فہرست
ابتدائے سخن
سلام
نظم حصہ اوّل
ہجر کا مارا دسمبر
لمحہ جو تصویر ہوا
اکتیس دسمبر کی شام کسی کی فرمائش پر
اظہار محبت
انتظار
تمہاری آنکھوں میں زندگی کے ہیں رنگ سارے
مجھے گلہ ہے فائزہ
فراق
مکالمات ہم نفس
اچھی ہوں نا!!
رموز عشق
خوش فہمی
تعارف
لیلۃ القدر
نظم حصہ دوم
Blasphemy
تدریجی نسل کشی
خود سوزی کی ایک کتھا
غیرت کے نام پر
بچی کے اسقاط پر
بای ذنب قتلت
جنبش عشق
تفریق
اپنے لیے ایک نظم
لکھو!!
گل حیا کی ڈائری کا اک ورق
راستے
تنگ آمد
نظم حصہ سوم
کرب تخلیق
ہمہ اوست
Marital Rape
سیلاب میں گھرے یتیم بچے کی روداد
افلا تعقلون
آدھی رات ہے
شاید میری آخری نظم
غزل
یہاں ہماری ریاضت بھی رائگاں ٹھہری
نمو پزیر ہوں ہر دم کہ مجھ میں دم ہے ابھی
تو ہی لب کھول وہ کس سمت میں بھاگے دریا
کسی خدا کا نہ بھگوان کا پجاری ہوں
رات وحشت سے گریزاں تھا میں آہو کی طرح
مرے نصیب میں کب ہیں مرے خدائے سخن
بجھے چراغ سے میں لو لگائے بیٹھا رہوں
ایک مصرعے سے زیادہ تو نہیں بار وجود
چشم و دل ہی نہیں دیدار کی خواہش میں شریک
زندگی عشق میںآسان بھی ہوسکتی ہے
زندگی تجھ سے تو برسوں کی شناسائی تھی
ممکن نہیں ہے چاک گریبان وقت میں
گفتگوئے خاموشی
بہت اداس مہکتی رہی چنبیلی شام
چند سکوں کی طرح ہیں یہ شمردہ سانسیں
جب فرط محبت سے لپٹ کر کرے باتیں
ہر درد مند کو کوئی دلجو عزیز ہے
شدت غم سے کٹ گیا ہوں میں
خود ترک سخن زینہء ادراک سخن ہے
اقبال ومیر و غالب و بیدل نہیں رہے
کوئی سورج ہو کہ ہوں چاند ستارے پیارے
ہم نے کتنے ہی سخن لکھے بنا بسم اللہ
اپنے ہونٹوں کو سی چکا ہوں میں
جو بھی نفرت کی روا رکھتا ہو انسان پہ خاک
بس گل کیا تھا میں نے دیا کچھ نہیں کیا
راکھ ہو جائیں نہ آنکھیں جل کے
سنت حق ہے کرو حضرت انسان سے عشق
میری دنیا سے دور ہو تم بھی
مجھ اکیلے راہرو کو لگ رہا تھا ڈر بہت
وقت کی حویلی میں
تنہائیوں کے دشت میں بھاگے جو رات بھر
ہمیں جینے کا ڈھب نہیں آتا
کہیں جمال پزیری کی حد نہیں رکھتا
رونے والوں کے لیے روگ بھی ہیں ایک سے ایک
اس کے لبوں پہ رات کہانی غضب کی تھی
بے کیف ساملن تو مجھے راس ہی نہیں
قامت حسن کا اندازہ لگا کر دیکھیں
تراب ہم سے نہ مبہم سخن کیا جائے
مقدار میں جو دیکھئے تو کم نہیں ملے
ہٹاؤ اپنے چہرے سے نقاب آہستہ آہستہ
دلدل تھی زندگی کی سو دھنستا چلا گیا
ابھی تو اور بھی مجھ کو عجیب ہونا ہے
تم کو یہ زعم مبارک ہو کہ سب دیکھتی ہو
کیوں دیکھتے ہو خواب تمہیں ملنے آئے گا
خلاف جبر تقدس ہوں طمطراق سے میں
دکھ پرایا ہو کہ اپنا نہیں دیکھا جاتا
سر بسر گھر کا ہی آزار لیے پھرتے ہیں
کہیں کوئی بھی نہ ہو پر مرے قریں کوئی ہے
خرد کو دل سے نکال آیا تو میں نے سوچا
سب حسد کا جواز رکھتے ہیں
ہم محبت سے عشق کرتے ہیں
کیا حسن زر نگار کا افسوں نہیں رہا
کہاں جھکائی ہے ہم نے جبیں خدا جانے
گر چشم خوش نگار نہیں ہے نگاہ میں
یہ دل سلگ رہا ہے شرارہ بنا ہوا
خاموش محبت میں اثر کیوں نہیں ہوتا
اس عیب سے گریز اصول سخن میں ہے
وہ بادشاہ ہوں کہ ہوں درویش بیش وکم
کیا مسلسل ہیں آپ بھی ہم بھی
ہنس ہنس کے جھیلتے رہے غم خود پسند لوگ
آسماں میرے پروبال میں آیا ہوا ہے
حسن کی دسترس میں رہتے ہیں
جس میں نمو ہے اس میں نمائش بھی ہوگی
جذبوں کی تعمیر ضروری ہوتی ہے
اوّل عشق میں جذبے جوشیلے ہو ں گے
سارا ہجوم شہر تعبد گزیدہ تھا
جس شہر میں کعبے کی طرح تم کو بسایا
کیا کیا کیے ہیں عشق یکے بعد دیگرے
اک دوسرے سے یونہی خجل بیٹھتے نہیں
ذرا سی بات پہ دل کا سکون وار دیا
یوں اکیلے جو نہ ہوتے ترے ہوتے سوتے
محنت سے مل گیا جو دفینے کے بیچ تھا
اس عمر نامراد کو ہر جانہ چاہیے
رنج پاداش کہا ں تھا پہلے
اک حور گنگنا رہی تھی شب مرے سخن
اعجاز رحیم
مبینہ زبیری
انور حسین جعفری
شیما کرمانی
منصور راہی
سعید اختر
جانفزا
جنبش عشق
AUTHORअता तुराब
YEAR2012
CONTRIBUTORअता तुराब
PUBLISHER ए पब्लिकेश्न ऑफ़ रास्ते ,रसताईंगों।काम
AUTHORअता तुराब
YEAR2012
CONTRIBUTORअता तुराब
PUBLISHER ए पब्लिकेश्न ऑफ़ रास्ते ,रसताईंगों।काम
فہرست
ابتدائے سخن
سلام
نظم حصہ اوّل
ہجر کا مارا دسمبر
لمحہ جو تصویر ہوا
اکتیس دسمبر کی شام کسی کی فرمائش پر
اظہار محبت
انتظار
تمہاری آنکھوں میں زندگی کے ہیں رنگ سارے
مجھے گلہ ہے فائزہ
فراق
مکالمات ہم نفس
اچھی ہوں نا!!
رموز عشق
خوش فہمی
تعارف
لیلۃ القدر
نظم حصہ دوم
Blasphemy
تدریجی نسل کشی
خود سوزی کی ایک کتھا
غیرت کے نام پر
بچی کے اسقاط پر
بای ذنب قتلت
جنبش عشق
تفریق
اپنے لیے ایک نظم
لکھو!!
گل حیا کی ڈائری کا اک ورق
راستے
تنگ آمد
نظم حصہ سوم
کرب تخلیق
ہمہ اوست
Marital Rape
سیلاب میں گھرے یتیم بچے کی روداد
افلا تعقلون
آدھی رات ہے
شاید میری آخری نظم
غزل
یہاں ہماری ریاضت بھی رائگاں ٹھہری
نمو پزیر ہوں ہر دم کہ مجھ میں دم ہے ابھی
تو ہی لب کھول وہ کس سمت میں بھاگے دریا
کسی خدا کا نہ بھگوان کا پجاری ہوں
رات وحشت سے گریزاں تھا میں آہو کی طرح
مرے نصیب میں کب ہیں مرے خدائے سخن
بجھے چراغ سے میں لو لگائے بیٹھا رہوں
ایک مصرعے سے زیادہ تو نہیں بار وجود
چشم و دل ہی نہیں دیدار کی خواہش میں شریک
زندگی عشق میںآسان بھی ہوسکتی ہے
زندگی تجھ سے تو برسوں کی شناسائی تھی
ممکن نہیں ہے چاک گریبان وقت میں
گفتگوئے خاموشی
بہت اداس مہکتی رہی چنبیلی شام
چند سکوں کی طرح ہیں یہ شمردہ سانسیں
جب فرط محبت سے لپٹ کر کرے باتیں
ہر درد مند کو کوئی دلجو عزیز ہے
شدت غم سے کٹ گیا ہوں میں
خود ترک سخن زینہء ادراک سخن ہے
اقبال ومیر و غالب و بیدل نہیں رہے
کوئی سورج ہو کہ ہوں چاند ستارے پیارے
ہم نے کتنے ہی سخن لکھے بنا بسم اللہ
اپنے ہونٹوں کو سی چکا ہوں میں
جو بھی نفرت کی روا رکھتا ہو انسان پہ خاک
بس گل کیا تھا میں نے دیا کچھ نہیں کیا
راکھ ہو جائیں نہ آنکھیں جل کے
سنت حق ہے کرو حضرت انسان سے عشق
میری دنیا سے دور ہو تم بھی
مجھ اکیلے راہرو کو لگ رہا تھا ڈر بہت
وقت کی حویلی میں
تنہائیوں کے دشت میں بھاگے جو رات بھر
ہمیں جینے کا ڈھب نہیں آتا
کہیں جمال پزیری کی حد نہیں رکھتا
رونے والوں کے لیے روگ بھی ہیں ایک سے ایک
اس کے لبوں پہ رات کہانی غضب کی تھی
بے کیف ساملن تو مجھے راس ہی نہیں
قامت حسن کا اندازہ لگا کر دیکھیں
تراب ہم سے نہ مبہم سخن کیا جائے
مقدار میں جو دیکھئے تو کم نہیں ملے
ہٹاؤ اپنے چہرے سے نقاب آہستہ آہستہ
دلدل تھی زندگی کی سو دھنستا چلا گیا
ابھی تو اور بھی مجھ کو عجیب ہونا ہے
تم کو یہ زعم مبارک ہو کہ سب دیکھتی ہو
کیوں دیکھتے ہو خواب تمہیں ملنے آئے گا
خلاف جبر تقدس ہوں طمطراق سے میں
دکھ پرایا ہو کہ اپنا نہیں دیکھا جاتا
سر بسر گھر کا ہی آزار لیے پھرتے ہیں
کہیں کوئی بھی نہ ہو پر مرے قریں کوئی ہے
خرد کو دل سے نکال آیا تو میں نے سوچا
سب حسد کا جواز رکھتے ہیں
ہم محبت سے عشق کرتے ہیں
کیا حسن زر نگار کا افسوں نہیں رہا
کہاں جھکائی ہے ہم نے جبیں خدا جانے
گر چشم خوش نگار نہیں ہے نگاہ میں
یہ دل سلگ رہا ہے شرارہ بنا ہوا
خاموش محبت میں اثر کیوں نہیں ہوتا
اس عیب سے گریز اصول سخن میں ہے
وہ بادشاہ ہوں کہ ہوں درویش بیش وکم
کیا مسلسل ہیں آپ بھی ہم بھی
ہنس ہنس کے جھیلتے رہے غم خود پسند لوگ
آسماں میرے پروبال میں آیا ہوا ہے
حسن کی دسترس میں رہتے ہیں
جس میں نمو ہے اس میں نمائش بھی ہوگی
جذبوں کی تعمیر ضروری ہوتی ہے
اوّل عشق میں جذبے جوشیلے ہو ں گے
سارا ہجوم شہر تعبد گزیدہ تھا
جس شہر میں کعبے کی طرح تم کو بسایا
کیا کیا کیے ہیں عشق یکے بعد دیگرے
اک دوسرے سے یونہی خجل بیٹھتے نہیں
ذرا سی بات پہ دل کا سکون وار دیا
یوں اکیلے جو نہ ہوتے ترے ہوتے سوتے
محنت سے مل گیا جو دفینے کے بیچ تھا
اس عمر نامراد کو ہر جانہ چاہیے
رنج پاداش کہا ں تھا پہلے
اک حور گنگنا رہی تھی شب مرے سخن
اعجاز رحیم
مبینہ زبیری
انور حسین جعفری
شیما کرمانی
منصور راہی
سعید اختر
جانفزا
جنبش عشق
Thanks, for your feedback
अध्ययन जारी रखने के लिए कृपया कोड अंकित करें। कुछ सुरक्षा कारणों से यह आवश्यक है। इस सहयोग के लिए आपके आभारी होंगे।