سرورق
دیباچہ
عدم آباد کو جب قافلہ دم کا رواں ہوگا
حد امکان سے باہر ہے بیان جاہ محمد کا
گر سدرہ دشمن نہ کوئی پاسباں ہوگا
ترے دل میں نہ ہوئی جائے ستمگر پیدا
زیست میں عذر ہی فرمایئے گا
سنگ دل داغ جگر کا کبھی قائل نہ ہوا
جب کہا میں نے کہ کب آیئے گا
زانوے درد سے نہ سر سر کا
جس طرف دیکھا ادھر گویا تماشا ہو گیا
مثل ہم ٹھہرائیں کس کو گردش ایام کا
ہر اک کو مرقع نظر آتا ہے وفا کا
ترا منہ رات کو اترا ہو تھا
کچھ فرض ہے ہو طور پہ دیدار خدا کا
جو دیکھا سحر تری نرگس سخن گو کا
وطن میں گر رہوں میں کیا چلے بس مجھ پہ دشمن کا
نہ زندہ نہ مردہ نہ دنیا نہ دیں کا
بدلا کیا خدا نے آفت رسیدگاں کا
کہتے ہیں دشمن کے قبضہ میں زمانا ہوگیا
دل کے ویراں میں غربت کا ہوا جب سامان
نظارہ خواب میں ہے رخ بے حجاب کا
وقفہ ملا نہ ہم کو گنہ کے حساب کا
جلوۂ طور ہی ہوتا پہ نمایاں ہوتا
الٰہی شکر دن آیا قیامت آنے کا
خموشی میں وہ دہن انتخاب اب کیا ہوگا
رشک نے حشر کا میدان دیکھا
کچھ تیغ لگاتے تم کچھ زخم ہرا ہوتا
شب غم میں نہ یوں چپ اے دل ناشاد ہونا تھا
ناصیہ سا تری چوکھٹ پہ جو عاقل ہوگا
قدر کم ہے تو کمال اور بھی زائل ہوگا
آوارگان عشق رہیں گے وطن میں کیا
انسے ہم کرتے ہیں گلہ دل کا
ستائیں کسکو رلائیں کسکو کبھی تو یہ بھی خیال ہوگا
اگرچہ ہوش میں ناصح میں آنہیں سکتا
اصرار اقربا کا یہی ہے مگر جواب
ردیف باے موحدہ
ہجر ساقی میں کٹیں دل سیکڑوں پیکر شراب
ہم بغل ہوگا مرے داغ جگر سے آفتاب
کھینچ اب تو صورت حیرت فزائے عندلیب
جب وہ چلے گئے تو لبوں پر فغاں ہے اب
ردیف باے فارسی
کاہش غم کردہ ہے عزم سیر کوئے دوست
ردیف تائے فوقانی
اس سے کس طرح کہوں ہائے ملاقات کی بات
ہر نالہ پہ یاں ڈر کہ نہ آجائے قیامت
ردیف جیم معجمہ
کہہ تو اے ماہ لقا کیا باعث
ردیف ثاے مثلثہ
شمع کے شعلہ پہ کیوں جاتا ہے بے تابانہ آج
پھر جائے گی تقدیر ہماری بھی مگر آج
ردیف حائے حطی
گھڑی گھڑی میں بدلتی ہے فتنہ گر کی طرح
ردیف دال مہملہ
دنیا کی ہے جوان سے کچھ اور ہی طرح
اڑا دے نام سے گر صاد صیاد
عدو کے اشک بہے سنکے میری جان فریاد
نہ سن قریب سے آہ شرر فشاں صیاد
جان میری جسم میں ہے کہاں جان کی جاہے درد
ردیف راے مہملہ
مٹاؤں گا نزاکت اسکی اک دن ناتواں بن کر
ہم دیکھ لیتے اسکو کچھ بے حجاب بن کر
ڈال دوں نور سحر روئے بت بے پیر پر
خط نکلا ہے پشت لب لعل نمکیں پر
بن پڑی حشر کی اب قامت دلبر ہو کر
اب اٹھنا رہ گیا اپنے گمان پر
خوشا احوال پروانہ کہ پہنچا جل کے منزل پر
معجزہ تم نے دکھایا یہ خراماں ہوکر
جھکیں آنکھیں حیا سے کیا بہار آئی ہے سب تن پر
ہنسے طعن اعدا پہ تیور بدل کر
کون کہتا ہے ستمگاری نہ کر
ردیف طاے مہملہ
ردیف فاے سعفص
کون کہتا ہے کہ ہے دورۂ ایام غلط
عکس افگن آب خنجر میں جو ہوکافر کی زلف
ہے عکس رخ ترا ساقی کہ ہے شراب میں برق
کل توجہ کچھ تھی ناصح کی گریباں کی طرف
ردیف القاف
کرتی ہیں نگاہیں تری ہر ایک جگر چاک
ردیف الکاف
رہتے ہیں مل کے بیٹھنے سے رنج وہم میں ہم
ردیف المیم
شب فراق گزر جائے گی مگر کب تک
یوں ہی مرتے رہے ان پر اگر ہم
ردیف نون
کٹی ہیں ہجر کی راتیں جو بھاری آنکھوں میں
بڑے مشاق ہیں یہ ماہوش دل کے چرانے میں
آپ کا میم دہان ہے کہ نہیں
ادھر تو ہم جان کھو رہے ہیں ادھر وہ الفت سے رو رہے ہیں
مجھے سرمہ لگا کر چشم پرنم وہ دکھاتے ہیں
ہو نہ یارب وہ مری گردش ایام کہیں
کس طرح ہو نہ رنگ تلون کا چاہ میں
اداہٹ ہلکی ہلکی سی جو ہے مستی کی دنداں میں
وہ ہوں تفتہ جگر ہوچارہ جو ساعی جو راحت میں
ہو کہاں گر وصل بھی ہو غیر کی تدبیر میں
ضعف سے اب کوئی اصلاح کی تدبیر نہیں
مشہد فصل بہاران ہے تن سفاک میں
وہ خوشی میں سخن رنج فزا کرتے ہیں
رہے افتادہ اے عاقل مقدر سے یہیں برسوں
دل میں شوق زوال رکھتے ہیں
دیکھنے کا جز کوئی چشم ستمگر میں نہیں
جناں کا وصف بچا ہے پہ دلنشیں تو نہیں
ضعف سے کس وقت اک چکر مرے سر میں نہیں
نہ گنتی ہے کوئی میری کسی مدمیں نہ داخل ہوں
دلبری ہوگی دلنشیں نہ کہیں
کیوں ہم اے شعلہ رخو تم سے لگائیں دل کو
ردیف واؤ
ہو کاش تلوں ہی مگر شوق فزا ہو
وہ کہتے ہیں ہم بس میں ترے آئیں تو کیا ہو
نفس پر آہ کی روکا دخاں کو
جو دیکھا ممتحن میری زبان کو
خیال قبر جو ذوق شراب دے مجھ کو
دلمیں ہو اور آنکھ میں جلوہ عیاں نہ ہو
پردہ کوئی چھپا نہ سکے آفتاب کو
وہ ایذا دوست ہوں منظور گرمی میں جو راحت ہو
کس سے کہیے ظلم شوق تازہ گوئی ہائے ہائے
موت ہی سے کچھ علاج درد فرقت ہو تو ہو
ردیف ہاے ہوز
اس طرح سے ہے دل میں مرے جاے مدینہ
زمانہ میں رہی تعلیم خود بینی سکندر سے
ردیف یا
یقین ہے گوہر مقصود میکش اس سے پھر پرسے
شورش غم سے ہوا پھر دل بیجان خالی
کچھ بھی ثابت نہ ہوا شمع کے جل جانے سے
نہ سنیے حال تغافل سے تو گلا کیا ہے
کرتے ہیں خدائی بت کیا بات بھلا ان کی
غیروں سے آج ہے مشغول نظارا کوئی
دشمنوں کا سر سے جھگڑا اے ستمگر کاٹئے
تیرہ روزی سے نظر آتے ہیں جلوے نور کے
غیروں کی وہاں آمد وشد پیش نظر ہے
غیر سے ہوگی رقابت کی لڑائی آپکی
کیا رہنمائی ہو خضر احتما ل سے
خوشی سے آپ کی ہم نے جو کچھ اشعار خوانی کی
غزل پڑھنے میں ہیں داؤد پگھلے قلب دشمن بھی
واعظ کے پاس جائیں گے ہم مے پیے ہوئے
تن سے گرجان نہ نکلی شب فرقت میری
یوں نہیں چین تو غفلت کا ستم اور سہی
وصل کی شب ہاتھاپائی ہوگی
گل کیا ہے داغ کی کثرت نے اے گلرو مجھے
مثال تار نظر اپنے ہم مکان سے چلے
دل کہاں ہے کہ جو باقی رہے ارمان کوئی
یارب نکال چاہ زنخداں کی چاہ سے
منع کرتے ہیں وہ وفا کے لیے
چارہ وحشت کا مری آہ کہاں ہوتا ہے
خاموش ہیں کچھ وصل کا انکار نہیں ہے
یوں نہ جا حشر کے انداز سے جانے والے
ملا نہ جب کوئی ایذا کا ڈھب جہاں کے لیے
درد معشوق پہ مرنے سے سوا ہوتا ہے
صورت عیش وطن یاد آئی
یہ پہلو میں رکھنے کے قابل نہیں ہے
پھر جفا اضطرار کی سی ہے
جہاں رستہ بہکتا راہبر ہے
اس سے کیونکر جان اے ناصح بجائی جاتی ہے
حیرت افزا نہ اگر یار کا جلوہ ہو جائے
کار سحاب لینے لگے اب زبان سے
اقرار کی خصلت مرے قاتل میں نہیں ہے
افشاں کے گر ستارے جبیں پر بنائیں گے
ناصحا عیش ومصیبت میں گزر ہو ہی گئی
شب فرقت ترا بیمار کب آرام لیتا ہے
اشعار متفرق
قطعات
کل اک تماشا دیکھا ہم نے کہ میر عاقل
کل حسن اتفاق سے آئے وہ میرے گھر
مخمس برغزل غالب مرحوم
مخمس برغزل مرزا صابر مرحوم
مخمس برغزل ذوق
قطعہ در مدح کثرت علی مدد
قطعہ در شکریہ تصویر کشی کہ در شہر کلکتہ گفتہ شد
قطعہ در شکریہ آغا مرزا نواب سرورجنگ بہادر
قطعہ در تہنیت عید ماہ صیام بہ حضور نواب نظام یار جنگ
نامہ
رباعی
قطعہ در صفت انبہ
قطعہ در شان فلک نما ونذر عالی جناب وزارت مآب
تاریخ طبع دیوان سخی
قطعہ در مسرت مراجعت عالیجناب نواب خانخاناں
قطعہ وتاریخ در تہنیت صحت عالیجناب نواب خانخاناں
قطعہ درتہنیت عید البقر بخدمت عالیجناب نواب خانخاناں
سہرا جو عالیجناب نواب بہرام جنگ کی شادی میں پڑھا گیا
قصیدہ ناتمام در مدح عالیجناب نواب حسام الملک خانخاناں
قصیدہ در مدح عالیجناب نواب حسام الملک خانخاناں
قصیدہ در مدح کمال پرور کامل شناس عالیجناب نواب حسام الملک
قصیدہ ناتمام در مدح عالیجناب معلیٰ القاب نواب فخر الملک
قصیدہ در مدح عالیجناب معلیٰ القاب نواب فخرالملک
قصیدۂ ناتمام در مدح عالیجناب نواب بہرام جنگ بہادر
قصیدہ در مبارک بادی شادی نواب بہرام جنگ بہرام الدولہ
قصیدہ در مدح کمال پرور کمال شناس معلی القاب قمر رکاب
از نتیجۂ فکر صائب رشک عرفی وصائب یکتا ئے زمن
ریختۂ کلک جواہر سلک جناب مولوی سید اصغر حسین صاحب
AUTHORمیر محمد سلطان عاقل
YEAR1902
CONTRIBUTORانجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی
PUBLISHER مطبع انوار الاسلام، حیدرآباد
AUTHORمیر محمد سلطان عاقل
YEAR1902
CONTRIBUTORانجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی
PUBLISHER مطبع انوار الاسلام، حیدرآباد
سرورق
دیباچہ
عدم آباد کو جب قافلہ دم کا رواں ہوگا
حد امکان سے باہر ہے بیان جاہ محمد کا
گر سدرہ دشمن نہ کوئی پاسباں ہوگا
ترے دل میں نہ ہوئی جائے ستمگر پیدا
زیست میں عذر ہی فرمایئے گا
سنگ دل داغ جگر کا کبھی قائل نہ ہوا
جب کہا میں نے کہ کب آیئے گا
زانوے درد سے نہ سر سر کا
جس طرف دیکھا ادھر گویا تماشا ہو گیا
مثل ہم ٹھہرائیں کس کو گردش ایام کا
ہر اک کو مرقع نظر آتا ہے وفا کا
ترا منہ رات کو اترا ہو تھا
کچھ فرض ہے ہو طور پہ دیدار خدا کا
جو دیکھا سحر تری نرگس سخن گو کا
وطن میں گر رہوں میں کیا چلے بس مجھ پہ دشمن کا
نہ زندہ نہ مردہ نہ دنیا نہ دیں کا
بدلا کیا خدا نے آفت رسیدگاں کا
کہتے ہیں دشمن کے قبضہ میں زمانا ہوگیا
دل کے ویراں میں غربت کا ہوا جب سامان
نظارہ خواب میں ہے رخ بے حجاب کا
وقفہ ملا نہ ہم کو گنہ کے حساب کا
جلوۂ طور ہی ہوتا پہ نمایاں ہوتا
الٰہی شکر دن آیا قیامت آنے کا
خموشی میں وہ دہن انتخاب اب کیا ہوگا
رشک نے حشر کا میدان دیکھا
کچھ تیغ لگاتے تم کچھ زخم ہرا ہوتا
شب غم میں نہ یوں چپ اے دل ناشاد ہونا تھا
ناصیہ سا تری چوکھٹ پہ جو عاقل ہوگا
قدر کم ہے تو کمال اور بھی زائل ہوگا
آوارگان عشق رہیں گے وطن میں کیا
انسے ہم کرتے ہیں گلہ دل کا
ستائیں کسکو رلائیں کسکو کبھی تو یہ بھی خیال ہوگا
اگرچہ ہوش میں ناصح میں آنہیں سکتا
اصرار اقربا کا یہی ہے مگر جواب
ردیف باے موحدہ
ہجر ساقی میں کٹیں دل سیکڑوں پیکر شراب
ہم بغل ہوگا مرے داغ جگر سے آفتاب
کھینچ اب تو صورت حیرت فزائے عندلیب
جب وہ چلے گئے تو لبوں پر فغاں ہے اب
ردیف باے فارسی
کاہش غم کردہ ہے عزم سیر کوئے دوست
ردیف تائے فوقانی
اس سے کس طرح کہوں ہائے ملاقات کی بات
ہر نالہ پہ یاں ڈر کہ نہ آجائے قیامت
ردیف جیم معجمہ
کہہ تو اے ماہ لقا کیا باعث
ردیف ثاے مثلثہ
شمع کے شعلہ پہ کیوں جاتا ہے بے تابانہ آج
پھر جائے گی تقدیر ہماری بھی مگر آج
ردیف حائے حطی
گھڑی گھڑی میں بدلتی ہے فتنہ گر کی طرح
ردیف دال مہملہ
دنیا کی ہے جوان سے کچھ اور ہی طرح
اڑا دے نام سے گر صاد صیاد
عدو کے اشک بہے سنکے میری جان فریاد
نہ سن قریب سے آہ شرر فشاں صیاد
جان میری جسم میں ہے کہاں جان کی جاہے درد
ردیف راے مہملہ
مٹاؤں گا نزاکت اسکی اک دن ناتواں بن کر
ہم دیکھ لیتے اسکو کچھ بے حجاب بن کر
ڈال دوں نور سحر روئے بت بے پیر پر
خط نکلا ہے پشت لب لعل نمکیں پر
بن پڑی حشر کی اب قامت دلبر ہو کر
اب اٹھنا رہ گیا اپنے گمان پر
خوشا احوال پروانہ کہ پہنچا جل کے منزل پر
معجزہ تم نے دکھایا یہ خراماں ہوکر
جھکیں آنکھیں حیا سے کیا بہار آئی ہے سب تن پر
ہنسے طعن اعدا پہ تیور بدل کر
کون کہتا ہے ستمگاری نہ کر
ردیف طاے مہملہ
ردیف فاے سعفص
کون کہتا ہے کہ ہے دورۂ ایام غلط
عکس افگن آب خنجر میں جو ہوکافر کی زلف
ہے عکس رخ ترا ساقی کہ ہے شراب میں برق
کل توجہ کچھ تھی ناصح کی گریباں کی طرف
ردیف القاف
کرتی ہیں نگاہیں تری ہر ایک جگر چاک
ردیف الکاف
رہتے ہیں مل کے بیٹھنے سے رنج وہم میں ہم
ردیف المیم
شب فراق گزر جائے گی مگر کب تک
یوں ہی مرتے رہے ان پر اگر ہم
ردیف نون
کٹی ہیں ہجر کی راتیں جو بھاری آنکھوں میں
بڑے مشاق ہیں یہ ماہوش دل کے چرانے میں
آپ کا میم دہان ہے کہ نہیں
ادھر تو ہم جان کھو رہے ہیں ادھر وہ الفت سے رو رہے ہیں
مجھے سرمہ لگا کر چشم پرنم وہ دکھاتے ہیں
ہو نہ یارب وہ مری گردش ایام کہیں
کس طرح ہو نہ رنگ تلون کا چاہ میں
اداہٹ ہلکی ہلکی سی جو ہے مستی کی دنداں میں
وہ ہوں تفتہ جگر ہوچارہ جو ساعی جو راحت میں
ہو کہاں گر وصل بھی ہو غیر کی تدبیر میں
ضعف سے اب کوئی اصلاح کی تدبیر نہیں
مشہد فصل بہاران ہے تن سفاک میں
وہ خوشی میں سخن رنج فزا کرتے ہیں
رہے افتادہ اے عاقل مقدر سے یہیں برسوں
دل میں شوق زوال رکھتے ہیں
دیکھنے کا جز کوئی چشم ستمگر میں نہیں
جناں کا وصف بچا ہے پہ دلنشیں تو نہیں
ضعف سے کس وقت اک چکر مرے سر میں نہیں
نہ گنتی ہے کوئی میری کسی مدمیں نہ داخل ہوں
دلبری ہوگی دلنشیں نہ کہیں
کیوں ہم اے شعلہ رخو تم سے لگائیں دل کو
ردیف واؤ
ہو کاش تلوں ہی مگر شوق فزا ہو
وہ کہتے ہیں ہم بس میں ترے آئیں تو کیا ہو
نفس پر آہ کی روکا دخاں کو
جو دیکھا ممتحن میری زبان کو
خیال قبر جو ذوق شراب دے مجھ کو
دلمیں ہو اور آنکھ میں جلوہ عیاں نہ ہو
پردہ کوئی چھپا نہ سکے آفتاب کو
وہ ایذا دوست ہوں منظور گرمی میں جو راحت ہو
کس سے کہیے ظلم شوق تازہ گوئی ہائے ہائے
موت ہی سے کچھ علاج درد فرقت ہو تو ہو
ردیف ہاے ہوز
اس طرح سے ہے دل میں مرے جاے مدینہ
زمانہ میں رہی تعلیم خود بینی سکندر سے
ردیف یا
یقین ہے گوہر مقصود میکش اس سے پھر پرسے
شورش غم سے ہوا پھر دل بیجان خالی
کچھ بھی ثابت نہ ہوا شمع کے جل جانے سے
نہ سنیے حال تغافل سے تو گلا کیا ہے
کرتے ہیں خدائی بت کیا بات بھلا ان کی
غیروں سے آج ہے مشغول نظارا کوئی
دشمنوں کا سر سے جھگڑا اے ستمگر کاٹئے
تیرہ روزی سے نظر آتے ہیں جلوے نور کے
غیروں کی وہاں آمد وشد پیش نظر ہے
غیر سے ہوگی رقابت کی لڑائی آپکی
کیا رہنمائی ہو خضر احتما ل سے
خوشی سے آپ کی ہم نے جو کچھ اشعار خوانی کی
غزل پڑھنے میں ہیں داؤد پگھلے قلب دشمن بھی
واعظ کے پاس جائیں گے ہم مے پیے ہوئے
تن سے گرجان نہ نکلی شب فرقت میری
یوں نہیں چین تو غفلت کا ستم اور سہی
وصل کی شب ہاتھاپائی ہوگی
گل کیا ہے داغ کی کثرت نے اے گلرو مجھے
مثال تار نظر اپنے ہم مکان سے چلے
دل کہاں ہے کہ جو باقی رہے ارمان کوئی
یارب نکال چاہ زنخداں کی چاہ سے
منع کرتے ہیں وہ وفا کے لیے
چارہ وحشت کا مری آہ کہاں ہوتا ہے
خاموش ہیں کچھ وصل کا انکار نہیں ہے
یوں نہ جا حشر کے انداز سے جانے والے
ملا نہ جب کوئی ایذا کا ڈھب جہاں کے لیے
درد معشوق پہ مرنے سے سوا ہوتا ہے
صورت عیش وطن یاد آئی
یہ پہلو میں رکھنے کے قابل نہیں ہے
پھر جفا اضطرار کی سی ہے
جہاں رستہ بہکتا راہبر ہے
اس سے کیونکر جان اے ناصح بجائی جاتی ہے
حیرت افزا نہ اگر یار کا جلوہ ہو جائے
کار سحاب لینے لگے اب زبان سے
اقرار کی خصلت مرے قاتل میں نہیں ہے
افشاں کے گر ستارے جبیں پر بنائیں گے
ناصحا عیش ومصیبت میں گزر ہو ہی گئی
شب فرقت ترا بیمار کب آرام لیتا ہے
اشعار متفرق
قطعات
کل اک تماشا دیکھا ہم نے کہ میر عاقل
کل حسن اتفاق سے آئے وہ میرے گھر
مخمس برغزل غالب مرحوم
مخمس برغزل مرزا صابر مرحوم
مخمس برغزل ذوق
قطعہ در مدح کثرت علی مدد
قطعہ در شکریہ تصویر کشی کہ در شہر کلکتہ گفتہ شد
قطعہ در شکریہ آغا مرزا نواب سرورجنگ بہادر
قطعہ در تہنیت عید ماہ صیام بہ حضور نواب نظام یار جنگ
نامہ
رباعی
قطعہ در صفت انبہ
قطعہ در شان فلک نما ونذر عالی جناب وزارت مآب
تاریخ طبع دیوان سخی
قطعہ در مسرت مراجعت عالیجناب نواب خانخاناں
قطعہ وتاریخ در تہنیت صحت عالیجناب نواب خانخاناں
قطعہ درتہنیت عید البقر بخدمت عالیجناب نواب خانخاناں
سہرا جو عالیجناب نواب بہرام جنگ کی شادی میں پڑھا گیا
قصیدہ ناتمام در مدح عالیجناب نواب حسام الملک خانخاناں
قصیدہ در مدح عالیجناب نواب حسام الملک خانخاناں
قصیدہ در مدح کمال پرور کامل شناس عالیجناب نواب حسام الملک
قصیدہ ناتمام در مدح عالیجناب معلیٰ القاب نواب فخر الملک
قصیدہ در مدح عالیجناب معلیٰ القاب نواب فخرالملک
قصیدۂ ناتمام در مدح عالیجناب نواب بہرام جنگ بہادر
قصیدہ در مبارک بادی شادی نواب بہرام جنگ بہرام الدولہ
قصیدہ در مدح کمال پرور کمال شناس معلی القاب قمر رکاب
از نتیجۂ فکر صائب رشک عرفی وصائب یکتا ئے زمن
ریختۂ کلک جواہر سلک جناب مولوی سید اصغر حسین صاحب
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔