فہرست
فہرست کتب ذیشان بک ڈپو مزنگ لاہور
معذرت
درد زندگی
وہ جس کی متین آگاہی میں ہرراز نہان ہستی ہے
وہ
خواب زندگانی
یہ رنگیں بدلیاں جو تیرتی ہیں آسمانوں میں
اگرچہ خلد بریں کا جواب ہے دنیا
دنیا
سولن میں شام
یہ وقت شام یہ رنگیں نظارے کوہساروں میں
یہ فیض نور یہ ہنگام طاعت معبود
شکست سکوت
توہے سمیع و بصیر ومسبب الاؔ سباب
نہ پوچھ عمر گذشتہ کی سرگذشت نہ پوچھ
سر گذشت من چہ میپرسی چہ گوئیم سرگذشت
پندار سرمدی
فضائے عالم سے رفتہ رفتہ سیاہ پروے اٹھارہا ہوں
منصوری کے اسٹیشن پر
چمن میں گیسوئے نسیم صبح مشکبار ہے
غمزدہ
نورافشاں تھی جہاں پر اک شب ماہ صیام
لیگئے مجھ کو وہاں وہ دلنشیں نقش ونگار
شباب چمن
جہان آرزوپہ آج فضل کرد گار ہے
دیکھ اے دل کون ہے اس پردہ تصویر میں
ایک تصویر کو دیکھ کر
کسی کی یاد
دل میں پھر بیتاب جلوؤں کی جھلک پاتا ہوں میں
جہانگیر کے مقبرے پر ایک شام
آج تک ہے اک سہانی شام ناز بزم ہوش
چلتے چلتے سامنے وہ مقبرہ آیا نظر
یہ تو سب کچھ ہے مگر پہلی سی اب باتیں نہیں
دیر تک دیکھا کیا میں یہ طلسم انقلاب
ایک بیوہ کو دیکھ کر
عجیب حسرت برس رہی ہے فضا پہ ایک بیکسی ہے طاری
شعرو شعریت
فی الحقیقت شعر ہے تصویر احساس لطیف
سرد فوارے پہ سورج کی شعاع زرفشاں
کمال حسن کو پہنچی نہ جستجو کی نظر
خواب شباب
بہار کی ایک دوپہر تھی شجر جوانی پہ آرہے تھے
تمہاری یاد
دریائے توی کے ساحل پر شام
عجب انداز سے زلف عروس شام لہرائی
معصومیت
جگر پارہ یہ جان زندگی طفل حسیں
ہوائیں دم بخود ہیں دم گھٹا جاتا ہے سینے میں
شام برشگال
صبح دم اک دن فلک پر ہلکا ہلکا ابر تھا
طلسم زندگی
الغرض میں تھا غریق نشہ زار حسن دوست
رونمائی کے لئے جب واکئے بند کفن
فضا ویران ہے گرمی کی شدت ہے زمانے میں
کسان
مرحبا اے مطرب سرمایہ دار بیخودی
تاثرات نغمہ
چوٹ کھاتا ہے جو نہی مضراب سے بربط کا تار
نغمۂ راحت
مرغزار آرزو میں ہے بہار آئی ہوئی
یہی اک آرزو رہتی ہے بیکل دل کی دنیا میں
ایک آرزو
کوشش رنگیں
میں گریۂ پیہم میں اثر ڈھونڈ رہا ہوں
بے ثباتئ عالم
اس شعبدہ زار عالم میں کیا کھیل دکھایا جاتا ہے
خوشی کے شادیانے بج رہے ہیں بزم امکاں میں
سیلاب بہار
اسلوب عالم
ہم نشیں ! پوچھ نہ احسانؔ سے الفت کیا ہے
لکڑ ہارا
شعلہ افشاں ہے زمانہ بھر میں گرمی کا شباب
اس قیامت خیز منظر میں بصد خوف وہراس
یہ بلا کی دھوپ یہ گرمی یہ تپتی شاہراہ
بلندو پست پر اک ظلمت اندوہ طاری ہے
شب سیاہ
شمعیؔ سے پہلی غزل سنکر
یہ چشم مستی نواز تیری یہ نطق نغمہ فروش تیرا
مرگ اکرم پر
اے جہاں آباد اے ماتم سرائے کائنات
مشورات
چین پائے یہ دل درد آشنا جانے بھی دے
یہ ہوائے مشک پرور یہ بہار آئی ہوئی
خیال وطن
کسی کا خط پڑھتے ہوئے
یہ چاندنی یہ ہوا اور پھر بہار بھی ہے
یہ دوشیزہ جو ہے محفوظ ہاتھوں سے زمانے کے
بیگانۂ انجام ایک دوشیزہ کو دیکھکر
یہ کیا جانے ابھی دلدوز باتیں کیسی ہوتی ہیں
سر چرخ بریں اک رت جگا تھا
تصویر خیالی
صبح کا بیخود سماں ہے اے نگاہ حسن بیں!
کیفستان سحر
شام کلیسا
ایک دن احسانؔ میں سیر چمن سے لوٹ کر
کشتۂ احساس یعنی میں دل حسرت نصیب
عالم محسوسات میں تھی بزم عالم بے ثبات
آئی اتنے میں مرے پہلو سے ہلکی سی صدا
گرمی کی دوپہر
مجھے ویسے تو ہر لمحہ تمہاری یاد آتی ہے
نیرنگ تصور
یاد ایا میکہ ہنگام غروب آفتاب
راز شباب
آج تک وہ مست گھڑیاں یاد آتی ہیں مجھے
برسات کی بھیگی راتوں میں اکثر یہ عالم ہوتا ہے
ساون
آسمانوں پر ستارے آنکھ جھپکانے لگے
کیف صبوحی
شملے سے سمر ہل آتے ہوتے
لمپنی باغ لائل پور میں شب ماہتاب
بعزن ساکت فضاؤں میں ہے بحر سیم ناب
جب کسی میں تاب نظارہ نہیں پاتا تو
نادیدہ دوست سے
وہ دن بھولا نہیں احسانؔ اب تک
کیف بر شگال
نسیم صبح کی امواج عطر افشاں کو
استفسار زریں
یاد وطن
اے وطن والو! اسیر ظلمت قسمت ہوں میں
طلسم خیال
تیرے جلوے ہیں فکر کی گہرائی میں
آہ وہ شب چودہویں پرتھی بہار آئی ہوئی
ایک گذشتہ چاندنی رات کا تصور
نپولین
ترقی پر تری حیراں ہے بزم روز گار اب تک
جمال کار ہیں گلشن میں سامری مشرب
خواب بیخبری
برسات کی اک شام سے زرکار تھا عالم
ڈاکٹراقبالؔ کی کوٹھی
علی گڑھ کے ایک باغ میں
مژدہ میخوارو بہاریں باغ میں آنے لگیں
وداع جوانی
بہار دہر مے برسارہی ہے
نگاہیں جلوۂ رنگ شفق میں ڈوب جاتی ہے
حسن نظر
سکوں کہاں ہے ساقیا! گر یزروز گار میں
افسون بہار
سرخ مے برسا رہا تھا شام کا رنگیں شباب
دیہات کی شام
گھاس والی
گرمی کی دوپہر تھی تمازت کا دور تھا
سرمہ افشاں ہے آسماں کی نگاہ
اثرات رباب
جھوٹی پریت
جگ کی جھوٹی پریت ہے لوگو جگ کی جھوٹی پریت
احسانؔ میں حیراں ہوں کہ یہ پیکر تنویر
مغنیہ
ایک بچہ جس کا والد کر چکا تھا انتقال
یتیم
احسانؔ وہ دن یاد آتے ہیں جب کیف تھا حاصل جینے میں
یاد ماضی
فریب وفا
بزم نظر میں اب وہ نگار حسیں کہاں
ہے تنگ جامۂ ہستی میں آج دیوانہ
کیف چمن
حور بیاباں
اے ہم نشیں سناؤں تجھے کیا کہ رات بھر
مطالعۂ حیات
صبح دم دریائے راوی پر ہوا میرا گزر
داغ جاوداں ایک عزیز کے انتقال پر
یہ جانتا ہوں کہ آج دنیا میں کوئی شے دلنشیں نہیں ہے
تصویر شام
سن اے مرلی منوہر جان جاں تصویر زیبائی
یہ سادگی کے نقوش خنداں یہ بھولا بھالا عذار سمیں
کمسن لڑکی
لارنس باغ کی ایک سحر
کہاں ہے ساقیا پلاکہ عالم شباب ہے
یہ بھولی بھالی حسین صورت یہ دلنشیں شیر خوار بچہ
ذیشان احمد
دیدۂ عبرت سے یہ بزم حزیں دیکھے کوئی
عروس نو کی صبح اولین
کتاب اور مزدور
بام مشرق پر تجلی جلوہ گر ہونے کو تھی
کتا اک کوٹھی کے دروازے پہ بھونکا یک بیک
کیا یہ اک دھبا نہیں ہندوستاں کی شان پر
ہے مگر سب ناز ونعمت سرکشوں کے واسطے
ساون رین
امیر ملک کے فقیر باشندے
سردی کے نکلتے موسم میں اللہ رے پھبن بازاروں کی
وہ ملک جہاں برساتوں میں امرت کی پھواریں پڑتی ہوں
نالۂ سکوت ایک عزیز کی گمشدگی پر
تپ غم سے احساںؔ جگر جل رہا ہے
غم ارشد
چاند بی بی
تو ہے تصویر وفا اے پیکر عزو وقار
پیام بیخودی
جلوۂ حسن معانی سے الٹتی ہے نقاب
صبح بیاباں
بیاباں میں وقت سحر ہو رہا ہے
متاع حجاب
حجاب کس نے کہا ہے تجھے حجاب نہ کر
ایک حسینہ بھولی بھالی
ہولی کی ساحرہ
ہر ایک شے میں ہے اک حسن سرمدی کی جھلک
شہر حبیب
برج! باسیوں میں شام بنسری بجائے جا
شام کی بنسری
کھلی ہے چاندنی کہاں یہ وقت احتراز کا!
متھرا میں چاندنی رات
غم فردا
ریا کے بندوں کی صورتوں پر نہ جائیں اہل خرد سے کہدو
آ
محمل راز سے نکل دشت مجاز میں بھی آ!
صبح کا گیت
آم پہ کوئل بول رہی ہے
دنیا کی دوروزہ عشرت پر کیوں بھینٹ چڑھے خودداری کی
عزم مردانہ
اللہ اللہ صنعت انساں کا اوج زر نگاہ
سینما میں پہلی بار
زعم شاعر
میرے قلم کو ہے تمیز شعر پیرائی
ایک دفتر کی طرف کل ہو گیا میرا گزر
فقدان معاش
ہوئی شام کیفیتیں آرہی ہیں
اوٹرم گھاٹ کلکتہ کی ایک شام
خموشی ہر اک شے پہ چھائی ہوئی ہے
چراغوں سے آنکھیں ملاتا چلا ہوں
اوستم کیش سیہ کار ریا کے بندے!
ریا وضیاء
حدیث مشترک
یہ مانا تجھ کو اے جان تمنا مجھ سے الفت ہے
مشاہدات
اف مری روح میں اک درد سا بھر دیتا ہے
دم بخود ہیں شام کے پرتوسے بانسوں کے درخت
ہم نشیں یاس کے دھندلکے میں
یہ اندھیری رات یہ جوش بہار بے بصر
جارہی تھی ریل سوئے لکھنؤ کل نیم شب
حالات احسان بن دانش
التماس
فہرست
فہرست کتب ذیشان بک ڈپو مزنگ لاہور
معذرت
درد زندگی
وہ جس کی متین آگاہی میں ہرراز نہان ہستی ہے
وہ
خواب زندگانی
یہ رنگیں بدلیاں جو تیرتی ہیں آسمانوں میں
اگرچہ خلد بریں کا جواب ہے دنیا
دنیا
سولن میں شام
یہ وقت شام یہ رنگیں نظارے کوہساروں میں
یہ فیض نور یہ ہنگام طاعت معبود
شکست سکوت
توہے سمیع و بصیر ومسبب الاؔ سباب
نہ پوچھ عمر گذشتہ کی سرگذشت نہ پوچھ
سر گذشت من چہ میپرسی چہ گوئیم سرگذشت
پندار سرمدی
فضائے عالم سے رفتہ رفتہ سیاہ پروے اٹھارہا ہوں
منصوری کے اسٹیشن پر
چمن میں گیسوئے نسیم صبح مشکبار ہے
غمزدہ
نورافشاں تھی جہاں پر اک شب ماہ صیام
لیگئے مجھ کو وہاں وہ دلنشیں نقش ونگار
شباب چمن
جہان آرزوپہ آج فضل کرد گار ہے
دیکھ اے دل کون ہے اس پردہ تصویر میں
ایک تصویر کو دیکھ کر
کسی کی یاد
دل میں پھر بیتاب جلوؤں کی جھلک پاتا ہوں میں
جہانگیر کے مقبرے پر ایک شام
آج تک ہے اک سہانی شام ناز بزم ہوش
چلتے چلتے سامنے وہ مقبرہ آیا نظر
یہ تو سب کچھ ہے مگر پہلی سی اب باتیں نہیں
دیر تک دیکھا کیا میں یہ طلسم انقلاب
ایک بیوہ کو دیکھ کر
عجیب حسرت برس رہی ہے فضا پہ ایک بیکسی ہے طاری
شعرو شعریت
فی الحقیقت شعر ہے تصویر احساس لطیف
سرد فوارے پہ سورج کی شعاع زرفشاں
کمال حسن کو پہنچی نہ جستجو کی نظر
خواب شباب
بہار کی ایک دوپہر تھی شجر جوانی پہ آرہے تھے
تمہاری یاد
دریائے توی کے ساحل پر شام
عجب انداز سے زلف عروس شام لہرائی
معصومیت
جگر پارہ یہ جان زندگی طفل حسیں
ہوائیں دم بخود ہیں دم گھٹا جاتا ہے سینے میں
شام برشگال
صبح دم اک دن فلک پر ہلکا ہلکا ابر تھا
طلسم زندگی
الغرض میں تھا غریق نشہ زار حسن دوست
رونمائی کے لئے جب واکئے بند کفن
فضا ویران ہے گرمی کی شدت ہے زمانے میں
کسان
مرحبا اے مطرب سرمایہ دار بیخودی
تاثرات نغمہ
چوٹ کھاتا ہے جو نہی مضراب سے بربط کا تار
نغمۂ راحت
مرغزار آرزو میں ہے بہار آئی ہوئی
یہی اک آرزو رہتی ہے بیکل دل کی دنیا میں
ایک آرزو
کوشش رنگیں
میں گریۂ پیہم میں اثر ڈھونڈ رہا ہوں
بے ثباتئ عالم
اس شعبدہ زار عالم میں کیا کھیل دکھایا جاتا ہے
خوشی کے شادیانے بج رہے ہیں بزم امکاں میں
سیلاب بہار
اسلوب عالم
ہم نشیں ! پوچھ نہ احسانؔ سے الفت کیا ہے
لکڑ ہارا
شعلہ افشاں ہے زمانہ بھر میں گرمی کا شباب
اس قیامت خیز منظر میں بصد خوف وہراس
یہ بلا کی دھوپ یہ گرمی یہ تپتی شاہراہ
بلندو پست پر اک ظلمت اندوہ طاری ہے
شب سیاہ
شمعیؔ سے پہلی غزل سنکر
یہ چشم مستی نواز تیری یہ نطق نغمہ فروش تیرا
مرگ اکرم پر
اے جہاں آباد اے ماتم سرائے کائنات
مشورات
چین پائے یہ دل درد آشنا جانے بھی دے
یہ ہوائے مشک پرور یہ بہار آئی ہوئی
خیال وطن
کسی کا خط پڑھتے ہوئے
یہ چاندنی یہ ہوا اور پھر بہار بھی ہے
یہ دوشیزہ جو ہے محفوظ ہاتھوں سے زمانے کے
بیگانۂ انجام ایک دوشیزہ کو دیکھکر
یہ کیا جانے ابھی دلدوز باتیں کیسی ہوتی ہیں
سر چرخ بریں اک رت جگا تھا
تصویر خیالی
صبح کا بیخود سماں ہے اے نگاہ حسن بیں!
کیفستان سحر
شام کلیسا
ایک دن احسانؔ میں سیر چمن سے لوٹ کر
کشتۂ احساس یعنی میں دل حسرت نصیب
عالم محسوسات میں تھی بزم عالم بے ثبات
آئی اتنے میں مرے پہلو سے ہلکی سی صدا
گرمی کی دوپہر
مجھے ویسے تو ہر لمحہ تمہاری یاد آتی ہے
نیرنگ تصور
یاد ایا میکہ ہنگام غروب آفتاب
راز شباب
آج تک وہ مست گھڑیاں یاد آتی ہیں مجھے
برسات کی بھیگی راتوں میں اکثر یہ عالم ہوتا ہے
ساون
آسمانوں پر ستارے آنکھ جھپکانے لگے
کیف صبوحی
شملے سے سمر ہل آتے ہوتے
لمپنی باغ لائل پور میں شب ماہتاب
بعزن ساکت فضاؤں میں ہے بحر سیم ناب
جب کسی میں تاب نظارہ نہیں پاتا تو
نادیدہ دوست سے
وہ دن بھولا نہیں احسانؔ اب تک
کیف بر شگال
نسیم صبح کی امواج عطر افشاں کو
استفسار زریں
یاد وطن
اے وطن والو! اسیر ظلمت قسمت ہوں میں
طلسم خیال
تیرے جلوے ہیں فکر کی گہرائی میں
آہ وہ شب چودہویں پرتھی بہار آئی ہوئی
ایک گذشتہ چاندنی رات کا تصور
نپولین
ترقی پر تری حیراں ہے بزم روز گار اب تک
جمال کار ہیں گلشن میں سامری مشرب
خواب بیخبری
برسات کی اک شام سے زرکار تھا عالم
ڈاکٹراقبالؔ کی کوٹھی
علی گڑھ کے ایک باغ میں
مژدہ میخوارو بہاریں باغ میں آنے لگیں
وداع جوانی
بہار دہر مے برسارہی ہے
نگاہیں جلوۂ رنگ شفق میں ڈوب جاتی ہے
حسن نظر
سکوں کہاں ہے ساقیا! گر یزروز گار میں
افسون بہار
سرخ مے برسا رہا تھا شام کا رنگیں شباب
دیہات کی شام
گھاس والی
گرمی کی دوپہر تھی تمازت کا دور تھا
سرمہ افشاں ہے آسماں کی نگاہ
اثرات رباب
جھوٹی پریت
جگ کی جھوٹی پریت ہے لوگو جگ کی جھوٹی پریت
احسانؔ میں حیراں ہوں کہ یہ پیکر تنویر
مغنیہ
ایک بچہ جس کا والد کر چکا تھا انتقال
یتیم
احسانؔ وہ دن یاد آتے ہیں جب کیف تھا حاصل جینے میں
یاد ماضی
فریب وفا
بزم نظر میں اب وہ نگار حسیں کہاں
ہے تنگ جامۂ ہستی میں آج دیوانہ
کیف چمن
حور بیاباں
اے ہم نشیں سناؤں تجھے کیا کہ رات بھر
مطالعۂ حیات
صبح دم دریائے راوی پر ہوا میرا گزر
داغ جاوداں ایک عزیز کے انتقال پر
یہ جانتا ہوں کہ آج دنیا میں کوئی شے دلنشیں نہیں ہے
تصویر شام
سن اے مرلی منوہر جان جاں تصویر زیبائی
یہ سادگی کے نقوش خنداں یہ بھولا بھالا عذار سمیں
کمسن لڑکی
لارنس باغ کی ایک سحر
کہاں ہے ساقیا پلاکہ عالم شباب ہے
یہ بھولی بھالی حسین صورت یہ دلنشیں شیر خوار بچہ
ذیشان احمد
دیدۂ عبرت سے یہ بزم حزیں دیکھے کوئی
عروس نو کی صبح اولین
کتاب اور مزدور
بام مشرق پر تجلی جلوہ گر ہونے کو تھی
کتا اک کوٹھی کے دروازے پہ بھونکا یک بیک
کیا یہ اک دھبا نہیں ہندوستاں کی شان پر
ہے مگر سب ناز ونعمت سرکشوں کے واسطے
ساون رین
امیر ملک کے فقیر باشندے
سردی کے نکلتے موسم میں اللہ رے پھبن بازاروں کی
وہ ملک جہاں برساتوں میں امرت کی پھواریں پڑتی ہوں
نالۂ سکوت ایک عزیز کی گمشدگی پر
تپ غم سے احساںؔ جگر جل رہا ہے
غم ارشد
چاند بی بی
تو ہے تصویر وفا اے پیکر عزو وقار
پیام بیخودی
جلوۂ حسن معانی سے الٹتی ہے نقاب
صبح بیاباں
بیاباں میں وقت سحر ہو رہا ہے
متاع حجاب
حجاب کس نے کہا ہے تجھے حجاب نہ کر
ایک حسینہ بھولی بھالی
ہولی کی ساحرہ
ہر ایک شے میں ہے اک حسن سرمدی کی جھلک
شہر حبیب
برج! باسیوں میں شام بنسری بجائے جا
شام کی بنسری
کھلی ہے چاندنی کہاں یہ وقت احتراز کا!
متھرا میں چاندنی رات
غم فردا
ریا کے بندوں کی صورتوں پر نہ جائیں اہل خرد سے کہدو
آ
محمل راز سے نکل دشت مجاز میں بھی آ!
صبح کا گیت
آم پہ کوئل بول رہی ہے
دنیا کی دوروزہ عشرت پر کیوں بھینٹ چڑھے خودداری کی
عزم مردانہ
اللہ اللہ صنعت انساں کا اوج زر نگاہ
سینما میں پہلی بار
زعم شاعر
میرے قلم کو ہے تمیز شعر پیرائی
ایک دفتر کی طرف کل ہو گیا میرا گزر
فقدان معاش
ہوئی شام کیفیتیں آرہی ہیں
اوٹرم گھاٹ کلکتہ کی ایک شام
خموشی ہر اک شے پہ چھائی ہوئی ہے
چراغوں سے آنکھیں ملاتا چلا ہوں
اوستم کیش سیہ کار ریا کے بندے!
ریا وضیاء
حدیث مشترک
یہ مانا تجھ کو اے جان تمنا مجھ سے الفت ہے
مشاہدات
اف مری روح میں اک درد سا بھر دیتا ہے
دم بخود ہیں شام کے پرتوسے بانسوں کے درخت
ہم نشیں یاس کے دھندلکے میں
یہ اندھیری رات یہ جوش بہار بے بصر
جارہی تھی ریل سوئے لکھنؤ کل نیم شب
حالات احسان بن دانش
التماس
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.