سرورق
پابند ہوں ازل سے رہ مستقیم کا
کہاں طاقت جو لکھوں وصف شان کبریائی کا
میں ہوں مشتاق اس شاہ عرب کی آمد آمد کا
جہاں میں ملت بیضا ہے نام اس شہ کی ملت کا
نہیں جانا میرے ویسے خیال اس زلف پیچاں کا
دبے ساقیا شراب ہوا چاند عید کا
سامنا ہے نگاہ قاتل کا
میں جیسے کشتۂ نگہ یار ہو گیا
بلا دیگی تو عرش کبریا کیا
لکھتا میں وصف تیرے قد بیمثال کا
خیال اتنا ستم ایجاد رکھنا
تیغ کھینچے سوئے مقتل جو ستمگر آیا
فروزاں ہے رخ رشن کسی کا
انداز کہیں دیکھا ہے مستانہ کسی کا
تنے اے شوخ کی جفا کیا کیا
دل سے عشق گلرخاں کا حوصلا جاتا رہا
ستم وجور سہے صدمہ ہجراں دیکھا
اک میں نہیں فریفتہ اس نونہال کا
بتاؤں حال کیا ناصح تجھے اس رنج پنہاں کا
بام پر جلوہ نظر آیا جورویے یار کا
کیوں فلک وہ عہد وہ اگلا زمانا کیا ہوا
مہر کیوں کر ہو تمہارے روئے انور کا جواب
پہلو میں جو وہ حور شمایل نہیں ہوتا
دیکھ کر دل کی بیقراری رات
آنکھیں شرمائی ہوئی کہتی ہیں خود رات کی بات
سن لے اے گلچین خزاں میں ہے بیان عندلیب
نکلی جب وقت آہ وزاری بات
کس لطف کی تھی ہائے ستمگر کی لگاوٹ
ظاہراگو کہ سفر میں ہے سقر کی صورت
جور بتاں کا حشر میں پیش خدا گلا عبث
ہے بہت حزن میں مرے کس گل کا گزر آج
دل تھام کے آئیگا کوئے رشک قمرآج
دکھا کے جلوہ وہ بت ماہ آسماں کی طرح
تیغ جب مجھ پر بت لے پیر کھینچ
فصل بہار آئی کھلا ہے گلاب سرخ
اے دل ہوا ہے جیسے مرے دل کو تو پسند
سبکو ہوں میں پسند جو مجھ کو ہے تو پسند
زاہد کو اب کوثر و حور جناں پسند
یوں رہتی ہے سینہ میں میرے آہ رسا بند
گزارے ہجر میں برسوں ہی وصل یار کے بعد
صدقہ کیا شے ہے دعا کیسی کہاں کا تعویذ
میں کیا کہوں جو عشق بتاں کا ہی غم لذیذ
رخ جو صحرا کا کیا بیسرو ساماں ہو کر
یوں ہی نگاہ یار دل بیقرار پر
یہ تو بتلا دے کہ پہلو میں آئیں کیونکر
اڑائی خاک کیا کیا ساکن کوئے بتاں ہو کر
اس درجہ ناتوانی فرقت ہے زور پر
کیا کروگے دل کا میرے زخم پنہاں دیکھ کر
نہیں ہے بے سبب خال سیہ رخسار جاناں پر
بچپنے ہی سے تھے گو قہر کے سارے انداز
دل کو ہجر یار میں ہے غم کے کہانیکی ہوس
آتے ہیں تیرے جلوہ سے کون و مکاں کو غش
اگر مرگ عدو سے میں ہوا خوش
دیکھ کر تیرا بت خود کام رقص
دل کو ہے عشق ناوک مژگا نے اختلاط
اٹھائی ہم نے جو وصل کی شب بمشکل ان کی نقاب عارض
مئے کی کرتا ہے جو ہر وقت مذمت واعظ
کروں میں کام کیا ہے مسجد کو جائے واعظ
دم نکلنے کے ہیں دو دو شب فرقت مانع
عشق جاناں میں ہوں بیگانے یگانے کے خلاف
ہماری قبر کے صرصرنے جب کھائے چراغ
ازل سے ہے مجھے گھیرے ہوئے بلائے فراق
ملتا ہے ہمارے خون کا رنگ
نہ کیونکر جائیں گوش جان جان تک
سرکشی کیوں آج ہم کو اتنی دکھلاتی ہے مانگ
بے حسین کے عشق میں ہے بیقرار دل
غضب ہے یار شب وصل میں تمہاری شرم
کوچۂ جاناں میں جب جاتے ہیں ہم
بیوفا دل مرگیا غم کیا کریں
جو نہ جھیلا ہو وہ جور آسماں کوئی نہیں
مہینوں بات کی اس نے نہ کوئی گفتگو برسوں
مجھے کیا کیا نہیں ہم اے مہ کامل سمجھتے ہیں
وہ رہ رہ کے تیغ وہ دم دیکھتے ہیں
کروٹیں لے کے شب ہجر سحر کرتے ہیں
مفت دوں گا دل حزیں نہ کہیں
کہا جو عشق میں وارفتہ یار ہم بھی ہیں
کہا جو ہم نے کہ شیدائے یار ہم بھی ہیں
تمہارے حسن خدا داد کا جواب نہیں
حسین تم سا نہیں کوئی جہاں میں
کیوں نہ چبھ جائیں مرے دل میں تمہاری چوڑیاں
کہتا ہے وہ حسین میں صاحب جمال ہوں
ان بتوں کی جو چاہ کرتے ہیں
جو ہو سر گرم تم جورو جفا میں
تصور زلف کا ہے اور میں ہوں
چمک ہے آفتاب حشر کی اس روئے روشن میں
عشق میں جاں سے گزرتے ہیں
نہ بھولا یاد تیری عاشق دیوانہ تربت میں
جورو جفا اگر ہے بتوں کی سرشت میں
نہیں مرتے تڑپتے کوچہ قاتل میں رہتے ہیں
دل کچھ ایسا ہو گیا پتہ ہی نہیں
غضب ہو جس کی شوخی ابتدا میں
اکیلے سیر گل و سبزہ زار کچھ بھی نہیں
دل بیتاب کی لیتے ہو کیوں تصویر چٹکی میں
زلف میں رخ جلوہ گر کیوں کر نہ ہو
جب سے اے شوخ تری ہوگئی الفت ہم کو
ذرا ان کی جفاکاری تو دیکھو
لیجاؤ دلکو یوں کہ ادا کو خبر نہ ہو
خوب اٹھے دل سے شرارے رات کو
دل آجاتا ہے میرا دیکھ کر ہر خوبصورت کو
کوئی نو خدایا مری مقبول دعا ہو
تم نے بدلا جو خفا ہو کے ادھر کا پہلو
برہم میں کچھ اس گیسوئے برہم سے زیادہ
کیوں ہو نہ ہمیں عشق صنم اور زیادہ
چلتا ہے آفتاب کا دور اس قمر کے ساتھ
ادھر اوترک تیری میاں سے تیغ جفا نکلی
بارش میں رنگ دیگی گلابی شراب کی
اٹھ کے دل سے یہ مری آہ کدھر بیٹھ گئی
ازل سے شہرۂ آفاق تیری خوش جمالی ہے
تڑپ کر جان مضطر جب تن بسمل سے نکلے گی
بتوں کی سرو مہریسے جگر سینہ میں جلتا ہے
جدھر سے ہو کے تو اے قاتل عالم نکلتا ہے
کہوں کیا ہم نشیں میں اپنے جی کی
کیوں یہ اتراتی ہوئی باد صبا آتی ہے
تم کو ہم دل دیکے اپنا کھو چکے
تمہاری چشم کے لب کے رخ دوہان کے لئے
مرے نالے رکیں کیا آسماں سے
وقت زینت حسن کی گرمی عیاں ہو جائیگی
عشق کیا شے ہے کوئی کیا جانے
لڑی ہے آنکھ اس پردہ نشین سے
سبزہ ہے مے کا دور ہے وہ رشک حور ہے
زاہد و جام چلے یاد الٰہی کیسی
تم جو پیدا ہوئے جفا کے لئے
ستم کرکے وہ شادماں ہو رہا ہے
نقاب الٹے ہوئے بزم میں جو تو آئے
بیہوش ہے اک بیخبری آٹھ پہر ہے
ہمیں الفت تھی اک ایسے صنم سے
جسے تم دیکھ لو ترچھی نظر سے
یہ کہتا ہے کہ کیوں تم نے وفا کی
اجل کہتی ہے میرے چارہ گر سے
مصروف سیر باغ جو وہ نونہال ہے
گلے کاٹے وہ بیجرموں کے اسپر بے خطا ٹھہرے
صحت ہے اجل اپنی دل زار کے آگے
ترا غیروں کے گھر جانا ستم ہے
کیا لگا کر دل اس ستمگر سے
پریاں کدھر گئیں وہ پریخانے کیا ہوئے
جان یوں نکلی ہجر میں تن سے
تاقیامت نہ حسینوں کی شکایت ہوگی
منصب کی فکر کی ہے نہ ہمیں مال و جاہ کی
ادھر ارماں فغاں کش دل پرغم میں رہے
باعث قتل ستمگر کی ادا ہوتی ہے
ہم ہیں کب تیغ ادا سے تری ڈرنے والے
جب سے مہندی دست و پائے نازک قاتل میں ہے
نزاکت میں جو رشک یاسمن ہے
وہ چلے دنیا سے میرا بھی سفر ہونے کو ہے
سیکڑوں جانیں گئیں لاکھوں ہی ایمان گئے
جاتے جاتے گہ جگر گہ دل وہ ملتے جائیں گے
آرام مجھے ہجر میں دم بھر نہ ملیگا
مخمس بر غزل استادی حضرت مولانا میر علی اوسط صاحب۔۔۔۔۔
مخمسات
نکل کے گھر سے چلا ہے نگار راہ میں ہے
مخمس برغزل استادی حضرت حکیم سید ضامن علی صاحب۔۔۔۔
خمسہ برغزل حیران شاگرد داغ
ہو ان بتوں پہ کوئی شنیقا خدا نہ کرے
بہار جشن مسرت افزا مبارک ہو
قطعہ مشتمل بر مبارکباد ھشن جوبلی حاجی حرمین الشریفین۔۔۔۔۔۔۔۔
قطعہ متفقہ در تہنیت جشن تخت نشینی وتاجپوشی اڈورڈ ہفتم قیصر۔۔۔۔
گلشن دہر میں نہیں جوش طرب کی انتہا
نہ پائے آپسا فرمان وہ زمیں وزماں
قطعہ بطور قصیدہ بمدح وانکی صاحب بہادر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
در مدح کرنل بیلی صاحب بہادر ایجنٹ نواب گورنر ۔۔۔۔۔۔
میں اک دن طالع ناکام سے اپنے مخاطب تھا
قصیدہ در مدح شہنشاہ والا جاہ اڈورڈ ہفتم فرمانروائے ہند وانگلینڈ۔۔۔
بنایا حق نے ہر اک شے کو ہر مکاں کے لئے
قطعہ
معیار ہو خدنگ نظر یا پیام یار
در مدحت خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم
رباعیات
انپر نہیں دنیا میں کوئی فائق ہے
قطعات تاریخی
این نوید دلکشا ہر گاہ در گوشم رسید
فن طب میں کامل ہیں ہادی حسین
کون رنگین بیان وہ تھا افسوس
ہیں جو اک ذی مرتبت بسین محمد خان رئیس
سرورق
پابند ہوں ازل سے رہ مستقیم کا
کہاں طاقت جو لکھوں وصف شان کبریائی کا
میں ہوں مشتاق اس شاہ عرب کی آمد آمد کا
جہاں میں ملت بیضا ہے نام اس شہ کی ملت کا
نہیں جانا میرے ویسے خیال اس زلف پیچاں کا
دبے ساقیا شراب ہوا چاند عید کا
سامنا ہے نگاہ قاتل کا
میں جیسے کشتۂ نگہ یار ہو گیا
بلا دیگی تو عرش کبریا کیا
لکھتا میں وصف تیرے قد بیمثال کا
خیال اتنا ستم ایجاد رکھنا
تیغ کھینچے سوئے مقتل جو ستمگر آیا
فروزاں ہے رخ رشن کسی کا
انداز کہیں دیکھا ہے مستانہ کسی کا
تنے اے شوخ کی جفا کیا کیا
دل سے عشق گلرخاں کا حوصلا جاتا رہا
ستم وجور سہے صدمہ ہجراں دیکھا
اک میں نہیں فریفتہ اس نونہال کا
بتاؤں حال کیا ناصح تجھے اس رنج پنہاں کا
بام پر جلوہ نظر آیا جورویے یار کا
کیوں فلک وہ عہد وہ اگلا زمانا کیا ہوا
مہر کیوں کر ہو تمہارے روئے انور کا جواب
پہلو میں جو وہ حور شمایل نہیں ہوتا
دیکھ کر دل کی بیقراری رات
آنکھیں شرمائی ہوئی کہتی ہیں خود رات کی بات
سن لے اے گلچین خزاں میں ہے بیان عندلیب
نکلی جب وقت آہ وزاری بات
کس لطف کی تھی ہائے ستمگر کی لگاوٹ
ظاہراگو کہ سفر میں ہے سقر کی صورت
جور بتاں کا حشر میں پیش خدا گلا عبث
ہے بہت حزن میں مرے کس گل کا گزر آج
دل تھام کے آئیگا کوئے رشک قمرآج
دکھا کے جلوہ وہ بت ماہ آسماں کی طرح
تیغ جب مجھ پر بت لے پیر کھینچ
فصل بہار آئی کھلا ہے گلاب سرخ
اے دل ہوا ہے جیسے مرے دل کو تو پسند
سبکو ہوں میں پسند جو مجھ کو ہے تو پسند
زاہد کو اب کوثر و حور جناں پسند
یوں رہتی ہے سینہ میں میرے آہ رسا بند
گزارے ہجر میں برسوں ہی وصل یار کے بعد
صدقہ کیا شے ہے دعا کیسی کہاں کا تعویذ
میں کیا کہوں جو عشق بتاں کا ہی غم لذیذ
رخ جو صحرا کا کیا بیسرو ساماں ہو کر
یوں ہی نگاہ یار دل بیقرار پر
یہ تو بتلا دے کہ پہلو میں آئیں کیونکر
اڑائی خاک کیا کیا ساکن کوئے بتاں ہو کر
اس درجہ ناتوانی فرقت ہے زور پر
کیا کروگے دل کا میرے زخم پنہاں دیکھ کر
نہیں ہے بے سبب خال سیہ رخسار جاناں پر
بچپنے ہی سے تھے گو قہر کے سارے انداز
دل کو ہجر یار میں ہے غم کے کہانیکی ہوس
آتے ہیں تیرے جلوہ سے کون و مکاں کو غش
اگر مرگ عدو سے میں ہوا خوش
دیکھ کر تیرا بت خود کام رقص
دل کو ہے عشق ناوک مژگا نے اختلاط
اٹھائی ہم نے جو وصل کی شب بمشکل ان کی نقاب عارض
مئے کی کرتا ہے جو ہر وقت مذمت واعظ
کروں میں کام کیا ہے مسجد کو جائے واعظ
دم نکلنے کے ہیں دو دو شب فرقت مانع
عشق جاناں میں ہوں بیگانے یگانے کے خلاف
ہماری قبر کے صرصرنے جب کھائے چراغ
ازل سے ہے مجھے گھیرے ہوئے بلائے فراق
ملتا ہے ہمارے خون کا رنگ
نہ کیونکر جائیں گوش جان جان تک
سرکشی کیوں آج ہم کو اتنی دکھلاتی ہے مانگ
بے حسین کے عشق میں ہے بیقرار دل
غضب ہے یار شب وصل میں تمہاری شرم
کوچۂ جاناں میں جب جاتے ہیں ہم
بیوفا دل مرگیا غم کیا کریں
جو نہ جھیلا ہو وہ جور آسماں کوئی نہیں
مہینوں بات کی اس نے نہ کوئی گفتگو برسوں
مجھے کیا کیا نہیں ہم اے مہ کامل سمجھتے ہیں
وہ رہ رہ کے تیغ وہ دم دیکھتے ہیں
کروٹیں لے کے شب ہجر سحر کرتے ہیں
مفت دوں گا دل حزیں نہ کہیں
کہا جو عشق میں وارفتہ یار ہم بھی ہیں
کہا جو ہم نے کہ شیدائے یار ہم بھی ہیں
تمہارے حسن خدا داد کا جواب نہیں
حسین تم سا نہیں کوئی جہاں میں
کیوں نہ چبھ جائیں مرے دل میں تمہاری چوڑیاں
کہتا ہے وہ حسین میں صاحب جمال ہوں
ان بتوں کی جو چاہ کرتے ہیں
جو ہو سر گرم تم جورو جفا میں
تصور زلف کا ہے اور میں ہوں
چمک ہے آفتاب حشر کی اس روئے روشن میں
عشق میں جاں سے گزرتے ہیں
نہ بھولا یاد تیری عاشق دیوانہ تربت میں
جورو جفا اگر ہے بتوں کی سرشت میں
نہیں مرتے تڑپتے کوچہ قاتل میں رہتے ہیں
دل کچھ ایسا ہو گیا پتہ ہی نہیں
غضب ہو جس کی شوخی ابتدا میں
اکیلے سیر گل و سبزہ زار کچھ بھی نہیں
دل بیتاب کی لیتے ہو کیوں تصویر چٹکی میں
زلف میں رخ جلوہ گر کیوں کر نہ ہو
جب سے اے شوخ تری ہوگئی الفت ہم کو
ذرا ان کی جفاکاری تو دیکھو
لیجاؤ دلکو یوں کہ ادا کو خبر نہ ہو
خوب اٹھے دل سے شرارے رات کو
دل آجاتا ہے میرا دیکھ کر ہر خوبصورت کو
کوئی نو خدایا مری مقبول دعا ہو
تم نے بدلا جو خفا ہو کے ادھر کا پہلو
برہم میں کچھ اس گیسوئے برہم سے زیادہ
کیوں ہو نہ ہمیں عشق صنم اور زیادہ
چلتا ہے آفتاب کا دور اس قمر کے ساتھ
ادھر اوترک تیری میاں سے تیغ جفا نکلی
بارش میں رنگ دیگی گلابی شراب کی
اٹھ کے دل سے یہ مری آہ کدھر بیٹھ گئی
ازل سے شہرۂ آفاق تیری خوش جمالی ہے
تڑپ کر جان مضطر جب تن بسمل سے نکلے گی
بتوں کی سرو مہریسے جگر سینہ میں جلتا ہے
جدھر سے ہو کے تو اے قاتل عالم نکلتا ہے
کہوں کیا ہم نشیں میں اپنے جی کی
کیوں یہ اتراتی ہوئی باد صبا آتی ہے
تم کو ہم دل دیکے اپنا کھو چکے
تمہاری چشم کے لب کے رخ دوہان کے لئے
مرے نالے رکیں کیا آسماں سے
وقت زینت حسن کی گرمی عیاں ہو جائیگی
عشق کیا شے ہے کوئی کیا جانے
لڑی ہے آنکھ اس پردہ نشین سے
سبزہ ہے مے کا دور ہے وہ رشک حور ہے
زاہد و جام چلے یاد الٰہی کیسی
تم جو پیدا ہوئے جفا کے لئے
ستم کرکے وہ شادماں ہو رہا ہے
نقاب الٹے ہوئے بزم میں جو تو آئے
بیہوش ہے اک بیخبری آٹھ پہر ہے
ہمیں الفت تھی اک ایسے صنم سے
جسے تم دیکھ لو ترچھی نظر سے
یہ کہتا ہے کہ کیوں تم نے وفا کی
اجل کہتی ہے میرے چارہ گر سے
مصروف سیر باغ جو وہ نونہال ہے
گلے کاٹے وہ بیجرموں کے اسپر بے خطا ٹھہرے
صحت ہے اجل اپنی دل زار کے آگے
ترا غیروں کے گھر جانا ستم ہے
کیا لگا کر دل اس ستمگر سے
پریاں کدھر گئیں وہ پریخانے کیا ہوئے
جان یوں نکلی ہجر میں تن سے
تاقیامت نہ حسینوں کی شکایت ہوگی
منصب کی فکر کی ہے نہ ہمیں مال و جاہ کی
ادھر ارماں فغاں کش دل پرغم میں رہے
باعث قتل ستمگر کی ادا ہوتی ہے
ہم ہیں کب تیغ ادا سے تری ڈرنے والے
جب سے مہندی دست و پائے نازک قاتل میں ہے
نزاکت میں جو رشک یاسمن ہے
وہ چلے دنیا سے میرا بھی سفر ہونے کو ہے
سیکڑوں جانیں گئیں لاکھوں ہی ایمان گئے
جاتے جاتے گہ جگر گہ دل وہ ملتے جائیں گے
آرام مجھے ہجر میں دم بھر نہ ملیگا
مخمس بر غزل استادی حضرت مولانا میر علی اوسط صاحب۔۔۔۔۔
مخمسات
نکل کے گھر سے چلا ہے نگار راہ میں ہے
مخمس برغزل استادی حضرت حکیم سید ضامن علی صاحب۔۔۔۔
خمسہ برغزل حیران شاگرد داغ
ہو ان بتوں پہ کوئی شنیقا خدا نہ کرے
بہار جشن مسرت افزا مبارک ہو
قطعہ مشتمل بر مبارکباد ھشن جوبلی حاجی حرمین الشریفین۔۔۔۔۔۔۔۔
قطعہ متفقہ در تہنیت جشن تخت نشینی وتاجپوشی اڈورڈ ہفتم قیصر۔۔۔۔
گلشن دہر میں نہیں جوش طرب کی انتہا
نہ پائے آپسا فرمان وہ زمیں وزماں
قطعہ بطور قصیدہ بمدح وانکی صاحب بہادر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
در مدح کرنل بیلی صاحب بہادر ایجنٹ نواب گورنر ۔۔۔۔۔۔
میں اک دن طالع ناکام سے اپنے مخاطب تھا
قصیدہ در مدح شہنشاہ والا جاہ اڈورڈ ہفتم فرمانروائے ہند وانگلینڈ۔۔۔
بنایا حق نے ہر اک شے کو ہر مکاں کے لئے
قطعہ
معیار ہو خدنگ نظر یا پیام یار
در مدحت خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم
رباعیات
انپر نہیں دنیا میں کوئی فائق ہے
قطعات تاریخی
این نوید دلکشا ہر گاہ در گوشم رسید
فن طب میں کامل ہیں ہادی حسین
کون رنگین بیان وہ تھا افسوس
ہیں جو اک ذی مرتبت بسین محمد خان رئیس
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.