اشارے
انتساب
غزل
یہ ہے ہندوستان کی مقدس زمیں
اے اجنبی
دوسری جنگ سے چودھری تھک گئے
اجنبی ہم نے ناحق چراغاں کیا
ہم تو سمجھے تھے آزاد ہو گا وطن
امن تمھارے لئے
بنے ہیں نقش قدم دوسری لڑائی کے
یہ نرم نرم شگوفے یہ جو ہیوں کاچمن
یہ راستہ مرا بچپن یہاں سے گزرا ہے
یہ راستے یہ دوکانیں یہ پست مکاں
کتنی ویران ہے شام گیسو
غزل
غزل
زندگی کی راہوں میں دار بھی رسن بھی ہے
اے گلاب کے پھولو
رنگ کے امیں ہو تم کتنے دلنشیں ہو تم
سڑک
یہ جو سڑک ہے
زبان تیرے لئے خون دل دیا میں نے
آخری پڑاؤ
آج کی رات بھی آنکھوں میں کٹ جائیگی
آج کی رات
تنہائی
آج اپنے کمرے میں
اے مرے شہر! گلابوں کے وطن! میرے چمن!
زخموں کی آواز
تم کون ہو
کون ہو تم کہ مرے کمرہ کی تنہائی میں
غزل
یہ رات ہے خزاں کی ہوگل ہائے تر کی بات
خود کلامی
سخت حالات کی پتھر سی زمیں پر گر کر
لوری
اے مرے دل مرے دل مرے دل
غزل
دلوں کی راہ پر آخر غبار سا کیوں ہے
کبھی روشنی کی تلاش میں کئی منزلوں سے گذرگئے
غزل
غزل
نقوش پائے رقیب اور شاہ راہ وفا
کیوں مری تلخ نوائی سے خفا ہوتے ہو
تلخ و ترش
کتابوں کی دوکان
بر سر راہ کتابوں کی یہ دلکش دوکان
کہکشاں منتظر گرد سفر بیٹھی ہے
اس پتنک
یاران جادہ پیما
عجیب لوگ ہیں یاران جادہ پیما بھی
غزل
اس اندھیرے کے سنسان جنگل میں ہم ڈگمگاتے رہے مسکراتے رہے
خواب وبیداری کے کچھ ہم نے بنائے ہیں اصول
شعر ایک تتلی ہے
شعر اور شاعر
عزل
اب صحن گلستاں میں آئیں نہ خزاں والے
جوہی کا پودا
میں اک جو ہی کا پودا ہوں
دن کے ہنگاموں سے تھک کر
پہرہ دار
یہ کیا کہ تار گریباں کی کہکشاں نکلے
غزل
دور دور تک کالی رات ہے،گھر کے اندر باہر
نئے شنکر
دھوپ
آرزوئیں ہیں کہ سنولائی چلی جاتی ہیں
جھولی میں کچھ پھول ہیں اور کچھ خوابوں کے انگارے ہیں
غزل
غزل
رنگ ہوا سے چھوٹ رہا ہے موسم کیف ومستی ہے
کون ہے یہ
سراپا
یہ دن ہر سال آجاتا ہے
سالگرہ
شکسکت جنوں
نہ دھوپ ہی ہے نہ سایہ نہ شام ہے نہ سحر
اندر لوک میں امرت پینے والوں کی تعداد بڑی تھی
زندگی
تجھ کو چاند نہیں کہہ سکتا
تشبیب
جہاں نجد سے کب کوئی سر پھرا نکلا
غزل
غزل
ہوس پرست بھی چلے غضب کا اژدہام ہے
غزل
لذت جرم تمنا سے خفا آئی ہے
ہوس پرستوں کا مجمع مری وفا تنہا
غزل
چاند اور چراغ
چاند میں نور ستاروں میں بہت نور سہی
غزل
زندگی کے نام پر مرنا پڑا
کل اگر رات کے بیاباں سے
کل آج اور کل
یہ نجد کا الزام نہ دیوانوں کے سر جائے
غزل
غزل
کیا ہے غم، کیا ہے مسرت کا مآل
جب تیری زلفوں سی چنچل رات نہ مانی
امید
یاد
یاد کیا ہے
کتاب اک شہر آرزو ہے
کتاب
بادل کیا ہیں
بادل
اک سادہ کاغذ ہے اے دل پورے چاند کی رات
غزل
چراغ
رات کے اجنبی شہر میں
غزل
پھر وہی وادئ ہجر ہے پھر وہی ہے ستاروں کا بن
دور تک دھوپ ہے تنہائی ہے
پیاس کا صحرا
چند نعروں کی تھکی ماندی
کرفیو آڈر
یادوں کا مقتل
ہوا اٹھلا رہی ہے کیوں
افریقہ
مری زباں تجھ سے مختلف ہے
سب سے چھوٹی اقلیت
میں اک فرد ہوں اپنے ملک کی سب سے چھوٹی اقلیت کا
خود میرے اشعار بھی گزرے اکثر نظر جھکائے
غزل
کیا بات ہے لڑتے نہیں تقدیر سے لوگ
تو ہی مقصد ہے عرض مدعا کرنے کہاں جائیں
غزل
میں نے آنکھوں سے کہا
مرگ دشمن
دولھن کی طرح نرم رفتار پانی
گنگا
تھی اک ایسی رات کہ ہم دونوں تنہا تھے
چاند اور چکور
غزل
چاک گریباں والے جان شہر وفا کیا آئیں گے
غزل
خوشبو نکل پڑی ہے کھلے سر یہ کیا ہوا
دور تک کچھ بھی نہیں
نئے سال کی چنچل تتلی
ایک آدمی کئی راستے
اے مری روشنئ طبع! مری وضع جنوں!
کبراکھڑا بجارمیں
کبرا کھڑا بجار میں دیکھے سب کو کفن کی اوٹ
یادوں کے اس شہر میں اب تک کوئی سکہ چل نہ سکا
یادوں کے اس شہر میں
صبا سے پوچھیں
صبا سے پوچھیں کہ دیکھی ہے اس نے اک دنیا
تیرا چہرہ ہے کہ اک شام وصال
چہرہ
غزل
اے آوارہ یادو پھر یہ فرصت کے لمحات کہاں
آرزوئیں ہیں پریشان، نہ جانے کیا ہو
غزل
غزل
جب دیکھا بڑھی اور تمنا یارو
یہ کیا جانے ، یہ ناصح تو بڑا نادان ہے یارو
غزل
کیا کروں طنز بنی جاتی ہے اب پیار کی بات
غزل
دل بھی اک کارواں سرا ہے جہاں
دل
تیری آنکھیں ہیں خیالوں کے دہکتے ہوئے لب
آنکھیں
سوگئی رات بہت دیر ہوئی
چور
شام اور شیام
دور یادوں کے نگر کے اس طرف مدھ بن میں کوئی
جھونپڑی کے دو پہ یہ میلا سا پردہ ایک بوڑھا قصہ گو ہے
دیکھ برہ کے اس مندر سے کس نے تجھے پکارا
غزل
یادوں کے کالے جنگل میں، میں اپنے کو ڈھونڈھ رہا ہوں
یادوں کے کالے جنگل میں
لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں
تقدیر وفا
صرف یادوں کو تمنا کا جو حاصل کہئے
غزل
ہم کیا جانیں قصہ کیا ہے، ہم ٹھہرے دیوانے لوگ
غزل
سرکھولے ساتھ ساتھ نہ باد صبا چلے
طوفان
گھٹا زمیں پر جھکی ہوئی ہے
میں اک پھیری والا
میں اک پھیری والا
غزل
جینا بھی اک مشکل فن ہے سب کے بس کی بات نہیں
جن سے ہم چھوٹ گئے اب وہ جہاں کیسے ہیں
غزل
میں نے جب بھی جنم لیا ہے
پیاس اور پانی
وصیت کیا کروں آخر
وصیت
دوست! تم نے مجھ کو اک پیالہ دیا
قیمت عہد وفا
جتنے وحشی ہیں چلے جتے ہیں صحرا کی طرف
غزل
واعظ سے دل برانہ کرو، یاد سا ہے یہ
میں کیا ہوں میرا فن کیا ہے
میں کیا ہوں
ماں سے اک بچہ نے پوچھا
چاند کی بڑھیا
لوگ کہتے ہیں بلا ہے زندگی
قصیدہ در مدح حیات
یہ ترے لب ہیں کہ اک حلقۂ زنجیر ہے
بوسہ
غزل
راستے اپنی نظر بدلا کئے
اے مرے شہر گلابوں کے وطن میرے چمن
قصیدہ در مدح غازیپور
دھند گہری دھند ہے
دھند
یادوں کا یہ پھیلا جنگل
کس کو اپنی یاد کہوں میں
لوگ یک رنگئی وحشت سے بھی اکتائے ہیں
غزل
نیند کے گاؤں میں سناٹا ہے
نیند کا گاؤں
سورج کی موت
دور تک زرد سلگتے ہوئے لمحوں کا ہجوم
تعارف
تو نے تو مجھ کو دیکھا ہے
غزل
مجھ کو دیکھنے آئیگی دنیا میں ہوں ان تصویروں میں
ہرایک راستہ ویراں ہو گر تو کیا کیجئے
غزل
رات اک کاسۂ خالی ہے
رات
روشنائی کی ہر اک بوند کی قیمت لے لو
داہنا ہاتھ اور روشنائی
گونگوں کے لئے منبر کیا ہے
قتل کا نسخہ
دیوتاؤں نے سندر کومتھا
انتر منتھن
غزل
پیاسی راتیں بھی کاٹی ہیں دن بھی گزارے الجھن کے
قہوہ خانہ
ایک طرح کی میز کرسیاں
غزل
موج گل روٹھ گئی، صحن گلستاں چھوٹا
سواد شہر یہ مت پوچھ ہم پہ کیا گزری
غزل
اس سفر میں نیندا یسی کھو گئی
غزل
موج ہوا کی زنجیریں پہنیں گے دھم مچائیں گے
ساحل اور سمندر
سمندر بار بار آتا ہے
غزل
حد نگاہ تلک کیا دکھائی دیتا ہے
ہیں کیا چیز یہ منزل شوق کی راہیں بھی
غزل
دیوالی
وہ آئی
اسی شوخ شعلہ روسا کوئی انتخاب لاؤ
غزل
غزل
اہل دل دیدۂ حیراں کے سوا کیا لائیں
پردیسی!
گونگا پنگھٹ
کچی مورتی
پردیسی!
گونگا پنگھٹ
کچی مورتی
پردیسی!
پور پور میں مہندی کی میٹھی خوش بو کے چھلے پہنے
ایک پل ایک صدی
ان پڑھ
بڑی بڑی ہرنوں جیسی دو پاگل آنکھیں
اس کی آنکھوں نے چپکے سے میرے گلے میں باہیں ڈالیں
تقدیر شعر
اکیلا دوکیلا
ابھی ابھی کچھ دن پہلے تک میں بالکل تنہا رہتا تھا
اندھی ممتا ہر بچے کو چند ا بیٹا کہ لیتی ہے
حسن
غزل
ابلاغ
نہ حسن صبح چمن نے ، نہ شام صحرا نے
تلخیوں، تشبیہوں اور الفاظ کے
میرا نام مسلمانوں جیسا ہے
گنگا اور مہادیو
خدا مسیح اور میں
مسیح! 247
غزل 248
گرد سفر نہیں، بانگ درا نہیں
آج اک شہر میں
آؤ سورج کا ماتم کریں
کہئے ہجر کی یہ زنجیریں کتنی بھاری لگتی ہیں
تخلیق غزل
کہاں ہے حسرت تعمیر اب سہارا دے
صرف مری تنہائی جانے
کبھی جو چاند نہ اترا تو دل کے داغ جلے
غزل
ہم ایسے تشنہ لبوں کو بھی کچھ جواب ملے
غزل
تاثر
راہی معصوم رضا
کس کو اپنی یاد کہوں میں
پردیسی!
اشارے
انتساب
غزل
یہ ہے ہندوستان کی مقدس زمیں
اے اجنبی
دوسری جنگ سے چودھری تھک گئے
اجنبی ہم نے ناحق چراغاں کیا
ہم تو سمجھے تھے آزاد ہو گا وطن
امن تمھارے لئے
بنے ہیں نقش قدم دوسری لڑائی کے
یہ نرم نرم شگوفے یہ جو ہیوں کاچمن
یہ راستہ مرا بچپن یہاں سے گزرا ہے
یہ راستے یہ دوکانیں یہ پست مکاں
کتنی ویران ہے شام گیسو
غزل
غزل
زندگی کی راہوں میں دار بھی رسن بھی ہے
اے گلاب کے پھولو
رنگ کے امیں ہو تم کتنے دلنشیں ہو تم
سڑک
یہ جو سڑک ہے
زبان تیرے لئے خون دل دیا میں نے
آخری پڑاؤ
آج کی رات بھی آنکھوں میں کٹ جائیگی
آج کی رات
تنہائی
آج اپنے کمرے میں
اے مرے شہر! گلابوں کے وطن! میرے چمن!
زخموں کی آواز
تم کون ہو
کون ہو تم کہ مرے کمرہ کی تنہائی میں
غزل
یہ رات ہے خزاں کی ہوگل ہائے تر کی بات
خود کلامی
سخت حالات کی پتھر سی زمیں پر گر کر
لوری
اے مرے دل مرے دل مرے دل
غزل
دلوں کی راہ پر آخر غبار سا کیوں ہے
کبھی روشنی کی تلاش میں کئی منزلوں سے گذرگئے
غزل
غزل
نقوش پائے رقیب اور شاہ راہ وفا
کیوں مری تلخ نوائی سے خفا ہوتے ہو
تلخ و ترش
کتابوں کی دوکان
بر سر راہ کتابوں کی یہ دلکش دوکان
کہکشاں منتظر گرد سفر بیٹھی ہے
اس پتنک
یاران جادہ پیما
عجیب لوگ ہیں یاران جادہ پیما بھی
غزل
اس اندھیرے کے سنسان جنگل میں ہم ڈگمگاتے رہے مسکراتے رہے
خواب وبیداری کے کچھ ہم نے بنائے ہیں اصول
شعر ایک تتلی ہے
شعر اور شاعر
عزل
اب صحن گلستاں میں آئیں نہ خزاں والے
جوہی کا پودا
میں اک جو ہی کا پودا ہوں
دن کے ہنگاموں سے تھک کر
پہرہ دار
یہ کیا کہ تار گریباں کی کہکشاں نکلے
غزل
دور دور تک کالی رات ہے،گھر کے اندر باہر
نئے شنکر
دھوپ
آرزوئیں ہیں کہ سنولائی چلی جاتی ہیں
جھولی میں کچھ پھول ہیں اور کچھ خوابوں کے انگارے ہیں
غزل
غزل
رنگ ہوا سے چھوٹ رہا ہے موسم کیف ومستی ہے
کون ہے یہ
سراپا
یہ دن ہر سال آجاتا ہے
سالگرہ
شکسکت جنوں
نہ دھوپ ہی ہے نہ سایہ نہ شام ہے نہ سحر
اندر لوک میں امرت پینے والوں کی تعداد بڑی تھی
زندگی
تجھ کو چاند نہیں کہہ سکتا
تشبیب
جہاں نجد سے کب کوئی سر پھرا نکلا
غزل
غزل
ہوس پرست بھی چلے غضب کا اژدہام ہے
غزل
لذت جرم تمنا سے خفا آئی ہے
ہوس پرستوں کا مجمع مری وفا تنہا
غزل
چاند اور چراغ
چاند میں نور ستاروں میں بہت نور سہی
غزل
زندگی کے نام پر مرنا پڑا
کل اگر رات کے بیاباں سے
کل آج اور کل
یہ نجد کا الزام نہ دیوانوں کے سر جائے
غزل
غزل
کیا ہے غم، کیا ہے مسرت کا مآل
جب تیری زلفوں سی چنچل رات نہ مانی
امید
یاد
یاد کیا ہے
کتاب اک شہر آرزو ہے
کتاب
بادل کیا ہیں
بادل
اک سادہ کاغذ ہے اے دل پورے چاند کی رات
غزل
چراغ
رات کے اجنبی شہر میں
غزل
پھر وہی وادئ ہجر ہے پھر وہی ہے ستاروں کا بن
دور تک دھوپ ہے تنہائی ہے
پیاس کا صحرا
چند نعروں کی تھکی ماندی
کرفیو آڈر
یادوں کا مقتل
ہوا اٹھلا رہی ہے کیوں
افریقہ
مری زباں تجھ سے مختلف ہے
سب سے چھوٹی اقلیت
میں اک فرد ہوں اپنے ملک کی سب سے چھوٹی اقلیت کا
خود میرے اشعار بھی گزرے اکثر نظر جھکائے
غزل
کیا بات ہے لڑتے نہیں تقدیر سے لوگ
تو ہی مقصد ہے عرض مدعا کرنے کہاں جائیں
غزل
میں نے آنکھوں سے کہا
مرگ دشمن
دولھن کی طرح نرم رفتار پانی
گنگا
تھی اک ایسی رات کہ ہم دونوں تنہا تھے
چاند اور چکور
غزل
چاک گریباں والے جان شہر وفا کیا آئیں گے
غزل
خوشبو نکل پڑی ہے کھلے سر یہ کیا ہوا
دور تک کچھ بھی نہیں
نئے سال کی چنچل تتلی
ایک آدمی کئی راستے
اے مری روشنئ طبع! مری وضع جنوں!
کبراکھڑا بجارمیں
کبرا کھڑا بجار میں دیکھے سب کو کفن کی اوٹ
یادوں کے اس شہر میں اب تک کوئی سکہ چل نہ سکا
یادوں کے اس شہر میں
صبا سے پوچھیں
صبا سے پوچھیں کہ دیکھی ہے اس نے اک دنیا
تیرا چہرہ ہے کہ اک شام وصال
چہرہ
غزل
اے آوارہ یادو پھر یہ فرصت کے لمحات کہاں
آرزوئیں ہیں پریشان، نہ جانے کیا ہو
غزل
غزل
جب دیکھا بڑھی اور تمنا یارو
یہ کیا جانے ، یہ ناصح تو بڑا نادان ہے یارو
غزل
کیا کروں طنز بنی جاتی ہے اب پیار کی بات
غزل
دل بھی اک کارواں سرا ہے جہاں
دل
تیری آنکھیں ہیں خیالوں کے دہکتے ہوئے لب
آنکھیں
سوگئی رات بہت دیر ہوئی
چور
شام اور شیام
دور یادوں کے نگر کے اس طرف مدھ بن میں کوئی
جھونپڑی کے دو پہ یہ میلا سا پردہ ایک بوڑھا قصہ گو ہے
دیکھ برہ کے اس مندر سے کس نے تجھے پکارا
غزل
یادوں کے کالے جنگل میں، میں اپنے کو ڈھونڈھ رہا ہوں
یادوں کے کالے جنگل میں
لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں
تقدیر وفا
صرف یادوں کو تمنا کا جو حاصل کہئے
غزل
ہم کیا جانیں قصہ کیا ہے، ہم ٹھہرے دیوانے لوگ
غزل
سرکھولے ساتھ ساتھ نہ باد صبا چلے
طوفان
گھٹا زمیں پر جھکی ہوئی ہے
میں اک پھیری والا
میں اک پھیری والا
غزل
جینا بھی اک مشکل فن ہے سب کے بس کی بات نہیں
جن سے ہم چھوٹ گئے اب وہ جہاں کیسے ہیں
غزل
میں نے جب بھی جنم لیا ہے
پیاس اور پانی
وصیت کیا کروں آخر
وصیت
دوست! تم نے مجھ کو اک پیالہ دیا
قیمت عہد وفا
جتنے وحشی ہیں چلے جتے ہیں صحرا کی طرف
غزل
واعظ سے دل برانہ کرو، یاد سا ہے یہ
میں کیا ہوں میرا فن کیا ہے
میں کیا ہوں
ماں سے اک بچہ نے پوچھا
چاند کی بڑھیا
لوگ کہتے ہیں بلا ہے زندگی
قصیدہ در مدح حیات
یہ ترے لب ہیں کہ اک حلقۂ زنجیر ہے
بوسہ
غزل
راستے اپنی نظر بدلا کئے
اے مرے شہر گلابوں کے وطن میرے چمن
قصیدہ در مدح غازیپور
دھند گہری دھند ہے
دھند
یادوں کا یہ پھیلا جنگل
کس کو اپنی یاد کہوں میں
لوگ یک رنگئی وحشت سے بھی اکتائے ہیں
غزل
نیند کے گاؤں میں سناٹا ہے
نیند کا گاؤں
سورج کی موت
دور تک زرد سلگتے ہوئے لمحوں کا ہجوم
تعارف
تو نے تو مجھ کو دیکھا ہے
غزل
مجھ کو دیکھنے آئیگی دنیا میں ہوں ان تصویروں میں
ہرایک راستہ ویراں ہو گر تو کیا کیجئے
غزل
رات اک کاسۂ خالی ہے
رات
روشنائی کی ہر اک بوند کی قیمت لے لو
داہنا ہاتھ اور روشنائی
گونگوں کے لئے منبر کیا ہے
قتل کا نسخہ
دیوتاؤں نے سندر کومتھا
انتر منتھن
غزل
پیاسی راتیں بھی کاٹی ہیں دن بھی گزارے الجھن کے
قہوہ خانہ
ایک طرح کی میز کرسیاں
غزل
موج گل روٹھ گئی، صحن گلستاں چھوٹا
سواد شہر یہ مت پوچھ ہم پہ کیا گزری
غزل
اس سفر میں نیندا یسی کھو گئی
غزل
موج ہوا کی زنجیریں پہنیں گے دھم مچائیں گے
ساحل اور سمندر
سمندر بار بار آتا ہے
غزل
حد نگاہ تلک کیا دکھائی دیتا ہے
ہیں کیا چیز یہ منزل شوق کی راہیں بھی
غزل
دیوالی
وہ آئی
اسی شوخ شعلہ روسا کوئی انتخاب لاؤ
غزل
غزل
اہل دل دیدۂ حیراں کے سوا کیا لائیں
پردیسی!
گونگا پنگھٹ
کچی مورتی
پردیسی!
گونگا پنگھٹ
کچی مورتی
پردیسی!
پور پور میں مہندی کی میٹھی خوش بو کے چھلے پہنے
ایک پل ایک صدی
ان پڑھ
بڑی بڑی ہرنوں جیسی دو پاگل آنکھیں
اس کی آنکھوں نے چپکے سے میرے گلے میں باہیں ڈالیں
تقدیر شعر
اکیلا دوکیلا
ابھی ابھی کچھ دن پہلے تک میں بالکل تنہا رہتا تھا
اندھی ممتا ہر بچے کو چند ا بیٹا کہ لیتی ہے
حسن
غزل
ابلاغ
نہ حسن صبح چمن نے ، نہ شام صحرا نے
تلخیوں، تشبیہوں اور الفاظ کے
میرا نام مسلمانوں جیسا ہے
گنگا اور مہادیو
خدا مسیح اور میں
مسیح! 247
غزل 248
گرد سفر نہیں، بانگ درا نہیں
آج اک شہر میں
آؤ سورج کا ماتم کریں
کہئے ہجر کی یہ زنجیریں کتنی بھاری لگتی ہیں
تخلیق غزل
کہاں ہے حسرت تعمیر اب سہارا دے
صرف مری تنہائی جانے
کبھی جو چاند نہ اترا تو دل کے داغ جلے
غزل
ہم ایسے تشنہ لبوں کو بھی کچھ جواب ملے
غزل
تاثر
راہی معصوم رضا
کس کو اپنی یاد کہوں میں
پردیسی!
Thanks, for your feedback
अध्ययन जारी रखने के लिए कृपया कोड अंकित करें। कुछ सुरक्षा कारणों से यह आवश्यक है। इस सहयोग के लिए आपके आभारी होंगे।