سر ورق
ترتیب
فنکاروں کے نام
رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لئے آ
قربتوں میں بھی جدائی کے زمانے مانگے
معبود
جز ترے کوئی بھی دن رات نہ جانے میرے
نہ حریفِ جاں نہ شریکِ غم شبِ انتظار کوئی تو ہو
شاخِ نہال غم
خود کلامی
دل تو وہ برگِ خزاں ہے کہ ہوا لے جائے
نہ انتظار کی لذت نہ آرزو کی تھکن
ہم تو یوں خوش تھے کہ اک تار گریباں میں ہے
خاموش ہو کیوں دادِ جفا کیوں نہیں دیتے
اظہار
خود کشی
سن بھی اے نغمۂ سنجِ کنج چمن اب سماعت کا اعتبار سکے
دل بہلتا ہے کہاں انجم و مہتاب سے بھی
وفا کے باب میں الزام عاشقی نہ لیا
شکست
زیر ِ لب
ایسے چپ ہیں کہ یہ منزل بھی کڑی ہو جیسے
کیا ایسے کم سخن سے کوئی گفتگو کرے
ہر ایک بات نہ کیوں زہر سی ہماری لگے
ہمدرد
خواب
سو دوریوں پہ بھی مرے دل سے جدا نہ تھی
جو بھی دکھ یاد نہ تھا یاد آیا
سوال
غریب شہر کے نام
زخم کو پھول تو صرصر کو صبا کہتے ہیں
کل ہو چراغِ مے تو سزاوارِ سنگ ہیں
وہی جنون ہے وہی کوچۂ ملامت ہے
پیغام بر
روز کی مسافت سے چور ہوگئے دریا
تو کہ انجان ہے اس شہر کے آداب سمجھ
خدائے برتر
قرب جز داغِ جدائی نہیں دیتا کچھ بھی
دوست بن کر بھی نہیں ساتھ نبھانے والا
یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے
خود غرض
وابستگی
دل بھی بجھا ہو شام کی پرچھائیاں بھی ہوں
جب تری یاد کے جگنو چمکے
ممدوح
پیام آئے ہیں اس یارِ بے وفا کے مجھے
بے نیازِ غمِ پیمانِ وفا ہو جانا
اے نگارِ گل
گلشدہ شمعوں کا ماتم نہ کرو
دل میں اب طاقت، کہاں خوننابہ افشانی کرے
بے سرو ساماں تھے لیکن اتنا اندازہ نہ تھا
تپتے صحراؤں پہ گرجا سر دریا برسا
افعی کی طرح ڈسنے لگی موجِ نفس بھی
اے میرے بیدرد شہر
گھر میں کتنا سناٹا ہے باہر کتنا شور
پھر اسی راہ گزر پر شاید
اب وہ جھونکے کہاں صبا جیسے
تریاق
مستقل محرومیوں پر بھی تو دل مانا نہیں
تو پاس بھی ہو تو دل بیقرار اپنا ہے
جس سے یہ طبیعت بڑی مشکل سے لگی تھی
کسی کے تذکرے بستی میں کوبکو جو ہوئے
مجھ سے پہلے
کروں نہ یاد، مگر کس طرح بھلاؤں اسے
اب اور کیا کسی سے مراسم بڑھائیں ہم
اتری تھی شہر گل میں کوئی آتشیں کرن
کوئی بھٹکتا بادل
کیسی طللب اور کیا اندازے مشکل ہے تقدیر بنے
اپنی محبت کے افسانے کب تک راز بناؤ گے
زندگی! اے زندگی
چند لمحوں کے لئے تو نے مسیحائی کی
زعم ایسا کیا کہ لطفِ دوست ٹھکرانا پڑے
اب نہ فرصت ہے نہ احساس ہے غم سے اپنے
یہ تو جب ممکن ہے۔۔۔۔۔
تم بھی خفا ہو لوگ بھی برہم ہیں دوستو
تو کہاں تھا زندگی کے روز وشب آنکھوں میں تھے
لمحے وفورِ شوق کے ایسے نہ آئے نہ تھے
شہدائے جنگِ آزادی1857ء کے نام
پیمبر مشرق
اسی خیال میں تاروں کو رات بھر دیکھوں
جنبشِ مژگاں کہ ہر دم دل کشائے زخم ہے
المیہ
ملکیت
منتظر کب سے تحیر ہے تری تقدیر کا
اہلِ غم جاتے ہیں نا امید تیرے شہر سے
تمثیل
آنکھوں میں چبھ رہے ہیں در وبام کے چراغ
نظر کی دھوپ میں سائے گھلے ہیں شب کی طرح
ہم کیا کہ اسی سوچ میں بادِ چمنی تھی
نیند
خوشبو کا سفر
اب کے برس بھی
تجھ سے مل کر بھی کچھ خفا ہیں ہم
تجھے اداس کیا خود بھی سوگوار ہوئے
اَن دیکھے دیاروں کے سفیر
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
اچھا تھا اگر زخم نہ بھرتے کوئی دن اور
ترس رہا ہوں مگر تو نظر نہ آ مجھ کو
کسی طرح تو بیانِ حرفِ آرزو کرتے
میں اور تو
کون آتا مگر آس لگائے رکھنا
افریشیائی ادیبوں کے نام
سر ورق
ترتیب
فنکاروں کے نام
رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لئے آ
قربتوں میں بھی جدائی کے زمانے مانگے
معبود
جز ترے کوئی بھی دن رات نہ جانے میرے
نہ حریفِ جاں نہ شریکِ غم شبِ انتظار کوئی تو ہو
شاخِ نہال غم
خود کلامی
دل تو وہ برگِ خزاں ہے کہ ہوا لے جائے
نہ انتظار کی لذت نہ آرزو کی تھکن
ہم تو یوں خوش تھے کہ اک تار گریباں میں ہے
خاموش ہو کیوں دادِ جفا کیوں نہیں دیتے
اظہار
خود کشی
سن بھی اے نغمۂ سنجِ کنج چمن اب سماعت کا اعتبار سکے
دل بہلتا ہے کہاں انجم و مہتاب سے بھی
وفا کے باب میں الزام عاشقی نہ لیا
شکست
زیر ِ لب
ایسے چپ ہیں کہ یہ منزل بھی کڑی ہو جیسے
کیا ایسے کم سخن سے کوئی گفتگو کرے
ہر ایک بات نہ کیوں زہر سی ہماری لگے
ہمدرد
خواب
سو دوریوں پہ بھی مرے دل سے جدا نہ تھی
جو بھی دکھ یاد نہ تھا یاد آیا
سوال
غریب شہر کے نام
زخم کو پھول تو صرصر کو صبا کہتے ہیں
کل ہو چراغِ مے تو سزاوارِ سنگ ہیں
وہی جنون ہے وہی کوچۂ ملامت ہے
پیغام بر
روز کی مسافت سے چور ہوگئے دریا
تو کہ انجان ہے اس شہر کے آداب سمجھ
خدائے برتر
قرب جز داغِ جدائی نہیں دیتا کچھ بھی
دوست بن کر بھی نہیں ساتھ نبھانے والا
یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے
خود غرض
وابستگی
دل بھی بجھا ہو شام کی پرچھائیاں بھی ہوں
جب تری یاد کے جگنو چمکے
ممدوح
پیام آئے ہیں اس یارِ بے وفا کے مجھے
بے نیازِ غمِ پیمانِ وفا ہو جانا
اے نگارِ گل
گلشدہ شمعوں کا ماتم نہ کرو
دل میں اب طاقت، کہاں خوننابہ افشانی کرے
بے سرو ساماں تھے لیکن اتنا اندازہ نہ تھا
تپتے صحراؤں پہ گرجا سر دریا برسا
افعی کی طرح ڈسنے لگی موجِ نفس بھی
اے میرے بیدرد شہر
گھر میں کتنا سناٹا ہے باہر کتنا شور
پھر اسی راہ گزر پر شاید
اب وہ جھونکے کہاں صبا جیسے
تریاق
مستقل محرومیوں پر بھی تو دل مانا نہیں
تو پاس بھی ہو تو دل بیقرار اپنا ہے
جس سے یہ طبیعت بڑی مشکل سے لگی تھی
کسی کے تذکرے بستی میں کوبکو جو ہوئے
مجھ سے پہلے
کروں نہ یاد، مگر کس طرح بھلاؤں اسے
اب اور کیا کسی سے مراسم بڑھائیں ہم
اتری تھی شہر گل میں کوئی آتشیں کرن
کوئی بھٹکتا بادل
کیسی طللب اور کیا اندازے مشکل ہے تقدیر بنے
اپنی محبت کے افسانے کب تک راز بناؤ گے
زندگی! اے زندگی
چند لمحوں کے لئے تو نے مسیحائی کی
زعم ایسا کیا کہ لطفِ دوست ٹھکرانا پڑے
اب نہ فرصت ہے نہ احساس ہے غم سے اپنے
یہ تو جب ممکن ہے۔۔۔۔۔
تم بھی خفا ہو لوگ بھی برہم ہیں دوستو
تو کہاں تھا زندگی کے روز وشب آنکھوں میں تھے
لمحے وفورِ شوق کے ایسے نہ آئے نہ تھے
شہدائے جنگِ آزادی1857ء کے نام
پیمبر مشرق
اسی خیال میں تاروں کو رات بھر دیکھوں
جنبشِ مژگاں کہ ہر دم دل کشائے زخم ہے
المیہ
ملکیت
منتظر کب سے تحیر ہے تری تقدیر کا
اہلِ غم جاتے ہیں نا امید تیرے شہر سے
تمثیل
آنکھوں میں چبھ رہے ہیں در وبام کے چراغ
نظر کی دھوپ میں سائے گھلے ہیں شب کی طرح
ہم کیا کہ اسی سوچ میں بادِ چمنی تھی
نیند
خوشبو کا سفر
اب کے برس بھی
تجھ سے مل کر بھی کچھ خفا ہیں ہم
تجھے اداس کیا خود بھی سوگوار ہوئے
اَن دیکھے دیاروں کے سفیر
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
اچھا تھا اگر زخم نہ بھرتے کوئی دن اور
ترس رہا ہوں مگر تو نظر نہ آ مجھ کو
کسی طرح تو بیانِ حرفِ آرزو کرتے
میں اور تو
کون آتا مگر آس لگائے رکھنا
افریشیائی ادیبوں کے نام
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.