فہرست غزلیات بہاراں
تجھ کو دیکھا ہی نہیں چشم تماشائی نے
جس طرف نکل جاؤ، جھڑکیاں ہیں تہمت ہے
ترے ہی فیض سے ہر ذرے میں اک مہر تاباں ہے
آئیے وقت اب نہیں ناز کا یا حجاب کا
دلھن بنی ہوئی اب کی چمن میں آئی ہے
ساتھ دے گا کوئی اب کیا سر منزل میرا
اپنے بیماروں کو درد لادوا دینے لگے
اس عمر دو روزہ کا سر انجام کیے جا
فریاد سے دل اچٹ گیا ہے
کیا جانیے کس نے اسے یہ بات سکھا دی
جو پیام مستی ہوش ہے تری چشم عشوہ طراز میں
اگر ہے شوق کامل ترک اس کی جستجو کر دے
تو پھر ا جس سے زمانہ پھر گیا
مژدہ محرومی تدبیر کا ساماں نکلا
تری زلف کیوں ہے شکن شکن کہ نثار باد ثدصبا نہ ہو
حاصل ذوق جنوں چاک گریباں کرنا
صورت گل کم بہت تھی فرصت شادی مجھے
نقاب جب رخ رنگین یار سے اٹھا
ہوس ہی سیر گلشن کی یہاں تک اہل زنداں کو
وہم نمود وبود طلسم مجاز تھا
مانوس جو ہوں آنکھیں نیرنگ تماشا سے
اف چین پھر تجھے دل درد آشنا نہیں
شوق بے حد چا ہیے اور جذب کامل چاہیے
دل کے بدلے مل چکا ہے پہلے ہی گلخن مجھے
تسکین دل کو اشک الم کیا بہاؤں میں
ہاں مٹا دو شوق سے تم عشق کی بنیاد بھی
لہو سے چشم گل افشاں گل آفریں نہ رہی
ضد تھی انھیں اب عید نہ ہوگی
ادائیں حذر مانگتی ہیں حیا سے
مجھے منزل سے بیگانہ کیا سوداے منزل نے
ورد زباں رہا ہے لحظہ نام تیرا
رہ صبر و رضا میں اس طرح کس نے جبیں رکھدی
صحرا سے چلے ہیں سوے گلشن
مانوس قفس ہو اے اسیرو
بہم خلوص تھا، آپس میں دوستانہ تھا
یوں بھی نہ بھلا دے کوئی آئین وفا کے
دل کا ہے رونا، کھیل نہیں ہے منہ کو کلیجا آنے دو
کار گاہ عاشقی میں فرد کامل ہوگیا
ایسی صورت کوئی اے دیدۂ تر ہو جاے
اے مست ناز ہوش کسے عرض حال کا
اور اک جلوہ ہر اک جلوے میں پنہاں دیکھکر
فریب خوردۂ افسون چشم یار آئے
حسرتوں کو صرف کاد شہاے پیہم کردیا
نور کی محفل تھی، دور بادۂ گلفام تھا
کہاں درد دل نے سنبھلنے دیا
خبر کچھ اور دیتا ہے اثر ہشیار ہوجانا
مژدہ اے دل ! تیرے خوں ہونے کا ہنگام آگیا
ڈھونڈتے سب رہ گئے انوار عرفاں کے قریب
ترے ہجر میں ستمگر وہ اذیتیں سہی ہیں
سلسلہ قطع ہوا رشتۂ گوہر ٹوٹا
آگاہ نہیں عشق کے آغاز سے کوئی
داغ یوں بجھے دل کے ضبط آہ سوزاں سے
کیونکر یہ کہا جائے کہ ویرانہ نہیں ہے
لاؤں کہاں سے دیدۂ بینا کہیں جسے
آج حسب مدعا وحشت نے ساماں کردیا
وہ امنگیں ہیں نہ اب طنطنۂ شادی ہے
مل گیا عشق جنوں ساز کا حاصل مجکو
تاسحر زیب مژہ لخت جگر رکھتے ہیں
نہ کہے جاؤ تغافل کوئی بیداد نہیں
کاہیدہ اسقدر ہوے درد نہاں سے ہم
ان کو سمجھاتا ہے آتے ہیں جو سمجھانے کو
منع کرتا ہے یہ کہکر مرے تڑپانے کو
عشق سے حاصل ہوا جب دیدۂ بینا مجھے
دل میں سوز خم ہیں ہر زخم میں اک تیر بھی ہے
جیسے آئینے میں تصویر اتر آئی ہے
آنکھیں سپید ہو گئیں رونے سے پھر بھی کام ہے
جس سمت نظر اٹھتی ہے تو جلوہ نما ہے
آہ محجوب نہ کر جلوۂ جاناں مجکو
پیکر حسن ہے تو عشق سراپا ہو ں میں
اپنے ہی شوق میں آوارہ ورسوا ہوں میں
جب جنون عشق میں پابندی منزل نہ تھی
دل ہوا خوں نہ تسلی ہوئی ارمانوں کی
دل خواہ اسکے حال دل زار ابھی نہیں
یہ غلط شام ہجر صبر کیا
جرو سبل فنا عشق کا حاصل نہ سمجھنا
حسرتیں کیا پوچھتے ہو اس دل ناشاد کی
بزم امکاں جلوۂ جانانہ سے معمور ہے
وہ امنگن نہیں وہ ولولے وہ جوش نہیں
طرز حجاب جلوۂ دلبر لیے ہوے
اس میکدے میں شوق کے کیا کیا نہیں ہو ں میں
شرمندہ کس لیے دل ایذا پسند ہے
کس طرح آے نظر منزل کی صورت دیکھے
ہر داغ دل سے جلوۂ گل آشکار ہے
نہیں ہے جادہ و منزل سے راہ کیا کہنا
میں اپنے جذب محبت سے شرمسار ہوا
امیدیں دل سے رخصت ہو رہی ہیں شادمانی کی
جو کہا جاے وہ کیا جائے؟
کافر کی سادگی پر کیونکر نہ پیار آئے
فروغ حسن دوست سے یہ رنگ ہے نقاب کا
قیامت کی تجلی ہے جمال روح پرور میں
ہزار لذتیں قربان جس پر ایسا درد
ہجوم شوق میں کھوئی ہوئی نظر نہ سہی
جنوں کے جوش میں کس نے قدم گھر سے نکالے ہیں
قصور فطرت نا فہم ہے اندیشہ درماں کا
تراشباب ترے حسن کا جواب ہوا 104
سنا رہے ہو نوید شکیب جاں کیلئے
لرزتا تھا ابھی اشک ندامت نوک مژگاں پر
عشق میں دل کوپیچ و تاب رہا
صد شکر ا بھی ذوق نظر عام نہیں ہے
جو مدعا ہے دو عالم کا مدعا وہ مانگ
تیری نگاہ سے تجھے دیکھا کرے کوئی
یہ حال ہے کہ کچھ نہیں آتا نظر مجھے
کوئی ارمان نکلتا نہیں افسوس افسوس
بقا سے تکملۂ شورش فنا معلوم
آفت میں سو طرح کی گرفتار ہو گئے
زرد ان کے رخ سے رنگ شفق ہے
اک دور تھا جو ہو چکا اک دور ہے جو آئیگا
داغ پر داغ ترے عشق میں یوں حاصل ہو
درد مندوں سے بھلا دل کیا سنبھالے جائینگے
عشق بیتاب ہے پھر حسن کی مہمانی کو
راہزن چاروں طرف ہیں راستہ گھیرے ہوئے
ان کو ایماں ہو مبارک جنکو ایماں چاہئیے
ڈر نہیں آہ دل سرکش سے
جب کہا اسنے مدعا کہیے
ہر نفس میں جنوں کی ہے تحریک
ہے عشق وہاں محرم اے زاہد فرزانہ
شکوے تھے صرف لذت گفتار کیلیے
سرد بازار ہوش ہے مجھ سے
رنگ تیرا ہے عارض گل میں
سرور بن کے نظر پر وہ چھائے جاتے ہیں
شب فرقت لبوں پر رہی جان زار
اس سے وفا کی آرزو پاس وفا کو کیا ہوا
دلکشی یوں تو ہر اک غمزدہ غماز میں ہے
بس وہی تیرے تصور سے ہم آغوش ہوا
عشرت اہل نظر ترک تمنا کرنا
رشک گل رشک چمن رشک سحر ہوتا ہے
آتی ہے یہ صدا دل وحشی کے ساز سے
شاید ہے یہی عشق میں مفہوم تمنا
یاس کی ایک نظر بھی سوئے قاتل کیسی
چارۂ درد سے حال اور دگر گوں ہوتا
ایک دل وہ بھی صدر یش ہے
خانۂ دل کبھی آباد تھا ارمانوں سے
ساقی مجھے وہ بادۂ سرجوش پلادے
جوش مستی میں ہوا چاک گریباں ہم سے
خوشی ہوتی ہے دل کو آنکھ سے آنسو نکلتے ہیں
اب تیری خوشی اے دل شیدا نہ کرینگے
تیرے کرم ولطف کا چرچا نہ کرینگے
خود اپنا نقش رنگیں ہیں مقابل دیکھنے والے
راہ مسوود نامہ بر موقوف
مثل حباب ہم پھرے موج ہوائے یار میں
اس قدر خاک اڑائی ہے ترے در کیلیے
کیسا ستم کرم کی بھی طاقت نہیں رہی
اس قدر مانوس حرماں قلب مضطر ہو گیا
بیقراری بڑھتے بڑھتے بیخودی ہو جائیگی
نگاہ پڑنے لگی میکشوں پہ ساغر کی
تصور ہے کسی کا ہم ہیں اور خلوت گزینی ہے
سماں وہ یاد ہے؟ عارض پہ جب گیسو بکھر جاتے
میں دل سے بدگماں ہو ں دل مجھ سے بد گماں ہے
پردۂ ناموس غم جوش حیا ہوگیا
چشم خوناب ستہ کے مانند
بالیں پہ نہ لاے کوئی اسے کیا فائدہ سرما جاے گا
میں اس سے کہوں دکھ درد ترا بس میری تو اے دل توبہ ہے
دور میں جام تو ہے محفل جم ہو کہ نہ ہو
غش سجدے میں واشوق میں آغوش جبیں ہے
اب دیکھتے ادھر نہیں فرط حیا سے آپ
یاد ایامے حریف غم دل ناشاد تھا
کفر میں آیات حق اہل نظر دیکھا کیے
تڑپ رہے ہیں لیے دل میں حوصلے دل کے
نیاز عشق جبتک بے نیاز حق و باطل تھا
نہ پوچھو کیف میں ڈوبے کہاں سے آتے ہیں
دل کی تپش کا جو رنگ یہی ہے نالہ برق خرمن ہوگا
اسیر ونہ کہتے تھے بیجا ہوس ہے
کثرت شوق سے دل صورت خمیازہ ہے
ٹوٹا بھی جو مستی میں تو یوں چور نہ ہوگا
اب یہ سودا ہے کہ حاصل ہوش میں آنے سے کیا؟
ہمیشہ چاک نہ کیوں جیب امتیاز رہے
زہے مقدور اگر انسان یوں مجبور ہو جائے
بھول کے اس نے اک نگاہ نہ کی
کیوں کرے شکوۂ محرومئ درماں کوئی
سجدے کو رہ گزر تو ہے آپ کا در نہیں سہی
ناموس عشق کاسۂ دست گدا نہ ہو
چاہتا ہے رخ بدل دے گردش افلاک کا
کسی کے کام نہ آے تو آدمی کیا ہے
پڑھا جس دن سے کلمہ دل نے عشق داغ مشرب کا
کاہیکو ایسے ڈھیٹ تھے پہلے جھوٹی قسم جو کھاتے تم
پر سش حالت بیمار تو کیاآتی ہے
طلب دعا میں نہ توفیق کے سوا کرتے
جوش طوفان حوادث موجب تسکیں ہوا
حال یہ ہم صفیر و قفس میں رہا
جب سے ان سے آنکھ لڑی ہے آنکھوں میں اپنی خواب نہیں
سو بلاؤں کی بلا اک شب فرقت آئی
خلوت میں تری دخل یقیں کا نہ گماں کا
اب کوئی رو کے تو کیونکر سیل اشک ناب کو
ہنگام کرم حسرت بیداد رہے گی
خبر تھی کسے طور بے طور ہوگا
کہا جو میں نے کہ بیداد کی کوئی حد ہے
بیخودی کا جہاں ہوا آغاز
ہم ازل کے بادہ پر ست ہیں تری چشم مست سے کام ہے
اب یہی ناکامیاں ہیں سعی کا حاصل مجھے
نقش ابھرا اسقدر رعنا تری تصویر کا
نہ گھبراؤ سیرو پھر چمن میں آشیاں ہوگا
گم گشتگان شوق کا کوئی نشاں نہ تھا
رندی ماتحت جام کیسی
نازان جبیں ہے مجھپر نازاں ہوں میں جبیں پر
ہزار سامان نامرادی بہم کئے ہیں بہم کرے گا
ملتفت ہو کوئی اندیشہ ہی اندیشہ ہے
دل سے رخصت ہر اک امید ہوئی
دامن نہیں رہا کہ گریباں نہیں رہا
ہلاک وہم فراق کیوں ہے تجھے کچھ اپنی خبر نہیں ہے
نتیجہ اے دل خانہ خراب دیکھ لیا؟
نثار جذب محبت ! ترے نثار ہوں میں
صبح طرب تھی آشکار عہد فراق خواب تھا
دلنوازی قصۂ پا رینہ ہے
اضطراب ذبح نشتر زن رگ بسمل میں ہے
یہ خمار عشق ہے ظالم تماشائی نہ ہو
عشق افسانہ ساز ہستی ہے
کبھی لذت کش خمیازۂ مستی نہ ہوا
ارمان ہیں تیرے دل نا شاد نرالے
ختم اب صبر آزمائی ہے
فروغ گل ہے مگر اشکبار شبنم ہے
رک رک کے چلا چل چل کے رکا ساقی کی نگہ پھر جانے سے
بے نام ہو نشاں ہے یہی بے نشان کا
سجدے کی تھی یہ غایت لکھا مٹے جبیں سے
ہجر میں تیرے زار ہوئے ہیں
محبت کو حیات و مرگ کا حاصل سمجھتے ہیں
اسیری میں جو فکر آشیاں ہے
میں وہ رند بادہ پرست ہوں کبھی تو بہ کی جو شراب سے
ابھی اے سوز غم در پیش ہے خون جگر ہونا
نظریں گزریں جب گل و گلزار سے
ہر قدم پر ہے رفتگی از خویش
گم کردہ راہ شوق کو اپنا پتا نہیں ملا
دل محو صداے طرب آہنگ خودی ہے
بیخودی کہتے ہیں جس کو ابتداے ہوش ہے
دل عشق کی مے سے چھک رہا ہے
ایک دل ہی نہیں گنوا بیٹھے
کاہش میں اب مزہ ہے نہ درد جگر میں ہے
زندگی ہے ساز نیرنگ قضا میرے لئے
جب نیاز عشق میں رنگ خودی شامل نہیں
کیا محبت میں فقط ہیں نا توانی کے مزے
حسرت ہی رہ گئی نہ پھر اپنا پتا ملا
کوئی شکل شرح محبت نہ نکلی
مشاہدہے شاہد ہے مشہود ہے
اس ناوک دلجو کا دل جب سے نشانا ہے
رت بدلی ہو انکی قسمت کھلی گلشن کی
رنگین خیالوں کا اک باغ لگانا ہے
حقیقت یہ مستی کی کہ دل بیدار ہو جاے
اور کیا ہے خیر مقدم میں جو قرباں کیجئے
پلٹی ہے کامیاب تری رہ گزار سے
نکات حسن و الفت کا جو پایا ترجماں مجھ کو
ہوس دل میں آئی غم یار ہوکر
فریب شوق کبھی آشکار ہو نہ سکا
د ل نواسنج خلشہاے فراواں نہ رہا
میں تجھے پاؤں تو پاؤں کس طرح
انھیں آج تھا سابقہ کس حزیں سے؟
جو اٹھے تھے ساری دنیا کو جگانے کیلئے
پھرتے ہوے کسی کی نظر دیکھتے رہے
تو نظر آیا اگر میں نظر آیا مجھ کو
عجب کیا رہ شوق کا طے نہ ہونا
کعبہ یہی ہے یہی دیر ہے
عشق و آزاد میں تھا میل کبھی
اب ادھر جب نگاہ جاتی ہے
تیرا پردہ ہے وہ گہرا پردہ
کوئی ہو جلوہ نما بے نقاب مشکل ہے
سچ ہے محبت زہر نہیں ہے
اب خموشی بھی ہے گویائی عشق
ادھر دیکھ لینا ادھر دیکھ لینا
جب شکست رنگ سے دل کی جلا ہو جائیگی
وہ درد جس میں کیف ہو شامل کہیں نہیں
بتلا تو ہی کیا وعدہ تھا مجھکو جو نہیں ہوش
زیبا گلہ کسی کا دم واپسیں نہیں
کھوے ہوے سے رہنا دن کو روتے پھرنا راتو کو
بقدر ذوق الم پیچ و تاب ہو نہ سکا
وصل حاصل نہیں تو ممکن ہے
ہے کون سی جا جہاں نہیں ہے
اب ہم نہیں درخور کرامت
یہ رنگ طرب جو شئی مینا نہ رہیگا
دل یہ ناطاقتی میں طاق ہوا
زبور محبت سناتا رہیگا
خون ہرار حسرت وارماں لئے ہوئے
غزیر ہے مجھے کعبہ، عزیز بت خانہ
یہ کیا ہے رنگ تلون خیال جانانہ
یہ اپنی مستئ دوشینہ کا ہے افسانہ
اللہ اللہ کاہش مقصود
حسن تیرا نہ اگر زینت امکاں ہوتا
آنکھ کس وقت بھر نہیں آتی
بقدر حوصلہ اے کاش امتحاں ہوتا
نئی نئی تھیں امنگیں نئی جوانی تھی
وفا کی قدر نہ ہو تو اگر جفا نہ کرے؟
زباں تو شکوۂ بیداد آشنا نہ کرے
وہ ایک تیر کی حسرت میں کیوں جیا نہ کرے
کب سے ہے ایک جلوۂ رنگیں کنار میں
آدمی کو چاہئے الجھا رہے تدبیر میں
حیا پہ حسن کی نہ جا نظر سے آشکار ہے
اک تبسم لب گلاب فروش
جو ترا کشتۂ ادا نہ ہوا
ثنا تیری نہیں ممکن زباں سے
جیب و کنار دامن پھولوں سے چھار ہے ہیں
رشک الفت کی جان ہے پیارے
تیری نگاہ پھرتے ہی وہ دل نہیں رہا
دستہ دستہ ہجوم داغ کہاں
دیکھ سکتا ہے آفتاب تو دیکھ
جو ہے وہ طور چلا جاتا ہے
منت کی التجا کی ہاں دے چکے دعائیں
جھپکی ذرا جو آنکھ جوانی گزر گئی
دل ہے اور بے نیاز خواہش ہے
جلوۂ حسن چراغ تہ داماں نہ بنے
ہم سے بھی اب سمجھتے جاتے ہیں بڑی مشکل سے ہم
دل سر شار ملا عشق کے میخانے سے
یہیں سب کو ہر پھر کے آنا پڑیگا
جہاں دیکھتے ہیں جدھر دیکھتے ہیں
بد بلا ہے کبھی نہ چاہ کرو
اے جذب عشق تیری تائید ہے تو پھر کیا
جہان عشق میں افسانہ بن جا
بسی ہے گل تر میں نکہت کسی کی
وہ جان آرزو ہو بہشت نظر کہیں
ملتی نہیں ہے دیر سے اپنی خبر کہیں
لبوں پر آکے رک جائیگی آہنگ فغاں کب تک
حیا میں اک ادا نکلی اداؤں سے حجاب آیا
شش جہت اک جلوۂ سر شار ہونا چاہئے
عشق کی بینائیاں، بر نا ئیاں
دخل ہے اس کو بہت کچھ مرے تڑپانے میں
ابھی تو دل کے پردے میں لرزتی ہے فغاں میری
ہر آن تسلی تھی ہر لحظہ دلاسا تھا
دھوکا تھا فقط دھوکا جلوہ تھا نہ پردا تھا
قتل میں اک ناکردہ گنہ کے حیف نہ کچھ تاخیر ہوئی
صبح وطن ہے شام غریباں ترے بغیر
بلہوس پاے بھلا کیا غم وحسرت کے سوا
راستے بند ہیں کدھر جائیں
ان ا نکھڑیوں کی اف نیم خوابی
مدہوش دیکھنے کو جو پیمانہ بن گیا
ہاے رے پیاری پیاری آنکھیں
زینت افروز شبستاں ہو جا
متوالا آنکھ لڑتے ہی پیمانہ ہوگیا
ساقیا جام کہ بیداد فلک باقی ہے
شورش دل کا کچھ سبب نہ کھلا
کافر یہ نظر ہے تو حذر ایسی نظر سے
شوخی ہے ان آنکھوں میں کرشمہ بھی ادا بھی
دل ہے پہلو میں سہارا کم نہیں
عید نظارہ وقت نظارہ
کیا میں ہی پے تلاش نکلا
محبت نہیں ہے تو پھر کچھ نہیں
بن گیا ہے شوق میں خود اپنی محفل انتظار
منزل ہوش سے بیگانہ بنادے ساقی
مرا دل دکھا کے تاسف کیا
اک مضطرب شوق ہے گویا تگ و دو میں
نرگس مست کو لبریز نہ کر
بیتابیوں کو زیست کا حاصل بنا دیا
کس کا یہ پیغام صبا لائی ہے
ناز سے پھیر دے ادھر عارض دلفروز کو
کیوں جھپکتا ہے ابھر اور نکھر
تاب نظر نہیں نہ ہو کیف نظر بڑھاے جا
کون شے ہے جو ترے حسن سے معمور نہیں
گلۂ دوست؟ نہیں اے دل رنجور نہیں!
تھے جو خفا ہیں وہ خفا آجتک
کون کہتا ہے کہ موت انجام ہونا چاہئے
جب ہو یہ رنگ بیکسی لب پہ فغاں نہ آے کیوں
اشک گلرنگ چمن ساز گریباں نہ ہوا
کوئی اس طرح ساون گا رہا ہے
حسن خود نما کو بھی جستجوے مقصد ہے
اے جوش الم ایسی گر اشک نشانی ہے
اسیرو آہ کی تم نے کہ آئی آنچ گلشن پر
اب جو باغ وبہار ہے اپنا
شب کی بیداریاں ارے توبہ
کبھی صبح میکش کبھی شام گلگوں
نکلے بھی تو یوں آہ دل تنگ سے نکلے
پرسش حال تھی ہنس ہنس کے رلانے کے لئے
مطلوب سعی ٹھہرا جب تیرا آستانہ
بیہوشیوں کو ہوش بنا کر چلے گئے
اک شمع انتظار فروزاں کئے ہوئے
لاکھ سمجھاؤ کہ ہے برق سراپا کوئی
خوشبو سے تیری سارا گلشن مہک رہا ہے
میرے دل و دماغ یہ چھائپے ہوئے ہوتم
اور انداز ترا حسرت منزل ہو جاے
میں کہوں کیا وہ شوخ کیا سمجھے
جز حقیقت مجاز کیا جانے
تو خموش کیوں ہے مطرب وہ سنادے اب ترانہ
یہاں کے ذرے ذرے میں حقیقت بال افشاں ہے
کیسی ہوا چلی ہے اقلیم عاشقی میں
آج کچھ مہربان ہے صیاد
مجھے ساقیا جام مے دے پیالیے
انھیں جب محو گلگشت گلستاں دیکھ لیتا ہوں
یہی انتظار پیہم دل بیقرار ہوتا
دل ہو شبنم کا آنکھ شبنم کی
آباد میکدے تری چشم سیاہ سے
الزام دے نہ اے نگہ یار کیا کریں
متفرق اشعار
انتخاب اثر ستاں
گلوں میں ہے یہ شادابی نہ یہ نقشہ گلستاں کا
فرقت میں سوز غم کا یہاں تک وفور تھا
یارب وہ کون دل تھا کہ مجبور ہوگیا
تغیر آشناہستی نشاں مفقود منزل کا
دور ساغر جو کسی بزم میں چلتے دیکھا
دل جسے کہتے ہیں مرا دل تھا
وہ بت عجیب شان سے جلوہ نما ہوا
غش ہجرمیں کب موت سے بد تر نہ ہوا تھا
غشق کی آسانیاں دشواریوں سے کم نہیں
شوق میں سن ہوگیا تھا دل ترے نخچیر کا
لے گیا باتوں میں دل وہ بت پرفن کیسا
اک ناتواں کے ضبط کی تاثیر دیکھنا
مٹے ہیں کسپہ کسی کو گماں نہیں ہوتا
خلقت عشق ہوئی درد کا درماں نکلا
الجھن تھی دل میں اور نفس لب پہ سرد تھا
جلوہ دکھا کے پردے میں رو پوش ہوگیا
ترا انداز رعنائی جو دیکھا یہ تمنا ہے
بیتابیوں نے آہ گنہگار کر دیا
کھلتا نہیں سبب کچھ ہر لحظہ نا خوشی کا
اس نے یوں امتحاں لیا میرا
وہ مجھ سے پوچھتے ہیں نزع میں درد نہاں میرا
دل بیتاب تونے حال یہ کیا کردیا میرا
لئے حشر ان کا شباب آگیا
جان دینا تو کوئی کام نہ تھا
جب نمود حسن میں رنگ خودی شامل ہوا
یاد ایام کہ جب غم سے سروکار نہ تھا
جب دل گداز عشق کی امداد سے ہوا
کہہ رہا ہے فسانہ الفت کا
مرے دل میں چھپ چھپ کے آنے لگا
دوست سمجھے جسے نکلا وہی دشمن اپنا
دیدۂ تر ہے مرا روکش صدا بر بہار
حد ضبط گریہ کو یوں ازمانا ہی نہ تھا
تو روشنی دیدۂ بیدار ہوگیا
بیکسی دشت نور دان محبت کی نہ پوچھ
دل کی وحشت نے ہر اک محفل کو برہم کر دیا
اپنی وفانہ ان کی جفاؤں کا ہوش تھا
شب غم سینہ اس قدر کوٹا
جس نے دیکھا وہ دیکھتا ہی رہا
دل صید گہ عشق میں بسمل نہ ہو کیونکر
مثال برگ خزاں رسیدہ ہوا ہے زرد آفتاب کیسا
ایک دلچسپی کا ساماں سعئ لاحاصل میں تھا
وفا کا سیکھ لے تم سے کوئی صلا دینا
یہ ابر تیرہ اور یہ سماں لالہ زار کا
عشق میں ننگ ہے شرمندہ درماں ہونا
دل پردہ دار جذبۂ کامل نہیں رہا
دیکھی جنوں آبلہ پائی مری؟
معمور تجلی سے حیرت کدۂ دل تھا
چلتے چلتے اس طرح محفل میں ساغر رہ گیا
منشا نہیں کچھ اور پریشاں نظری کا
آپ بک جاے کوئی ایسا خریدار نہ تھا
ادھر تھا جوش سجدوں کا ادھر سینے میں طوفاں تھا
ان کو ملال ہوتا یا انفعال ہوتا
اٹھا کیں ٹسییں گھٹا کیا دم مگر نہ اف کی نہ سینہ کوٹا
بیخودی ہنگامہ آرا تھی جنوں کا جوش تھا
ذوق کامل ہوا گر چشم تماشائی کا
شوق جب حد سے بڑھا درد ہوا
سینہ کادی کا ہوش پھر آیا
دل چھین کے وہ دشمن آرام سدھارا
بھولنے والے کو شاید یاد وعدہ آگیا
برق پاش حسن کبتک یہ حجاب
نگاہ میگوں سے تیری ساقی خبر لے دل کا حباب ٹوٹا
تیری نگاہ میکش میخانۂ محبت
عقل ہے دنگ اے کریم تیراشعار دیکھکر
وہ اداسی چھائی تھی جیسے بھرا گھر لٹ گیا
پلٹ آکیا حرم کو جارہا ہے باخبرہوکر
جائے جائے بس ہو چکی غمخواری دل
خود زیست ہے نمائش بیکار ہے یہ کاوش
ایک کافر کے مبتلا ہیں ہم
ان حسینوں کی نگاہیں فتنہ ساماں ہوگئیں
اب وہی ہم ہیں کہ فریاد کیا کرتے ہیں
ضبط کی تاب نہیں طاقت فریاد نہیں
تپش شوق کا یہ رنگ تھا سا محفل میں
یہ طریقہ تو کچھ نہیں احسن
سوز غم فراق سے جان لبوں پر آے کیوں
باقی تھا ایک ہوش سووہ دے گیا جواب
آسماں سے کوئی لطف امتحاں ملتا نہیں
عشق ہے ضبط آزما اور ہنسنے والے کیا کریں
کیا ہے جذب دل نے اسقدر کثرت کو وحدت میں
اے بتو اہل دل کا پاس نہیں
نالۂ جاں سوز کی تاثیر ہوں
دل میں وہ درد نہیں لذت آزار نہیں
وہ انتہاے شوق کی بیہوشیاں کہاں
اب حوصلے فغاں کے نہ ضبط فغاں کے ہیں
رکھتی ہے لطف برق کی چشمک شحاب میں
کوئی ویرانہ مثال دل کہاں
کبھی موت کہتی ہے الخدر کبھی درد کہتا ہے رحم کر
بیداد دوست کس سے کہوں ہمنفس نہیں
صباح عید ہے گویا ترانے گائے جاتے ہیں
شب کہ جنوں تھا نے نواز محفل امتیاز میں
ہماری دیوانگی کے آغاز میں وہ رستے نکل رہے ہیں
یاد آتی ہیں یار کی باتیں
سمجھ میں آے جو تدبیر کر میں کیا جانوں
دیکھ اے جذب محبت وہ زمانہ آیا
برگشتگی میں بخت کا میرے جواب ہو
پھر بہکنے لگی نظر دیکھو
بہت دھندلے نظر آتے ہیں سب نقش ونشاں مجھ کو
یہی ویرانہ تجلی گہ صد طور بھی ہو
میری بیربطئ فریاد پہ مسرور نہ ہو
یو فنا ہو غم دوری میں دل درد نصیب
ہر عمل کی اسی دنیا میں مکافات بھی ہو
ذرا تم شوخئ چشم فسو نگر دیکھتے جاؤ
توڑ دے سینے کو جلد اے آہ تو
روکا جو غم نے گریۂ بے اختیار کو
اہل ہمت نے حصول مدعا میں جان دی
چارۂ درد جگر جانے دو
شامل حسن جو رنگینئ بیداد نہ ہو
محبت کیا نہیں کافی تھی میرے قتل کرنے کو
پردہ در مجاز اگر شوق خلش نواز ہو
ایک آن میں بارونق ایک آن میں ویرانہ
آراستہ جو میں نے کیا ہے وہ باغ دیکھ
میں بزم مے سے اٹھا باخاطر کبیدہ
اک شائبہ اسی کا نسیم سحر میں ہے
فصل گل میں بے طرح ابکی جنوں کا جوش ہے
کبھی آنکھیں مجھ سے لڑا گیا
نام ونشاں کی فکر نہ خواہش مکاں کی ہے
قیس کے نزدیک لیلیٰ پردۂ محمل میں ہے
رسائی آہ کی آگے خدا جانے کہاں تک ہے
جب تمھاری ہی سب خدائی ہے
دل میں ہجوم یاس وتمنا لئے ہوئے
آخر جنون عشق کی تدبیر ہو گئی
جستجو خود صفات کو تیری
کنکھیوں سے دل پر نظر کرنے والے
جان کو روگ ہیں دنیا بھر کے
جب نہ وہ سمجھا تجاہل سے زبان عاشقی
کیوں مرا دل دکھاکے روتا ہے
دل میں اک داغ محبت ہے وہ دھو لینے دے
درد ہی ایسا نہیں جس کا کہ درماں کیجئے
وہ لچک ایسی کہاں سے لائگی
کس لئے کرتے ہو شرمندہ تقصیر مجھے
رنگینئ خیال کی زینت کو دیکھتے 461
ان سے بیتابی میں ہم کہنے کو سب کچھ کہہ گئے
نگہ مہر دلربا نہ ہوئی
تشنہ لب جاتا ہے ساقی کوئی میخانے سے
ہاں دعوئ یکتائی اس شوخ کو زیبا ہے
کوئی اتنا نہیں کہدے جو اس بیدرد قاتل سے
فراق جاناں میں یوں تڑپ کر ہوئی ہیں راتیں بسر ہماری
کیا ہوا تدبیر سے اور کیا کیا تقدیر نے؟
ازل میں جب ہوا عہد وفا اس آفت جاں سے
حشر اور اسکے بعد کا ساماں کئے ہوے
تیغ عریاں بن گئی ہے زندگی میرے لئے
جو تمھاری آرزو کرنے لگے
یہ شور یہ ہنگامے یہ ماتم نہ رہینگے
یہ سمجھوں عشق میں حاصل ہوا کمال مجھے
مجھے یاد آرہی ہے مجھے خوں رلا رہی ہے
بیہوشیوں میں ایسا خبر دار کون ہے
دل میں اس کا عکس ہے آنکھوں میں اس کا نور ہے
خرام ناز ہے تیرا جو محشر خیز رہنے دے
بعید ہے یہ تری شان دلنوازی سے
ہجوم یاس ان کی بیوفائی یاد رہنے دے
ہم انتہاے شوق میں بھی سرگرا ں رہے
موقوف درد مندی جب ضبط پر نہیں ہے
حضرت دل کیا بتاؤں آپ کو کیا کیجئے
دم آخر بھی جی بھر کے نہ دیکھی شکل قاتل کی
جب تصور بنکے لیلیٰ قیس کے دل میں رہے
رات دن ناکامیوں سے کام ہے
یاس روتی کہیں سر پیٹتی حسرت ہوگی
داستان دل گم گشتہ بیاں ہوتی ہے
عدم سے منزل ہستی میں یوں ہم ناتواں آے
خبط سود اے سبکباری ہے
در ساقی پہ اب وہ رندمے آشام آتا ہے
اس دہر میں فراز نہ کوئی نشیب ہے!
دلوں کو داغ ملے لذّت فغاں کے لئے
باطل تمام دعوئ دیدار ہوگئے
نزاکت پر یہ عالم ہے کہ بسمل ایک عالم ہے
کب مرے دل کا داغ جلتا ہے
بیاں حقیقت عہد شباب ہوتی ہے
جس کو چاہا اسکو چاہے جائینگے
شوق میں مرگئے مرنے والے
دل کو جو لانگاہ غم پہلے بنانا چاہئیے
تو کرکے اس نے اکدن جو مجھ سے گفتگو کی
کچھ اور بڑھا حودرد جگر کیا دیکھئے آفت لاتا ہے
یوں جھلک اٹھے ہر اک داغ چراغاں جاے ہو
آشناے غم کیا نا آشنائی نے مجھے
یاددلواؤں تجھے کیا میں وفا ئیں اپنی
جب تغافل کی شکایت کیجئے
لطف کیا سینۂ بسمل سے جو تنہا نکلے
ادا ہے یاد ترے مسکراکے آنے کی
اگر آے آہ لب پر مرے قلب نا تواں سے
دل زخم خور دہ کو تڑپانے والے
مجھ کو گلہ ہے تو یہ کاتب تقدیر سے
باغباں گلشن میں تیرے شکل کیا آرام کی
فنا پہ جس کی بنا ہے وہ ہے بقا میری
اب دل نہیں بزم ماتم ہے
جب اسکی آنکھ گل سے لڑگئی ہے
اے چرخ ستم تجھ پر ٹوٹے
دست ساقی سے وہ لبریز ملا جام مجھے
غزلیات فارسی
حشر بر چہرہ کشد دامن ویر ا نۂ ما
خویش را از خویش بیروں کردہ ام
بیاکہ جاں بتمنا ے یک نظر دارم
فہرست غزلیات بہاراں
تجھ کو دیکھا ہی نہیں چشم تماشائی نے
جس طرف نکل جاؤ، جھڑکیاں ہیں تہمت ہے
ترے ہی فیض سے ہر ذرے میں اک مہر تاباں ہے
آئیے وقت اب نہیں ناز کا یا حجاب کا
دلھن بنی ہوئی اب کی چمن میں آئی ہے
ساتھ دے گا کوئی اب کیا سر منزل میرا
اپنے بیماروں کو درد لادوا دینے لگے
اس عمر دو روزہ کا سر انجام کیے جا
فریاد سے دل اچٹ گیا ہے
کیا جانیے کس نے اسے یہ بات سکھا دی
جو پیام مستی ہوش ہے تری چشم عشوہ طراز میں
اگر ہے شوق کامل ترک اس کی جستجو کر دے
تو پھر ا جس سے زمانہ پھر گیا
مژدہ محرومی تدبیر کا ساماں نکلا
تری زلف کیوں ہے شکن شکن کہ نثار باد ثدصبا نہ ہو
حاصل ذوق جنوں چاک گریباں کرنا
صورت گل کم بہت تھی فرصت شادی مجھے
نقاب جب رخ رنگین یار سے اٹھا
ہوس ہی سیر گلشن کی یہاں تک اہل زنداں کو
وہم نمود وبود طلسم مجاز تھا
مانوس جو ہوں آنکھیں نیرنگ تماشا سے
اف چین پھر تجھے دل درد آشنا نہیں
شوق بے حد چا ہیے اور جذب کامل چاہیے
دل کے بدلے مل چکا ہے پہلے ہی گلخن مجھے
تسکین دل کو اشک الم کیا بہاؤں میں
ہاں مٹا دو شوق سے تم عشق کی بنیاد بھی
لہو سے چشم گل افشاں گل آفریں نہ رہی
ضد تھی انھیں اب عید نہ ہوگی
ادائیں حذر مانگتی ہیں حیا سے
مجھے منزل سے بیگانہ کیا سوداے منزل نے
ورد زباں رہا ہے لحظہ نام تیرا
رہ صبر و رضا میں اس طرح کس نے جبیں رکھدی
صحرا سے چلے ہیں سوے گلشن
مانوس قفس ہو اے اسیرو
بہم خلوص تھا، آپس میں دوستانہ تھا
یوں بھی نہ بھلا دے کوئی آئین وفا کے
دل کا ہے رونا، کھیل نہیں ہے منہ کو کلیجا آنے دو
کار گاہ عاشقی میں فرد کامل ہوگیا
ایسی صورت کوئی اے دیدۂ تر ہو جاے
اے مست ناز ہوش کسے عرض حال کا
اور اک جلوہ ہر اک جلوے میں پنہاں دیکھکر
فریب خوردۂ افسون چشم یار آئے
حسرتوں کو صرف کاد شہاے پیہم کردیا
نور کی محفل تھی، دور بادۂ گلفام تھا
کہاں درد دل نے سنبھلنے دیا
خبر کچھ اور دیتا ہے اثر ہشیار ہوجانا
مژدہ اے دل ! تیرے خوں ہونے کا ہنگام آگیا
ڈھونڈتے سب رہ گئے انوار عرفاں کے قریب
ترے ہجر میں ستمگر وہ اذیتیں سہی ہیں
سلسلہ قطع ہوا رشتۂ گوہر ٹوٹا
آگاہ نہیں عشق کے آغاز سے کوئی
داغ یوں بجھے دل کے ضبط آہ سوزاں سے
کیونکر یہ کہا جائے کہ ویرانہ نہیں ہے
لاؤں کہاں سے دیدۂ بینا کہیں جسے
آج حسب مدعا وحشت نے ساماں کردیا
وہ امنگیں ہیں نہ اب طنطنۂ شادی ہے
مل گیا عشق جنوں ساز کا حاصل مجکو
تاسحر زیب مژہ لخت جگر رکھتے ہیں
نہ کہے جاؤ تغافل کوئی بیداد نہیں
کاہیدہ اسقدر ہوے درد نہاں سے ہم
ان کو سمجھاتا ہے آتے ہیں جو سمجھانے کو
منع کرتا ہے یہ کہکر مرے تڑپانے کو
عشق سے حاصل ہوا جب دیدۂ بینا مجھے
دل میں سوز خم ہیں ہر زخم میں اک تیر بھی ہے
جیسے آئینے میں تصویر اتر آئی ہے
آنکھیں سپید ہو گئیں رونے سے پھر بھی کام ہے
جس سمت نظر اٹھتی ہے تو جلوہ نما ہے
آہ محجوب نہ کر جلوۂ جاناں مجکو
پیکر حسن ہے تو عشق سراپا ہو ں میں
اپنے ہی شوق میں آوارہ ورسوا ہوں میں
جب جنون عشق میں پابندی منزل نہ تھی
دل ہوا خوں نہ تسلی ہوئی ارمانوں کی
دل خواہ اسکے حال دل زار ابھی نہیں
یہ غلط شام ہجر صبر کیا
جرو سبل فنا عشق کا حاصل نہ سمجھنا
حسرتیں کیا پوچھتے ہو اس دل ناشاد کی
بزم امکاں جلوۂ جانانہ سے معمور ہے
وہ امنگن نہیں وہ ولولے وہ جوش نہیں
طرز حجاب جلوۂ دلبر لیے ہوے
اس میکدے میں شوق کے کیا کیا نہیں ہو ں میں
شرمندہ کس لیے دل ایذا پسند ہے
کس طرح آے نظر منزل کی صورت دیکھے
ہر داغ دل سے جلوۂ گل آشکار ہے
نہیں ہے جادہ و منزل سے راہ کیا کہنا
میں اپنے جذب محبت سے شرمسار ہوا
امیدیں دل سے رخصت ہو رہی ہیں شادمانی کی
جو کہا جاے وہ کیا جائے؟
کافر کی سادگی پر کیونکر نہ پیار آئے
فروغ حسن دوست سے یہ رنگ ہے نقاب کا
قیامت کی تجلی ہے جمال روح پرور میں
ہزار لذتیں قربان جس پر ایسا درد
ہجوم شوق میں کھوئی ہوئی نظر نہ سہی
جنوں کے جوش میں کس نے قدم گھر سے نکالے ہیں
قصور فطرت نا فہم ہے اندیشہ درماں کا
تراشباب ترے حسن کا جواب ہوا 104
سنا رہے ہو نوید شکیب جاں کیلئے
لرزتا تھا ابھی اشک ندامت نوک مژگاں پر
عشق میں دل کوپیچ و تاب رہا
صد شکر ا بھی ذوق نظر عام نہیں ہے
جو مدعا ہے دو عالم کا مدعا وہ مانگ
تیری نگاہ سے تجھے دیکھا کرے کوئی
یہ حال ہے کہ کچھ نہیں آتا نظر مجھے
کوئی ارمان نکلتا نہیں افسوس افسوس
بقا سے تکملۂ شورش فنا معلوم
آفت میں سو طرح کی گرفتار ہو گئے
زرد ان کے رخ سے رنگ شفق ہے
اک دور تھا جو ہو چکا اک دور ہے جو آئیگا
داغ پر داغ ترے عشق میں یوں حاصل ہو
درد مندوں سے بھلا دل کیا سنبھالے جائینگے
عشق بیتاب ہے پھر حسن کی مہمانی کو
راہزن چاروں طرف ہیں راستہ گھیرے ہوئے
ان کو ایماں ہو مبارک جنکو ایماں چاہئیے
ڈر نہیں آہ دل سرکش سے
جب کہا اسنے مدعا کہیے
ہر نفس میں جنوں کی ہے تحریک
ہے عشق وہاں محرم اے زاہد فرزانہ
شکوے تھے صرف لذت گفتار کیلیے
سرد بازار ہوش ہے مجھ سے
رنگ تیرا ہے عارض گل میں
سرور بن کے نظر پر وہ چھائے جاتے ہیں
شب فرقت لبوں پر رہی جان زار
اس سے وفا کی آرزو پاس وفا کو کیا ہوا
دلکشی یوں تو ہر اک غمزدہ غماز میں ہے
بس وہی تیرے تصور سے ہم آغوش ہوا
عشرت اہل نظر ترک تمنا کرنا
رشک گل رشک چمن رشک سحر ہوتا ہے
آتی ہے یہ صدا دل وحشی کے ساز سے
شاید ہے یہی عشق میں مفہوم تمنا
یاس کی ایک نظر بھی سوئے قاتل کیسی
چارۂ درد سے حال اور دگر گوں ہوتا
ایک دل وہ بھی صدر یش ہے
خانۂ دل کبھی آباد تھا ارمانوں سے
ساقی مجھے وہ بادۂ سرجوش پلادے
جوش مستی میں ہوا چاک گریباں ہم سے
خوشی ہوتی ہے دل کو آنکھ سے آنسو نکلتے ہیں
اب تیری خوشی اے دل شیدا نہ کرینگے
تیرے کرم ولطف کا چرچا نہ کرینگے
خود اپنا نقش رنگیں ہیں مقابل دیکھنے والے
راہ مسوود نامہ بر موقوف
مثل حباب ہم پھرے موج ہوائے یار میں
اس قدر خاک اڑائی ہے ترے در کیلیے
کیسا ستم کرم کی بھی طاقت نہیں رہی
اس قدر مانوس حرماں قلب مضطر ہو گیا
بیقراری بڑھتے بڑھتے بیخودی ہو جائیگی
نگاہ پڑنے لگی میکشوں پہ ساغر کی
تصور ہے کسی کا ہم ہیں اور خلوت گزینی ہے
سماں وہ یاد ہے؟ عارض پہ جب گیسو بکھر جاتے
میں دل سے بدگماں ہو ں دل مجھ سے بد گماں ہے
پردۂ ناموس غم جوش حیا ہوگیا
چشم خوناب ستہ کے مانند
بالیں پہ نہ لاے کوئی اسے کیا فائدہ سرما جاے گا
میں اس سے کہوں دکھ درد ترا بس میری تو اے دل توبہ ہے
دور میں جام تو ہے محفل جم ہو کہ نہ ہو
غش سجدے میں واشوق میں آغوش جبیں ہے
اب دیکھتے ادھر نہیں فرط حیا سے آپ
یاد ایامے حریف غم دل ناشاد تھا
کفر میں آیات حق اہل نظر دیکھا کیے
تڑپ رہے ہیں لیے دل میں حوصلے دل کے
نیاز عشق جبتک بے نیاز حق و باطل تھا
نہ پوچھو کیف میں ڈوبے کہاں سے آتے ہیں
دل کی تپش کا جو رنگ یہی ہے نالہ برق خرمن ہوگا
اسیر ونہ کہتے تھے بیجا ہوس ہے
کثرت شوق سے دل صورت خمیازہ ہے
ٹوٹا بھی جو مستی میں تو یوں چور نہ ہوگا
اب یہ سودا ہے کہ حاصل ہوش میں آنے سے کیا؟
ہمیشہ چاک نہ کیوں جیب امتیاز رہے
زہے مقدور اگر انسان یوں مجبور ہو جائے
بھول کے اس نے اک نگاہ نہ کی
کیوں کرے شکوۂ محرومئ درماں کوئی
سجدے کو رہ گزر تو ہے آپ کا در نہیں سہی
ناموس عشق کاسۂ دست گدا نہ ہو
چاہتا ہے رخ بدل دے گردش افلاک کا
کسی کے کام نہ آے تو آدمی کیا ہے
پڑھا جس دن سے کلمہ دل نے عشق داغ مشرب کا
کاہیکو ایسے ڈھیٹ تھے پہلے جھوٹی قسم جو کھاتے تم
پر سش حالت بیمار تو کیاآتی ہے
طلب دعا میں نہ توفیق کے سوا کرتے
جوش طوفان حوادث موجب تسکیں ہوا
حال یہ ہم صفیر و قفس میں رہا
جب سے ان سے آنکھ لڑی ہے آنکھوں میں اپنی خواب نہیں
سو بلاؤں کی بلا اک شب فرقت آئی
خلوت میں تری دخل یقیں کا نہ گماں کا
اب کوئی رو کے تو کیونکر سیل اشک ناب کو
ہنگام کرم حسرت بیداد رہے گی
خبر تھی کسے طور بے طور ہوگا
کہا جو میں نے کہ بیداد کی کوئی حد ہے
بیخودی کا جہاں ہوا آغاز
ہم ازل کے بادہ پر ست ہیں تری چشم مست سے کام ہے
اب یہی ناکامیاں ہیں سعی کا حاصل مجھے
نقش ابھرا اسقدر رعنا تری تصویر کا
نہ گھبراؤ سیرو پھر چمن میں آشیاں ہوگا
گم گشتگان شوق کا کوئی نشاں نہ تھا
رندی ماتحت جام کیسی
نازان جبیں ہے مجھپر نازاں ہوں میں جبیں پر
ہزار سامان نامرادی بہم کئے ہیں بہم کرے گا
ملتفت ہو کوئی اندیشہ ہی اندیشہ ہے
دل سے رخصت ہر اک امید ہوئی
دامن نہیں رہا کہ گریباں نہیں رہا
ہلاک وہم فراق کیوں ہے تجھے کچھ اپنی خبر نہیں ہے
نتیجہ اے دل خانہ خراب دیکھ لیا؟
نثار جذب محبت ! ترے نثار ہوں میں
صبح طرب تھی آشکار عہد فراق خواب تھا
دلنوازی قصۂ پا رینہ ہے
اضطراب ذبح نشتر زن رگ بسمل میں ہے
یہ خمار عشق ہے ظالم تماشائی نہ ہو
عشق افسانہ ساز ہستی ہے
کبھی لذت کش خمیازۂ مستی نہ ہوا
ارمان ہیں تیرے دل نا شاد نرالے
ختم اب صبر آزمائی ہے
فروغ گل ہے مگر اشکبار شبنم ہے
رک رک کے چلا چل چل کے رکا ساقی کی نگہ پھر جانے سے
بے نام ہو نشاں ہے یہی بے نشان کا
سجدے کی تھی یہ غایت لکھا مٹے جبیں سے
ہجر میں تیرے زار ہوئے ہیں
محبت کو حیات و مرگ کا حاصل سمجھتے ہیں
اسیری میں جو فکر آشیاں ہے
میں وہ رند بادہ پرست ہوں کبھی تو بہ کی جو شراب سے
ابھی اے سوز غم در پیش ہے خون جگر ہونا
نظریں گزریں جب گل و گلزار سے
ہر قدم پر ہے رفتگی از خویش
گم کردہ راہ شوق کو اپنا پتا نہیں ملا
دل محو صداے طرب آہنگ خودی ہے
بیخودی کہتے ہیں جس کو ابتداے ہوش ہے
دل عشق کی مے سے چھک رہا ہے
ایک دل ہی نہیں گنوا بیٹھے
کاہش میں اب مزہ ہے نہ درد جگر میں ہے
زندگی ہے ساز نیرنگ قضا میرے لئے
جب نیاز عشق میں رنگ خودی شامل نہیں
کیا محبت میں فقط ہیں نا توانی کے مزے
حسرت ہی رہ گئی نہ پھر اپنا پتا ملا
کوئی شکل شرح محبت نہ نکلی
مشاہدہے شاہد ہے مشہود ہے
اس ناوک دلجو کا دل جب سے نشانا ہے
رت بدلی ہو انکی قسمت کھلی گلشن کی
رنگین خیالوں کا اک باغ لگانا ہے
حقیقت یہ مستی کی کہ دل بیدار ہو جاے
اور کیا ہے خیر مقدم میں جو قرباں کیجئے
پلٹی ہے کامیاب تری رہ گزار سے
نکات حسن و الفت کا جو پایا ترجماں مجھ کو
ہوس دل میں آئی غم یار ہوکر
فریب شوق کبھی آشکار ہو نہ سکا
د ل نواسنج خلشہاے فراواں نہ رہا
میں تجھے پاؤں تو پاؤں کس طرح
انھیں آج تھا سابقہ کس حزیں سے؟
جو اٹھے تھے ساری دنیا کو جگانے کیلئے
پھرتے ہوے کسی کی نظر دیکھتے رہے
تو نظر آیا اگر میں نظر آیا مجھ کو
عجب کیا رہ شوق کا طے نہ ہونا
کعبہ یہی ہے یہی دیر ہے
عشق و آزاد میں تھا میل کبھی
اب ادھر جب نگاہ جاتی ہے
تیرا پردہ ہے وہ گہرا پردہ
کوئی ہو جلوہ نما بے نقاب مشکل ہے
سچ ہے محبت زہر نہیں ہے
اب خموشی بھی ہے گویائی عشق
ادھر دیکھ لینا ادھر دیکھ لینا
جب شکست رنگ سے دل کی جلا ہو جائیگی
وہ درد جس میں کیف ہو شامل کہیں نہیں
بتلا تو ہی کیا وعدہ تھا مجھکو جو نہیں ہوش
زیبا گلہ کسی کا دم واپسیں نہیں
کھوے ہوے سے رہنا دن کو روتے پھرنا راتو کو
بقدر ذوق الم پیچ و تاب ہو نہ سکا
وصل حاصل نہیں تو ممکن ہے
ہے کون سی جا جہاں نہیں ہے
اب ہم نہیں درخور کرامت
یہ رنگ طرب جو شئی مینا نہ رہیگا
دل یہ ناطاقتی میں طاق ہوا
زبور محبت سناتا رہیگا
خون ہرار حسرت وارماں لئے ہوئے
غزیر ہے مجھے کعبہ، عزیز بت خانہ
یہ کیا ہے رنگ تلون خیال جانانہ
یہ اپنی مستئ دوشینہ کا ہے افسانہ
اللہ اللہ کاہش مقصود
حسن تیرا نہ اگر زینت امکاں ہوتا
آنکھ کس وقت بھر نہیں آتی
بقدر حوصلہ اے کاش امتحاں ہوتا
نئی نئی تھیں امنگیں نئی جوانی تھی
وفا کی قدر نہ ہو تو اگر جفا نہ کرے؟
زباں تو شکوۂ بیداد آشنا نہ کرے
وہ ایک تیر کی حسرت میں کیوں جیا نہ کرے
کب سے ہے ایک جلوۂ رنگیں کنار میں
آدمی کو چاہئے الجھا رہے تدبیر میں
حیا پہ حسن کی نہ جا نظر سے آشکار ہے
اک تبسم لب گلاب فروش
جو ترا کشتۂ ادا نہ ہوا
ثنا تیری نہیں ممکن زباں سے
جیب و کنار دامن پھولوں سے چھار ہے ہیں
رشک الفت کی جان ہے پیارے
تیری نگاہ پھرتے ہی وہ دل نہیں رہا
دستہ دستہ ہجوم داغ کہاں
دیکھ سکتا ہے آفتاب تو دیکھ
جو ہے وہ طور چلا جاتا ہے
منت کی التجا کی ہاں دے چکے دعائیں
جھپکی ذرا جو آنکھ جوانی گزر گئی
دل ہے اور بے نیاز خواہش ہے
جلوۂ حسن چراغ تہ داماں نہ بنے
ہم سے بھی اب سمجھتے جاتے ہیں بڑی مشکل سے ہم
دل سر شار ملا عشق کے میخانے سے
یہیں سب کو ہر پھر کے آنا پڑیگا
جہاں دیکھتے ہیں جدھر دیکھتے ہیں
بد بلا ہے کبھی نہ چاہ کرو
اے جذب عشق تیری تائید ہے تو پھر کیا
جہان عشق میں افسانہ بن جا
بسی ہے گل تر میں نکہت کسی کی
وہ جان آرزو ہو بہشت نظر کہیں
ملتی نہیں ہے دیر سے اپنی خبر کہیں
لبوں پر آکے رک جائیگی آہنگ فغاں کب تک
حیا میں اک ادا نکلی اداؤں سے حجاب آیا
شش جہت اک جلوۂ سر شار ہونا چاہئے
عشق کی بینائیاں، بر نا ئیاں
دخل ہے اس کو بہت کچھ مرے تڑپانے میں
ابھی تو دل کے پردے میں لرزتی ہے فغاں میری
ہر آن تسلی تھی ہر لحظہ دلاسا تھا
دھوکا تھا فقط دھوکا جلوہ تھا نہ پردا تھا
قتل میں اک ناکردہ گنہ کے حیف نہ کچھ تاخیر ہوئی
صبح وطن ہے شام غریباں ترے بغیر
بلہوس پاے بھلا کیا غم وحسرت کے سوا
راستے بند ہیں کدھر جائیں
ان ا نکھڑیوں کی اف نیم خوابی
مدہوش دیکھنے کو جو پیمانہ بن گیا
ہاے رے پیاری پیاری آنکھیں
زینت افروز شبستاں ہو جا
متوالا آنکھ لڑتے ہی پیمانہ ہوگیا
ساقیا جام کہ بیداد فلک باقی ہے
شورش دل کا کچھ سبب نہ کھلا
کافر یہ نظر ہے تو حذر ایسی نظر سے
شوخی ہے ان آنکھوں میں کرشمہ بھی ادا بھی
دل ہے پہلو میں سہارا کم نہیں
عید نظارہ وقت نظارہ
کیا میں ہی پے تلاش نکلا
محبت نہیں ہے تو پھر کچھ نہیں
بن گیا ہے شوق میں خود اپنی محفل انتظار
منزل ہوش سے بیگانہ بنادے ساقی
مرا دل دکھا کے تاسف کیا
اک مضطرب شوق ہے گویا تگ و دو میں
نرگس مست کو لبریز نہ کر
بیتابیوں کو زیست کا حاصل بنا دیا
کس کا یہ پیغام صبا لائی ہے
ناز سے پھیر دے ادھر عارض دلفروز کو
کیوں جھپکتا ہے ابھر اور نکھر
تاب نظر نہیں نہ ہو کیف نظر بڑھاے جا
کون شے ہے جو ترے حسن سے معمور نہیں
گلۂ دوست؟ نہیں اے دل رنجور نہیں!
تھے جو خفا ہیں وہ خفا آجتک
کون کہتا ہے کہ موت انجام ہونا چاہئے
جب ہو یہ رنگ بیکسی لب پہ فغاں نہ آے کیوں
اشک گلرنگ چمن ساز گریباں نہ ہوا
کوئی اس طرح ساون گا رہا ہے
حسن خود نما کو بھی جستجوے مقصد ہے
اے جوش الم ایسی گر اشک نشانی ہے
اسیرو آہ کی تم نے کہ آئی آنچ گلشن پر
اب جو باغ وبہار ہے اپنا
شب کی بیداریاں ارے توبہ
کبھی صبح میکش کبھی شام گلگوں
نکلے بھی تو یوں آہ دل تنگ سے نکلے
پرسش حال تھی ہنس ہنس کے رلانے کے لئے
مطلوب سعی ٹھہرا جب تیرا آستانہ
بیہوشیوں کو ہوش بنا کر چلے گئے
اک شمع انتظار فروزاں کئے ہوئے
لاکھ سمجھاؤ کہ ہے برق سراپا کوئی
خوشبو سے تیری سارا گلشن مہک رہا ہے
میرے دل و دماغ یہ چھائپے ہوئے ہوتم
اور انداز ترا حسرت منزل ہو جاے
میں کہوں کیا وہ شوخ کیا سمجھے
جز حقیقت مجاز کیا جانے
تو خموش کیوں ہے مطرب وہ سنادے اب ترانہ
یہاں کے ذرے ذرے میں حقیقت بال افشاں ہے
کیسی ہوا چلی ہے اقلیم عاشقی میں
آج کچھ مہربان ہے صیاد
مجھے ساقیا جام مے دے پیالیے
انھیں جب محو گلگشت گلستاں دیکھ لیتا ہوں
یہی انتظار پیہم دل بیقرار ہوتا
دل ہو شبنم کا آنکھ شبنم کی
آباد میکدے تری چشم سیاہ سے
الزام دے نہ اے نگہ یار کیا کریں
متفرق اشعار
انتخاب اثر ستاں
گلوں میں ہے یہ شادابی نہ یہ نقشہ گلستاں کا
فرقت میں سوز غم کا یہاں تک وفور تھا
یارب وہ کون دل تھا کہ مجبور ہوگیا
تغیر آشناہستی نشاں مفقود منزل کا
دور ساغر جو کسی بزم میں چلتے دیکھا
دل جسے کہتے ہیں مرا دل تھا
وہ بت عجیب شان سے جلوہ نما ہوا
غش ہجرمیں کب موت سے بد تر نہ ہوا تھا
غشق کی آسانیاں دشواریوں سے کم نہیں
شوق میں سن ہوگیا تھا دل ترے نخچیر کا
لے گیا باتوں میں دل وہ بت پرفن کیسا
اک ناتواں کے ضبط کی تاثیر دیکھنا
مٹے ہیں کسپہ کسی کو گماں نہیں ہوتا
خلقت عشق ہوئی درد کا درماں نکلا
الجھن تھی دل میں اور نفس لب پہ سرد تھا
جلوہ دکھا کے پردے میں رو پوش ہوگیا
ترا انداز رعنائی جو دیکھا یہ تمنا ہے
بیتابیوں نے آہ گنہگار کر دیا
کھلتا نہیں سبب کچھ ہر لحظہ نا خوشی کا
اس نے یوں امتحاں لیا میرا
وہ مجھ سے پوچھتے ہیں نزع میں درد نہاں میرا
دل بیتاب تونے حال یہ کیا کردیا میرا
لئے حشر ان کا شباب آگیا
جان دینا تو کوئی کام نہ تھا
جب نمود حسن میں رنگ خودی شامل ہوا
یاد ایام کہ جب غم سے سروکار نہ تھا
جب دل گداز عشق کی امداد سے ہوا
کہہ رہا ہے فسانہ الفت کا
مرے دل میں چھپ چھپ کے آنے لگا
دوست سمجھے جسے نکلا وہی دشمن اپنا
دیدۂ تر ہے مرا روکش صدا بر بہار
حد ضبط گریہ کو یوں ازمانا ہی نہ تھا
تو روشنی دیدۂ بیدار ہوگیا
بیکسی دشت نور دان محبت کی نہ پوچھ
دل کی وحشت نے ہر اک محفل کو برہم کر دیا
اپنی وفانہ ان کی جفاؤں کا ہوش تھا
شب غم سینہ اس قدر کوٹا
جس نے دیکھا وہ دیکھتا ہی رہا
دل صید گہ عشق میں بسمل نہ ہو کیونکر
مثال برگ خزاں رسیدہ ہوا ہے زرد آفتاب کیسا
ایک دلچسپی کا ساماں سعئ لاحاصل میں تھا
وفا کا سیکھ لے تم سے کوئی صلا دینا
یہ ابر تیرہ اور یہ سماں لالہ زار کا
عشق میں ننگ ہے شرمندہ درماں ہونا
دل پردہ دار جذبۂ کامل نہیں رہا
دیکھی جنوں آبلہ پائی مری؟
معمور تجلی سے حیرت کدۂ دل تھا
چلتے چلتے اس طرح محفل میں ساغر رہ گیا
منشا نہیں کچھ اور پریشاں نظری کا
آپ بک جاے کوئی ایسا خریدار نہ تھا
ادھر تھا جوش سجدوں کا ادھر سینے میں طوفاں تھا
ان کو ملال ہوتا یا انفعال ہوتا
اٹھا کیں ٹسییں گھٹا کیا دم مگر نہ اف کی نہ سینہ کوٹا
بیخودی ہنگامہ آرا تھی جنوں کا جوش تھا
ذوق کامل ہوا گر چشم تماشائی کا
شوق جب حد سے بڑھا درد ہوا
سینہ کادی کا ہوش پھر آیا
دل چھین کے وہ دشمن آرام سدھارا
بھولنے والے کو شاید یاد وعدہ آگیا
برق پاش حسن کبتک یہ حجاب
نگاہ میگوں سے تیری ساقی خبر لے دل کا حباب ٹوٹا
تیری نگاہ میکش میخانۂ محبت
عقل ہے دنگ اے کریم تیراشعار دیکھکر
وہ اداسی چھائی تھی جیسے بھرا گھر لٹ گیا
پلٹ آکیا حرم کو جارہا ہے باخبرہوکر
جائے جائے بس ہو چکی غمخواری دل
خود زیست ہے نمائش بیکار ہے یہ کاوش
ایک کافر کے مبتلا ہیں ہم
ان حسینوں کی نگاہیں فتنہ ساماں ہوگئیں
اب وہی ہم ہیں کہ فریاد کیا کرتے ہیں
ضبط کی تاب نہیں طاقت فریاد نہیں
تپش شوق کا یہ رنگ تھا سا محفل میں
یہ طریقہ تو کچھ نہیں احسن
سوز غم فراق سے جان لبوں پر آے کیوں
باقی تھا ایک ہوش سووہ دے گیا جواب
آسماں سے کوئی لطف امتحاں ملتا نہیں
عشق ہے ضبط آزما اور ہنسنے والے کیا کریں
کیا ہے جذب دل نے اسقدر کثرت کو وحدت میں
اے بتو اہل دل کا پاس نہیں
نالۂ جاں سوز کی تاثیر ہوں
دل میں وہ درد نہیں لذت آزار نہیں
وہ انتہاے شوق کی بیہوشیاں کہاں
اب حوصلے فغاں کے نہ ضبط فغاں کے ہیں
رکھتی ہے لطف برق کی چشمک شحاب میں
کوئی ویرانہ مثال دل کہاں
کبھی موت کہتی ہے الخدر کبھی درد کہتا ہے رحم کر
بیداد دوست کس سے کہوں ہمنفس نہیں
صباح عید ہے گویا ترانے گائے جاتے ہیں
شب کہ جنوں تھا نے نواز محفل امتیاز میں
ہماری دیوانگی کے آغاز میں وہ رستے نکل رہے ہیں
یاد آتی ہیں یار کی باتیں
سمجھ میں آے جو تدبیر کر میں کیا جانوں
دیکھ اے جذب محبت وہ زمانہ آیا
برگشتگی میں بخت کا میرے جواب ہو
پھر بہکنے لگی نظر دیکھو
بہت دھندلے نظر آتے ہیں سب نقش ونشاں مجھ کو
یہی ویرانہ تجلی گہ صد طور بھی ہو
میری بیربطئ فریاد پہ مسرور نہ ہو
یو فنا ہو غم دوری میں دل درد نصیب
ہر عمل کی اسی دنیا میں مکافات بھی ہو
ذرا تم شوخئ چشم فسو نگر دیکھتے جاؤ
توڑ دے سینے کو جلد اے آہ تو
روکا جو غم نے گریۂ بے اختیار کو
اہل ہمت نے حصول مدعا میں جان دی
چارۂ درد جگر جانے دو
شامل حسن جو رنگینئ بیداد نہ ہو
محبت کیا نہیں کافی تھی میرے قتل کرنے کو
پردہ در مجاز اگر شوق خلش نواز ہو
ایک آن میں بارونق ایک آن میں ویرانہ
آراستہ جو میں نے کیا ہے وہ باغ دیکھ
میں بزم مے سے اٹھا باخاطر کبیدہ
اک شائبہ اسی کا نسیم سحر میں ہے
فصل گل میں بے طرح ابکی جنوں کا جوش ہے
کبھی آنکھیں مجھ سے لڑا گیا
نام ونشاں کی فکر نہ خواہش مکاں کی ہے
قیس کے نزدیک لیلیٰ پردۂ محمل میں ہے
رسائی آہ کی آگے خدا جانے کہاں تک ہے
جب تمھاری ہی سب خدائی ہے
دل میں ہجوم یاس وتمنا لئے ہوئے
آخر جنون عشق کی تدبیر ہو گئی
جستجو خود صفات کو تیری
کنکھیوں سے دل پر نظر کرنے والے
جان کو روگ ہیں دنیا بھر کے
جب نہ وہ سمجھا تجاہل سے زبان عاشقی
کیوں مرا دل دکھاکے روتا ہے
دل میں اک داغ محبت ہے وہ دھو لینے دے
درد ہی ایسا نہیں جس کا کہ درماں کیجئے
وہ لچک ایسی کہاں سے لائگی
کس لئے کرتے ہو شرمندہ تقصیر مجھے
رنگینئ خیال کی زینت کو دیکھتے 461
ان سے بیتابی میں ہم کہنے کو سب کچھ کہہ گئے
نگہ مہر دلربا نہ ہوئی
تشنہ لب جاتا ہے ساقی کوئی میخانے سے
ہاں دعوئ یکتائی اس شوخ کو زیبا ہے
کوئی اتنا نہیں کہدے جو اس بیدرد قاتل سے
فراق جاناں میں یوں تڑپ کر ہوئی ہیں راتیں بسر ہماری
کیا ہوا تدبیر سے اور کیا کیا تقدیر نے؟
ازل میں جب ہوا عہد وفا اس آفت جاں سے
حشر اور اسکے بعد کا ساماں کئے ہوے
تیغ عریاں بن گئی ہے زندگی میرے لئے
جو تمھاری آرزو کرنے لگے
یہ شور یہ ہنگامے یہ ماتم نہ رہینگے
یہ سمجھوں عشق میں حاصل ہوا کمال مجھے
مجھے یاد آرہی ہے مجھے خوں رلا رہی ہے
بیہوشیوں میں ایسا خبر دار کون ہے
دل میں اس کا عکس ہے آنکھوں میں اس کا نور ہے
خرام ناز ہے تیرا جو محشر خیز رہنے دے
بعید ہے یہ تری شان دلنوازی سے
ہجوم یاس ان کی بیوفائی یاد رہنے دے
ہم انتہاے شوق میں بھی سرگرا ں رہے
موقوف درد مندی جب ضبط پر نہیں ہے
حضرت دل کیا بتاؤں آپ کو کیا کیجئے
دم آخر بھی جی بھر کے نہ دیکھی شکل قاتل کی
جب تصور بنکے لیلیٰ قیس کے دل میں رہے
رات دن ناکامیوں سے کام ہے
یاس روتی کہیں سر پیٹتی حسرت ہوگی
داستان دل گم گشتہ بیاں ہوتی ہے
عدم سے منزل ہستی میں یوں ہم ناتواں آے
خبط سود اے سبکباری ہے
در ساقی پہ اب وہ رندمے آشام آتا ہے
اس دہر میں فراز نہ کوئی نشیب ہے!
دلوں کو داغ ملے لذّت فغاں کے لئے
باطل تمام دعوئ دیدار ہوگئے
نزاکت پر یہ عالم ہے کہ بسمل ایک عالم ہے
کب مرے دل کا داغ جلتا ہے
بیاں حقیقت عہد شباب ہوتی ہے
جس کو چاہا اسکو چاہے جائینگے
شوق میں مرگئے مرنے والے
دل کو جو لانگاہ غم پہلے بنانا چاہئیے
تو کرکے اس نے اکدن جو مجھ سے گفتگو کی
کچھ اور بڑھا حودرد جگر کیا دیکھئے آفت لاتا ہے
یوں جھلک اٹھے ہر اک داغ چراغاں جاے ہو
آشناے غم کیا نا آشنائی نے مجھے
یاددلواؤں تجھے کیا میں وفا ئیں اپنی
جب تغافل کی شکایت کیجئے
لطف کیا سینۂ بسمل سے جو تنہا نکلے
ادا ہے یاد ترے مسکراکے آنے کی
اگر آے آہ لب پر مرے قلب نا تواں سے
دل زخم خور دہ کو تڑپانے والے
مجھ کو گلہ ہے تو یہ کاتب تقدیر سے
باغباں گلشن میں تیرے شکل کیا آرام کی
فنا پہ جس کی بنا ہے وہ ہے بقا میری
اب دل نہیں بزم ماتم ہے
جب اسکی آنکھ گل سے لڑگئی ہے
اے چرخ ستم تجھ پر ٹوٹے
دست ساقی سے وہ لبریز ملا جام مجھے
غزلیات فارسی
حشر بر چہرہ کشد دامن ویر ا نۂ ما
خویش را از خویش بیروں کردہ ام
بیاکہ جاں بتمنا ے یک نظر دارم
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔