ترتیب
حرفے دگر
لب گویا
نہ کوئی ربط بجز خامشی ونفرت کے
سنبھل ہی لیں گے، مسلسل تباہ ہوں تو سہی
اپنے لہو سے نام لکھا، غیر کا بھی دیکھ
ٹھہرے تو ہر سفر، سفر رائیگاں لگا
صلیب درد، سخن دار جستجو بھی ہو
دل بجھ گیا ہے زشت کو مختار دیکھ کر
حدّث جوش وطلب چہروں کی ویرانی کرے
پہن کے پیر ہن گل صبا نکلتی ہے
بیمار ہیں تو اب دم عیسےٰ کہاں سے آئے
سرخی بدن میں رنگ وفا کی تھی کچھ دنوں
ہنستے چہروں کو بھی ڈس جاتی ہے الجھن کیسے
غموں کی جلتی چتا تھیں جوانیاں اپنی
سب شکلوں کی ایک ہی صورت سب باتوں کا ایک ہی رنگ
حوصلہ، شرط وفا، کیا کرنا
کچھ نہ کہنے کا بھی چرچا ہی ہوا
ہر قدم پر سائے ہیں رنگت بھرو
کچھ بول گفتگو کا سلیقہ نہ بھول جائے
یہ میری ذات تو مجھ مںی سما کے رہ نہ سکے
کبھی نظر تو آ، تسکین اضطراب تو دے
آنکھ میں رات کے منظر ٹھہرے
اترا غبار درد والم مدّتوں کے بعد
تشنگی اچھی نہیں رکھنا بہت
خیال طوق تعلق کوٹالتے رہیے
خوشبو کو رنگتوں پہ ابھرتا ہوا بھی دیکھ
بیٹھی ہوں راہ میں کسی تصویر کی طرح
سلگ رہی ہے ان آنکھوں میں دیکھنے کی لگن
شمیم صبح سے میرے بدن کی آنچ نہ پوچھ
ضبط اتنا بھی نہ کر، احساس مرجھا جائے گا
میں نظرآؤں ہر اک سمت جدھر سے چاہوں
کبھی تو آمری آنکھوں کی روشنی بن کر
دب نہ رہیں آلام تلے، صبر کرو
ہر مرحلہ پہ شوق تماشائی چاہے ہے
اپنی ہی بات نبھانی سیکھو
منتشر دل کے حوالے کب تھے
وہ اجنبی تھا، غیر تھا، کس نے کہا نہ تھا
انھیں یہ ضد کہ ملاقات کا فسوں نہ رہے
ایک ہی آواز پر واپس پلٹ آئیں گے لوگ
گریہ مایوسی، غم ترک وفا کچھ نہ رہا
ترے قریب پہنچنے کے دھنگ آتے تھے
جب میں نہ ہوں تو شہر میں مجھ سا کوئی تو ہو
اب تم بھی چھپاؤ نہ یہ داغ اور زیادہ
جس کی تصویر ہے آنکھوں میں حیا کی مانند
جس نے بھی حال غم دل پوچھا
تمہاری یاد میں ہم جشن غم منائیں بھی
بگڑی بات بنانا مشکل، بگڑی بات بنائے کون
آنکھ میں چھبتی ہے جب ٹھہری ہو بن برسے گھٹا
لگ گیا غم کی دیوار میں آئینہ
حسرت ہے تجھے سامنے بیٹھے کبھی دیکھوں
وہ اجنبی تھا پھر بھی لگا آشنا مجھے
دوستی زود رنج نکلی ہے
درد کی لو بھی مدھم ہوگئی
ہم سفر راستے، راہبر راستے
ہوا چلے تو ہر اک زخم پھول بن کے کھلے
یہ طبل کوچ کا ہے
ہونٹوں پہ ہے سواد تمنّا کی داستاں
آّ کی دودھیا حاندنی مل گئی
اہل دل آؤ سنو تو ہم بھی افسانہ کہیں
شاعروں کے جو پاس رہتے ہیں
اشکوں کو مزے سے پی لو جی، غم اور خوشی سے کھاؤ جی
عشق کی گم شدہ منزلوں میں گئی
یہ بہار غم اپنی دست خوں چکاں اپنا
حاصل عہد تمنّا نہ ملا
کچھ اتنے یاد ماضی کے فسانے ہم کو آئے ہیں
ہر نقش پا کو منزل جاں ماننا پڑا
نغمے آہوں سے نکلتے دیکھے
میری زباں پہ نام ترا ایسے رٹ گیا
آنسوؤں کی ردا میں لپٹے ہم
دکھ کی گتھی کھولیں گے
مرے نوحے میں شامل ہوگئے ہیں
بھری بہار میں اندیشۂ خزاں بھی ہے
عشق کے لاکھوں رنگوں کا ہے اک اوتار ہوا
حسرتیں جاگ اٹھیں یاس نے پہلو بدلا
بگڑے ہیں جب کسی کے بھی حالات بے طرح
آئینہ خانے کی جانب نہ چلو
پہلے تو اپنے درد کی گیرائی دیکھ لے
آئینے محو تمنّا ہوں گے
دل مرا اپنے تقاضوں ہی سے ترسیدہ ہے
محرومیوں کو درپئے آزار ہونے دو
ہمیں تو جینے کی امید کا بہانہ ملا
دل بھی اندھے کی طرح اس سے لپنا چاہے
دوہے
نا میں سگھڑنا صورت والی کس کا مان کروں ری
بے نام مسافت
حرف ندا
کچھ اگر ہے تو ملے
سلامت گہہ خواب کو روند ڈالو
خوشنودیٔ غم
فَبِاَیِّ الآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰن
کچّے دھاگے
کشیدِ شب
خزاں کا گیت
شکست رنگ
فاصلوں کا اتصال
اِنَّ اللہَ مَع الصّٰبِرِیْن
قصّہ سوتے جاگتے کا
آگہی
طلسم آباد کی ایک شام
مدِّ مقابل
طلُوع
عکس نما
دشتِ صبا کا سپنا
وحشت گہہ شوق
پچھلے پہر کی سوچ
اثبات
نفی
روایت نہ ٹوٹے
زوال استحصال
نئ شرطیں
افق بدلتا آسماں
تعبیر
اب پہرے بیکار ہیں
کڑے کوس
سنیاس
رسم
آتشبازی
چوں بروں آمدم ازچاہ بہ زنداں رفتم
سراب
روح کا بوجھ
تمہید
خود اذیّتی
سلاسل
جانتے بوجھتے
بات کا درد
پیش بندی
خواب میں خواب کا ڈر
ناگزیر
خود کلامی
کنوارپنے کی سوچ
پہلا سفید بال
نروان
عروسی
اپنے خون کا جوش
آخری وار
بے نام مسافت
یوسف کا مران
نظمیں
پابلو نیرودا
بلی کا خواب
ایک بچّے کا غسل
جل پری اور شرابیوں کی حکایت
خزاں زدہ وصیّت
آندرئی وزنی سنسکی
خودکلامی
جورج سیفیرس
منظر
آئینے میں
مختصر نظمیں
کینتھ پیچن
آؤ ہم کھل کے پاگل پن کا مظاہرہ کریں
لیو پولڈ سیدار سینگھور
سیہ عورت
فروغ فرّخ زاد
فشارزرد
آتش خاموش
برا گوڈیوپ
یہ ہمارے اجداد کی سانسوں کی آواز ہے
رومانیہ کے شاعر
تین گیتوں کا گیت
واپسی
ایک لائن کی نظمیں
شناخت
میں تمھارے سامنے رُک گیا
خستگی
بے تعلّقی کی جلاوطنی
آواز
میں کچھ نہیں ہوں۔ تم کون ہو
آج ہم جدا ہوتے ہیں
سیلف پورٹریٹ
تمھارے لیے
تلوار اور پھول
افاقہ
مگر ہم نہیں
دوسرا نوحہ
وراثت
اس لمحے
بلغاریہ کے شاعر
ہم اکٹھے ہیں
کبوتر
تن تنہا سفر کرتی عورت
پہلی ملاقات
بیٹی
قرمزی رنگ میں ایک نظم
سوالات
سایہ
آزمائش کے دن
چین کے شاعر
لیویاٹسی کے نام
برف
رائے کے اظہار کا ایک انداز
اے زمیں! میری ماں!
بہار کے ریشم کے کیڑو!
میں تخیّل پرست ہوں
سانپ
اپنے دوستوں کے نام!
جانبازی
ہاں یہ وجدان کی ٓواز ہے
گلیاں دھوپ دروازے
کشور ناہید!
مکافات
گھاس تو مجھ جیسی ہے
نیلام گھر
ترالٹیا شہر بھنبھور
جاروب کش
سنو جین آسٹن!
تعبیر
سمجھوتہ
میری مانو!
ارے کیا ہوا
ہم نے خواہشوں کے سارے پرندے اڑادیے ہیں
FACE THE PAN
نظم
القاب
ساحل مراد
نظم
نظم
دھواں چھوڑتی بسیں
زہر نما امرت
نوشتۂ دل
دفعہ۱۴۴
تقریر نمبر۲۷
التماس
دست غیب
اجازت دو
سن ری سہیلی
آخری خواہش
چشم زدن
موت اور میں
کلئیر نس سیل
کتنی چاہت والے لوگ ترے دیوانے
بجلی کی چمک کے بعد اور بادل کی گرج سے پہلے
تم سے !
اعتراف
رات آتی ہے
بہلاوا
ہمزاد سے
کیتھارسیس
چوب خشک اور آگ
شادی کی بیسویں سالگرہ
دوسری موت
MATHER COMPLEX
ترسی ہوئی حدّت کے دن
زخمی پرندے کی چیخ
ہڈبیتی
پورٹریٹ
کُنّویں کی آواز
آمنے سامنے
پہلی برسی پر
اے کاتب تقدیر لکھ!
میں کون ہوں
کہتے ہیں میں سوتے سوتے چلتی ہوں
پلٹ کے آئے تو دیوار و در نے حیرت کی
اب بات کرو بس آئینے سے
مکیں سے خالی مکانوں پہ سخت پہرا تھا
ہری تھی شاخ تو بیٹھا نہ اس پہ پنچھی کیوں
بہل بھی جایا کرتے ہیں بہلانے سے
قریۂ ضبط مںی تنہاہوں میں
زمیں کی ہم سخنی، قسمت صبا بھی نہیں
آغوش طلب کا باب سوچوں
آنکھ کو ویرانیاں بخشیں تو آنکھیں کیوں نہ لیں
پتہ ہواؤں کا پوچھے ہے رہبری آخر
پہن کے زخم کا ملبوس، اپنے گھر جانا
تجھ کو دل میں جھانکتے دیکھا تو شب تحریر کی
ہوا کے ساتھ چلوں گے ہوا سے ڈر کر بھی
میری ضرورت ہے تو، تیری ضرورت ہوں میں
آپ کے بعد سحر بھی ہوگی
وہ خواب سا ہے تو خوابوں کو ہی سجائے کبھی
آنکھوں کی زرد یوں میں چمک خواب کی سی ہے
وہ زخم دے کے کہیں، پھول کا مزا لیجے
ہوائے دشت جنوں لے چلی تو چلتے پھر
طلب کی پیاس کو پھولوں میں بانٹ دیتا تھا
پھر اعتبار شب میں گھلے زندگی کی شام
ستم شناس ہوں لیکن زباں بریدہ ہوں
رکے تو غم نے بھی ہم سے ہی آگہی مانگی
آگے سرک رہے ہیں کہ سکتہ بھی ہے عجب
ملامتوں کے درمیاں
راتوں کی مہار پکڑے دن تھے
یہ دل نے شرط وفا کا عجب ارادہ کیا
وہ دعوت سخن ایجاد، پھر نہیں آئی
ہنستے رہے ہم اداس ہو کر
خوئے ملال نے بدلے چہرے
سحر نے شب سے ملاقات میرے گھر کی تھی
ہم کل سے الم کریں گے اس کا
عجب تھا مجھ سے ترے اشتیاق کا لمحہ
مجھ سے اپنے نام کا معنیٰ پوچھنے آیا تھا
غروب شام سے میں اس کے اختیار میں ہوں
عجیب طوق تعلق ہے، زخم بھرتا نہیں
ذہن رہتا ہے بدن، خواب کے دم تک اُس کا
لب ساحل بھی تو اب دامن دریا کم ہے
حیرانیٔ اُمید نے پہلو نہیں بدلا
خبر ہے سانس بھی لینے کا یہ زمانہ نہیں
کبھی ملال، کبھی اس کا نام لکھیں گے
وہ شب کہ جس کا بدن، آسماں کا گریہ تھا
احکام بھی، تائید اذیت بھی اسی کی
یہ کیا خواب تمہارے نکلے اور عذاب ہمارے
اب کہاں رسم نجابت، خاک پہنا چاہیے
ایک لمحے کی شناسائی کے تیور تھے عجب
سفر تمام ہوا، شب کے خواب لکھنے کا
ذہن نے اذیّت کے خواب کی بشارت دی
گریہ کناں تھے شام وسحر اور خستہ شب
زخم آشنائی کیا، اس سے بیشتر دے گا
علاج زخم بھی تھا بندش زباں کے عوض
شہر میں دیواریں تھیں اور دیواروں میں وہ تنہا تھا
عمر میں اس سے بڑی تھی لیکن پہلے ٹوٹ کے بکھری میں
تیرے بخشے ہوئے زخم آنکھوں میں تھے اور دیوار خوش تھی
پھر ہم خواب کو زرد سمجھ کے روئیں شب زندانی ہوں
روی
اسیں بریاں وے لو کو!
خود کلامی
پہلی پیاس اور آخری گھونٹ
انبوہی
گلاس لینڈ سکیپ
سمندر تو ایک آنسو ہے
خلوت زخم
بجھتے بدن کی نیلاہٹ
زہر کا ڈنک
آگ کا رقص
تمہاری خاموشی۔ میرا جرم
سورج، سوا نیزے پر
تثلیث
کھڑکی کے اندر کا منظر
نیند میں لپٹے شہر کے نام
حضرت نوح کے زمانے کی کہانی
تیرے پیچ۔میری ڈھیل
تخم خوں
پرکٹے پرندے
بند مٹھیاں۔ بنچے ہونٹ
اے رات تو بتا!
روز نامچہ
اخری فیصلہ
موت کا بیج
آگ اور برف کے درمیان آنکھیں
دیپک راگ
محاسبہ
تیسرے درجے والوں کی پہلی ضرورت
نائٹ مئیر
کوکلا چھپائی
سونے سے پہلے ایک خیال
پیوند
سمندر کی پیاس کا بلاوا
زمین میری ہم عمر
بہت سے قصّوں میں سے ایک قصّہ
زرد دائرہ
تاریخ اپنے آپ کو نہیں دہراتی
ری اشورنس
تمثیل تمنّا
بشارتوں کے لیے ایک نظم
تحلیل نفسی
ڈوبتی آنکھوں کای رزمیہ
مجھ سے چھپے رہو
ایک نظم اجازتوں کے لیے
گود میں لحد
سانس اور پھانس
بارہویں شب کا چاند
ریل کی پٹڑیوں کے نیچے کٹی ہوئی نظم
میں اور میں
دوسری پیدائش
ایک کہانی
میں۔ایک اور
انٹی کلاک وائز
پرسوناI
پرسوناII
خود احتسابی
پورٹریٹ۱۹۸۰
افزونی
گنارایکلوف کی نظمیں
سیاہ حاشیے میں گلابی رنگ
نیم وحشی کبوتر کی آزردگی
HOME SWEET HOME
تھکان سے پہلے کا لمحہ
پاؤں کی بیڑیاں
پیدائش سے پہلے کی دعا
داغدار شیشے کا زخم
گنگ شہزادی
پرانا کھاتہ
سانپ کینچلی
اعتقاد
اپنے قتل کا اعتراف
تمنّا کا پہلا حرف
FAREWELL TO UTERUS
پلٹ کر دیکھنے کا انجام
ساحل سے آگے صحرا
تابوت
دائروں میں پھیلی لکیر
اداسیوں کے چٹخنے کی آواز
عمر کے لمبے سائے
میں ہوں تم ہواور وہ سب ہیں!
آگ کی تپش سے گلنار
جنم پتری
سانول موڑ مہاراں
اندھا موڑ
خاموش زمینوں کی شناخت
تلخیوں کا ثمر
مینڈا عشق وی توں
اے میرے الزام گرفتہ
کھوکھلے تنے جیسے رشتے
فوٹو فنش
خوابوں کی البم
آئینہ میرے اور تمھارے درمیاں
موت قبول کرنے کے بعد
خواب پہ جاگنے کا الزام
سفید پیالے میں سفید دودھ
سنسرشپ
بارش ہونے میں ابھی دیر ہے
ایک نظم آؤٹ آف فوکس
سورج کو بارش سے بچاؤ
نان کمیونیکیشن
قدغن شوق
موم محل
ماضی میرے کندھوں پر
ٹرانسپرنسی
اور اس کے بعد۔ ایک لمبی چپ
بادل میرے کمرے میں
حاشیہ
سرد ملکوں کے آقاؤں کے نام
بارش میرے اندر
دوسری فصل
کوئی تو تریاق گفتگو
ہم گنہگار عورتیں
ہلتے ہونٹوں کا رزمیہ
میں نے مانا
THE SCREAM OF AN HLIGITIMATE VOICE
تیسری فصل
ہوا کچھ اپنے سوال تحریر دیکھتی ہے
کچھ دن تو ملال اس کا حق تھا
وہ میرا شریک غم ہوا تھا
دل کو بھی غم کا سلیقہ نہ تھا پہلے پہلے
سلگتی ریت پہ آنکھیں بھی زیر پا رکھنا
شہر میں دریا کو بھی رستہ نہیں ملتا
خوشی یہ تھی کہ ترا خواب دیکھنے کو ملا
مقابر خواب دان عجب انتظار میں ہیں
مجھے بھلا کے مجھے یاد بھی رکھا تونے
کبھی وہ آنکھ کبھی فیصلہ بدلتا ہے
وداع کرتا ہے دل سطوت رگ جاں کو
لگتا ہے اب تو شہر میں رہنا نہیں کوئی
مآل یہ تھا کہ حاصل کنارا کر لیتے
تلاش دریا کی تھی، پہ ظؔاہر سراب دیکھا
اے رہ ہجر نو فروز، دیکھ کر ہم ٹھہر گئے
بے اماں درختوں سے چھاؤں مانگنا کیسا
سفر کے بعد مرے ہاتھ میں دعا بھی نہ تھی
وہ خال وخد جن کی آرزو شہر خواب لکھے
نہ فصل جاں پہ، نہ احساس جاں پہ زندہ ہیں
ہم نے بہت دن اے دل تیرے خواب سنبھالے
یہ حوصلہ تجھے مہتاب جاں ہوا کیسے
پھربے سمت سفر کی رت ہے پھر وہی خنداق خوآش ہے
یہ بھی کیا شہر کو حیران کیے ہی رکھنا
طلسم شب ترے پہلو میں باریاب ہوا
اشک پونچھو! چلو اب گھر اپنے
چشم افلاک کو دریا بھی رقیبا نا لگا
خیالی شخص سے مقابلہ
بے انت یا ترا
میرا گھر میری جنت
دنیا حیات اور آسیہ ایوب کی فرد جرم
قوس قزح زرد ہے
پرچھائیں اور میں مکالمہ کرتے ہیں
میرے ہاتھ میں پھول نہیں اور میں باغ میں ہوں
انسومنیا
پتلی تماشہ
دستخط
سانس سمندر
امید کے بادبان
کبیرہ گناہوں کے بیچ
جنگل میں ژالہ باری کا منظر
قید میں رقص
خیالی شخص سے مقابلہ
بے دہلیز درو دیوار
رشتہ کائی بن گیا ہے
خوابوں کی پیشی
بارھویں ترمیم میں ترمیم
نظریۂ ضرورت کے دوران پیدا ہونے والے بچّوں کا المیہ
سپیڈی ٹرائل
باز گشت
آواز پلٹ کر میرے پاس آتی ہے
مفاہمت کی زنبیل
بیسویں صدی کا اختتامی نوحہ
سکڈ میزائل کی تربت پر
فیصلہ ۱۹۹۱
جلتے دمشق وبصرہ کی بجھتی آوازیں
گرتی ہوئی دیوار برلن گنٹر گراس اور میں
آسمان سیاہ ہے اور اس نے رنگ پہننا بند کر دیا ہے
اپاہج ماں مٹی کی گولڈن جوبلی
نیلسن منڈیلا۔ آزادی تیرا نام
ماتم کی آواز
اپنی جیسی عورت وزیر اعظم سے مکالمہ
کھیل سرائے
ابھی موسم نہیں بدلا!
HORSE TRADING
چارج شیٹ ۱۹۹۰
اکیسویں صدی کے دوراہے پہ پتھر۵ شہزادی
33170
خاموش آتش فشاں
میں تمھیں ہمیشہ اچھی خبر کی طھرح ملوں گی
حدّ امروز گزشت
میں تمھاری ماں ہوں
بلا معاوضہ محنتوں کے معاوضے
پہاڑ مسکراتے نہیں ہیں
مری آنکھوں میں درتا جھولتا ہے
دریا بھی تیز، خواہش دریا بھی تیز ہے
وہی تصویر، نقش خواب میں ہے
اس موسم کی پہلی مارش ہی سیلاب ہوئی
دلوں میں لہجۂ غربت کی پیاس رکھی نہیں
دشوار تھا اس در کو حذر کہہ کے گزر نا
اب وہی شہر نظر آتا ہے بدلا بدلا
فراق یار بہت دیر کی منانے میں
ملال اس کو بھی تھا اور اداس ہم بھی تھے
میں پہلے جنم میں رات تھی
چلو کسی اور کانفرنس میں چلتے ہیں
دھوپ کی واپسی کا منظر
فراموش کیا ہوا غم
خوف کی دستک
دیار غیر سے واپسی
اے میری قوم! میری بنتی سن!
یورپ میں نہ پگھلنے والی نظم
مراجعت
میں پہلے جنم میں رات تھی
صفحہ یلٹتے ہوئے
غیر متوقع ترازو
تعلق کی بے سمتی
خداؤں سے کہدو
ازل سنیاس
باداموں کے درختوں کے سفید روئیں آزاد نظمیں
حاکم زادی۔ تو مجھ جیسی
کتھئی شام سے پہلے
عدل عدالت رات اندھیری
نوحہ گنگ شہزادی کا
احمد ندیم قاسمی کے نام
ہمارے زمانے کے اہل قبور! اس کو پڑھ لیں
20اکتوبر (مرتضیٰ کے قتل پر
بوری میں بند لاش میری تھی
بے تعلقی کے زلزلے کے بعد
پریس فوٹو گرافرز اور ڈیانہ
عبوری شہوار
عدلیہ دری
فروکش ہے عدالت
تجھے وداع کیا
تعلق کی سیماب زمانی
خواب میں سفر
آئینے سے مکالمہ
سیلاب کے بعد
تمہیں اب یہ تماشہ بھی بہت حیران کرتا ہے
دو اینٹ کا حجرہ
سچ آنگن کی مینا بولے!
طالبان سے قبلہ رو گفتگو
احتساب
غزلیں
وہ جس سے گفتگو اچھی لگی تھی
محبت خواب ہوتی جا رہی ہے
رات کے پرندوں کے گیت تراجم
مجھے اس آگ میں منڈیلا نظر آرہا ہے
دیوار کی بخیہ گری
خاموشی
طلسم آئینہ
آْج شام۔ میراذہن
لفظوں کی طلسم بہاری
ترتیب
ترتیب
حرفے دگر
لب گویا
نہ کوئی ربط بجز خامشی ونفرت کے
سنبھل ہی لیں گے، مسلسل تباہ ہوں تو سہی
اپنے لہو سے نام لکھا، غیر کا بھی دیکھ
ٹھہرے تو ہر سفر، سفر رائیگاں لگا
صلیب درد، سخن دار جستجو بھی ہو
دل بجھ گیا ہے زشت کو مختار دیکھ کر
حدّث جوش وطلب چہروں کی ویرانی کرے
پہن کے پیر ہن گل صبا نکلتی ہے
بیمار ہیں تو اب دم عیسےٰ کہاں سے آئے
سرخی بدن میں رنگ وفا کی تھی کچھ دنوں
ہنستے چہروں کو بھی ڈس جاتی ہے الجھن کیسے
غموں کی جلتی چتا تھیں جوانیاں اپنی
سب شکلوں کی ایک ہی صورت سب باتوں کا ایک ہی رنگ
حوصلہ، شرط وفا، کیا کرنا
کچھ نہ کہنے کا بھی چرچا ہی ہوا
ہر قدم پر سائے ہیں رنگت بھرو
کچھ بول گفتگو کا سلیقہ نہ بھول جائے
یہ میری ذات تو مجھ مںی سما کے رہ نہ سکے
کبھی نظر تو آ، تسکین اضطراب تو دے
آنکھ میں رات کے منظر ٹھہرے
اترا غبار درد والم مدّتوں کے بعد
تشنگی اچھی نہیں رکھنا بہت
خیال طوق تعلق کوٹالتے رہیے
خوشبو کو رنگتوں پہ ابھرتا ہوا بھی دیکھ
بیٹھی ہوں راہ میں کسی تصویر کی طرح
سلگ رہی ہے ان آنکھوں میں دیکھنے کی لگن
شمیم صبح سے میرے بدن کی آنچ نہ پوچھ
ضبط اتنا بھی نہ کر، احساس مرجھا جائے گا
میں نظرآؤں ہر اک سمت جدھر سے چاہوں
کبھی تو آمری آنکھوں کی روشنی بن کر
دب نہ رہیں آلام تلے، صبر کرو
ہر مرحلہ پہ شوق تماشائی چاہے ہے
اپنی ہی بات نبھانی سیکھو
منتشر دل کے حوالے کب تھے
وہ اجنبی تھا، غیر تھا، کس نے کہا نہ تھا
انھیں یہ ضد کہ ملاقات کا فسوں نہ رہے
ایک ہی آواز پر واپس پلٹ آئیں گے لوگ
گریہ مایوسی، غم ترک وفا کچھ نہ رہا
ترے قریب پہنچنے کے دھنگ آتے تھے
جب میں نہ ہوں تو شہر میں مجھ سا کوئی تو ہو
اب تم بھی چھپاؤ نہ یہ داغ اور زیادہ
جس کی تصویر ہے آنکھوں میں حیا کی مانند
جس نے بھی حال غم دل پوچھا
تمہاری یاد میں ہم جشن غم منائیں بھی
بگڑی بات بنانا مشکل، بگڑی بات بنائے کون
آنکھ میں چھبتی ہے جب ٹھہری ہو بن برسے گھٹا
لگ گیا غم کی دیوار میں آئینہ
حسرت ہے تجھے سامنے بیٹھے کبھی دیکھوں
وہ اجنبی تھا پھر بھی لگا آشنا مجھے
دوستی زود رنج نکلی ہے
درد کی لو بھی مدھم ہوگئی
ہم سفر راستے، راہبر راستے
ہوا چلے تو ہر اک زخم پھول بن کے کھلے
یہ طبل کوچ کا ہے
ہونٹوں پہ ہے سواد تمنّا کی داستاں
آّ کی دودھیا حاندنی مل گئی
اہل دل آؤ سنو تو ہم بھی افسانہ کہیں
شاعروں کے جو پاس رہتے ہیں
اشکوں کو مزے سے پی لو جی، غم اور خوشی سے کھاؤ جی
عشق کی گم شدہ منزلوں میں گئی
یہ بہار غم اپنی دست خوں چکاں اپنا
حاصل عہد تمنّا نہ ملا
کچھ اتنے یاد ماضی کے فسانے ہم کو آئے ہیں
ہر نقش پا کو منزل جاں ماننا پڑا
نغمے آہوں سے نکلتے دیکھے
میری زباں پہ نام ترا ایسے رٹ گیا
آنسوؤں کی ردا میں لپٹے ہم
دکھ کی گتھی کھولیں گے
مرے نوحے میں شامل ہوگئے ہیں
بھری بہار میں اندیشۂ خزاں بھی ہے
عشق کے لاکھوں رنگوں کا ہے اک اوتار ہوا
حسرتیں جاگ اٹھیں یاس نے پہلو بدلا
بگڑے ہیں جب کسی کے بھی حالات بے طرح
آئینہ خانے کی جانب نہ چلو
پہلے تو اپنے درد کی گیرائی دیکھ لے
آئینے محو تمنّا ہوں گے
دل مرا اپنے تقاضوں ہی سے ترسیدہ ہے
محرومیوں کو درپئے آزار ہونے دو
ہمیں تو جینے کی امید کا بہانہ ملا
دل بھی اندھے کی طرح اس سے لپنا چاہے
دوہے
نا میں سگھڑنا صورت والی کس کا مان کروں ری
بے نام مسافت
حرف ندا
کچھ اگر ہے تو ملے
سلامت گہہ خواب کو روند ڈالو
خوشنودیٔ غم
فَبِاَیِّ الآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰن
کچّے دھاگے
کشیدِ شب
خزاں کا گیت
شکست رنگ
فاصلوں کا اتصال
اِنَّ اللہَ مَع الصّٰبِرِیْن
قصّہ سوتے جاگتے کا
آگہی
طلسم آباد کی ایک شام
مدِّ مقابل
طلُوع
عکس نما
دشتِ صبا کا سپنا
وحشت گہہ شوق
پچھلے پہر کی سوچ
اثبات
نفی
روایت نہ ٹوٹے
زوال استحصال
نئ شرطیں
افق بدلتا آسماں
تعبیر
اب پہرے بیکار ہیں
کڑے کوس
سنیاس
رسم
آتشبازی
چوں بروں آمدم ازچاہ بہ زنداں رفتم
سراب
روح کا بوجھ
تمہید
خود اذیّتی
سلاسل
جانتے بوجھتے
بات کا درد
پیش بندی
خواب میں خواب کا ڈر
ناگزیر
خود کلامی
کنوارپنے کی سوچ
پہلا سفید بال
نروان
عروسی
اپنے خون کا جوش
آخری وار
بے نام مسافت
یوسف کا مران
نظمیں
پابلو نیرودا
بلی کا خواب
ایک بچّے کا غسل
جل پری اور شرابیوں کی حکایت
خزاں زدہ وصیّت
آندرئی وزنی سنسکی
خودکلامی
جورج سیفیرس
منظر
آئینے میں
مختصر نظمیں
کینتھ پیچن
آؤ ہم کھل کے پاگل پن کا مظاہرہ کریں
لیو پولڈ سیدار سینگھور
سیہ عورت
فروغ فرّخ زاد
فشارزرد
آتش خاموش
برا گوڈیوپ
یہ ہمارے اجداد کی سانسوں کی آواز ہے
رومانیہ کے شاعر
تین گیتوں کا گیت
واپسی
ایک لائن کی نظمیں
شناخت
میں تمھارے سامنے رُک گیا
خستگی
بے تعلّقی کی جلاوطنی
آواز
میں کچھ نہیں ہوں۔ تم کون ہو
آج ہم جدا ہوتے ہیں
سیلف پورٹریٹ
تمھارے لیے
تلوار اور پھول
افاقہ
مگر ہم نہیں
دوسرا نوحہ
وراثت
اس لمحے
بلغاریہ کے شاعر
ہم اکٹھے ہیں
کبوتر
تن تنہا سفر کرتی عورت
پہلی ملاقات
بیٹی
قرمزی رنگ میں ایک نظم
سوالات
سایہ
آزمائش کے دن
چین کے شاعر
لیویاٹسی کے نام
برف
رائے کے اظہار کا ایک انداز
اے زمیں! میری ماں!
بہار کے ریشم کے کیڑو!
میں تخیّل پرست ہوں
سانپ
اپنے دوستوں کے نام!
جانبازی
ہاں یہ وجدان کی ٓواز ہے
گلیاں دھوپ دروازے
کشور ناہید!
مکافات
گھاس تو مجھ جیسی ہے
نیلام گھر
ترالٹیا شہر بھنبھور
جاروب کش
سنو جین آسٹن!
تعبیر
سمجھوتہ
میری مانو!
ارے کیا ہوا
ہم نے خواہشوں کے سارے پرندے اڑادیے ہیں
FACE THE PAN
نظم
القاب
ساحل مراد
نظم
نظم
دھواں چھوڑتی بسیں
زہر نما امرت
نوشتۂ دل
دفعہ۱۴۴
تقریر نمبر۲۷
التماس
دست غیب
اجازت دو
سن ری سہیلی
آخری خواہش
چشم زدن
موت اور میں
کلئیر نس سیل
کتنی چاہت والے لوگ ترے دیوانے
بجلی کی چمک کے بعد اور بادل کی گرج سے پہلے
تم سے !
اعتراف
رات آتی ہے
بہلاوا
ہمزاد سے
کیتھارسیس
چوب خشک اور آگ
شادی کی بیسویں سالگرہ
دوسری موت
MATHER COMPLEX
ترسی ہوئی حدّت کے دن
زخمی پرندے کی چیخ
ہڈبیتی
پورٹریٹ
کُنّویں کی آواز
آمنے سامنے
پہلی برسی پر
اے کاتب تقدیر لکھ!
میں کون ہوں
کہتے ہیں میں سوتے سوتے چلتی ہوں
پلٹ کے آئے تو دیوار و در نے حیرت کی
اب بات کرو بس آئینے سے
مکیں سے خالی مکانوں پہ سخت پہرا تھا
ہری تھی شاخ تو بیٹھا نہ اس پہ پنچھی کیوں
بہل بھی جایا کرتے ہیں بہلانے سے
قریۂ ضبط مںی تنہاہوں میں
زمیں کی ہم سخنی، قسمت صبا بھی نہیں
آغوش طلب کا باب سوچوں
آنکھ کو ویرانیاں بخشیں تو آنکھیں کیوں نہ لیں
پتہ ہواؤں کا پوچھے ہے رہبری آخر
پہن کے زخم کا ملبوس، اپنے گھر جانا
تجھ کو دل میں جھانکتے دیکھا تو شب تحریر کی
ہوا کے ساتھ چلوں گے ہوا سے ڈر کر بھی
میری ضرورت ہے تو، تیری ضرورت ہوں میں
آپ کے بعد سحر بھی ہوگی
وہ خواب سا ہے تو خوابوں کو ہی سجائے کبھی
آنکھوں کی زرد یوں میں چمک خواب کی سی ہے
وہ زخم دے کے کہیں، پھول کا مزا لیجے
ہوائے دشت جنوں لے چلی تو چلتے پھر
طلب کی پیاس کو پھولوں میں بانٹ دیتا تھا
پھر اعتبار شب میں گھلے زندگی کی شام
ستم شناس ہوں لیکن زباں بریدہ ہوں
رکے تو غم نے بھی ہم سے ہی آگہی مانگی
آگے سرک رہے ہیں کہ سکتہ بھی ہے عجب
ملامتوں کے درمیاں
راتوں کی مہار پکڑے دن تھے
یہ دل نے شرط وفا کا عجب ارادہ کیا
وہ دعوت سخن ایجاد، پھر نہیں آئی
ہنستے رہے ہم اداس ہو کر
خوئے ملال نے بدلے چہرے
سحر نے شب سے ملاقات میرے گھر کی تھی
ہم کل سے الم کریں گے اس کا
عجب تھا مجھ سے ترے اشتیاق کا لمحہ
مجھ سے اپنے نام کا معنیٰ پوچھنے آیا تھا
غروب شام سے میں اس کے اختیار میں ہوں
عجیب طوق تعلق ہے، زخم بھرتا نہیں
ذہن رہتا ہے بدن، خواب کے دم تک اُس کا
لب ساحل بھی تو اب دامن دریا کم ہے
حیرانیٔ اُمید نے پہلو نہیں بدلا
خبر ہے سانس بھی لینے کا یہ زمانہ نہیں
کبھی ملال، کبھی اس کا نام لکھیں گے
وہ شب کہ جس کا بدن، آسماں کا گریہ تھا
احکام بھی، تائید اذیت بھی اسی کی
یہ کیا خواب تمہارے نکلے اور عذاب ہمارے
اب کہاں رسم نجابت، خاک پہنا چاہیے
ایک لمحے کی شناسائی کے تیور تھے عجب
سفر تمام ہوا، شب کے خواب لکھنے کا
ذہن نے اذیّت کے خواب کی بشارت دی
گریہ کناں تھے شام وسحر اور خستہ شب
زخم آشنائی کیا، اس سے بیشتر دے گا
علاج زخم بھی تھا بندش زباں کے عوض
شہر میں دیواریں تھیں اور دیواروں میں وہ تنہا تھا
عمر میں اس سے بڑی تھی لیکن پہلے ٹوٹ کے بکھری میں
تیرے بخشے ہوئے زخم آنکھوں میں تھے اور دیوار خوش تھی
پھر ہم خواب کو زرد سمجھ کے روئیں شب زندانی ہوں
روی
اسیں بریاں وے لو کو!
خود کلامی
پہلی پیاس اور آخری گھونٹ
انبوہی
گلاس لینڈ سکیپ
سمندر تو ایک آنسو ہے
خلوت زخم
بجھتے بدن کی نیلاہٹ
زہر کا ڈنک
آگ کا رقص
تمہاری خاموشی۔ میرا جرم
سورج، سوا نیزے پر
تثلیث
کھڑکی کے اندر کا منظر
نیند میں لپٹے شہر کے نام
حضرت نوح کے زمانے کی کہانی
تیرے پیچ۔میری ڈھیل
تخم خوں
پرکٹے پرندے
بند مٹھیاں۔ بنچے ہونٹ
اے رات تو بتا!
روز نامچہ
اخری فیصلہ
موت کا بیج
آگ اور برف کے درمیان آنکھیں
دیپک راگ
محاسبہ
تیسرے درجے والوں کی پہلی ضرورت
نائٹ مئیر
کوکلا چھپائی
سونے سے پہلے ایک خیال
پیوند
سمندر کی پیاس کا بلاوا
زمین میری ہم عمر
بہت سے قصّوں میں سے ایک قصّہ
زرد دائرہ
تاریخ اپنے آپ کو نہیں دہراتی
ری اشورنس
تمثیل تمنّا
بشارتوں کے لیے ایک نظم
تحلیل نفسی
ڈوبتی آنکھوں کای رزمیہ
مجھ سے چھپے رہو
ایک نظم اجازتوں کے لیے
گود میں لحد
سانس اور پھانس
بارہویں شب کا چاند
ریل کی پٹڑیوں کے نیچے کٹی ہوئی نظم
میں اور میں
دوسری پیدائش
ایک کہانی
میں۔ایک اور
انٹی کلاک وائز
پرسوناI
پرسوناII
خود احتسابی
پورٹریٹ۱۹۸۰
افزونی
گنارایکلوف کی نظمیں
سیاہ حاشیے میں گلابی رنگ
نیم وحشی کبوتر کی آزردگی
HOME SWEET HOME
تھکان سے پہلے کا لمحہ
پاؤں کی بیڑیاں
پیدائش سے پہلے کی دعا
داغدار شیشے کا زخم
گنگ شہزادی
پرانا کھاتہ
سانپ کینچلی
اعتقاد
اپنے قتل کا اعتراف
تمنّا کا پہلا حرف
FAREWELL TO UTERUS
پلٹ کر دیکھنے کا انجام
ساحل سے آگے صحرا
تابوت
دائروں میں پھیلی لکیر
اداسیوں کے چٹخنے کی آواز
عمر کے لمبے سائے
میں ہوں تم ہواور وہ سب ہیں!
آگ کی تپش سے گلنار
جنم پتری
سانول موڑ مہاراں
اندھا موڑ
خاموش زمینوں کی شناخت
تلخیوں کا ثمر
مینڈا عشق وی توں
اے میرے الزام گرفتہ
کھوکھلے تنے جیسے رشتے
فوٹو فنش
خوابوں کی البم
آئینہ میرے اور تمھارے درمیاں
موت قبول کرنے کے بعد
خواب پہ جاگنے کا الزام
سفید پیالے میں سفید دودھ
سنسرشپ
بارش ہونے میں ابھی دیر ہے
ایک نظم آؤٹ آف فوکس
سورج کو بارش سے بچاؤ
نان کمیونیکیشن
قدغن شوق
موم محل
ماضی میرے کندھوں پر
ٹرانسپرنسی
اور اس کے بعد۔ ایک لمبی چپ
بادل میرے کمرے میں
حاشیہ
سرد ملکوں کے آقاؤں کے نام
بارش میرے اندر
دوسری فصل
کوئی تو تریاق گفتگو
ہم گنہگار عورتیں
ہلتے ہونٹوں کا رزمیہ
میں نے مانا
THE SCREAM OF AN HLIGITIMATE VOICE
تیسری فصل
ہوا کچھ اپنے سوال تحریر دیکھتی ہے
کچھ دن تو ملال اس کا حق تھا
وہ میرا شریک غم ہوا تھا
دل کو بھی غم کا سلیقہ نہ تھا پہلے پہلے
سلگتی ریت پہ آنکھیں بھی زیر پا رکھنا
شہر میں دریا کو بھی رستہ نہیں ملتا
خوشی یہ تھی کہ ترا خواب دیکھنے کو ملا
مقابر خواب دان عجب انتظار میں ہیں
مجھے بھلا کے مجھے یاد بھی رکھا تونے
کبھی وہ آنکھ کبھی فیصلہ بدلتا ہے
وداع کرتا ہے دل سطوت رگ جاں کو
لگتا ہے اب تو شہر میں رہنا نہیں کوئی
مآل یہ تھا کہ حاصل کنارا کر لیتے
تلاش دریا کی تھی، پہ ظؔاہر سراب دیکھا
اے رہ ہجر نو فروز، دیکھ کر ہم ٹھہر گئے
بے اماں درختوں سے چھاؤں مانگنا کیسا
سفر کے بعد مرے ہاتھ میں دعا بھی نہ تھی
وہ خال وخد جن کی آرزو شہر خواب لکھے
نہ فصل جاں پہ، نہ احساس جاں پہ زندہ ہیں
ہم نے بہت دن اے دل تیرے خواب سنبھالے
یہ حوصلہ تجھے مہتاب جاں ہوا کیسے
پھربے سمت سفر کی رت ہے پھر وہی خنداق خوآش ہے
یہ بھی کیا شہر کو حیران کیے ہی رکھنا
طلسم شب ترے پہلو میں باریاب ہوا
اشک پونچھو! چلو اب گھر اپنے
چشم افلاک کو دریا بھی رقیبا نا لگا
خیالی شخص سے مقابلہ
بے انت یا ترا
میرا گھر میری جنت
دنیا حیات اور آسیہ ایوب کی فرد جرم
قوس قزح زرد ہے
پرچھائیں اور میں مکالمہ کرتے ہیں
میرے ہاتھ میں پھول نہیں اور میں باغ میں ہوں
انسومنیا
پتلی تماشہ
دستخط
سانس سمندر
امید کے بادبان
کبیرہ گناہوں کے بیچ
جنگل میں ژالہ باری کا منظر
قید میں رقص
خیالی شخص سے مقابلہ
بے دہلیز درو دیوار
رشتہ کائی بن گیا ہے
خوابوں کی پیشی
بارھویں ترمیم میں ترمیم
نظریۂ ضرورت کے دوران پیدا ہونے والے بچّوں کا المیہ
سپیڈی ٹرائل
باز گشت
آواز پلٹ کر میرے پاس آتی ہے
مفاہمت کی زنبیل
بیسویں صدی کا اختتامی نوحہ
سکڈ میزائل کی تربت پر
فیصلہ ۱۹۹۱
جلتے دمشق وبصرہ کی بجھتی آوازیں
گرتی ہوئی دیوار برلن گنٹر گراس اور میں
آسمان سیاہ ہے اور اس نے رنگ پہننا بند کر دیا ہے
اپاہج ماں مٹی کی گولڈن جوبلی
نیلسن منڈیلا۔ آزادی تیرا نام
ماتم کی آواز
اپنی جیسی عورت وزیر اعظم سے مکالمہ
کھیل سرائے
ابھی موسم نہیں بدلا!
HORSE TRADING
چارج شیٹ ۱۹۹۰
اکیسویں صدی کے دوراہے پہ پتھر۵ شہزادی
33170
خاموش آتش فشاں
میں تمھیں ہمیشہ اچھی خبر کی طھرح ملوں گی
حدّ امروز گزشت
میں تمھاری ماں ہوں
بلا معاوضہ محنتوں کے معاوضے
پہاڑ مسکراتے نہیں ہیں
مری آنکھوں میں درتا جھولتا ہے
دریا بھی تیز، خواہش دریا بھی تیز ہے
وہی تصویر، نقش خواب میں ہے
اس موسم کی پہلی مارش ہی سیلاب ہوئی
دلوں میں لہجۂ غربت کی پیاس رکھی نہیں
دشوار تھا اس در کو حذر کہہ کے گزر نا
اب وہی شہر نظر آتا ہے بدلا بدلا
فراق یار بہت دیر کی منانے میں
ملال اس کو بھی تھا اور اداس ہم بھی تھے
میں پہلے جنم میں رات تھی
چلو کسی اور کانفرنس میں چلتے ہیں
دھوپ کی واپسی کا منظر
فراموش کیا ہوا غم
خوف کی دستک
دیار غیر سے واپسی
اے میری قوم! میری بنتی سن!
یورپ میں نہ پگھلنے والی نظم
مراجعت
میں پہلے جنم میں رات تھی
صفحہ یلٹتے ہوئے
غیر متوقع ترازو
تعلق کی بے سمتی
خداؤں سے کہدو
ازل سنیاس
باداموں کے درختوں کے سفید روئیں آزاد نظمیں
حاکم زادی۔ تو مجھ جیسی
کتھئی شام سے پہلے
عدل عدالت رات اندھیری
نوحہ گنگ شہزادی کا
احمد ندیم قاسمی کے نام
ہمارے زمانے کے اہل قبور! اس کو پڑھ لیں
20اکتوبر (مرتضیٰ کے قتل پر
بوری میں بند لاش میری تھی
بے تعلقی کے زلزلے کے بعد
پریس فوٹو گرافرز اور ڈیانہ
عبوری شہوار
عدلیہ دری
فروکش ہے عدالت
تجھے وداع کیا
تعلق کی سیماب زمانی
خواب میں سفر
آئینے سے مکالمہ
سیلاب کے بعد
تمہیں اب یہ تماشہ بھی بہت حیران کرتا ہے
دو اینٹ کا حجرہ
سچ آنگن کی مینا بولے!
طالبان سے قبلہ رو گفتگو
احتساب
غزلیں
وہ جس سے گفتگو اچھی لگی تھی
محبت خواب ہوتی جا رہی ہے
رات کے پرندوں کے گیت تراجم
مجھے اس آگ میں منڈیلا نظر آرہا ہے
دیوار کی بخیہ گری
خاموشی
طلسم آئینہ
آْج شام۔ میراذہن
لفظوں کی طلسم بہاری
ترتیب
Thanks, for your feedback
अध्ययन जारी रखने के लिए कृपया कोड अंकित करें। कुछ सुरक्षा कारणों से यह आवश्यक है। इस सहयोग के लिए आपके आभारी होंगे।