سرورق
قصیدہ در مدح حضرت ابوالمنصور ناصرالدین سکندر جاہ
پیرہن میں ہے مرا شاہد مضموں پنہاں
مطلع
ربط رکھتی ہے جو تخیل مجسم سے زباں
بہر ترتیب سخن دو حرف بھی ممکن کہاں
کس قدر مغرور کرتا ہے مرا فیض زباں
قصیدہ در مدح نواب شرف الدولہ مظفر الملک محمد ابراہیم خان۔۔۔
کیوں نہ گنجایش مضمون میں نظر آئے خلل
حفظ آداب میں آئی نہ کسی طرح خلل
کیا ملے روی جہاں تاب کے شاعر کو مثل
شوخیاں کرتی ہے کیا کیا دم دیدار نظر
حسن وہ دیکھ سکے ہی یہ کہاں تاب نظر
برشتگی ہے نگہ میں یہ گرم ہے جو بن
کہاں ہے ایک طرح پر یہ دور لیل ونہار
دیکھ تو رفعت افسوں بتان طرار
بعد مدت فکر کا کرتے ہیں ہم آج امتحان
صورت مینا ہیں لبریز سخن کام دوہان
نور حق کا عارض روشن پہ ہوتا ہے گمان
کثرت عیش سے یہ بیخبری ہے ہر دم
قصیدہ در مدح ظفر الدولہ معتبر الملک رفیع المنزلۃ نواب علی اصغر خاں۔۔۔
مجمع خلق وحیا زینت قوم آدم
اے خامہ ہوشیار کہ ہے وقت امتحان
یہ رفعت کلام کسی کے لیے کہاں
تحریر کا وقت آگیا لکھ نام اقدس اے قلم
قصیدہ در مدح نواب امیرالدولہ بہادر ابن نواب رکن الدولہ بہادر
ذرا تو چین دے او دل تجھے خدا کی قسم
قصیدہ در مدح وصی علی خان بہادر
بہار آئی کھلے ہیں غنچے زمردیں ہے چمن کا ساماں
سپہر جاہ جلال وشوکت فروغ خورشید جودو احسان
قصیدہ در مدح نواب حضور محل صاحبہ دام اقبالہا
تا آسمان خطاب معلی کی ہے پکار
رباعی
واہ کیا رتبہ ہے فکر طبع حق آگاہ کا
کروں عاشق دیوانہ جو معشوق خدا کا ہے
بزم غمکو دیکھ کر دل خوش ہوا جلاد کا
منظور ہے ناپنا کمر کا
صد چاک ہے مانند کتان چاک جگر کا
تم تک مجھے لایا تھا جوش اس دل مضطر کا
تنگ کرتا ہے بدل جانا یہ سوبار کا
بند کی شب آنکھ دھیان آیا جوروئے یار کا
پھر غلغلہ ہے آمد فصل بہار کا
بسکہ ہوں محور تصور شاہد مستور کا
سنگ تربت لال ہے میرے تن محرور کا
ہر کڑی کرتی ہے غل محرومی تقدیر کا
کم نہیں وحشت میں بھی رتبہ مری توقیر کا
فصل گل آئی زمانہ ہے جنوں کے جوش کا
اسدرجہ تھا قلق مجھے ردسوال کا
حرفوں کے ملے جوڑ بڑھا حسن رقم کا
اٹھانا بارمنت شاق تھا پیراہن تن کا
اثر پیدا کیا ہے پیرہن نے جسم ہیجان کا
اونہیں ہٹ تھے مجھے خواہش رہا جھگڑا نہیں ہانکا
عروس فکر رنگین کو خیال آیا جو تزئین کا
ماتم بہت رہا مجھے اشک چکیدہ کا
جو عاشق ہو تو کچھ سمجھے یہ نکتہ آشنائی کا
سامنا ہونے نہ پائے اے خدا برسات کا
حیا بڑھنے نہیں دیتی ارادہ وہ نوجوانی کا
مرگ اغیار لب پہ لانہ سکا
آباد غم ودرد سے دیرانہ ہے اسکا
ہے رخصت جاں جال میں بتلا نہیں سکتا
بگڑے وہ لاکھ طرح مگر غل نہ ہو سکا
مختصر ہونے میں اے یار جو قابو ہوتا
شکواہے نہ غصا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
چھپ چھپ کے وہ پردے سے نظارہ نہیں ہوتا
گو طوق پڑا بوجہ مگر تن نہیں رکھتا
کوی شیشہ نہیں اے رونق محفل ٹوٹا
خدا جانے ہو ا کس تفتہ دلکی خاک سے پیدا
وہ شعلے ہیں ہجوم آہ آتش ناک سے پیدا
وصل کیواسطے کل کہہ گیا جاناں میرا
دل ہی قابو میں نہیں زور چلے کیا میرا
مبدل بے سبب کب ہے احبارنگ رو میرا
حشر کے روز اگر داد طلب دل ہوگا
اس سے مرنا مجھے اپنا قلق جان ہوگا
زمانے میں کوئی ایسا نہ ہوگا
ہم پہ جو جو کچھ ہوا سب آپ پر کھل جائیگا
قصۂ روزگزشتہ آنکھ کو شرمائیگا
ہاتھوں میں آجکی شب مہندی لگایئے گا
چاروں کے بعد فرق درمیاں ہو جائیگا
بڑھتے بڑھتے لاغری پنہاں بدن ہو جائیگا
رنگ کیا کیا نہ نئے چرخ جفا جو بدلا
مزادیوانگی کا زیر شمشیر دو دم نکلا
ہوس یہ رہ گئی دل میں کہ مدعا نہ ملا
پوشیدہ ہے پھاہوں سے ہر اک زخم تن اپنا
ساغر پلا کے بے خبر دو جہاں بنا
انکے آنیکے بھروسے جو شاداں دل ہوا
کسے صورت تو دلکو شاد کرنا
چھیڑا جو مینے یار کو سب میں خجل ہوا
یہاں تک اوج جنوں میں مجھے کمال ہوا
میں وہ ایذادوست تھا راحت سے مجھ کو غم ہوا
خون ٹپک کر آنکھ سے پھر اشک تر پیدا ہوا
عاشقوں میں مجھ سا ناتواں پیدا ہوا
ہر حرف سے پیدا اثر جوش بلا تھا
خلش نا آشنا گوہر عدو تھا
بل بے تیری کا وشیں جینا مجھے دشوار تھا
کھل گئی ہر ہر کڑی مجھ کو وہ افسون با دتھا
کب اس زمین پہ مجھے آرمیدہ ہونا تھا
بعد از فراغ روح بھی قید عدو میں تھا
لب بستگی سے لطف عروسی سخن میں تھا
کچھ خون میں تر بتر نظر تھا کہ نہیں تھا
لو مسلمان مجھے وہ طفل برہمن سمجھا
پیار سے دشمن کے وہ عالم ترا جاتا رہا
کب میں فارغ قید وحشت سے لڑکپن میں رہا
بنانے سے یہ مطلب ہم نے پایا
کب یہاں میں خلش غیر سے دل شاد آیا
ہوئیں جب بند آنکھیں خوف پرسش کا یقیں آیا
غرض کیا مے سے پھر ساقی جو وہ میکش نہیں آتا
مجھ کو احسان نظر یاد آیا
پریوں کا پس وپیش جو سامان نظر آیا
رخ پر جوترے سایۂ گیسو نظر آیا
گلے میں بخت کے انکا بھی کچھ قصہ نکل آیا
قلق سے دم لبوں پر خواہش دیدار میں آیا
بھلا کیا خاک زیرک خاک پایا
یقین کو اپنے عاشق نے ہمیشہ بے خلل پایا
جہاں میں نقص پیری سے مضر ظالم نے کم پایا
افتادگی نے اور ہی عالم دکھا دیا
مقام شکر ہے جلاد سے گر زخم تن پایا
دل کسی مشتاق کا ٹھنڈا کیا
رحم سوئے خاطر ناشاد کیا
شکایت سے غرض کیا مدعا کیا
اے مرگ دیکھتی ہے انہیں بار بار کیا
وہ نہیں تم کو نہ ہو گے یاد کیا
قالب ہوا خراب ترے غائبانہ کیا
وہ نہ مانیں گے احبا انکو سمجھائیں گے کیا
خندہ کیوں لب پر تری او محو بیداد آگیا
اضطراب دل مرا آخر مزادکھلا گیا
کیا آج جلد تیر نظر کا کام کر گیا
زخم بالیدہ ہوے داغوں پہ جوبن آگیا
کس منہ سے کہتے ہو کہ ترا وقت ٹل گیا
ہیبت سے مرغ روح بدن سے نکل گیا
ٹھہرے اکھڑ کے سانس برا وقت ٹل گیا
جب اختیار قید سخن سے نکل گیا
مجھ کو سمجھاتا تھا یا تو آپ شیدا ہوگیا
دل کے آتے ہی یہ نقشا ہو گیا
تیرے بالاتی کا شہرہ سب سے بالا ہو گیا
جاں بلب ہوں جیسے وہ بیرحم بدظن ہوگیا
لو فراغ ہو گئی کیسا سبک جان ہوگیا
التماس شکر میں دل رہ گیا
ہر رفیق بیکسی منزل بمنزل رہ گیا
دونو جانب شرم مطلب شوق پنہاں رہ گیا
میں ن گاہوں میں بہار زلف جاناں ہوگیا
پابند زیست تھا نہ اسیر مزار تھا
نہیں شکوہ جدا ہے گو کہ ہر پارہ مرے دل کا
عجب عالم ہے اس کل پیرہن کی یاد میں کا
بلبل سے کرتی کب ہے عروس چمن حجاب
مژدہ صحت سنا دل دکھ گیاآزار کا
ردیف بای موحدہ
جی میں آتا ہے دکھا تین مستیاں پیکر شراب
کیا دیکھتا ہے طائر بسمل کا اضطراب
گر ابرو کشیدہ ہیں شمشیر کا جواب
جتنے قصے ہیں مرے شکوۂ بیداد ہیں سب
طرۂ مشکبار ہے جوہ آبدار شب
پہونچے ہیں تحفہاے دل دوستاں قریب
ردیف بای ہندی
تیوری چڑھی ہوئی ہے کشیدہ نظر ہیں آپ
جانتے ہیں ہم سے شرمائیں گے آپ
بیٹھ رہتے نہ ملی ایسی کوئی جا دلچسپ
پھر خفا رہنے لگے عاشق ناچار سے آپ
لہرا رہی ہیں طرۂ زلف دوتا کی سانپ
ردیف ثاے فوقانی
چشم فلکی سے بھی نہاں میں تو رہا رات
افزائشوں پہ تھا قلق دل تمام رات
تھا وصلت جنوں کا جو ساماں تمام رات
غنچے نے تاج گل نے کیا پیرہن درست
کعبہ نہیں ہے زاہد غافل نشان دوست
آئینہ بنکر رہوں ہر وقت پیش روئے دوست
ردیف تاے ہندی
میں یوں ہوا عقوبت قاتل سے دل اچاٹ
ناصحا لے راہ اپنی جاتے ہیں اب سوے دوست
گلرخوں کی ہے ہوس اے دل ناشاد عبث
ردیف ثاے مثلثہ
مہربانی ہے دم مرگ یہ اے یار عبث
بال آئینہ میں آیا خود نمائی ہے عبث
ردیف جیم عربی
پیا جام مے چشم بتاں آج
کہہ تو کیا اے چارہ گر تجھ کو ہوا منظور آج
حکم تھا روز گزشتہ میں کہ ہم آتے ہیں آج
بیخبر ہے انجمن بیہوش ہے جانا نہ آج
جسم میں موجود ہے کیفیت میخانہ آج
بھائی ہے جیسے دلبر عیار کی طرح
رکھتی ہے کب اعتبار ایجان روح
ردیف حاے حطی
رہی ہمیشہ اسیری کے اختیار میں روح
نہیں دیکھی یہ تصور کے بھی زنجیر کے پیچ
ردیف جیم فارسی
تن ضعف سے کہاں کہ جو کوئی بدن میں روح
ردیف خاے معجمہ
نہیں جلاد کی کچھ آستین سرخ
سناے کیا تمہیں بیمار ناتواں فریاد
ردیف دال مہملہ
نجائیگی تری وحشی کی رائگاں فریاد
اپنی ہستی پر نہ کیوں ہو منفعل ہر بار درد
نقاب منہ سے اٹھادے اگر ہمارا چاند
کس قدر خاطر غمدیدہ ہے دشوار پسند
ہوش باقی نہیں جسدم سے کہ دیکھا تعویذ
ردیف ذال معجمہ
ردیف راے مہملہ
صدقے ترے جاؤں مرے پیارے مرے دلبر تو کیوں ہے مکدر
جس نے دیکھی ہو تری رخسار روشن کی بہار
پھر شجر ہیں کہتے ہیں آتی ہے بہار
ہوں میں عاشق جاں جاتی ہے مری اس نور پر
آنسو نہیں ہیں یہ مژۂ اشکبار پر
غل اگر آہیں کریں گے خاک پر
جماہے قطرۂ خون جگر شمشیر دشمن پر
رحم آجاتا ہے دشمن کی پریشانی پر
غیر ممکن ہے کہ ہو ہجر میں اے یار سحر
زخم تیغ یار نے بخشا دہان بالاے سر
ہے بلندی میں بھی پستی کا نشان بالاے سر
مر گئی افسوس اے بلبل نہ کیوں سر توڑ کر
مخلصی پائے بلا سے دل مضطر کیونکر
عضو تن میرے دہکتے رہے اخگر ہو کر
کبھی ہوتا ہوں ظاہر جلوۂ حسن نکو ہو کر
میں جو بیخود ہوں کسی کا روے زیبا دیکھ کر
میں مر گیا ہوں تیرے خریدار دیکھ کر
اشک امڈی تہ دامن سے ٹپک کر باہر
کیونکر اٹھاے طرۂ زلف دوتا کے ناز
ردیف زاے معجمہ
باقی ہے شوق قاتل شمشیر زن ہنوز
کل چہرے پائیں گے جتنی ہیں اسیران قفس
ردیف سین مہملہ
صاف طینت کو کدورت ہے بدن کی خواہش
ردیف شین معجمہ
آوے کہ لے بیتابی بسمل کا ذرا رقص
ردیف ضاد معجمہ
ردیف صاد مہملہ
ایدل سمجھ نہ پاس عزیز ویگانہ فرض
ردیف طاے مہملہ
قاصد جو پڑھ چکیں وہ مراماجراے خط
ردیف ظاے معجمہ
ردیف عین مہملہ
حسن معشوقی میں بھی رکھتی یہی ناسور شمع
سرومحفل کبھی رکھتی ہے جو یہ دستور شمع
اس فروغ چند ساعت پر نہ ہو مغرور شمع
ردیف غین معجمہ
دلمیں رہتا ہے ضیاے داغ سے روشن چراغ
باعث بے رونقی ہے جاے ویراں میں چراغ
لائے نصیب کھینچ کے بیداد کی طرف
ردیف فا
بھلا وہ کیا ہو میرے حال زار سے واقف
میں دیکھ کر یہ طول نہ کیوں ہوں فداے زلف
ردیف قاف
ہم غریبوں کو بھی مل جاتی ہیں پیمانۂ عشق
پہونچے جو دم شوق نظر یار کے سر تک
ردیف کاف
خدارا لیچلو یارو مجھے اس شوخ بدظن تک
حجاب ابر مانع ہے گزر کیوں کر ہو گلشن تک
ردیف لام
کس سے منہ کہتی ہے کہ میں ہوں آشناے گل
پہونچے برون سینہ سلگ کر جگر میں آگ
ردیف کاف فارسی
ردیف میم
دیکھ او قاتل بسرکرتے ہیں کس مشکل سے ہم
ردیف نون
زر گر وحدادخوش ہوں وہ کریں تدبیر ہم
بدلی نہ گالیوں سے کبھی یار کی زباں
پیچھا کریں وہ افعی رہزن تو نہیں ہم
بجلی سے کوند اٹھی جو کھلیں سیم تنکے پاؤں
جب تیر نظر تابہ جگر جائیں گے لاکھوں
یہاں تک طول تھا اے ہم نفس کل ہجر کی شب میں
تم کو بھی مشکل پڑیگی عاشقوں کی داد میں
دل جگر باہم ہدف ہوں سینۂ نخچیر میں
غرق بحر اشک ہیں کیا حاجت دامن ہمیں
سب ستم ساری وہ سامان مصیبت یاد ہیں
یہ لب چوسے ہوے کیونکر نہیں ہیں
میرے مرنے کی خبر سن کر وہ کچھ شاداں نہیں
کیوں حوصلہ ستم کا مری جان رہا نہیں
تم سے کیا تشبیہ دوں فکر دوی یکسو نہیں
ردیف واو
جو کہ ممسک ہیں کسی کو دلمیں جادیتے نہیں
دوستی رکھتی ہیں کس درجہ برابر آنسو
کس سے مثال دوں بدن لامثال کو
غور کرنا دوستو مجھ ناتواں کے حال کو
ڈرتا ہوں آپ کی خفگی کا سبب نہ ہو
مزہ مطلع کا دی فکردو پہلو ہو تو ایسی ہو
کسکو غرض رہی جواسیر بلا کے ساتھ
ردیف ہاے ہوز
ہو اہل کرم کیا میں کہوں تم سے زیادہ
بیتابی فراق سے عالم بدل نہ جائے
کیا دلمیں ارادہ ہے جو باندھے کمر آئے
جواب دیکھیے کب لیکے نامہ بر آئے
لو دلکی رہی دل ہی میں حسرت نہ بر آئے
اب وہ گلی جاے خطر ہو گئے
آیا ہے خیال بیوفائے
الطاف جو وہ آپکے پاتے نہیں جاتے
کب آکے مرے پاس وہ برہم نہیں ہوتے
ہم تاب سوال لب سائل نہیں رکھتے
لڑکپن میں یہ ضد ہے جانی تمہاری
برہم ہیں وہ غیر بے حیا سے
شکایت کی عوض ہم شکر کرتے ہیں صنم تیرے
خالی نہیں فلک بھی جنوں کے عذاب سے
کیا سبب کیوں چپ ہیں زخموں کے دہن تصویر سے
بزم بن جاتی ہے مقتل تری مہجوری سے
اے ہم نفس شب وصل کی گزرے گی خاک آرام سے
ہوتا ہے حسینوں کے مقابل کئی دن سے
ہیں ہر سر مژگاں سے چکاں اشک تر ایسے
زاہد نے خاک لطف اٹھائی شباب کے
باہم بلند وپست ہیں کیف شراب کے
ہنس رہی ہیں شور سن سنکر مری فریاد کے
تافلک پہونچے ہیں شہر یار کے
ارماں نکل جائیں کچھ عاشق مضطر کے
تھی شب ہجر میں کیا کیا دھڑ کے
ہو گئی سب عضو تن سید ہے تری رنجور کے
کہتے ہیں سنکے تذکرے مجھ غم رسیدہ کے
اشک آنکھوں میں ڈر سے لا نہ سکے
اب آتے ہو صدا سنکر گجر کی
تھی سزا کتنی حلاوت زامرے تقصیرکے
بسکہ ہے دلمیں ہوس نظارہ ہائی یار کے
فصل کل آئی ہے کل اور ہی ساماں ہوں گے
ناصح مشفق یہ مشق تازہ فرمانے لگے
وصل کے رات ہی آخر کبھی عریاں ہوں گے
یہ وہ نالے ہیں جو لب تک آئیں گے
رشک عدو میں دیکھو جاں تک گنواہی دیں گے
تارعرش تیری شورش بیداد جائیں گے
حقیقت سے زباں آگاہ کرلے
عزت دیوانگی بخشی مجھے تقدیر نے
کچھ سمجھتے ہیں جو اس ظالم کی سمجھائے ہوے
دیکھی دل دے کے قدر دانے
وہی تونے دیکھا کہ جو دل کہا تھا نہ ہو اس پہ شیدا کہ وہ بدبلا ہے
سوال طرز سخن سے تمہارے پیدا ہے
غزل ذو بحرین
کنگ میں جنکو خموشے کا مزا ہوتا ہے
رنج باہم میں زباں پر جو گلہ آتا ہے
بہار غنچگی دیتا ہے جو دل خستہ ہوتا ہے
دکھاتا ہے چہرے پھر مژدۂ بیداد دیتا ہے
نئے ڈھب کا کچھ جوش سودا ہوا ہے
پیتے ہیں مے گناہ بقصد ثواب ہے
لب پر اک پردہ نشین کا شکوۂ بیداد ہے
عجب تیر نگہ میں کچھ اثر ہے
راز تھی لب تلک آئی کہاں مقدور ہے
یاس ہو کر کچھ دنوں ہم چشم بسمل میں رہے
یہ مصرع مخبر مصیبت کمال ہم کو پسند آیا
سفر ہے دشوار خوب کب تک بہت پڑی منزل عدم ہے
کس قدر تعلق سے طبیعت پاک ہے
سوز فرقت سے یہ گرمی پہ مرا شیون ہے
لو ضعف سے اب یہ حال تن ہے
بلا ہے کون جان بر ہو سکے آفت کا ساماں ہے
کہیں کیا دست وحشت کا کہاں تک ہم پہ احساں ہے
اس گل کا جلوہ گر جو سر اپا نظر میں ہے
وصل کے نام سے آزردہ جو تو ایجان ہے
اثر نصیب کے سر گشتگے کا سرمیں ہے
بلند یوں پر ہے اپنی پستی بہ اوج کس خاکسار میں ہے
مخلصی کس ہے کہ مرغ روح قید تن میں ہے
ہم کہے دیتے ہیں زحمت خوردہ ہے
نہیں ہیں اس درجہ بے ادب ہم کہیں جو انکی دہن نہیں ہے
گشت نہ کر ادھر ادھر بیخبری جہاں میں ہے
مست کس درجہ نگاہ ساقی مستانہ ہے
سن لے یہ التماس مرادوستانہ ہے
کھلی ہے آنکھ جوش انتظار یار جانی ہے
گلے پر آج رکھ کر تیغ قاتل نے اٹھائی ہے
کیے سجدے ہوے کافر نہ کچھ دلمیں خدا سمجھے
دیتے ہیں ہو بوسہ تو کہیں لاؤ بھی
مری جان رنج گھٹایئے قدم آگے اب نہ بڑھایئے
آجاے موت بلبل ناشاد کے لیے
ہو زبان بند جو محشر میں مرانام آئے
متفرقات
بوسہ دینے میں غضب لایئے گا
مخمس برغزل نواب شرف الدولہ محمد ابراہیم بہادر تخلص خلیل
قطعات تاریخ
چوں جناب وصی علی خان را
رحمت حق لا تعد بر روح آن مغفور باد
نیست در عالم کریم اکنوں دگر
خاتمۃ الطبع
سرورق
قصیدہ در مدح حضرت ابوالمنصور ناصرالدین سکندر جاہ
پیرہن میں ہے مرا شاہد مضموں پنہاں
مطلع
ربط رکھتی ہے جو تخیل مجسم سے زباں
بہر ترتیب سخن دو حرف بھی ممکن کہاں
کس قدر مغرور کرتا ہے مرا فیض زباں
قصیدہ در مدح نواب شرف الدولہ مظفر الملک محمد ابراہیم خان۔۔۔
کیوں نہ گنجایش مضمون میں نظر آئے خلل
حفظ آداب میں آئی نہ کسی طرح خلل
کیا ملے روی جہاں تاب کے شاعر کو مثل
شوخیاں کرتی ہے کیا کیا دم دیدار نظر
حسن وہ دیکھ سکے ہی یہ کہاں تاب نظر
برشتگی ہے نگہ میں یہ گرم ہے جو بن
کہاں ہے ایک طرح پر یہ دور لیل ونہار
دیکھ تو رفعت افسوں بتان طرار
بعد مدت فکر کا کرتے ہیں ہم آج امتحان
صورت مینا ہیں لبریز سخن کام دوہان
نور حق کا عارض روشن پہ ہوتا ہے گمان
کثرت عیش سے یہ بیخبری ہے ہر دم
قصیدہ در مدح ظفر الدولہ معتبر الملک رفیع المنزلۃ نواب علی اصغر خاں۔۔۔
مجمع خلق وحیا زینت قوم آدم
اے خامہ ہوشیار کہ ہے وقت امتحان
یہ رفعت کلام کسی کے لیے کہاں
تحریر کا وقت آگیا لکھ نام اقدس اے قلم
قصیدہ در مدح نواب امیرالدولہ بہادر ابن نواب رکن الدولہ بہادر
ذرا تو چین دے او دل تجھے خدا کی قسم
قصیدہ در مدح وصی علی خان بہادر
بہار آئی کھلے ہیں غنچے زمردیں ہے چمن کا ساماں
سپہر جاہ جلال وشوکت فروغ خورشید جودو احسان
قصیدہ در مدح نواب حضور محل صاحبہ دام اقبالہا
تا آسمان خطاب معلی کی ہے پکار
رباعی
واہ کیا رتبہ ہے فکر طبع حق آگاہ کا
کروں عاشق دیوانہ جو معشوق خدا کا ہے
بزم غمکو دیکھ کر دل خوش ہوا جلاد کا
منظور ہے ناپنا کمر کا
صد چاک ہے مانند کتان چاک جگر کا
تم تک مجھے لایا تھا جوش اس دل مضطر کا
تنگ کرتا ہے بدل جانا یہ سوبار کا
بند کی شب آنکھ دھیان آیا جوروئے یار کا
پھر غلغلہ ہے آمد فصل بہار کا
بسکہ ہوں محور تصور شاہد مستور کا
سنگ تربت لال ہے میرے تن محرور کا
ہر کڑی کرتی ہے غل محرومی تقدیر کا
کم نہیں وحشت میں بھی رتبہ مری توقیر کا
فصل گل آئی زمانہ ہے جنوں کے جوش کا
اسدرجہ تھا قلق مجھے ردسوال کا
حرفوں کے ملے جوڑ بڑھا حسن رقم کا
اٹھانا بارمنت شاق تھا پیراہن تن کا
اثر پیدا کیا ہے پیرہن نے جسم ہیجان کا
اونہیں ہٹ تھے مجھے خواہش رہا جھگڑا نہیں ہانکا
عروس فکر رنگین کو خیال آیا جو تزئین کا
ماتم بہت رہا مجھے اشک چکیدہ کا
جو عاشق ہو تو کچھ سمجھے یہ نکتہ آشنائی کا
سامنا ہونے نہ پائے اے خدا برسات کا
حیا بڑھنے نہیں دیتی ارادہ وہ نوجوانی کا
مرگ اغیار لب پہ لانہ سکا
آباد غم ودرد سے دیرانہ ہے اسکا
ہے رخصت جاں جال میں بتلا نہیں سکتا
بگڑے وہ لاکھ طرح مگر غل نہ ہو سکا
مختصر ہونے میں اے یار جو قابو ہوتا
شکواہے نہ غصا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
چھپ چھپ کے وہ پردے سے نظارہ نہیں ہوتا
گو طوق پڑا بوجہ مگر تن نہیں رکھتا
کوی شیشہ نہیں اے رونق محفل ٹوٹا
خدا جانے ہو ا کس تفتہ دلکی خاک سے پیدا
وہ شعلے ہیں ہجوم آہ آتش ناک سے پیدا
وصل کیواسطے کل کہہ گیا جاناں میرا
دل ہی قابو میں نہیں زور چلے کیا میرا
مبدل بے سبب کب ہے احبارنگ رو میرا
حشر کے روز اگر داد طلب دل ہوگا
اس سے مرنا مجھے اپنا قلق جان ہوگا
زمانے میں کوئی ایسا نہ ہوگا
ہم پہ جو جو کچھ ہوا سب آپ پر کھل جائیگا
قصۂ روزگزشتہ آنکھ کو شرمائیگا
ہاتھوں میں آجکی شب مہندی لگایئے گا
چاروں کے بعد فرق درمیاں ہو جائیگا
بڑھتے بڑھتے لاغری پنہاں بدن ہو جائیگا
رنگ کیا کیا نہ نئے چرخ جفا جو بدلا
مزادیوانگی کا زیر شمشیر دو دم نکلا
ہوس یہ رہ گئی دل میں کہ مدعا نہ ملا
پوشیدہ ہے پھاہوں سے ہر اک زخم تن اپنا
ساغر پلا کے بے خبر دو جہاں بنا
انکے آنیکے بھروسے جو شاداں دل ہوا
کسے صورت تو دلکو شاد کرنا
چھیڑا جو مینے یار کو سب میں خجل ہوا
یہاں تک اوج جنوں میں مجھے کمال ہوا
میں وہ ایذادوست تھا راحت سے مجھ کو غم ہوا
خون ٹپک کر آنکھ سے پھر اشک تر پیدا ہوا
عاشقوں میں مجھ سا ناتواں پیدا ہوا
ہر حرف سے پیدا اثر جوش بلا تھا
خلش نا آشنا گوہر عدو تھا
بل بے تیری کا وشیں جینا مجھے دشوار تھا
کھل گئی ہر ہر کڑی مجھ کو وہ افسون با دتھا
کب اس زمین پہ مجھے آرمیدہ ہونا تھا
بعد از فراغ روح بھی قید عدو میں تھا
لب بستگی سے لطف عروسی سخن میں تھا
کچھ خون میں تر بتر نظر تھا کہ نہیں تھا
لو مسلمان مجھے وہ طفل برہمن سمجھا
پیار سے دشمن کے وہ عالم ترا جاتا رہا
کب میں فارغ قید وحشت سے لڑکپن میں رہا
بنانے سے یہ مطلب ہم نے پایا
کب یہاں میں خلش غیر سے دل شاد آیا
ہوئیں جب بند آنکھیں خوف پرسش کا یقیں آیا
غرض کیا مے سے پھر ساقی جو وہ میکش نہیں آتا
مجھ کو احسان نظر یاد آیا
پریوں کا پس وپیش جو سامان نظر آیا
رخ پر جوترے سایۂ گیسو نظر آیا
گلے میں بخت کے انکا بھی کچھ قصہ نکل آیا
قلق سے دم لبوں پر خواہش دیدار میں آیا
بھلا کیا خاک زیرک خاک پایا
یقین کو اپنے عاشق نے ہمیشہ بے خلل پایا
جہاں میں نقص پیری سے مضر ظالم نے کم پایا
افتادگی نے اور ہی عالم دکھا دیا
مقام شکر ہے جلاد سے گر زخم تن پایا
دل کسی مشتاق کا ٹھنڈا کیا
رحم سوئے خاطر ناشاد کیا
شکایت سے غرض کیا مدعا کیا
اے مرگ دیکھتی ہے انہیں بار بار کیا
وہ نہیں تم کو نہ ہو گے یاد کیا
قالب ہوا خراب ترے غائبانہ کیا
وہ نہ مانیں گے احبا انکو سمجھائیں گے کیا
خندہ کیوں لب پر تری او محو بیداد آگیا
اضطراب دل مرا آخر مزادکھلا گیا
کیا آج جلد تیر نظر کا کام کر گیا
زخم بالیدہ ہوے داغوں پہ جوبن آگیا
کس منہ سے کہتے ہو کہ ترا وقت ٹل گیا
ہیبت سے مرغ روح بدن سے نکل گیا
ٹھہرے اکھڑ کے سانس برا وقت ٹل گیا
جب اختیار قید سخن سے نکل گیا
مجھ کو سمجھاتا تھا یا تو آپ شیدا ہوگیا
دل کے آتے ہی یہ نقشا ہو گیا
تیرے بالاتی کا شہرہ سب سے بالا ہو گیا
جاں بلب ہوں جیسے وہ بیرحم بدظن ہوگیا
لو فراغ ہو گئی کیسا سبک جان ہوگیا
التماس شکر میں دل رہ گیا
ہر رفیق بیکسی منزل بمنزل رہ گیا
دونو جانب شرم مطلب شوق پنہاں رہ گیا
میں ن گاہوں میں بہار زلف جاناں ہوگیا
پابند زیست تھا نہ اسیر مزار تھا
نہیں شکوہ جدا ہے گو کہ ہر پارہ مرے دل کا
عجب عالم ہے اس کل پیرہن کی یاد میں کا
بلبل سے کرتی کب ہے عروس چمن حجاب
مژدہ صحت سنا دل دکھ گیاآزار کا
ردیف بای موحدہ
جی میں آتا ہے دکھا تین مستیاں پیکر شراب
کیا دیکھتا ہے طائر بسمل کا اضطراب
گر ابرو کشیدہ ہیں شمشیر کا جواب
جتنے قصے ہیں مرے شکوۂ بیداد ہیں سب
طرۂ مشکبار ہے جوہ آبدار شب
پہونچے ہیں تحفہاے دل دوستاں قریب
ردیف بای ہندی
تیوری چڑھی ہوئی ہے کشیدہ نظر ہیں آپ
جانتے ہیں ہم سے شرمائیں گے آپ
بیٹھ رہتے نہ ملی ایسی کوئی جا دلچسپ
پھر خفا رہنے لگے عاشق ناچار سے آپ
لہرا رہی ہیں طرۂ زلف دوتا کی سانپ
ردیف ثاے فوقانی
چشم فلکی سے بھی نہاں میں تو رہا رات
افزائشوں پہ تھا قلق دل تمام رات
تھا وصلت جنوں کا جو ساماں تمام رات
غنچے نے تاج گل نے کیا پیرہن درست
کعبہ نہیں ہے زاہد غافل نشان دوست
آئینہ بنکر رہوں ہر وقت پیش روئے دوست
ردیف تاے ہندی
میں یوں ہوا عقوبت قاتل سے دل اچاٹ
ناصحا لے راہ اپنی جاتے ہیں اب سوے دوست
گلرخوں کی ہے ہوس اے دل ناشاد عبث
ردیف ثاے مثلثہ
مہربانی ہے دم مرگ یہ اے یار عبث
بال آئینہ میں آیا خود نمائی ہے عبث
ردیف جیم عربی
پیا جام مے چشم بتاں آج
کہہ تو کیا اے چارہ گر تجھ کو ہوا منظور آج
حکم تھا روز گزشتہ میں کہ ہم آتے ہیں آج
بیخبر ہے انجمن بیہوش ہے جانا نہ آج
جسم میں موجود ہے کیفیت میخانہ آج
بھائی ہے جیسے دلبر عیار کی طرح
رکھتی ہے کب اعتبار ایجان روح
ردیف حاے حطی
رہی ہمیشہ اسیری کے اختیار میں روح
نہیں دیکھی یہ تصور کے بھی زنجیر کے پیچ
ردیف جیم فارسی
تن ضعف سے کہاں کہ جو کوئی بدن میں روح
ردیف خاے معجمہ
نہیں جلاد کی کچھ آستین سرخ
سناے کیا تمہیں بیمار ناتواں فریاد
ردیف دال مہملہ
نجائیگی تری وحشی کی رائگاں فریاد
اپنی ہستی پر نہ کیوں ہو منفعل ہر بار درد
نقاب منہ سے اٹھادے اگر ہمارا چاند
کس قدر خاطر غمدیدہ ہے دشوار پسند
ہوش باقی نہیں جسدم سے کہ دیکھا تعویذ
ردیف ذال معجمہ
ردیف راے مہملہ
صدقے ترے جاؤں مرے پیارے مرے دلبر تو کیوں ہے مکدر
جس نے دیکھی ہو تری رخسار روشن کی بہار
پھر شجر ہیں کہتے ہیں آتی ہے بہار
ہوں میں عاشق جاں جاتی ہے مری اس نور پر
آنسو نہیں ہیں یہ مژۂ اشکبار پر
غل اگر آہیں کریں گے خاک پر
جماہے قطرۂ خون جگر شمشیر دشمن پر
رحم آجاتا ہے دشمن کی پریشانی پر
غیر ممکن ہے کہ ہو ہجر میں اے یار سحر
زخم تیغ یار نے بخشا دہان بالاے سر
ہے بلندی میں بھی پستی کا نشان بالاے سر
مر گئی افسوس اے بلبل نہ کیوں سر توڑ کر
مخلصی پائے بلا سے دل مضطر کیونکر
عضو تن میرے دہکتے رہے اخگر ہو کر
کبھی ہوتا ہوں ظاہر جلوۂ حسن نکو ہو کر
میں جو بیخود ہوں کسی کا روے زیبا دیکھ کر
میں مر گیا ہوں تیرے خریدار دیکھ کر
اشک امڈی تہ دامن سے ٹپک کر باہر
کیونکر اٹھاے طرۂ زلف دوتا کے ناز
ردیف زاے معجمہ
باقی ہے شوق قاتل شمشیر زن ہنوز
کل چہرے پائیں گے جتنی ہیں اسیران قفس
ردیف سین مہملہ
صاف طینت کو کدورت ہے بدن کی خواہش
ردیف شین معجمہ
آوے کہ لے بیتابی بسمل کا ذرا رقص
ردیف ضاد معجمہ
ردیف صاد مہملہ
ایدل سمجھ نہ پاس عزیز ویگانہ فرض
ردیف طاے مہملہ
قاصد جو پڑھ چکیں وہ مراماجراے خط
ردیف ظاے معجمہ
ردیف عین مہملہ
حسن معشوقی میں بھی رکھتی یہی ناسور شمع
سرومحفل کبھی رکھتی ہے جو یہ دستور شمع
اس فروغ چند ساعت پر نہ ہو مغرور شمع
ردیف غین معجمہ
دلمیں رہتا ہے ضیاے داغ سے روشن چراغ
باعث بے رونقی ہے جاے ویراں میں چراغ
لائے نصیب کھینچ کے بیداد کی طرف
ردیف فا
بھلا وہ کیا ہو میرے حال زار سے واقف
میں دیکھ کر یہ طول نہ کیوں ہوں فداے زلف
ردیف قاف
ہم غریبوں کو بھی مل جاتی ہیں پیمانۂ عشق
پہونچے جو دم شوق نظر یار کے سر تک
ردیف کاف
خدارا لیچلو یارو مجھے اس شوخ بدظن تک
حجاب ابر مانع ہے گزر کیوں کر ہو گلشن تک
ردیف لام
کس سے منہ کہتی ہے کہ میں ہوں آشناے گل
پہونچے برون سینہ سلگ کر جگر میں آگ
ردیف کاف فارسی
ردیف میم
دیکھ او قاتل بسرکرتے ہیں کس مشکل سے ہم
ردیف نون
زر گر وحدادخوش ہوں وہ کریں تدبیر ہم
بدلی نہ گالیوں سے کبھی یار کی زباں
پیچھا کریں وہ افعی رہزن تو نہیں ہم
بجلی سے کوند اٹھی جو کھلیں سیم تنکے پاؤں
جب تیر نظر تابہ جگر جائیں گے لاکھوں
یہاں تک طول تھا اے ہم نفس کل ہجر کی شب میں
تم کو بھی مشکل پڑیگی عاشقوں کی داد میں
دل جگر باہم ہدف ہوں سینۂ نخچیر میں
غرق بحر اشک ہیں کیا حاجت دامن ہمیں
سب ستم ساری وہ سامان مصیبت یاد ہیں
یہ لب چوسے ہوے کیونکر نہیں ہیں
میرے مرنے کی خبر سن کر وہ کچھ شاداں نہیں
کیوں حوصلہ ستم کا مری جان رہا نہیں
تم سے کیا تشبیہ دوں فکر دوی یکسو نہیں
ردیف واو
جو کہ ممسک ہیں کسی کو دلمیں جادیتے نہیں
دوستی رکھتی ہیں کس درجہ برابر آنسو
کس سے مثال دوں بدن لامثال کو
غور کرنا دوستو مجھ ناتواں کے حال کو
ڈرتا ہوں آپ کی خفگی کا سبب نہ ہو
مزہ مطلع کا دی فکردو پہلو ہو تو ایسی ہو
کسکو غرض رہی جواسیر بلا کے ساتھ
ردیف ہاے ہوز
ہو اہل کرم کیا میں کہوں تم سے زیادہ
بیتابی فراق سے عالم بدل نہ جائے
کیا دلمیں ارادہ ہے جو باندھے کمر آئے
جواب دیکھیے کب لیکے نامہ بر آئے
لو دلکی رہی دل ہی میں حسرت نہ بر آئے
اب وہ گلی جاے خطر ہو گئے
آیا ہے خیال بیوفائے
الطاف جو وہ آپکے پاتے نہیں جاتے
کب آکے مرے پاس وہ برہم نہیں ہوتے
ہم تاب سوال لب سائل نہیں رکھتے
لڑکپن میں یہ ضد ہے جانی تمہاری
برہم ہیں وہ غیر بے حیا سے
شکایت کی عوض ہم شکر کرتے ہیں صنم تیرے
خالی نہیں فلک بھی جنوں کے عذاب سے
کیا سبب کیوں چپ ہیں زخموں کے دہن تصویر سے
بزم بن جاتی ہے مقتل تری مہجوری سے
اے ہم نفس شب وصل کی گزرے گی خاک آرام سے
ہوتا ہے حسینوں کے مقابل کئی دن سے
ہیں ہر سر مژگاں سے چکاں اشک تر ایسے
زاہد نے خاک لطف اٹھائی شباب کے
باہم بلند وپست ہیں کیف شراب کے
ہنس رہی ہیں شور سن سنکر مری فریاد کے
تافلک پہونچے ہیں شہر یار کے
ارماں نکل جائیں کچھ عاشق مضطر کے
تھی شب ہجر میں کیا کیا دھڑ کے
ہو گئی سب عضو تن سید ہے تری رنجور کے
کہتے ہیں سنکے تذکرے مجھ غم رسیدہ کے
اشک آنکھوں میں ڈر سے لا نہ سکے
اب آتے ہو صدا سنکر گجر کی
تھی سزا کتنی حلاوت زامرے تقصیرکے
بسکہ ہے دلمیں ہوس نظارہ ہائی یار کے
فصل کل آئی ہے کل اور ہی ساماں ہوں گے
ناصح مشفق یہ مشق تازہ فرمانے لگے
وصل کے رات ہی آخر کبھی عریاں ہوں گے
یہ وہ نالے ہیں جو لب تک آئیں گے
رشک عدو میں دیکھو جاں تک گنواہی دیں گے
تارعرش تیری شورش بیداد جائیں گے
حقیقت سے زباں آگاہ کرلے
عزت دیوانگی بخشی مجھے تقدیر نے
کچھ سمجھتے ہیں جو اس ظالم کی سمجھائے ہوے
دیکھی دل دے کے قدر دانے
وہی تونے دیکھا کہ جو دل کہا تھا نہ ہو اس پہ شیدا کہ وہ بدبلا ہے
سوال طرز سخن سے تمہارے پیدا ہے
غزل ذو بحرین
کنگ میں جنکو خموشے کا مزا ہوتا ہے
رنج باہم میں زباں پر جو گلہ آتا ہے
بہار غنچگی دیتا ہے جو دل خستہ ہوتا ہے
دکھاتا ہے چہرے پھر مژدۂ بیداد دیتا ہے
نئے ڈھب کا کچھ جوش سودا ہوا ہے
پیتے ہیں مے گناہ بقصد ثواب ہے
لب پر اک پردہ نشین کا شکوۂ بیداد ہے
عجب تیر نگہ میں کچھ اثر ہے
راز تھی لب تلک آئی کہاں مقدور ہے
یاس ہو کر کچھ دنوں ہم چشم بسمل میں رہے
یہ مصرع مخبر مصیبت کمال ہم کو پسند آیا
سفر ہے دشوار خوب کب تک بہت پڑی منزل عدم ہے
کس قدر تعلق سے طبیعت پاک ہے
سوز فرقت سے یہ گرمی پہ مرا شیون ہے
لو ضعف سے اب یہ حال تن ہے
بلا ہے کون جان بر ہو سکے آفت کا ساماں ہے
کہیں کیا دست وحشت کا کہاں تک ہم پہ احساں ہے
اس گل کا جلوہ گر جو سر اپا نظر میں ہے
وصل کے نام سے آزردہ جو تو ایجان ہے
اثر نصیب کے سر گشتگے کا سرمیں ہے
بلند یوں پر ہے اپنی پستی بہ اوج کس خاکسار میں ہے
مخلصی کس ہے کہ مرغ روح قید تن میں ہے
ہم کہے دیتے ہیں زحمت خوردہ ہے
نہیں ہیں اس درجہ بے ادب ہم کہیں جو انکی دہن نہیں ہے
گشت نہ کر ادھر ادھر بیخبری جہاں میں ہے
مست کس درجہ نگاہ ساقی مستانہ ہے
سن لے یہ التماس مرادوستانہ ہے
کھلی ہے آنکھ جوش انتظار یار جانی ہے
گلے پر آج رکھ کر تیغ قاتل نے اٹھائی ہے
کیے سجدے ہوے کافر نہ کچھ دلمیں خدا سمجھے
دیتے ہیں ہو بوسہ تو کہیں لاؤ بھی
مری جان رنج گھٹایئے قدم آگے اب نہ بڑھایئے
آجاے موت بلبل ناشاد کے لیے
ہو زبان بند جو محشر میں مرانام آئے
متفرقات
بوسہ دینے میں غضب لایئے گا
مخمس برغزل نواب شرف الدولہ محمد ابراہیم بہادر تخلص خلیل
قطعات تاریخ
چوں جناب وصی علی خان را
رحمت حق لا تعد بر روح آن مغفور باد
نیست در عالم کریم اکنوں دگر
خاتمۃ الطبع
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔