فہرس
پیاس کا سفر
ان دیکھی لہریں
دوراہا
کیسا یہ سنّاٹا ہے
خدا کس کا ہے
آزادی سے نیندوں تک
مقدس آگ کے نیچے
کدال اور محبت
بے ثمر زمین کے باغی
پہلے موسم کے بعد
آگ کی پگڈنڈی پر
رائیگاں صبح کی چتاپر
مسخ شدہ الہام کتاب کا نغمہ
دیمک
اجالوں کی دکھن
ترے خواب کی چادر اوڑھے
میں ہری رہی
اک روپ کا نغمہ کدھر گیا
گلاب جنگل
دو آنکھوں کے ساحل پر
بے آس پرچھائیاں
آشائیں
آخری پتیوں میں
جنم کے جال
روشنیاں خواب زدہ ہیں
کبھی راستے اور کبھی شام
آخری خواہش کا لامحدود پر توزندگی
آئینہ آنکھیں
نامعلوم شہر
جھاڑیوں میں ایک جگنو
گلاب
پرایا گھر
انتظار
پہلی ساعت کے بعد
دو کھڑکیاں
ادھر کون ہے
آنسوؤں کے رقص میں
میں کسی خواب میں بدل جاتی
نایافت
چار سال بعد
آسروں کے ٹوٹے در
ٹوٹی مالا
جلا وطن
پروازوں کے بعد
اک دن کے پار اترنے پر
ان لکھّے حروف
ایک نظم
آؤ مر کے چلو
جیون گزرگیا
پہچان کا آخری سکھ
مجھے پکار لو
رات کے پڑاؤ پر
دوسرے جنم کی بیل
سبز ندی کے پاٹ پہ دکھ
ساتویں آسمان کا دکھ
پہاڑوں سے نیچے
نیند کے قبرستانوں میں
پرومیتھیئس کی آزادی
پیاس کا گیت
سیاہ مٹی سے سیاہ پھول
گیت
لہروں پہ داستان
عدم کتھا
گمشدہ گھروں کے راستوں پر
بے ثباتی کی دہلیز پر خواب
غزلیں
سورج سارا شہر ڈراتا رہتا ہے
ڈھونڈتے ہیں جانے کب سے جنگلوں کے در مجھے
بستیاں تو آسماں لے جائیں گے
ہوانیک شہروں کی آواز لائی، وفادار خوشبو کے موسم رہے
وحشتوں کی سولیاں، یہ سوچتی بیداریاں
شہروں کے سارے جنگل گنجان ہوگئے ہیں
یہ رات کے پر فلک پہ پھیلے یہ جنگلوں کا مہیب عالم
سر رہگزار ہی سوگئیں تری روح کی وہ صبا حتیں
اندھیروں کا موسم بدلتا نہیں ہے
تری دھوپ دھوپ جدائیوں میں وہ سائباں سا بنا رہا
وہ ستارے رت جگوں کے راستوں میں چپ رہے
کھلا بہت ہی دیر سے یہ سوچ کا گلاب بھی
دکھوں کے روپ بہت اور سکھوں کے خواب بہت
من کی آنکھ کا کاجل ہے
مرے شوق کی دو آنکھیں جو سدا فریب کھائیں
کسی کے خواب کو کسی کے شوق نے بنا نہیں
وہی غم میں خود کو سجانا بہت
سوچا کچھ کبھی مانگیں حال کے خزینے سے
متفرّق اشعار
فہرس
پیاس کا سفر
ان دیکھی لہریں
دوراہا
کیسا یہ سنّاٹا ہے
خدا کس کا ہے
آزادی سے نیندوں تک
مقدس آگ کے نیچے
کدال اور محبت
بے ثمر زمین کے باغی
پہلے موسم کے بعد
آگ کی پگڈنڈی پر
رائیگاں صبح کی چتاپر
مسخ شدہ الہام کتاب کا نغمہ
دیمک
اجالوں کی دکھن
ترے خواب کی چادر اوڑھے
میں ہری رہی
اک روپ کا نغمہ کدھر گیا
گلاب جنگل
دو آنکھوں کے ساحل پر
بے آس پرچھائیاں
آشائیں
آخری پتیوں میں
جنم کے جال
روشنیاں خواب زدہ ہیں
کبھی راستے اور کبھی شام
آخری خواہش کا لامحدود پر توزندگی
آئینہ آنکھیں
نامعلوم شہر
جھاڑیوں میں ایک جگنو
گلاب
پرایا گھر
انتظار
پہلی ساعت کے بعد
دو کھڑکیاں
ادھر کون ہے
آنسوؤں کے رقص میں
میں کسی خواب میں بدل جاتی
نایافت
چار سال بعد
آسروں کے ٹوٹے در
ٹوٹی مالا
جلا وطن
پروازوں کے بعد
اک دن کے پار اترنے پر
ان لکھّے حروف
ایک نظم
آؤ مر کے چلو
جیون گزرگیا
پہچان کا آخری سکھ
مجھے پکار لو
رات کے پڑاؤ پر
دوسرے جنم کی بیل
سبز ندی کے پاٹ پہ دکھ
ساتویں آسمان کا دکھ
پہاڑوں سے نیچے
نیند کے قبرستانوں میں
پرومیتھیئس کی آزادی
پیاس کا گیت
سیاہ مٹی سے سیاہ پھول
گیت
لہروں پہ داستان
عدم کتھا
گمشدہ گھروں کے راستوں پر
بے ثباتی کی دہلیز پر خواب
غزلیں
سورج سارا شہر ڈراتا رہتا ہے
ڈھونڈتے ہیں جانے کب سے جنگلوں کے در مجھے
بستیاں تو آسماں لے جائیں گے
ہوانیک شہروں کی آواز لائی، وفادار خوشبو کے موسم رہے
وحشتوں کی سولیاں، یہ سوچتی بیداریاں
شہروں کے سارے جنگل گنجان ہوگئے ہیں
یہ رات کے پر فلک پہ پھیلے یہ جنگلوں کا مہیب عالم
سر رہگزار ہی سوگئیں تری روح کی وہ صبا حتیں
اندھیروں کا موسم بدلتا نہیں ہے
تری دھوپ دھوپ جدائیوں میں وہ سائباں سا بنا رہا
وہ ستارے رت جگوں کے راستوں میں چپ رہے
کھلا بہت ہی دیر سے یہ سوچ کا گلاب بھی
دکھوں کے روپ بہت اور سکھوں کے خواب بہت
من کی آنکھ کا کاجل ہے
مرے شوق کی دو آنکھیں جو سدا فریب کھائیں
کسی کے خواب کو کسی کے شوق نے بنا نہیں
وہی غم میں خود کو سجانا بہت
سوچا کچھ کبھی مانگیں حال کے خزینے سے
متفرّق اشعار
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔