ترتیب
میرا فکری وتخلیقی عمل
حرف دو حرف
دل شاد ہیں ہر درد کی شدّت سے زیادہ
کب، کون ،کہاں، کس لیے زنجیر بپا ہے
کچھ سوچ دھند لکوں نے ہجوم ایسا کیا ہے
اک ہمیں سلسلۂ شوق سنبھالے ہوئے ہیں
کیا ربط ایک درد سے بنتے چلے گئے
آنکھ میں پرتو مہتاب سلامت رہ جائے
نئے امکاں جگائے اک ایسی راہ نکلے
ذرا یہ دل جو ترا مرکز نظر ہوا ہے
یہ شب و روز جو اک بے کلی رکھی ہوئی ہے
ہم نے دنیا سے جو یہ دوستی رکھی ہوئی ہے
فقط ہمیں تو نہیں بار غم اٹھائے ہوئے
اس کی دھن ہو تو عجب شام و سحر بنتے ہیں
کیا کہیں عشق کے جنجال میں کی کرنا ہے
اُدھر ترک تعلق کا بہانہ چاہئے تھا
کیا جانئے اس شہر میں کیا ہو کے رہے گا
ہر ایک سیل بلا کی ہے مار اپنی طرف
لگے ہے کم جو دیوں کی قطار اپنی طرف
دیکھا نہیں اک عکس بصارت سے زیادہ
اس کی فضا سے رہتی ہے اپنی پرواز پرے
زمیں پہ بہتے لہو کا خراج کچھ تو ہو
اپنے ہونے کی اہانت نہیں ہم کرسکتے
دل سے اک درد کو رخصت نہیں ہم کرسکتے
راستہ سوچتے رہنے سے کدھر بنتا ہے
رمق رموز کی دل پاس ہی نہیں آئی
کہیں کیا خواب سینوں میں کہاں دفنا دئے ہیں
اپنے ہونے سے بھی انکار کئے جاتے ہیں
اپنے ہونے پہ جو اصرار کئے جاتے ہیں
دل آباد کہاں رہ پائے اس کی یاد بھلا دینے سے
نہیں کہ کوئی خوشی کی گھڑی نہیں آئی
حقیقت سے کہاں پردہ اٹھایا جارہا ہے
خیال خواب کو خواب وخیال کردیا ہے
ہوائے ہجر نے کیسا کمال کر دیا ہے
سوچ کو جبر سے کب کوئی خطر ہوتا ہے
شوق شہرت میں خیالات کو سستا نہ کیا
پس منظروں کی بات ہے مت منظروں سے پوچھ
خوف سے خواب اجالا نہیں ہونے والا
جبر سے خیر کا اجرا نہیں ہونے والا
بستی میں کوئی بھی نہ ترے ساتھ رہا نا
جو اعتبار دل دوستاں گنوا بیٹھے
ہدف ہوائے الم کا ہمارا گھر ہی نہیں
یہ جو چہرے پہ لکھی چپ ہے ذرا ناز کے ساتھ
کیا کہیں عمر بتائی ہے کس انداز کے ساتھ
یہی ریزہ بیانی
جگنو نہ ستارے
احساس کنارے
وہ دل زمینوں میں
سلام
القلم
کر لیا سر کو علم
پری ایمپشن
اجارہ
مارکیٹ اکانومی
غضب گرداب سیل وقت
سم سم
بازار
کسے خبر تھی
چلو پھر سے
جس تن لاگے
نگھ
حبا آرہی ہے
آمین
ترتیب
میرا فکری وتخلیقی عمل
حرف دو حرف
دل شاد ہیں ہر درد کی شدّت سے زیادہ
کب، کون ،کہاں، کس لیے زنجیر بپا ہے
کچھ سوچ دھند لکوں نے ہجوم ایسا کیا ہے
اک ہمیں سلسلۂ شوق سنبھالے ہوئے ہیں
کیا ربط ایک درد سے بنتے چلے گئے
آنکھ میں پرتو مہتاب سلامت رہ جائے
نئے امکاں جگائے اک ایسی راہ نکلے
ذرا یہ دل جو ترا مرکز نظر ہوا ہے
یہ شب و روز جو اک بے کلی رکھی ہوئی ہے
ہم نے دنیا سے جو یہ دوستی رکھی ہوئی ہے
فقط ہمیں تو نہیں بار غم اٹھائے ہوئے
اس کی دھن ہو تو عجب شام و سحر بنتے ہیں
کیا کہیں عشق کے جنجال میں کی کرنا ہے
اُدھر ترک تعلق کا بہانہ چاہئے تھا
کیا جانئے اس شہر میں کیا ہو کے رہے گا
ہر ایک سیل بلا کی ہے مار اپنی طرف
لگے ہے کم جو دیوں کی قطار اپنی طرف
دیکھا نہیں اک عکس بصارت سے زیادہ
اس کی فضا سے رہتی ہے اپنی پرواز پرے
زمیں پہ بہتے لہو کا خراج کچھ تو ہو
اپنے ہونے کی اہانت نہیں ہم کرسکتے
دل سے اک درد کو رخصت نہیں ہم کرسکتے
راستہ سوچتے رہنے سے کدھر بنتا ہے
رمق رموز کی دل پاس ہی نہیں آئی
کہیں کیا خواب سینوں میں کہاں دفنا دئے ہیں
اپنے ہونے سے بھی انکار کئے جاتے ہیں
اپنے ہونے پہ جو اصرار کئے جاتے ہیں
دل آباد کہاں رہ پائے اس کی یاد بھلا دینے سے
نہیں کہ کوئی خوشی کی گھڑی نہیں آئی
حقیقت سے کہاں پردہ اٹھایا جارہا ہے
خیال خواب کو خواب وخیال کردیا ہے
ہوائے ہجر نے کیسا کمال کر دیا ہے
سوچ کو جبر سے کب کوئی خطر ہوتا ہے
شوق شہرت میں خیالات کو سستا نہ کیا
پس منظروں کی بات ہے مت منظروں سے پوچھ
خوف سے خواب اجالا نہیں ہونے والا
جبر سے خیر کا اجرا نہیں ہونے والا
بستی میں کوئی بھی نہ ترے ساتھ رہا نا
جو اعتبار دل دوستاں گنوا بیٹھے
ہدف ہوائے الم کا ہمارا گھر ہی نہیں
یہ جو چہرے پہ لکھی چپ ہے ذرا ناز کے ساتھ
کیا کہیں عمر بتائی ہے کس انداز کے ساتھ
یہی ریزہ بیانی
جگنو نہ ستارے
احساس کنارے
وہ دل زمینوں میں
سلام
القلم
کر لیا سر کو علم
پری ایمپشن
اجارہ
مارکیٹ اکانومی
غضب گرداب سیل وقت
سم سم
بازار
کسے خبر تھی
چلو پھر سے
جس تن لاگے
نگھ
حبا آرہی ہے
آمین
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔