میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں!
اگر کج رو ہیں انجم، آسماں تیرا ہے یا میرا؟
اثر کر ے نہ کرے سن تو لے مری فریاد
کیا عشق ایک زندگی مستعار کا!
پریشاں ہو کے میری خاک آخر دل نہ بن جائے!
وگر گوں ہے جہاں تاروں کی گردش تیز ہے ساقی!
لا پھر اک بار وہی بادہ وجام اے ساقی!
مٹا دیا مرے ساقی نے عالم من و تو
متاع بے بہا ہے دردو سوز آرزو مندی
تجھے یاد کیا نہیں ہے مرے دل کا وہ زمانہ
ضمیر لالہ مئے لعل سے ہوا لب ریز
وہی میری کم نصیبی وہی تیری بے نیازی!
اپنی جولاں گاہ زیر آسماں سمجھا تھا میں
اک دانش نورانی اک دانش برہانی
یارب یہ جہان گذراں خوب ہے لیکن
سما سکتا نہیں پہنائے فطرت میں مرا سودا
یہ کون غزلخواں ہے پر سوزو نشاط انگیز
وہ حرف راز کہ مجھ کو سکھاگیا ہے جنوں
عالم آب و خاک وباد! سرعیاں ہے تو کہ میں؟
تو ابھی رہگزر میں ہے قید مقام سے گزر!
امین راز ہے مروان حر کی درویشی
پھر چراغ لالہ سے روشن ہوئے کوہ ودمن
مسلماں کے لہو مںی ہے سلیقہ دل نوازی کا
عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زیروبم
دل سوز سے خالی ہے نگہ پاک نہیں ہے
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
پوچھ اس سے کہ مقبول ہے فطرت کی گواہی
یہ حور یان فرنگی دل ونظر کا حجاب
دل بیدار فاروقی دل بیدار کراری
خودی کی شوخی وتندی میں کبرو ناز نہیں
میر سپاہ ناسزا لشکر یاں شکستہ صف
زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی
یہ دیر کہن کیا ہے ؟ انبار خس و خاشاک!
کمال ترک نہیں آب وگل سے مہجوری
عقل کو آستاں سے دور نہیں
خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں!
یہ پیام دے گئی ہے مجھے باد صبح گاہی
تری نگاہ فرومایہ ہاتھ ہے کوتاہ
خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
نگاہ فقر میں شان سکندری کیا ہے!
نہ تو زمیں کے لئے ہے نہ آسماں کے لئے
تو اے اسیر مکاں لا مکاں سے دور نہیں
خرد نے مجھ کو عطا کی نظر حکیمانہ!
افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر
ہر شے مسافر ہر چیز راہی!
ہر چیز ہے محو خود نمائی
اعجاز ہے کسی کا یا گرد ش زمانہ
خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے
جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی
مجھے آہ وفغان نیم شب کا پھر پیام آیا
نہ ہو طغیان مشتاقی تو میں رہتا نہیں باقی
فطرت کو خرد کے رو برو کر
یہ پیران کلیسا وحرم! اے وائے مجبوری!
تازہ پھر دانش حاضر نے کیا سحر قدیم
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ڈھونڈ رہا ہے فرنگ عیش جہاں کا دوام
خودی ہو علم سے محکم تو غیرت جبریل
مکتبوں میں کہیں رعنائی افکار بھی ہے؟
حادثہ وہ جو ابھی پردۂ افلاک میں ہے
رہا نہ حلقۂ صوفی میں سوز مشتاقی
ہوا نہ زور سے اس کے کوئی گریباں چاک
یوں ہاتھ نہیں آتا وہ گوھر یک دانہ!
نہ تخت وتاج میں نے لشکر و سپاہ میں ہے
فطرت نے نہ بخشا مجھے اندیشۂ چالاک
کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد
کی حق سے فرشتوں نے اقبالؔ کی غمازی
نے مہرہ باقی نے مہرہ بازی
گرم فغاں ہے جرس اٹھ کہ گیا قافلہ!
مری نوا سے ہوئے زندہ عارف وعامی!
ہر اک مقام سے آگے گذر گیا مہ نو
کھونہ جا اس سحر وشام میں اے صاحب ہوش
تھا جہاں مدرسۂ شیری وشاہنشاہی
ہے یاد مجھے نکتۂ سلمان خوش آہنگ
فقرکے ہیں معجزات تاج و سریر وسپاہ
کمال جوش جنوں میں رہا میں گرم طواف
شعور و ہوش وخرد کا معاملہ ہے عجیب
رہ ورسم حرم نا محرمانہ!
ظلام بحر میں کھو کر سنبھل جا
پریشاں کا روبار آشنائی
یقیں مثل خلیل آتش نشینی!
ترا اندیشہ افلاکی نہیں ہے
ہر اک ذرہ میں ہے شاید مکیں دل
جمال عشق و مستی نے نوازی
نگہ الجھی ہوئی ہے رنگ وبو میں
ترے سینے میں دم ہے دل نہیں ہے
ترا جوہر ہے نوری پاک ہے تو
چمن میں رخت گل شبنم سے تر ہے
خرد سے راہر و روشن بصر ہے
ہے یہی میری نماز ہے یہی میرا وضو
دعا
سلسلۂ روزوشب نقش گر حادثات
مسجد قرطبہ
قید خانہ میں معتمد کی فریاد
اک فغان بے شرر سینے میں باقی رہ گئی
عبد الرحمن اول کا بویا ہوا کھجور کا پہلا درخت
میری آنکھوں کا نور ہے تو
ہسپانیہ
ہسپانیہ تو خون مسلماں کا امیں ہے
یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے
طارق کی دعا
لینن
اے انفس وآفاق میں پیدا ترے آیات
فرشتوں کا گیت
عقل ہے بے زمام ابھی عشق ہے بے مقام ابھی!
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
فرمان خدا
ذوق وشوق
قلب ونظر کی زندگی دشت میں صبح کا سماں
پروانے کی منزل سے بہت دور ہے جگنو
پروانہ اور جگنو
جاوید کے نام
خودی کے ساز میں ہے عمر جاوداں کا سراغ!
میکدے میں ایک دن اک رند زیرک نے کہا
گدائی
میں بھی حاضر تھا وہاں ضبط سخن کر نہ سکا
ملا اور بہشت
دین و سیاست
کلیسا کی بنیاد رہبا نیت تھی
پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون؟
الارض للہ
ایک نوجوان کے نام
ترے سوفے ہیں افرنگی ترے قالیں ہیں ایرانی
نصیحت
بچۂ شاہیں سے کہتا تھا عقاب سالخورد
لالۂ صحرا
یہ گنبد مینائی! یہ عالم تنہائی!
ہوا خیمہ زن کا روان بہار
ساقی نامہ
زمانے کے انداز بدلے گئے
شراب کہن پھر پلا ساقیا
دمادم رواں ہے یم زندگی
فریب نظر ہے سکون وثبات
یہ موج نفس کیا ہے تلوار ہے!
خودی کے نگہباں کو ہے زہر ناب
زمانہ
جو تھا نہیں ہے جو ہے نہ ہوگا، یہی ہے اک حرف محرمانہ!
عطاہوئی ہے تجھے روز وشب کی بے تابی
فرشتے آدم کو جنت سے رخصت کرتے ہیں
کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فصا دیکھ!
روح ارصی آدم کا استقبال کرتی ہے
چشم بینا سے ہے جاری جو ئے خوں
پیرو مرید
ہمدم دیرینہ ! کیسا ہے جہان رنگ وبو؟
جبریل وابلیس
اک رات ستاروں سے کہا نجم سحر نے
اذان
محبت
مجھے ڈرا نہیں سکتی فضا کی تاریکی
ستارہ کا پیغام
شہید محبت نہ کافر نہ غازی
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر!
جاوید کے نام
فلسفہ ومذہب
یہ آفتاب کیا یہ سپہر بریں ہے کیا؟
ہم خوگر محسوس ہیں ساحل کے خریدار
یورپ سے ایک خط
راز ہے راز ہے تقدیر جہان تگ وتاز
نپولین کے مزار پر
ندرت فکر وعمل کیا شے ہے؟ ذوق انقلاب!
مسولینی
سوال
اک مفلس خود دار یہ کہتا تھا خدا سے
بتا کیا تری زندگی کا ہے راز
پنجاب کے دہقان سے
نادر شاہ افغان
حضور حق سے چلا لے کے لولو ئے لالا
خوشحال خاں کی وصیت
قبائل ہوں ملت کے وحدت میں گم
کہیں سجادہ و عمامہ رہزن
تاتاری کا خواب
دل زندہ و بیداراگر ہو تو بتدریج
حال و مقام
کہتے ہیں کبھی گوشت نہ کھاتا تھا معری
ابو العلا معری
سینما
وہی بت فروشی وہی بت گری ہے
حاضر ہوا میں شیخ مجدد کی لحد پر
پنجاب کے پیر زادوں سے
اک فقر سکھاتا ہے صیاد کو نخچیری!
فقر
خودی
خودی کو نہ دے سیم و زر کے عوض
جدائی
سورج بنتا ہے تار زر سے
مزو ایما اس زمانے کیلئے موزوں نہیں
خانقاہ
کہتا تھا غرازیل خدا وند جہاں سے
ابلیس کی عرضداشت
اگر لہو ہے بدن میں تو خوف ہے نہ ہراس
شیخ مکتب سے
شیخ مکتب ہے اک عمارت گر
فلسفی
کیا میں نے اس خاکداں سے کنارا
بلند بال تھا لیکن نہ تھا جسوروغیور
شاہیں
ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی
باغی مرید
ہارون کی آخری نصیحت
ہاروں نے کہاوقت رحیل اپنے پسر سے
تاک میں بیٹھے ہیں مدت سے یہودی سو دخوار
ماہر نفسیات سے
یورپ
جرأت ہے تو افکار کی دنیا سے گذر جا
آزادی افکار
جو دو فئ فطرت سے نہیں لائق پرواز
ساکنان دشت وصحرا میں ہے تو سب سے الگ
شیر اور خچر
چیونٹی اور عقاب
میں پائمال و خوار وپریشان و درد مند
میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں!
اگر کج رو ہیں انجم، آسماں تیرا ہے یا میرا؟
اثر کر ے نہ کرے سن تو لے مری فریاد
کیا عشق ایک زندگی مستعار کا!
پریشاں ہو کے میری خاک آخر دل نہ بن جائے!
وگر گوں ہے جہاں تاروں کی گردش تیز ہے ساقی!
لا پھر اک بار وہی بادہ وجام اے ساقی!
مٹا دیا مرے ساقی نے عالم من و تو
متاع بے بہا ہے دردو سوز آرزو مندی
تجھے یاد کیا نہیں ہے مرے دل کا وہ زمانہ
ضمیر لالہ مئے لعل سے ہوا لب ریز
وہی میری کم نصیبی وہی تیری بے نیازی!
اپنی جولاں گاہ زیر آسماں سمجھا تھا میں
اک دانش نورانی اک دانش برہانی
یارب یہ جہان گذراں خوب ہے لیکن
سما سکتا نہیں پہنائے فطرت میں مرا سودا
یہ کون غزلخواں ہے پر سوزو نشاط انگیز
وہ حرف راز کہ مجھ کو سکھاگیا ہے جنوں
عالم آب و خاک وباد! سرعیاں ہے تو کہ میں؟
تو ابھی رہگزر میں ہے قید مقام سے گزر!
امین راز ہے مروان حر کی درویشی
پھر چراغ لالہ سے روشن ہوئے کوہ ودمن
مسلماں کے لہو مںی ہے سلیقہ دل نوازی کا
عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زیروبم
دل سوز سے خالی ہے نگہ پاک نہیں ہے
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
پوچھ اس سے کہ مقبول ہے فطرت کی گواہی
یہ حور یان فرنگی دل ونظر کا حجاب
دل بیدار فاروقی دل بیدار کراری
خودی کی شوخی وتندی میں کبرو ناز نہیں
میر سپاہ ناسزا لشکر یاں شکستہ صف
زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی
یہ دیر کہن کیا ہے ؟ انبار خس و خاشاک!
کمال ترک نہیں آب وگل سے مہجوری
عقل کو آستاں سے دور نہیں
خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں!
یہ پیام دے گئی ہے مجھے باد صبح گاہی
تری نگاہ فرومایہ ہاتھ ہے کوتاہ
خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
نگاہ فقر میں شان سکندری کیا ہے!
نہ تو زمیں کے لئے ہے نہ آسماں کے لئے
تو اے اسیر مکاں لا مکاں سے دور نہیں
خرد نے مجھ کو عطا کی نظر حکیمانہ!
افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر
ہر شے مسافر ہر چیز راہی!
ہر چیز ہے محو خود نمائی
اعجاز ہے کسی کا یا گرد ش زمانہ
خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے
جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی
مجھے آہ وفغان نیم شب کا پھر پیام آیا
نہ ہو طغیان مشتاقی تو میں رہتا نہیں باقی
فطرت کو خرد کے رو برو کر
یہ پیران کلیسا وحرم! اے وائے مجبوری!
تازہ پھر دانش حاضر نے کیا سحر قدیم
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ڈھونڈ رہا ہے فرنگ عیش جہاں کا دوام
خودی ہو علم سے محکم تو غیرت جبریل
مکتبوں میں کہیں رعنائی افکار بھی ہے؟
حادثہ وہ جو ابھی پردۂ افلاک میں ہے
رہا نہ حلقۂ صوفی میں سوز مشتاقی
ہوا نہ زور سے اس کے کوئی گریباں چاک
یوں ہاتھ نہیں آتا وہ گوھر یک دانہ!
نہ تخت وتاج میں نے لشکر و سپاہ میں ہے
فطرت نے نہ بخشا مجھے اندیشۂ چالاک
کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد
کی حق سے فرشتوں نے اقبالؔ کی غمازی
نے مہرہ باقی نے مہرہ بازی
گرم فغاں ہے جرس اٹھ کہ گیا قافلہ!
مری نوا سے ہوئے زندہ عارف وعامی!
ہر اک مقام سے آگے گذر گیا مہ نو
کھونہ جا اس سحر وشام میں اے صاحب ہوش
تھا جہاں مدرسۂ شیری وشاہنشاہی
ہے یاد مجھے نکتۂ سلمان خوش آہنگ
فقرکے ہیں معجزات تاج و سریر وسپاہ
کمال جوش جنوں میں رہا میں گرم طواف
شعور و ہوش وخرد کا معاملہ ہے عجیب
رہ ورسم حرم نا محرمانہ!
ظلام بحر میں کھو کر سنبھل جا
پریشاں کا روبار آشنائی
یقیں مثل خلیل آتش نشینی!
ترا اندیشہ افلاکی نہیں ہے
ہر اک ذرہ میں ہے شاید مکیں دل
جمال عشق و مستی نے نوازی
نگہ الجھی ہوئی ہے رنگ وبو میں
ترے سینے میں دم ہے دل نہیں ہے
ترا جوہر ہے نوری پاک ہے تو
چمن میں رخت گل شبنم سے تر ہے
خرد سے راہر و روشن بصر ہے
ہے یہی میری نماز ہے یہی میرا وضو
دعا
سلسلۂ روزوشب نقش گر حادثات
مسجد قرطبہ
قید خانہ میں معتمد کی فریاد
اک فغان بے شرر سینے میں باقی رہ گئی
عبد الرحمن اول کا بویا ہوا کھجور کا پہلا درخت
میری آنکھوں کا نور ہے تو
ہسپانیہ
ہسپانیہ تو خون مسلماں کا امیں ہے
یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے
طارق کی دعا
لینن
اے انفس وآفاق میں پیدا ترے آیات
فرشتوں کا گیت
عقل ہے بے زمام ابھی عشق ہے بے مقام ابھی!
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
فرمان خدا
ذوق وشوق
قلب ونظر کی زندگی دشت میں صبح کا سماں
پروانے کی منزل سے بہت دور ہے جگنو
پروانہ اور جگنو
جاوید کے نام
خودی کے ساز میں ہے عمر جاوداں کا سراغ!
میکدے میں ایک دن اک رند زیرک نے کہا
گدائی
میں بھی حاضر تھا وہاں ضبط سخن کر نہ سکا
ملا اور بہشت
دین و سیاست
کلیسا کی بنیاد رہبا نیت تھی
پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون؟
الارض للہ
ایک نوجوان کے نام
ترے سوفے ہیں افرنگی ترے قالیں ہیں ایرانی
نصیحت
بچۂ شاہیں سے کہتا تھا عقاب سالخورد
لالۂ صحرا
یہ گنبد مینائی! یہ عالم تنہائی!
ہوا خیمہ زن کا روان بہار
ساقی نامہ
زمانے کے انداز بدلے گئے
شراب کہن پھر پلا ساقیا
دمادم رواں ہے یم زندگی
فریب نظر ہے سکون وثبات
یہ موج نفس کیا ہے تلوار ہے!
خودی کے نگہباں کو ہے زہر ناب
زمانہ
جو تھا نہیں ہے جو ہے نہ ہوگا، یہی ہے اک حرف محرمانہ!
عطاہوئی ہے تجھے روز وشب کی بے تابی
فرشتے آدم کو جنت سے رخصت کرتے ہیں
کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فصا دیکھ!
روح ارصی آدم کا استقبال کرتی ہے
چشم بینا سے ہے جاری جو ئے خوں
پیرو مرید
ہمدم دیرینہ ! کیسا ہے جہان رنگ وبو؟
جبریل وابلیس
اک رات ستاروں سے کہا نجم سحر نے
اذان
محبت
مجھے ڈرا نہیں سکتی فضا کی تاریکی
ستارہ کا پیغام
شہید محبت نہ کافر نہ غازی
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر!
جاوید کے نام
فلسفہ ومذہب
یہ آفتاب کیا یہ سپہر بریں ہے کیا؟
ہم خوگر محسوس ہیں ساحل کے خریدار
یورپ سے ایک خط
راز ہے راز ہے تقدیر جہان تگ وتاز
نپولین کے مزار پر
ندرت فکر وعمل کیا شے ہے؟ ذوق انقلاب!
مسولینی
سوال
اک مفلس خود دار یہ کہتا تھا خدا سے
بتا کیا تری زندگی کا ہے راز
پنجاب کے دہقان سے
نادر شاہ افغان
حضور حق سے چلا لے کے لولو ئے لالا
خوشحال خاں کی وصیت
قبائل ہوں ملت کے وحدت میں گم
کہیں سجادہ و عمامہ رہزن
تاتاری کا خواب
دل زندہ و بیداراگر ہو تو بتدریج
حال و مقام
کہتے ہیں کبھی گوشت نہ کھاتا تھا معری
ابو العلا معری
سینما
وہی بت فروشی وہی بت گری ہے
حاضر ہوا میں شیخ مجدد کی لحد پر
پنجاب کے پیر زادوں سے
اک فقر سکھاتا ہے صیاد کو نخچیری!
فقر
خودی
خودی کو نہ دے سیم و زر کے عوض
جدائی
سورج بنتا ہے تار زر سے
مزو ایما اس زمانے کیلئے موزوں نہیں
خانقاہ
کہتا تھا غرازیل خدا وند جہاں سے
ابلیس کی عرضداشت
اگر لہو ہے بدن میں تو خوف ہے نہ ہراس
شیخ مکتب سے
شیخ مکتب ہے اک عمارت گر
فلسفی
کیا میں نے اس خاکداں سے کنارا
بلند بال تھا لیکن نہ تھا جسوروغیور
شاہیں
ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی
باغی مرید
ہارون کی آخری نصیحت
ہاروں نے کہاوقت رحیل اپنے پسر سے
تاک میں بیٹھے ہیں مدت سے یہودی سو دخوار
ماہر نفسیات سے
یورپ
جرأت ہے تو افکار کی دنیا سے گذر جا
آزادی افکار
جو دو فئ فطرت سے نہیں لائق پرواز
ساکنان دشت وصحرا میں ہے تو سب سے الگ
شیر اور خچر
چیونٹی اور عقاب
میں پائمال و خوار وپریشان و درد مند
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.