سرورق
عرضی
منظربہ منظر دیکھنا
آنسوؤں کے رتجگوں سے
رات ابھی آدھی گذری ہے
اک عجب رات
جس گھڑی صبح رخصت ہوئی
اس کا جواب کون دے
تاریخ کے دشت میں
حویلی موت کی دہلیز پر
خواب دیکھتے رہو
فضا میں کالے دھوئیں کی چادر تنی ہوئی ہے
اک شہر تھا اک باغ تھا
تمہارا خط ملا
کھڑکیاں کھول کر باغ کو دیکھنا
اک خواب اس سے ملاقات کا
ملاقاتیں۔۔۔ نہیں پھر بھی ملاقاتیں
سمندر تو بہت خاموش لگتا ہے
وہیں کہیں سویا ہے موسم
پلٹ کر جو دیکھتے ہیں
بدلنے کا کوئی موسم نہیں ہوتا
اس لمحے میں اک لمحے کو
خزاں کے دامن پر جگمگاتی ہوئی بہاریں
تم سے ملنے کے موسم
بہت سے سوالات اکثر ڈراتے ہوئے سے
بہت سے سوالات اکثر ڈراتے ہوئےسے
بہت سے سوالات اکثر ڈراتے ہوئے سے
بہت سے سوالات اکثر ڈراتے ہوئے سے
بہت سے سوالات اکثر ڈراتے ہوئے سے
بہت سے سوالات اکثر ڈراتے ہوئے سے
بہت سے سوالات اکثر ڈراتے ہوئے سے
اندھیروں کے سفر میں روشنی
کئی بار گذرا ہوں ان راستوں سے
بہت سی خوشیاں بہت سے آنسو
پہلے تو شہر ایسا نہ تھا
زمین اپنے بیٹوں کو پہچانتی ہے
میں ڈرتا ہوں
سیڑھیوں سے اترتی ہوئی شام کا ایک منظر ہے یہ
پرانی فائلوں میں گنگناتی شام
پرانی فائیلوں میں گنگناتی شام
پرانی فائیلوں میں گنگناتی شام
میں البم کے ورق جب بھی الٹتا ہوں
آسیب نگر
ہاں اسی شہر میں
رات میں نے حویلی کو دیکھا
برجیاں ٹوٹ گئیں
کاسۂ سر آہنی صندوق میں
عدم سے پرے
راہ گذرسے آگے
غزلیں
نشان رتبہ و منصب علی کا صدقہ ہے
کیا تماشا ہوا ہے موسم گل
ہے اک وفور خواب شکستہ کے ساتھ بھی
جی رہے ہیں عافیت میں تو ہنر خوابوں کا ہے
اس کا مکان قصر جفا کے قریب تھا
میں ان موجوں سے کاروبار کرنا چاہتا ہوں
خوشبوئے زلف پریشاں سے خبر آتی ہے
نہ ہو ایسا کہ تری راہ گذر آجائے
بزم خالی نہیں مہمان نکل آتے ہیں
بظاہر تو نہیں ہوتا مگر ایسا بھی ہوتا ہے
دل کو ہے گلہ کرنے کی عادت بھی زیادہ
بجز ارادۂ دیدار کچھ نہیں ہوتا
حصار محفل دنیا ہے اور بچھڑ جانا
کس تماشے کا ساماں لئے پھرتے ہیں
علاقۂ وحشت تماشا کی حصہ داری
ہزار درد کی شامیں گذار دیں ہم نے
اک رات بہ امید سحر کاٹ رہا ہوں
ہے اداسی بہت اور سہمی ہوئی رات بھی ہے
یہ موج تند میں مہتاب دیکھنے والے
وہ کھو گیا ہے اس کا پتہ بھی تو کوئی تھا
زمانہ خود ہی ذرا دیر کو ٹھہرتا ہے
کھنڈر مںی شہر بسائے ہیں میری آنکھوں نے
بولتے کچھ بھی نہیں منہ میں زباں ہوتے ہوئے
جسم وجاں ہار کے ہمت نہیں ہاری ہم نے
شہر کا وہ بڑا دل نشیں قصر تھا، اس پہ لکھا ہوا جادوئے عصر تھا
کبھی تو اگلی کبھی پچھلی صف سے مارتا ہے
خواب کی ہیں تعبیریں رہگذر سے آگے بھی
اجڑے موسم ورد چشم وابرو کرتے ہیں
دل کے موسم کو اک عہد رفتہ کیا
برجیوں پر شام اتری گھر کے دروازے ہیں بند
اے سکوت برملا سنتا ہوں میں
افسردگی لکھی ہوئی ہے حرف وبیاں پر
حجاب زیست اگر درمیاں نہیں ہوتا
طمانیت نہیں ملتی ہے جسم وجاں میں کہیں
بنا تھا جنس گراں مایہ سارا گرد وغبار
دل کا یہ شوق کہ بے نام ونشاں رہتا ہے
اور پھر کیا ہوا اگر دید کی ساعت مل جائے
بیچ رستے میں رکی باد بہاری ہے ابھی
آدمی خوب تھا دیوانہ بنا ڈالا ہے
سودا تو سر میں روز تھا بجھتا تھا سر کبھی نہیں
برون جاں نہیں کچھ بھی تو اندروں ہی سہی
امید دید ہے ترک تعلقات کے بعد
اک آشیانہ بلندیوں پر بھی چاہئے تھا
پیاس بڑھتی ہوئی تاحد نظر پانی تھا
رہگذر ہے سوکسی طور کذرتے ہیں یہاں
ہر ایک لمحہ جو گذرا ہے امتحاں کا ہے
دیکھنا ہی نہیں کیا اجڑا ہوا کیا آباد
وحشت دل مری افسانۂ گل سے آئی
یکھ تو حال پریشاں ہوئے کیسے آباد
پس چین کسی پل کسی پہلو ہی نہیں تھا
محفل سجی ہوئی پھر اس میں ویرانی دیکھی
انجام شب صوت و صدا ہی نہیں ہوتا
لگتا ہے ابھی پھر ترا پیغام اگر آئے
ماضی کی حویلی ہے اجڑجاتی ہے جیسے
حساب مہرباں نا مہرباں رکھے ہوئے ہیں
نقصان ہیں جب گردش افلاک سے زیادہ
لہو کا آخری قطرہ زمیں پہ ڈالتے ہیں
اڑائے کوئی تو افواہ پھول کھلنے کی
چھایا ہوا ہے راہ میں دل کا غبار ہر طرف
آنکھ کو مصروف حیرت دل کو خوں کرتے ہوئے
متاع جان و دل سے دور ہونا
گم ہوئے ایسے کہ اب زیر زمیں کھلتے ہیں
تکتے ہوئے رستہ یونہی مدت گذری
نہ کھلی مری طبیعت نہ مرا یار کھلا
کئی ٹکڑوں میں روشن استعارے ٹوٹتے ہیں
محبتیں
سرورق
عرضی
منظربہ منظر دیکھنا
آنسوؤں کے رتجگوں سے
رات ابھی آدھی گذری ہے
اک عجب رات
جس گھڑی صبح رخصت ہوئی
اس کا جواب کون دے
تاریخ کے دشت میں
حویلی موت کی دہلیز پر
خواب دیکھتے رہو
فضا میں کالے دھوئیں کی چادر تنی ہوئی ہے
اک شہر تھا اک باغ تھا
تمہارا خط ملا
کھڑکیاں کھول کر باغ کو دیکھنا
اک خواب اس سے ملاقات کا
ملاقاتیں۔۔۔ نہیں پھر بھی ملاقاتیں
سمندر تو بہت خاموش لگتا ہے
وہیں کہیں سویا ہے موسم
پلٹ کر جو دیکھتے ہیں
بدلنے کا کوئی موسم نہیں ہوتا
اس لمحے میں اک لمحے کو
خزاں کے دامن پر جگمگاتی ہوئی بہاریں
تم سے ملنے کے موسم
بہت سے سوالات اکثر ڈراتے ہوئے سے
بہت سے سوالات اکثر ڈراتے ہوئےسے
بہت سے سوالات اکثر ڈراتے ہوئے سے
بہت سے سوالات اکثر ڈراتے ہوئے سے
بہت سے سوالات اکثر ڈراتے ہوئے سے
بہت سے سوالات اکثر ڈراتے ہوئے سے
بہت سے سوالات اکثر ڈراتے ہوئے سے
اندھیروں کے سفر میں روشنی
کئی بار گذرا ہوں ان راستوں سے
بہت سی خوشیاں بہت سے آنسو
پہلے تو شہر ایسا نہ تھا
زمین اپنے بیٹوں کو پہچانتی ہے
میں ڈرتا ہوں
سیڑھیوں سے اترتی ہوئی شام کا ایک منظر ہے یہ
پرانی فائلوں میں گنگناتی شام
پرانی فائیلوں میں گنگناتی شام
پرانی فائیلوں میں گنگناتی شام
میں البم کے ورق جب بھی الٹتا ہوں
آسیب نگر
ہاں اسی شہر میں
رات میں نے حویلی کو دیکھا
برجیاں ٹوٹ گئیں
کاسۂ سر آہنی صندوق میں
عدم سے پرے
راہ گذرسے آگے
غزلیں
نشان رتبہ و منصب علی کا صدقہ ہے
کیا تماشا ہوا ہے موسم گل
ہے اک وفور خواب شکستہ کے ساتھ بھی
جی رہے ہیں عافیت میں تو ہنر خوابوں کا ہے
اس کا مکان قصر جفا کے قریب تھا
میں ان موجوں سے کاروبار کرنا چاہتا ہوں
خوشبوئے زلف پریشاں سے خبر آتی ہے
نہ ہو ایسا کہ تری راہ گذر آجائے
بزم خالی نہیں مہمان نکل آتے ہیں
بظاہر تو نہیں ہوتا مگر ایسا بھی ہوتا ہے
دل کو ہے گلہ کرنے کی عادت بھی زیادہ
بجز ارادۂ دیدار کچھ نہیں ہوتا
حصار محفل دنیا ہے اور بچھڑ جانا
کس تماشے کا ساماں لئے پھرتے ہیں
علاقۂ وحشت تماشا کی حصہ داری
ہزار درد کی شامیں گذار دیں ہم نے
اک رات بہ امید سحر کاٹ رہا ہوں
ہے اداسی بہت اور سہمی ہوئی رات بھی ہے
یہ موج تند میں مہتاب دیکھنے والے
وہ کھو گیا ہے اس کا پتہ بھی تو کوئی تھا
زمانہ خود ہی ذرا دیر کو ٹھہرتا ہے
کھنڈر مںی شہر بسائے ہیں میری آنکھوں نے
بولتے کچھ بھی نہیں منہ میں زباں ہوتے ہوئے
جسم وجاں ہار کے ہمت نہیں ہاری ہم نے
شہر کا وہ بڑا دل نشیں قصر تھا، اس پہ لکھا ہوا جادوئے عصر تھا
کبھی تو اگلی کبھی پچھلی صف سے مارتا ہے
خواب کی ہیں تعبیریں رہگذر سے آگے بھی
اجڑے موسم ورد چشم وابرو کرتے ہیں
دل کے موسم کو اک عہد رفتہ کیا
برجیوں پر شام اتری گھر کے دروازے ہیں بند
اے سکوت برملا سنتا ہوں میں
افسردگی لکھی ہوئی ہے حرف وبیاں پر
حجاب زیست اگر درمیاں نہیں ہوتا
طمانیت نہیں ملتی ہے جسم وجاں میں کہیں
بنا تھا جنس گراں مایہ سارا گرد وغبار
دل کا یہ شوق کہ بے نام ونشاں رہتا ہے
اور پھر کیا ہوا اگر دید کی ساعت مل جائے
بیچ رستے میں رکی باد بہاری ہے ابھی
آدمی خوب تھا دیوانہ بنا ڈالا ہے
سودا تو سر میں روز تھا بجھتا تھا سر کبھی نہیں
برون جاں نہیں کچھ بھی تو اندروں ہی سہی
امید دید ہے ترک تعلقات کے بعد
اک آشیانہ بلندیوں پر بھی چاہئے تھا
پیاس بڑھتی ہوئی تاحد نظر پانی تھا
رہگذر ہے سوکسی طور کذرتے ہیں یہاں
ہر ایک لمحہ جو گذرا ہے امتحاں کا ہے
دیکھنا ہی نہیں کیا اجڑا ہوا کیا آباد
وحشت دل مری افسانۂ گل سے آئی
یکھ تو حال پریشاں ہوئے کیسے آباد
پس چین کسی پل کسی پہلو ہی نہیں تھا
محفل سجی ہوئی پھر اس میں ویرانی دیکھی
انجام شب صوت و صدا ہی نہیں ہوتا
لگتا ہے ابھی پھر ترا پیغام اگر آئے
ماضی کی حویلی ہے اجڑجاتی ہے جیسے
حساب مہرباں نا مہرباں رکھے ہوئے ہیں
نقصان ہیں جب گردش افلاک سے زیادہ
لہو کا آخری قطرہ زمیں پہ ڈالتے ہیں
اڑائے کوئی تو افواہ پھول کھلنے کی
چھایا ہوا ہے راہ میں دل کا غبار ہر طرف
آنکھ کو مصروف حیرت دل کو خوں کرتے ہوئے
متاع جان و دل سے دور ہونا
گم ہوئے ایسے کہ اب زیر زمیں کھلتے ہیں
تکتے ہوئے رستہ یونہی مدت گذری
نہ کھلی مری طبیعت نہ مرا یار کھلا
کئی ٹکڑوں میں روشن استعارے ٹوٹتے ہیں
محبتیں
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔