سرورق
مقدمہ
غزل
نقش جب بیٹھا ہے دل میں دلبر دلخواہ کا
سر سے بھی مشکل ہے طے کرنا قلم کو راہ کا
سر کے بل ہوتا تو لد ہے گدا وشاہ کا
ہر غم میں کریم ہے ہمارا
مجھ کو مسند پہ قلمنداں بخشا
کھلے گا ناخن شمشیر سے عقدہ میرے دل کا
طلسم دہر دکھلاتا ہے آئینہ میرے دل کا
یار گزرے سینہ سے سر اس ستم ایجا کا
خنجر ابرو نظر آیا ہے کس جلاد کا
اس نے پیام کو پیمبر بنا دیا
آئینہ رخ سے چھاتی کا پتھر بنا دیا
شمع کا شعلہ زبان منقار میں ہر بار تھا
ہمارا نام پڑھ کر اس کو غصہ تو نہیں آیا
زلف زلف حور چہرہ نیر اعظم ہوا
تری جب زلف خوشبو کا خیال اے نازنیں آیا
دل میں آکر حسن مضمون کمر جاتا رہا
نبض میں تار شعاع مہر کا عالم ہوا
بلبل سے گل سے باغ میں یارانہ ہو گیا
دل اپنا کشتہ فرقت سے بلبل گل کی کاکل کا
آزاد دہر سے دل دیوانہ ہو گیا
میسر ہو جو اے بلبل کسی شب وصل اس گل کا
ایک قطرہ بھی لہو کا ہو یہاں گر پیدا
تیغ ابرو کا نہ ہوگا کبھی جوہر پیدا
خاک سے میری گل عیش نہ ہو گر پیدا
نہیں شکوہ مجھے بے برگ کیا گر پیدا
مژدہ لایا ہے وصال یار سیم اندام کا
شہرہ آفاق آوازہ ہے ا پنے نام کا
ہو جو گلشن میں گزر اس سرو گل تمثال کا
بعد میرے اس کو جینا دہر میں مشکل ہوا
کبھی مرا بھی سیہ خانہ اس سے روشن تھا
کون آئے گا جو توبے سروساماں ہوگا
بس کہ سودا ہے کسی کی نرگس مخمور کا
جو پیمبر ترا وہی میرا
نہ جنوں جائے گا کبھی میرا
طالب نہ ہو کسی سے دل جاہ و مال کا
درویش قید غم میں دل زار ہو گیا
اثر ایسا ہے تپ غم میں دوا کا الٹا
تخت شاہی بھی ملا دل کا بھی مطلب ہو گیا
نظر کسی کو وہ موے کمر نہیں آتا
وفور ضعف سے دل یار پر نہیں آتا
چشمہ جاناں سے نہ آنسو کسی عنواں نکلا
نزدیک مرگ عشق کے آزار نے کیا
سیراب مجھ کو خنجر خونخوار نے کیا
بزم عالم میں جو حسن پاک کا دیوانہ تھا
وہ مسیحا نہ کرے گا جو نظارہ اپنا
بے قراروں کو کب قرارآیا
کان میں نالۂ ہزار آیا
لازم ہے سرا میں دھیان گھر کا
عالم شب وصل ہے یہ ڈر کا
چشم تر میں اشک کا تھمنا تماشا ہو گیا
کھایا تیری تیغ کا نہ چرکا
مر گئے پر سوز دل سے دوست دشمن ہو گیا
سن کے فرقت چپ ہوا ایسا کہ مردا ہوگیا
صاف رخسار سے آئینہ کو حیراں دیکھا
آتش رخ سے پگھل کر موم روغن ہو گیا
وصل اے گل ترا اک شب جو میسرہوتا
زخمی جو دل اپنا سر پہلو نظر آیا
شب کو یاد مژۂ یار نے سونے نہ دیا
نہیں کچھ وصل پر ہی زور تدبیر تصور کا
شب کو یہ سرگرم زینت اک پری رخسارہ تھا
آہ سوزاں کا یہ ہر شعلہ فلک آرا ہوا
چاند سے منہ پر غبار تن جو آوارہ ہوا
حسن عارض سے جنون عشق اپنا بڑھ گیا
تم چلے گھر سے ہو ادھر سے جانا میرا
دل کے دینے کو جو کی تجھ سے محبت پیدا
میری تلقین ہو فرقت میں فسانا میرا
سامان وصل ہجر کے ماتم نے کھو دیا
عہد شباب صورت صر صر گزر گیا
آنسو تھمے جو رخ پہ وہ گیسو بکھر گیا
دل ذقن سے چھوٹ کر پوشاک تن میں رہ گیا
سرکٹ کے نیمچا وہ جگر سے نکل گیا
قیامت خط بنانا ہے کتابی روئے جاناں کا
نام اقدس ہے علیٰ علیٰ ہے شان بو تراب
اک دن سنے مسیح جو اشعار آفتاب
سن چکا ہوں کہہ چکی عاشق زبان بو تراب
ہوں لاکھ داغ دل سے خریدار آفتاب
اہل زر لیتے ہیں صورت میں سے شکل زر شراب
یوں دور سے دھج دکھائے محبوب
گردش ہے فقط برائے محبوب
بندھ کر تصور رخ قاتل تمام رات
ہم جان دیں پر نہ آئے محبوب
بعد فنا بھی یاد کروں گا وفائے دوست
تھا نجم بخت تیرہ مقابل تمام رات
کافی ہے گل کو ایک نگاہ وفائے دوست
ہجر میں طالب شفا ہے عبث
مجھ کو دیوانہ کر دیا ہے عبث
ہے چشم دل کو الفت حیدر کی احتیاج
آوارگی میں دل کو ہے دلبر کی احتیاج
ہم سے کرتا ہے عبث گفتار کج
کرتی ہے یہ انتظار یار صبح
اس گل سے خار خار ہے نازک چمن کی شاخ
ہر ایک دست و پا ہے نہال بدن کی شاخ
تیرہ بختی سے ہے رنگ رخ نخچیر سفید
کب صفائی دل روشن ہے کسی تو دی میں
خاک ہوں خط کہاں کہاں تک قاصد
لائے گی اس کو جنازے پہ وفا میرے بعد
خون بہانے کا بہانہ ہے بھلا میرے بعد
ظلم ظالم کو ہے مظلوم کو آرام پسند
غم فراق میں کرتا ہے مرغ جاں فریاد
جو گم وہ یوسف ثانی ہو ہر زماں فریاد
نہ اک فراق میں کرتی ہیں انگلیاں فریاد
تو نے بالوں میں جو باندھا ہے رو پہلا تعویذ
شکر تیغ یار ہے بار گراں بالائے سر
روشن ہے سوز داغ دل اس بے حجاب پر
کیوں مگس ران ہو نہ پروانہ یہاں بالائے سر
عجب بہار ہے افشاں سے زلف دلبر پر
ایمن ہے خزاں سے باغ تصویر
داغ سودا ہے قیامت میرے جسم زار پر
محبت میں خیال دوست لے جاتا ہوں دشمن پر
اٹھاتے ہی نہیں اہل فنا احسان گردن پر
ہے یہ خوبی ہو ساکت در غلطاں دیکھ کر
رنگ اڑا گل کا گل رخسار جاناں دیکھ کر
اے ماہ سال بھر میں تو آئی نظر کمر
لباس تن پھٹا طفلی سے پیری میں جواں ہو کر
ہے مرا تار نفس تار قفس
یاد ہیں تیری جفائیں ستم ایجاد ہنوز
تلاطم اشک کا ہے ہیں دل وزبان خاموش
بام پہ کرتا ہے کیا تو اے بت خود کام رقص
نشۂ مے میں نظر آتا ہے صبح شام رقص
دل پر داغ کو ہے گیسوئے خم دار سے ربط
جنت سے ہم کو کام نہ گلزار سے غرض
موسم گل میں نہیں عزت وشان واعظ
ایک شب دیکھے جو آکر محفل جانا نہ شمع
کیوں پتنگے ہوں نہ حسن یار کے پروانہ شمع
بن گئے آتش زبانی سے جہاں میں ہم چراغ
کون کرتا بیکسوں کی گور پر روشن چراغ
چشم روشن سے ہے چشم نیر اعظم چراغ
در بنے پروانہ دیواروں کے ہوں روزن چراغ
کرے جو وصف رخ روشن انجمن میں چراغ
فروغ بے رخ روشن سے ماہ دار چراغ
خموش روئی جلے گر پتنگ وار چراغ
کیوں ہاتھ لگا پاؤں کوکٹ جائے گا سر صاف
نہ خط نہ زلف کے ہوں بال بال سے واقف
سینہ ہے مرا صاف دل صاف ہے کمر صاف
جو ہو وہ چاند سا ابرو کمال سے واقف
موت آئے پر نہ دکھلائے خدا شام فراق
عدم میں کون یہاں کے ہے حال سے واقف
ہم نام پہ مرمٹے یہاں تک
سبزہ خط وروئے یار کا رنگ
منہ غیرت گل غنچہ دہن رنگ سخن پھول
کیا پہنے شب وصل وہ سیم بدن پھول
بلبل ترے صدقے کرے اے رشک چمن پھول
تنگ آئے ہیں بتو یہ تمہاری جفا سے ہم
دہن تنگ میں کلام نہیں
بھرے خرد سے جو ساقی شراب شیشے میں
بدن میں روح نالاں ہے خیال زلف پیچاں میں
مسیحا فرق کیا ہے آفتاب دروئے انور میں
کاٹ اب نہ گلا کعبہ تعمیر گلے میں
اعجاز سوز عشق سے بزم شراب میں
خنداں کبھی ہوا نہ جہان خراب میں
سینے میں رہ جائے تیر اے تیر افگن چاہئے
ہے رنج وصل میں بھی یہ بخت خراب میں
ساقی نہیں ہیں نقش یہ جام شراب میں
وہ رشک مہر شب کو آیا جو نہ خواب میں
بعد فنا بھی ملتی ہے جا چشم یار سے
نکلا جو دم ہے آرزوئے وصل یار میں
یہ شوق مے کشی کا ہے ساقی بہار میں
یار نے باندھا نہ مجھ کشتی کا سر فتراک میں
التجا ہے یہ جناب صاحب لولاک میں
نفرت طلب نہ ہو طلب جاہ ومال میں
دل جلا آئینہ عارض جو چمکا دھوپ میں
اگر میں جانتا یہ خار ہوگا ہجر گل رو میں
خود نمائی کی یہ صورت ہو مزاج یار میں
ہو جو تو اے سروقامت پر تو افگن آب میں
ہو جو تو اے سروقامت پر تو افگن آب میں
پھرے کچھ غم نہیں عشق بت ہر جائی میں
دل نازک پہ جفا کرتے ہیں
جو تیرے نقش قدم پر نگاہ کرتے ہیں
ہزار رنج ہوں کب ترک چاہ کرتے ہیں
وصف دہان یار کے قابل دہاں نہیں
ہیں دریائے قناعت آشنا ہوں
نام اس کا نہ گھر میں جانتا ہوں
اے فلک سوز غم سے جلتے ہیں
دل سے جب نالے کچھ نکلتے ہیں
آفتاب داغ مثل ماہ کس دل پر نہیں
ایک بھی گل داغ سودا سا گلستاں میں نہیں
معجزے کرتا ہے عکس روئے انور سیکڑوں
صدمے گزرے ہیں تیرے فرقت میں اکثر سیکڑوں
ہوں وہ روشن دل کہ مرنے پر بھی جس کا غم نہیں
پر تو مہتاب سے کم جلوۂ شبنم نہیں
گلشن ایجا دکی دیکھی بہار اک دم نہیں
تل کو سمجھا مرغ دل دانہ کف صیاد میں
تیرنا بحر غم ابرو میں خضر آساں نہیں
تحریر وصف زلف سیہ خوب مو کریں
دم قفس مرنے پہ صیاد کیا کرتے ہیں
مہندی لگاتے ہیں وہ ہم آنکھ ڈالتے ہیں
رکھنا نہ تن کے پاؤں رہیں گے نہ تن کے پاؤں
دل کو ہے دیدار کا شوق آنکھ پر ملتی نہیں
اب دل بیمار کی اچھی خبر ملتی نہیں
عبادت ہم بجائے نالہ و فریاد کرتے ہیں
موت آئی گر مسیح قضا کو خبر نہ ہو
برق و باراں کا سماں یاد دلا دیتے ہو
چشم بھی لازم ہے شمشیر نگاہ یار کو
جھانکنے کی دم بدم خو ہے جو چشم یار کو
کیا غیر کیا عزیز کوئی نوحہ گر نہ ہو
فصل گل ہے بلبلیں جائیں مبارک باد کو
ساقی زوال ہوگا نہ دور شراب کو
ہے دل شمشیر جو دم ہے دل صد چاک کو
موت اپنی جان اے دل گردش افلاک کو
مرگئے پر بھی نہ پایا اس بت دل خواہ کو
مرکے خط شوق بھیجوں گا کسی مغرور کو
داغ کھاؤں گا جو دیکھوں گا جمال حور کو
اے سرو فاختہ کو جو تیرا خیال ہو
جلا ایسا لگی ٹھوکر جو تیری پائے تو سن کو
جلا یا آکے پروانے نے میری شمع مدفن کو
فراق دوست میں جب آپ کاٹا اپنی گردن کو
دل اپنا وصل میں خوش تھا حیا آتی تھی جاناں کو
نہ پہونچے ہجو جاں سے ضرر کچھ میرے حیواں کو
لحد کے بدلے کھودوں گا بنائے چرخ گرداں کو
بولیے گردوں کہے سن کر بلند آواز کو
حیرت اجزا خط ہے دامن گیر پشت آئینہ
کرتا ہوں پس مرگ بھی صد چاک کفن کو
کشش دل کی ہوگی اگر رفتہ رفتہ
کوئی ساعت کوئی دم جسم میں ہے جاں باقی
رہ گیا پائے جنوں سلسلہ جنباں باقی
اپنی پرسٹس جو ہو ارباب وفا سے پہلے
آزاد سروہے قد بالا کے سامنے
تو ہی کل کارب جلیل ہے نہیں غم فلک جو مخیل ہے
مہر کو چاند سی صورت جو دکھانی ہوتی
خاک پا اس کی مرے ہاتھ میں آئی ہوتی
کیوں نہ موی دل اصنام بنایا تو نے
بخت خوابیدہ کو پیروں میں جگایا تونے
پروانے کو گر شمع جلادے تو بجا ہے
امید مغفرت ہے اک تیری پروردگاری سے
جان دے شوق سے پر یارنہ رسوا ہووے
چاہوں وصل اس کا جو معدوم ہو عنقا ہوجائے
شہرت ہے میری سخن دری کی
گر ہو نہ خفا تو کہدوں جی کو
پھر نظارہ چشم بتاں ہے
غم میں عہد شباب جاتا ہے
ہر اک شب دل سے ذکر جان جاں ہے
رہتا ہوں باغ دہر میں پر جی وطن میں ہے
ترا بیمار ایسا ناتواں ہے
دل آئینہ ہے جو ہر عکس رو ہے
مصحف رخسار جاناں پر جو دل دیوانہ ہے
ایک اک پتی پہ واجب سجدۂ شکرانہ ہے
صبح کو صورت خورشید نکلنے والے
دیوانے پانکال بھی زنجیر تنگ سے
یہ سوجھتی ہے نشۂ سر شار بنگ سے
سروقد غیرت صد غنچہ دہن پتھر کے
ہے یہ بہاری کہ سبک جس سے ہوں تن پتھر کے
دور دور گردش ایام ہے
گزرے جوانی تو گزر جائیں گے
اپنا نظارہ باعث شرم و حجاب ہے
بحر ہستی سے عدم چل اب خدا کے واسطے
آپ اک بوسہ نہیں دیتے خدا کے واسطے
وصل منظور ہے فرقت سے کنارا کب ہے
زینت قاتل تو ہے گو جامۂ تن چاک ہے
دل ہوا ہے داغ عشق عارض پرنور سے
لاگ ہے دل کو کسی کے چہرۂ پرنور سے
یا جام مے ہے یا رخ ساقی کی دید ہے
آئے نہ تم جو شدت ابر بہار سے
مل کر چلے ہے کیا یہ کسی نے سوار سے
نہ کچھ تکرار تم کو ہے نہ کچھ شکوہ ہمارا ہے
در نایاب لے فیض در دنداں سے
ہوں وہ درویش کبھی زر نہ لیا سلطاں سے
نگاہوں میں مرے آمیزش کا فور و فلفل ہے
کسی گل رو کے دیوانوں کی غل کرتی سلاسل ہے
مہندی لگی مسی بھی لگی کچھ لگاؤ ہے
ثابت ہے دور جام مہ و آفتاب سے
تن سے جان کا قدم نکلتا ہے
شب وصال میں بھی اضطراب رہتا ہے
جاتی ہے جان میری دل دار رو رہا ہے
ستم ہوا جو مری جان بے قرار ہوئی
آئینہ میں نہیں یہ عکس اس کا رونما ہے
کب سے ہے حور کی آغوش تمنا خالی
وہ بلبل ہوں مرا صور سرافیل اک ترانہ ہے
دور گردوں نے کیا چاند سے بالا خالی
اجل کا در ہم داغ جنوں سے جاں نشانہ ہے
غبار چشم سیلاب شہادت سے سہلانا ہے
جفا کرنے سے کیا کچھ عشق کم ہو جائے گا دل سے
گدا ادنی تیرے فیض کرم سے شاہ عالی ہے
لگائی لو جواے مہ تیرے گالوں کے سیہ تل سے
مری آنکھوں میں خون دل شراب پر تگالی ہے
ٹپکتے اشک حسرت سے تیرے لب جو لالی ہے
دل سوزاں میں جائے داغ یاد زلف شب گوں ہے
مری جو بیت ہے قصر لحد کا اس میں مضموں ہے
غم ساقی کی ہے جو مہمانی
ترا منہ دیکھیے جب تک نہ جانی
جلاتی ہے سدا غم کی کہانی
نہ نکلا دم تری فرقت میں جانی
بوسہ لیا ہے خواب میں اک رشک ماہ سے
رخ پر غبار کیوں نہ ہو خط سیاہ سے
اس قدر دیکھا کہ پتلے دیدۂ بیدار کی
عقدۂ خاطر نازک کوئی وا ہوتا ہے
نہ گل نہ سر ومیان بہار ہوتا ہے
دیجئے جان یہ حسرت دل ہے
ہے مثل شر میرے تن سے زار میں گرمی
اس نکیلی مژہ پہ مائل ہے
فصد لیتے ہیں کہ تاجوش کبھی خوں نہ کرے
جلا پروانہ ساں ہوں سرمہ ساں خاکستر تن ہے
رخ سے برقع جو الٹ دے وہ تو آفت ہو جائے
دل الجھتا ہے کہ انجام پریشانی ہے
مہر دن کو ماہ شب کو تو نظیر آیا مجھے
جلوۂ دیداری ہرسو نظر آیا مجھے
فرقت میں جان وقت مصیبت نکل گئی
دیکھا جو آنکھ اٹھا کے وہ قامت نکل گئی
بندے سے کب خلاف مشیت نکل گئی
فصل گل ہے مثل گل پیراہن تن چاہیئے
چاندنی میں جو تو نکلتا ہے
شب ہجراں میں دم نکلتا ہے
رہ گئے تھے پھول وصلت میں گلے کے ہار کے
جا نہ اس وحشت میں اک تلوار قاتل مار کے
کوہکن سے وصل کا وعدہ زبانی چاہیے
آبرو داروں کو آب زندگانی چاہیئے
صبح پیری خاک عشق یار جانی چاہیئے
فلک وہ ماہ ہے لاغر کرے کمال مجھے
دم جو الٹا شکل دیکھی اک سراپا نور کی
درد دسے آگاہ طبیعت ہو بت مخمور کی
بے جرم ہے گردن تہ شمشیر ہماری
لے جان نہ وہ زلف گرہ گیر ہماری
ہر طرح بے مثل محبوب سراپا ناز ہے
ہر دم تیرے کرم سے امید نجات ہے
معرفت کے کہتے گر اشعار اٹھتے بیٹھتے
ہر اک طفل حسین ہمراہ معشوقانہ آتا ہے
کبھی رونا کبھی ہنسنا کبھی چپ گاہ حیرت ہے
واسوخت
یار صورت بھی نہیں اب مجھے دکھلاتا ہے
چہ کنم سوی ار قام حمد رب کبار
قصیدہ حمد خدائے صمد (فارسی)
کتابیات
سرورق
مقدمہ
غزل
نقش جب بیٹھا ہے دل میں دلبر دلخواہ کا
سر سے بھی مشکل ہے طے کرنا قلم کو راہ کا
سر کے بل ہوتا تو لد ہے گدا وشاہ کا
ہر غم میں کریم ہے ہمارا
مجھ کو مسند پہ قلمنداں بخشا
کھلے گا ناخن شمشیر سے عقدہ میرے دل کا
طلسم دہر دکھلاتا ہے آئینہ میرے دل کا
یار گزرے سینہ سے سر اس ستم ایجا کا
خنجر ابرو نظر آیا ہے کس جلاد کا
اس نے پیام کو پیمبر بنا دیا
آئینہ رخ سے چھاتی کا پتھر بنا دیا
شمع کا شعلہ زبان منقار میں ہر بار تھا
ہمارا نام پڑھ کر اس کو غصہ تو نہیں آیا
زلف زلف حور چہرہ نیر اعظم ہوا
تری جب زلف خوشبو کا خیال اے نازنیں آیا
دل میں آکر حسن مضمون کمر جاتا رہا
نبض میں تار شعاع مہر کا عالم ہوا
بلبل سے گل سے باغ میں یارانہ ہو گیا
دل اپنا کشتہ فرقت سے بلبل گل کی کاکل کا
آزاد دہر سے دل دیوانہ ہو گیا
میسر ہو جو اے بلبل کسی شب وصل اس گل کا
ایک قطرہ بھی لہو کا ہو یہاں گر پیدا
تیغ ابرو کا نہ ہوگا کبھی جوہر پیدا
خاک سے میری گل عیش نہ ہو گر پیدا
نہیں شکوہ مجھے بے برگ کیا گر پیدا
مژدہ لایا ہے وصال یار سیم اندام کا
شہرہ آفاق آوازہ ہے ا پنے نام کا
ہو جو گلشن میں گزر اس سرو گل تمثال کا
بعد میرے اس کو جینا دہر میں مشکل ہوا
کبھی مرا بھی سیہ خانہ اس سے روشن تھا
کون آئے گا جو توبے سروساماں ہوگا
بس کہ سودا ہے کسی کی نرگس مخمور کا
جو پیمبر ترا وہی میرا
نہ جنوں جائے گا کبھی میرا
طالب نہ ہو کسی سے دل جاہ و مال کا
درویش قید غم میں دل زار ہو گیا
اثر ایسا ہے تپ غم میں دوا کا الٹا
تخت شاہی بھی ملا دل کا بھی مطلب ہو گیا
نظر کسی کو وہ موے کمر نہیں آتا
وفور ضعف سے دل یار پر نہیں آتا
چشمہ جاناں سے نہ آنسو کسی عنواں نکلا
نزدیک مرگ عشق کے آزار نے کیا
سیراب مجھ کو خنجر خونخوار نے کیا
بزم عالم میں جو حسن پاک کا دیوانہ تھا
وہ مسیحا نہ کرے گا جو نظارہ اپنا
بے قراروں کو کب قرارآیا
کان میں نالۂ ہزار آیا
لازم ہے سرا میں دھیان گھر کا
عالم شب وصل ہے یہ ڈر کا
چشم تر میں اشک کا تھمنا تماشا ہو گیا
کھایا تیری تیغ کا نہ چرکا
مر گئے پر سوز دل سے دوست دشمن ہو گیا
سن کے فرقت چپ ہوا ایسا کہ مردا ہوگیا
صاف رخسار سے آئینہ کو حیراں دیکھا
آتش رخ سے پگھل کر موم روغن ہو گیا
وصل اے گل ترا اک شب جو میسرہوتا
زخمی جو دل اپنا سر پہلو نظر آیا
شب کو یاد مژۂ یار نے سونے نہ دیا
نہیں کچھ وصل پر ہی زور تدبیر تصور کا
شب کو یہ سرگرم زینت اک پری رخسارہ تھا
آہ سوزاں کا یہ ہر شعلہ فلک آرا ہوا
چاند سے منہ پر غبار تن جو آوارہ ہوا
حسن عارض سے جنون عشق اپنا بڑھ گیا
تم چلے گھر سے ہو ادھر سے جانا میرا
دل کے دینے کو جو کی تجھ سے محبت پیدا
میری تلقین ہو فرقت میں فسانا میرا
سامان وصل ہجر کے ماتم نے کھو دیا
عہد شباب صورت صر صر گزر گیا
آنسو تھمے جو رخ پہ وہ گیسو بکھر گیا
دل ذقن سے چھوٹ کر پوشاک تن میں رہ گیا
سرکٹ کے نیمچا وہ جگر سے نکل گیا
قیامت خط بنانا ہے کتابی روئے جاناں کا
نام اقدس ہے علیٰ علیٰ ہے شان بو تراب
اک دن سنے مسیح جو اشعار آفتاب
سن چکا ہوں کہہ چکی عاشق زبان بو تراب
ہوں لاکھ داغ دل سے خریدار آفتاب
اہل زر لیتے ہیں صورت میں سے شکل زر شراب
یوں دور سے دھج دکھائے محبوب
گردش ہے فقط برائے محبوب
بندھ کر تصور رخ قاتل تمام رات
ہم جان دیں پر نہ آئے محبوب
بعد فنا بھی یاد کروں گا وفائے دوست
تھا نجم بخت تیرہ مقابل تمام رات
کافی ہے گل کو ایک نگاہ وفائے دوست
ہجر میں طالب شفا ہے عبث
مجھ کو دیوانہ کر دیا ہے عبث
ہے چشم دل کو الفت حیدر کی احتیاج
آوارگی میں دل کو ہے دلبر کی احتیاج
ہم سے کرتا ہے عبث گفتار کج
کرتی ہے یہ انتظار یار صبح
اس گل سے خار خار ہے نازک چمن کی شاخ
ہر ایک دست و پا ہے نہال بدن کی شاخ
تیرہ بختی سے ہے رنگ رخ نخچیر سفید
کب صفائی دل روشن ہے کسی تو دی میں
خاک ہوں خط کہاں کہاں تک قاصد
لائے گی اس کو جنازے پہ وفا میرے بعد
خون بہانے کا بہانہ ہے بھلا میرے بعد
ظلم ظالم کو ہے مظلوم کو آرام پسند
غم فراق میں کرتا ہے مرغ جاں فریاد
جو گم وہ یوسف ثانی ہو ہر زماں فریاد
نہ اک فراق میں کرتی ہیں انگلیاں فریاد
تو نے بالوں میں جو باندھا ہے رو پہلا تعویذ
شکر تیغ یار ہے بار گراں بالائے سر
روشن ہے سوز داغ دل اس بے حجاب پر
کیوں مگس ران ہو نہ پروانہ یہاں بالائے سر
عجب بہار ہے افشاں سے زلف دلبر پر
ایمن ہے خزاں سے باغ تصویر
داغ سودا ہے قیامت میرے جسم زار پر
محبت میں خیال دوست لے جاتا ہوں دشمن پر
اٹھاتے ہی نہیں اہل فنا احسان گردن پر
ہے یہ خوبی ہو ساکت در غلطاں دیکھ کر
رنگ اڑا گل کا گل رخسار جاناں دیکھ کر
اے ماہ سال بھر میں تو آئی نظر کمر
لباس تن پھٹا طفلی سے پیری میں جواں ہو کر
ہے مرا تار نفس تار قفس
یاد ہیں تیری جفائیں ستم ایجاد ہنوز
تلاطم اشک کا ہے ہیں دل وزبان خاموش
بام پہ کرتا ہے کیا تو اے بت خود کام رقص
نشۂ مے میں نظر آتا ہے صبح شام رقص
دل پر داغ کو ہے گیسوئے خم دار سے ربط
جنت سے ہم کو کام نہ گلزار سے غرض
موسم گل میں نہیں عزت وشان واعظ
ایک شب دیکھے جو آکر محفل جانا نہ شمع
کیوں پتنگے ہوں نہ حسن یار کے پروانہ شمع
بن گئے آتش زبانی سے جہاں میں ہم چراغ
کون کرتا بیکسوں کی گور پر روشن چراغ
چشم روشن سے ہے چشم نیر اعظم چراغ
در بنے پروانہ دیواروں کے ہوں روزن چراغ
کرے جو وصف رخ روشن انجمن میں چراغ
فروغ بے رخ روشن سے ماہ دار چراغ
خموش روئی جلے گر پتنگ وار چراغ
کیوں ہاتھ لگا پاؤں کوکٹ جائے گا سر صاف
نہ خط نہ زلف کے ہوں بال بال سے واقف
سینہ ہے مرا صاف دل صاف ہے کمر صاف
جو ہو وہ چاند سا ابرو کمال سے واقف
موت آئے پر نہ دکھلائے خدا شام فراق
عدم میں کون یہاں کے ہے حال سے واقف
ہم نام پہ مرمٹے یہاں تک
سبزہ خط وروئے یار کا رنگ
منہ غیرت گل غنچہ دہن رنگ سخن پھول
کیا پہنے شب وصل وہ سیم بدن پھول
بلبل ترے صدقے کرے اے رشک چمن پھول
تنگ آئے ہیں بتو یہ تمہاری جفا سے ہم
دہن تنگ میں کلام نہیں
بھرے خرد سے جو ساقی شراب شیشے میں
بدن میں روح نالاں ہے خیال زلف پیچاں میں
مسیحا فرق کیا ہے آفتاب دروئے انور میں
کاٹ اب نہ گلا کعبہ تعمیر گلے میں
اعجاز سوز عشق سے بزم شراب میں
خنداں کبھی ہوا نہ جہان خراب میں
سینے میں رہ جائے تیر اے تیر افگن چاہئے
ہے رنج وصل میں بھی یہ بخت خراب میں
ساقی نہیں ہیں نقش یہ جام شراب میں
وہ رشک مہر شب کو آیا جو نہ خواب میں
بعد فنا بھی ملتی ہے جا چشم یار سے
نکلا جو دم ہے آرزوئے وصل یار میں
یہ شوق مے کشی کا ہے ساقی بہار میں
یار نے باندھا نہ مجھ کشتی کا سر فتراک میں
التجا ہے یہ جناب صاحب لولاک میں
نفرت طلب نہ ہو طلب جاہ ومال میں
دل جلا آئینہ عارض جو چمکا دھوپ میں
اگر میں جانتا یہ خار ہوگا ہجر گل رو میں
خود نمائی کی یہ صورت ہو مزاج یار میں
ہو جو تو اے سروقامت پر تو افگن آب میں
ہو جو تو اے سروقامت پر تو افگن آب میں
پھرے کچھ غم نہیں عشق بت ہر جائی میں
دل نازک پہ جفا کرتے ہیں
جو تیرے نقش قدم پر نگاہ کرتے ہیں
ہزار رنج ہوں کب ترک چاہ کرتے ہیں
وصف دہان یار کے قابل دہاں نہیں
ہیں دریائے قناعت آشنا ہوں
نام اس کا نہ گھر میں جانتا ہوں
اے فلک سوز غم سے جلتے ہیں
دل سے جب نالے کچھ نکلتے ہیں
آفتاب داغ مثل ماہ کس دل پر نہیں
ایک بھی گل داغ سودا سا گلستاں میں نہیں
معجزے کرتا ہے عکس روئے انور سیکڑوں
صدمے گزرے ہیں تیرے فرقت میں اکثر سیکڑوں
ہوں وہ روشن دل کہ مرنے پر بھی جس کا غم نہیں
پر تو مہتاب سے کم جلوۂ شبنم نہیں
گلشن ایجا دکی دیکھی بہار اک دم نہیں
تل کو سمجھا مرغ دل دانہ کف صیاد میں
تیرنا بحر غم ابرو میں خضر آساں نہیں
تحریر وصف زلف سیہ خوب مو کریں
دم قفس مرنے پہ صیاد کیا کرتے ہیں
مہندی لگاتے ہیں وہ ہم آنکھ ڈالتے ہیں
رکھنا نہ تن کے پاؤں رہیں گے نہ تن کے پاؤں
دل کو ہے دیدار کا شوق آنکھ پر ملتی نہیں
اب دل بیمار کی اچھی خبر ملتی نہیں
عبادت ہم بجائے نالہ و فریاد کرتے ہیں
موت آئی گر مسیح قضا کو خبر نہ ہو
برق و باراں کا سماں یاد دلا دیتے ہو
چشم بھی لازم ہے شمشیر نگاہ یار کو
جھانکنے کی دم بدم خو ہے جو چشم یار کو
کیا غیر کیا عزیز کوئی نوحہ گر نہ ہو
فصل گل ہے بلبلیں جائیں مبارک باد کو
ساقی زوال ہوگا نہ دور شراب کو
ہے دل شمشیر جو دم ہے دل صد چاک کو
موت اپنی جان اے دل گردش افلاک کو
مرگئے پر بھی نہ پایا اس بت دل خواہ کو
مرکے خط شوق بھیجوں گا کسی مغرور کو
داغ کھاؤں گا جو دیکھوں گا جمال حور کو
اے سرو فاختہ کو جو تیرا خیال ہو
جلا ایسا لگی ٹھوکر جو تیری پائے تو سن کو
جلا یا آکے پروانے نے میری شمع مدفن کو
فراق دوست میں جب آپ کاٹا اپنی گردن کو
دل اپنا وصل میں خوش تھا حیا آتی تھی جاناں کو
نہ پہونچے ہجو جاں سے ضرر کچھ میرے حیواں کو
لحد کے بدلے کھودوں گا بنائے چرخ گرداں کو
بولیے گردوں کہے سن کر بلند آواز کو
حیرت اجزا خط ہے دامن گیر پشت آئینہ
کرتا ہوں پس مرگ بھی صد چاک کفن کو
کشش دل کی ہوگی اگر رفتہ رفتہ
کوئی ساعت کوئی دم جسم میں ہے جاں باقی
رہ گیا پائے جنوں سلسلہ جنباں باقی
اپنی پرسٹس جو ہو ارباب وفا سے پہلے
آزاد سروہے قد بالا کے سامنے
تو ہی کل کارب جلیل ہے نہیں غم فلک جو مخیل ہے
مہر کو چاند سی صورت جو دکھانی ہوتی
خاک پا اس کی مرے ہاتھ میں آئی ہوتی
کیوں نہ موی دل اصنام بنایا تو نے
بخت خوابیدہ کو پیروں میں جگایا تونے
پروانے کو گر شمع جلادے تو بجا ہے
امید مغفرت ہے اک تیری پروردگاری سے
جان دے شوق سے پر یارنہ رسوا ہووے
چاہوں وصل اس کا جو معدوم ہو عنقا ہوجائے
شہرت ہے میری سخن دری کی
گر ہو نہ خفا تو کہدوں جی کو
پھر نظارہ چشم بتاں ہے
غم میں عہد شباب جاتا ہے
ہر اک شب دل سے ذکر جان جاں ہے
رہتا ہوں باغ دہر میں پر جی وطن میں ہے
ترا بیمار ایسا ناتواں ہے
دل آئینہ ہے جو ہر عکس رو ہے
مصحف رخسار جاناں پر جو دل دیوانہ ہے
ایک اک پتی پہ واجب سجدۂ شکرانہ ہے
صبح کو صورت خورشید نکلنے والے
دیوانے پانکال بھی زنجیر تنگ سے
یہ سوجھتی ہے نشۂ سر شار بنگ سے
سروقد غیرت صد غنچہ دہن پتھر کے
ہے یہ بہاری کہ سبک جس سے ہوں تن پتھر کے
دور دور گردش ایام ہے
گزرے جوانی تو گزر جائیں گے
اپنا نظارہ باعث شرم و حجاب ہے
بحر ہستی سے عدم چل اب خدا کے واسطے
آپ اک بوسہ نہیں دیتے خدا کے واسطے
وصل منظور ہے فرقت سے کنارا کب ہے
زینت قاتل تو ہے گو جامۂ تن چاک ہے
دل ہوا ہے داغ عشق عارض پرنور سے
لاگ ہے دل کو کسی کے چہرۂ پرنور سے
یا جام مے ہے یا رخ ساقی کی دید ہے
آئے نہ تم جو شدت ابر بہار سے
مل کر چلے ہے کیا یہ کسی نے سوار سے
نہ کچھ تکرار تم کو ہے نہ کچھ شکوہ ہمارا ہے
در نایاب لے فیض در دنداں سے
ہوں وہ درویش کبھی زر نہ لیا سلطاں سے
نگاہوں میں مرے آمیزش کا فور و فلفل ہے
کسی گل رو کے دیوانوں کی غل کرتی سلاسل ہے
مہندی لگی مسی بھی لگی کچھ لگاؤ ہے
ثابت ہے دور جام مہ و آفتاب سے
تن سے جان کا قدم نکلتا ہے
شب وصال میں بھی اضطراب رہتا ہے
جاتی ہے جان میری دل دار رو رہا ہے
ستم ہوا جو مری جان بے قرار ہوئی
آئینہ میں نہیں یہ عکس اس کا رونما ہے
کب سے ہے حور کی آغوش تمنا خالی
وہ بلبل ہوں مرا صور سرافیل اک ترانہ ہے
دور گردوں نے کیا چاند سے بالا خالی
اجل کا در ہم داغ جنوں سے جاں نشانہ ہے
غبار چشم سیلاب شہادت سے سہلانا ہے
جفا کرنے سے کیا کچھ عشق کم ہو جائے گا دل سے
گدا ادنی تیرے فیض کرم سے شاہ عالی ہے
لگائی لو جواے مہ تیرے گالوں کے سیہ تل سے
مری آنکھوں میں خون دل شراب پر تگالی ہے
ٹپکتے اشک حسرت سے تیرے لب جو لالی ہے
دل سوزاں میں جائے داغ یاد زلف شب گوں ہے
مری جو بیت ہے قصر لحد کا اس میں مضموں ہے
غم ساقی کی ہے جو مہمانی
ترا منہ دیکھیے جب تک نہ جانی
جلاتی ہے سدا غم کی کہانی
نہ نکلا دم تری فرقت میں جانی
بوسہ لیا ہے خواب میں اک رشک ماہ سے
رخ پر غبار کیوں نہ ہو خط سیاہ سے
اس قدر دیکھا کہ پتلے دیدۂ بیدار کی
عقدۂ خاطر نازک کوئی وا ہوتا ہے
نہ گل نہ سر ومیان بہار ہوتا ہے
دیجئے جان یہ حسرت دل ہے
ہے مثل شر میرے تن سے زار میں گرمی
اس نکیلی مژہ پہ مائل ہے
فصد لیتے ہیں کہ تاجوش کبھی خوں نہ کرے
جلا پروانہ ساں ہوں سرمہ ساں خاکستر تن ہے
رخ سے برقع جو الٹ دے وہ تو آفت ہو جائے
دل الجھتا ہے کہ انجام پریشانی ہے
مہر دن کو ماہ شب کو تو نظیر آیا مجھے
جلوۂ دیداری ہرسو نظر آیا مجھے
فرقت میں جان وقت مصیبت نکل گئی
دیکھا جو آنکھ اٹھا کے وہ قامت نکل گئی
بندے سے کب خلاف مشیت نکل گئی
فصل گل ہے مثل گل پیراہن تن چاہیئے
چاندنی میں جو تو نکلتا ہے
شب ہجراں میں دم نکلتا ہے
رہ گئے تھے پھول وصلت میں گلے کے ہار کے
جا نہ اس وحشت میں اک تلوار قاتل مار کے
کوہکن سے وصل کا وعدہ زبانی چاہیے
آبرو داروں کو آب زندگانی چاہیئے
صبح پیری خاک عشق یار جانی چاہیئے
فلک وہ ماہ ہے لاغر کرے کمال مجھے
دم جو الٹا شکل دیکھی اک سراپا نور کی
درد دسے آگاہ طبیعت ہو بت مخمور کی
بے جرم ہے گردن تہ شمشیر ہماری
لے جان نہ وہ زلف گرہ گیر ہماری
ہر طرح بے مثل محبوب سراپا ناز ہے
ہر دم تیرے کرم سے امید نجات ہے
معرفت کے کہتے گر اشعار اٹھتے بیٹھتے
ہر اک طفل حسین ہمراہ معشوقانہ آتا ہے
کبھی رونا کبھی ہنسنا کبھی چپ گاہ حیرت ہے
واسوخت
یار صورت بھی نہیں اب مجھے دکھلاتا ہے
چہ کنم سوی ار قام حمد رب کبار
قصیدہ حمد خدائے صمد (فارسی)
کتابیات
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔