سرورق
خدا کا عشق لازم ہے عبث ہے عشق انساں کا
فخر آدم رحمۃ للعالمین ہیں مصطفی
تو وہ یکتا ہے کہ ثانے کوئی پیدا نہ ہوا
کیا قتل گہہ دہر میں قاتل نہیں ملتا
ہجر کے داغوں سے سینہ رشک گلشن ہو گیا
ہم بلا نوشوں سے کچھ آباد میخانہ رہا
جناب عشق کا جب تک یہاں ظہور نہ تھا
بیٹھے بیٹھے وہ صنم مجھ سے کیونکر ہوا
قتل گہہ میں جو وہ کھینچے ہوے تلوار آیا
کوچۂ یار میں مجھ زار کا مسکن نہ رہا
گلشن دل میں نہ آیا گل رہنا اپنا
بلبل نے شاخ گل پہ نشیمن بنا لیا
جو کچھ تھا ہجر یار میں عالم وہی رہا
دل سے بتوں کا عشق الٰہی کہاں گیا
آج اس رشک مسیحا کا جو آنا ٹھہرا
رنگ آنی سے خزاں کی ہے یہ گلزاروں کا
اے چشم تر نہ ابروئے خمدار دیکھنا
ہے وصف خاموشی جو اس تنگیے دہن کا
شباب میں بھی نہ ایسا تھا ولولہ دل کا
زلف ساں مجھ سے جو برہم وہ پری رو ہو گا
سچ بتا اے پیک خوش رفتار کیا تھا کیا ہوا
اس زلف سے جو سلسلہ پیدا نہیں ہوتا
وہ مہر دکھائی رخ روشن اگر اپنا
یا د شمع رخ میں ہر داغ جگر مشعل بنا
افشاے راز عشق جو مدنظر نہ تھا
اب کہاں جوش حزیں پہچاننا امراض کا
دانہ ملے گا کیا رخ جاناں کے خال کا
جب تک ایدل عاشق رخسار جاناں میں نہ تھا
جواب اے نامہ بر تو کیوں نہ لایا
نظر آئی اگر سایہ مری سروخراماں کا
کیا سمجھتا تھا کہ تو میرا عدو ہو جاے گا
ہے وہ زلف عرق آلود کی اے یار گھٹا
سچ اگر پوچھو تو سنبل ہے نہ جوڑا سانپ کا
ترک کر اے دل رخ پرنور جاناں دیکھنا
اپنے کوچے کے بھولے بھٹکوں کو
اطلاع
اگر مرنیکے بعد اسکا خیال جستجو ہوتا
کیوں نہ شکوہ کیجئے افلاک کی بیداد کا
یار کو ہم نے بام پر دیکھا
دیکھ کر تیرا عارض روشن
آساں نظارہ نہیں اے یار تمہارا
ربط تجھ سے غیر کا اے سیمبر جاتا رہا
مسکن اس حور کی کوچے میں جا پایا ہوتا
رو کے اظہار کیا مطلب پنہاں میرا
دم اسکے سایۂ ایواں میں جوش اگر لینا
ردیف الباء موحدہ
تیر نظر لگاتا ہے وہ ترک ادھر کو اب
اسنے سنواری گیسوئے پرخم تمام شب
دل کے مراد پائیں گے چرخ بریں سے کب
دیکھ لی جو اک نظر وہ وروے پرنور آفتاب
لائیں ہاتھ سے اپنے اگر جناب شراب
دھیان دل میں پھر کسے گل کا نہ لائے عندلیب
یونہیں آجا مری ویرانی میں یار آپسی آپ
ردیف الباء فارسی
ردیف التاے مثناۃ فوقانی
گوہے شراب وساقی وصحن چمن درست
زاہد وتمکو مبارک ہے حوراے بہشت
درد لب ازبسکہ نام احمد واسم علیست
غیرت سنبل کا رشک مشک گیسوئے دوست
ردیف الثائے مثلثہ
شاعرو تم کو ہے اس بات میں تقریر عبث
اے صنم ہے وہ رخ کے تل پر چوٹ
ردیف جیم عربی
برسار ہی ہے خون مژۂ اشکبار آج
چپ گئی وہ صبح دم جو ماہ انور کی طرح
بل کی لیتے ہیں سراسر مری تقدیر کے پیچ
ردیف جیم فارسی
ردیف حاے حطی
کب رہی سر سبز ہم نخل گلستاں کی طرح
ردیف خاے معجمہ
پوشاک جو پہنے ہے تو اے رشک چمن سرخ
فرقت کے ساتھ آئی اجل یک نہ شد دو شد
خدا ہے مرتبہ واں محمد
ردیف دال مہملہ
ازدل مخزوں چو آہ ایں نیم جاں خواہند کشید
ہم کو مژگاں جگر ودوز کے ہیں تیر پسند
مالداروں کو ہے دولت پر گھمنڈ
قیس وفرہاد کا میں ہوں استاد
جیسی بین یار کے لب شکر فشاں لذیذ
بنی جو زہرہ جبینوں کے زیب سر تعویذ
جیسے ہین یار کے لب شکر فشاں لذیذ
ردیف راے مہملہ
بل کھا رہی ہے زلف سیہ فام دوش پر
جاگا یہ دم ذبح مقدر تہ خنجر
پیچ دیتی ہے ہمیں زلف بت بے پیر پھر
سانولارنگ ہے اور اس پہ وہ جوڑا سر پر
ابرو مژہ اے یار ہے خنجر تہ خنجر
یہ تل نہیں ہیں آئینہ روئے یار پر
گرم ازنگہت زلف است سودائے دگر
جو گلشن سے سوار آئی اگر تو ہو کر
ردیف زاے معجمہ
بن گئی صور کے آواز کجر کے آواز
آنکھوں کو ہے جما ل خداداد کی ہوس
ردیف سین مہملہ
اس ماہ کے ہے ابروئے خمدار کی تلاش
ردیف شین معجمہ
ردیف صاد مہملہ
ایک ساعت میں ہزاروں مرتبہ بدلا خواص
منظور ہے جو قاتل خود کام سے غرض
ردیف ضاد معجمہ
پیدا ہو خاک نرگس جادو سے ارتباط
ردیف طائے مہملہ
ردیف ظاے معجمہ
ردیف عین مہملہ
دیکھیں تو ذرا آکے پتنگے جگر شمع
جمال گل سے جو بلبل ہے باغباں محفوظ
ہے مہ عارض کی تیرے طالب دیدار شمع
وہ مہ جو بام پر پنے کبھی جلائے چراغ
ردیف غین معجمہ
ردیف فا
قصر وباغ جاں میں ہے جیسے سوائے زلف
چشم پرنم جانہ ایدل کوئے قاتل کی طرف
سیکڑوں آئے ہزاروں ہی سدہارے مشتاق
ردیف قاف
ابتدا میں ہو اگر معلوم کچھ انجام عشق
اے طبیبو جس کو ہو آزار عشق
ردیف کاف تازی
گزرا نہ اسطرف سے وہ شہسوار ابتک
سر پہ ہے جن کی طرح عشق پری زاد الگ
کم سنو تکونا مناسب ہے پہنا ہار پھول
ردیف کاف فارسی
ردیف لام
باغیوں نے لیکے بھیجے ہیں تمہیں میلے سے پھول
ستم اٹھائیگا اوگل ہزار میرا دل
ضعف ہے طاقت اگر دے مجھ کو یزداں آجکل
اس جنگ وجو کے سامنے ہاں خوف جان سے ہم
ردیف میم
وہ پری پیکر خفا ہے آج کل
زاہد وشیخ وصنم گبرو مسلماں پانچوں
ردیف نون
ہوں گے نہ انکے دید سے اب کامیاب ہم
جنوں کے ہاتھ سے پھٹ کر گریباں آستیں دامن
مجھ جاں بلب کے پاس سے جاتے ہو گہر کہاں
دیکھیں جو بلبلیں مرے نازک بدن کے پاؤں
جہاں میں حشر کا سب اشتباہ کرتے ہیں
حد سے باہر جسے ہم ایک قدم دیکھتے ہیں
نہ بحث ان واعظوں سے ایدل ہزاروں سر یہ پھرا چکے ہیں
یہ ترکان حسیں دیکھو تو کیا انصاف کرتے ہیں
دلا اب انکو مرا کچھ خیال ہے کہ نہیں
حرام اس موسم گل میں جو میخواری سمجھتے ہیں
غربت میں جان دی ہے کوئی ہم وطن نہیں
نہ ہو جا خالق ارض وسما کی مدح خواں برسوں
بے سبب باغ جہاں میں گریۂ شبنم نہیں
ہیں منتخب کرو میں مضرد ہزار میں
بیکار مشک وعود ہیں خوشبو اگر نہیں
نہ مرنے سے ڈرے ہم عشق کامل اسکو کہتے ہیں
پیچ دیتی ہے ہمیں پھر زلف پیچاں سیکڑوں
چند اشعار بطور قصیدہ در منقبت حسنین سرور کونین رضی اللہ تعالی عنہما
مہ وخورشید سے مشہور سوا دونو ہیں
اگر وہ باغ کو ہمراہ دشمن جانیوالی ہیں
لالۂ وگل کاہے کیا نشو نما گلشن میں
آنے میں میرے گھر کے جو لیت ولعل نہیں
گنہگاروں میں ہیں ہم اسلئے دن رات روتے ہیں
گل گلشن میں ایسی ہے نہ ایسی حور جنت میں
دکھایا جو گیسو دوبارا ہمیں
لگا لگا کے حنا ہاتھ لال کرتے ہیں
زلف کھولو عاشقوں پر نازل آفت ہو تو ہو
ردیف واو
ہوتا ہوں وصل کا جو طلبگار رات دن
دل اپنا ہم کو دید دیا ہمارا دل صنم لیلو
سمجھو گے مری بات کو حق یار کہیے تو
شام وصل آج عطا کی جو خدانے ہم کو
بہلایا ہم نے آنکھوں سے جو دیکھا بزم جاناں کو
ہے یہ دیدار اخیرآکے جنازا دیکھو
کیا گریباں گیر ہوگا اس کا خواہاں تک نہ ہو
آنکھ اٹھا کر نہ جوش ادھر دیکھو
ہوا دشمن جاں ہمارا زمانہ
روز اول سے ہے فرقت میری تقدیر کے ساتھ
اے دل بروں کو ہجر میں سب سے بھلا سمجھ
ردیف الیا
حضرت دل بھی ہیں بسمل اس ستم ایجاد کے
الفت بڑھاؤں خاک بت سیمبر کے ساتھ
تذکرے ہیں کعبۂ دل میں خدا کی یاد کے
تیغ ابروے ہلالی سے جگر بسمل ہے
ہوا رقیب تو مجھ خستہ تن کو عید ہوئی
یاد دنداں میں یہ طغیانی ہے ہر آنسو کی
برنگ مہرتاباں عارض روشن چمکتا ہے
وہ کاغذ تختۂ لالہ سے رنگینی میں افزوں ہے
ادھر ابر بہاری جانب میخانہ آتا ہے
سر کے کٹنے میں تہ رہتے مجھے مشکل کوئے
جلے سینہ تو پھر کیوں کر دل مضطر مرا ٹھہرے
چیختے چیختے بلبل کی زباں سوکھ گئی
عدم سے کیا عبث اس عالم غدار میں آئے
دیکھ کے رخسارۂ روشن کا جلوہ دور سے
جان پر بڑھ کے قیامت سے قیامت ہوگی
کون کہتا ہے مری قاتل کا تن آہن میں ہے
جس لطف پر ہے آج گھٹا کچھ نہ پوچھیئے
ارادے ہیں یہی اپنے جگر کے جان کے دل کے
جو آنکھ سے گل رخسار یار دیکھیں گے
عدم سے ہم عبث اس دہر ن افر جام میں آئے
تیری صحبت سے جو اے حور شمائل اٹھے
فراق یار میں دیکھے اگر رونا مرابدلے
جوش سب خاک اک گردش ایام میں ہے
بل دیے زلفوں میں جو اس ظالم بیباک نے
کعبۂ مقصود دیکھیں گے جو ہمت دل میں ہے
فراق ساقی میں جوش جام شراب ہم لیکے کیا کریں گے
ہم نے اس عالم اسباب سے کیا رکھا ہے
منہ موڑیں گے اے ترک نہ ہم تیغ ادا سے
دیکھا نہیں نور رخ قاتل کئی دن سے
اللہ رے کا وشیں مژۂ اشکبار کی
جب سے ہے مد نظر وہ نرگس جادو مجھے
بگڑتی ہے تری باعث کہو اس آفت جاں سے
لو شمع کی جس رونق محفل سے لگی ہے
اس کمر کی جستجو مثل دہن بے سود ہے
طالب کو آپ بوسہ امداد کیا کریں گے
کمر کے عشق میں اے بت یہ زور ناتوانی ہے
شب کو سوتے تم جو غافل رہ گئے
غضب کے یہ چہرے ہے یاستم کی یہ کٹاری ہے
ان آنکھوں کی بدولت دل پہ آفت آہی جاتی ہے
اب دیدۂ اغیار جو قاتل سے لڑیں گے
اگر حرص وہوائے باغ عالم سے جدا ہوتے
بالائے سر یہ ترک جو تلوار کھینچتے
جاکر بھڑا دیا بت گلفام سے مجھے
واعظو دل سے جو تم ذکر بتاں بھول گئے
خوں رولایا اسکو تم نے جس سے ہنس کر بات کی
یہ چھیڑ نئی اوبت عیار نکالی
جب کہا یہ میں نے دل او دشمن جاں چاہیئے
ہم غریبوں کو نہ اے ظالم ستانا چاہیئے
ہم پریشاں خاطروں کو بھول جانا یاد ہے
کچھ مال ہے سیم وزروالماس وگہر ہے
مقتل عشق میں کہیئے تو گزر کس کا ہے
جب تک قیام گردش چرخ بریں رہے
کہاں دیکھیں ہیں سیریں سیر ہوکے بزم عالم کے
تمہاری زلف کا بوسہ اگر لیتے تو ہم لیتے
برنگ ابر ہوں گریہ کنان تمہارے لئے
شکل وہ نور کی اے زہرہ جبیں پائی ہے
جانے سے اس کے عالم ویرانہ گھر میں ہے
نظر مہر سے جو آپ نظارا کیجے
جو تمہارے لب ودندان کی پھبن دیکھ چکے
خانۂ غیر میں تم جا کے جو مہمان رہے
شب فراق بسر کی یہ مینے رٹ رٹ کی
بخدا جو رخ گلگوں صنم دیکھیں گے
غزل فارسی
حرکت ایں چہ ساختی ایچرخ
بار سر ممکن نہیں مجھ ناتواں سے اٹھ سکے
حاجیو گر طوف کعبہ تم کو فرض عین ہے
موڑوں گا منہ نہ عشق بت خود پسند سے
وہ صحبتیں نہ اب وہ مدارات رہ گئے
کیوں رنج سے حالت نہ ہو تغیئر ہماری
نہ آنکھ اٹھا کے جناں میں سوئے چمن دیکھے
عاشق افسوس نہ عکس رخ روشن دیکھے
حیرت ہے ڈھونڈھتے ہے مری چشم تر کسے
دہن غنچہ ہے نرگس آنکھ ہے رخسار لالا ہے
تمہارے افعیٔ گیسو نے ہم مارا ڈالا ہے
اگر وہ گھر سے باہر آج خنجر لیکے نکلیں گے
ہاں رہنے کو ملا نہیں کوئی بتاں مجھے
جائے کب یہ عشق کازار دیکھا چاہیئے
تری زباں کو اگر شوق گفتگو کم ہے
بھرا ہے وہ سراسر بغض سے بدتر ہے پتھر سے
تمہاری دولت دیدار کی خیرات اچھی ہے
خمسۂ اول غزل استاد مشہور مسمی خواجہ حیدر علی آتش مغفور
خمسۂ دوم غزل میان مصحفی حسب فرمایش وست خفی وجلی مسمی سید میر اعلی
خمسۂ سوم غزل استاد مشہور مسمی خواجہ حیدر علی آتش مغفور
خمسۂ چہارم غزل خود
خمسۂ پنجم جدید غزل استاد مشہور مسمی خواجہ حیدر علی آتش مغفور
خمسۂ ششم جدید غزل فارسی قبلۂ دوجہان وکعبہ نیازمنداں مسمی نواب محمد مقیم خاں۔۔
خمسۂ ہفتم لی مانند غزل سید محمد خان مرحوم متخلص بہ رند
خمسہ ہشتم غزل فارسی اخوان صاحب محمد ظفر بانجام مرحوم متخلص ناسخ ہمتائی
خمسۂ نہم جدید غزل نواب محمد مرزا خان صاحب بہادر متخلص بہ عیش
خمسہ دہم غزل منشی فضل رسول صاحب ساکن سندیلہ متخلص بواسطے شاعر بینظیر۔۔۔
خمسۂ یاز دہم غزل استاد مشہور مسمی خواجہ حیدر علی آتش مغفور
خمسہ دو آزدہم جدید غزل بی بدل جدامجد مسمی نواب محبت خان بہادر مرحوم۔۔۔
خمسۂ سیزدہم غزل راجہ تعشق حسین صاحب متخلص بہ تعش صاحب
خمسۂ چہار دہم غزل برادر عزیز سراپا تمیز نواب محمد عبدالعزیز خانصاحب
خمسۂ پانزدہم غزل برادر سلیمان خان صاحب متخلص بہ اسد
خمسۂ شانز دہم غزل آشنائی سعید مسمی راجہ غلام حسین خان متخلص بہ وحید
خمۂ ہفتد ہم غزل فارسی قبلۂ دو جہاں وکعبہ نیاز منداں مسمی نواب محمدمقیم خان بہادر
خمسۂ ہشد ہم جدید غزل مشفقی مکرمی جناب منشی میانداد خانصاحب
مسدس ہذا حسب فرمایش نواب مبارک علیخان کہ خلف نواب محمد سعید خان
عاشق جو ان بتوں کے سیہ خال کا بنا
اشعار مفرق
جاندے زلف پری زاد پہ ایدل کیونکر
تاریخ انتقال پر ملال جناب قبلہ گاہی صاحب مسمی نواب محمد مقیم خاں
قطعۂ تاریخ تصنیف شدن تحفۂ اودہ کہ بطور نذر شہزادہ صاحب
بطور مثنوی در صنعت توشیح چند اشعار بمدح مشفقی مکرمی منشی نو لکشور صاحب
واسوخت تصنیف نواب احمد حسن خان ذی ہوش موسوم بہ فسانۂ جوش
قطعۂ تاریخ مرتب شدن دیوان ہذا از نتایج افکار برادر محمد سلیمان خانصاحب
AUTHORAhmad Hasan Khan Josh
YEAR1873
CONTRIBUTORAnjuman Taraqqi Urdu (Hind), Delhi
PUBLISHER Munshi Nawal Kishor, Lucknow
AUTHORAhmad Hasan Khan Josh
YEAR1873
CONTRIBUTORAnjuman Taraqqi Urdu (Hind), Delhi
PUBLISHER Munshi Nawal Kishor, Lucknow
سرورق
خدا کا عشق لازم ہے عبث ہے عشق انساں کا
فخر آدم رحمۃ للعالمین ہیں مصطفی
تو وہ یکتا ہے کہ ثانے کوئی پیدا نہ ہوا
کیا قتل گہہ دہر میں قاتل نہیں ملتا
ہجر کے داغوں سے سینہ رشک گلشن ہو گیا
ہم بلا نوشوں سے کچھ آباد میخانہ رہا
جناب عشق کا جب تک یہاں ظہور نہ تھا
بیٹھے بیٹھے وہ صنم مجھ سے کیونکر ہوا
قتل گہہ میں جو وہ کھینچے ہوے تلوار آیا
کوچۂ یار میں مجھ زار کا مسکن نہ رہا
گلشن دل میں نہ آیا گل رہنا اپنا
بلبل نے شاخ گل پہ نشیمن بنا لیا
جو کچھ تھا ہجر یار میں عالم وہی رہا
دل سے بتوں کا عشق الٰہی کہاں گیا
آج اس رشک مسیحا کا جو آنا ٹھہرا
رنگ آنی سے خزاں کی ہے یہ گلزاروں کا
اے چشم تر نہ ابروئے خمدار دیکھنا
ہے وصف خاموشی جو اس تنگیے دہن کا
شباب میں بھی نہ ایسا تھا ولولہ دل کا
زلف ساں مجھ سے جو برہم وہ پری رو ہو گا
سچ بتا اے پیک خوش رفتار کیا تھا کیا ہوا
اس زلف سے جو سلسلہ پیدا نہیں ہوتا
وہ مہر دکھائی رخ روشن اگر اپنا
یا د شمع رخ میں ہر داغ جگر مشعل بنا
افشاے راز عشق جو مدنظر نہ تھا
اب کہاں جوش حزیں پہچاننا امراض کا
دانہ ملے گا کیا رخ جاناں کے خال کا
جب تک ایدل عاشق رخسار جاناں میں نہ تھا
جواب اے نامہ بر تو کیوں نہ لایا
نظر آئی اگر سایہ مری سروخراماں کا
کیا سمجھتا تھا کہ تو میرا عدو ہو جاے گا
ہے وہ زلف عرق آلود کی اے یار گھٹا
سچ اگر پوچھو تو سنبل ہے نہ جوڑا سانپ کا
ترک کر اے دل رخ پرنور جاناں دیکھنا
اپنے کوچے کے بھولے بھٹکوں کو
اطلاع
اگر مرنیکے بعد اسکا خیال جستجو ہوتا
کیوں نہ شکوہ کیجئے افلاک کی بیداد کا
یار کو ہم نے بام پر دیکھا
دیکھ کر تیرا عارض روشن
آساں نظارہ نہیں اے یار تمہارا
ربط تجھ سے غیر کا اے سیمبر جاتا رہا
مسکن اس حور کی کوچے میں جا پایا ہوتا
رو کے اظہار کیا مطلب پنہاں میرا
دم اسکے سایۂ ایواں میں جوش اگر لینا
ردیف الباء موحدہ
تیر نظر لگاتا ہے وہ ترک ادھر کو اب
اسنے سنواری گیسوئے پرخم تمام شب
دل کے مراد پائیں گے چرخ بریں سے کب
دیکھ لی جو اک نظر وہ وروے پرنور آفتاب
لائیں ہاتھ سے اپنے اگر جناب شراب
دھیان دل میں پھر کسے گل کا نہ لائے عندلیب
یونہیں آجا مری ویرانی میں یار آپسی آپ
ردیف الباء فارسی
ردیف التاے مثناۃ فوقانی
گوہے شراب وساقی وصحن چمن درست
زاہد وتمکو مبارک ہے حوراے بہشت
درد لب ازبسکہ نام احمد واسم علیست
غیرت سنبل کا رشک مشک گیسوئے دوست
ردیف الثائے مثلثہ
شاعرو تم کو ہے اس بات میں تقریر عبث
اے صنم ہے وہ رخ کے تل پر چوٹ
ردیف جیم عربی
برسار ہی ہے خون مژۂ اشکبار آج
چپ گئی وہ صبح دم جو ماہ انور کی طرح
بل کی لیتے ہیں سراسر مری تقدیر کے پیچ
ردیف جیم فارسی
ردیف حاے حطی
کب رہی سر سبز ہم نخل گلستاں کی طرح
ردیف خاے معجمہ
پوشاک جو پہنے ہے تو اے رشک چمن سرخ
فرقت کے ساتھ آئی اجل یک نہ شد دو شد
خدا ہے مرتبہ واں محمد
ردیف دال مہملہ
ازدل مخزوں چو آہ ایں نیم جاں خواہند کشید
ہم کو مژگاں جگر ودوز کے ہیں تیر پسند
مالداروں کو ہے دولت پر گھمنڈ
قیس وفرہاد کا میں ہوں استاد
جیسی بین یار کے لب شکر فشاں لذیذ
بنی جو زہرہ جبینوں کے زیب سر تعویذ
جیسے ہین یار کے لب شکر فشاں لذیذ
ردیف راے مہملہ
بل کھا رہی ہے زلف سیہ فام دوش پر
جاگا یہ دم ذبح مقدر تہ خنجر
پیچ دیتی ہے ہمیں زلف بت بے پیر پھر
سانولارنگ ہے اور اس پہ وہ جوڑا سر پر
ابرو مژہ اے یار ہے خنجر تہ خنجر
یہ تل نہیں ہیں آئینہ روئے یار پر
گرم ازنگہت زلف است سودائے دگر
جو گلشن سے سوار آئی اگر تو ہو کر
ردیف زاے معجمہ
بن گئی صور کے آواز کجر کے آواز
آنکھوں کو ہے جما ل خداداد کی ہوس
ردیف سین مہملہ
اس ماہ کے ہے ابروئے خمدار کی تلاش
ردیف شین معجمہ
ردیف صاد مہملہ
ایک ساعت میں ہزاروں مرتبہ بدلا خواص
منظور ہے جو قاتل خود کام سے غرض
ردیف ضاد معجمہ
پیدا ہو خاک نرگس جادو سے ارتباط
ردیف طائے مہملہ
ردیف ظاے معجمہ
ردیف عین مہملہ
دیکھیں تو ذرا آکے پتنگے جگر شمع
جمال گل سے جو بلبل ہے باغباں محفوظ
ہے مہ عارض کی تیرے طالب دیدار شمع
وہ مہ جو بام پر پنے کبھی جلائے چراغ
ردیف غین معجمہ
ردیف فا
قصر وباغ جاں میں ہے جیسے سوائے زلف
چشم پرنم جانہ ایدل کوئے قاتل کی طرف
سیکڑوں آئے ہزاروں ہی سدہارے مشتاق
ردیف قاف
ابتدا میں ہو اگر معلوم کچھ انجام عشق
اے طبیبو جس کو ہو آزار عشق
ردیف کاف تازی
گزرا نہ اسطرف سے وہ شہسوار ابتک
سر پہ ہے جن کی طرح عشق پری زاد الگ
کم سنو تکونا مناسب ہے پہنا ہار پھول
ردیف کاف فارسی
ردیف لام
باغیوں نے لیکے بھیجے ہیں تمہیں میلے سے پھول
ستم اٹھائیگا اوگل ہزار میرا دل
ضعف ہے طاقت اگر دے مجھ کو یزداں آجکل
اس جنگ وجو کے سامنے ہاں خوف جان سے ہم
ردیف میم
وہ پری پیکر خفا ہے آج کل
زاہد وشیخ وصنم گبرو مسلماں پانچوں
ردیف نون
ہوں گے نہ انکے دید سے اب کامیاب ہم
جنوں کے ہاتھ سے پھٹ کر گریباں آستیں دامن
مجھ جاں بلب کے پاس سے جاتے ہو گہر کہاں
دیکھیں جو بلبلیں مرے نازک بدن کے پاؤں
جہاں میں حشر کا سب اشتباہ کرتے ہیں
حد سے باہر جسے ہم ایک قدم دیکھتے ہیں
نہ بحث ان واعظوں سے ایدل ہزاروں سر یہ پھرا چکے ہیں
یہ ترکان حسیں دیکھو تو کیا انصاف کرتے ہیں
دلا اب انکو مرا کچھ خیال ہے کہ نہیں
حرام اس موسم گل میں جو میخواری سمجھتے ہیں
غربت میں جان دی ہے کوئی ہم وطن نہیں
نہ ہو جا خالق ارض وسما کی مدح خواں برسوں
بے سبب باغ جہاں میں گریۂ شبنم نہیں
ہیں منتخب کرو میں مضرد ہزار میں
بیکار مشک وعود ہیں خوشبو اگر نہیں
نہ مرنے سے ڈرے ہم عشق کامل اسکو کہتے ہیں
پیچ دیتی ہے ہمیں پھر زلف پیچاں سیکڑوں
چند اشعار بطور قصیدہ در منقبت حسنین سرور کونین رضی اللہ تعالی عنہما
مہ وخورشید سے مشہور سوا دونو ہیں
اگر وہ باغ کو ہمراہ دشمن جانیوالی ہیں
لالۂ وگل کاہے کیا نشو نما گلشن میں
آنے میں میرے گھر کے جو لیت ولعل نہیں
گنہگاروں میں ہیں ہم اسلئے دن رات روتے ہیں
گل گلشن میں ایسی ہے نہ ایسی حور جنت میں
دکھایا جو گیسو دوبارا ہمیں
لگا لگا کے حنا ہاتھ لال کرتے ہیں
زلف کھولو عاشقوں پر نازل آفت ہو تو ہو
ردیف واو
ہوتا ہوں وصل کا جو طلبگار رات دن
دل اپنا ہم کو دید دیا ہمارا دل صنم لیلو
سمجھو گے مری بات کو حق یار کہیے تو
شام وصل آج عطا کی جو خدانے ہم کو
بہلایا ہم نے آنکھوں سے جو دیکھا بزم جاناں کو
ہے یہ دیدار اخیرآکے جنازا دیکھو
کیا گریباں گیر ہوگا اس کا خواہاں تک نہ ہو
آنکھ اٹھا کر نہ جوش ادھر دیکھو
ہوا دشمن جاں ہمارا زمانہ
روز اول سے ہے فرقت میری تقدیر کے ساتھ
اے دل بروں کو ہجر میں سب سے بھلا سمجھ
ردیف الیا
حضرت دل بھی ہیں بسمل اس ستم ایجاد کے
الفت بڑھاؤں خاک بت سیمبر کے ساتھ
تذکرے ہیں کعبۂ دل میں خدا کی یاد کے
تیغ ابروے ہلالی سے جگر بسمل ہے
ہوا رقیب تو مجھ خستہ تن کو عید ہوئی
یاد دنداں میں یہ طغیانی ہے ہر آنسو کی
برنگ مہرتاباں عارض روشن چمکتا ہے
وہ کاغذ تختۂ لالہ سے رنگینی میں افزوں ہے
ادھر ابر بہاری جانب میخانہ آتا ہے
سر کے کٹنے میں تہ رہتے مجھے مشکل کوئے
جلے سینہ تو پھر کیوں کر دل مضطر مرا ٹھہرے
چیختے چیختے بلبل کی زباں سوکھ گئی
عدم سے کیا عبث اس عالم غدار میں آئے
دیکھ کے رخسارۂ روشن کا جلوہ دور سے
جان پر بڑھ کے قیامت سے قیامت ہوگی
کون کہتا ہے مری قاتل کا تن آہن میں ہے
جس لطف پر ہے آج گھٹا کچھ نہ پوچھیئے
ارادے ہیں یہی اپنے جگر کے جان کے دل کے
جو آنکھ سے گل رخسار یار دیکھیں گے
عدم سے ہم عبث اس دہر ن افر جام میں آئے
تیری صحبت سے جو اے حور شمائل اٹھے
فراق یار میں دیکھے اگر رونا مرابدلے
جوش سب خاک اک گردش ایام میں ہے
بل دیے زلفوں میں جو اس ظالم بیباک نے
کعبۂ مقصود دیکھیں گے جو ہمت دل میں ہے
فراق ساقی میں جوش جام شراب ہم لیکے کیا کریں گے
ہم نے اس عالم اسباب سے کیا رکھا ہے
منہ موڑیں گے اے ترک نہ ہم تیغ ادا سے
دیکھا نہیں نور رخ قاتل کئی دن سے
اللہ رے کا وشیں مژۂ اشکبار کی
جب سے ہے مد نظر وہ نرگس جادو مجھے
بگڑتی ہے تری باعث کہو اس آفت جاں سے
لو شمع کی جس رونق محفل سے لگی ہے
اس کمر کی جستجو مثل دہن بے سود ہے
طالب کو آپ بوسہ امداد کیا کریں گے
کمر کے عشق میں اے بت یہ زور ناتوانی ہے
شب کو سوتے تم جو غافل رہ گئے
غضب کے یہ چہرے ہے یاستم کی یہ کٹاری ہے
ان آنکھوں کی بدولت دل پہ آفت آہی جاتی ہے
اب دیدۂ اغیار جو قاتل سے لڑیں گے
اگر حرص وہوائے باغ عالم سے جدا ہوتے
بالائے سر یہ ترک جو تلوار کھینچتے
جاکر بھڑا دیا بت گلفام سے مجھے
واعظو دل سے جو تم ذکر بتاں بھول گئے
خوں رولایا اسکو تم نے جس سے ہنس کر بات کی
یہ چھیڑ نئی اوبت عیار نکالی
جب کہا یہ میں نے دل او دشمن جاں چاہیئے
ہم غریبوں کو نہ اے ظالم ستانا چاہیئے
ہم پریشاں خاطروں کو بھول جانا یاد ہے
کچھ مال ہے سیم وزروالماس وگہر ہے
مقتل عشق میں کہیئے تو گزر کس کا ہے
جب تک قیام گردش چرخ بریں رہے
کہاں دیکھیں ہیں سیریں سیر ہوکے بزم عالم کے
تمہاری زلف کا بوسہ اگر لیتے تو ہم لیتے
برنگ ابر ہوں گریہ کنان تمہارے لئے
شکل وہ نور کی اے زہرہ جبیں پائی ہے
جانے سے اس کے عالم ویرانہ گھر میں ہے
نظر مہر سے جو آپ نظارا کیجے
جو تمہارے لب ودندان کی پھبن دیکھ چکے
خانۂ غیر میں تم جا کے جو مہمان رہے
شب فراق بسر کی یہ مینے رٹ رٹ کی
بخدا جو رخ گلگوں صنم دیکھیں گے
غزل فارسی
حرکت ایں چہ ساختی ایچرخ
بار سر ممکن نہیں مجھ ناتواں سے اٹھ سکے
حاجیو گر طوف کعبہ تم کو فرض عین ہے
موڑوں گا منہ نہ عشق بت خود پسند سے
وہ صحبتیں نہ اب وہ مدارات رہ گئے
کیوں رنج سے حالت نہ ہو تغیئر ہماری
نہ آنکھ اٹھا کے جناں میں سوئے چمن دیکھے
عاشق افسوس نہ عکس رخ روشن دیکھے
حیرت ہے ڈھونڈھتے ہے مری چشم تر کسے
دہن غنچہ ہے نرگس آنکھ ہے رخسار لالا ہے
تمہارے افعیٔ گیسو نے ہم مارا ڈالا ہے
اگر وہ گھر سے باہر آج خنجر لیکے نکلیں گے
ہاں رہنے کو ملا نہیں کوئی بتاں مجھے
جائے کب یہ عشق کازار دیکھا چاہیئے
تری زباں کو اگر شوق گفتگو کم ہے
بھرا ہے وہ سراسر بغض سے بدتر ہے پتھر سے
تمہاری دولت دیدار کی خیرات اچھی ہے
خمسۂ اول غزل استاد مشہور مسمی خواجہ حیدر علی آتش مغفور
خمسۂ دوم غزل میان مصحفی حسب فرمایش وست خفی وجلی مسمی سید میر اعلی
خمسۂ سوم غزل استاد مشہور مسمی خواجہ حیدر علی آتش مغفور
خمسۂ چہارم غزل خود
خمسۂ پنجم جدید غزل استاد مشہور مسمی خواجہ حیدر علی آتش مغفور
خمسۂ ششم جدید غزل فارسی قبلۂ دوجہان وکعبہ نیازمنداں مسمی نواب محمد مقیم خاں۔۔
خمسۂ ہفتم لی مانند غزل سید محمد خان مرحوم متخلص بہ رند
خمسہ ہشتم غزل فارسی اخوان صاحب محمد ظفر بانجام مرحوم متخلص ناسخ ہمتائی
خمسۂ نہم جدید غزل نواب محمد مرزا خان صاحب بہادر متخلص بہ عیش
خمسہ دہم غزل منشی فضل رسول صاحب ساکن سندیلہ متخلص بواسطے شاعر بینظیر۔۔۔
خمسۂ یاز دہم غزل استاد مشہور مسمی خواجہ حیدر علی آتش مغفور
خمسہ دو آزدہم جدید غزل بی بدل جدامجد مسمی نواب محبت خان بہادر مرحوم۔۔۔
خمسۂ سیزدہم غزل راجہ تعشق حسین صاحب متخلص بہ تعش صاحب
خمسۂ چہار دہم غزل برادر عزیز سراپا تمیز نواب محمد عبدالعزیز خانصاحب
خمسۂ پانزدہم غزل برادر سلیمان خان صاحب متخلص بہ اسد
خمسۂ شانز دہم غزل آشنائی سعید مسمی راجہ غلام حسین خان متخلص بہ وحید
خمۂ ہفتد ہم غزل فارسی قبلۂ دو جہاں وکعبہ نیاز منداں مسمی نواب محمدمقیم خان بہادر
خمسۂ ہشد ہم جدید غزل مشفقی مکرمی جناب منشی میانداد خانصاحب
مسدس ہذا حسب فرمایش نواب مبارک علیخان کہ خلف نواب محمد سعید خان
عاشق جو ان بتوں کے سیہ خال کا بنا
اشعار مفرق
جاندے زلف پری زاد پہ ایدل کیونکر
تاریخ انتقال پر ملال جناب قبلہ گاہی صاحب مسمی نواب محمد مقیم خاں
قطعۂ تاریخ تصنیف شدن تحفۂ اودہ کہ بطور نذر شہزادہ صاحب
بطور مثنوی در صنعت توشیح چند اشعار بمدح مشفقی مکرمی منشی نو لکشور صاحب
واسوخت تصنیف نواب احمد حسن خان ذی ہوش موسوم بہ فسانۂ جوش
قطعۂ تاریخ مرتب شدن دیوان ہذا از نتایج افکار برادر محمد سلیمان خانصاحب
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.