سرورق
زبان سے شکر میں کیا کیا کروں خلاق اکبر کا
قصائد
کرے کیا وصف کوئی آل واصحاب پیمبرکا
زہے محبوب سبحانی محی الدین جیلانی
حبیب خالق اکبر معین الدین چشتی ہے
واصل ذات خدا ہے خواجۂ عبد الشکور
قبلۂ دارین ماعبد الغنی
میں کس زباں سے کروں وصف وشکران کا بیان
ہے بنام کبریا آغاز اس دیوان کا
بنام ایزد زبان خامہ پر ہے نام یزداں کا
شمس و قمر کواکب سب میں ہے نور تیرا
خودی اپنی مٹاکر آپ کو جس نے فنا دیکھا
کیوں تصور میں نہ ہر دم ولای مصطفی
مجھ کو ہنگامۂ محشر کا نہ کچھ ڈر ہوگا
جو فدا دلسے نبی کے نام پر ہو جائیگا
بام پردہ رشک مہ گر جلوہ گر ہو جائیگا
صدق سے جو طالب خیرالبشر ہو جائیگا
داغ دل ہر ایک شب فرقت میں اخگر ہو گیا
شب جو مہماں مراوہ ماہ منورہوتا
کشتہ ہوں ہمدمو صنم گلعذار کا
نہ شاکی ظلم کا ہوں میں نہ خواہاں ہوں عنایت کا
ہجوم اس بت کے گرد اگرد ہے جو ساری خلقت کا
جس کو سودا ہو گیا ہے گیسو دلدار کا
جسوقت سے خفا وہ مرا یار ہوگیا
کس کی آمد کا یہ سامان بام پر ہونے لگا
میں جب مضمون لکھوں گا شوق سے نعت پیمبر کا
نظر آئے اگر اسکو رخ پرنور دلبر کا
ہاتھ میں ہاتھ گریبان پہ گریبان ہوگا
دل حسن پہ زہرہ کے جو مائل نہیں ہوتا
کون سلجھائیگا ان کا تن گر کھل جائیگا
گر ترے رخ کے مقابل مہ تاباں ہوتا
کسی دن گھر مرے آیا تو ہوتا
یہ جو باندھا گیا نوشاد کے سر پر سہرا
ردیف با
شوق بڑھتا چلا مرا یارب
ردیب پے
آج آیا ہے مرا رشک قمر آپ سے آپ
ردیف تا
دل نہ ہوگا حشرتک زنہار جویاے بہشت
آیا نہ میرے پاس وہ دلبر تمام رات
ردیف ثا
مانگتے ہو آتے ہی رخصت توتے ہو عبث
ہے دل کو مرے یوں رخ جاناں کی محبت
ردیف جیم
عزم تحریر بیان نعت پیغمبر ہےآج
جوبن پہ اس پری کے عجب ہے بہارآج
گیسووں میں اپنے تو صیاد کرکے شانہ آج
ردیف حا
آجا ہمارے پاس تو ایجان کسیطرح
ردیف خا
پہن کر پوشاک بیٹھا ہے جو میرا یار سرخ
ردیف دال
آیا جو سر عبد میں سوداے محمد
میں ہوں جان ودل سے نثار محمد
یارب میں ازل سے ہی ہوں بیمار محمد
خون دل ہے شراب کے مانند
چمن میں موسم گل ابتوآگیا صیاد
کب ہے وہ ماہتاب کے مانند
کہاں یہ فصل گل اور میں کہاں بھلا صیاد
تمہاری چوٹی میں آتا ہے جو نظر تعویذ
ردیف ذال
ہے بھروسا حشر میں خیرالبشر کی یاد پر
ردیف را
غش مجھے تنہا نہیں ہے تیرا جلوا دیکھ کر
جان دیدے صورت منصور چڑھ کر دار پر
لگائے وہ اگر تلوار سر پر
کرو تم قتل تو اتنا سمجھ کر
دیا ہے دل تمہیں اپنا سمجھ کر
ردیف زا
یاد آتے ہیں مجھے وہ گیسو بلدار روز
اسکے کوچے میں چلا کرتی ہیں اب تلوار روز
اسطرح گیسوے شبگون ہیں رخ جاناں کے پاس
ردیف سین
ردیف شین
ہوں مریض ہجر مجھ کو لیچلو جاناں کے پاس
اسطرح دل کو مرے رہتی ہے دلبر کی تلاش
اس طرح ہے دل کو میرے قصر دلبر کی تلاش
ردیف صاد
جس مکان جشن میں کرتا ہے وہ دلدار رقص
بزم اعدا میں کروگے تم اگر ہر بار رقص
ردیف ضاد
دل کو نہ عیش سے ہے نہ آرام سے غرض
مطلب نہ کفر سے ہے نہ اسلام سے غرض
ایسا ہے دل کو دیدۂ گریاں سے ارتباط
ردیف طاء
یوں دل کو میرے ہے قد جاناں سے ارتباط
ردیف ظاء
میکشی سے تجھے جس دن سے ہے نفرت واعظ
محفل روشن میں تیری شعلہ رو گر آئے شمع
ردیف عین
تمہارا چہرۂ روشن جو دیکھ پائے چراغ
قبر پروانہ پہ گر کوئی جلا کر لائے شمع
ردیف غین
ردیف فا
جس کی قرآن میں کرے خالق اکبر تعریف
ہم اڑے جاتے ہیں ایسے کوی جاناں کی طرف
ہے جن آنکھوں کو تصور تیرے دندان کی طرف
ہوتے ہم گر نہ تری زلف رسا سے واقف
وہی ہوویگا تری زلف دوتا سے واقف
ردیف قاف
کچھ ایک میں ہی نہیں ترا جان جاں مشتاق
ہیں گیسو تمہارے بڑھانے کے لایق
قربان دل تو کیا میں کروں نذر جاں تلک
درد فراق میں ہے گئی اپنی جاں تلک
اف بھی نہیں کروں گا جو نکلے گی جاں تلک
میں ہوں تمہارے ہجر میں بیمار یا رسول
ردیف لام
بلبل کے سر میں کیوں نہ بھرپھر ہواے گل
پہلو سے عندلیب کے گراٹھکے جائے گل
کوے بتاں میں جائیگا گر باربار دل
مضطر ہے تیرے ہجر میں سیماب دار دل
غیر گل کون سے تیرا فسانا بلبل
ہوگی جس وقت چمن سے توروانا بلبل
اگر جمع ہوں سب زمانے کے قابل
میں ہوں بزم جاناں میں جانے کے قابل
ردیف میم
احمد مرسل مہر نبوت ﷺ
والشمس رخ نیکوی محمد ﷺ
کس طرح یار تجھ کو پائیں ہم
حال اپنے کسے سنائیں ہم
اسکو تنہا جس گھڑی پاتے ہیں ہم
دست وپامیں ڈالکر زنجیر ہم
کھاکے دلبر نگہ کا تیر ہم
زلف میں پھر دل کو الجھائیں گے ہم
عاشق کسی کے ہوتے نہیں ابتدا سے ہم
تم دکھا دو روی انور یا شفیع المذنبیں
ردیف نون
السلام اے نور مہر ذات رب العالمیں
وہ زلفوں کو کیا اپنے سلجھا رہے ہیں
رخ روشن اپنا وہ دکھلا رہے ہیں
میں نہ ایک ساعت رہا آرام میں
خط جوآیا وصل کے پیغام میں
پہلے تو رکھا مجھے آرام میں
مقید ہوں کبھی آزاد ہوں میں
وہ تو عیار ہیں کب وعدہ وفا کرتے ہیں
بر زخ شیخ میں جو خود کو فنا کرتے ہیں
جو ہم مضمون وصف چشم میں ایجا د کرتے ہیں
دل یہ ہے جیسے خیال کا کل دلدار میں
کیا اشاروں سے یار آنکھوں میں
پوشیدہ یہ نہیں رخ روشن نقاب میں
نہیں اب ٹھکانا ہمارا چمن میں
ردیف واو
نہیں یہ ہند خوش آتا ہے شاہ دوسرا مجھ کو
ستاتی ہے جدائی آپ کی یا مصطفیٰ مجھ کو
مجھ کو اس یار کے گھر جانے دو
انکے در پر ہمیں مر جانے دو
جاؤ گے تم جو بام پر دیکھو
نہ رکھو زمین لاشہ ہمارا دیکھو
نہ دکھلا کاکل خمدار مجھ کو
سمجھتے ہو جو خدمتگار مجھ کو
ردیف ہا
ہر روز مرے سر میں ہے سوداے مدینہ
یہ ہے دل میں تمناے مدینہ
محبوب ذات کبریا بلغ العلیٰ بکالہ
ہے پاک ذات مصطفیٰ صلوٰ علیہ وآلہ
تیر ابرو کو نکیوں الفت ہو میرے دل کے ساتھ
جس وقت سے دیکھی ہے تری رشک قمر آنکھ
آتے ہیں تری بزم میں اغیار ہمیشہ
سنکر تری خلخال کی جھنکار ہمیشہ
ردیف یاے معروف
طہور ذات خدا ہے محمد عربی
ہے گل ترکی روشن باغ میں خنداں کوئی
سر پہ لیکر سومقتل ہے چلا جان کوئی
میں نے سمجھتا تھا اسے باجی ہے انساں کوئی
جو صورت دیکھ لی اس مہ لقا کی
عبث خواہش میں تو پھرتا ہے اے دلگیر پتھر کی
کیا جفا مجھ پہ اس قدر نہ ہوئی
رہے گا جسم میں چندے اگر سوز نہاں کوئی
ردیف یاے مجہول
محمد تاج فرق انبیا ہے
محمد مالک ہردوسرا ہے
جسے عشق حبیب کبریا ہے
فدا میں اس پہ وہ مجھ سے خفا ہے
رخ اپنا گر دکھادے ذرا وہ نقاب سے
طبیبوں کی نہیں اس میں خطا ہے
کیا تھا وعدہ آنیکا جو شب کو یار جانی نے
رولایا خون جہاں کو تیری چشم ارغوانی نے
چمن میں گل کو شرمایا خندہ دھانی نے
ترا کلمہ صنم پڑھتا ہر اک گبر و مسلمان ہے
ہوا ہے ابر ہے مینا ہے سیر بستان ہے
خیال وصل ہجراں میں نیا حال اپنا اے جان ہے
وہ گلرو آج شاید خانۂ دشمن میں مہمان ہے
مجھے آٹھوں پہر اسکا سنا تا رنج ہجراں ہے
زلف سلجھائی انکی شانے سے
جاتا ہے دل کو یوں وہ ستمگر لئے ہوئے
ہجر میں ہم بچے ہیں مرمر کے
میرے انداز یہ تحمل کے
ہار دالے گلے میں ہیں گل کے
تڑپتے گزری ہے عمر ساری نجانا اب تک وصال کیا ہے
ترا محتاج ہر شاہ وگدا ہے
ہمارا قتل اسباب قضا ہے
دہان زخم دل کی التجا ہے
کیے جاتا جو وہ جورو جفا ہے
پھنسا لیتا ہے جسکو چاہتا ہے
تونے جب سے کیا اشارا ہے
لیا ہے جس نے دل میرا دغا سے
بتونہ ظلم کرو اس قدر خدا کے لیے
خوشامد سے نہ عجز والتجا ہے
زلف شبگون مجھے دکھاتا ہے
تغافل گرچہ انداز ادا ہے
امید کیوں نہ ہو مجھے لطف آلہ کی
ہوتے تیار ہیں جب وہ کہیں چلنے کےلیے
دروصف اجمیر شریف
ملک ہندوستان میں باغ پر فضا اجمیر ہے
خمسہ
مسدس
قطعات از مصنف
رباعیات از مصنف
تمام شد
تاریخ طبع دیوان
کیوں کر نہ اسکے طبع سے روشن ہوں آنکھیں خلق کی
آپ سا اے خدا کے یار کسے
غزل نعتیہ
رکھتے ہیں وہ امید وار کسے
غزل عاشقانہ
AUTHORKHanjar ajmerii
YEAR1890
CONTRIBUTORAnjuman Taraqqi Urdu (Hind), Delhi
PUBLISHER Matba Nizami, Kanpur
AUTHORKHanjar ajmerii
YEAR1890
CONTRIBUTORAnjuman Taraqqi Urdu (Hind), Delhi
PUBLISHER Matba Nizami, Kanpur
سرورق
زبان سے شکر میں کیا کیا کروں خلاق اکبر کا
قصائد
کرے کیا وصف کوئی آل واصحاب پیمبرکا
زہے محبوب سبحانی محی الدین جیلانی
حبیب خالق اکبر معین الدین چشتی ہے
واصل ذات خدا ہے خواجۂ عبد الشکور
قبلۂ دارین ماعبد الغنی
میں کس زباں سے کروں وصف وشکران کا بیان
ہے بنام کبریا آغاز اس دیوان کا
بنام ایزد زبان خامہ پر ہے نام یزداں کا
شمس و قمر کواکب سب میں ہے نور تیرا
خودی اپنی مٹاکر آپ کو جس نے فنا دیکھا
کیوں تصور میں نہ ہر دم ولای مصطفی
مجھ کو ہنگامۂ محشر کا نہ کچھ ڈر ہوگا
جو فدا دلسے نبی کے نام پر ہو جائیگا
بام پردہ رشک مہ گر جلوہ گر ہو جائیگا
صدق سے جو طالب خیرالبشر ہو جائیگا
داغ دل ہر ایک شب فرقت میں اخگر ہو گیا
شب جو مہماں مراوہ ماہ منورہوتا
کشتہ ہوں ہمدمو صنم گلعذار کا
نہ شاکی ظلم کا ہوں میں نہ خواہاں ہوں عنایت کا
ہجوم اس بت کے گرد اگرد ہے جو ساری خلقت کا
جس کو سودا ہو گیا ہے گیسو دلدار کا
جسوقت سے خفا وہ مرا یار ہوگیا
کس کی آمد کا یہ سامان بام پر ہونے لگا
میں جب مضمون لکھوں گا شوق سے نعت پیمبر کا
نظر آئے اگر اسکو رخ پرنور دلبر کا
ہاتھ میں ہاتھ گریبان پہ گریبان ہوگا
دل حسن پہ زہرہ کے جو مائل نہیں ہوتا
کون سلجھائیگا ان کا تن گر کھل جائیگا
گر ترے رخ کے مقابل مہ تاباں ہوتا
کسی دن گھر مرے آیا تو ہوتا
یہ جو باندھا گیا نوشاد کے سر پر سہرا
ردیف با
شوق بڑھتا چلا مرا یارب
ردیب پے
آج آیا ہے مرا رشک قمر آپ سے آپ
ردیف تا
دل نہ ہوگا حشرتک زنہار جویاے بہشت
آیا نہ میرے پاس وہ دلبر تمام رات
ردیف ثا
مانگتے ہو آتے ہی رخصت توتے ہو عبث
ہے دل کو مرے یوں رخ جاناں کی محبت
ردیف جیم
عزم تحریر بیان نعت پیغمبر ہےآج
جوبن پہ اس پری کے عجب ہے بہارآج
گیسووں میں اپنے تو صیاد کرکے شانہ آج
ردیف حا
آجا ہمارے پاس تو ایجان کسیطرح
ردیف خا
پہن کر پوشاک بیٹھا ہے جو میرا یار سرخ
ردیف دال
آیا جو سر عبد میں سوداے محمد
میں ہوں جان ودل سے نثار محمد
یارب میں ازل سے ہی ہوں بیمار محمد
خون دل ہے شراب کے مانند
چمن میں موسم گل ابتوآگیا صیاد
کب ہے وہ ماہتاب کے مانند
کہاں یہ فصل گل اور میں کہاں بھلا صیاد
تمہاری چوٹی میں آتا ہے جو نظر تعویذ
ردیف ذال
ہے بھروسا حشر میں خیرالبشر کی یاد پر
ردیف را
غش مجھے تنہا نہیں ہے تیرا جلوا دیکھ کر
جان دیدے صورت منصور چڑھ کر دار پر
لگائے وہ اگر تلوار سر پر
کرو تم قتل تو اتنا سمجھ کر
دیا ہے دل تمہیں اپنا سمجھ کر
ردیف زا
یاد آتے ہیں مجھے وہ گیسو بلدار روز
اسکے کوچے میں چلا کرتی ہیں اب تلوار روز
اسطرح گیسوے شبگون ہیں رخ جاناں کے پاس
ردیف سین
ردیف شین
ہوں مریض ہجر مجھ کو لیچلو جاناں کے پاس
اسطرح دل کو مرے رہتی ہے دلبر کی تلاش
اس طرح ہے دل کو میرے قصر دلبر کی تلاش
ردیف صاد
جس مکان جشن میں کرتا ہے وہ دلدار رقص
بزم اعدا میں کروگے تم اگر ہر بار رقص
ردیف ضاد
دل کو نہ عیش سے ہے نہ آرام سے غرض
مطلب نہ کفر سے ہے نہ اسلام سے غرض
ایسا ہے دل کو دیدۂ گریاں سے ارتباط
ردیف طاء
یوں دل کو میرے ہے قد جاناں سے ارتباط
ردیف ظاء
میکشی سے تجھے جس دن سے ہے نفرت واعظ
محفل روشن میں تیری شعلہ رو گر آئے شمع
ردیف عین
تمہارا چہرۂ روشن جو دیکھ پائے چراغ
قبر پروانہ پہ گر کوئی جلا کر لائے شمع
ردیف غین
ردیف فا
جس کی قرآن میں کرے خالق اکبر تعریف
ہم اڑے جاتے ہیں ایسے کوی جاناں کی طرف
ہے جن آنکھوں کو تصور تیرے دندان کی طرف
ہوتے ہم گر نہ تری زلف رسا سے واقف
وہی ہوویگا تری زلف دوتا سے واقف
ردیف قاف
کچھ ایک میں ہی نہیں ترا جان جاں مشتاق
ہیں گیسو تمہارے بڑھانے کے لایق
قربان دل تو کیا میں کروں نذر جاں تلک
درد فراق میں ہے گئی اپنی جاں تلک
اف بھی نہیں کروں گا جو نکلے گی جاں تلک
میں ہوں تمہارے ہجر میں بیمار یا رسول
ردیف لام
بلبل کے سر میں کیوں نہ بھرپھر ہواے گل
پہلو سے عندلیب کے گراٹھکے جائے گل
کوے بتاں میں جائیگا گر باربار دل
مضطر ہے تیرے ہجر میں سیماب دار دل
غیر گل کون سے تیرا فسانا بلبل
ہوگی جس وقت چمن سے توروانا بلبل
اگر جمع ہوں سب زمانے کے قابل
میں ہوں بزم جاناں میں جانے کے قابل
ردیف میم
احمد مرسل مہر نبوت ﷺ
والشمس رخ نیکوی محمد ﷺ
کس طرح یار تجھ کو پائیں ہم
حال اپنے کسے سنائیں ہم
اسکو تنہا جس گھڑی پاتے ہیں ہم
دست وپامیں ڈالکر زنجیر ہم
کھاکے دلبر نگہ کا تیر ہم
زلف میں پھر دل کو الجھائیں گے ہم
عاشق کسی کے ہوتے نہیں ابتدا سے ہم
تم دکھا دو روی انور یا شفیع المذنبیں
ردیف نون
السلام اے نور مہر ذات رب العالمیں
وہ زلفوں کو کیا اپنے سلجھا رہے ہیں
رخ روشن اپنا وہ دکھلا رہے ہیں
میں نہ ایک ساعت رہا آرام میں
خط جوآیا وصل کے پیغام میں
پہلے تو رکھا مجھے آرام میں
مقید ہوں کبھی آزاد ہوں میں
وہ تو عیار ہیں کب وعدہ وفا کرتے ہیں
بر زخ شیخ میں جو خود کو فنا کرتے ہیں
جو ہم مضمون وصف چشم میں ایجا د کرتے ہیں
دل یہ ہے جیسے خیال کا کل دلدار میں
کیا اشاروں سے یار آنکھوں میں
پوشیدہ یہ نہیں رخ روشن نقاب میں
نہیں اب ٹھکانا ہمارا چمن میں
ردیف واو
نہیں یہ ہند خوش آتا ہے شاہ دوسرا مجھ کو
ستاتی ہے جدائی آپ کی یا مصطفیٰ مجھ کو
مجھ کو اس یار کے گھر جانے دو
انکے در پر ہمیں مر جانے دو
جاؤ گے تم جو بام پر دیکھو
نہ رکھو زمین لاشہ ہمارا دیکھو
نہ دکھلا کاکل خمدار مجھ کو
سمجھتے ہو جو خدمتگار مجھ کو
ردیف ہا
ہر روز مرے سر میں ہے سوداے مدینہ
یہ ہے دل میں تمناے مدینہ
محبوب ذات کبریا بلغ العلیٰ بکالہ
ہے پاک ذات مصطفیٰ صلوٰ علیہ وآلہ
تیر ابرو کو نکیوں الفت ہو میرے دل کے ساتھ
جس وقت سے دیکھی ہے تری رشک قمر آنکھ
آتے ہیں تری بزم میں اغیار ہمیشہ
سنکر تری خلخال کی جھنکار ہمیشہ
ردیف یاے معروف
طہور ذات خدا ہے محمد عربی
ہے گل ترکی روشن باغ میں خنداں کوئی
سر پہ لیکر سومقتل ہے چلا جان کوئی
میں نے سمجھتا تھا اسے باجی ہے انساں کوئی
جو صورت دیکھ لی اس مہ لقا کی
عبث خواہش میں تو پھرتا ہے اے دلگیر پتھر کی
کیا جفا مجھ پہ اس قدر نہ ہوئی
رہے گا جسم میں چندے اگر سوز نہاں کوئی
ردیف یاے مجہول
محمد تاج فرق انبیا ہے
محمد مالک ہردوسرا ہے
جسے عشق حبیب کبریا ہے
فدا میں اس پہ وہ مجھ سے خفا ہے
رخ اپنا گر دکھادے ذرا وہ نقاب سے
طبیبوں کی نہیں اس میں خطا ہے
کیا تھا وعدہ آنیکا جو شب کو یار جانی نے
رولایا خون جہاں کو تیری چشم ارغوانی نے
چمن میں گل کو شرمایا خندہ دھانی نے
ترا کلمہ صنم پڑھتا ہر اک گبر و مسلمان ہے
ہوا ہے ابر ہے مینا ہے سیر بستان ہے
خیال وصل ہجراں میں نیا حال اپنا اے جان ہے
وہ گلرو آج شاید خانۂ دشمن میں مہمان ہے
مجھے آٹھوں پہر اسکا سنا تا رنج ہجراں ہے
زلف سلجھائی انکی شانے سے
جاتا ہے دل کو یوں وہ ستمگر لئے ہوئے
ہجر میں ہم بچے ہیں مرمر کے
میرے انداز یہ تحمل کے
ہار دالے گلے میں ہیں گل کے
تڑپتے گزری ہے عمر ساری نجانا اب تک وصال کیا ہے
ترا محتاج ہر شاہ وگدا ہے
ہمارا قتل اسباب قضا ہے
دہان زخم دل کی التجا ہے
کیے جاتا جو وہ جورو جفا ہے
پھنسا لیتا ہے جسکو چاہتا ہے
تونے جب سے کیا اشارا ہے
لیا ہے جس نے دل میرا دغا سے
بتونہ ظلم کرو اس قدر خدا کے لیے
خوشامد سے نہ عجز والتجا ہے
زلف شبگون مجھے دکھاتا ہے
تغافل گرچہ انداز ادا ہے
امید کیوں نہ ہو مجھے لطف آلہ کی
ہوتے تیار ہیں جب وہ کہیں چلنے کےلیے
دروصف اجمیر شریف
ملک ہندوستان میں باغ پر فضا اجمیر ہے
خمسہ
مسدس
قطعات از مصنف
رباعیات از مصنف
تمام شد
تاریخ طبع دیوان
کیوں کر نہ اسکے طبع سے روشن ہوں آنکھیں خلق کی
آپ سا اے خدا کے یار کسے
غزل نعتیہ
رکھتے ہیں وہ امید وار کسے
غزل عاشقانہ
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.