فہرست
نکل کے آیا کہاں سے ہرا بھرا رستہ
سنتے ہیں جو رہ نجات خواب و خیال ہی نہ ہو
زخم دیکھے نہ مرے زخم شدت دیکھے
ہجر ہے میرے چار سو ہجر کے چار سو خلا
آنکھ کھلنے پہ بھی ہوتا ہوں اسی خواب میں گم
منزل خواب ہے اور محو سفر پانی ہے
بدلنے دیتا نہیں ہے وہ کوئی منظر بھی
پہلی بارش تلک سنبھال مجھے
نظر نظر میں ہیں روشن نئی رتوں کے چراغ
کسی عکس نو کی امیں رہی میری منتظر
اب دل بھی دکھاؤ تو اذیت نہیں ہوتی
بن بھی کیسے سکتا تھا دوسروں سا ڈھب اپنا
نشان بے نشانی بھی وہیں پر چھوڑ آیا ہوں
روشن سر افلاک ہے خوش رنگ ستارہ
وحشت کے لیئے جائے سکونت ہی کہاں ہے
ملے گا کیا مجھے تکرار کرکے
کسی کے صبح ومساء سے ابھی نہیں نکلا
راستہ دیکھتا رہتا ہے برابر میرا
آنکھوں میں خواب تازہ ہے دل میں نیا خیال بھی
ہے دل کو تیری قربت کی ضرورت
خواہش سے تو جاسکتے نہیں خاک کے نیچے
کب تلک یوں صورت سیماب رہ سکتے تھے ہم
کتنی باتیں سنتا ہوں اب حیرت اور افسوس کے ساتھ
یوں ہی رکھو گے امتحان میں کیا
کوئی چشمک سی رہی گردش ایّام کے ساتھ
یہ جو ہم عرصہ گہ دہر سے بیزار ہوئے
آتا ہوں یوں نظر جو میں یکسر کھلا ہوا
حال کھلتا ہی نہیں دل کی پریشانی کا
نکل رہا ہوں یقیں کی حد سے گماں کی جانب
کسی الاؤ کا دل میں نشاں ہی کافی ہے
اگر ہر چیز میں اس نے اثر رکھا ہوا ہے
خاک سے خواب تلک ایک سی ویرانی ہے
رہا نہیں ہے سخن اتنا معتبر میرا
چراغ خواب بہ عکس کمال رہ جائے
ستارہ آنکھ میں دل میں گلاب کیا رکھنا
جو دستیاب ہے اس خاک پر نہیں رہنا
فلک پہ آنکھ زمیں پر دماغ رکھے گا
جس کی نہیں تعبیر کوئی اس خواب میں ہے
سیل شورش ہستی گرچہ ہے اترنے کو
رہا بھی دل میں ہنگامہ تو اب تھوڑا رہے گا
عجب اس زندگی کا سلسلہ ہے
کوئی ہنر تو مری چشم اشکبار میں ہے
چڑھے ہوئے ہیں جو دریا اتر بھی جائیں گے
دل میں کوئی ملال ہے ہی نہیں
بچھڑ جانے کا بالآخر اشارہ کر رہا ہے
اک خواب کسی عرصۂ تعبیر میں ہونا
اک عکس کسی گوہر مقصود میں ہونا
باب جب حد سے بڑھی بے باک بھی ہونا پڑا
گئی رتوں سے تعلق بحال کیا رکھنا
لے گئی دور کہیں مجھ کو روانی میری
چراغ ہاتھ میں ہو آنکھ میں ستارہ ہو
ستارہ تھا تو کسی کی نگاہ میں ہوتا
سوچتی آنکھوں میں عکس رائیگاں رہ جائے گا
گہری چپ میں وا لب اظہار کرنا ہے مجھے
سفر کا یا قیام کا کوئی اشارہ بھی نہیں
ہاتھ کچھ کرنا پڑے گا گردش حالات سے
جسم کو تونے دیا تھا نوجوانی کا عذاب
رنج کا پہلو خوشی میں کوئی ہونا چاہیئے
کوئی نقش بنانا ہوگا آنکھوں اور ہواؤں میں
کرنوں سے آفتاب کو بیزار دیکھ کر
سپاٹ راہ پہ بنجر مکان باقی ہے
اسی لیئے تو شبیہیں سبھی مثالی ہیں
شمع امید بجھا دی جائے
اگرچہ دل تو زمیں سے مرا لگا ہوا ہے
اتنا کرم فرمانا سائیں
کیا کھویا کیا پایا سائیں
کوئی دھڑکا لگا رہا سائیں
تیرا کرم ہے مجھ پر سائیں
اس سمت بھی ایک نظر سائیں
مرے حق میں کوئی دعا سائیں
غزل کہوں ظفر اقبال کے طریقے سے
موج ہوا سے کٹ سکتا ہوں
بن گیا وہ ناخدائے تبصرہ
نہ پوچھ اب صورت احوال یارا
نہیں کرتا میں پردہ چاک یارا
نہ کھلوا مجھ سے ساری بات یارا
کبھی تو آؤں گا تیرے کسی شمار اندر
ہر بات پہ تم کہتے ہو جب چوں کہ چنا چہ
متفرق اشعار
فلیپ
AUTHORअकरम महमूद
YEAR2010
CONTRIBUTORअकरम महमूद
PUBLISHER सांझ पब्लिकेशंस, लाहौर
AUTHORअकरम महमूद
YEAR2010
CONTRIBUTORअकरम महमूद
PUBLISHER सांझ पब्लिकेशंस, लाहौर
فہرست
نکل کے آیا کہاں سے ہرا بھرا رستہ
سنتے ہیں جو رہ نجات خواب و خیال ہی نہ ہو
زخم دیکھے نہ مرے زخم شدت دیکھے
ہجر ہے میرے چار سو ہجر کے چار سو خلا
آنکھ کھلنے پہ بھی ہوتا ہوں اسی خواب میں گم
منزل خواب ہے اور محو سفر پانی ہے
بدلنے دیتا نہیں ہے وہ کوئی منظر بھی
پہلی بارش تلک سنبھال مجھے
نظر نظر میں ہیں روشن نئی رتوں کے چراغ
کسی عکس نو کی امیں رہی میری منتظر
اب دل بھی دکھاؤ تو اذیت نہیں ہوتی
بن بھی کیسے سکتا تھا دوسروں سا ڈھب اپنا
نشان بے نشانی بھی وہیں پر چھوڑ آیا ہوں
روشن سر افلاک ہے خوش رنگ ستارہ
وحشت کے لیئے جائے سکونت ہی کہاں ہے
ملے گا کیا مجھے تکرار کرکے
کسی کے صبح ومساء سے ابھی نہیں نکلا
راستہ دیکھتا رہتا ہے برابر میرا
آنکھوں میں خواب تازہ ہے دل میں نیا خیال بھی
ہے دل کو تیری قربت کی ضرورت
خواہش سے تو جاسکتے نہیں خاک کے نیچے
کب تلک یوں صورت سیماب رہ سکتے تھے ہم
کتنی باتیں سنتا ہوں اب حیرت اور افسوس کے ساتھ
یوں ہی رکھو گے امتحان میں کیا
کوئی چشمک سی رہی گردش ایّام کے ساتھ
یہ جو ہم عرصہ گہ دہر سے بیزار ہوئے
آتا ہوں یوں نظر جو میں یکسر کھلا ہوا
حال کھلتا ہی نہیں دل کی پریشانی کا
نکل رہا ہوں یقیں کی حد سے گماں کی جانب
کسی الاؤ کا دل میں نشاں ہی کافی ہے
اگر ہر چیز میں اس نے اثر رکھا ہوا ہے
خاک سے خواب تلک ایک سی ویرانی ہے
رہا نہیں ہے سخن اتنا معتبر میرا
چراغ خواب بہ عکس کمال رہ جائے
ستارہ آنکھ میں دل میں گلاب کیا رکھنا
جو دستیاب ہے اس خاک پر نہیں رہنا
فلک پہ آنکھ زمیں پر دماغ رکھے گا
جس کی نہیں تعبیر کوئی اس خواب میں ہے
سیل شورش ہستی گرچہ ہے اترنے کو
رہا بھی دل میں ہنگامہ تو اب تھوڑا رہے گا
عجب اس زندگی کا سلسلہ ہے
کوئی ہنر تو مری چشم اشکبار میں ہے
چڑھے ہوئے ہیں جو دریا اتر بھی جائیں گے
دل میں کوئی ملال ہے ہی نہیں
بچھڑ جانے کا بالآخر اشارہ کر رہا ہے
اک خواب کسی عرصۂ تعبیر میں ہونا
اک عکس کسی گوہر مقصود میں ہونا
باب جب حد سے بڑھی بے باک بھی ہونا پڑا
گئی رتوں سے تعلق بحال کیا رکھنا
لے گئی دور کہیں مجھ کو روانی میری
چراغ ہاتھ میں ہو آنکھ میں ستارہ ہو
ستارہ تھا تو کسی کی نگاہ میں ہوتا
سوچتی آنکھوں میں عکس رائیگاں رہ جائے گا
گہری چپ میں وا لب اظہار کرنا ہے مجھے
سفر کا یا قیام کا کوئی اشارہ بھی نہیں
ہاتھ کچھ کرنا پڑے گا گردش حالات سے
جسم کو تونے دیا تھا نوجوانی کا عذاب
رنج کا پہلو خوشی میں کوئی ہونا چاہیئے
کوئی نقش بنانا ہوگا آنکھوں اور ہواؤں میں
کرنوں سے آفتاب کو بیزار دیکھ کر
سپاٹ راہ پہ بنجر مکان باقی ہے
اسی لیئے تو شبیہیں سبھی مثالی ہیں
شمع امید بجھا دی جائے
اگرچہ دل تو زمیں سے مرا لگا ہوا ہے
اتنا کرم فرمانا سائیں
کیا کھویا کیا پایا سائیں
کوئی دھڑکا لگا رہا سائیں
تیرا کرم ہے مجھ پر سائیں
اس سمت بھی ایک نظر سائیں
مرے حق میں کوئی دعا سائیں
غزل کہوں ظفر اقبال کے طریقے سے
موج ہوا سے کٹ سکتا ہوں
بن گیا وہ ناخدائے تبصرہ
نہ پوچھ اب صورت احوال یارا
نہیں کرتا میں پردہ چاک یارا
نہ کھلوا مجھ سے ساری بات یارا
کبھی تو آؤں گا تیرے کسی شمار اندر
ہر بات پہ تم کہتے ہو جب چوں کہ چنا چہ
متفرق اشعار
فلیپ
Thanks, for your feedback
अध्ययन जारी रखने के लिए कृपया कोड अंकित करें। कुछ सुरक्षा कारणों से यह आवश्यक है। इस सहयोग के लिए आपके आभारी होंगे।