فہرست
اداریہ تخلیقی اقدار
منٹو کے نقاد
سچ کو پہلے لفظ پھر لب دیں گے ہم
منٹو کی ایک اہم نودریافت خود نوشت سوانحی تحریر
منٹو اپنے ہمزاد کی نظر میں
پانچواں مقدمہ
میں کیوں لکھتا ہوں؟
منٹو کا دن
ایک کھوکھلے ضمیر کا نگہبان
تنقیدی مضامین
ناول بن جینا بھی کوئی جینا ہے
افسانہ کی تشریح: چند مسائل
انٹی ناول
باتوں سے افسانے تک
مابعد جدیدیت: چند معروضات
فکشن کی کائنات
اس قصبے میں کوئی چور نہیں
ایک پیش گفتہ موت کی روداد
کوئی نہیں ہنسے گا
دیوار
مقتل
ہاتھ کی صفائی
مایا درپن
دبدھا
تعویذ
بچپن کی دوست
داغ دھبّے
سمندر کی چوری
غزل کے دیار میں
جو بھی تماشہ کیا ہے
جرم سے کچھ انکار ہے
کچھ نہیں اپنے پاس
ایسی طرز نکالی میں نے
حشر کو ہاہا کار پڑے گی
ہوں پڑا میں بھی ادھر، میرے خدا
پیوں اس حمد کی مے، میرے خدا
دور ہیں میں اور تو میرے خدا
کھیت ہوئے ویران ہمارے
اب کیا ہوں امکان ہمارے
ملاقات ہو سکتی ہے
تم ہو بڑے اور کام تمھارا بڑا ہے
سبب اس دل کی ناصبوری ہے
حمد خود میرے پاس آتی ہے
آدھی سن یا ساری سن
مختصر یہ کہ ہے مثال ہے تو
روز و شب اور صبح وشام ترے
سب میں چرچا کریں گے
ہیرا پھیری خوب ہے
برقع اٹھانا کوئی دن
ڈھیلے ڈھالے لوگ ہیں
میرا اور تمھارا کچھ
کام ہے کیا حیرانی والا
میں اپنی چال ہی چلتا ہوا گذرتا ہوں
نظر نہیں آرہا جدھر سے لگے ہوئے ہیں
جو دوستی سے نہ دشمنی سے ملے ہوئے ہیں
چراغ تھے جس قدر ہوا سے ملے ہوئے تھے
بات سندیسا تھی اس کی گفتگو پیغام تھا
وہ زمیں پیغام تھا، یا آسماں پیغام تھا
دل کو رہین بند قبا مت کیا کرو
دن رات میرے دل سے گذرمت کیا کرو
ہزار بندش اوقات سے نکلتا ہے
جہاں یہ دل ترے جنجال سے نکلتا ہے
مزہ کچھ تو ملے گا موج کو منجدھار کرنے میں
جہاں پہ ہونا نہیں، وہیں سے لگے ہوئے ہیں
ظفر یہ کس طرح کے سفر میں پڑے ہوئے ہیں
اگر چہ ہم لوگ داستاں میں پڑے ہوئے ہیں
رہ رہ کے زبانی کبھی تحریر سے ہم نے
جوڑا ہے کسی اور ہی انجام سے ہم نے
ہوتے گئے تھے جمع ہی ارمان ہمارے
پتا نہیں چل رہا کہاں سے بندھے ہوئے ہیں
ہمارے اندر تو کوئی باہر لکھے ہوئے تھے
بے نام جس قدر ہیں انھیں نام دے سکوں
کہیں ہم اپنی ہی بے کرانی میں رہ گئے ہیں
ہیں نقش دیوار، جا بجا سے مٹے ہوئے ہیں
عجب نہیں ہے جورفتگاں سے جڑے ہوئے ہیں
کہیں پہ موجود، اور کہیں سے ہٹے ہوئے ہیں
ظفر ، فسانوں کہ داستانوں میں رہ گئے ہیں
مرے گھر تو کیا سررہگذر نہیں آرہا
جیسے ہوں شہر بدر شہر میں آیا ہوا میں
وقت بے وقت کہ دیلے سے کویلا ہوا میں
راکھ ہوتا ہوا، ہر لحظہ نبڑتا ہوا میں
مسترد ہوگیا جب تیرا قبولا ہوا میں
ترے راستوں سےجبھی کذر نہیں کر رہا
جو یہ تیرے بارے میں گفتگو نہیں کر رہا
خرچ ہوتا ہوں اسی چال سے چلتا ہوا میں
پہلے ہی ٹھیک طرح سے ہوں ٹٹولا ہوا میں
غزلیں
غزلیں
نظم کی دہلیز پر
سیمیا
حمل سرا
سسٹر ماریا تیر یزا
منہ پیٹتے ہوئے ایک نظم
مرنے والے سے جلن
مرنے والے سے جلن
بالکل آپ کی طرح
سمجھ سے پرے
فوراً ہی مرجانا
گڑییں، پریاں، شہزادیاں
پیار بھری دعائیں
آپ کی شناخت
تم میرے پاس آجاؤ
آرزو کا سفر
کل، آج اور کل
روزن یقیں
CONTRIBUTORزمرد مغل
PUBLISHER دہلیز پبلیکیشنز، کشمیر
CONTRIBUTORزمرد مغل
PUBLISHER دہلیز پبلیکیشنز، کشمیر
فہرست
اداریہ تخلیقی اقدار
منٹو کے نقاد
سچ کو پہلے لفظ پھر لب دیں گے ہم
منٹو کی ایک اہم نودریافت خود نوشت سوانحی تحریر
منٹو اپنے ہمزاد کی نظر میں
پانچواں مقدمہ
میں کیوں لکھتا ہوں؟
منٹو کا دن
ایک کھوکھلے ضمیر کا نگہبان
تنقیدی مضامین
ناول بن جینا بھی کوئی جینا ہے
افسانہ کی تشریح: چند مسائل
انٹی ناول
باتوں سے افسانے تک
مابعد جدیدیت: چند معروضات
فکشن کی کائنات
اس قصبے میں کوئی چور نہیں
ایک پیش گفتہ موت کی روداد
کوئی نہیں ہنسے گا
دیوار
مقتل
ہاتھ کی صفائی
مایا درپن
دبدھا
تعویذ
بچپن کی دوست
داغ دھبّے
سمندر کی چوری
غزل کے دیار میں
جو بھی تماشہ کیا ہے
جرم سے کچھ انکار ہے
کچھ نہیں اپنے پاس
ایسی طرز نکالی میں نے
حشر کو ہاہا کار پڑے گی
ہوں پڑا میں بھی ادھر، میرے خدا
پیوں اس حمد کی مے، میرے خدا
دور ہیں میں اور تو میرے خدا
کھیت ہوئے ویران ہمارے
اب کیا ہوں امکان ہمارے
ملاقات ہو سکتی ہے
تم ہو بڑے اور کام تمھارا بڑا ہے
سبب اس دل کی ناصبوری ہے
حمد خود میرے پاس آتی ہے
آدھی سن یا ساری سن
مختصر یہ کہ ہے مثال ہے تو
روز و شب اور صبح وشام ترے
سب میں چرچا کریں گے
ہیرا پھیری خوب ہے
برقع اٹھانا کوئی دن
ڈھیلے ڈھالے لوگ ہیں
میرا اور تمھارا کچھ
کام ہے کیا حیرانی والا
میں اپنی چال ہی چلتا ہوا گذرتا ہوں
نظر نہیں آرہا جدھر سے لگے ہوئے ہیں
جو دوستی سے نہ دشمنی سے ملے ہوئے ہیں
چراغ تھے جس قدر ہوا سے ملے ہوئے تھے
بات سندیسا تھی اس کی گفتگو پیغام تھا
وہ زمیں پیغام تھا، یا آسماں پیغام تھا
دل کو رہین بند قبا مت کیا کرو
دن رات میرے دل سے گذرمت کیا کرو
ہزار بندش اوقات سے نکلتا ہے
جہاں یہ دل ترے جنجال سے نکلتا ہے
مزہ کچھ تو ملے گا موج کو منجدھار کرنے میں
جہاں پہ ہونا نہیں، وہیں سے لگے ہوئے ہیں
ظفر یہ کس طرح کے سفر میں پڑے ہوئے ہیں
اگر چہ ہم لوگ داستاں میں پڑے ہوئے ہیں
رہ رہ کے زبانی کبھی تحریر سے ہم نے
جوڑا ہے کسی اور ہی انجام سے ہم نے
ہوتے گئے تھے جمع ہی ارمان ہمارے
پتا نہیں چل رہا کہاں سے بندھے ہوئے ہیں
ہمارے اندر تو کوئی باہر لکھے ہوئے تھے
بے نام جس قدر ہیں انھیں نام دے سکوں
کہیں ہم اپنی ہی بے کرانی میں رہ گئے ہیں
ہیں نقش دیوار، جا بجا سے مٹے ہوئے ہیں
عجب نہیں ہے جورفتگاں سے جڑے ہوئے ہیں
کہیں پہ موجود، اور کہیں سے ہٹے ہوئے ہیں
ظفر ، فسانوں کہ داستانوں میں رہ گئے ہیں
مرے گھر تو کیا سررہگذر نہیں آرہا
جیسے ہوں شہر بدر شہر میں آیا ہوا میں
وقت بے وقت کہ دیلے سے کویلا ہوا میں
راکھ ہوتا ہوا، ہر لحظہ نبڑتا ہوا میں
مسترد ہوگیا جب تیرا قبولا ہوا میں
ترے راستوں سےجبھی کذر نہیں کر رہا
جو یہ تیرے بارے میں گفتگو نہیں کر رہا
خرچ ہوتا ہوں اسی چال سے چلتا ہوا میں
پہلے ہی ٹھیک طرح سے ہوں ٹٹولا ہوا میں
غزلیں
غزلیں
نظم کی دہلیز پر
سیمیا
حمل سرا
سسٹر ماریا تیر یزا
منہ پیٹتے ہوئے ایک نظم
مرنے والے سے جلن
مرنے والے سے جلن
بالکل آپ کی طرح
سمجھ سے پرے
فوراً ہی مرجانا
گڑییں، پریاں، شہزادیاں
پیار بھری دعائیں
آپ کی شناخت
تم میرے پاس آجاؤ
آرزو کا سفر
کل، آج اور کل
روزن یقیں
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔