بات کچھ نہیں صرف
عرض تمنّا
نذرانۂ خلوص
صبح امید کہ بد معتکف پردۂ غیب
ٹمٹماتا ہے دیا دل کا بجھادے کوئی
میں ایک سنگ میل ہوں
to the satan of the satanic verses
زندگی میں مرحلے ایسے بھی آئے بارہا
سائیں اپنے نفس کو ہم نے یوں ہی نہیں نا کام کیا
گھر اپنا وادی برق وشرر میں رکھاجائے
ہے مری زیست ترے غم سے فروزاں جاناں
کچھ سوچوں کے کچھ فکروں کے کچھ تھے احساسات کے نام
بے حجابوں کو حجابوں کی طرف لے جائیں گے
ان کی پرواز پر جو بندش تھی
رہ وفا کا مسافر ٹھہر گیا کیسے
زمین جیسے کہ آتش فشاں کو ساتھ لیے
منظر ہی گلستاں کا کچھ اتنا عجیب تھا
اپنے جذبات کو سینے میں دبار رہنے دو
پھولوں کا تبسم ہوں بہاروں کی ادا ہوں
کچھ اصولوں کے لیے میں ظلم سہتا ہی رہا
درد ایسا دیا احساس وفا نے ہم کو
چلنا ذرا تم اہل نظر دیکھ بھال کے
چمن میں خار کی گل کو قبا ضروری ہے
ہر قدم رساتے تنگ ہیں
گو اپنے گریبان صدا چاک رہے ہیں
سامنے رکھ دیے یادوں کے خزانے میرے
رہ ہستی کے ہر اک موڑ سے بچ کر نکلے
دیکھا تھا میں نے بار ہا ایک دیا جلا ہوا
عقل انساں کے کرشمے اس قدر دیکھے گئے
غور سے دیکھو ذرا ان اونچے ایوانوں کے رخ
ہو گئے ہیں بدگماں سب راز داں کیا ہوگیا
ہے اسی میں اندھیروں کا گھر دیکھنا
جہاں آہ گم ہوگئی قہقہوں میں وہاں مسکرانے کی کوشش نہ کرنا
Shut not the door
جیسے مچلتی لہروں کا رخ کوئی کنارا جانے ہے
یہ طے ہے کہ تم کو کبھی رسوا نہ کریں گے
دیوانہ اور حسن کے پاروں کے درمیاں
یہ اور بات ہے کہ مقابل نصیب ہے
علم
یقین حق کی نئی آب وتاب لے کر اٹھو
تمناّؤں کا مظہر بن گئے لو چشم تر آخر
آبلے پانو کے جتنا حوصلہ دیتے رہے
اہل دولت کی نظر جاتی ہے تب نادار پر
جب خیال آتا ہے مجھ کو تری رسوائی کا
ایک درخت کا پیغام
رہ گئے ہیں رہ ہستی میں نشان پتھر کے
ہزن ہیں ہر قدم پہ مسافر سنبھل کےچل
غم جو تونے دیا نہیں ہوتا
زیست کے پیچ وخم تلاش کریں
ٓپ کی جو زبان پر ہوگی
حاصل صد انجمن ہے میری تنہائی بہت
نگاہ شوق کو جب تیرا نقش پا نہ ملا
یہ جو سراب چمک بے شمار دیتے ہیں
درد والم کی اب کوئی زنجیر ہیں نہیں
خطا جو غیرسے سرزد ہوئی معاف ہوئی
اٹھے جو نظر ان کے عالم ہی بدل جائے
دنیا نجات پاگئی ابر سیاہ سے
یوں دل کی بات ان سے کہے جارہا ہوں میں
دیوانگی پہ یوں مری حیران نہ ہوگا
رنگ افلاک نہیں ہوں کہ بدل جاؤں گا
ماضی کا باب حال کے لمحوں پہ دانہ تھا
پلکوں پہ میری جب بھی شرارے مچل گئے
دیوانے اصولوں کو کچھ ایسے بناتے ہیں
تیری نگاہ حسن کا اوج کمال ہے
آپ یوں بزم خیالات میں آتے رہیے
اپنے ذہن کا اڑتا پنچھی کس منزل کا راہی ہے
سوکھے ہوئے پیروں کو برگ و ثمر دیتا ہے کون ہے تو؟
AUTHORامان اللہ خالد
YEAR1989
CONTRIBUTORارجمند آرا
PUBLISHER انجمن ترقّی پسند مصنفین، سکندر آباد
AUTHORامان اللہ خالد
YEAR1989
CONTRIBUTORارجمند آرا
PUBLISHER انجمن ترقّی پسند مصنفین، سکندر آباد
بات کچھ نہیں صرف
عرض تمنّا
نذرانۂ خلوص
صبح امید کہ بد معتکف پردۂ غیب
ٹمٹماتا ہے دیا دل کا بجھادے کوئی
میں ایک سنگ میل ہوں
to the satan of the satanic verses
زندگی میں مرحلے ایسے بھی آئے بارہا
سائیں اپنے نفس کو ہم نے یوں ہی نہیں نا کام کیا
گھر اپنا وادی برق وشرر میں رکھاجائے
ہے مری زیست ترے غم سے فروزاں جاناں
کچھ سوچوں کے کچھ فکروں کے کچھ تھے احساسات کے نام
بے حجابوں کو حجابوں کی طرف لے جائیں گے
ان کی پرواز پر جو بندش تھی
رہ وفا کا مسافر ٹھہر گیا کیسے
زمین جیسے کہ آتش فشاں کو ساتھ لیے
منظر ہی گلستاں کا کچھ اتنا عجیب تھا
اپنے جذبات کو سینے میں دبار رہنے دو
پھولوں کا تبسم ہوں بہاروں کی ادا ہوں
کچھ اصولوں کے لیے میں ظلم سہتا ہی رہا
درد ایسا دیا احساس وفا نے ہم کو
چلنا ذرا تم اہل نظر دیکھ بھال کے
چمن میں خار کی گل کو قبا ضروری ہے
ہر قدم رساتے تنگ ہیں
گو اپنے گریبان صدا چاک رہے ہیں
سامنے رکھ دیے یادوں کے خزانے میرے
رہ ہستی کے ہر اک موڑ سے بچ کر نکلے
دیکھا تھا میں نے بار ہا ایک دیا جلا ہوا
عقل انساں کے کرشمے اس قدر دیکھے گئے
غور سے دیکھو ذرا ان اونچے ایوانوں کے رخ
ہو گئے ہیں بدگماں سب راز داں کیا ہوگیا
ہے اسی میں اندھیروں کا گھر دیکھنا
جہاں آہ گم ہوگئی قہقہوں میں وہاں مسکرانے کی کوشش نہ کرنا
Shut not the door
جیسے مچلتی لہروں کا رخ کوئی کنارا جانے ہے
یہ طے ہے کہ تم کو کبھی رسوا نہ کریں گے
دیوانہ اور حسن کے پاروں کے درمیاں
یہ اور بات ہے کہ مقابل نصیب ہے
علم
یقین حق کی نئی آب وتاب لے کر اٹھو
تمناّؤں کا مظہر بن گئے لو چشم تر آخر
آبلے پانو کے جتنا حوصلہ دیتے رہے
اہل دولت کی نظر جاتی ہے تب نادار پر
جب خیال آتا ہے مجھ کو تری رسوائی کا
ایک درخت کا پیغام
رہ گئے ہیں رہ ہستی میں نشان پتھر کے
ہزن ہیں ہر قدم پہ مسافر سنبھل کےچل
غم جو تونے دیا نہیں ہوتا
زیست کے پیچ وخم تلاش کریں
ٓپ کی جو زبان پر ہوگی
حاصل صد انجمن ہے میری تنہائی بہت
نگاہ شوق کو جب تیرا نقش پا نہ ملا
یہ جو سراب چمک بے شمار دیتے ہیں
درد والم کی اب کوئی زنجیر ہیں نہیں
خطا جو غیرسے سرزد ہوئی معاف ہوئی
اٹھے جو نظر ان کے عالم ہی بدل جائے
دنیا نجات پاگئی ابر سیاہ سے
یوں دل کی بات ان سے کہے جارہا ہوں میں
دیوانگی پہ یوں مری حیران نہ ہوگا
رنگ افلاک نہیں ہوں کہ بدل جاؤں گا
ماضی کا باب حال کے لمحوں پہ دانہ تھا
پلکوں پہ میری جب بھی شرارے مچل گئے
دیوانے اصولوں کو کچھ ایسے بناتے ہیں
تیری نگاہ حسن کا اوج کمال ہے
آپ یوں بزم خیالات میں آتے رہیے
اپنے ذہن کا اڑتا پنچھی کس منزل کا راہی ہے
سوکھے ہوئے پیروں کو برگ و ثمر دیتا ہے کون ہے تو؟
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔