سر ورق
فہرست
پیش لفط
سوانحی نوٹ
دیباچہ
حمد
نہ تھا کچھ تو خلا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خلا ہوتا
بگاڑتا ہے ہمیں یا سنوارتا ہے ہمیں
کب تلک بے مہری حالات کی باتیں کریں
کہاں سے آئے ہیں یہ قلب و جاں نہیں معلوم
غزل بھی فن ہے کسی جاں نواز قاتل کا
ناچتے ہیں سر بسر کون و مکاں، اللہ بس
انفاس میں خوشبو ہے، صبا ساتھ ہے میرے
نہ جانے کیوں کسی گلشن کے خار و خس میں رہا
ملو نہ تم بھی کبھی ہم سے، آشنا کی طرح
بس اک خیال کہ قدموں کی چاپ سی ہے کہیں
تابش جاں تک، تری تاب نظر سے ہم گئے
آنکھوں سے چلو، چل کے کسی دل میں اتر جاؤ
عزیز مصر نہیں اور امیرِ شام نہیں
نہ دن سبک ہیں، نہ راتیں دلوں کا گہوارہ
خوش باش ہیں، خود بیں ہیں، طرحدار ہیں ہم لوگ
جو بار سر پہ تھا، وہ آگہی نے کب دیکھا
نہ پوچھ مجھ سے مرے اضطراب کا عالم
رات بھی ہے کچھ سونی سونی، دن بھی کچھ ویران سا ہے
جو وہ زمیں پہ بھی ہوتا تو کیا برا ہوتا
اکیلے چھانی ہے صحرا کی خاک برسوں تک
زمیں پہ کار زمیں، ہم نے ساحرانہ کیا
ہمارے یاروں میں ہے، بھر تری ہری ظالم
سرِ جنوں پہ، جنوں کا غبار اب بھی ہے
آئیں گے دشت میں پھر آبلہ پا آئیں گے
مئے فرنگ کی موجوں میں روز و شب دیکھے
مری خاطر سے اے نبضِ تپاں، آہستہ آہستہ
لرزاں سی ایک بوند لہو کی ہوا میں ہے
ہم نہ عاشق نہ تم حسیں، صاحب
طراوت نگہِ لطف یار دل میں ہے
گاہے گاہے دل کی باتیں مہ جبینوں سے کہو
مرے سینہ میں دم زندہ ہے، غم زندہ ہے، جم زندہ
اڑتے چلے تھے ہم بھی کیا کیا اپنے ارمانوں کے ساتھ
زمیں سے چل کے جو وہ آسمان تک پہنچے
ہم یہاں آتے رہے اور ہم وہاں جاتے رہے
بستی میں اب ہمیں کوئی پہچانتا نہیں
دل کا ہر داغ نئے غم کو صلا دیتا ہے
رات جب سینہ سے لگ کر مرے سو جاتی ہے
ہر ایک گناہ سے بوئے صواب آتی ہے
رات، ایسا ہوا، زمین کا درد
نہ تاریکی میں گزری ہے ، نہ تابانی میں گزری ہے
آسماں دور ہے زمیں ہے سخت
بغیر عقل ہمیں جسم و جاں، نہیں منظور
دل میں ترے جو ذوقِ سفر جاگتا رہے
دل پہ چاہے ہے کہ پھولوں میں مہکتے جائیں
ہم کہ رہتے ہیں زمیں پر آسمانوں کی طرح
میں آمدِ بہار ہوں، میرا ادب کرو
رفتار کتنی تیز ہے، نادانیوں کے ساتھ
تارے شب سیاہ میں بوتے رہے ہیں ہم
گاہے گاہے جو توجہ کی نظر کرتے ہیں
آدمی اجنبی تھا، جھیل گئے
مدت ہوئی کہ سایۂ داور ہے اور ہم
نہ جوئے آب یہاں ہے، نہ روئے رنگ یہاں
سو قیامت سر پہ گزری، آگہی باقی رہی
خونِ دل پیتے ہیں اپنا، زندگانی، کیا کریں
زمیں زمیں کا سماں، لاالٰہ کہتا ہے
انتظار یار تھا، شب تھی گراں، آگے کہو
شہر دیندار میں، بے نام کہاں ملتے ہیں
شبانہ روز کسی انجمن میں رہتے ہیں
نہ کوئی سمت، نہ کوئی مکاں کہاں جائیں
صبح نظر، نہ شامِ خبر، دل ادھر میں ہے
اگر وہ ہے تو کوئی دن ہمارے پاس رہے
ہم تو کانٹوں کو بھی سینہ سے لگاتے جائیں
کہے جو خواب کو شوقِ فضول، کہنے دو
دل نگہداری سے آگے ، دل فراوانی سے دور
اسی ادا پہ تو ہم اپنی، آپ مرتے ہیں
یہ موج موج گل و گل بہار دیکھو تو
خود پہ کیا کیا نارسائی کا گماں کرتے رہے
خوب ہوتا اگر خدا ہوتا
جو بھی لگائیں دوست وہ تہمت عزیز ہے
اہلِ جنوں کے پانو کے بوسے ہیں اور تو
بے نوائی، بے بسی اور دلی ڈستی رہی
عجب نہیں کہ مرا حوصلہ سنبھل جائے
بہت دنوں سے بدن کی تھکن بہت ہے یہاں
آسودگی میں شدتِ غم کیوں ہے، تم بتاؤ
مری نمود، مرے ذوق نے کہاں پائی
وہ زندگی ملی ہے جو ہے زندگی سے کم
جاں توانا یک طرف، بیمار تک سے عشق ہے
دیکھو ہمیں کہ دورِ زمیں کا خمار ہیں
تری نظر میں تغافل کا وہ سماں دیکھا
محبت سے نہیں آوارگی سے دیدہ و دل کی
یا د آتی ہے کبھی دلی تو رک جاتا ہے دل
چرچا تو اک حسین علی کا ہے ورنہ یاں
وہ گھر جو دل کا وطن تھا، اب اک گماں سا ہے
جاں کنی میں طور گویا ناز فرمائی کا ہے
وست و دل، تاب و تواں کھوکے، یہ ہم بیٹھے ہیں
تم صراحی کو جام میں ڈھالو
کہتے تو ہو دل اور جگر غم سے ہیں بے تاب
نہ یہ خبر ہے کہ کون ہیں ہم نے یہ خبر ہے کہاں سے آئے
مدت سے التوا میں ہے الہام کا نزول
کس کے لہو میں ڈوب کے نکلی ہے یہ شفق
شعلے سے لپکتے ہیں نہاں، خانۂ جاں میں
زبان پہ جن کی سخنہائے توبہ تو جاری
نور الحسن انصاری مرحوم کی فرمائش پر ۔۔۔۔۔
ہماری اردو کو دیکھو نہ فارسی دیکھو
وہ پھول کھلتے ہیں جیسے بچے، وہ پیڑ اگتے ہیں جیسے آدم
برق و باراں مرے سینہ کا نشاں دیتے ہیں
سر ورق
فہرست
پیش لفط
سوانحی نوٹ
دیباچہ
حمد
نہ تھا کچھ تو خلا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خلا ہوتا
بگاڑتا ہے ہمیں یا سنوارتا ہے ہمیں
کب تلک بے مہری حالات کی باتیں کریں
کہاں سے آئے ہیں یہ قلب و جاں نہیں معلوم
غزل بھی فن ہے کسی جاں نواز قاتل کا
ناچتے ہیں سر بسر کون و مکاں، اللہ بس
انفاس میں خوشبو ہے، صبا ساتھ ہے میرے
نہ جانے کیوں کسی گلشن کے خار و خس میں رہا
ملو نہ تم بھی کبھی ہم سے، آشنا کی طرح
بس اک خیال کہ قدموں کی چاپ سی ہے کہیں
تابش جاں تک، تری تاب نظر سے ہم گئے
آنکھوں سے چلو، چل کے کسی دل میں اتر جاؤ
عزیز مصر نہیں اور امیرِ شام نہیں
نہ دن سبک ہیں، نہ راتیں دلوں کا گہوارہ
خوش باش ہیں، خود بیں ہیں، طرحدار ہیں ہم لوگ
جو بار سر پہ تھا، وہ آگہی نے کب دیکھا
نہ پوچھ مجھ سے مرے اضطراب کا عالم
رات بھی ہے کچھ سونی سونی، دن بھی کچھ ویران سا ہے
جو وہ زمیں پہ بھی ہوتا تو کیا برا ہوتا
اکیلے چھانی ہے صحرا کی خاک برسوں تک
زمیں پہ کار زمیں، ہم نے ساحرانہ کیا
ہمارے یاروں میں ہے، بھر تری ہری ظالم
سرِ جنوں پہ، جنوں کا غبار اب بھی ہے
آئیں گے دشت میں پھر آبلہ پا آئیں گے
مئے فرنگ کی موجوں میں روز و شب دیکھے
مری خاطر سے اے نبضِ تپاں، آہستہ آہستہ
لرزاں سی ایک بوند لہو کی ہوا میں ہے
ہم نہ عاشق نہ تم حسیں، صاحب
طراوت نگہِ لطف یار دل میں ہے
گاہے گاہے دل کی باتیں مہ جبینوں سے کہو
مرے سینہ میں دم زندہ ہے، غم زندہ ہے، جم زندہ
اڑتے چلے تھے ہم بھی کیا کیا اپنے ارمانوں کے ساتھ
زمیں سے چل کے جو وہ آسمان تک پہنچے
ہم یہاں آتے رہے اور ہم وہاں جاتے رہے
بستی میں اب ہمیں کوئی پہچانتا نہیں
دل کا ہر داغ نئے غم کو صلا دیتا ہے
رات جب سینہ سے لگ کر مرے سو جاتی ہے
ہر ایک گناہ سے بوئے صواب آتی ہے
رات، ایسا ہوا، زمین کا درد
نہ تاریکی میں گزری ہے ، نہ تابانی میں گزری ہے
آسماں دور ہے زمیں ہے سخت
بغیر عقل ہمیں جسم و جاں، نہیں منظور
دل میں ترے جو ذوقِ سفر جاگتا رہے
دل پہ چاہے ہے کہ پھولوں میں مہکتے جائیں
ہم کہ رہتے ہیں زمیں پر آسمانوں کی طرح
میں آمدِ بہار ہوں، میرا ادب کرو
رفتار کتنی تیز ہے، نادانیوں کے ساتھ
تارے شب سیاہ میں بوتے رہے ہیں ہم
گاہے گاہے جو توجہ کی نظر کرتے ہیں
آدمی اجنبی تھا، جھیل گئے
مدت ہوئی کہ سایۂ داور ہے اور ہم
نہ جوئے آب یہاں ہے، نہ روئے رنگ یہاں
سو قیامت سر پہ گزری، آگہی باقی رہی
خونِ دل پیتے ہیں اپنا، زندگانی، کیا کریں
زمیں زمیں کا سماں، لاالٰہ کہتا ہے
انتظار یار تھا، شب تھی گراں، آگے کہو
شہر دیندار میں، بے نام کہاں ملتے ہیں
شبانہ روز کسی انجمن میں رہتے ہیں
نہ کوئی سمت، نہ کوئی مکاں کہاں جائیں
صبح نظر، نہ شامِ خبر، دل ادھر میں ہے
اگر وہ ہے تو کوئی دن ہمارے پاس رہے
ہم تو کانٹوں کو بھی سینہ سے لگاتے جائیں
کہے جو خواب کو شوقِ فضول، کہنے دو
دل نگہداری سے آگے ، دل فراوانی سے دور
اسی ادا پہ تو ہم اپنی، آپ مرتے ہیں
یہ موج موج گل و گل بہار دیکھو تو
خود پہ کیا کیا نارسائی کا گماں کرتے رہے
خوب ہوتا اگر خدا ہوتا
جو بھی لگائیں دوست وہ تہمت عزیز ہے
اہلِ جنوں کے پانو کے بوسے ہیں اور تو
بے نوائی، بے بسی اور دلی ڈستی رہی
عجب نہیں کہ مرا حوصلہ سنبھل جائے
بہت دنوں سے بدن کی تھکن بہت ہے یہاں
آسودگی میں شدتِ غم کیوں ہے، تم بتاؤ
مری نمود، مرے ذوق نے کہاں پائی
وہ زندگی ملی ہے جو ہے زندگی سے کم
جاں توانا یک طرف، بیمار تک سے عشق ہے
دیکھو ہمیں کہ دورِ زمیں کا خمار ہیں
تری نظر میں تغافل کا وہ سماں دیکھا
محبت سے نہیں آوارگی سے دیدہ و دل کی
یا د آتی ہے کبھی دلی تو رک جاتا ہے دل
چرچا تو اک حسین علی کا ہے ورنہ یاں
وہ گھر جو دل کا وطن تھا، اب اک گماں سا ہے
جاں کنی میں طور گویا ناز فرمائی کا ہے
وست و دل، تاب و تواں کھوکے، یہ ہم بیٹھے ہیں
تم صراحی کو جام میں ڈھالو
کہتے تو ہو دل اور جگر غم سے ہیں بے تاب
نہ یہ خبر ہے کہ کون ہیں ہم نے یہ خبر ہے کہاں سے آئے
مدت سے التوا میں ہے الہام کا نزول
کس کے لہو میں ڈوب کے نکلی ہے یہ شفق
شعلے سے لپکتے ہیں نہاں، خانۂ جاں میں
زبان پہ جن کی سخنہائے توبہ تو جاری
نور الحسن انصاری مرحوم کی فرمائش پر ۔۔۔۔۔
ہماری اردو کو دیکھو نہ فارسی دیکھو
وہ پھول کھلتے ہیں جیسے بچے، وہ پیڑ اگتے ہیں جیسے آدم
برق و باراں مرے سینہ کا نشاں دیتے ہیں
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔