سرورق
نذر
اللہ تو نے خاک کو انساں بنا دیا
جلوے جلوے میں لگا رہتا ہے پردا تیرا
تمہیں نور خدا سمجھے تمہیں خیرالبشر جانا
یا نبی تیرا مبارک ہوا آنا کیسا
عشق حضرت کا گلستاں میں یہ ساماں دیکھا
دیکھیں نہ ہم تجھے تو ہے بیکار دیکھنا
جلالی نور ہے دنیا میں اے شمس الضحیٰ تیرا
مرنے کے لئے رہتی ہے جینے کی تمنا
دم یاد نبی میں جو نکل جائے تو اچھا
تیرا احسان ہے اے صاحب احسان کیا
کس قدر فضل ہے اے خالق اکبر تیرا
جبکہ مشتاق ہے آقا کا خداے آقا
نور حق جب ہو جمال مصطفیٰ
مہرباں اس پہ نکیوں حشر میں رحماں ہوگا
آنکھیں حیراں ہیں وہ کس راہ سے پنہاں آیا
گنہگاروں کا حامی آپ ہی کا دم قدم نکلا
پرانی ہے زباں کیا ہو نئی طرز بیاں پیدا
حق یہ فرماتا ہے بیشک وہ ہمارا ہو گیا
خورشید ایک عکس ہے شہ کے جلال کا
نور بیرنگ ہے نیرنگ یہ ذیشاں کس کا
ساقی نے آنکھ ڈال کے دیونہ کر دیا
یا نبی میرا جو طیبہ میں ٹھکانا نہ ہوا
اس کا دنیا میں جو پے پردہ وہ جلوا ہوتا
فضل خالق کا کھینچا آنکھوں میں نقشا کیسا
کیا وصف بھلا ہو سکے اللہ میاں کا
جس کا وکیل احمد مختار ہو گیا
اوج پر آیا ہے اللہ رے اختر اپنا
وہ دکھاتے بھی اگر جلوۂ پنہاں اپنا
اسکا بھی علم تو اے حضرت موسیٰ ہوگا
یارا ہے کہاں مجھ کو تری حمد و ثنا کا
پرچم وہ شہ کا ہے سر محشر کھلا ہوا
سوچئے مولا اگر اپنا نہ پنہاں ہوتا
اٹھ جائے جو اونچا ذرا پردہ مرے دل کا
یہ کیا کہا کہ آنکھوں میں جلوا نہیں رہا
تیرا اے حسن ازل پردے میں پنہاں ہونا
جان سے بڑھ کے گراں ملتا ہے سودا کس کا
تو وہ پردہ نشیں ہے دل میں تجھ کو بارہا دیکھا
کوئی آسان ہے یوں مشکلیں آساں کرنا
شکر ہے مکے میں وہ کعبۂ ذیشاں دیکھا
خدا کا بندہ ہے بندہ جناب شاہ جیلاں کا
غبار روضۂ شہ یوں ہے کحل البصر میرا
آنکھوں نے ابھی دیکھا ہے دربار تمہارا
ردیف ب
تیرے کرم ہیں سرور ذیشاں عجب عجب
پیدا ہو حبیب خدا کا ادب ادب
پھر بخت جاگ اٹھے مرا بیدار ہو نصیب
ردیف بائے فارسی پ
خادم زمانہ آپ کا شاہ زمن ہیں آپ
دیکھوں ان آنکھوں سے دیدار نبی کا یارب
ردیف تائے فوقانی ت
جب تجھ کو بنایا شہا سلطان رسالت
گفتم کہ درد جانفزا گفتا کہ آزار من است
دیکھ لے دیکھ لے اے نور نظر آج کی رات
یا نبی روضۂ اقدس پہ بلا لوجھٹ پٹ
ردیف ٹ
ردیف ثائے مثلثہ ث
ہم کو پیدا کیا خالق نے نبی کے باعث
نام سحباں کا مٹا ہے مری تقریر سے آج
ردیف ج
پڑھتا ہوں میں نبی پہ درود و سلام آج
اللہ نے خلوت میں بلایا شب معراج
ردیف چ
کیوں تجھ کو بنایا ہے ذرا بہر خدا سوچ
ردیف خائے معجمہ خ
خالق ہو جبکہ فضل سے خود مہربان شیخ
ردیف حائے حطی ح
ہر حمد تیری اے مرے رحمان ہے صحیح
ایمن کا تماشا ہے تجلائے محمد
ردیف دال مہملہ د
سر سے ہے تابقدم چشم عنایت احمد
الایا ایہا الساقی کہ زارت زار میگرد
راضی اللہ رہے اے مرے سرور احمد
اپنی ہستی پہ ہے دیوان کا نازاں کاغذ
دل میں پروا بھی ترا رہتا ہے جلو ہو کر
ردیف رائے مہملہ ر
ردیف ذال ذ
جب خالق اکبر ہو ثنا خواں پیمبر
چھپے کیونکر مکے کیونکر وہ بندوں کا خدا ہو کر
اس قدر بیتاب ہے جب حسن پنہاں دیکھ کر
دل کے پردے ہی میں رہتا ہے وہ پنہاں ہو کر
یہ چھپ چھپ کے دکھانا جلوہ خلاق جہاں ہو کر
عرش پر جاتے ہیں امت کا نصیبا لیکر
نام خدا جو دل میں ہے احمد زبان پر
چشم مومن میں بسا رہتا ہے تیرا اعجاز
ردیف زاے منقوطہ
نہیں ملت ہے کسی میں بھی نبی کا انداز
جو برس گزرے مدینے میں وہ ہے اچھا برس
یوں تو حضور رہتے تھے ہر دم خدا کے پاس
ردیف سین مہملہ
اللہ اللہ شہ کی رحمت کی تلاش
ردیف شین منقوطہ
ہوتے ہیں شاہ زمین و آسماں مہمان عرش
رحمت حق کی جو امت پہ ہے رحمت مخصوص
ردیف صاد مہملہ
ردیف طائے مہملہ
میرا مولا ہے وہ کونین میں یکتا فیاض
ردیف ضاد منقوطہ
آنکھیں دیکھا کریں ہردم تر اور بار فقط
تم نے دیکھی بھی کہیں ایسی کسی کی شمع
ردیف ظائے منقوطہ
یا نبی کیا کہوں کیسے ہیں یہ پیارے الفاظ
ردیف عین مہملہ
ردیف غین منقوطہ
حکم خالق ہے کہ سب ہے یہ ہماری تبلیغ
ردیف فائے ف
ردیف ق
خلد میں تلتا ہے پھولوں میں کسی کا عاشق
کہتی ہے یاس دیکھئے کردار کی طرف
بھڑکی ہوئی ہے آگ مرے دل سے جگر تک
ردیف ک
دیکھئے ہوتی ہیں مقبول دعائیں کب تک
بیرنگ تو ہے اور ترے بیشمار رنگ
ردیف کاف فارسی گ
طرح کہتی ہے کہ مضمون نکلنا مشکل
دے عشق مصطفیٰ مجھے پروردگار دل
ردیف لام
دل میں اگر وہ آئے مرا اس پہ آئے دل
از کے آموختہ ایں شور دہان بلبل
شان رحمت ہے تری شان رسول اکرم
ردیف میم
مشکلیں کیوں نہ ہوں آسان رسول اکرم
عرضداشت
ساتھ دیتے ہیں نبی کا دم گفتار قدم
یہ چاہتے ہیں یا نبی تیری دعا سے ہم
در عشق آں یگانہ چو بیگانہ سوختیم
ایکہ با ناز جہاں ایں چنیں نازے دارم
ردیف نون
خدا جانے وہ کس منزل کے مہماں ہوتے جاتے ہیں
اعجاز ہے اس رشک سلیماں کی ثنا میں
الجھا ہوا تھا گیسوئے اقدس کے جو غم میں
زباں سے نبی کی ثنا چاہتا ہوں
حزیں غم میں نہ کچھ شادی ہی میں دلشاد رہتے ہیں
نور وہ اپنا دکھاتے ہیں کہ وہ آتے ہیں
نبوت شہ کی کہتی ہے نہ تنہا میں ہدایت ہوں
رفعت میں پست چرخ سے تیری زمیں نہیں
فکر عاجز ہے رسا مدحت سبحاں میں نہیں
صدقے میں ترے حق کے جو احسان بہت ہیں
کب ہم نے اس کو ڈھونڈا جو ہم کو ملا نہیں
تو بھی ہو اور ہم بھی یہ موقعہ مگر کہاں
اس پہ قربان ہوں ایک شان بنے بیٹھے ہیں
عاجز ہیں تیرے شکر میں جو دل شکور ہیں
طالع خفتہ جو بیدار نظر آتے ہیں
ضیا ہے ماہ تاباں میں نہ ضو ہے مہر رخشاں میں
روشن ہو شمع جس طرح اپنی نقاب میں
اللہ رے شک رے حضرت پروردگار میں
یگانے سے جو یوں بیگانہ میں ہوں
یہ دیکھتا ہوں روضہ خیرالبشر کو میں
کرم کرتے ہیں جب ستم دیکھتے ہیں
کب شفا کی ہے تمنا ترے بیماروں کو
ردیف واؤ
موزوں تھے خود وہ آپ ہی اپنے جواب کو
شافع حشر نے دوزخ سے بچا کر مجھ کو
سہارا اے نبی یہ ہے شفیع المذنبیں تم ہو
خدا کی شان ہے جلوہ نمائے دو جہاں تم ہو
شکر صد شکر اے خلاق زبان اردو
شب اسریٰ عروج حضرت خیرالبشر دیکھو
اسی کا جلوہ ہے ہر سو جدھر دیکھو جہاں دیکھو
دل کو کیا دیکھتے ہو دل کے مکیں کو دیکھو
شب اسری فرشتو قدر مہماں دیکھتے جاؤ
یہ تمنا ہے کہ یارب ملے وہ دل مجھ کو
ردیف ہائے ہوز
مہمان خدا بنتا ہے مہمان مدینہ
کب دیکھیں گی آنکھیں مری دربار مدینہ
آنکھیں ہوں مری اور ہو دربار مدینہ
حاصل ہے مجھے دولت دیدار مدینہ
ردیف یائے تحتانی وے
شام کو کوئے نبی سے جو ہوا آتی ہے
ہو مبارک باعث کون و مکاں پیدا ہوئے
کس شان سے معراج میں خیرالبشر آئے
کیا شان عنایت تری اے شان کرم ہے
عرض اتنی سی ہے اے عرش کے جانے والے
بلبل نثار کیوں نہ ہو آل رسول کے
بشر کو یا نبی سب کچھ تری محفل سے ملتا ہے
اے صد عیان و صد نہاں کچھ تو بتا توکون ہے
جلوہ ملا ہے مہر کو کس کے جلال سے
بلایا عرش اعظم پر محبت ایسی ہوتی ہے
پائے وہ تجھ کو جو اللہ کے گھر تک پہنچے
کیونکر نہ مردے جی اٹھیں شہ کے غلام سے
مدت ہوئی ہے نعت کا ساماں کئے ہوئے
ممدوح میرا کیا شہ عالیجناب ہے
نہاں ہے رنگ جس کا کل عیاں سے
قال وہ قال ہے میر اکہ سنائے نہ بنے
مولا وہ میرا رحمت پروردگار ہے
لکھتا ہوں کیا ثنا رخ عالی جناب کی
یارب نہ بگڑوں میں کبھی ایسا بنا مجھے
کہو خلد کا کیوں اجارا نہیں ہے
اپنے مولا کی سر عرش سواری آئی
زینت ہیں آپ عرش معلیٰ کے بام کی
شائقو دل سے ہمیں میلاد خوانی چاہیے
ہمارے سرور عالم کا انساں کوئی کیا جانے
مطلع نعت سنا دے جو سنانا ہے تجھے
رشک فردوس وہ مدینہ ہے
کیا دیا جنگ احد میں درونداں تو نے
اے خالق کونین تری عام عطا ہے
خواب میں جس کو نظر وہ رخ انور آئے
شکستہ دلوں کا وہ مولا مکیں ہے
آنکھیں کہتی ہیں کہ کیوں رہتے ہیں پنہاں ہم سے
مری آنکھوں میں نہ گھر اپنا بنانے آئے
دل بھی ہے طلبگار تو جو یار ہے جگر بھی
لکھ دے یہ مصرعۂ موزوں سر دیوان کوئی
آنکھ کہتی ہے کہیں اس کا پتا ملتا ہے
حمد خالق کرے انسان کا بوتا کیا ہے
ہر آنکھ کو وہ محو تجلی نہیں کرتے
کچھ ایسی دل میں بس گئی سیرت حضور کی
میری یہ فکر اور وہ سیرت حضور کی
قدسیوں نے شب معراج جو شوکت دیکھی
یوں تو تیار ہیں وہ جلوہ دکھانے کے لئے
مری کیا تاب ہے جو ہو سکے حمد وثنا مجھ سے
جس میں دیدار خدا تیری شفاعت ہوگی
آج کس منہ سے کہوں کیسی گزاری ساری
وہ جلوۂ ناز اپنا دکھا کیوں نہیں دیتے
وہ کیا پردہ نشیں ہم سے نہاں ہے
مژدہ اے دل تجھے گو دیتا ہے کم کم ساقی
مژدہ اے عالم مصطفیٰ پیدا ہوئے
حجاب و جلوہ ہے اس کا کہ اک نیرنگ حیرت ہے
ستایا ہے ہجر نبی نے مجھے
جس کے خود دل میں ہو اللہ سمائی تیری
دل غافل کہے دیتے ہیں ذرا یاد رہے
کیا پوچھتے ہو دل کی یہ دلبر کی بات ہے
کیا تھا یہ مدحت کا یارا مجھے
اک نظر ہم پہ بھی ہو لطف و عنایت والے
کیا کہئے کیا ہیں سیرت و صورت جناب کی
گو میں بدلا ہوں نہیں بدلی ہے حالت میری
نہ پوچھو دیکھتے ہیں اور بھی کیا دیکھنے والے
نذر خاص
شکر خدا غلام ہےآقا کے سامنے
اللہ اللہ شہ والا ترا آنا کیا ہے
ترے قربان کیا تبلیغ ہے یہ دین اطہر کی
مکے میں جاکے کعبے کی توقیر دیکھئے
بموقعہ جلسہ انجمن خدام الصوفیہ بمقام لاہور 1905ء
دیوان آزاد حصہ دوم ، نظم و قصائد منقبت و تصوف
بموقعہ جلسہ انجمن خدام الصوفیہ علی پور سیداں 1907ء
بموقعہ جلسہ انجمن خدام الصوفیہ علی پور سیداں 1909ء
در نعت
در ذکر فضیلت باری تعالیٰ
در شان ذاکر
در شان شیخ خود
کیا سنائیں گے تری حمد سنانے والے
بموقعہ جلسہ انجمن خدام الصوفیہ علی پور1910ء
شکر صد شکر کہ خالق نے بنائی توبہ
کیا کہوں تم سے کہ ہےآج یہ کیسا جلسا
مرحبا مرحبا اے عشق جلانے والے
جلوہ افروز ہے یہ قبلہ ایماں دیکھو
بموقعہ جلسہ انجمن خدا م الصوفیہ علی پور 1911ء
کیوں فرض نہ بندے پہ ہو حمد اپنے خدا کی
ہے اوج پہ تقدیر مرے بخت رسا کی
جو زینت و رونق ہوئے اس بزم ہدیٰ کی
بموقعہ جلسہ دہم انجمن خدام الصوفیہ علی پور سیداں 1913ء
مطلع ثانی در نعت
مطلع ثالث در شان طریقت
مطلع چہارم در شان شیخ خود
بموقعہ جلسہ انجمن خدام الصوفیہ علی پور سیدان 1914ء
مطلع ثانی در نعت
مطلع ثالث در عرفان باری تعالیٰ
مطلع چہارم رجوع بشیخ خود
بموقعہ جلسہ انجمن خدام الصوفیہ علی پور 1915ء
یارب تری نیرنگئے قدرت کو دکھا کے
مطلع ثانی در نعت
مطلع ثالث در بیان جلسہ و اہل جلسہ و آداب ذکر مراقب
مطلع چہارم رجوع بشیخ خود
بموقعہ جلسہ انجمن خدام الصوفیہ علی پور 1915ء
مطلع ثانی در نعت
مطلع ثالث در شان اہل جلسہ
مطلع چہارم رجوع بشیخ خود
شجرہ نقشبندیہ
ذات باری کے سوا نور نہ ظلمت کچھ ہے
نظم کائنات بموقعہ جلسہ انجمن خدام الصوفیہ علی پور 1917ء
اب ہے منطور عیاں کیجے شان قدرت
اب زمیں پر ہیں زمیں کے وہ سجانے والے
شام کی نہر نبوت نبی رحمت کیسی
یک بیک ظلمت عالم کا مٹانے والا
جلوہ افروز ہے وہ نور درخشاں دیکھو
وہ حسن بصری ذی رتبہ وہ عبد الواحد
سلسلہ عالیہ حضرات قادریہ رحمۃ اللہ علیہم اجمعین
سلسلہ عالیہ نقشبندیہ رحمۃ اللہ علیہم اجمعین
سلسلہ عالیہ سہروردی رحمۃ اللہ علیہم اجمعین
ہے تصور میں مرے دیکھئے کیسا دربار
طبع رنگیں وہ دکھا آج تو اپنی جدت
یک بہ یک رنگ زمانے کا یہ پلٹ کیسا
اک برس بعد مقدر کا ستارا چمکا
قصیدہ در شان شیخ خود 1912ء مقام کوٹ کپورا
در شان شیخ خود 1914ء مقام علی پور
بموقعہ عرس حضرت شیخنا و قبلتنا مولٰنا مولوی کرم بخش صاحب
آج کیا درد سناتے ہیں سنانے والے
کیا کہوں کون تھے دنیا سے وہ جانے والے
روٹھے جاتے ہیں ہمیں راہ دکھانے والے
ضبط دشوار ہے رونا سر محفل مشکل
منقبت در شان حضور غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ
در منقبت حضور خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی
در منقبت خواجہ حمید الدین ناگوری علیہ الرحمہ
مرے ہیں قبلۂ ایماں حمید الدین ناگوری
ترے قربان نبی ایسا ہدایت کے لئے
سلام
بتقریب رونق افروزی حضور حضرت سلطان محمد مجیب الرحمان خان
سہرا بتقریب شادی صاحبزادگان مولوی حافظ محمد حسین
سہرا بتقریب شادی ختنہ عزیز ظہور احمد سلمہ
سہرا بتقریب شادی تسمیہ خوانی وسیع الدین احمد
قطعات تاریخ
رباعیات
خاتمہ از مصنف
حالات مصنف
سارٹیفکٹ جناب حاجی منشی سید وحیدالدین احمد صاحب بیخود دہلوی
قطعات
قطعہ تاریخ
غلط نامہ ثنائے محبوب خالق
AUTHORمحمد ابراہیم آزاد
YEAR1932
CONTRIBUTORانجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی
PUBLISHER مطبع مرتضائی، آگرہ
AUTHORمحمد ابراہیم آزاد
YEAR1932
CONTRIBUTORانجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی
PUBLISHER مطبع مرتضائی، آگرہ
سرورق
نذر
اللہ تو نے خاک کو انساں بنا دیا
جلوے جلوے میں لگا رہتا ہے پردا تیرا
تمہیں نور خدا سمجھے تمہیں خیرالبشر جانا
یا نبی تیرا مبارک ہوا آنا کیسا
عشق حضرت کا گلستاں میں یہ ساماں دیکھا
دیکھیں نہ ہم تجھے تو ہے بیکار دیکھنا
جلالی نور ہے دنیا میں اے شمس الضحیٰ تیرا
مرنے کے لئے رہتی ہے جینے کی تمنا
دم یاد نبی میں جو نکل جائے تو اچھا
تیرا احسان ہے اے صاحب احسان کیا
کس قدر فضل ہے اے خالق اکبر تیرا
جبکہ مشتاق ہے آقا کا خداے آقا
نور حق جب ہو جمال مصطفیٰ
مہرباں اس پہ نکیوں حشر میں رحماں ہوگا
آنکھیں حیراں ہیں وہ کس راہ سے پنہاں آیا
گنہگاروں کا حامی آپ ہی کا دم قدم نکلا
پرانی ہے زباں کیا ہو نئی طرز بیاں پیدا
حق یہ فرماتا ہے بیشک وہ ہمارا ہو گیا
خورشید ایک عکس ہے شہ کے جلال کا
نور بیرنگ ہے نیرنگ یہ ذیشاں کس کا
ساقی نے آنکھ ڈال کے دیونہ کر دیا
یا نبی میرا جو طیبہ میں ٹھکانا نہ ہوا
اس کا دنیا میں جو پے پردہ وہ جلوا ہوتا
فضل خالق کا کھینچا آنکھوں میں نقشا کیسا
کیا وصف بھلا ہو سکے اللہ میاں کا
جس کا وکیل احمد مختار ہو گیا
اوج پر آیا ہے اللہ رے اختر اپنا
وہ دکھاتے بھی اگر جلوۂ پنہاں اپنا
اسکا بھی علم تو اے حضرت موسیٰ ہوگا
یارا ہے کہاں مجھ کو تری حمد و ثنا کا
پرچم وہ شہ کا ہے سر محشر کھلا ہوا
سوچئے مولا اگر اپنا نہ پنہاں ہوتا
اٹھ جائے جو اونچا ذرا پردہ مرے دل کا
یہ کیا کہا کہ آنکھوں میں جلوا نہیں رہا
تیرا اے حسن ازل پردے میں پنہاں ہونا
جان سے بڑھ کے گراں ملتا ہے سودا کس کا
تو وہ پردہ نشیں ہے دل میں تجھ کو بارہا دیکھا
کوئی آسان ہے یوں مشکلیں آساں کرنا
شکر ہے مکے میں وہ کعبۂ ذیشاں دیکھا
خدا کا بندہ ہے بندہ جناب شاہ جیلاں کا
غبار روضۂ شہ یوں ہے کحل البصر میرا
آنکھوں نے ابھی دیکھا ہے دربار تمہارا
ردیف ب
تیرے کرم ہیں سرور ذیشاں عجب عجب
پیدا ہو حبیب خدا کا ادب ادب
پھر بخت جاگ اٹھے مرا بیدار ہو نصیب
ردیف بائے فارسی پ
خادم زمانہ آپ کا شاہ زمن ہیں آپ
دیکھوں ان آنکھوں سے دیدار نبی کا یارب
ردیف تائے فوقانی ت
جب تجھ کو بنایا شہا سلطان رسالت
گفتم کہ درد جانفزا گفتا کہ آزار من است
دیکھ لے دیکھ لے اے نور نظر آج کی رات
یا نبی روضۂ اقدس پہ بلا لوجھٹ پٹ
ردیف ٹ
ردیف ثائے مثلثہ ث
ہم کو پیدا کیا خالق نے نبی کے باعث
نام سحباں کا مٹا ہے مری تقریر سے آج
ردیف ج
پڑھتا ہوں میں نبی پہ درود و سلام آج
اللہ نے خلوت میں بلایا شب معراج
ردیف چ
کیوں تجھ کو بنایا ہے ذرا بہر خدا سوچ
ردیف خائے معجمہ خ
خالق ہو جبکہ فضل سے خود مہربان شیخ
ردیف حائے حطی ح
ہر حمد تیری اے مرے رحمان ہے صحیح
ایمن کا تماشا ہے تجلائے محمد
ردیف دال مہملہ د
سر سے ہے تابقدم چشم عنایت احمد
الایا ایہا الساقی کہ زارت زار میگرد
راضی اللہ رہے اے مرے سرور احمد
اپنی ہستی پہ ہے دیوان کا نازاں کاغذ
دل میں پروا بھی ترا رہتا ہے جلو ہو کر
ردیف رائے مہملہ ر
ردیف ذال ذ
جب خالق اکبر ہو ثنا خواں پیمبر
چھپے کیونکر مکے کیونکر وہ بندوں کا خدا ہو کر
اس قدر بیتاب ہے جب حسن پنہاں دیکھ کر
دل کے پردے ہی میں رہتا ہے وہ پنہاں ہو کر
یہ چھپ چھپ کے دکھانا جلوہ خلاق جہاں ہو کر
عرش پر جاتے ہیں امت کا نصیبا لیکر
نام خدا جو دل میں ہے احمد زبان پر
چشم مومن میں بسا رہتا ہے تیرا اعجاز
ردیف زاے منقوطہ
نہیں ملت ہے کسی میں بھی نبی کا انداز
جو برس گزرے مدینے میں وہ ہے اچھا برس
یوں تو حضور رہتے تھے ہر دم خدا کے پاس
ردیف سین مہملہ
اللہ اللہ شہ کی رحمت کی تلاش
ردیف شین منقوطہ
ہوتے ہیں شاہ زمین و آسماں مہمان عرش
رحمت حق کی جو امت پہ ہے رحمت مخصوص
ردیف صاد مہملہ
ردیف طائے مہملہ
میرا مولا ہے وہ کونین میں یکتا فیاض
ردیف ضاد منقوطہ
آنکھیں دیکھا کریں ہردم تر اور بار فقط
تم نے دیکھی بھی کہیں ایسی کسی کی شمع
ردیف ظائے منقوطہ
یا نبی کیا کہوں کیسے ہیں یہ پیارے الفاظ
ردیف عین مہملہ
ردیف غین منقوطہ
حکم خالق ہے کہ سب ہے یہ ہماری تبلیغ
ردیف فائے ف
ردیف ق
خلد میں تلتا ہے پھولوں میں کسی کا عاشق
کہتی ہے یاس دیکھئے کردار کی طرف
بھڑکی ہوئی ہے آگ مرے دل سے جگر تک
ردیف ک
دیکھئے ہوتی ہیں مقبول دعائیں کب تک
بیرنگ تو ہے اور ترے بیشمار رنگ
ردیف کاف فارسی گ
طرح کہتی ہے کہ مضمون نکلنا مشکل
دے عشق مصطفیٰ مجھے پروردگار دل
ردیف لام
دل میں اگر وہ آئے مرا اس پہ آئے دل
از کے آموختہ ایں شور دہان بلبل
شان رحمت ہے تری شان رسول اکرم
ردیف میم
مشکلیں کیوں نہ ہوں آسان رسول اکرم
عرضداشت
ساتھ دیتے ہیں نبی کا دم گفتار قدم
یہ چاہتے ہیں یا نبی تیری دعا سے ہم
در عشق آں یگانہ چو بیگانہ سوختیم
ایکہ با ناز جہاں ایں چنیں نازے دارم
ردیف نون
خدا جانے وہ کس منزل کے مہماں ہوتے جاتے ہیں
اعجاز ہے اس رشک سلیماں کی ثنا میں
الجھا ہوا تھا گیسوئے اقدس کے جو غم میں
زباں سے نبی کی ثنا چاہتا ہوں
حزیں غم میں نہ کچھ شادی ہی میں دلشاد رہتے ہیں
نور وہ اپنا دکھاتے ہیں کہ وہ آتے ہیں
نبوت شہ کی کہتی ہے نہ تنہا میں ہدایت ہوں
رفعت میں پست چرخ سے تیری زمیں نہیں
فکر عاجز ہے رسا مدحت سبحاں میں نہیں
صدقے میں ترے حق کے جو احسان بہت ہیں
کب ہم نے اس کو ڈھونڈا جو ہم کو ملا نہیں
تو بھی ہو اور ہم بھی یہ موقعہ مگر کہاں
اس پہ قربان ہوں ایک شان بنے بیٹھے ہیں
عاجز ہیں تیرے شکر میں جو دل شکور ہیں
طالع خفتہ جو بیدار نظر آتے ہیں
ضیا ہے ماہ تاباں میں نہ ضو ہے مہر رخشاں میں
روشن ہو شمع جس طرح اپنی نقاب میں
اللہ رے شک رے حضرت پروردگار میں
یگانے سے جو یوں بیگانہ میں ہوں
یہ دیکھتا ہوں روضہ خیرالبشر کو میں
کرم کرتے ہیں جب ستم دیکھتے ہیں
کب شفا کی ہے تمنا ترے بیماروں کو
ردیف واؤ
موزوں تھے خود وہ آپ ہی اپنے جواب کو
شافع حشر نے دوزخ سے بچا کر مجھ کو
سہارا اے نبی یہ ہے شفیع المذنبیں تم ہو
خدا کی شان ہے جلوہ نمائے دو جہاں تم ہو
شکر صد شکر اے خلاق زبان اردو
شب اسریٰ عروج حضرت خیرالبشر دیکھو
اسی کا جلوہ ہے ہر سو جدھر دیکھو جہاں دیکھو
دل کو کیا دیکھتے ہو دل کے مکیں کو دیکھو
شب اسری فرشتو قدر مہماں دیکھتے جاؤ
یہ تمنا ہے کہ یارب ملے وہ دل مجھ کو
ردیف ہائے ہوز
مہمان خدا بنتا ہے مہمان مدینہ
کب دیکھیں گی آنکھیں مری دربار مدینہ
آنکھیں ہوں مری اور ہو دربار مدینہ
حاصل ہے مجھے دولت دیدار مدینہ
ردیف یائے تحتانی وے
شام کو کوئے نبی سے جو ہوا آتی ہے
ہو مبارک باعث کون و مکاں پیدا ہوئے
کس شان سے معراج میں خیرالبشر آئے
کیا شان عنایت تری اے شان کرم ہے
عرض اتنی سی ہے اے عرش کے جانے والے
بلبل نثار کیوں نہ ہو آل رسول کے
بشر کو یا نبی سب کچھ تری محفل سے ملتا ہے
اے صد عیان و صد نہاں کچھ تو بتا توکون ہے
جلوہ ملا ہے مہر کو کس کے جلال سے
بلایا عرش اعظم پر محبت ایسی ہوتی ہے
پائے وہ تجھ کو جو اللہ کے گھر تک پہنچے
کیونکر نہ مردے جی اٹھیں شہ کے غلام سے
مدت ہوئی ہے نعت کا ساماں کئے ہوئے
ممدوح میرا کیا شہ عالیجناب ہے
نہاں ہے رنگ جس کا کل عیاں سے
قال وہ قال ہے میر اکہ سنائے نہ بنے
مولا وہ میرا رحمت پروردگار ہے
لکھتا ہوں کیا ثنا رخ عالی جناب کی
یارب نہ بگڑوں میں کبھی ایسا بنا مجھے
کہو خلد کا کیوں اجارا نہیں ہے
اپنے مولا کی سر عرش سواری آئی
زینت ہیں آپ عرش معلیٰ کے بام کی
شائقو دل سے ہمیں میلاد خوانی چاہیے
ہمارے سرور عالم کا انساں کوئی کیا جانے
مطلع نعت سنا دے جو سنانا ہے تجھے
رشک فردوس وہ مدینہ ہے
کیا دیا جنگ احد میں درونداں تو نے
اے خالق کونین تری عام عطا ہے
خواب میں جس کو نظر وہ رخ انور آئے
شکستہ دلوں کا وہ مولا مکیں ہے
آنکھیں کہتی ہیں کہ کیوں رہتے ہیں پنہاں ہم سے
مری آنکھوں میں نہ گھر اپنا بنانے آئے
دل بھی ہے طلبگار تو جو یار ہے جگر بھی
لکھ دے یہ مصرعۂ موزوں سر دیوان کوئی
آنکھ کہتی ہے کہیں اس کا پتا ملتا ہے
حمد خالق کرے انسان کا بوتا کیا ہے
ہر آنکھ کو وہ محو تجلی نہیں کرتے
کچھ ایسی دل میں بس گئی سیرت حضور کی
میری یہ فکر اور وہ سیرت حضور کی
قدسیوں نے شب معراج جو شوکت دیکھی
یوں تو تیار ہیں وہ جلوہ دکھانے کے لئے
مری کیا تاب ہے جو ہو سکے حمد وثنا مجھ سے
جس میں دیدار خدا تیری شفاعت ہوگی
آج کس منہ سے کہوں کیسی گزاری ساری
وہ جلوۂ ناز اپنا دکھا کیوں نہیں دیتے
وہ کیا پردہ نشیں ہم سے نہاں ہے
مژدہ اے دل تجھے گو دیتا ہے کم کم ساقی
مژدہ اے عالم مصطفیٰ پیدا ہوئے
حجاب و جلوہ ہے اس کا کہ اک نیرنگ حیرت ہے
ستایا ہے ہجر نبی نے مجھے
جس کے خود دل میں ہو اللہ سمائی تیری
دل غافل کہے دیتے ہیں ذرا یاد رہے
کیا پوچھتے ہو دل کی یہ دلبر کی بات ہے
کیا تھا یہ مدحت کا یارا مجھے
اک نظر ہم پہ بھی ہو لطف و عنایت والے
کیا کہئے کیا ہیں سیرت و صورت جناب کی
گو میں بدلا ہوں نہیں بدلی ہے حالت میری
نہ پوچھو دیکھتے ہیں اور بھی کیا دیکھنے والے
نذر خاص
شکر خدا غلام ہےآقا کے سامنے
اللہ اللہ شہ والا ترا آنا کیا ہے
ترے قربان کیا تبلیغ ہے یہ دین اطہر کی
مکے میں جاکے کعبے کی توقیر دیکھئے
بموقعہ جلسہ انجمن خدام الصوفیہ بمقام لاہور 1905ء
دیوان آزاد حصہ دوم ، نظم و قصائد منقبت و تصوف
بموقعہ جلسہ انجمن خدام الصوفیہ علی پور سیداں 1907ء
بموقعہ جلسہ انجمن خدام الصوفیہ علی پور سیداں 1909ء
در نعت
در ذکر فضیلت باری تعالیٰ
در شان ذاکر
در شان شیخ خود
کیا سنائیں گے تری حمد سنانے والے
بموقعہ جلسہ انجمن خدام الصوفیہ علی پور1910ء
شکر صد شکر کہ خالق نے بنائی توبہ
کیا کہوں تم سے کہ ہےآج یہ کیسا جلسا
مرحبا مرحبا اے عشق جلانے والے
جلوہ افروز ہے یہ قبلہ ایماں دیکھو
بموقعہ جلسہ انجمن خدا م الصوفیہ علی پور 1911ء
کیوں فرض نہ بندے پہ ہو حمد اپنے خدا کی
ہے اوج پہ تقدیر مرے بخت رسا کی
جو زینت و رونق ہوئے اس بزم ہدیٰ کی
بموقعہ جلسہ دہم انجمن خدام الصوفیہ علی پور سیداں 1913ء
مطلع ثانی در نعت
مطلع ثالث در شان طریقت
مطلع چہارم در شان شیخ خود
بموقعہ جلسہ انجمن خدام الصوفیہ علی پور سیدان 1914ء
مطلع ثانی در نعت
مطلع ثالث در عرفان باری تعالیٰ
مطلع چہارم رجوع بشیخ خود
بموقعہ جلسہ انجمن خدام الصوفیہ علی پور 1915ء
یارب تری نیرنگئے قدرت کو دکھا کے
مطلع ثانی در نعت
مطلع ثالث در بیان جلسہ و اہل جلسہ و آداب ذکر مراقب
مطلع چہارم رجوع بشیخ خود
بموقعہ جلسہ انجمن خدام الصوفیہ علی پور 1915ء
مطلع ثانی در نعت
مطلع ثالث در شان اہل جلسہ
مطلع چہارم رجوع بشیخ خود
شجرہ نقشبندیہ
ذات باری کے سوا نور نہ ظلمت کچھ ہے
نظم کائنات بموقعہ جلسہ انجمن خدام الصوفیہ علی پور 1917ء
اب ہے منطور عیاں کیجے شان قدرت
اب زمیں پر ہیں زمیں کے وہ سجانے والے
شام کی نہر نبوت نبی رحمت کیسی
یک بیک ظلمت عالم کا مٹانے والا
جلوہ افروز ہے وہ نور درخشاں دیکھو
وہ حسن بصری ذی رتبہ وہ عبد الواحد
سلسلہ عالیہ حضرات قادریہ رحمۃ اللہ علیہم اجمعین
سلسلہ عالیہ نقشبندیہ رحمۃ اللہ علیہم اجمعین
سلسلہ عالیہ سہروردی رحمۃ اللہ علیہم اجمعین
ہے تصور میں مرے دیکھئے کیسا دربار
طبع رنگیں وہ دکھا آج تو اپنی جدت
یک بہ یک رنگ زمانے کا یہ پلٹ کیسا
اک برس بعد مقدر کا ستارا چمکا
قصیدہ در شان شیخ خود 1912ء مقام کوٹ کپورا
در شان شیخ خود 1914ء مقام علی پور
بموقعہ عرس حضرت شیخنا و قبلتنا مولٰنا مولوی کرم بخش صاحب
آج کیا درد سناتے ہیں سنانے والے
کیا کہوں کون تھے دنیا سے وہ جانے والے
روٹھے جاتے ہیں ہمیں راہ دکھانے والے
ضبط دشوار ہے رونا سر محفل مشکل
منقبت در شان حضور غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ
در منقبت حضور خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی
در منقبت خواجہ حمید الدین ناگوری علیہ الرحمہ
مرے ہیں قبلۂ ایماں حمید الدین ناگوری
ترے قربان نبی ایسا ہدایت کے لئے
سلام
بتقریب رونق افروزی حضور حضرت سلطان محمد مجیب الرحمان خان
سہرا بتقریب شادی صاحبزادگان مولوی حافظ محمد حسین
سہرا بتقریب شادی ختنہ عزیز ظہور احمد سلمہ
سہرا بتقریب شادی تسمیہ خوانی وسیع الدین احمد
قطعات تاریخ
رباعیات
خاتمہ از مصنف
حالات مصنف
سارٹیفکٹ جناب حاجی منشی سید وحیدالدین احمد صاحب بیخود دہلوی
قطعات
قطعہ تاریخ
غلط نامہ ثنائے محبوب خالق
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔