جم جائے جبکہ پاد میں اس دلربا کارنگ
دیکھنا ان خال سے رخسار جانان کا تپاک
کہے دیتے ہیں ہر آن کے قصاب سے ہم
نیم بسمل نہ اسے چھوڑ کے گھر جا قاتل
تمہارے ہجر میں صالح کیا جناب ہمیں
ہے دلکوالفت زلف بتان نہیں معلوم
سگ دنیا جو ہیں کب جود وسخا رکھتے ہیں
دنیا کی نجاست سے بری گوشہ نشین ہے
قیس کا نالہ اسے گوز شتر پھر ہوگیا
دم گریہ بدرو بار کی جب یاد کرتے ہیں
تو نے آنا جو وہاں غنچہ دہن چھوڑ دیا
کام میرا غیر کو ے بزم جانان میں نہیں
مہر و وفا کے بدلے ستم یار نے کیا
چرکین غرض نہیں گل و گلزار سے ہمیں
سرو ہی کھینچ کے قاتل جد ھر کو جا نکلا
چمن میں پھنیکا اس گل نے جو استنجے کے ڈھیلے کو
بوسہ طلب نہ تجھ سے جو اے خوبرو کرین
چرکین غرض نہیں گل گلزار سے ہمیں
اگر بیت الخلا سے یار چرکین کام جان ہوگا
عمر چرکین کا ہوا گل اوبت پر فن چراغ
موت کی تھائی سے وہ کم ساقیا ساغر نہیں
بھلا کیوں نکر نہ آئے دستاے چرکین مجھے خونکا
جب سے گئے ہیں کوچۂ دلدار کی طرف
مژدہ وصل آئے جساے فراق
نہ غیر کو نے سے اے یار ربط کر پیدا
بیت الخلائے یار میں کیا غیر جا سکے
پاخانہ وہیں ہو گیا گلزار تمھارا
غیرکا دھک سے ہوا دل کیو ں جاری خون ہوا
مجھ سے چرکین وہ خفا ہوگیا
آنہیں سکتا ہے گو چرکین ہمارے در کے پاس
بے ڈول ہی کچھ آپکے بیمار کی طرح
جوشیفتہ ہے رخسار و قددلبر پر
یار کا بیت الخلا ہے ہفت باب آسمان
باغ میں جاوے تو شیخ اب رند ہیں اس تاک میں
موت دیوے جو ابھی خنجر بران تیرا
قبض سے اب یہ حال ہے صاحب
معطر ہوگیا اک گوزمیں سارا مکان اپنا
نہ آئی ہجر میں کروایا انتظار بہت
کل جو تیرے قید گیسو سے چھٹا تھا اے پری
یار بن کسکو خوش آٹی ہے نواے عندلیب
اب کی چرکین جو زر کماؤں گا
غیر تب بولائیگا جب وہ خفا ہو جائیگا
تھا گر فتاری میں جو خطرہ مجھے بیداد کا
گوزاک ایسا لگایا ہے پرانی چال کا
لگا کر غیر کے اتنا بھی چرکا
چرکین رہا نہ پاس تجھے نام دننگ کا
وصف گیسو پردل چرکین پھر مائل ہوا
تھے مقیداے جنون بیت الخلاے یار میں
رند ہر اک مارے خطر ے کے مودب ہو گیا
گو جدا چھلے گا خوش ہو ئینگے اغیار جدا
بے یار سیر کو جو میں گلزار تک گیا
سب کو پوشیدہ جو آنکھوں سے وہ مہ پارا ہوا
ساغری چرتی ہے ساقی جب یہاں آتی ہے شمع
عبث کھاد اے باخان کی تلاش
گلستان دہر میں تجھ سا کوئی گلرو نہیں
پڑا رہ تو بھی اے چرکین برابر پا خانہ میں
رندو نہ لاؤ شیخ کی شیخی خیال میں
ہگدے اگر چہ وہ بت بے پیر ہاتھ میں
کیا دور ہے کیا سفل اعلیٰ کو مارتے ہیں
قبلہ رو میخانہ ہے میں موتنے جاؤں کہاں
دیکھتا مہتر پسر کی ہو نمیں صورت خواب میں
آجاتی ہے طاقت ترے بیمار کے تن میں
ہے وہ گلرو یاد ہم کو گلشن ایجاد میں
سدّے افیونیو نکے گھولکے چپکے پی لیں
جو اختر و نپہ ترے بن نگاہ کرتے ہیں
گل آدم مری قسمت نے بنایا مجھ کو
گو کھانا خالی دنیا ہے قاتل کے وار کا
کوئی اتنا بھی جاے طعن خاص و عام ہو
عشق کا رنگ جو اے گل نظر آیا مجھ کو
چاندنی کے کھیت میں ہگنے جو بیٹھا ماہرو
جم جائے جبکہ پاد میں اس دلربا کارنگ
دیکھنا ان خال سے رخسار جانان کا تپاک
کہے دیتے ہیں ہر آن کے قصاب سے ہم
نیم بسمل نہ اسے چھوڑ کے گھر جا قاتل
تمہارے ہجر میں صالح کیا جناب ہمیں
ہے دلکوالفت زلف بتان نہیں معلوم
سگ دنیا جو ہیں کب جود وسخا رکھتے ہیں
دنیا کی نجاست سے بری گوشہ نشین ہے
قیس کا نالہ اسے گوز شتر پھر ہوگیا
دم گریہ بدرو بار کی جب یاد کرتے ہیں
تو نے آنا جو وہاں غنچہ دہن چھوڑ دیا
کام میرا غیر کو ے بزم جانان میں نہیں
مہر و وفا کے بدلے ستم یار نے کیا
چرکین غرض نہیں گل و گلزار سے ہمیں
سرو ہی کھینچ کے قاتل جد ھر کو جا نکلا
چمن میں پھنیکا اس گل نے جو استنجے کے ڈھیلے کو
بوسہ طلب نہ تجھ سے جو اے خوبرو کرین
چرکین غرض نہیں گل گلزار سے ہمیں
اگر بیت الخلا سے یار چرکین کام جان ہوگا
عمر چرکین کا ہوا گل اوبت پر فن چراغ
موت کی تھائی سے وہ کم ساقیا ساغر نہیں
بھلا کیوں نکر نہ آئے دستاے چرکین مجھے خونکا
جب سے گئے ہیں کوچۂ دلدار کی طرف
مژدہ وصل آئے جساے فراق
نہ غیر کو نے سے اے یار ربط کر پیدا
بیت الخلائے یار میں کیا غیر جا سکے
پاخانہ وہیں ہو گیا گلزار تمھارا
غیرکا دھک سے ہوا دل کیو ں جاری خون ہوا
مجھ سے چرکین وہ خفا ہوگیا
آنہیں سکتا ہے گو چرکین ہمارے در کے پاس
بے ڈول ہی کچھ آپکے بیمار کی طرح
جوشیفتہ ہے رخسار و قددلبر پر
یار کا بیت الخلا ہے ہفت باب آسمان
باغ میں جاوے تو شیخ اب رند ہیں اس تاک میں
موت دیوے جو ابھی خنجر بران تیرا
قبض سے اب یہ حال ہے صاحب
معطر ہوگیا اک گوزمیں سارا مکان اپنا
نہ آئی ہجر میں کروایا انتظار بہت
کل جو تیرے قید گیسو سے چھٹا تھا اے پری
یار بن کسکو خوش آٹی ہے نواے عندلیب
اب کی چرکین جو زر کماؤں گا
غیر تب بولائیگا جب وہ خفا ہو جائیگا
تھا گر فتاری میں جو خطرہ مجھے بیداد کا
گوزاک ایسا لگایا ہے پرانی چال کا
لگا کر غیر کے اتنا بھی چرکا
چرکین رہا نہ پاس تجھے نام دننگ کا
وصف گیسو پردل چرکین پھر مائل ہوا
تھے مقیداے جنون بیت الخلاے یار میں
رند ہر اک مارے خطر ے کے مودب ہو گیا
گو جدا چھلے گا خوش ہو ئینگے اغیار جدا
بے یار سیر کو جو میں گلزار تک گیا
سب کو پوشیدہ جو آنکھوں سے وہ مہ پارا ہوا
ساغری چرتی ہے ساقی جب یہاں آتی ہے شمع
عبث کھاد اے باخان کی تلاش
گلستان دہر میں تجھ سا کوئی گلرو نہیں
پڑا رہ تو بھی اے چرکین برابر پا خانہ میں
رندو نہ لاؤ شیخ کی شیخی خیال میں
ہگدے اگر چہ وہ بت بے پیر ہاتھ میں
کیا دور ہے کیا سفل اعلیٰ کو مارتے ہیں
قبلہ رو میخانہ ہے میں موتنے جاؤں کہاں
دیکھتا مہتر پسر کی ہو نمیں صورت خواب میں
آجاتی ہے طاقت ترے بیمار کے تن میں
ہے وہ گلرو یاد ہم کو گلشن ایجاد میں
سدّے افیونیو نکے گھولکے چپکے پی لیں
جو اختر و نپہ ترے بن نگاہ کرتے ہیں
گل آدم مری قسمت نے بنایا مجھ کو
گو کھانا خالی دنیا ہے قاتل کے وار کا
کوئی اتنا بھی جاے طعن خاص و عام ہو
عشق کا رنگ جو اے گل نظر آیا مجھ کو
چاندنی کے کھیت میں ہگنے جو بیٹھا ماہرو
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔