی
قریب آ! کہ ارادے لہو کے دیکھتے ہیں
نئے موسم کا تحفہ لا رہے ہیں
مجھ سے بہتر کون لکھے گا بھلا تفسیر غم
ادھر جلا میں ڈوبی وہ باوقار آنکھیں
ہے اس غریب پہ تہمت دیا جلانے کی
ہاں ! دھوپ کی یلغار تھی سایہ نہ تھا مجھ میں
دنیا نہیں خدا کی مرضع غزل ہے یہ
آنکھیں گہری سوچ میں چہرہ اداس
سب کی آنکھیں کھو گئیں لا منظری کی گرد میں
میں سورج تھا مگر اب بجھ گیا ہوں سوچتا ہوں
میری آنکھوں میں دمکتا ہوا چہرہ اس کا
وہ کیا ہے کون ہے یہ انکشاف ہو نہ سکا
آگ کی لپٹیں اٹھیں کمرے سے اور دالان سے
کیوں کہا جائے دل ویران میں کچھ بھی نہیں
کب تک بچائے روح کو آخر بدن کی ڈھال
کیا ضروری ہے کہ پھولوں سے لدی ہو ہر شاخ
کچھ رحم کر دے مجھ پہ بھی میرے رحیم تو
خمیدہ تیر بھی ہوں گے کمان کی صورت
صبح آئی بھی نہیں خواب ہمارے ٹوٹے
چمکتے لفظوں کی عصمت پہ حرف آتا ہے
اک جزیرے پر اترتے چاند کا جادو نہ پوچھ
حسیں منظر کی قیمت ہی نہیں ہے
بہ بے نیازی کہاں سب کو راس آتی ہے
سارے منظر پہ اترنے لگی سر شاری پھر
برسات تک میں لوٹ سکوں گا یقیں نہیں
گھپ اندھیرا ہے یہاں کون سا در کھلتا ہے
اپنی ہی مٹی میں گہرے زخم بونے کا جواز!
ضرور بھول ہوئی ہے کہیں سنانے میں
کچھ اثر اس پہ نہیں خون سے خط لکھنے کا
مرے پاس کوئی عصا ہے نہ تیر
بہت جھکا ہوا جب آسمان ہوتا ہے
مقابلہ یہیں کرنا برف باری کا
پھول اور رنگ کی سوغات سے دکھ ہوتا ہے
معجزہ ہے مری آرام طلب آنکھوں کا
سفر طویل نہ تھا ساز ورخت کیا کرتے
خوبصورت چھاؤں اس کی جانے کس آنگن میں ہو
لاکھ کوئی چیخے چلائے شور اند ر کب آتا ہے
راستے بھر یہی سوچتے آئے ہیں
تیری تصویر کسی رنگ پہ راضی ہی نہیں
بھیڑ میں کھو ہی جاتے تو آتا مزہ
کیا کم ہے کرم اس کا ہم جیسے فقیروں پر
راکھ ہونا ہی مقدر ہے تو چپ چاپ نہ جل
یہ سچ کہ بات ہے اونچی مٹھاس ہو تو سہی
کیا ڈراتا ہم گنہگاروں کو دوزخ کا غذاب
عکس خوشیوں کے اداسی کی امانت ہے کہاں
ترس گئے رنگ و بو کو روشن دماغ سارے
بے موسم کی بارش میں دنیا جل تھل ہو جائے
ہر نئے لمحے کی آہٹ پہ لرز اٹھتے ہیں
ڈوب جاؤں شام سے پہلے شفق ہو جاؤں میں
آنے والی رت تو سہانی ہو سکتی ہے
لٹائے اس نے خزانے تو یاد بھی نہ رہے
میں نے ہی رنگ روپ دیا ہے اسے مگر
لاکھ غم ہوں پر خوشی جیسا بھی کچھ باقی رہے
خون ناحق ہو چکا تلوار پانی ہو چکی
موسم کی اگر گاؤں سے رنجش نہیں ہوتی
آس کا پنچھی دور نکلتا جاتا ہے
سیاہی میں تو سایہ ڈوبتا ہے
تیرے ملنے کا نشہ ٹوٹ گیا آخر کیوں
جگا گیا ہے کوئی شخص آس لوگوں میں
کب سے تیری چاہ میں پاگل ہے آلے جا ہوا
بندہ پرور آپ جو فرمائیے منظور سب
اپنے ہونے کا کوئی سراغ تو ملے
تعجب ہے کبھی رشتہ نہ ٹوٹا
کیا عجیب نظارے خواب کے نگر جیسے
شاہ کو قصے سنائے نہ قصیدہ لکھا
عزم بھی پختہ نہ تھا تلوار بھی مٹی کی تھی
بھولی باتیں چھوٹا سن
آفتاب تازہ کی تحریم باقی ہے ابھی
گھٹ گھٹ کے جی رہے تھے تری روشنی میں ہم
وہ ربط جو پہلے تھا کہاں ہے
مدعا اب یاد آیا ہے کہ جب
پیش لفظ
سوتے جاگتے ان آنکھوں نے تیرا نام لیا
ایک پل میں ٹوٹنے کو ہے سمندر کا سکوت
چمک جو ابکے بڑھی ہے سراب میں کچھ اور
مرجھا کے گر رہے ہیں افق سے دھنک کے پھول
یہاں اب شور ہی کوئی نہ سرگوشی کسی کی
یاد کے نیلے سمندر میں سنہری کشتیاں
دھوپ آتی رہی اس کانچ کے گھر میں خود ہی
بنیں گے مال غنیمت میں حصہ دار تو سب
تمام دھوپ تو کہسار کھینچ لیتا ہے
تجھ سے پہلے غم کی اس درجہ فراوانی نہ تھی
قریب آ! کہ ارادے لہو کے دیکھتے ہیں
نئے موسم کا تحفہ لا رہے ہیں
مجھ سے بہتر کون لکھے گا بھلا تفسیر غم
ادھر جلا میں ڈوبی وہ باوقار آنکھیں
ہے اس غریب پہ تہمت دیا جلانے کی
ہاں ! دھوپ کی یلغار تھی سایہ نہ تھا مجھ میں
دنیا نہیں خدا کی مرضع غزل ہے یہ
آنکھیں گہری سوچ میں چہرہ اداس
سب کی آنکھیں کھو گئیں لا منظری کی گرد میں
میں سورج تھا مگر اب بجھ گیا ہوں سوچتا ہوں
میری آنکھوں میں دمکتا ہوا چہرہ اس کا
وہ کیا ہے کون ہے یہ انکشاف ہو نہ سکا
آگ کی لپٹیں اٹھیں کمرے سے اور دالان سے
کیوں کہا جائے دل ویران میں کچھ بھی نہیں
کب تک بچائے روح کو آخر بدن کی ڈھال
کیا ضروری ہے کہ پھولوں سے لدی ہو ہر شاخ
کچھ رحم کر دے مجھ پہ بھی میرے رحیم تو
خمیدہ تیر بھی ہوں گے کمان کی صورت
صبح آئی بھی نہیں خواب ہمارے ٹوٹے
چمکتے لفظوں کی عصمت پہ حرف آتا ہے
اک جزیرے پر اترتے چاند کا جادو نہ پوچھ
حسیں منظر کی قیمت ہی نہیں ہے
بہ بے نیازی کہاں سب کو راس آتی ہے
سارے منظر پہ اترنے لگی سر شاری پھر
برسات تک میں لوٹ سکوں گا یقیں نہیں
گھپ اندھیرا ہے یہاں کون سا در کھلتا ہے
اپنی ہی مٹی میں گہرے زخم بونے کا جواز!
ضرور بھول ہوئی ہے کہیں سنانے میں
کچھ اثر اس پہ نہیں خون سے خط لکھنے کا
مرے پاس کوئی عصا ہے نہ تیر
بہت جھکا ہوا جب آسمان ہوتا ہے
مقابلہ یہیں کرنا برف باری کا
پھول اور رنگ کی سوغات سے دکھ ہوتا ہے
معجزہ ہے مری آرام طلب آنکھوں کا
سفر طویل نہ تھا ساز ورخت کیا کرتے
خوبصورت چھاؤں اس کی جانے کس آنگن میں ہو
لاکھ کوئی چیخے چلائے شور اند ر کب آتا ہے
راستے بھر یہی سوچتے آئے ہیں
تیری تصویر کسی رنگ پہ راضی ہی نہیں
بھیڑ میں کھو ہی جاتے تو آتا مزہ
کیا کم ہے کرم اس کا ہم جیسے فقیروں پر
راکھ ہونا ہی مقدر ہے تو چپ چاپ نہ جل
یہ سچ کہ بات ہے اونچی مٹھاس ہو تو سہی
کیا ڈراتا ہم گنہگاروں کو دوزخ کا غذاب
عکس خوشیوں کے اداسی کی امانت ہے کہاں
ترس گئے رنگ و بو کو روشن دماغ سارے
بے موسم کی بارش میں دنیا جل تھل ہو جائے
ہر نئے لمحے کی آہٹ پہ لرز اٹھتے ہیں
ڈوب جاؤں شام سے پہلے شفق ہو جاؤں میں
آنے والی رت تو سہانی ہو سکتی ہے
لٹائے اس نے خزانے تو یاد بھی نہ رہے
میں نے ہی رنگ روپ دیا ہے اسے مگر
لاکھ غم ہوں پر خوشی جیسا بھی کچھ باقی رہے
خون ناحق ہو چکا تلوار پانی ہو چکی
موسم کی اگر گاؤں سے رنجش نہیں ہوتی
آس کا پنچھی دور نکلتا جاتا ہے
سیاہی میں تو سایہ ڈوبتا ہے
تیرے ملنے کا نشہ ٹوٹ گیا آخر کیوں
جگا گیا ہے کوئی شخص آس لوگوں میں
کب سے تیری چاہ میں پاگل ہے آلے جا ہوا
بندہ پرور آپ جو فرمائیے منظور سب
اپنے ہونے کا کوئی سراغ تو ملے
تعجب ہے کبھی رشتہ نہ ٹوٹا
کیا عجیب نظارے خواب کے نگر جیسے
شاہ کو قصے سنائے نہ قصیدہ لکھا
عزم بھی پختہ نہ تھا تلوار بھی مٹی کی تھی
بھولی باتیں چھوٹا سن
آفتاب تازہ کی تحریم باقی ہے ابھی
گھٹ گھٹ کے جی رہے تھے تری روشنی میں ہم
وہ ربط جو پہلے تھا کہاں ہے
مدعا اب یاد آیا ہے کہ جب
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔