سرورق
کہا ہے وصف جو میں نے کسی کے روے تاباں کا
ہوا معلوم یہ دل ہے خدا وند زمانہ تھا
بوالہوس نے عشق چھوڑا کوچۂ دلدار کا
نازک کمر مقام ہے گیسوے یار کا
ہے مد نظر رنگ جو خون جگری کا
گر حرارہ لائے گا نالہ دل رنجور کا
خیرات جس نے پائی تیری پادشا ہوا
گل پہ مرتے مرتے میں سنبل کا شیدہو گیا
جس نے سر اپنا اٹھایا اسے بے سر دیکھا
گھر سے باہر کبھی آنیکا وہ دلدار نہیں فکر کر لاکھ دلا
زار اے مسیح چشم دل آزار نے کیا
کیا جگر ہے نذر ترک چشم گلرو کر دیا
لچکتے دیکھ کےہم کو یہ احتمال ہوا
عشق اس بت کافر کا خدایا نہیں جاتا
وابستہ اسکی زلف گرہ گیر سے ہوا
ہنس کے دانتوں کو اگر اس نے دکھایا ہوتا
در محبوب پر مجھ سے رقیب نیش زن بگڑا
مرض عشق میں جب دیکھا سسکتا دیکھا
کمر کا حال ہے نوع دگر ہوا جاتا
نوچ کر پر کو تڑپتا ہے کبوتر اپنا
جوش وحشت جو کبھی سلسلہ جنیاں ہوگا
آگیا جب دھیان مقتل میں اسے بیداد کا
حال لاشہ سے عیاں ہے کشتۂ بیداد کا
ہے چشم نرگسی گل رخسار دلفریب
رخ اگر اس برق وش کا دیکھ پائے آفتاب
کیا دوں گا اپنی دل کو میں اے نامہ بر جواب
دل مضطر کو ہے قرار نصیب
ہے ستم میں پہنا ستمگر آپ
زلف کو چھیڑتے ہیں اکثر آپ
نالۂ آتش فشاں گر لب پہ لائے عندلیب
رہتا ہے اس مژہ کا تصور تمام رات
کہو لانہ اس نے وعدہ پہ بھی در تمام رات
آرزو کی جو لب پہ آئی بات
تڑپ سے آئی کاشانہ پرآفت
اس مسیحا نے لیا شال میں رخسار لپیٹ
دیر وکعبہ سے پھرا کیا باعث
دام کا کل سے بچا کیا باعث
لالے پڑے ہیں جان کے دل کویں دیا عبث
یارب کوئی اب ایسی خوشی ہو بجاے رنج
اے عندلیب کیا کہیں ہم ماجراے رنج
پھول نرگس کے اسے دوچار بھیج
کیوں نہ ہو نظروں میں فردوس بریں ویرانہ آج
رشک سے جس کے کھائیں کالے پیچ
اگر در کار ہے اے سیمبر خرچ
چلتی زبان یار ہے شمشیر کی طرح
زنجیر زلف چھیڑ نہ دیوانہ کی طرح
کون کہتا ہے نہیں عشاق کے خونخوار صبح
سب جلا کر خاک کر ڈالوں تیری تعمیر چرخ
غصہ میں دیکھ لے وہ رخ بے نقاب سرخ
کہو اس بت کا خط دیجائے قاصد
فغاں پہ کاٹے گا جس وقت تو زباں صیاد
چمن کی پوچھتا ہے روز داستاں صیاد
عشق کا نام ہی دنیا سے گیا میرے بعد
چرخ کی طرح پھروں ہجر میں محزوں تاچند
تاکے پئے علاج بیمار خواہی آمد
صاف اڑ جاے ابھی مثل کبوتر کاغذ
کھول مت ساعد سمیں سے میری جاں تعویذ
تڑپ مت بیگنہ غافل سمجھ کر
ہو علیحدہ حشمت دنیا کو ناداں چھوڑ کر
ہے نظر ان ابروؤں پر روئے قاتل چھوڑ کر
جفاؤں پر نجا اے دل وفا کر
کرے وہ وار کیا جانے کب آکر
تیغ حسن یار کب برقع نے ماری کھینچ کر
ذبح بیرحمی سے کرتا ہے مجھے فریاد پر
جو ڈالے چادر شبنم وہ تن پر
کان پھر رکھتا نہیں عشاق کی فریاد پر
کب نظر پڑتی ہے جاناں کی دل جانباز پر
خدا کے واسطے آگھر سے اے حسیں باہر
کرتا نہیں لحاظ کوئی رسم وراہ پر
ادھر چھوٹا ادھر آکر لگا پیکاں میرے تن پر
یار کو آغوش میں اپنے سلا یارات بھر
دلا ایمان مت لانا کہیں شیخ وبرہمن پر
سینہ سے لگ کے سوتا ہے وہ گلعذار روز
یوں غیر کو ہے خدمت دلدار سے گریز
آگے گیسو نے دبایا رخ جاناں افسوس
یوں جان ودل ہیں سینہ میں پیکاں کے آس پاس
ظل ہمانہ مہ کی ہے انوار کی ہوس
مئے دیدار سے ہے عاشق مظر بیہوش
کردیا گر دل غمناک خوش
دیکھیں تو قتل گاہ میں آتا ہے کون شخص
دلوں سے ترک کریں کیسے اہل دنیا حرص
اکسیر سے نہ ہے زور واملاک سے غرض
کچھ فکر سے ہے کام نہ تدبیر سے غرض
اے روز وصل آشب ناکام کی عوض
ہر وقت رنج دیتے ہو آرام کی عوض
باکہ دارم من آزاد غرض
کردو کبھی تو آکے غم نیم جاں غلط
قاصدا کیا لکھوں میں رنجور خط
مجھ کو لگے گا کبھی تو یار خط
کیوں نہ ہوں دیکھ کے اس کارخ خنداں محظوظ
ہے درخت شکوفہ دار طمع
تنگ کرتی ہے باربار طمع
صبح بجھتی ہے تو پھر جلتی ہے وقت شام شمع
زیبا ہے گل سے رخ پہ تجھ سے سیمبر دماغ
کرتے ہیں مفلسوں سے عبث اہل زر دماغ
پیدا کرے گلوں سے صباحت ہزار باغ
کیا ہمسری کرے گا بھلا اے انگار باغ
ہے تیرے ہاتھ اب میرا انصاف
یارب وہ آئے عاشق بیزار کی طرف
جئے یا ہجر میں مر جائے عاشق
کاٹیں گے گلا ابروئے خمدار کے مشتاق
پوچھتے کیا ہو مجھ سے کیا ہے عشق
معلوم جس کو ہووے نہ مطلق نشاں تلک
تعجب کیا جو پہونچوں سیمبر تک
آتش رخ سے ہو کب یہ دل مضطر ہلاک
دکھلائے اپنے شعلۂ رخ کا جویار رنگ
کب میں ہوتا ہوں دشت گرداں تنگ
گیسوئے یار پر فدا ہے دل
جئے یا دام میں مرجائے بلبل
بگڑی ہوئی ہے مجھ سے جو تقدیر آج کل
آگئی یاد جو اس آئینہ رخسار کی شکل
عشق سے جسم کو جلائیں گے ہم
ہے گل امید گر روئے صنم
کہاں ہر روز ڈھونڈیں کوبکو ہم
زلف اس کافر کی سلجھاتے ہیں ہم
کجا شد دل کہ وقت رخصت جاناں نمی بینم
زہے قسمت لگی آج آکے وہ تیغ و دوم سرمیں
بن گئے جان کا وبال ہمیں
ایدل تجھے کیا بتاؤں کیا ہوں
تنہا ہوں نہ یار سے جدا ہوں
ہم کو گر پوچھے وہ کیا کرتے ہیں
بادۂ عشق پیا کرتے ہیں
کیا قیامت دم رفتار کیا کرتے ہیں
وہ نیا شعبدہ ہر روز کیا کرتے ہیں
گردش نہیں ہے پتلیوں کو چشم یار میں
عمرناداں کھوتے ہیں بیفائدہ تدبیر میں
جانا تمہارا موت کے آنے سے کم نہیں
بڑھی تکرار ثبات دہاں میں
ربط اگلا سا ہم سے یار نہیں
دام بلا میں کون ہے جو مبتلا نہیں
ماہ تو ہے پر آفتاب نہیں
جواب نامہ لکھ کر یہ ستم ہم پر وہ کرتے ہیں
جب وہ محفل میں راگ لاتے ہیں
نیند سے ان کو ہم اٹھاتے ہیں
نرگس ہی خجل چشم بیمار اسے کہتے ہیں
ادا سے دل کو جاں کو ناز سے برباد کرتے ہیں
کب حال یہاں فراق میں نوع دگر نہیں
یار کو صبح کے ہونے کی خبر کرتے ہیں
اشک ریزی کی زمانہ کو خبر کرتے ہیں
جلوہ گر بزم میں حضور نہیں
تیر عاشق پہ نگاہوں کے لگاتے جاؤ
تماشا اپنے بسمل کا ستمگر دیکھتے جاؤ
دشت میں اس شوخ کو جانے تو دو
آؤ میرے گھر یہ کس دن یار کا ارشاد ہو
تشبیہ دوں نہ رخ سے تیرے ماہتاب کو
کیوں نہ دو ٹکڑے کرے تیغ حسد اغیار کو
حیرت ہے صاف دیکھ کے رخ اپنا یار کو
تعشق ہے رخ روشن سے اسکے زلف پیچاں کو
جاے مژگاں ہے دکھاتا خنجر فولاد کو
پیچ گیسو کا پھر کھلا دیکھو
باغ جاتا ہوں اس نگار کے ساتھ
دار پر کھینچے روا ہے یہ
مزہ دکھاتی ہے غصہ میں تند خوتیری
اڑ کے جائیگا کہاں ان سے اگر دیکھیں گے
کہہ دو صیاد سے جفا نہ کرے
جہاں دیکھو وہی جان جہاں ہے
واں تو شغل حیا پرستی ہے
آنکھ غصہ سے جو الفت کی دکھائی ہوتی
پوچھتے کیا ہواپنے بسمل کی
آنکھ نرگس کو وہ دکھا بیٹھتے
ابرو سے کر رہے ہو اشارے نئے نئے
کیا دل میں سمائی ہے تمہارے کئی دن سے
عشق زنداں میں بھی دامنگیر ہے
برق سان مسکرا دیا کس نے
دانۂ خال رخ دلبر دکھایا چاہیئے
غیر اپنوں کو یا غیر کو اپنا نہ کریں گے
بوسے قسمت میں نہیں ہیں گیسوے دلدار کے
گزر کے بتکدہ سے کعبہ دل میں ہم آٹھہرے
گیسوے دل آویزی یں بڑھ کر تو نہیں ہے
وصل کی شب تم نے دکھلا کر تن عریاں مجھے
نہ کی تعریف گیسوے دوتا کی
ہم رند ہیں مطلب نہیں کچھ دیر وحرم سے
ہو گیا حیرت کا نقشہ یاد روے یار سے
ڈرو عاشق کی آ ہ پر اثر سے
جھانکیں گے صنم جتنے کوئیں چاہے جھکالے
مسجد ہے مسلمان کی تو ہندو کے شوالے
لگے ہاتھ گیسو نماز مسا سے
اگر وہ زلف کو رخ سے ہٹاتے
جان لی پازیب کی جھنکار نے
ایک مدت سے ہجر دلبر سے
اجل کا آیا ہے پیغام کام ہوتا ہے
ختم سب تجھ پر صنم عشوہ ورعنائی ہے
راستہ رندوں کو میخانہ کا بتلاتا ہے
زلف کو رخسار پر لٹکائے
یوں نہ صاحب بزم سے اٹھ جائے
پوچھتے کیا ہو بحر فرقت کی
لے خبر اب تو تپ ہجر کے بیچاروں کی
ہم نے اس بت سے آشانئ کی
مانگتا خیر ہوں دگائی کی
رہیگی تابروز ہجر جانی
میں ارنی اس لئے کہتا ہوں جانی
خمسہ برغزل فقیر محمد خان صاحب گویا
خمسہ دیگر بر غزل فقیر محمد خان صاحب متخلص بہ گویا
خمسہ برغزل خود
قصیدہ در شان جناب بابو بشمبر ناتھ صاحب رئیس آگرہ در صنعت توشیح
سرورق
کہا ہے وصف جو میں نے کسی کے روے تاباں کا
ہوا معلوم یہ دل ہے خدا وند زمانہ تھا
بوالہوس نے عشق چھوڑا کوچۂ دلدار کا
نازک کمر مقام ہے گیسوے یار کا
ہے مد نظر رنگ جو خون جگری کا
گر حرارہ لائے گا نالہ دل رنجور کا
خیرات جس نے پائی تیری پادشا ہوا
گل پہ مرتے مرتے میں سنبل کا شیدہو گیا
جس نے سر اپنا اٹھایا اسے بے سر دیکھا
گھر سے باہر کبھی آنیکا وہ دلدار نہیں فکر کر لاکھ دلا
زار اے مسیح چشم دل آزار نے کیا
کیا جگر ہے نذر ترک چشم گلرو کر دیا
لچکتے دیکھ کےہم کو یہ احتمال ہوا
عشق اس بت کافر کا خدایا نہیں جاتا
وابستہ اسکی زلف گرہ گیر سے ہوا
ہنس کے دانتوں کو اگر اس نے دکھایا ہوتا
در محبوب پر مجھ سے رقیب نیش زن بگڑا
مرض عشق میں جب دیکھا سسکتا دیکھا
کمر کا حال ہے نوع دگر ہوا جاتا
نوچ کر پر کو تڑپتا ہے کبوتر اپنا
جوش وحشت جو کبھی سلسلہ جنیاں ہوگا
آگیا جب دھیان مقتل میں اسے بیداد کا
حال لاشہ سے عیاں ہے کشتۂ بیداد کا
ہے چشم نرگسی گل رخسار دلفریب
رخ اگر اس برق وش کا دیکھ پائے آفتاب
کیا دوں گا اپنی دل کو میں اے نامہ بر جواب
دل مضطر کو ہے قرار نصیب
ہے ستم میں پہنا ستمگر آپ
زلف کو چھیڑتے ہیں اکثر آپ
نالۂ آتش فشاں گر لب پہ لائے عندلیب
رہتا ہے اس مژہ کا تصور تمام رات
کہو لانہ اس نے وعدہ پہ بھی در تمام رات
آرزو کی جو لب پہ آئی بات
تڑپ سے آئی کاشانہ پرآفت
اس مسیحا نے لیا شال میں رخسار لپیٹ
دیر وکعبہ سے پھرا کیا باعث
دام کا کل سے بچا کیا باعث
لالے پڑے ہیں جان کے دل کویں دیا عبث
یارب کوئی اب ایسی خوشی ہو بجاے رنج
اے عندلیب کیا کہیں ہم ماجراے رنج
پھول نرگس کے اسے دوچار بھیج
کیوں نہ ہو نظروں میں فردوس بریں ویرانہ آج
رشک سے جس کے کھائیں کالے پیچ
اگر در کار ہے اے سیمبر خرچ
چلتی زبان یار ہے شمشیر کی طرح
زنجیر زلف چھیڑ نہ دیوانہ کی طرح
کون کہتا ہے نہیں عشاق کے خونخوار صبح
سب جلا کر خاک کر ڈالوں تیری تعمیر چرخ
غصہ میں دیکھ لے وہ رخ بے نقاب سرخ
کہو اس بت کا خط دیجائے قاصد
فغاں پہ کاٹے گا جس وقت تو زباں صیاد
چمن کی پوچھتا ہے روز داستاں صیاد
عشق کا نام ہی دنیا سے گیا میرے بعد
چرخ کی طرح پھروں ہجر میں محزوں تاچند
تاکے پئے علاج بیمار خواہی آمد
صاف اڑ جاے ابھی مثل کبوتر کاغذ
کھول مت ساعد سمیں سے میری جاں تعویذ
تڑپ مت بیگنہ غافل سمجھ کر
ہو علیحدہ حشمت دنیا کو ناداں چھوڑ کر
ہے نظر ان ابروؤں پر روئے قاتل چھوڑ کر
جفاؤں پر نجا اے دل وفا کر
کرے وہ وار کیا جانے کب آکر
تیغ حسن یار کب برقع نے ماری کھینچ کر
ذبح بیرحمی سے کرتا ہے مجھے فریاد پر
جو ڈالے چادر شبنم وہ تن پر
کان پھر رکھتا نہیں عشاق کی فریاد پر
کب نظر پڑتی ہے جاناں کی دل جانباز پر
خدا کے واسطے آگھر سے اے حسیں باہر
کرتا نہیں لحاظ کوئی رسم وراہ پر
ادھر چھوٹا ادھر آکر لگا پیکاں میرے تن پر
یار کو آغوش میں اپنے سلا یارات بھر
دلا ایمان مت لانا کہیں شیخ وبرہمن پر
سینہ سے لگ کے سوتا ہے وہ گلعذار روز
یوں غیر کو ہے خدمت دلدار سے گریز
آگے گیسو نے دبایا رخ جاناں افسوس
یوں جان ودل ہیں سینہ میں پیکاں کے آس پاس
ظل ہمانہ مہ کی ہے انوار کی ہوس
مئے دیدار سے ہے عاشق مظر بیہوش
کردیا گر دل غمناک خوش
دیکھیں تو قتل گاہ میں آتا ہے کون شخص
دلوں سے ترک کریں کیسے اہل دنیا حرص
اکسیر سے نہ ہے زور واملاک سے غرض
کچھ فکر سے ہے کام نہ تدبیر سے غرض
اے روز وصل آشب ناکام کی عوض
ہر وقت رنج دیتے ہو آرام کی عوض
باکہ دارم من آزاد غرض
کردو کبھی تو آکے غم نیم جاں غلط
قاصدا کیا لکھوں میں رنجور خط
مجھ کو لگے گا کبھی تو یار خط
کیوں نہ ہوں دیکھ کے اس کارخ خنداں محظوظ
ہے درخت شکوفہ دار طمع
تنگ کرتی ہے باربار طمع
صبح بجھتی ہے تو پھر جلتی ہے وقت شام شمع
زیبا ہے گل سے رخ پہ تجھ سے سیمبر دماغ
کرتے ہیں مفلسوں سے عبث اہل زر دماغ
پیدا کرے گلوں سے صباحت ہزار باغ
کیا ہمسری کرے گا بھلا اے انگار باغ
ہے تیرے ہاتھ اب میرا انصاف
یارب وہ آئے عاشق بیزار کی طرف
جئے یا ہجر میں مر جائے عاشق
کاٹیں گے گلا ابروئے خمدار کے مشتاق
پوچھتے کیا ہو مجھ سے کیا ہے عشق
معلوم جس کو ہووے نہ مطلق نشاں تلک
تعجب کیا جو پہونچوں سیمبر تک
آتش رخ سے ہو کب یہ دل مضطر ہلاک
دکھلائے اپنے شعلۂ رخ کا جویار رنگ
کب میں ہوتا ہوں دشت گرداں تنگ
گیسوئے یار پر فدا ہے دل
جئے یا دام میں مرجائے بلبل
بگڑی ہوئی ہے مجھ سے جو تقدیر آج کل
آگئی یاد جو اس آئینہ رخسار کی شکل
عشق سے جسم کو جلائیں گے ہم
ہے گل امید گر روئے صنم
کہاں ہر روز ڈھونڈیں کوبکو ہم
زلف اس کافر کی سلجھاتے ہیں ہم
کجا شد دل کہ وقت رخصت جاناں نمی بینم
زہے قسمت لگی آج آکے وہ تیغ و دوم سرمیں
بن گئے جان کا وبال ہمیں
ایدل تجھے کیا بتاؤں کیا ہوں
تنہا ہوں نہ یار سے جدا ہوں
ہم کو گر پوچھے وہ کیا کرتے ہیں
بادۂ عشق پیا کرتے ہیں
کیا قیامت دم رفتار کیا کرتے ہیں
وہ نیا شعبدہ ہر روز کیا کرتے ہیں
گردش نہیں ہے پتلیوں کو چشم یار میں
عمرناداں کھوتے ہیں بیفائدہ تدبیر میں
جانا تمہارا موت کے آنے سے کم نہیں
بڑھی تکرار ثبات دہاں میں
ربط اگلا سا ہم سے یار نہیں
دام بلا میں کون ہے جو مبتلا نہیں
ماہ تو ہے پر آفتاب نہیں
جواب نامہ لکھ کر یہ ستم ہم پر وہ کرتے ہیں
جب وہ محفل میں راگ لاتے ہیں
نیند سے ان کو ہم اٹھاتے ہیں
نرگس ہی خجل چشم بیمار اسے کہتے ہیں
ادا سے دل کو جاں کو ناز سے برباد کرتے ہیں
کب حال یہاں فراق میں نوع دگر نہیں
یار کو صبح کے ہونے کی خبر کرتے ہیں
اشک ریزی کی زمانہ کو خبر کرتے ہیں
جلوہ گر بزم میں حضور نہیں
تیر عاشق پہ نگاہوں کے لگاتے جاؤ
تماشا اپنے بسمل کا ستمگر دیکھتے جاؤ
دشت میں اس شوخ کو جانے تو دو
آؤ میرے گھر یہ کس دن یار کا ارشاد ہو
تشبیہ دوں نہ رخ سے تیرے ماہتاب کو
کیوں نہ دو ٹکڑے کرے تیغ حسد اغیار کو
حیرت ہے صاف دیکھ کے رخ اپنا یار کو
تعشق ہے رخ روشن سے اسکے زلف پیچاں کو
جاے مژگاں ہے دکھاتا خنجر فولاد کو
پیچ گیسو کا پھر کھلا دیکھو
باغ جاتا ہوں اس نگار کے ساتھ
دار پر کھینچے روا ہے یہ
مزہ دکھاتی ہے غصہ میں تند خوتیری
اڑ کے جائیگا کہاں ان سے اگر دیکھیں گے
کہہ دو صیاد سے جفا نہ کرے
جہاں دیکھو وہی جان جہاں ہے
واں تو شغل حیا پرستی ہے
آنکھ غصہ سے جو الفت کی دکھائی ہوتی
پوچھتے کیا ہواپنے بسمل کی
آنکھ نرگس کو وہ دکھا بیٹھتے
ابرو سے کر رہے ہو اشارے نئے نئے
کیا دل میں سمائی ہے تمہارے کئی دن سے
عشق زنداں میں بھی دامنگیر ہے
برق سان مسکرا دیا کس نے
دانۂ خال رخ دلبر دکھایا چاہیئے
غیر اپنوں کو یا غیر کو اپنا نہ کریں گے
بوسے قسمت میں نہیں ہیں گیسوے دلدار کے
گزر کے بتکدہ سے کعبہ دل میں ہم آٹھہرے
گیسوے دل آویزی یں بڑھ کر تو نہیں ہے
وصل کی شب تم نے دکھلا کر تن عریاں مجھے
نہ کی تعریف گیسوے دوتا کی
ہم رند ہیں مطلب نہیں کچھ دیر وحرم سے
ہو گیا حیرت کا نقشہ یاد روے یار سے
ڈرو عاشق کی آ ہ پر اثر سے
جھانکیں گے صنم جتنے کوئیں چاہے جھکالے
مسجد ہے مسلمان کی تو ہندو کے شوالے
لگے ہاتھ گیسو نماز مسا سے
اگر وہ زلف کو رخ سے ہٹاتے
جان لی پازیب کی جھنکار نے
ایک مدت سے ہجر دلبر سے
اجل کا آیا ہے پیغام کام ہوتا ہے
ختم سب تجھ پر صنم عشوہ ورعنائی ہے
راستہ رندوں کو میخانہ کا بتلاتا ہے
زلف کو رخسار پر لٹکائے
یوں نہ صاحب بزم سے اٹھ جائے
پوچھتے کیا ہو بحر فرقت کی
لے خبر اب تو تپ ہجر کے بیچاروں کی
ہم نے اس بت سے آشانئ کی
مانگتا خیر ہوں دگائی کی
رہیگی تابروز ہجر جانی
میں ارنی اس لئے کہتا ہوں جانی
خمسہ برغزل فقیر محمد خان صاحب گویا
خمسہ دیگر بر غزل فقیر محمد خان صاحب متخلص بہ گویا
خمسہ برغزل خود
قصیدہ در شان جناب بابو بشمبر ناتھ صاحب رئیس آگرہ در صنعت توشیح
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.