فہرست
پیش لفظ
دیباچہ
مقدمہ
بیان کے دور کی لسانی وادبی تحریکات۔ایہام گوئی کی تحریک
مرزا مظہر کی صلاح زبان کی تحریک اور اس کے اثرات
احسن اللہ خاں بیانؔ نام اور حالات زندگی
بیان کے استاد مرزا مظہر جان جاناں
بیان کی شاعری کا تنقیدی جائزہ اور اس کی لسانی خصوصیات
دیوان بیانؔ کے نسخے اور ترجیحات کا تعین
نسخۂ آصفیہ کا احوال
نسخۂ کتب خانۂ سالار جنگ، حیدر آباد دکن (۱)
(۳)(عثمانیہ) نسخۂ عثمانیہ ریڈنگ روم اینڈ لائبریری، حیدر آباد دکن
(۲)نسخۂ ذخیرۂ حبیب گنج، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی(نسخۂ حبیب گنج)
(۴)(انجمن) نسخہ کتب خانۂ انجمن ترقی اردو کراچی
(۵)( مطبوعہ نسخہ:(مرتبۂ ثاقب رضوی، مجلس اشاعت ادب ،دلّی
زیر تدوین نسخے میں متن کی ترتیب وتصیح کا طریق کار
حواشی
مخطوطوں اور تذکروں کے مخففات
دیوان بیان
کیا کیجے بیاں اس کے وجوب اور قدم کا
گزر وہ پنجۂ خورشید اگر ایدھر کبھو کرتا
بس عیادت کو اس کا آنا تھا
میں ہی بلا کشی میں نہ مجبور ہوگیا
سینے میں دل فگار کیا، ہم نے کیا کیا
ان نے اک حرف مہر سرنہ کیا
یہ گریہ آستیں میں کب ہم نشیں سماتا
میں تو آنکھوں کو ہی روتا تھا کہ راز افشا کیا
عالم کو لعل و گوہر و تاج دلوا دیا
کوئی کسی کا کہیں آشنا نہیں دیکھا
بیاں تیرے کوچے سے چلتا رہے گا
دل نہیں عاشق تو ٹھنڈی سانس پھر بھرتا ہے کیا
تیرا ستم جو مجھ سے گدانے سہا ، سہا
آتے دیکھا اس کو پھر واقف نہیں دل کیا ہوا
میں ترے ڈر سے رو نہیں سکتا
باک کیا، شیشۂ دل گر ٹوٹا
ہم کو فلک نے سہو سے ٹک چین اگر دیا
سمجھے کہ ہجر ہی میں ہے اوقات کاٹنا
لے کے دل اس شوخ نے اک داغ سینے پر دیا
ہم دم نہ فکر کر کہ مرا کام ہو چکا
یارب نے جب سے اٹھایا اپنے چہرے سے نقاب
ہر چند ہو سخن پر میرے ہزار کیا خوب
دل چاہتا ہے تو ہو بغل بیچ تنگ و خواب
مرتا ہوں غم گساری جو اب نہیں تو پھر کب
مے سے معشوقی کی ہے یہاں تک نگاہ یار مست
پوچھتا کون ہے، ڈرتا ہے تو اے یار عبث
کیا بے طرح ہوئی تری دوری میں شام آج
رو کے اس سے میں کہا مرتا ہے یہ بیمار آج
گرچہ تسکیں دل کو دیتا ہوں کہ اب ہوتی ہے صبح
نہ فقط یار بن شراب ہے تلخ
مشت غبار کو مرے وھاں ہو وے کیا پہنچ
یہ لب شیریں نہ ہو جاویں گے اے گل فام تلخ
مری بساط یہ بہر نثار ہے موجود
آج تو کہہ دیکھتا ہوں اس سے بارے اس قدر
اس قدر تو ہے بھروسا مجھ کو اپنی آہ پر
یہ آرزو ہے کہ وہ نامہ بر سے لے کاغذ
ذبح کر پھینکتا ہے قاتل دور
اوّل تو صاف مے پر ساقی ہلا ہلا کر
یک بار فوج عشق پڑی مجھ پہ ٹوٹ کر
یہی ہر لہظہ مجھ کو دل میں سوچ آتا ہے رہ رہ کر
فرہاد کس امید پہ لاتا ہے جو ے شیر
مت ستا مجھ کو آن آن عزیز
صاف منہ پر میں نہیں کہتا کہ ہے گا اس کے پاس
جواہری کی دکاں سے منگاؤں گا الماس
ہے زبانی ہی رو برو اخلاص
مرے نامے کے ہے از بس کہ رو اور پشت میں آتش
بے جرأتی پہ دال ہے گر کچے یہاں لحاظ
آہ اب وہ مدغی کرتا ہے کب آنے کی غرض
جانے لگے ہر ایک طرف صبح و شام خط
جو نہ ہو اس شمع رو کے عشق کا سینے میں داغ
جو پتنگوں کے جلانے کا سبب ہوتی ہے شمع
آتا ہے جی کو دیکھ کے جوش بہار حیف
جب دیکھتا ہے طائر آزاد کی طرف
بھلا سن تو اے دین وایمان عاشق
ہیں ایک وضع پہ سینے کے داغ تازہ وخشک
کروں شکوۂ درد وغم کب تلک
رکھے گا حشر تک مانند نرگس چشم وابسمل
نامہ بر خط کو مرے تو یہیں اب آب میں ڈال
گو کہ صورت ہے خوب تیری، لیک
میں بھی میاں کچھ آدمی ہوں، مجھ سے شرماتے ہو تم
ہمارے کیفی کا منہ ہے گلاب کا سا پھول
یار محفل میں کبھو پاویں گے ہم
ابر سے ہم چشمی ان آنکھوں کی کیوں کر ہو مدام
ہزار واہ خط و زلف، لاکھ واہ قلم
چھٹے جب دام سے تیرے تو کب ہم ہاتھ لگتے ہیں
دیکھ گرمی تری، کتنوں کے جگر جلتے ہیں
آگے تو زلف ہی فقط مار رکھے تھے جال میں
یہ خوب رونہ چھری نے کٹار رکھتے ہیں
گو کہ ناصح کو اعتبار نہیں
در پر ترے کیا بے دل ارے یار کھڑا ہوں
کیا درد دل سنائیے ، کچھ بات ہی نہیں
دل اب اس دل شکن کے پاس کہاں
بغل میں اپنی سبھی اپنا یار رکھتے ہیں
شکوہ اپنے طالعوں کی نارسائی کا کروں
جو زمیں پر فراغ رکھتے ہیں
چراغ صبح ہوں یا آفتاب وقت آخر ہوں
جب کہ دل چسپ کسی شوخ کی صورت دیکھیں
ڈرتا نہیں مرنے سے کہ رنجور پڑا ہوں
اپنے ہی منہ سے کہیں کیونکے کہ ہم ایسے ہیں
علم سینے میں یا سفینے میں
آہ اپنے سرو خوش رفتار کو دیکھا نہیں
یا کبھو محفل میں اس کی میں ہی میں تھا ہاے میں
جب سے اغیار نے کچھ اس کو دکھائیں آنکھیں
ہمیں ہی شمع رو اپنا نہ دیوانے بناتے ہیں
شیخ کعبے میں بھٹکتا ہے ، برہمن دیر میں
کہتا نہیں میں قاصد! لے کر جواب پھر یو
کافر ہوں جو زیادہ کچھ اس سے آرزو ہو
لاتے ہو وقت نزع کے تشریف کا ہے کو
رفع مخموری مری، خست کو تم چھوڑو تو ہو
کچھ سلطنت سے عیش ہمارے تئیں نہ ہو
یارب نہ ہند ہی میں یہ ماٹی خراب ہو
کہتا ہے کون ہجر مجھے صبح و شام ہو
جب کہ سیرت نہ ہو کب کھینچے گی صورت ہم کو
آہ وہ بے رحم کب پہنچے ہے میری داد کو
کہا اغیار کا حق میں مرے منظورمت کیجو
ابھی سے دل کہیں انکا ہے کیا،اے نوجواں سچ کہہ
گرمی نالے کی بھی دب گئی نفس سرد کے ساتھ
آج آمدنی باغ میں ہے آہ کسی کی
کبھو بھلا تو اکیلے ہی مجھے سے ٹک مل دیکھ
ہر چند ہے گل بہتر، گلزار بہت تحفہ
سرکار دل میں عشق کا اب بندو بست ہے
کس کی یہ تیغ کا خاطر میں مری مضموں ہے
چشم کرم کسو ہی سے اپنے تئیں نہیں رہی
وہ چمن سنبل دریحاں کا جہاں ہاٹ لگے
رات اس تنک مزاج سے کچھ بات بڑھ گئی
اک بے گنہ کو مارا کچھ بھی خدا کا ڈر ہے
کوئی ایسا جہان میں نکلے
مت آئیواے وعدہ فراموش تو اب بھی
رخصت ہے عقل وہوش کو چاہے جہاں رہے
رسوانہ کر خدا سے ڈراے چشم تر، مجھے
شمشیر ہجر ہی سے کرتا ہے یار ٹکڑے
جا کہے کوے یار میں کوئی مرگیا
جادو تھی سحر تھی، بلا تھی
کون کہتا ہے چاہ مشکل ہے
تیغ چڑھ اس کی سان پر آئی
کوئی سمجھا ئیو یارو مرا محبوب جاتا ہے
جس کو برا سمجھیے، وہ ہی کہیں بھلا ہے
چلتے چلتے مری حسرت پر نظر کرنی تو تھی
جرم کیا مجھ سے ہوا، وجہ غضب فرمائیے
اے کہ تیری دوستی مجھ کو بجاے جان ہے
عشوہ ہے ، ناز ہے، غمزہ ہے، ادا ہے، کیا ہے
پیش کش کیا کیجئے اور لائیے کیا رو برو
ستم سے یار کے ، سنتا ہے اے دل، آہ کیا کیجے
جہاں روؤں تمنا میں تعری اے شعلہ رو پیارے
خنک ہے بوالہوسوں کی یہ سانس ٹھنڈی سی
نہ برسوں میں پوچھے، تغافل کے صدقے
میری محنت پہ تیں نگاہ نہ کی
جو گل کی قفس میں خبر جائے گی
میں جانتا تھا وصل کی شب بھی دراز ہے
بت خود کام چلا جاتا ہے
وقت آخر ہے مرا، گو مجھ سے تو بیزار ہے
نہ ہوں آنکھیں بھی وقف اس طرح کی چاہ کے صدقے
سر کو تجھ راہ میں دیے ہی بنے
مجھے غم سے اس واسطے پیار ہے
بہار آئی ہے اے ناصح ہمیں بے باک رہنے دے
جس واسطے آئے ہیں وہ کام تو کچھ کریے
وفا تیرے وعدوں میں اے واہ دیکھی
آنسوؤں تک پونچھنے کی غیر کے تدبیرہے
اپنے نہ دامن میں گہر چاہیے
شب فراق کی دہشت سے جان جاتی ہے
کہیو قاصد بت خود کام سے بھر صبح ہوئی
بار بار اس امرکی تحریک کیا اے دل مجھے
زلف تیری نے پریشاں کیا اے یار مجھے
ہاتھ لگ جانے سے خاطر تری دل گیر تو ہوئی
کھولیو کان باغ میں گل کے
پیش از خزاں ہی ہاتھ اٹھایا بہار سے
کیا جانیے کیا یہ تری رفتار کرے گی
دل کو دیوانہ کیا زلف پر یزادوں نے
جس کا نیکی میں نام باجے ہے
تصوّر اس کا مری چشم تر سے کیا نکلے
ایک دن وہ تھے کہ جوں ہی صبح جاگے، آگئے
میں نہ اب تک اے بت محجوب سمجھا تھا تجھے
چشموں سے تجھ بن امڈایہ بے شمار پانی
یا علی صدقے ترے، کیا کیا مری کل بل ٹلی
بے حقیقت کو پی محقق جو ہو کے مست وخراب اچھلے
اائے بھی اور آغوش سے بھر رات نہ نکلے
چھورے اپنا نہ کوئی آپ وطن پھرتا ہے
عمر ہیات چلی جاتی ہے
آج ہم تیری گلی سے یار اپنے گھر چلے
پوچھ نہ مجھ سے ہم نشیں کس لیے رنگ زرد ہے
کاجل آنکھوں میں جب سے منظور ہوا
رباعیات
در مبارک باد سال گرہ حضـور پر نور
بہ جناب حضرت پیر و مرشد دام افضالہ
در مدح حضور پر نور
مرثیہ حضرت پیر ومرشد
در تعریف خصاب عالم گیر بادشاہ
مخمس بر ریختۂ مرزار رفیع السودا
مخمس بر ریختۂ انعام اللہ خاں یقیںؔ
مخمس برابیات نعمت خاں عالیؔ
مخمس
مصرع بر شعر مخلصؔ
دعائیہ حضور پر نور فی السنہ یک ہزار و دو صد و دہ ہجری درایّام آوارہ شدہ رفتن عالی جاہ بہ اورنگ آباد
مسدّس در مدح نوّاب آصف جاہ نظام الملک میر نظام علی خاں بہادر رستم دوراں مدّ ظلّہ العالی
وصل کی شب کی کیفیت کیا کروں دوستو رقم
مسدس
قصیدہ در منقبت امیرت المومنین علیہ السلام
عرض آداب بہ جبناب حضرت پیغمبر علیہ السلام وآلہ الکرام
در مدح بندگان خداوند عالم پناہ نوّاب نظام الملک میر نظام علی خاں بہادر آصف جاہ دام اقبالہ
درمدح بندگان عالی نوّاب نظام الملک میر نظام علی خاں بہادر آصف جاہ دام اقبالہ
قصدہ در مدح سال گرہ خدا وند نعمت نوّاب نظام علی خاں بہادر نظام الملک آصف جاہ مدّ ظلہ العالی
قصیدہ در مدح نوّاب اعظم الامرا مشیر الملک معین الدوّلہ غلام سیّد خاں بہادر سہراب جنگ ادام اللہ اقبالہ و دولتہ
مطلع دعائیہ بہ جناب خداوند نعمت مدّظلہ العالی
واسوخت
مرثیۂ حضرت امام علیہ الصلوٰۃ والسلام
مرثیہ
مثنوی ردّالایرادروے سخن بہ میر سجّاد
داستان دویم
چپک نامہ
تعریف چاہ مومن خاں
موش نامہ کہ در سال خوک در پانگل گفتہ شدہ
مثنوی ریختہ
تاریخ وفات حضرت مرزا مظہرؔ جان جاناں علیہ الرحمۃ
فارسی کلام
غزل
وہ چہا از مانہ رفت آں دم کہ یار از دست رفت
کتابیات
فہرست
پیش لفظ
دیباچہ
مقدمہ
بیان کے دور کی لسانی وادبی تحریکات۔ایہام گوئی کی تحریک
مرزا مظہر کی صلاح زبان کی تحریک اور اس کے اثرات
احسن اللہ خاں بیانؔ نام اور حالات زندگی
بیان کے استاد مرزا مظہر جان جاناں
بیان کی شاعری کا تنقیدی جائزہ اور اس کی لسانی خصوصیات
دیوان بیانؔ کے نسخے اور ترجیحات کا تعین
نسخۂ آصفیہ کا احوال
نسخۂ کتب خانۂ سالار جنگ، حیدر آباد دکن (۱)
(۳)(عثمانیہ) نسخۂ عثمانیہ ریڈنگ روم اینڈ لائبریری، حیدر آباد دکن
(۲)نسخۂ ذخیرۂ حبیب گنج، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی(نسخۂ حبیب گنج)
(۴)(انجمن) نسخہ کتب خانۂ انجمن ترقی اردو کراچی
(۵)( مطبوعہ نسخہ:(مرتبۂ ثاقب رضوی، مجلس اشاعت ادب ،دلّی
زیر تدوین نسخے میں متن کی ترتیب وتصیح کا طریق کار
حواشی
مخطوطوں اور تذکروں کے مخففات
دیوان بیان
کیا کیجے بیاں اس کے وجوب اور قدم کا
گزر وہ پنجۂ خورشید اگر ایدھر کبھو کرتا
بس عیادت کو اس کا آنا تھا
میں ہی بلا کشی میں نہ مجبور ہوگیا
سینے میں دل فگار کیا، ہم نے کیا کیا
ان نے اک حرف مہر سرنہ کیا
یہ گریہ آستیں میں کب ہم نشیں سماتا
میں تو آنکھوں کو ہی روتا تھا کہ راز افشا کیا
عالم کو لعل و گوہر و تاج دلوا دیا
کوئی کسی کا کہیں آشنا نہیں دیکھا
بیاں تیرے کوچے سے چلتا رہے گا
دل نہیں عاشق تو ٹھنڈی سانس پھر بھرتا ہے کیا
تیرا ستم جو مجھ سے گدانے سہا ، سہا
آتے دیکھا اس کو پھر واقف نہیں دل کیا ہوا
میں ترے ڈر سے رو نہیں سکتا
باک کیا، شیشۂ دل گر ٹوٹا
ہم کو فلک نے سہو سے ٹک چین اگر دیا
سمجھے کہ ہجر ہی میں ہے اوقات کاٹنا
لے کے دل اس شوخ نے اک داغ سینے پر دیا
ہم دم نہ فکر کر کہ مرا کام ہو چکا
یارب نے جب سے اٹھایا اپنے چہرے سے نقاب
ہر چند ہو سخن پر میرے ہزار کیا خوب
دل چاہتا ہے تو ہو بغل بیچ تنگ و خواب
مرتا ہوں غم گساری جو اب نہیں تو پھر کب
مے سے معشوقی کی ہے یہاں تک نگاہ یار مست
پوچھتا کون ہے، ڈرتا ہے تو اے یار عبث
کیا بے طرح ہوئی تری دوری میں شام آج
رو کے اس سے میں کہا مرتا ہے یہ بیمار آج
گرچہ تسکیں دل کو دیتا ہوں کہ اب ہوتی ہے صبح
نہ فقط یار بن شراب ہے تلخ
مشت غبار کو مرے وھاں ہو وے کیا پہنچ
یہ لب شیریں نہ ہو جاویں گے اے گل فام تلخ
مری بساط یہ بہر نثار ہے موجود
آج تو کہہ دیکھتا ہوں اس سے بارے اس قدر
اس قدر تو ہے بھروسا مجھ کو اپنی آہ پر
یہ آرزو ہے کہ وہ نامہ بر سے لے کاغذ
ذبح کر پھینکتا ہے قاتل دور
اوّل تو صاف مے پر ساقی ہلا ہلا کر
یک بار فوج عشق پڑی مجھ پہ ٹوٹ کر
یہی ہر لہظہ مجھ کو دل میں سوچ آتا ہے رہ رہ کر
فرہاد کس امید پہ لاتا ہے جو ے شیر
مت ستا مجھ کو آن آن عزیز
صاف منہ پر میں نہیں کہتا کہ ہے گا اس کے پاس
جواہری کی دکاں سے منگاؤں گا الماس
ہے زبانی ہی رو برو اخلاص
مرے نامے کے ہے از بس کہ رو اور پشت میں آتش
بے جرأتی پہ دال ہے گر کچے یہاں لحاظ
آہ اب وہ مدغی کرتا ہے کب آنے کی غرض
جانے لگے ہر ایک طرف صبح و شام خط
جو نہ ہو اس شمع رو کے عشق کا سینے میں داغ
جو پتنگوں کے جلانے کا سبب ہوتی ہے شمع
آتا ہے جی کو دیکھ کے جوش بہار حیف
جب دیکھتا ہے طائر آزاد کی طرف
بھلا سن تو اے دین وایمان عاشق
ہیں ایک وضع پہ سینے کے داغ تازہ وخشک
کروں شکوۂ درد وغم کب تلک
رکھے گا حشر تک مانند نرگس چشم وابسمل
نامہ بر خط کو مرے تو یہیں اب آب میں ڈال
گو کہ صورت ہے خوب تیری، لیک
میں بھی میاں کچھ آدمی ہوں، مجھ سے شرماتے ہو تم
ہمارے کیفی کا منہ ہے گلاب کا سا پھول
یار محفل میں کبھو پاویں گے ہم
ابر سے ہم چشمی ان آنکھوں کی کیوں کر ہو مدام
ہزار واہ خط و زلف، لاکھ واہ قلم
چھٹے جب دام سے تیرے تو کب ہم ہاتھ لگتے ہیں
دیکھ گرمی تری، کتنوں کے جگر جلتے ہیں
آگے تو زلف ہی فقط مار رکھے تھے جال میں
یہ خوب رونہ چھری نے کٹار رکھتے ہیں
گو کہ ناصح کو اعتبار نہیں
در پر ترے کیا بے دل ارے یار کھڑا ہوں
کیا درد دل سنائیے ، کچھ بات ہی نہیں
دل اب اس دل شکن کے پاس کہاں
بغل میں اپنی سبھی اپنا یار رکھتے ہیں
شکوہ اپنے طالعوں کی نارسائی کا کروں
جو زمیں پر فراغ رکھتے ہیں
چراغ صبح ہوں یا آفتاب وقت آخر ہوں
جب کہ دل چسپ کسی شوخ کی صورت دیکھیں
ڈرتا نہیں مرنے سے کہ رنجور پڑا ہوں
اپنے ہی منہ سے کہیں کیونکے کہ ہم ایسے ہیں
علم سینے میں یا سفینے میں
آہ اپنے سرو خوش رفتار کو دیکھا نہیں
یا کبھو محفل میں اس کی میں ہی میں تھا ہاے میں
جب سے اغیار نے کچھ اس کو دکھائیں آنکھیں
ہمیں ہی شمع رو اپنا نہ دیوانے بناتے ہیں
شیخ کعبے میں بھٹکتا ہے ، برہمن دیر میں
کہتا نہیں میں قاصد! لے کر جواب پھر یو
کافر ہوں جو زیادہ کچھ اس سے آرزو ہو
لاتے ہو وقت نزع کے تشریف کا ہے کو
رفع مخموری مری، خست کو تم چھوڑو تو ہو
کچھ سلطنت سے عیش ہمارے تئیں نہ ہو
یارب نہ ہند ہی میں یہ ماٹی خراب ہو
کہتا ہے کون ہجر مجھے صبح و شام ہو
جب کہ سیرت نہ ہو کب کھینچے گی صورت ہم کو
آہ وہ بے رحم کب پہنچے ہے میری داد کو
کہا اغیار کا حق میں مرے منظورمت کیجو
ابھی سے دل کہیں انکا ہے کیا،اے نوجواں سچ کہہ
گرمی نالے کی بھی دب گئی نفس سرد کے ساتھ
آج آمدنی باغ میں ہے آہ کسی کی
کبھو بھلا تو اکیلے ہی مجھے سے ٹک مل دیکھ
ہر چند ہے گل بہتر، گلزار بہت تحفہ
سرکار دل میں عشق کا اب بندو بست ہے
کس کی یہ تیغ کا خاطر میں مری مضموں ہے
چشم کرم کسو ہی سے اپنے تئیں نہیں رہی
وہ چمن سنبل دریحاں کا جہاں ہاٹ لگے
رات اس تنک مزاج سے کچھ بات بڑھ گئی
اک بے گنہ کو مارا کچھ بھی خدا کا ڈر ہے
کوئی ایسا جہان میں نکلے
مت آئیواے وعدہ فراموش تو اب بھی
رخصت ہے عقل وہوش کو چاہے جہاں رہے
رسوانہ کر خدا سے ڈراے چشم تر، مجھے
شمشیر ہجر ہی سے کرتا ہے یار ٹکڑے
جا کہے کوے یار میں کوئی مرگیا
جادو تھی سحر تھی، بلا تھی
کون کہتا ہے چاہ مشکل ہے
تیغ چڑھ اس کی سان پر آئی
کوئی سمجھا ئیو یارو مرا محبوب جاتا ہے
جس کو برا سمجھیے، وہ ہی کہیں بھلا ہے
چلتے چلتے مری حسرت پر نظر کرنی تو تھی
جرم کیا مجھ سے ہوا، وجہ غضب فرمائیے
اے کہ تیری دوستی مجھ کو بجاے جان ہے
عشوہ ہے ، ناز ہے، غمزہ ہے، ادا ہے، کیا ہے
پیش کش کیا کیجئے اور لائیے کیا رو برو
ستم سے یار کے ، سنتا ہے اے دل، آہ کیا کیجے
جہاں روؤں تمنا میں تعری اے شعلہ رو پیارے
خنک ہے بوالہوسوں کی یہ سانس ٹھنڈی سی
نہ برسوں میں پوچھے، تغافل کے صدقے
میری محنت پہ تیں نگاہ نہ کی
جو گل کی قفس میں خبر جائے گی
میں جانتا تھا وصل کی شب بھی دراز ہے
بت خود کام چلا جاتا ہے
وقت آخر ہے مرا، گو مجھ سے تو بیزار ہے
نہ ہوں آنکھیں بھی وقف اس طرح کی چاہ کے صدقے
سر کو تجھ راہ میں دیے ہی بنے
مجھے غم سے اس واسطے پیار ہے
بہار آئی ہے اے ناصح ہمیں بے باک رہنے دے
جس واسطے آئے ہیں وہ کام تو کچھ کریے
وفا تیرے وعدوں میں اے واہ دیکھی
آنسوؤں تک پونچھنے کی غیر کے تدبیرہے
اپنے نہ دامن میں گہر چاہیے
شب فراق کی دہشت سے جان جاتی ہے
کہیو قاصد بت خود کام سے بھر صبح ہوئی
بار بار اس امرکی تحریک کیا اے دل مجھے
زلف تیری نے پریشاں کیا اے یار مجھے
ہاتھ لگ جانے سے خاطر تری دل گیر تو ہوئی
کھولیو کان باغ میں گل کے
پیش از خزاں ہی ہاتھ اٹھایا بہار سے
کیا جانیے کیا یہ تری رفتار کرے گی
دل کو دیوانہ کیا زلف پر یزادوں نے
جس کا نیکی میں نام باجے ہے
تصوّر اس کا مری چشم تر سے کیا نکلے
ایک دن وہ تھے کہ جوں ہی صبح جاگے، آگئے
میں نہ اب تک اے بت محجوب سمجھا تھا تجھے
چشموں سے تجھ بن امڈایہ بے شمار پانی
یا علی صدقے ترے، کیا کیا مری کل بل ٹلی
بے حقیقت کو پی محقق جو ہو کے مست وخراب اچھلے
اائے بھی اور آغوش سے بھر رات نہ نکلے
چھورے اپنا نہ کوئی آپ وطن پھرتا ہے
عمر ہیات چلی جاتی ہے
آج ہم تیری گلی سے یار اپنے گھر چلے
پوچھ نہ مجھ سے ہم نشیں کس لیے رنگ زرد ہے
کاجل آنکھوں میں جب سے منظور ہوا
رباعیات
در مبارک باد سال گرہ حضـور پر نور
بہ جناب حضرت پیر و مرشد دام افضالہ
در مدح حضور پر نور
مرثیہ حضرت پیر ومرشد
در تعریف خصاب عالم گیر بادشاہ
مخمس بر ریختۂ مرزار رفیع السودا
مخمس بر ریختۂ انعام اللہ خاں یقیںؔ
مخمس برابیات نعمت خاں عالیؔ
مخمس
مصرع بر شعر مخلصؔ
دعائیہ حضور پر نور فی السنہ یک ہزار و دو صد و دہ ہجری درایّام آوارہ شدہ رفتن عالی جاہ بہ اورنگ آباد
مسدّس در مدح نوّاب آصف جاہ نظام الملک میر نظام علی خاں بہادر رستم دوراں مدّ ظلّہ العالی
وصل کی شب کی کیفیت کیا کروں دوستو رقم
مسدس
قصیدہ در منقبت امیرت المومنین علیہ السلام
عرض آداب بہ جبناب حضرت پیغمبر علیہ السلام وآلہ الکرام
در مدح بندگان خداوند عالم پناہ نوّاب نظام الملک میر نظام علی خاں بہادر آصف جاہ دام اقبالہ
درمدح بندگان عالی نوّاب نظام الملک میر نظام علی خاں بہادر آصف جاہ دام اقبالہ
قصدہ در مدح سال گرہ خدا وند نعمت نوّاب نظام علی خاں بہادر نظام الملک آصف جاہ مدّ ظلہ العالی
قصیدہ در مدح نوّاب اعظم الامرا مشیر الملک معین الدوّلہ غلام سیّد خاں بہادر سہراب جنگ ادام اللہ اقبالہ و دولتہ
مطلع دعائیہ بہ جناب خداوند نعمت مدّظلہ العالی
واسوخت
مرثیۂ حضرت امام علیہ الصلوٰۃ والسلام
مرثیہ
مثنوی ردّالایرادروے سخن بہ میر سجّاد
داستان دویم
چپک نامہ
تعریف چاہ مومن خاں
موش نامہ کہ در سال خوک در پانگل گفتہ شدہ
مثنوی ریختہ
تاریخ وفات حضرت مرزا مظہرؔ جان جاناں علیہ الرحمۃ
فارسی کلام
غزل
وہ چہا از مانہ رفت آں دم کہ یار از دست رفت
کتابیات
Thanks, for your feedback
अध्ययन जारी रखने के लिए कृपया कोड अंकित करें। कुछ सुरक्षा कारणों से यह आवश्यक है। इस सहयोग के लिए आपके आभारी होंगे।