سرورق
شکر واجب ہے خداوند جہاں پرور کا
باب الالف
سریے سرپر ہے سایہ مصطفےٰ کا
جہان میں نام لیوا ہوں محمد کے میں یاروں کا
فخر آدم مرجع خلق خدا پیدا ہوا
غل ہے دنیا ہوے سرور عالم پیدا
برستا ہے جہاں ہر رات اور دن ابر رحمت کا
روضہ کبھی دیکھا ہے رسول مدنی کا
ہوا پابند جو کوئی محمد کی شریعت کا
عجب پیچیدہ ہے سوا تمہاری زلف پیچاں کا
سامنے آنکھوں کے وہ روضہ انور ہوتا
لا نفی اثبات الا اللہ کا
شیدا ہوں شیفتہ ہوں اسے گلعذار کا
دل انکو دیکے میں دشمن بناز مانے کا
میرا وحشت میں اگر عزم بیا بان ہوتا
پردہ جو رخ سے اپنے صنم نے اٹھا دیا
کل کوئی کیوں استان یار پر استادہ تھا
ہے خدا سے اس رخ پر آب وتاب میں دہیا
اس ضعف کا غم ہمسے اٹھا یا نہیں جاتا
فکر کیوں کرتے ہیں شاعر لب جو عنقا ہوگیا
آئینہ کیا ہے اگر آپ سکندر ہوتا
یہ فخر کم نہیں غیروں میں گرچہ خوار کیا
رخ سے پردہ اگر اولٹا ہوتا
ایک دن ملک عدم اپنا وطن ہوجائیگا
اگر نزع میں وہ آتے بالیں پہ تو کیا ہوتا
کیا نام جس دم رقم آپکا
یہی سبب ہے جو وہ بیوفا نہیں ملتا
گیسوی شب گونمیں ہے نقشہ شب دیجور کا
میں شکر کیا کروں تیری لطف عمیم کا
کھان ہے شوق وہ پیری میں ولولہ دل کا
تڑپتا ہے لہو میں تن کیکا
بجائے نغمہ بلبل مچا ہے شور شیوں کا
ہوں بر سرآہ دیکھئے گا
سجدہ کو جھکوں پیش بتاں ہوںنہیں سکتا
مئے بیخودی پھر پلا دیجئے آعاء
کس نے جلایا کون گراکس کا طور تھا
ژادعوی سے یہہ کہنا کہ میرا داذخم اچھا
اس طرح میں نے آتش ہجران سے جل گیا
ہے دعا شاہ دکن خالق اکبر تیرا
رات دن سر پر مرے کھاتا ہے چکر دیکھنا
ساری دنیا کی زبان پر ہے فسانہ تیرا
بام پر پھر جلوہ گررشک قمر ہونے لگا
گلہ کس سے ترے جو رو جفا کا آسمان کرنا
بیوجہ کب جلایا مجھے شعلہ طور کا
عیاں پردہ سے ہے جلوا حسن کا
لیلیٰ کا نقشہ قیس کے ہے دل میں رہگیا
نیند آنکھوں سے اوچٹ دیتا ہے افسانہ مرا
تیرا جلوہ جو بر ملا نہوا
ہر کوئی مشتاق ہے اس وجہ سے دیدار کا
بلند رتبہ ہے کیا شاہ نور حمومی کا
کیو نافہ سے خون اوگلی ہے مشک ختن اپنا
دل بھی مثل چشم دریا بار خالی ہوگیا
کیوں شوق اعتدال حواس بیان گیا
اگر پہلو میں ایسا ہے دل ناشاد ہونا تھا
مجکو پے دید دکھاتا ہے تماشا کیسا
بعد میرے نہ کوئی وصل کا خواہان ہوگا
بے سبب دشمن وہ اپنا یار جانی ہوگیا
ناز سے بزم تصور میں وہ آنا تیرا
نظروں میں شب کسیکا رخ بے نقاب تھا
کیا انقلاب گردش چرخ کہن ہوا
پائے نظارہ رخ کی صفا سے پھسل گیا
تہمتا تجھے اسے دیدۂ گریان نہیں دیکھا
یا خدا کیونکر ملے موقع مجھے فریاد کا
ہزار شکر جو بیگانہ تھا یگانہ ہوا
حسن کے روصہ انور پر ہے جو دلنشیں پنکھا
مھر بان مجھہ اگر آصف ذیشان ہوتا
یارب برا ہو زاہد خانہ خراب کا
ہمارا کام زور مفلسی سے ہو نہیں سکتا
تماشا دیدنی ہے دیکھ لو اللہ کی قدرت کا
قسم حق کی میں سچ کہتا ہوں ایسا ہو نہیں سکتا
دل میں کھٹک رہا تھا سو پیکان نکل گیا
ایسا کبھی ہنگامۂ محشر نہ ہوا تھا
دل گرفتہ ناگہانی مجھ سے وہ دلبر ہوگیا
گنج خفی میں جب گوہر مست دبو دتھا
کلیم ہوش نبھا لو سردر مونے لگا
کعھ کہہ نہیں سکتا ہوں تقاضا ہے ادب کا
کسقدر ہے تابش شمع شبستان حبیب
ردیف (ب)
جلوۂ دلدار کی گرتاب لائے عندلیب
ہے یقین محبوب عالم عاشق ارحبیب
بیمار ہے پر ایسے بھی کیا ناتوان ہے اب
کیا بچیگا تیرآہ پرشرر سے آفتاب
کستاخیوں کا پھل ہے میرے اسکا ہر جواب
روٹھا ہے مجھ سے ہائے وہ عیار بے سبب
گردن غیر ہے اور آپکی شمشیر ہے اب
ساقیا دے آج تو ایسی شراب
سامنے میرے ہے دن رات لقاے محبوب
ردیف ت
جو کوئی دیکھ لے اس نور بصر کیصورت
احمد کے آئینہ میں دیکھو خدا کی صورت
ردیف ث
تلوار اوگلے پڑتی ہے اونکی کمر سے آج
ردیف ج
دل نظر آتا نہیں ہے برمین آج
ردیف د
طوبیٰ بھی لپۓ سجدہ مجھکی سوئے محمد
جہاں میں ہے گستردہ خوان محمد
گزین بندۂ کبریا ہیں محمد
گھیرا ہے دو عالم کو جو پرکار محمد
یا خدا دو جہاں کی یہ بنیاد
ردیف ر
گھمنڈ کرتے تھے حسن پروہ بتہ ہی کچھ شوخ وشنگ ہوکر
گرلن تمانیاں مگر انسان کو دیکھ کر
گھمنڈ اتنا نہ کراے بلبل شیدا گلستان پر
فخر ہے تجھکو زمانیکی طرحداروں پر
بیحجابانہ نہ تم آؤ سنورکرباہر
برائی کیا رہا میں دیر میں گرپار ساہوکر
خنجر کبھی سر پر ہے کبھی سرتہ خنجر
دیتا ہے رہو نگا میں تجھے دل سے دعا اور
خاک چھانے ہے بہت شکل بگولا بنکر
ہم خلد گئے کوچۂ جانا نہ سمجھکر
عیان ہے جلوہ نخل طور کا جو شاخ سوسن پر
ٹلل پڑے رند بھی بے ساختہ پیمانوں پر
رشک گلزار جنان ہے بوستان دستگیر
دل بہت پھولا تھا گلزار گلستان دیکھ کر
سنا ون اسکو یارب درد دل کی داستان کیونکر
ساز عدم میں کن کی صدا ہیں جناب فیض
ردیف (ض)
ہے سکندر سے بڑھ کے شوکت فیض
کیا ہے پر فیض تھا زمان فیض
تو شہسوار تیرا رخش ہے شتاب میں برق
یہی تو چاہتا ہے خیر خواہ آصف سابع
باب العین
ردیف (ق)
ردیف (کاف)
ناسور کی کثرت سے ہے دل اور جگر چاک
یا نبی الورا اسلام علیک
نہیں امید اب حاجت بر آنیکی قیامت تک
کیا دونوں کو پیدادم میں عالم آفرین نازک
جو دیکھوں لگے ساغر جم میں آگ
ردیف گاف
ان سنگدل بتوں کو کبھی کر نہ پیاردل
ردیف ل
یارب جو تیرے فضل سے توفیق پائیں ہم
ردیف م
کلام حق زبان غوث اعظم
کہتے ہیں عشق ایک بت پر جفا سے ہم
کعبہ کا عزم کرکے چلے ہیں گیا سے ہم
نبی کے عشق کی مستی کے ہیں آثار آنکھوں میں
ردیف ن
تمکو ہم میر عرب شاہ عجم جانتے ہیں
وہ کون ہے جو آپ پہ دل سے فدا نہیں
یا الٰہی کوئی کیونکر رہے ارمان دل میں
صبر ہم اپنے نہ ملنے کا کریں
لاغری میں یوں نظر آتی ہیں تن کی ہڈیاں
اک جاتڑپ تڑپ کے رہا میں مزارمیں
فرشتوں کو دکھا کر سہل جاپہونچونگا جنت میں
گزر ہمارا جو واعظ وہاں نہیں تو نہیں
رہے ہے آتش الفت مرے دلمیں نہاں برسوں
عدو پہ پڑتی ہے آنکھ اونکی سمائینگے ہم کھان نظر میں
وہ سوز جگر کا ہے اثر میرے سخن میں
زلف کو مشک سے نسبت جو دیا کرتے ہیں
ملی ہے بعد فنا دولت وصال ہمیں
ہمکو دیر وحرم سے کام نہیں
آہ کرنا دل حزیں نہ کہیں
کیوں رولاتے ہو ہنسی اچھی نہیں
آتے ہیں وہ لئے ہوئے شمشیر ہاتھ میں
کمالات ذاتی کو کم دیکھتے ہیں
مزا ہوگا عجب اوسوقت میدان قبامت میں
خدا یا کب بھلا ہم ان بتوں کے ستے جاتے ہیں
چہرے خنجر کٹا رے اور نہ وہ شمشیر رکھتے ہیں
ملتے نہیں جو تم نہ ملو اس کا غم نہیں
ساتھ ہوں سب کے مگر آپ اکیلا میں ہوں
لوگ سب تجھکو جو کہتے ہیں
یہ کیا ہے پھر جو زمانہ کا انقلاب نہیں
تیرا جلوہ ہےبو العجب روشن
ترانہ سنج ہے گلشن میں آج مرغ چمن
کس جگہ جلوہ ترا اے جان جان ہوتا نہیں
بتوں سے خاک ارمان دل مضطر نکلتے ہیں
وطن میں عیش نہیں زحمت سفر بھی نہیں
وہ کون گھر ہے آج جو رشک جہاں نہیں
سودا ہے کسیکا اپنے سرمیں
جو کچھ ہونا ہے ہونا ہے زمیں اور آسمانوں میں
یہی گالی ہے بلبل باغ میں در آشیانے میں
آشنا نا آشنا ہوتا نہیں
ہنستے ہوے چھپاتے ہیں چہرہ نقاب میں
کب اس کا رنج ہے حاصل اگر وصال نہیں
عدو نرات جو ظالم تری محفلمیں رہتے ہیں
زندگی کا جو اعتبار نہیں
یا خدا اگر ہو خیال بت خوشخو دل میں
اب دل کے لگانے کی قسم کھاے ہوے ہیں
قسم حق کی ہے دل سے بندۂ صدق و صفا ہوں میں
مٹ جاے جو جھگڑا ہے قضا اور شفامیں
سمجھ سے کہتے ہیں عدو قابل تغزیر نہیں
مداح اہلیت ہوں شاہ نظام ہوں
چاہت نہ تو چاہ دیکھتے ہیں
راز یہ پوشیدہ تھا کونیں کی ایجادمیں
کیونکر میرے غفار ترا شکر ادا ہو
ردیف واؤ
کسطرح دل کی نہیں ہوتی خبر دیکھیں تو
آگے آنکھوں کے مرے ہیں صف مژگان دوا
کوئی کہتا ہے مسلمان کوئی کافر ہمکو
قتل عشاق کئے جاؤ بلا سے کچھ ہو
بہار گل ہواور گلشن میں بزم مے پرستان ہو
چھپا دو جلد مرقد میں تن مجروح بسمل کو
جب درد ہو جگر میں تو کیونکر فغان نہو
ہمارے قتل کا ڈھنگ اس تدبیر پر رکھو
شہ سے اکبر نے کھا سوجھے ہیں تدبیریں دو
ملا کر آب وآتش کو ہوا کو
نوازش سے اپنے ملا یا ہے مجھکو
بہت آسان ہے تمپر مجھے مشکل میں رہنے دو
مہیا میری قسمت سے الٰہی سارا سامان ہو
شوخی میں گرچہ برق تجّلی طور ہو
مرتے مرتے وصل حاصل ہو قضا ایسی تو ہو
ترے آگے مری کوئی خطا ثابت ستمگر ہو
لئے پھرتا ہے ساتھ اپنے کہاں سے تو کہاں مجکو
کس کس کو میں دوں اس ایک جان کو
ردیف (ہ)
کس طرح لکھا جائے سراپائے مدینہ
رات دن جھگڑا رہا کرتا ہے مجکو دل کے ساتھ
فزون چرخ سے ہے وقار مدینہ
دل بیچ ہے چکا ہوں بت پر جفا کے ہاتھ
دل بیقرار ہوگیا درد جگر کے ساتھ
ردیف (ی)
کوئی کیا جانے کہ کیا ہیں مصطفٰے
کوئی کیا جانے کہ کیا ہے آن بان مصطفٰے
یہی ہے سر میں سودا اور بھی دلمیں سماے ہے
جہاں سے آج رنج و درد وغم حرمان کی رخصت ہے
دکھائے زلف نے مغرب عشا اسے میں ہے
یہ میم احمدی یا مصطفٰے کچھ اور کہتے ہیں
خدا کے لئے یار وہ کھلی والے
دشمن سے بھی تو یوں تیرے اہل وفا ملے
شب معراج وہ انداز نرالے ہوتے
کیوں خوشامد کروں رضوان تیری کیا پرواہے
یا محمد جو کوئی آپ پہ شیدا ہو جائے
محمد ہیں رحمت کے برسانے والے
کیا دبدبہ ہے شان ہے شوکت رسول کی
طوبیٰ نہال رستہ گلزار مصطفےٰ
محمد بادشاہ دو جہاں سرور ہمارا ہے
باعث فخر و مباہات گداد شاہ ہے
دیکھو نبی ہمارے ہیں کیسی شان والے
نہیں تھا اور رہیگا پھر نہ کچھ غیر خدا باقی
بتاؤں کون ہے وہ جو شفیع روز محشر ہے
جب ایسی ہے شان کبریا ہے
فلک ہمیں نہ ستا ہمتو ہیں ستائے ہوئے
چمن میں آج خبر بار بار آتی ہے
ترا ہمہ جہاں میں کوے کب ہے
کیا وطن کا دین پتہ کسکو ٹھکانا یاد ہے
نظر دلپر ہے چپ رہنا غضب ہے
یہ کس گلرو کے آنے کی خوشی تھی
سودائے عشق میں ہے اگر درد سر مجھے
پوچھتے کیا ہو تم ملا کیا ہے
حشر میں بھی حشر کردوں ااہ پرتا ثیر سے
انکے در پر سر کو ٹکرانے لگے
نہ قصہ عشق کا ناصح سے ہم بیان کرتے
قصۂ وصل کو ہم آج چکا کے اوٹھے
شوق افلاس میں بسر نہوئی
لڑی ہے آنکھ اک زہرہ جبیں سے
ہم تیرے لئے ااپ کو رسوا نہ کرینگے
ہم تو ہیں ہاتھ وہوے ہوے اپنی جان سے
صدمہ ہائے درد فرقت سے یہ حالت ہوگئی
پامال کوئے ہو کوے پس جائے بلا سے
کسیکی ملنے کی دن رات آرزومیں رہے
خواہش ہے وصل کی تو ہوس کو مٹائی
تم جاؤ فصل گامیں گلستان کو دیکھنے
خاک پر میری جو وہ رشک مسیحا ہو جائے
سنتے ہیں بن سنور کے وہ محفلمیں آئینگے
زمین پہ اور تنہا کوئی آسمان کیلئے
دل کی قیمت لب کا بوسا چاہئے
جان آفت میں نہیں سر پہ مصیبت آئی
اس ضعف میں اوٹھ سکتے ہیں کیا ہم ترے در سے
پھر طور پہ موسیٰ کی تجلی کا اثر ہے
سچہ بات کے کہدینمیں کچھ ڈر تو نہیں ہے
ہاں میں ہاں ساتھ جو تیری ہیں ملانے والے
تمہارے عشق میں کیونکر نہ جان مبتلا نکلی
ہوا عشق مجکو تو کس کا ہوا ہے
خونفشان پھر آج اپنی چشم تر ہو نیکو ہے
وصل کے دن مری تقدیر سے بنکر آئے
نہ تو جادو نہ تو افسون نہ تو نسخجر چلے
جنبش لبھائے جاناں کی عجب تاثیر ہے
ٹوٹی ہوئی سفال کو گوہر بنا ئینگے
تیری عاشق کی گئی جان بڑی مشکل سے
کبھی ہے فصل گل گاہے حزاں ہے
کہتا ہے دریچہ پر چلمن دوہری کیوں ہے
صبح نوروز سے اپنی شب خلوت اچھی
آج چرچے ہیں مرے گھر آمد دلدار کے
جیسی شیرب کی ہواروح فزا آتی ہے
قاصد ہے نامہ بر ہے نہ خط ہے پیام ہے
بتوں کا عشق اور میں پارسائی سخت مشکل ہے
عمر کے دن ہیں بہر حال گزر جانے کے
چمن پہ پھول نہ بلبل اگر ہزار بنے
لرزاں ہے مہر اوس پری پیکر کے سامنے
کیوں لے چلی اوڑا کے صبا کوئی یار سے
جگر کا دے سے دل کا زخم گہرا ہو جاتا ہے
اگر ترک ستم ودستم ایجاد کرینگے
انکے محفل میں اگر شمع ہے جلنے کیلئے
تو ہیں ہائے برسر نبر شراب کی
کیوں اولجھتے ہو عبث زلف کی بل کھانے سے
پہلو میں نہیں ہے دل مضطر کئے دن سے
پیشوائی کو صنو برلب جو آتا ہے
منحصر مرنے پہ ہے وصل تو مردیکھنگے
کس کو دیتا ہے یہاں ساغر وبوتل بھر کے
دل کا یہ حال خراب دیکھئے کب تک رہے
کجی ابرومیں ہے ترچھی نظر بھی
الفت ہے میرے دل کو اسی کجلاہ سے
دل نہ چلا یا کبھی تیر نظر سے پہلے
کیوں آج الحذر کی صدا ہے پگاہ سے
بہت دن جی کے بھی اک روز یارو ہمکو مرنا ہے
سچہ سچہ بتا کہ جھوٹ نہ کہنا صبا کبھی
مرض عشق کی شدت ہی سہی
مرمٹے پر طلب کی خونہ گئی
دیکھا نہ کبھی اس نے مجھے ایک نظر سے
ابھی شعاع مہ وآفتاب باقی ہے
یہی مدّت سے دلمیں ہے تمناے نہاں میری
کیا مجھسے خطا ہوے بتادے
عدو کا مرا امتحان ہو رہا ہے
حسن میں مشہور تم گر ہوگئے
غم نہیں بھولا خوشی کے سامنے
اے دل جو ان سے ملنے کا تجھکو خیال ہے
درد اور مرض اور دوا اور رہے کچھ ہے
طعن دشمن سے نہ یوں گھبرائی
حبذ اہرسمت کلبانگ مبارک باد ہے
حکم اکبار اگر تیرا خدا یا ہو جائے
ہر رنگ میں چمکیگی جو چیز کھری ہوگی
تیرے قدموں کی قسم مجھپر عنایت کب ہوے
ملیگا شوق سا تجکو نہ باوفا کوئے
اعجاز لب پہ آب بقا بھی دہن میں ہے
جب کہچی تلوار انکے ابروی خمدار کی
جراستان سن نہ میری طول بینی ہوجائے
بلبل کے ساتھ اپنے بھی شرکت وطن میں ہے
بہار رشک گلزار جنان ہے
اکدم کا بھی ہم آج بھرو سا نہیں رکھتے
میں پہ پس مردن وہ آکے بکا کرتے
بتا دن ہیں کہاں اللہ والی
عمر روان کے ہائے دن ایسے گزر گئے
ہاتھ پاؤں ہیں فقط بس نام کے
گھٹا ہے لطف کی چھایا ہے ابر رحمت بھی
غضب کے شوخ آفت کے بھرے اک فتنہ زانکلے
اپنی بگڑی ہوئی تقدیر بنالے کوئی
ساتھ اپنے کب امیر وشاہ دولت لے چلے
عبد کے دن وہ رفیون سے بلخیر رہے
پس از حمد خدا نعیت شفیع المذنبین ہوگی
ہوں دل سے فدا اس پہ جو محبوب خدا ہے
مہر محشر کی تمازت سےجو حیران ہونگے
صدقے انکے وہ میرے گھر آئے
جلوہ گر آنکھوں میں ہو یارب جمال مصطفےٰ
قربان چشم وسر کے صدقے لب و دہان کے
ہوا کہا تار ہا ہوں انکے کوچہ کی جو بچپن سے
آج عشرت فزا خدائی ہے
بھری مجلس میں کہدونگا جو کچھ ہے بات ایماں کی
جب محمد مصطفےٰ کی جلوہ فرمائی ہوئی
جسے میں دیکھتا ہوں وہ مریض زار علوی ہے
کہاں بارامانت اٹھ سکا ہے حور وغلماں ہے
جو وہ دلدادۂ عشق بنی آل پیمبر ہے
ڈس نہ جاے کہیں گمان ہے مجھے
اٹھ کے کیوں جارہے ہو محفل سے
یقیناً شوق نے پائے ہے لذت وصل دلبر سے
متفرقات اردو
جلوۂ رخ یار نے دکھا یا
سب ہیں تیرے بندگان زر خرید
تو وہ ہے ترا نہیں ہے ثانی
پڑے جو ابروی شاہد میں کیا محال گرہ
سر پہ نوشہ کے ہے کس شان سے زیبا ہرا
خوش طرز و خوشنما ہے زریں نگار سہرا
الٰہی سب ترے بندے ہیں تو رب
گنبد چرخ کوہے جس سے شرف
محو ذات خدا کا صندل ہے
آج ہے صندل شہ خواجہ محی الدین کا
آج ہے سیّد نا شہرۂ آفاق کا پنکھا
صندل عرس مبارک سینا حضرت شاہ خواجہ محی الدین صاحب قبلہ
واقف رمزو راز کا پنکھا
پنکھا عرس مبارک سید نا حضرت شاہ محمد حسن صاحب قبلہ سرۂ العزژ
مدحیہ مسدّس ترجیع بند
عاشق احمد ذی شاں کو نہیں جانتے کیا
ہے دوست سے لگاؤ نہ دشمن سے مجکو کد
دیگر مسدّس ترجیع بند
کسقدر جوش پہ ہے آج طبیعت میری
قصیدہ ور تہنیت جشن سالگرہ چھل سالہ اعلٰحضرت بند گا نعالی متعالی باتہ
مطلع ثانی
آسمان جانے ہے کیا شان ہے شوکت میری
مستی جوش خوشی میں جھومتی ہیں ڈالیاں
قصیدہ تہنیت جشن سالگرہ مبارک مبارک باتہ مشاعرہ نواب اقبال ایاز جنگ بہادر
مطلع ثانی
کون وہ نازاں ہے جسکے نام پر سارا جہاں
قطعہ مدحیہ در صفت جناب حکیم مصباح الدینخاں صاحب دہلوی
جو بن پہ رہے بہار خواجہ گلشن
روح مجنوں کو رہا کرتی ہے لیلیٰ کی تلاش
حکیم نامور مصباح دیں کے جو ششش دال سے
وہ نظر آتا ہے جو لعل و گہر کا سہرا
شہ ملک دکن ہر دم ترا اقبال یاد رہو
وہ چمکتا ہے جو نوشاہ کے سرپرسہرا
کچھ ٹھکانہ ہے مری جرم وخطا کا یارب
سر پہ نوشہ اسد اللہ نے باندھا سہرا
غم حسین جہاں میں امام ہے غم کا
کسکا منہ ہے آپکے مدحت میں جو کھولے زباں
پوچھتے کیا ہو کس کا صندل ہے
غزل مدحیہ در شان حضرت موصوف
اے صبا بھر خدا پہونچا سلام
نام علی کے اور نمک کے عدد ہیں ایک
خدا کے دوست حق کے موردرحمت کا صندل ہے
قطعہ تاریخ بناء مسجد جدید کنا رخوض گوشہ محل واقع بلدہ حیدر آباد دکن
کنار حوض جو گوشہ محل کے ہے مسجد
چھٹی ماہ ذی الحج کی دن پیر کا تھا
بہار آئی چمن میں ہو مبارک تجکو اے بلبل
جناب بوالعلا کے میکدہ سے
ہندی نژاد صورت درویش ایک شخص
خدا کے فضل سے ملک دکن تقدیر والا ہے
خوش امین صاحب عرب دل ہے ترے احباب کا
ملازمت میں چوالیس سال گذری ہیں
خدا رکھے سلامت رانی رنگانا یکہسا کو
وہ بختور جو ہیں تحصیدلدار نالیسر
ہمدمو کیا پوچھتے ہو ہمسے کیا جاتا رہا
گئے سوئے جنت بشارت حسین
مشہور ہے جو موضع جاگیر نالیسر
سرورق
شکر واجب ہے خداوند جہاں پرور کا
باب الالف
سریے سرپر ہے سایہ مصطفےٰ کا
جہان میں نام لیوا ہوں محمد کے میں یاروں کا
فخر آدم مرجع خلق خدا پیدا ہوا
غل ہے دنیا ہوے سرور عالم پیدا
برستا ہے جہاں ہر رات اور دن ابر رحمت کا
روضہ کبھی دیکھا ہے رسول مدنی کا
ہوا پابند جو کوئی محمد کی شریعت کا
عجب پیچیدہ ہے سوا تمہاری زلف پیچاں کا
سامنے آنکھوں کے وہ روضہ انور ہوتا
لا نفی اثبات الا اللہ کا
شیدا ہوں شیفتہ ہوں اسے گلعذار کا
دل انکو دیکے میں دشمن بناز مانے کا
میرا وحشت میں اگر عزم بیا بان ہوتا
پردہ جو رخ سے اپنے صنم نے اٹھا دیا
کل کوئی کیوں استان یار پر استادہ تھا
ہے خدا سے اس رخ پر آب وتاب میں دہیا
اس ضعف کا غم ہمسے اٹھا یا نہیں جاتا
فکر کیوں کرتے ہیں شاعر لب جو عنقا ہوگیا
آئینہ کیا ہے اگر آپ سکندر ہوتا
یہ فخر کم نہیں غیروں میں گرچہ خوار کیا
رخ سے پردہ اگر اولٹا ہوتا
ایک دن ملک عدم اپنا وطن ہوجائیگا
اگر نزع میں وہ آتے بالیں پہ تو کیا ہوتا
کیا نام جس دم رقم آپکا
یہی سبب ہے جو وہ بیوفا نہیں ملتا
گیسوی شب گونمیں ہے نقشہ شب دیجور کا
میں شکر کیا کروں تیری لطف عمیم کا
کھان ہے شوق وہ پیری میں ولولہ دل کا
تڑپتا ہے لہو میں تن کیکا
بجائے نغمہ بلبل مچا ہے شور شیوں کا
ہوں بر سرآہ دیکھئے گا
سجدہ کو جھکوں پیش بتاں ہوںنہیں سکتا
مئے بیخودی پھر پلا دیجئے آعاء
کس نے جلایا کون گراکس کا طور تھا
ژادعوی سے یہہ کہنا کہ میرا داذخم اچھا
اس طرح میں نے آتش ہجران سے جل گیا
ہے دعا شاہ دکن خالق اکبر تیرا
رات دن سر پر مرے کھاتا ہے چکر دیکھنا
ساری دنیا کی زبان پر ہے فسانہ تیرا
بام پر پھر جلوہ گررشک قمر ہونے لگا
گلہ کس سے ترے جو رو جفا کا آسمان کرنا
بیوجہ کب جلایا مجھے شعلہ طور کا
عیاں پردہ سے ہے جلوا حسن کا
لیلیٰ کا نقشہ قیس کے ہے دل میں رہگیا
نیند آنکھوں سے اوچٹ دیتا ہے افسانہ مرا
تیرا جلوہ جو بر ملا نہوا
ہر کوئی مشتاق ہے اس وجہ سے دیدار کا
بلند رتبہ ہے کیا شاہ نور حمومی کا
کیو نافہ سے خون اوگلی ہے مشک ختن اپنا
دل بھی مثل چشم دریا بار خالی ہوگیا
کیوں شوق اعتدال حواس بیان گیا
اگر پہلو میں ایسا ہے دل ناشاد ہونا تھا
مجکو پے دید دکھاتا ہے تماشا کیسا
بعد میرے نہ کوئی وصل کا خواہان ہوگا
بے سبب دشمن وہ اپنا یار جانی ہوگیا
ناز سے بزم تصور میں وہ آنا تیرا
نظروں میں شب کسیکا رخ بے نقاب تھا
کیا انقلاب گردش چرخ کہن ہوا
پائے نظارہ رخ کی صفا سے پھسل گیا
تہمتا تجھے اسے دیدۂ گریان نہیں دیکھا
یا خدا کیونکر ملے موقع مجھے فریاد کا
ہزار شکر جو بیگانہ تھا یگانہ ہوا
حسن کے روصہ انور پر ہے جو دلنشیں پنکھا
مھر بان مجھہ اگر آصف ذیشان ہوتا
یارب برا ہو زاہد خانہ خراب کا
ہمارا کام زور مفلسی سے ہو نہیں سکتا
تماشا دیدنی ہے دیکھ لو اللہ کی قدرت کا
قسم حق کی میں سچ کہتا ہوں ایسا ہو نہیں سکتا
دل میں کھٹک رہا تھا سو پیکان نکل گیا
ایسا کبھی ہنگامۂ محشر نہ ہوا تھا
دل گرفتہ ناگہانی مجھ سے وہ دلبر ہوگیا
گنج خفی میں جب گوہر مست دبو دتھا
کلیم ہوش نبھا لو سردر مونے لگا
کعھ کہہ نہیں سکتا ہوں تقاضا ہے ادب کا
کسقدر ہے تابش شمع شبستان حبیب
ردیف (ب)
جلوۂ دلدار کی گرتاب لائے عندلیب
ہے یقین محبوب عالم عاشق ارحبیب
بیمار ہے پر ایسے بھی کیا ناتوان ہے اب
کیا بچیگا تیرآہ پرشرر سے آفتاب
کستاخیوں کا پھل ہے میرے اسکا ہر جواب
روٹھا ہے مجھ سے ہائے وہ عیار بے سبب
گردن غیر ہے اور آپکی شمشیر ہے اب
ساقیا دے آج تو ایسی شراب
سامنے میرے ہے دن رات لقاے محبوب
ردیف ت
جو کوئی دیکھ لے اس نور بصر کیصورت
احمد کے آئینہ میں دیکھو خدا کی صورت
ردیف ث
تلوار اوگلے پڑتی ہے اونکی کمر سے آج
ردیف ج
دل نظر آتا نہیں ہے برمین آج
ردیف د
طوبیٰ بھی لپۓ سجدہ مجھکی سوئے محمد
جہاں میں ہے گستردہ خوان محمد
گزین بندۂ کبریا ہیں محمد
گھیرا ہے دو عالم کو جو پرکار محمد
یا خدا دو جہاں کی یہ بنیاد
ردیف ر
گھمنڈ کرتے تھے حسن پروہ بتہ ہی کچھ شوخ وشنگ ہوکر
گرلن تمانیاں مگر انسان کو دیکھ کر
گھمنڈ اتنا نہ کراے بلبل شیدا گلستان پر
فخر ہے تجھکو زمانیکی طرحداروں پر
بیحجابانہ نہ تم آؤ سنورکرباہر
برائی کیا رہا میں دیر میں گرپار ساہوکر
خنجر کبھی سر پر ہے کبھی سرتہ خنجر
دیتا ہے رہو نگا میں تجھے دل سے دعا اور
خاک چھانے ہے بہت شکل بگولا بنکر
ہم خلد گئے کوچۂ جانا نہ سمجھکر
عیان ہے جلوہ نخل طور کا جو شاخ سوسن پر
ٹلل پڑے رند بھی بے ساختہ پیمانوں پر
رشک گلزار جنان ہے بوستان دستگیر
دل بہت پھولا تھا گلزار گلستان دیکھ کر
سنا ون اسکو یارب درد دل کی داستان کیونکر
ساز عدم میں کن کی صدا ہیں جناب فیض
ردیف (ض)
ہے سکندر سے بڑھ کے شوکت فیض
کیا ہے پر فیض تھا زمان فیض
تو شہسوار تیرا رخش ہے شتاب میں برق
یہی تو چاہتا ہے خیر خواہ آصف سابع
باب العین
ردیف (ق)
ردیف (کاف)
ناسور کی کثرت سے ہے دل اور جگر چاک
یا نبی الورا اسلام علیک
نہیں امید اب حاجت بر آنیکی قیامت تک
کیا دونوں کو پیدادم میں عالم آفرین نازک
جو دیکھوں لگے ساغر جم میں آگ
ردیف گاف
ان سنگدل بتوں کو کبھی کر نہ پیاردل
ردیف ل
یارب جو تیرے فضل سے توفیق پائیں ہم
ردیف م
کلام حق زبان غوث اعظم
کہتے ہیں عشق ایک بت پر جفا سے ہم
کعبہ کا عزم کرکے چلے ہیں گیا سے ہم
نبی کے عشق کی مستی کے ہیں آثار آنکھوں میں
ردیف ن
تمکو ہم میر عرب شاہ عجم جانتے ہیں
وہ کون ہے جو آپ پہ دل سے فدا نہیں
یا الٰہی کوئی کیونکر رہے ارمان دل میں
صبر ہم اپنے نہ ملنے کا کریں
لاغری میں یوں نظر آتی ہیں تن کی ہڈیاں
اک جاتڑپ تڑپ کے رہا میں مزارمیں
فرشتوں کو دکھا کر سہل جاپہونچونگا جنت میں
گزر ہمارا جو واعظ وہاں نہیں تو نہیں
رہے ہے آتش الفت مرے دلمیں نہاں برسوں
عدو پہ پڑتی ہے آنکھ اونکی سمائینگے ہم کھان نظر میں
وہ سوز جگر کا ہے اثر میرے سخن میں
زلف کو مشک سے نسبت جو دیا کرتے ہیں
ملی ہے بعد فنا دولت وصال ہمیں
ہمکو دیر وحرم سے کام نہیں
آہ کرنا دل حزیں نہ کہیں
کیوں رولاتے ہو ہنسی اچھی نہیں
آتے ہیں وہ لئے ہوئے شمشیر ہاتھ میں
کمالات ذاتی کو کم دیکھتے ہیں
مزا ہوگا عجب اوسوقت میدان قبامت میں
خدا یا کب بھلا ہم ان بتوں کے ستے جاتے ہیں
چہرے خنجر کٹا رے اور نہ وہ شمشیر رکھتے ہیں
ملتے نہیں جو تم نہ ملو اس کا غم نہیں
ساتھ ہوں سب کے مگر آپ اکیلا میں ہوں
لوگ سب تجھکو جو کہتے ہیں
یہ کیا ہے پھر جو زمانہ کا انقلاب نہیں
تیرا جلوہ ہےبو العجب روشن
ترانہ سنج ہے گلشن میں آج مرغ چمن
کس جگہ جلوہ ترا اے جان جان ہوتا نہیں
بتوں سے خاک ارمان دل مضطر نکلتے ہیں
وطن میں عیش نہیں زحمت سفر بھی نہیں
وہ کون گھر ہے آج جو رشک جہاں نہیں
سودا ہے کسیکا اپنے سرمیں
جو کچھ ہونا ہے ہونا ہے زمیں اور آسمانوں میں
یہی گالی ہے بلبل باغ میں در آشیانے میں
آشنا نا آشنا ہوتا نہیں
ہنستے ہوے چھپاتے ہیں چہرہ نقاب میں
کب اس کا رنج ہے حاصل اگر وصال نہیں
عدو نرات جو ظالم تری محفلمیں رہتے ہیں
زندگی کا جو اعتبار نہیں
یا خدا اگر ہو خیال بت خوشخو دل میں
اب دل کے لگانے کی قسم کھاے ہوے ہیں
قسم حق کی ہے دل سے بندۂ صدق و صفا ہوں میں
مٹ جاے جو جھگڑا ہے قضا اور شفامیں
سمجھ سے کہتے ہیں عدو قابل تغزیر نہیں
مداح اہلیت ہوں شاہ نظام ہوں
چاہت نہ تو چاہ دیکھتے ہیں
راز یہ پوشیدہ تھا کونیں کی ایجادمیں
کیونکر میرے غفار ترا شکر ادا ہو
ردیف واؤ
کسطرح دل کی نہیں ہوتی خبر دیکھیں تو
آگے آنکھوں کے مرے ہیں صف مژگان دوا
کوئی کہتا ہے مسلمان کوئی کافر ہمکو
قتل عشاق کئے جاؤ بلا سے کچھ ہو
بہار گل ہواور گلشن میں بزم مے پرستان ہو
چھپا دو جلد مرقد میں تن مجروح بسمل کو
جب درد ہو جگر میں تو کیونکر فغان نہو
ہمارے قتل کا ڈھنگ اس تدبیر پر رکھو
شہ سے اکبر نے کھا سوجھے ہیں تدبیریں دو
ملا کر آب وآتش کو ہوا کو
نوازش سے اپنے ملا یا ہے مجھکو
بہت آسان ہے تمپر مجھے مشکل میں رہنے دو
مہیا میری قسمت سے الٰہی سارا سامان ہو
شوخی میں گرچہ برق تجّلی طور ہو
مرتے مرتے وصل حاصل ہو قضا ایسی تو ہو
ترے آگے مری کوئی خطا ثابت ستمگر ہو
لئے پھرتا ہے ساتھ اپنے کہاں سے تو کہاں مجکو
کس کس کو میں دوں اس ایک جان کو
ردیف (ہ)
کس طرح لکھا جائے سراپائے مدینہ
رات دن جھگڑا رہا کرتا ہے مجکو دل کے ساتھ
فزون چرخ سے ہے وقار مدینہ
دل بیچ ہے چکا ہوں بت پر جفا کے ہاتھ
دل بیقرار ہوگیا درد جگر کے ساتھ
ردیف (ی)
کوئی کیا جانے کہ کیا ہیں مصطفٰے
کوئی کیا جانے کہ کیا ہے آن بان مصطفٰے
یہی ہے سر میں سودا اور بھی دلمیں سماے ہے
جہاں سے آج رنج و درد وغم حرمان کی رخصت ہے
دکھائے زلف نے مغرب عشا اسے میں ہے
یہ میم احمدی یا مصطفٰے کچھ اور کہتے ہیں
خدا کے لئے یار وہ کھلی والے
دشمن سے بھی تو یوں تیرے اہل وفا ملے
شب معراج وہ انداز نرالے ہوتے
کیوں خوشامد کروں رضوان تیری کیا پرواہے
یا محمد جو کوئی آپ پہ شیدا ہو جائے
محمد ہیں رحمت کے برسانے والے
کیا دبدبہ ہے شان ہے شوکت رسول کی
طوبیٰ نہال رستہ گلزار مصطفےٰ
محمد بادشاہ دو جہاں سرور ہمارا ہے
باعث فخر و مباہات گداد شاہ ہے
دیکھو نبی ہمارے ہیں کیسی شان والے
نہیں تھا اور رہیگا پھر نہ کچھ غیر خدا باقی
بتاؤں کون ہے وہ جو شفیع روز محشر ہے
جب ایسی ہے شان کبریا ہے
فلک ہمیں نہ ستا ہمتو ہیں ستائے ہوئے
چمن میں آج خبر بار بار آتی ہے
ترا ہمہ جہاں میں کوے کب ہے
کیا وطن کا دین پتہ کسکو ٹھکانا یاد ہے
نظر دلپر ہے چپ رہنا غضب ہے
یہ کس گلرو کے آنے کی خوشی تھی
سودائے عشق میں ہے اگر درد سر مجھے
پوچھتے کیا ہو تم ملا کیا ہے
حشر میں بھی حشر کردوں ااہ پرتا ثیر سے
انکے در پر سر کو ٹکرانے لگے
نہ قصہ عشق کا ناصح سے ہم بیان کرتے
قصۂ وصل کو ہم آج چکا کے اوٹھے
شوق افلاس میں بسر نہوئی
لڑی ہے آنکھ اک زہرہ جبیں سے
ہم تیرے لئے ااپ کو رسوا نہ کرینگے
ہم تو ہیں ہاتھ وہوے ہوے اپنی جان سے
صدمہ ہائے درد فرقت سے یہ حالت ہوگئی
پامال کوئے ہو کوے پس جائے بلا سے
کسیکی ملنے کی دن رات آرزومیں رہے
خواہش ہے وصل کی تو ہوس کو مٹائی
تم جاؤ فصل گامیں گلستان کو دیکھنے
خاک پر میری جو وہ رشک مسیحا ہو جائے
سنتے ہیں بن سنور کے وہ محفلمیں آئینگے
زمین پہ اور تنہا کوئی آسمان کیلئے
دل کی قیمت لب کا بوسا چاہئے
جان آفت میں نہیں سر پہ مصیبت آئی
اس ضعف میں اوٹھ سکتے ہیں کیا ہم ترے در سے
پھر طور پہ موسیٰ کی تجلی کا اثر ہے
سچہ بات کے کہدینمیں کچھ ڈر تو نہیں ہے
ہاں میں ہاں ساتھ جو تیری ہیں ملانے والے
تمہارے عشق میں کیونکر نہ جان مبتلا نکلی
ہوا عشق مجکو تو کس کا ہوا ہے
خونفشان پھر آج اپنی چشم تر ہو نیکو ہے
وصل کے دن مری تقدیر سے بنکر آئے
نہ تو جادو نہ تو افسون نہ تو نسخجر چلے
جنبش لبھائے جاناں کی عجب تاثیر ہے
ٹوٹی ہوئی سفال کو گوہر بنا ئینگے
تیری عاشق کی گئی جان بڑی مشکل سے
کبھی ہے فصل گل گاہے حزاں ہے
کہتا ہے دریچہ پر چلمن دوہری کیوں ہے
صبح نوروز سے اپنی شب خلوت اچھی
آج چرچے ہیں مرے گھر آمد دلدار کے
جیسی شیرب کی ہواروح فزا آتی ہے
قاصد ہے نامہ بر ہے نہ خط ہے پیام ہے
بتوں کا عشق اور میں پارسائی سخت مشکل ہے
عمر کے دن ہیں بہر حال گزر جانے کے
چمن پہ پھول نہ بلبل اگر ہزار بنے
لرزاں ہے مہر اوس پری پیکر کے سامنے
کیوں لے چلی اوڑا کے صبا کوئی یار سے
جگر کا دے سے دل کا زخم گہرا ہو جاتا ہے
اگر ترک ستم ودستم ایجاد کرینگے
انکے محفل میں اگر شمع ہے جلنے کیلئے
تو ہیں ہائے برسر نبر شراب کی
کیوں اولجھتے ہو عبث زلف کی بل کھانے سے
پہلو میں نہیں ہے دل مضطر کئے دن سے
پیشوائی کو صنو برلب جو آتا ہے
منحصر مرنے پہ ہے وصل تو مردیکھنگے
کس کو دیتا ہے یہاں ساغر وبوتل بھر کے
دل کا یہ حال خراب دیکھئے کب تک رہے
کجی ابرومیں ہے ترچھی نظر بھی
الفت ہے میرے دل کو اسی کجلاہ سے
دل نہ چلا یا کبھی تیر نظر سے پہلے
کیوں آج الحذر کی صدا ہے پگاہ سے
بہت دن جی کے بھی اک روز یارو ہمکو مرنا ہے
سچہ سچہ بتا کہ جھوٹ نہ کہنا صبا کبھی
مرض عشق کی شدت ہی سہی
مرمٹے پر طلب کی خونہ گئی
دیکھا نہ کبھی اس نے مجھے ایک نظر سے
ابھی شعاع مہ وآفتاب باقی ہے
یہی مدّت سے دلمیں ہے تمناے نہاں میری
کیا مجھسے خطا ہوے بتادے
عدو کا مرا امتحان ہو رہا ہے
حسن میں مشہور تم گر ہوگئے
غم نہیں بھولا خوشی کے سامنے
اے دل جو ان سے ملنے کا تجھکو خیال ہے
درد اور مرض اور دوا اور رہے کچھ ہے
طعن دشمن سے نہ یوں گھبرائی
حبذ اہرسمت کلبانگ مبارک باد ہے
حکم اکبار اگر تیرا خدا یا ہو جائے
ہر رنگ میں چمکیگی جو چیز کھری ہوگی
تیرے قدموں کی قسم مجھپر عنایت کب ہوے
ملیگا شوق سا تجکو نہ باوفا کوئے
اعجاز لب پہ آب بقا بھی دہن میں ہے
جب کہچی تلوار انکے ابروی خمدار کی
جراستان سن نہ میری طول بینی ہوجائے
بلبل کے ساتھ اپنے بھی شرکت وطن میں ہے
بہار رشک گلزار جنان ہے
اکدم کا بھی ہم آج بھرو سا نہیں رکھتے
میں پہ پس مردن وہ آکے بکا کرتے
بتا دن ہیں کہاں اللہ والی
عمر روان کے ہائے دن ایسے گزر گئے
ہاتھ پاؤں ہیں فقط بس نام کے
گھٹا ہے لطف کی چھایا ہے ابر رحمت بھی
غضب کے شوخ آفت کے بھرے اک فتنہ زانکلے
اپنی بگڑی ہوئی تقدیر بنالے کوئی
ساتھ اپنے کب امیر وشاہ دولت لے چلے
عبد کے دن وہ رفیون سے بلخیر رہے
پس از حمد خدا نعیت شفیع المذنبین ہوگی
ہوں دل سے فدا اس پہ جو محبوب خدا ہے
مہر محشر کی تمازت سےجو حیران ہونگے
صدقے انکے وہ میرے گھر آئے
جلوہ گر آنکھوں میں ہو یارب جمال مصطفےٰ
قربان چشم وسر کے صدقے لب و دہان کے
ہوا کہا تار ہا ہوں انکے کوچہ کی جو بچپن سے
آج عشرت فزا خدائی ہے
بھری مجلس میں کہدونگا جو کچھ ہے بات ایماں کی
جب محمد مصطفےٰ کی جلوہ فرمائی ہوئی
جسے میں دیکھتا ہوں وہ مریض زار علوی ہے
کہاں بارامانت اٹھ سکا ہے حور وغلماں ہے
جو وہ دلدادۂ عشق بنی آل پیمبر ہے
ڈس نہ جاے کہیں گمان ہے مجھے
اٹھ کے کیوں جارہے ہو محفل سے
یقیناً شوق نے پائے ہے لذت وصل دلبر سے
متفرقات اردو
جلوۂ رخ یار نے دکھا یا
سب ہیں تیرے بندگان زر خرید
تو وہ ہے ترا نہیں ہے ثانی
پڑے جو ابروی شاہد میں کیا محال گرہ
سر پہ نوشہ کے ہے کس شان سے زیبا ہرا
خوش طرز و خوشنما ہے زریں نگار سہرا
الٰہی سب ترے بندے ہیں تو رب
گنبد چرخ کوہے جس سے شرف
محو ذات خدا کا صندل ہے
آج ہے صندل شہ خواجہ محی الدین کا
آج ہے سیّد نا شہرۂ آفاق کا پنکھا
صندل عرس مبارک سینا حضرت شاہ خواجہ محی الدین صاحب قبلہ
واقف رمزو راز کا پنکھا
پنکھا عرس مبارک سید نا حضرت شاہ محمد حسن صاحب قبلہ سرۂ العزژ
مدحیہ مسدّس ترجیع بند
عاشق احمد ذی شاں کو نہیں جانتے کیا
ہے دوست سے لگاؤ نہ دشمن سے مجکو کد
دیگر مسدّس ترجیع بند
کسقدر جوش پہ ہے آج طبیعت میری
قصیدہ ور تہنیت جشن سالگرہ چھل سالہ اعلٰحضرت بند گا نعالی متعالی باتہ
مطلع ثانی
آسمان جانے ہے کیا شان ہے شوکت میری
مستی جوش خوشی میں جھومتی ہیں ڈالیاں
قصیدہ تہنیت جشن سالگرہ مبارک مبارک باتہ مشاعرہ نواب اقبال ایاز جنگ بہادر
مطلع ثانی
کون وہ نازاں ہے جسکے نام پر سارا جہاں
قطعہ مدحیہ در صفت جناب حکیم مصباح الدینخاں صاحب دہلوی
جو بن پہ رہے بہار خواجہ گلشن
روح مجنوں کو رہا کرتی ہے لیلیٰ کی تلاش
حکیم نامور مصباح دیں کے جو ششش دال سے
وہ نظر آتا ہے جو لعل و گہر کا سہرا
شہ ملک دکن ہر دم ترا اقبال یاد رہو
وہ چمکتا ہے جو نوشاہ کے سرپرسہرا
کچھ ٹھکانہ ہے مری جرم وخطا کا یارب
سر پہ نوشہ اسد اللہ نے باندھا سہرا
غم حسین جہاں میں امام ہے غم کا
کسکا منہ ہے آپکے مدحت میں جو کھولے زباں
پوچھتے کیا ہو کس کا صندل ہے
غزل مدحیہ در شان حضرت موصوف
اے صبا بھر خدا پہونچا سلام
نام علی کے اور نمک کے عدد ہیں ایک
خدا کے دوست حق کے موردرحمت کا صندل ہے
قطعہ تاریخ بناء مسجد جدید کنا رخوض گوشہ محل واقع بلدہ حیدر آباد دکن
کنار حوض جو گوشہ محل کے ہے مسجد
چھٹی ماہ ذی الحج کی دن پیر کا تھا
بہار آئی چمن میں ہو مبارک تجکو اے بلبل
جناب بوالعلا کے میکدہ سے
ہندی نژاد صورت درویش ایک شخص
خدا کے فضل سے ملک دکن تقدیر والا ہے
خوش امین صاحب عرب دل ہے ترے احباب کا
ملازمت میں چوالیس سال گذری ہیں
خدا رکھے سلامت رانی رنگانا یکہسا کو
وہ بختور جو ہیں تحصیدلدار نالیسر
ہمدمو کیا پوچھتے ہو ہمسے کیا جاتا رہا
گئے سوئے جنت بشارت حسین
مشہور ہے جو موضع جاگیر نالیسر
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.