فہرست
خدا معاف کرے زندگی بناتے ہیں
آسمانوں سے زمیں کی طرف آتے ہوئے ہم
سب فنا ہوتے ہوئے شہر ہیں نگرانی میں
صحرا و شہر سب سے آزاد ہو رہا ہوں
دن بہ دن گھٹتی ہوئی عمر پہ نازل ہو جائے
ہیں لاپتہ زمانے سے سارے کے سارے خواب
ایسے ملے نصیب سے سارے خدا کہ بس
اتنی تعظیم ہوئی شہر میں عریانی کی
رات لمبی تھی ستارہ مرا تعجیل میں تھا
یہ رقص وہ ہے کہ اب میرے ساتھ کوئی نہیں
جنگل کو رو چکے چلو دریا کا غم کریں
ایک لمحے کا پلٹ کر دیکھنا جاتے ہوئے
بت بنے عرصہ ہوا آزندگی نہیں لوٹ آ
کیسی پھیلائی ہے تاریخ کے اسباق سے آگ
ہم جی رہے ہیں تجھ پہ بھروسہ کئے بغیر
ڈھونڈ لایا مری شاموں کی سہانی تصویر
جو زندگی میں اس کی کمی تھی نہیں رہی
مرے بعد چاہے مکرتے رہو
اپنے ہی دل کے ایک کونے میں
آج کی شام ترے نور سے بھر جانا ہے
جس قدر بھی ہوں ضرورت سے زیادہ تو نہیں
کہاں کا ہجر ہے کیسا وصال کچھ بھی نہیں
وہ رات تھی کہ صدا دور تک گئی میری
ڈوبنے والا ہی تھا ساحل برآمد کر لیا
نئے چراغ کی لو پاؤں سے لپٹتی ہے
اس بار انتظام تو سردی کا ہوگیا
جانے کس امید پر چھوڑ آئے تھے گھر بار لوگ
اسے بتاؤں کہ سچ بولنا ضروری ہے
ایسی ویسی کٹی پھٹی دنیا
اب ایسی ایسی محبت کو کیا سنبھالوں میں
سارے چقماق بدن آئے تھے تیاری سے
یہ سیل مست خود آگاہ ساحل سے ہی آتا ہے
ایک خطہ میں جہاں گوشہ نشیں ہو سکتا
پڑھے لکھوں کو اگر شاعری پسند نہیں
خوشبو بھری ہواؤں کے تن چومتے رہے
وہ اک دریا اور اسے حیرانی ہے
ترے قصر سلیمانی سے باہر
اچھی بھلی عبادت بیکار ہو رہی ہے
و قت ہے یوں تو کناروں کے لئے آرام کا
اک ستارے سے جدا خاک بکف ہوں میں بھی
بھرے ہوئے ہیں ابھی روشنی کی دولت سے
توڑ ڈالے گئے رباب اور چنگ
انسانیت کے زعم نے برباد کر دیا
تباہ خود کو اسے لازوال کرتے ہیں
بدن کی موت سے مشکل نئی کھڑی ہوگی
ستارہ ساز یہ ہم پر کرم فرماتے رہتے ہیں
اسے نکال کے لاؤں پھر اس کی جنت سے
کسی کو حلقۂ زنجیر میں نہ لائے ہم
ایک آیت پڑھ کر اپنے آپ پر دم کر دیا
رعونت اس قدر ارشاد فرماتے میں رکھی ہے
کسی کے سائے کسی کی طرف لپکتے ہوئے
موجود جو نہیں ہے اسے دیکھتا ہوا
سنے جانے سے پہلے بولتا ہوں
ادھر بھی آنے لگیں خوشبوئیں ذرا سی پر
دل اس کی دسترس سے دور ہے کیا
ایک جھرنا تھا کسی رت میں یہاں گرتا ہوا
علاقہ بڑھ رہا ہے قیدیوں کا
اب عاشقوں کے دھیان میں آتا ہے اور کچھ
سیدھا معاملہ ہے مرے اور خدا کے بیچ
آنکھیں آنکھوں سے ملیں چہروں سے پھر چہرے لگے
جو تیرے ساتھ ذرا دیر تک رکا ہوتا
بس ایک بار ہی آیا نظر وہ رستے میں
پرچم اپنی ضد کے لہرائے ہوئے
وہ اپنے شہر فراغت سے کم نکلتا ہے
مختصر کو مختصر کرتے ہوئے
عشق الزام تک نہیں پہنچا
سیکڑوں سال انتظار ہوا
رات دن صرف یہی خواب تماشہ دیکھوں
یہاں وہاں تری تشہیر کرتے رہتے ہیں
کسی کے آتے اداسی کا دم نکلتا ہے
لب سے لب ، آنکھوں سے آنکھیں ، تن سے تن ملنے لگے
سب جھومتے درخت تو سکتے میں آگئے
بھاگ کر جائیں کہاں اس خطۂ خوں ریز سے
میں نے بھی اپنے دھیان میں اپنا سفر کیا
قاعدے بازار کے اس بار الٹے ہوگئے
وہ جادو گر نکل کر جیسے ہی پردے سے آتے ہیں
پتہ سب ہے ستائش اور ہوگی
بہت دیر زور آزمائی ہوئی
پس دیوار شہرت بولتے ہیں
اک بار مل کے اور بھی تنہائی بڑھ گئی
شہر آلودہ ٹھکانے سے ہوا
انھیں خبر ہی نہ کی جو مداخلت کرتے
ہو گا میں اور میرا رب جاگیں گے ہم
کٹتی پیشانیاں کنارے کی
وہ گل وہ بوٹے تمہارے بدن پہ لگتے ہیں
پکارتا ہے انھیں جو گزر چکے دل سے
دل بھی احساسات بھی جذبات بھی
بہتر تو یہی ہے اسے حاصل نہ ہوا جائے
چلے آئے اٹھ کر وہ پاس اور بھی
یقیں حد سے زیادہ تھا کسی کی سربراہی میں
ستارے ٹوٹنے سے اس طرف دیوار گرتی ہے
میری دعا سلام یہاں ایک ہی سے ہے
چپ چاپ جل رہے ہیں شجر بولتے نہیں
پاس ان کے اسلحہ تو مرے ساتھ میرے خواب
جد ھر کچھ بھی نہیں ہے دل ادھر بھی جا نکلتا ہے
فطرت بدل رہی ہے پرانے اصول بھی
تمام یوں تو اندھیروں کا بول بالا ہے
ٹوٹنے کی دیر تھی زنجیر ابھی ہو گئی
روحوں کے بھید رات کی وحشت میں کھل گئے
نذر کیا کیا نہ کرایا گیا عریانی کو
دہشت کے یہ کیسے سائے بیٹھے ہیں
آئند گاں کی صف میں کوئی نام اور تھا
یکبارگی نکال دیا دل سے ڈر تمام
کاغذ کو لفظ لفظ محبت نے چھو لیا
نہ دھوپ کا ہے نہ اب بارشوں کا ڈر دل میں
برسوں پرانے زخم کو بیکار کر دیا
دل میں پہلے اک نہایت گرم موسم رکھ دیا
جو مجھے پہنچانتا ہے اور میں
کہہ رہا تھا کہ زندگی ہے موت
کشتی بدن کی جیسے کنارے پہ آلگی
پیمان خوب باندھے گئے مہر و ماہ سے
دریاؤں کو ملال سمندر نہ ہوسکے
سب اپنے اپنے خداؤں میں جا کے بیٹھ گئے
اپنی ہی قبر کے مجاور سب
پڑے ہوئے تھے دل وجاں پہ آبلے کیا کیا
باغ نہ مجھ کو گھر ہی اچھا لگتا ہے
مانگا ترا جواب سو اب تک ملا نہیں
دل اور نگاہ رو برو کر بھی لیے تمام نے
وہ اتفاق سے ملنا تمہارا رستے میں
کیا تعلق ہے پتہ چلتا نہیں
در دولت سرائے دل نشیں تک
مسجدوں میں قتل ہونے کی روایت ہے یہاں
ایک نمرود کو خدا کرکے
حق پرستوں میں اگر سب غیر جانب دار ہیں
چار جانب سے چہروں کی بوچھار ہے
ہر واردات میں ہی نکل آئے اپنے ہاتھ
بدن بن کر محبت آگئی ہے
نیند میں ساتھ ہمارے کوئی چلنے لگ جائے
اتنی زیادہ مجھ سے توقع خراب ہے
اداس روح بدن تار تار ہونے لگے
دل کو تاریک بناتے ہوئے ڈرتا ہوں میں
آسماں پر کبھی ستارے پر
خواہشیں چیخ رہی تھیں کہ وطن چھوٹ گیا
اس شب و روز کے ملبے سے رہائی دے مجھے
اپنی چاہت کو مرے دکھ کے برابر کردے
ایک پل میں ٹوٹنے کو ہے سمندر کا سکوت
اپنی آہٹ پہ چونکتا ہوں میں
تصویر پھینک دیجئے چہرہ نہیں ہو ں میں
بتوں میں پھر سے بحال اعتقاد ہونے لگا
ماچس کی ایک تیلی دوبارہ جلائے کیا
سجدے میں گر پڑے ہیں سبھی والیان شہر
سب کے حصے میں نہیں آیا مرا جان سخن
جس طرف دیکھئے انبوہ سگاں رقص میں ہے
متفرقات
دیوار ہست و بود سے آگے نکل گیا
فہرست
خدا معاف کرے زندگی بناتے ہیں
آسمانوں سے زمیں کی طرف آتے ہوئے ہم
سب فنا ہوتے ہوئے شہر ہیں نگرانی میں
صحرا و شہر سب سے آزاد ہو رہا ہوں
دن بہ دن گھٹتی ہوئی عمر پہ نازل ہو جائے
ہیں لاپتہ زمانے سے سارے کے سارے خواب
ایسے ملے نصیب سے سارے خدا کہ بس
اتنی تعظیم ہوئی شہر میں عریانی کی
رات لمبی تھی ستارہ مرا تعجیل میں تھا
یہ رقص وہ ہے کہ اب میرے ساتھ کوئی نہیں
جنگل کو رو چکے چلو دریا کا غم کریں
ایک لمحے کا پلٹ کر دیکھنا جاتے ہوئے
بت بنے عرصہ ہوا آزندگی نہیں لوٹ آ
کیسی پھیلائی ہے تاریخ کے اسباق سے آگ
ہم جی رہے ہیں تجھ پہ بھروسہ کئے بغیر
ڈھونڈ لایا مری شاموں کی سہانی تصویر
جو زندگی میں اس کی کمی تھی نہیں رہی
مرے بعد چاہے مکرتے رہو
اپنے ہی دل کے ایک کونے میں
آج کی شام ترے نور سے بھر جانا ہے
جس قدر بھی ہوں ضرورت سے زیادہ تو نہیں
کہاں کا ہجر ہے کیسا وصال کچھ بھی نہیں
وہ رات تھی کہ صدا دور تک گئی میری
ڈوبنے والا ہی تھا ساحل برآمد کر لیا
نئے چراغ کی لو پاؤں سے لپٹتی ہے
اس بار انتظام تو سردی کا ہوگیا
جانے کس امید پر چھوڑ آئے تھے گھر بار لوگ
اسے بتاؤں کہ سچ بولنا ضروری ہے
ایسی ویسی کٹی پھٹی دنیا
اب ایسی ایسی محبت کو کیا سنبھالوں میں
سارے چقماق بدن آئے تھے تیاری سے
یہ سیل مست خود آگاہ ساحل سے ہی آتا ہے
ایک خطہ میں جہاں گوشہ نشیں ہو سکتا
پڑھے لکھوں کو اگر شاعری پسند نہیں
خوشبو بھری ہواؤں کے تن چومتے رہے
وہ اک دریا اور اسے حیرانی ہے
ترے قصر سلیمانی سے باہر
اچھی بھلی عبادت بیکار ہو رہی ہے
و قت ہے یوں تو کناروں کے لئے آرام کا
اک ستارے سے جدا خاک بکف ہوں میں بھی
بھرے ہوئے ہیں ابھی روشنی کی دولت سے
توڑ ڈالے گئے رباب اور چنگ
انسانیت کے زعم نے برباد کر دیا
تباہ خود کو اسے لازوال کرتے ہیں
بدن کی موت سے مشکل نئی کھڑی ہوگی
ستارہ ساز یہ ہم پر کرم فرماتے رہتے ہیں
اسے نکال کے لاؤں پھر اس کی جنت سے
کسی کو حلقۂ زنجیر میں نہ لائے ہم
ایک آیت پڑھ کر اپنے آپ پر دم کر دیا
رعونت اس قدر ارشاد فرماتے میں رکھی ہے
کسی کے سائے کسی کی طرف لپکتے ہوئے
موجود جو نہیں ہے اسے دیکھتا ہوا
سنے جانے سے پہلے بولتا ہوں
ادھر بھی آنے لگیں خوشبوئیں ذرا سی پر
دل اس کی دسترس سے دور ہے کیا
ایک جھرنا تھا کسی رت میں یہاں گرتا ہوا
علاقہ بڑھ رہا ہے قیدیوں کا
اب عاشقوں کے دھیان میں آتا ہے اور کچھ
سیدھا معاملہ ہے مرے اور خدا کے بیچ
آنکھیں آنکھوں سے ملیں چہروں سے پھر چہرے لگے
جو تیرے ساتھ ذرا دیر تک رکا ہوتا
بس ایک بار ہی آیا نظر وہ رستے میں
پرچم اپنی ضد کے لہرائے ہوئے
وہ اپنے شہر فراغت سے کم نکلتا ہے
مختصر کو مختصر کرتے ہوئے
عشق الزام تک نہیں پہنچا
سیکڑوں سال انتظار ہوا
رات دن صرف یہی خواب تماشہ دیکھوں
یہاں وہاں تری تشہیر کرتے رہتے ہیں
کسی کے آتے اداسی کا دم نکلتا ہے
لب سے لب ، آنکھوں سے آنکھیں ، تن سے تن ملنے لگے
سب جھومتے درخت تو سکتے میں آگئے
بھاگ کر جائیں کہاں اس خطۂ خوں ریز سے
میں نے بھی اپنے دھیان میں اپنا سفر کیا
قاعدے بازار کے اس بار الٹے ہوگئے
وہ جادو گر نکل کر جیسے ہی پردے سے آتے ہیں
پتہ سب ہے ستائش اور ہوگی
بہت دیر زور آزمائی ہوئی
پس دیوار شہرت بولتے ہیں
اک بار مل کے اور بھی تنہائی بڑھ گئی
شہر آلودہ ٹھکانے سے ہوا
انھیں خبر ہی نہ کی جو مداخلت کرتے
ہو گا میں اور میرا رب جاگیں گے ہم
کٹتی پیشانیاں کنارے کی
وہ گل وہ بوٹے تمہارے بدن پہ لگتے ہیں
پکارتا ہے انھیں جو گزر چکے دل سے
دل بھی احساسات بھی جذبات بھی
بہتر تو یہی ہے اسے حاصل نہ ہوا جائے
چلے آئے اٹھ کر وہ پاس اور بھی
یقیں حد سے زیادہ تھا کسی کی سربراہی میں
ستارے ٹوٹنے سے اس طرف دیوار گرتی ہے
میری دعا سلام یہاں ایک ہی سے ہے
چپ چاپ جل رہے ہیں شجر بولتے نہیں
پاس ان کے اسلحہ تو مرے ساتھ میرے خواب
جد ھر کچھ بھی نہیں ہے دل ادھر بھی جا نکلتا ہے
فطرت بدل رہی ہے پرانے اصول بھی
تمام یوں تو اندھیروں کا بول بالا ہے
ٹوٹنے کی دیر تھی زنجیر ابھی ہو گئی
روحوں کے بھید رات کی وحشت میں کھل گئے
نذر کیا کیا نہ کرایا گیا عریانی کو
دہشت کے یہ کیسے سائے بیٹھے ہیں
آئند گاں کی صف میں کوئی نام اور تھا
یکبارگی نکال دیا دل سے ڈر تمام
کاغذ کو لفظ لفظ محبت نے چھو لیا
نہ دھوپ کا ہے نہ اب بارشوں کا ڈر دل میں
برسوں پرانے زخم کو بیکار کر دیا
دل میں پہلے اک نہایت گرم موسم رکھ دیا
جو مجھے پہنچانتا ہے اور میں
کہہ رہا تھا کہ زندگی ہے موت
کشتی بدن کی جیسے کنارے پہ آلگی
پیمان خوب باندھے گئے مہر و ماہ سے
دریاؤں کو ملال سمندر نہ ہوسکے
سب اپنے اپنے خداؤں میں جا کے بیٹھ گئے
اپنی ہی قبر کے مجاور سب
پڑے ہوئے تھے دل وجاں پہ آبلے کیا کیا
باغ نہ مجھ کو گھر ہی اچھا لگتا ہے
مانگا ترا جواب سو اب تک ملا نہیں
دل اور نگاہ رو برو کر بھی لیے تمام نے
وہ اتفاق سے ملنا تمہارا رستے میں
کیا تعلق ہے پتہ چلتا نہیں
در دولت سرائے دل نشیں تک
مسجدوں میں قتل ہونے کی روایت ہے یہاں
ایک نمرود کو خدا کرکے
حق پرستوں میں اگر سب غیر جانب دار ہیں
چار جانب سے چہروں کی بوچھار ہے
ہر واردات میں ہی نکل آئے اپنے ہاتھ
بدن بن کر محبت آگئی ہے
نیند میں ساتھ ہمارے کوئی چلنے لگ جائے
اتنی زیادہ مجھ سے توقع خراب ہے
اداس روح بدن تار تار ہونے لگے
دل کو تاریک بناتے ہوئے ڈرتا ہوں میں
آسماں پر کبھی ستارے پر
خواہشیں چیخ رہی تھیں کہ وطن چھوٹ گیا
اس شب و روز کے ملبے سے رہائی دے مجھے
اپنی چاہت کو مرے دکھ کے برابر کردے
ایک پل میں ٹوٹنے کو ہے سمندر کا سکوت
اپنی آہٹ پہ چونکتا ہوں میں
تصویر پھینک دیجئے چہرہ نہیں ہو ں میں
بتوں میں پھر سے بحال اعتقاد ہونے لگا
ماچس کی ایک تیلی دوبارہ جلائے کیا
سجدے میں گر پڑے ہیں سبھی والیان شہر
سب کے حصے میں نہیں آیا مرا جان سخن
جس طرف دیکھئے انبوہ سگاں رقص میں ہے
متفرقات
دیوار ہست و بود سے آگے نکل گیا
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔