سرورق
تمہید از خیبر
مرزا دبیر علیہ الرحمہ
قطعات تاریخ ترتیب وطباعت مثالی از شعرائے نامی بحساب ابجد
قطعہ تاریخ طبع سبع مثالی مصنفہ حقیر سید سرفراز حسین خیبر رضوی
قطعہ تاریخ از جناب چودھیر سید نظیر الحسن صاحب فوق رضوی اسپشل مجسٹریٹ وریس مہابن ضلع متھرا ارشد تلامذہ حضرت اوج مرحوم
قطعہ تاریخ از جناب چوھر سید مسعود الحسن صاحب قیسؔ رضوی خلف عالیجناب
صرف چند صریح غلطیوں کی تصحیح کیواسطے غلطنامہ درج کیا جاتا ہے
گلشن میں ہوا تخت نشیں شاہ بہاری
سلطان بہاری نے تجمل جو دکھایا
کوفہ میں بہار آئی جو گلگشت چمن کو
وہ موسم گل رنگ پہ کوفے کے چمن میں
لشکر وہ درختوں کا وہ شاخوں کی سنانیں
نیزے صف سبزہ نے جو تانے سوے گردوں
ناگاہ ہوا بدلی اٹھا جنگ کو باراں
پھر لیکے قلم فرونگہداشت اوٹھالی
مصرع میں جو موزوں میں کروں خوبی گلزار
ہے طبع کو فوارونکی مدحت میں روانی
وہ جشن وہ سبزے کا نیا فرش لب نہر
وہ مشک بدوش ابر کا ہر باغ میں آنا
ہے موسم گل حسن پہ گلزار جہاں ہے
وہاں ملتے ہیں بچھڑے ہوئے باپ آکے بسر سے
کوفہ میں بہار آئی شفا پاتے ہیں بیمار
دیکھے کوئی انصاف کی نظروں سے خدا را
گذری ہے نگاہ شہ والا سے یہ تحریر
غش آگیا ہے قبر میں نانا کو تمھارے
مرقد پہ نبی کے جو گئے سیّد والا
لکھے ہیں یہ خط کوفیوں نے اے شہ ابرار
شپیر نے عمامہ کو پھر قبر پہ رکھا
رو رو کے یہ کہنے لگا زہرا کا مسافر
تن خاک میں ملجائے تو سراوج سناں پائے
درکار نہیں مجھکو جہاں کا سرو ساماں
جب سینہ اٹھاتے تھے لحد سے شہ والا
لو میں کو رلوادیا مولا کی دعا نے
یہ میں نہیں کہتا نہو اصغرہدف تیر
عتول ہوا اٹھارہ برس کا مرا بیٹا
خط دیکے یہ مسلم سے کہا شہ نے کہ جاؤ
سوم تھی رجب کی جومدینہ ہوا ویراں
پھر زیب وہ رکن ومقام آکے ہوے شاہ
ہر قاصد کوفہ نے یہ کی عرض کہ باشاہ
کعبہ سے چلا ایلچی نائب حیدر
پانی بہت ان رہبرون نے دشت میں ڈھونڈھا
لکھا ہے سر راہ عدم آگئے رہبر
وارو ہوئے اس بادیہ میں ششدروحیراں
کیا رحم ہے ان مردوں کو خود جاکے اٹھایا
دیکھا یہ عریضہ تو نہ سنبھلادل پر غم
شہ بولے ابھی سے نہ کمر توڑو یہ کہکر
پھر کھینچ کے مدشاہ کو عرضی میں یہ لکھا
فرمان دہ کونین کا پہونچا جو یہ فرمان
اب لکھ۔تے ہیں یوں واقعۂ مسلم ذیجاہ
ہر حلبہ میں مشتاق یہ سب کہتے تھے رو رو
کوفہ میں وکیل شہ جن وبشر آیا
مسلم نے بھی یہ سن لیا بعضو کی ز بانی
وہ کہتا تھا مسلم کو ابھی تجھ سے میں لونگا
مسلم کو جو مہمان کرے وہ ہے گنہگار
جب پڑتا تھا دُرّہ تو وہ یہ کرتا تھا تصریر
کر قطع زباں ہاتھ اٹھاتا ہوں میں جاں سے
کوفہ میں جو پابند بلا ہوگئے مسلم
وہ شہر پر آفت وہ تلاطم وہ شب تار
یاں رشتہ بیعت کو ستمگاروں نے توڑا
وارد ہوانا گاہ در طوعہ پہ ششدر
طوعہ گئی اور جام لبالب دیا لاکر
آخر کہا طوعہ نے کہ اے بیکس وتنہا
اک دوست جو ہانی تھا ہواقید وہ غمخوار
پر دیکھ کے طوعہ کی طرف بولے یہ رو کر
اصول کو بڑھا کر یہ پکاری وہ خوش ایماں
کھ جانے کو طوعہ نے کہا جبکہ کئی بار
حیرت ہوئی طوعہ کو یہ بولی وہ حق آگاہ
لشکر کی ہوئی خانۂ طوعہ پہ چڑھائی
ناگہ پسر طوعہ نے یہ تذکرے سن پائے
لکھا ہے نویں رات تھی ذالحجہّ کی یہ آہ
یثرب کے مسافر کی مدد کرنے کو آؤ
پھر تھام لیا مسلم مظلوم کا داماں
تھامہر ابھی زین فلک پر نہ مزیّن
درپے ہوا کیوں ابن زیاد اسکا گہنہ کیا
مسلم نے کہا ضامن جنت ہوں میں تیرا
کہتے ہیں جسے روح وہ کیا ہے بدن انکا
بیٹھے ہوئے ہیں سب یہ محب شرابرار
تاریخ نہم صبح شہادت ہے نمودار
ہاں مشتریاں قمر برج فصاحت
روشن ہے رخ پاک سے اللہ کی قدرت
اللہ ری تمناے ضیاے رخ انور
آئینہ ہو اس رخ کے حضور آنکے حیراں
چہرہ چمنستان تجّلی خدا ہے
پیشانی پر نور کی کیا شان کہیں ہم
خورشید فلک پیش جبیں ذرّہ سے کمتر
ہے چشم جو بیمار تو پلکوں سے ہے پیدا
اب چیں جبیں کی میں بیاں کیا کروں تاثیر
یہ سب تو عبارت ہے معانی کروں اظہار
ابرو کے تلے کیجئے بینی کا نظارا
اس مدح سے کچھ دل نہ شگفتہ ہوا میرا
ہیں دوا بردہے عیاں بینیٔ اطہر
پیداشب کا کل سے سیہ روزیٔ اعدا
کا کل ہے کہ ہے رشتہ گلدستۂ رخسار
غنچہ نہ کہوں لب کو غنچہ ہے تنک ظرف
تعریف دہن میں تو دہن بستہ ہے میرا
سینے کو لکھوں سطحۂ آب در غلطاں
اب چاہ زنخداں کا سنو تازہ بیان واہ
نازک شکم صاف پہ یوں ناف نمایاں
ہے گوہر دنداں کا ترو خشک میں شہرا
ہر ساکن کعبہ کا ہے یہ قول سپر پر
دیکھو سراعلیٰ پہ ذرا خود کا عالم
قد کو نہ کہوں سر وگلستان کے برابر
انگشت اشارت جو نہ ہو تیغ کی پیدا
بیاد صف ہو تو سن کا ٹھرتے نہیں مضموں
کر خط شعاعی کی طرح لاکھ زباں ہو
صحراب عبادت ہے کماں آپ کی گویا
ملوار وہ ہے اس سے جو تشبیھ کا دھیان آئے
یہ چست اجل ست ڈپیراوریہ جواں ہے
غصہ سے جو سرخ آنکھ ہو اسکی دم جولاں
کیوں مومنو تصویر ہر اوّل نظر آئی
ہیں شش جہت اس توسن چالاک سے ششدر
پر گرد جو معلوم ہوا گنبد گرداں
برسانے لگے آگ عدد طیش میں آکے
اک حملہ میں مارا چہل وپنج کو اکبار
وہ بولے کہاں انکی ضیافت کا ہے ساماں
یاں سے تو سربام بدن جاتا تھا تنہا
اعجاز خلیل ایلچی لشہ نے دکھایا
چھالے تن نازک پہ نظر آتے تھے صدہا
سیلاب دم تیغ کی تھی چار طرف گشت
نیزہ کہیں مرکز جو ہوا گاف جگر کا
دریا یہ چڑھا ظالموں کے خون کا اکبار
ان آبلوں میں گرم عنانی کا یہ تھا حال
لشکر یہ خبر حاکم کوفہ ہوا دل تنگ
مدت سے سنا تھا جو نہ حال شروالا
کہتے ہیں کہ کہنے لگا اک ظالم گمراہ
یہ کہتے ہی غش ہوگئے گھوڑے سے گرے ہاے
ناگہہ لب ودنداں پہ لگا سنگ جفا کار
القصّہ کہ حاکم نے حضور اپنے بلایا
فرمایا کہ حاشا جو تاسف ہو کچھ اپنا
حاکم کا جو فرماں عمر سعد نے پایا
پھر طوعہ نے ہونٹوں سے لگایا وہ پیالا
تقصیر ہوئی بخشیوں لکھنے پہ نا جانا
ذیج کی نویں عرفہ کادن قتل کا ساماں
بیوہ ہے مری خواہر عباس دلاور
روداد بہت وقفہ کم اے شاہ خوش انجام
حمران کے فرزند سے حاکم ہوا گویا
ڈر کر کوئی کہتا تھا پناہ اے مرے اللہ
جاد نے تب بازوئے مسلم کو لیا تھام
خط لکھ کے عمر کو دیا اور بولے یہ آقا
کعبہ سے اسی روز روانہ ہوے تھے شاہ
کوفہ کی طرف شاہ نے منھ اپنا پھرایا
تب دھیان میں شپیر کے مسلم یہ پکارے
کوفہ کی زمین نے سر رفعت کیا پیدا
پیر پکارے ترا بابا ہے بہت دور
کیا روتے ہو لوگو مرے بابا کو پکارو
سر پیٹ کے سر ننھا سا حضرت کو پکاری
چہروں پہ طمانچے حرم شہ نے لگائے
پرلاش کو کوچوں میں پھراتے تھے جو بد خواہ
مظلومیٔ مسلم پہ دبیراب تو بکا کر
سر پیٹنے کی جاہے گر اجبکہ وہ لاشا
قاتل نے لگائی سر مسلم پہ جو شمشیر
آیا عروج پرسہ گشتی ستان مہر
جب ماہ نے نوافل شب کو ادا کیا
کلگونۂ شفق جو ملا حور صبح نے
پیدا ہوا سپیدۂ طلعت نشان صبح
بڑھ کر نقیب نور پکارا سحر سحر
یونس دہاں ماہیٔ شب میں نہاں ہوا
جلاد چرخ نے رخ آفاق فق کیا
مغرب میں جبکہ غرق جہاز قمر ہوا
کانٹوں میں جو گھرا ہوا تھا مالک جناں
کہسار اوج نیر قدرت سے دنگ تھے
ہمارے مقام سیر سے جاتے نظر پڑے
مغرب میں غل تھا گلشن انجم ہے پائمال
لکھ لے ملازمان حسینی کا خط وخال
تھا شام سے برہمن شب جو قمر پرست
معبود سے تھے مرغ سحر طالب فلاح
دیکھا جو حسن خامۂ خورشید پر ضیا
آئی صداے خضر کہ لبیک یا امام
وہ نور وہ سپیدہ وہ صبح اجل نما
تمغا ہے غازیوں کے لئے خوف ذوالجلال
کھا ہے باوضو تھے امام ملک خصال
فرمایا ذوالفقار سے ہے وقت یاوری
کلثوم کو پکاری وہ حیرت کی مبتلا
نام سلاح سنکے حرم پر چھری چلی
یوں صبحدم غلاف میں ہے تیغ اشکبار
شہ نے کہا خدا تو ہے گرہم نہیں نہیں
نگاہ الوداع بھی آعاز ہوگئی
زینب کا سینہ پھٹ گیا جی سننا گیا
عابد کو اک صحیفہ کیا شاہ نے عطا
تکلیف ہر امام کی ہے اسمیں حسب حال
یہ سنتے ہی سکینہ ہوئی ششدروحزیں
وعدہ قسم کے ساتھ اگر ہو تو مانیں ہم
یہ کہتے تھے کہ جانب پہلو پڑی نظر
بھولا طلوع صبح کے جلوے کو روز گار
القصہ اس کو دیکے تسلی ہزار ہا
مجرائی بار گاہ میں آئے ادھر ادھر
تشریف جانب دردولت حسین لائے
مثل براق نازکناں آیا ذوالجناح
پھر تو ہزاروں ہاتھ اٹھے رن میں ایکبار
عصمت سراسے جبکہ برآمد ہوئے جناب
لپٹے ہوئے رکاب وعناں سے تھے شاد شاد
جلوہ فلک فلک تھا تجلّی زمیں زمیں
سب ماہرو تھے شاہ پہ ہالہ کئے ہوئے
رن کو رواں سواری سلطان دیں ہوئی
کیا شاہ کی شکوہ سواری کہوں میں واہ
اللہ رے حسن یوسف بازار حیدری
یوں شہ نے کی درست صف میمنہ نخست
وہ تن پہ زیب اسلحہ وہ صف کشی کی شان
آقا تھے روح چار عنا صریہ جاں نثار
فارغ نماز روزہ وحج وزکات سے
اک ایک خضر لشکر والیاس قافلہ
کلمہ حسین کی وہ محبت کا پڑھتے تھے
بہر زرہ تیغوں کے جوہر اوتار لیں
آہنگ جنگ پر ہوئے آہنگ جابجا
ناگاہ مثل موج بڑھی فوج بدشعار
ہادی چلا ہدایت امّت کے واسطے
مثل نظر حیا ہوئی چشم عمر سے دور
وارث ہے انبیائے اولوالعزم کا حسین
چن لے سپاہ میں فصحائے عرب کو اب
یوں ظالموں سے فرق پہ ٹھرے شہ ہدا
ہرفرد کی عمر نے پڑھی فرد خال وخط
والفجر صبح آج کی ہے اے گروہ شام
پہلے خطاب قاریوں سے شۂ نے یہ کیا
یٰسین میں ہے خطبۂ تعریف مصطفا
ان دو گروہوں نے تو کیا راس وچپ مقام
میں نے کسی کے بیٹے پہ کی ہو اگر جفا
مقروض ہوں کسیکا نہ تقصیر دار ہوں
میں ہوں امیر شش جہت وحاکم زمن
ہوجاتی ہے بشر سے خطا اب بھی بازآد
میں شہسوار دوش بشیر ونذیر ہوں
طوبیٰ ہے جسکا میوہ وہ باغ عطا ہونمیں
بیجا اگر کہوں تو نہ مانو گلا نہیں
کرحکم دے زمین کو ابن ابو تراب
ہر لفظ کے امام نے معنی دکھا دئے
لو بولو نام شرع مٹاتے ہوتم کہ ہم
بابا مرارسول کا قائم مقام ہے
شہ نے کہا یہی تو ہیں اسرار کردگار
فرمایا خیر حق سے ہے پیارا نہ گھر نہ سر
یہ کہہ کے اپنی فوج کی جانب پھرے امام
آنکھوں سے پردہ اٹھ گیا دیکھا یہ اس گھڑی
آوازدی غلام کو آمجھکو تھام لے
حرنے کہا خدا کی طرف سے ہے یہ ندا
شاباش کہہ کے گھوڑے کو اترا وہ نامدار
فی الفور لیکے نام شہنشاہ ذوالفقار
حرنے زمین پر سرسجدہ جھکا دیا
خوش ہو خدا کے ہاتھ ہے تیرا ہر ایک کار
لیکن لباس کرنے لگا جبکہ زیب تن
تیغوں کے شعلے لیکے بڑھے گبر بدسیر
دریا کی طرح موج پہ تھی فوج اہل نار
ڈھالوں کا ابر بڑھتے ہی راہوار کے گھٹا
غل تھا کہ مشرکوں سے مسلماں جدا ہوا
پہونچا قریب فوج خدا جب وہ باوفا
زینب کے کان میں یہ خبر پہونچی ناگہاں
یاں حرکو رو کا ہاشمیوں نے ادھر ادھر
حرکو بھی جوش الفت شپیر آگیا
خود منفعل ہوں مجھکو گنہ کانہ طعنہ دو
یہ سنکے شہ کے گرد پھرے شہ کے خیر خواہ
اپنے قصور پر اسے خود اعتراف ہے
ھلجائیگا سلام ہی سے پرورش کا حال
فضّہ پکارتی ہوئی یہ آئی ناگہاں
پہنے جو ہوں میں حلّہ وہ حیدر کی ہے عطا
آقا کے ساتھ حر سوئے عصمت سرا چلا
سرسے عمامہ پھینک کے حرنے کہا کہ آہ
میں خواب میں تھا کوفہ کی بازار کو رواں
لو یجہ کی نویں سے یہیں ہے بتول پاک
دو یا میں اس بیان پہ رویا میں خوب سا
کجرے کو میں جھکا تو پکاری وہ نیک خو
زینب پکاری یہ تو کہی میرے دلکی بات
بڑھکر سوار ہونے لگا حرنا مور
توبہ کی اس غلام نے یہ خواب دیکھکر
ناگہہ پڑی وداع ہر اول کی دھوم دھام
اب ہے یہاں اشارۂ تائید کبریا
زینب ہوئیں زبان کرم سے گہر فشاں
رن کو رواں ہے تابع فرماں حسین کا
کیوں یارو لوگے نامۂ آزادی سقر
ہر جز وہے عناصر اربع کا انتخاب
سلماں کا فخر ہے یہ مسلمان باوفا
سلطان حسن حر کا رخ بے نظیر ہے
رخ ابجد مطالعہ میں قاف میم رے
پاؤں کو کوہ سر کو کھوں چرخ ہفتمیں
کیا وصف خال رخ کا قلمبند کیجئے
بالذات اوج عقد ثریا نہیں ہوا
محراب کعبہ لب ہیں دہن حجرۂ حرم
عارض سے بدر ہوئے معارض یہ کیا مجال
بینی کے گرد سر ہیں یہ ابرو جدا جدا
دانتوں کو موتی کہتے ہیں اہل سخن تمام
دل صاف سینہ صاف بدن صاف واہ واہ
ہر پنجہ سے عیاں ید قدرت ہے صفا
ہاتھوں کو شاح سروبتاتے ہیں خاص و عام
پیش بیاض گردن حر صبح جیسے شام
وصف زرہ سے شاد ہوئے صاحب ہنر
چار آئینے نے اور ہی صورت دکھائی ہے
چار آئینے ہیں حر کے شرف پر گواہ چار
آنکھوں کے حلقے اب میں زرہ میں لگا ہوں
شیریں ادا وہ رخش پری روہے زیر راں
شہگام اگر چلے کبھی یہ غیرت پری
اس رخش پر سوار جو آیا یہ صف شکن
پرکار سے یہ کاوے میں جولاں زیاد ہے
سمجھا عمر کہ نرم ہوا کچھ دل سپاہ
کھولا کسی نے جینے سے ہوکر تبنگ تبنگ
ہر صف میں غل تھا کون ہے یارب یہ باوقار
گردن ہلا کے شہ کے ہرا دل نے دی ندا
فولاد پوش بصرہ وروم وعراق وشام
اللہ رے شنا ور شمشیر آبدار
غواص تیغ خرکابراے شناوری
عواص تھی یہ تیغ کہ دریا تھی یہ حسام
حرحملہ در ہوا کہ اسد حملہ ور ہوا
ڈردر کے آب تیغ سے سب کوچ کر گئے
ہمدم دم حسام کا اعدا کا دم ہوا
یاں تک شرر فگن ہوئی شمشیر شعلہ تاب
شق کرکے سینہ تیغ گری قعر دل میں واہ
سرداروں پر جو دار کیا کہہ کےیا حسین
دلسوزااشقیا جو بنی تیغ برق دم
شمشیر حر کے رعب سے بسمل تھے اشقیا
آہن رہا تھے سنگدلوں کے دل دنے
لیکر کماں بڑھے قدرانداز ناگہاں
پہلا نشانہ ناوک حرکا پناہ تھی
پریاں تھیں محو تیر عجب چال چلتا تھا
اتنے میں نیزہ دار بڑھے تان کر سناں
چمکایا جس نے نیزہ کو دوڑا کے راہوار
کاندھے پہ رکھ کے نیزہ بڑھا شیر نیزہ دار
دریا لہو کے حر کی شجاعت سے بہہ گئے
حرشہ کے پاؤں چوم کے رنکی طرف چلا
زینب نے درپہ آکے کہا ثر کو مرحبا
حرنے کہا جو پانی ذرا سا ہو مرحمت
خالی ہوا سپاہ سے جب عرصۂ قتال
مشتاق مرگ رن میں گیا حر باوفا
دوڑے پیادہ کہہ کے یہ ہمشیر سے امام
یہ کہہ رہا تھا ظالموں سے حرنا مور
بولے حسین جامرے مہمان الوداع
پھیلا کے ہاتھ شہ نے کہا جاکے متصل
کہتے ہیں جب قریب رہی شہ کی بارگاہ
مقتل میں آکے دیکھتا کیا ہے علی کا لال
عارض پہ حرکے شاہ نے عارض کو رکھدیا
اصحاب نے کہا کہ بجا لائیں ملکے ہم
سب روکے بولے ہم تو ہیں حاضر ابھی مگر
پہونچے جو درپہ لاش لئے شاہدیں پناہ
کہنے لگے حسین کے اصحاب نامدار
میں جاں بلب ہوں طعنۂ اعدا سے مجھکو کیا
تو اپنے دہنے ہاتھ کی جانب تو کر نظر
آنسو ہر ایک فقرے پہ مولا کے تھے رواں
شہ بولے بس کڑھانہ مرے دلکو مرتے دم
یہ کہتے تھے کہ دیکھتے کیا ہیں شہ زمن
صل سے لاش حر کو تو اس طرح لاشاہ لے
رومال فاطمہ کا جولائی وہ دل حزیں
رونے کی جاہے اور یہ ہے پیٹنے کی جا
رباعی
بس اے دبیر لرزے میں ہے چرخ چنبری
سوبی کی شاخ تیثۂ قدرت نے کی قلم
لو امن ہے کبریا کا سراپردۂ جلال
پرچم ہے کس علم کا شعاع آفتاب کی
صبح جہاد شاہ ثریا جناب ہے
نور خدا سے قالب خیر الامم بنا
موجود کارخانۂ قدرت میں کیا نہیں
جب شاہ انبیا کو ہوئی خواہش علم
اب رایت زباں سر منبر علم کروں
قدسی یہ سنکے جانب طوبیٰ ہوئے ہوا
کی عرض قدسیوں نے کہ صدقت یاودو
طوبیٰ نے بھی زبان ادب سے کیا خطاب
کاٹی جو شاخ سبز فرشتوں نے ایکبار
چلائی سرکو پیٹ کے وہ حور خوش سیر
سب سے سوا تھا حور چہارم کا شورشین
القصّہ قدسیوں نے بارشاد کبریا
قدسی پکارے نام کہا اس نے بھر کے آہ
کیا شان ہے علم کی عجب عزوجاہ ہے
اب دیکھئے کسے یہ حسینی علم ملے
فوج خدا میں میں بھی ہیں طلبگار جابجا
حمزۂ کے سرپر سایہ فگن یہ ہمارہا
الفت کے جوش میں جو علم یان لچک گیا
اولاد پر سوال علم کا جوہے گمان
فضّہ کو حکم دیتی ہے زینب کہ رنمیں جا
ہر چند سب پہ شاق ہے امیدو انتظار
کس دن کے واسطے طلب رایت ظفر
ناگہہ وہاں حسین کا جاسوس معتبر
عباس لائے گوشہ میں اسکو علاحدہ
ڈرہے کہ چاک بنت علی کا جگر نہ ہو
اب دیکھئے مرقع ترتیب فوج شام
دنیا میں ہیں جو نام بر آور وہ اہل شر
گھاٹوں کا منتظم ہے حصین زبون صفات
یان ابتک نشان بھی علمدار کا نہیں
غازی کے پاس آئے جو ہم شکل مصطفےٰ
بولا وہ سر جھکا کے بجا کہتے ہیں حضور
حامل علم کاوان ہے بن سعد کا غلام
ہیں چچا بھتیجوں میں ہوتی تھیں یان بہم
پھر نو ملازمان شہ کربلا بڑھے
پھر رفع سب کی دلشکنی کا تعب کیا
کس شے پہ ہوگا حسن طلب کا ہمیں خیال
انساں تو کیا ملک بھی نہیں ایسے مستقل
پھر ہاتھ میں لیا علم شافع امم
یہ حکم ذوالجلال جو پاتے تھے جبرئیل
ناطق ہوا یہ مصحف ناطق ادھر ادھر
کھولا ابھی جو مصحف خاتون دوسرا
چھاتی سے سر لگا کے دعا دی امام نے
پرنذ دے کے عون ومحمد ملک شیم
جاسوس نے عمر کے جو دیکھا یہ ماجرا
کچھ کم نہیں نسب میں یہ سیف خدا سے ہیں
اے کشتیاں بھی میوونکی اور سروجام بھی
کردن اٹھا کے کہنے لگا شمر بدشعور
روٹھے ہیں اک علم پہ یہ شاہ انام سے
پر سر کے بھل دلیرونکی خدمت میں جائیو
خم ہوکے قدیہ کیا شمر نے کلام
سینہ پہ ہاتھ رکھ کے پکاراوہ بدشیم
آگے گمان بد ہوا پیچھے وہ بدگماں
آتا ہے رحم دونوں کے بچپن پہ دمبدم
حیراں ہیں سب یہ آپکے ماموں نے کیا کیا
شپیراب علم بھی جو دیں تو نہ لیجئے
کل خدا سے عاقبت اندیش ہیں حضور
لو فوج وملک ومال وخزانہ بس اور کیا
اللہ رے پاس شرع شہنشاہ انبیا
ہر قوم دہردیارکے یاں بھی ہیں کجکلاہ
یہ سنکے آپ میں نہ محمد رہے نہ عون
سرتاج تشنگاں کا جوسر کاٹ لائینگے
چلایا شمر لوابھی مسلم کا خوں بہا
اوصبح کاذب افق شام تیرہ فام
لایا ہے دوعلم بھی تو مکار ہے بڑا
نعرہ کیا علی کے نواسوں نے یک بیک
کل روز حشرانکی عدالت کو دیکھنا
اوجاہل شریعت پیغمبر انام
اس بار کے اٹھانیکو طاقت بھی چاہئے
ہمدوش حمزہ حیدر کرارتھے نہ تھے
دروازے اس چمن کے ہیں دوا ک سے اک جدا
یاں روز اک طلسم بنا اور بگڑ گیا
اوشمر کس شمار میں تو اور ترا یزید
ہم اور وہ ہیں ایک تجھے ہے خیال کیا
ارشاد ذوالمنن سے اگر بہر امتحاں
ہر فرد شوق نامہ ہستی ہے یک قلم
دیکھنے زرہ کے چشم نے ہم سے نہ صف شکن
انبار سیم وزر کے جواہل درم لگائیں
ان کو علم ملا تو ہمیں کو ملا علم
قدرت یہ ہے کہ غیب کے اسرار دیکھ لیں
عرش علا ہے فرش ضیا گر حسین
عباس این شیر خدا مدظلہ
قاتل کو جام دیتے ہیں تعذیر کے عوض
ناگاہ بار گاہ حسینی ہلی تمام
حافظ خدا ہے اماں کے پردے کی فکر کیا
آنکھوں میں بیحیائی ہے یا کچھ حیا بھی ہے
تم نیک ہو تمھاری بلا جانے مکروفند
تلوار سے نہ مارا تو یوں مارا بے خطا
لالچ کا بھی زباں پہ سخن لایا ہوئے گا
نزدیک تھا کہ دونوں کا دل آب آب ہو
دوڑیں وفور طیش سے حود زینب حزیں
ماموں سے اپنے پوچھ لیا تھا جواب دو
کلثوم یاں کھڑی تھیں پس پردہ بیقرار
شیروں سے در کے بھاگ کیا شمر مگاں
قدرت خدا کی اپنے بزرگوں سے آن بان
ہے ہے مجھے تو اور یہ وسواس اب ہوا
قبلہ کو ہاتھ اٹھا کے پکارے وہ مہ لقا
قرآن پہ ہاتھ رکھنے کو موجود ہیں غلام
زینب پکاری میں تو ہوئی سب میں سرنگوں
وہ بولے ہاں سکوت کی لائے نہ تاب ہم
شمر زباں دراز پہ تھا اختیار کیا
منھ سوکھتا ہے کہتے ہوئے چھوٹے مامو نجان
مجموعہ سودعاؤں کا ہے جوشن کبیر
مادر یہ سنکے دونوں پر ہونے لگی نثار
جوشن ہیں دو پر ایک صغیر اک کبیر ہے
خاصان خاص حضرت رب العلایہ ہیں
ناگہہ محل میں غرق بہ خوں آئے شاہ دیں
ان کی ثنا کریں گے بھلا کیا ہمہ شما
وہ گر پڑے حسین کے قدمونپہ دوڑ کر
اب جعفری گلوں سے وداع بہار ہے
حضرت سے ملتجی ہوئی خود زینب حزیں
زینب کا حر کی لاش پہ ساماں کوئی نہیں
عباس کو علم جو کیا آپ نے عطا
شہ نے کہا سعیدازل ہیں یہ نیکخو
آگے جو ان کا رنگ ہوا اور کیا کہوں
حضرت کے فدیوں کو شہادت کا شوق ہے
زانوئے فکر پر شہدیں نے دہری جبیں
بولیں مقیم کعبۂ اعظم تھے جب امام
بیسا ختہ تڑپ گئے دل کو پکڑکے شاہ
بولے حرم یہ صبر کے معنی ہیں آفریں
انگور میوہ میوہ سے اولاد ہے مراد
کی عرض آشکار یہ تعبیر ہوگی کب
سرمہ لگایا مدنگہ کی سلائی سے
ابن خلیل راہ خدا میں ہوئے فدا
اک گوشہ میں گئی وہ جگر گوشوں کولئے
بولیں کہ جو صلاح ہوراضی میں دل حنیں
سرمہ تھا یا وہ نور کے اقلیم کا سواد
موتی کی ثمر میں وہ بلوریں کلائیاں
پہنایا جامہ زیبوں کو اپنے لباس جنگ
جوشن وہ بازؤں پہ زبر جد کے آشکار
یہ دونوں دولھا آئے جو خدمت میں شاہ کی
زینب کو تھانہم سے عجب طرح کا ہراس
پھر زیور سلاح سنواراپئے جدال
جھاڑی مژہ کے پنجہ سے پھر زلف متکفام
جب قبلہ رو کھڑے ہوئے مثل صف نماز
جب بندگی کو ہیں تو خودائی کے واسطے
دو جانیں ایک جان کے بدلے قبول ہوں
دنیا ہے اے کریم تو سائل کو بے سوال
تقدیر انکی موت مجھے ایسی راس لائے
گلگوں بہار بوقلموں سے جناں نما
اصطبل سے مرقع صر صر رواں ہوئے
ناگاہ بے فروغ ہو اشرق خیام
شاہین فکر نظم کے یاں بال وپر گرے
میں اور ثنا علی کے نواسوں کی کیا مجال
لو شیعو آمد آمدروح الامیں ہوئی
باریک بال سے بھی جو گھس کر زبان ہو
چمکا وہ پرچم علم فضل ذوالمنن
جانا نہ کچھ بھی اپنے سخن کو دم بیاں
بالیدہ فخر سے ہوئی اب خاطر لمول
طالب نہیں صلے کا امیر وفقیر سے
بھرتے ہیں آسماں سے تگا ورقدم قدم
بسم اللہ اب کہو وہ خوزادے ہوئے سوار
پھیلے ہوئے نقیب تو رن بولنے لگا
مرے سے ان دلیرونکے سرکش ہیں بائمال
ہے شمر کس شمار میں مارا اگر تو کیا
ناگاہ باد پا ہوئے ساکن سرزمیں
معجز نما ہیں روز ولادت سے مامونجان
پیغمبر اپنے حضرت خیرالانام ہیں
صدیقۂ ازل نے کیا شکر کبریا
کم کم اٹھایا دامن زہرا سے اپنا سر
دل میں کہا یہود نے حیرت کا ہے محل
اگر یہودیوں نے نبی سے کیا سوال
دنیا تھی شبکو میری ولادت سے باغ باغ
بیت الشرف کے درپہ کیا فضہ نے قیام
بولا یہ مسکرا کے وہ حیدر کا یاد گار
پھر عرض کی یہ خدمت ابن بتول میں
تہلیل جو کہے وہ نبی کا بھی نام لے
ناموں ہمارے ہیں وہ سخی دو جہاں کے شاہ
کیا تھی بساط جعفر وحیدر کے سامنے
کیوں یہ شرف کسی نے زمانے میں پائے ہیں
نقارے پر جو چوب پڑی صاف اٹھی یہ دھوم
پانی تم اس سخی کو نہیں دیتے بوند بھر
اسوقت بھی عزیز ہے امت حضور کو
سنکر رجز لرزگئے مرواں گیرو دار
منھ دیکھکر محمد عالی مقام کا
ناگاہ تیرہ بختوں نے کی ابتداے حرب
آئے تھے دو گروہ ادھر سے جو بہر جنگ
چمکا یمیں کو نیمچۂ عون نامور
غصّہ میں پایا نیزے کا پھل ترک کورنے
وہ بولے یاد فاتح خیبر میں جھوم کر
بڑھکر لگائی عون نے بھی تیغ بے پناہ
پھر تو اوچھل اوچھل کے فلک پرگئی زمیں
بسمل علیٰ یہ بط یہ ضبط اس دغا میں تھے
بولے وہ مہر دیکھ کے اس آفتاب کی
ناگاہ اذن عون خدا عون کو ملا
گرتا تھا غول غول پہ اٹھتا تھا غل پہ غل
صفدر نے نوک تیغ کو پٹکے پہ رکھ دیا
بازوے عون نے بھی ادھر آزمائی تیغ
میکال وجبرئیل وسرافیل نے وہیں
جو پہلواں بڑھا ہوس کا رزار میں
پہونچے گا آفتاب تو مغرب میں وقت شام
بصرہ کے جیش رے کے قشوں روم کے جنود
طوفان آب تیغ سے حیراں ہوا عمر
اول نبی کے کنبے میں شہ کی بہن لٹی
قاصد کی شکل بن کے کوئی ان کے پاس جائے
عبد اللہ ابن جعفر طیّار گھر میں ہے
اب شور حشر حیدری وجعفری کریں
پہلے قیامت آئی حسینی سپاہ میں
پوچھا دلیروں نے کہ توقف کا کیا سبب
مڑنا تھا بس کہ اہل دغا وقت پاگئے
لو خنجر فریب ہوا رن میں کار گر
اتنے میں پردۂ درماتم سرا اٹھا
شانہ ہلا کے فضّہ نے زینب کودی ندا
ناگاہ آئے قاسم وعباس نوحہ گر
بن بیٹوں کی پھوپھی کو دلاسا دو میر یجان
بچپن کی موت کا ہے پسینہ جبین پر
سنتا تھا یہ کہ شکر کے سجدے ادا کئے
سودا خدا کی راہ میں تم نے عجب کیا
تحسین اے خدا وپیمبر کے محسنو
پوچھیں جو وہ کہ تم نے سلوک ایسا کیا کیا
باورنہ ہو تو مجھ پہ تم اتنا کرم کرو
تھرا کے عین غش میں یہ بولے وہ دل کباب
واجب ہر اک کنیز پہ ہیں مالکوں کے کام
آئی نداے غیب یہ ساماں نہ ہوئیگا
ناگاہ کلیجہ تھام کے تڑپے وہ باوفا
لکھنا ہے تو یہ لکھئے کہ اہل وفا ہیں یہ
کلثوم کو پکاری بہن کی مدد کو آؤ
سب نے سرحین کی زینب کو دی قسم
نشتر لگا رہے ہیں دل بیقرار میں
جب خوب رو چکیں تو کئے یہ غضب کے بین
یہ سنکے پیٹتے ہوئے سادات ہٹ گئے
پیٹے عمامہ پھینک کے لاشوں پہ شاہ دیں
البر پکارے ہم سے کہو کیا ہے التماس
یہ سنکے مطمئن ہوئے وہ غازی وغنی
پھر اپنے خوں میں کلمے کی انگلی کو کرکے تر
رباعی
بس خامۂ دبیر یہ دفتر ہے نا تمام
لو حاضرین بزم غم بادشاہ دیں
نزدیک ہے کہ پردۂ افلاک چاک ہو
اے چرخ تیری شرم وحیا آج کیا ہوئی
دے صبح کیا ہوا کہ ترا جیب چاک ہے
اے آسماں زمین عدم میں نہاں ہو آج
یہ دن وہ ہیں کہ بیکس وناچار ہیں حرم
بے رحم لے کے سر سر درکہاں کہاں
ماتم کے دن ہیں اور بندھی ہیں رسن سے ہات
ہاں روئیں اہل بزم کہ گریاں ہیں اہلیت
خوشبو ہے عطر خلق سے دربار مصطفا
اس کے حرم ہیں جوکہ رسول انام ہے
مرقوم ہے کہ حاتم فیاض کا پسر
بھرائیں منھ پہ بال کہ زانوپہ رکھیں سر
بولے یہ خلق دیکھ کے اصحاب نیکنام
یارو تمھیں بزرگی معبود کی قسم
قرآں کے جامہ سے ہے فزوں جسکی زیب وزین
فرمایا مصطفےٰ نے نہ برہم ہو اسقدر
حاتم نے راہ حق میں فقط مال وزر دیا
غل ہے کہ حرب گاہ سے بیداد گر پھرے
بندی میں ہے یہ شان سکینہ کی ہر قدم
ان کے لئے کسی نے عباواں بچھا نہ دی
القصّہ انجمن میں حرم بے نقاب آئے
پردہ اٹھا مگر درہفتم کا آہ جب
ناری کی بارگاہ کے دروازے سات ہیں
وہ رو کے بولی سچ ہے نہ کیوں شرمسار ہو
مہر خدا کا چشمہ ہے روے قمر فشاں
غل پڑگیا جلال خدا سر بسر یہ ہے
صل علی تجلیٔ رخسار باصفا
اچھا خوشی سے تخت پہ وہ دشمن خدا
دانتوں کے عقدے کھول رہا ہے لب امام
کیا منھ جو ہم وہاں وزباں کا کریں بیاں
ہر چند بند چشم خلائق نواز ہے
بینی کا قرب دیدۂ حق بیں ظہور ہے
اس نے کہا کہاں وہ امام انام تھے
بولا وہ منھ پھرا کے یہ اب تک سنا نہیں
بولا یزید دیکھ کے سرکی شکوہ وشاں
ہمت میں فوج فوج میں یکتا ہر اک دلیر
بولا ادب سے جوڑ کے ہاتھونکو وہ شریر
شربت کہاں کہ تلخ تھی مہمانوں کو حیات
جوڑا شہانا پہنا کہ چاک آستیں ہوئی
آئے جو معرکہ میں یہ دولھا بنے ہوئے
چہرہ تھا بدر اختر تابندہ خال تھا
رخ تھا جلال قہر خدا اوس دلیر کا
تیرہ برس کا سن تھا مہ چاردہ کانور
فتنے پہ فتنے اور ستم پر ستم گرا
سب احتیاج مند ہیں حاجت روا علی
رنگت کی جابھری تھی گل رومیں نازکی
دانتوں سے اور ہونٹوں سے تھا منکشف یہ جال
ناگہہ کئے کلام لب آبدارسے
جسکے گدا ہیں دونو جہاں یہ وہ بندہ ہے
جنگکا خدانے ساتھ نباہا وہ ہم ہیں ہم
انپر دلاوری میں کوئی ورنہ ہوسکا
کیا کیا ہمارے جد کا نہیں امتحاں ہوا
بچپن سے ہم نے بھی یہ سروہی سنبھالی ہے
آٹھوں پہر لگائی ہے چورنگ بارہا
سرسبز جوازل سے ہے اسکا نہال ہوں
جسکی کہ مبتدا ہے ازل وہ خبر ہیں ہم
یہ کہہ کے لی جو باگ ہوا حشر چار سو
تصویر انکی آنکھ کے آگے ہے اس گھڑی
میں رنگ وبو ہوں پھول حسن بوستاں علی
ہقسوم نیک تھا کہ یہ جاہ وچشم ہوئے
عباس اس دلیر کو کم عمر جان کے
چمکا کے راہوار کو چمکارنے لگے
فرما کے واہ واہ علمدار پھر گئے
ہر نعل آسماں کے لئے گوشوارہ تھا
پر تو خدا تھا بتوں کی زبان پر
ہر جاپہ برق بارقہ تھی اور نہیں بھی تھی
کہہ سکل پنبہ زار صفوں کو جلاتی تھی
جنوں کی برق آہ تھی بن بن چمک گئی
وہ ایک تیغ اور شرر اسکے ہزار تیغ
اوپھرے ہوئے تھے جوہر شمشیر جانتاں
بھالا سنبھالا جس نے وہ تھرا کے گر پڑا
آئی سرد نپہ تیغ تو محشر بپا کیا
اک بیت فی المثل مع مرکب تھا ہر سوار
کھولے یہ جو ہر اپنے کہ دم بند کر دیا
ملتے تھے آب تیغ سے چہرے سپاہ کے
گہہ نوک پر سہپر کے گنبد کو دہر لیا
اس نے کہا کہ ہاں مجھے بتلا تو کیا ہوا
کاٹا جو تیر کو تو کمال سے لپٹ گئی
بولا یزید یاں تو مرے ہوش جاتے ہیں
بیہوش زین پر خلف مجتبا ہوا
بسمل کئے تھے اس نے نمودی کئی جواں
سننا تھا یہ کہ ٹوٹ پڑے لاش پر سوار
ہے ہے زبان شمر سے نکلا جو یہ سخن
صدقہ جوانی علی اکبر کا جلد آؤ
سن لو جگر پہ نیزہ کے کھانیکا ذکر ہے
اس نوحہ سے یزید کا تھرا گیا جگر
سنتے ہی ذکر حملۂ عباس اس گھڑی
حاکم پکارا خیر سنا آگے کیا ہوا
دریا کے کھاٹ تیغ سے کوسوں بڑھائیں
عالم نے سوئے شمر اشارہ کیا کہ ہاں
ردیف لقا کا وصف کیا اس نے برملا
بولا یزید ہوگئے عباس جب تمام
زانو پہ ہاتھ مار کے چلا یا وہ شریر
آخر بیان بچہ کا نام ونسب کیا
سن وہ کہ رحم کھائے ہر اک گبراور یہود
پہونچا کے لاش اکبر عالی وقار کو
کی عرض تین جاوہ پکارا کہاں کہاں
کہدو کہ کھولدے پھوپی اماں کا بھی گلا
دیکھا بہت یزید نے ششماہی کا جمال
ننھا سا سر اٹھا کے جولایا وہ ناگہاں
دنیا میں ایسے حادثہ بھی کم گذرتے ہیں
برچھی جدا کلیجہ سے کی اور یہ دی صدا
اس نے کہا پھرا اے شہ ابرار کیا کروں
اسوقت خانہ زاد کا تھرا گیا جگر
یاں بھی بہت کڑھا تھا مرا دل خدا گواہ
اس نے کہا کہ رحمدل اتنا نہیں غلام
اسوقت نکلی شہ کی بہن شوروشین سے
نازیست وہ حسین کی غربت نہ بھولے گی
جالوں یہاں سے میں تو سرانکااتار تو
پھر تو ہماری تیغیں تھیں اور لاشونکے گلے
میں کیا کہوں کہ دوڑ کے مرّہ نے کیا کیا
اسوقت تک تھے سب شہدا کے تنونپہ سر
جو حاشیہ کی طرح طرفدار نہ ہوں گے
جتنے ہمداں ہیں وہ مرے مرتبہ داں ہیں
ہر باغ ہے گلچیں مرے مضموں کے چمن کا
سیفی کا نمونہ مری شمشیر زباں ہے
ممدوح مرا نام خدا سیف خدا ہے
یکتائی کے سانچے میں شبیہ انکی دہلی ہے
یہ بزم مقدس ہے فرشتوں کی گذرگاہ
کون اس کے سوا دادرس کون ومکاں ہے
شمع قدروشن کے دو پروانے پہ پر ہیں
یہ پروہ ہماجن کے ہوا خواہ سلیمان
جو عزو شرف جعفر طیارنے پائے
ہر شہپر زیبا ہے ورق صنع خدا کا
نے شمس جناں میں نہ قمر جلوہ فگن ہے
دنیا میں نہ آئے تھے اور افسانہ تھا انکا
محشر میں بجھائیگا عزاد ارونکی جو پیاس
قدرانکی کہلی مخبر صادق کی زبانی
آئینہ کے مانند تھا رن پیش پیمبر
رو رو کے کہا احمد مرسل نے قضارا
یوں تبصرہ میں کلک صداقت سے ہے مسطور
ناگاہ پیمبر نے کہا ہائے برادر
حیدر کو خبر دی یہ رسول دوسرا نے
پرلاش کے چوگرد فرشتوں کے پرے ہیں
اسدم سوئے میدان ستم دیکھئے مولا
کیا دیکھتے ہیں رن کی طرف مڑکے پیمبر
بدہ گیا حیدر نے کہ ہے اوجپہ تقدیر
جب مطلع قدرت سے ہوروشن وہ ستارا
سنکر یہ تمنا شہ لولاک پکارے
زہرا کوئی دوتین برس اور ہے مہماں
ہے عین سراسم کہ ہوں گے یہ علمدار
ناگاہ ندا آئی کہ ہم نام رکھیں گے
والی وہ کہاں رہتی ہے بتلاؤمیں جاؤں
مسجد سے گھر اپنے گیا وہ قبلۂ عالم
اطفال قریشی ہوں پس پشت میں واری
حیدر نے کہا سب یہ چشم ہوئیں گے زہرا
پیدا ہو جو عباس تو میں گود میں پالوں
مقدور مجھے اسکی تو اضع کا کہاں ہے
یہ سن کے نہ تاب آئی محمد کے وصی کو
زہرا نے کہا اور بھی احسان کرے گی
زہرا یہ بیاں سن کے ہوئیں سخت پریشان
ابتو نہ ولادت ہے نہ دیدار ہے زہرا
زہرا نے تو عباس کی حسرت میں قضا کی
زینب نے عجب نام لیا پیار سے اس آں
چلائی سعادت کہ سعید ازل آیا
کون نیک گھڑی نیک جگہ نیک وہ گھر نیک
شاہ شہدا آئے جو منھ دیکھنے کو پاس
فرزندیٔ شپیر گرامی ہو مبارک
بوسہ دیارخسار پہ شاہ شہدا نے
ہنستے ہوئے ناگاہ حسین وحسن آئے
حضرت نے اشارہ کیا پاس انکے نہ آؤ
ہم بھائی کے دیدار کے بھوکے ہو میں واری
القصّہ کہ ہردم ہوئی توقیر زیادہ
اتنے میں کہا ماں نے کہ آفدیۂ شپیر
فرمائشیں ماں پر تھیں کہ اے پیر وزہرا
یوں سنتے تھے ارشاد شہ ارض وسما کو
افضل یہ ہنر میں ہوئے سب اہل ہنر سے
ماں کہتی تھی شپیر تو بھائی ہیں تمھارے
اللہ رکھے انکی غلامی میں ابدتک
یک جان ودوقالب تو زبانونپہ ہے اکثر
شہ ان سے رضا مند تھے یہ شہ سے رضا مند
زہرا کی محبت کا سنا تھا جو فسانا
ہر بار یہ نوحہ ہے لب قبر سے جاری
لیکر علم آئے سر تربت شہ ابرار
ناگاہ کیا تجربہ الفت کا خدانے
ترتیب سواری میں ادھر تھے شہ ابرار
پرسا تو دیا مادر قاسم کو بلاکے
لکھا ہے لٹی جب دل زہرا کی کمائی
عباس پھرے گرد لحد سر کو جھکاکے
ماہ رکب آخر تھا کہ یثرب ہوا برباد
زینب نے کہا خیر ہو کیا اسکی ہے تعبیر
اتنے میں سکینہ نے کئے آکے اشارے
شہ بنے کہا قاسم نے دیا داغ دوبارا
پہلے نظر آیا کہ سراماں کا کھلا ہے
تم زندہ ہو اور اپنی اجل آئی ابھی سے
گھوڑے پہ چڑہائے گا تمہیں بھائی تمہارا
عباس پکارے کہ بھلا مشک تو لاؤ
مثکیزہ ادھر لائی وہ بنت شہ والا
غازی نے یہ سنکر سر تسلیم جھکایا
اسوار ہوا جلد علمدار گرامی
ہر چند رنڈا پے کا بڑا جبر وستم ہے
ناگھ دردولت پہ سواری کا ہوا غل
عباس سے کیا زین مزین نظر آیا
اللہ رے طمانچہ رخ روشن کی چمک کا
یکدفعہ پھری مردنی چہرے پہ اجل کے
نومنواب نظم کے میدان کو دیکھو
گھوڑا جو تڑپ کر تہ راں بول رہا ہے
مانند اذاں غلغلے ہیں صل علی کے
جب باگ ہلی آمد محشر نظر آئی
جاسوس عمر گوشوں میں استادہ ہے غمناک
اللہ رے نور بدن پاک کا سایا
اک حاشیہ اس روے کتابی کا ہے قرآں
خادم ہیں شجاع ان کے یہ ہیں عین سجا عت
یہ بھوک یہ پیاس اور یہ جہاں کا ستم وغدر
کیا چشم ہے کیا غازی حق ہیں کی نظر ہے
گودانت ہیں تیس مگر غور کی جا ہے
شپیر ہیں نام اور نگینہ ہے یہ سینہ
وہ مطلع ابروجو ہے توحید خدا میں
کیا دیکھتا ہے سعد کافرزند بدا طوار
کی عرض سبرداروں نے بھی آنکھ بدل کے
اس حسن سے دریا کو علمدار رواں ہیں
ناگہہ علموں نے سر تسلیم جھکائے
پھر دیکھ کے آئے کئ جاسوس قضارا
خوش ہوکے عمر نے دیا جو سوسو نکو انعام
اسوار ہوا جب اسد اللہ کا پیارا
اب غل ہے کہ مرنے کیلئے آتے ہیں اکبر
ملتا ہے مٹائے سے کہیں فاطمہ کا نام
جو مصحف ناطق کا ہوا خواہان ئپے تفسیر
کیوں عرش مکاں کون ہے شپیر ہے شپیر
پوچھے جو قمر نور خدا کون بشر ہے
یہ نور خدا آب بقا خاک شفا ہیں
کب نوح کو یہ پیاس کا طوفاں نظر آیا
گر عرش کہے کس کا عمل فرش تک ہے
گلے میں ہے میرا فرس تیز قدم شیر
اعجاز کے گل کھلتے ہیں گلشن میں ہمارے
عباس نے فرمایا بھلا خیر نہ مانو
جنت ہے ولانار عداوت ہے ہماری
جانے دو مجھے نہر پہ گر صلح کی ہے چاہ
عباس نے فرمایا بھلا خیر نہ مانو
سب ضرب دم تیغ سے الموت پکارے
ہر سوجو کیا قلزم لشکر کا نظارا
باراں کی دعا تیغ پہ جوہر سے رقم تھی
طوفاں کی طرح فوج بڑھی جوش دغا سے
طغیانی آب وشرر تیغ دو دم سے
خاشاک صفت لشکر ملعوں کو بہایا
جب اٹھ کے گری تیغ صف دشمن دیں پر
گوخوف سے خود عازم دوزخ تھی ستمگار
صرصر عقب رخش خوش انداز نہ آئی
سرشار کھڑی تھیں جو صفیں نشۂ مے میں
تلوار کی بجلی خس وخاشاک سے نکلی
رن تیغ اور چرخ گریزاں ہوارن سے
دریا سے مخاطب ہوا حیدر کا وہ جانی
اڑ اڑ کے یہ رنگ سیہ فوج نے گھیرا
شیرانہ یہ شمشیر جو پاس آئی جھپٹ کر
دن میں جو کسی روکنے والے کو نہ پایا
منھ پیٹ کے بانو یہ سکینہ کو پکاری
چہرہ شہ بیکس کا ہوازردقضا را
دریا سے عجب شان بنائے ہوئے نکلے
یاں ایک بلندی درخیمہ کے جوتھی پاس
ناگاہ ہوا عرصۂ مقتل تہ وبالا
کیوں صاحبو سرننگے میں اب خیمہ سے جاؤں
زینب نے جو گردن طرف نہر پھرائی
شرما کے یہ کہنے لگی وہ نازو نکی پالی
دیکھا کہ علمدار کو قربانی کی ہے عید
سیدانی نے منھ اکبر مظلوم کا دیکھا
پھر بیوۂ مسلم کو پکاری وہ دل افگار
ہے درد زباں حیدر کرار امامی
جاکر درخیمہ پہ کسی نے یہ سنایا
غازی نے دعا دی کہ ہمیشہ رہو آباد
شہ بولے لپٹ کر یہ برا اور ترے صدقے
یہ کہکے تبسم کیا پھر لب نہ ہلایا
پھر لاش پہ یہ مرثیہ پڑھنے لگے رو کر
عباس نہ ہوگا یہ کسی اہل وفا سے
سیدانیوں میں لاشہ عباس جو آیا
ہے ایک روایت میں کہ لاشے کو سنبھالا
ناگاہ کہاں ماں سے سکینہ نے یہ کیا ہے
اب لاش پہ ہر سوگ نشیں اشک بہائے
زینب نے کہا سونے کی یہ کون گھڑی ہے
جعفر کے عزادار ہوئے تھے مرے نانا
زینب نے ردالاش پہ جلدی سے اوڑھائی
پھر گود سے ماں کی وہ تڑپ کراترآئی
اماں مجھے عمو کی زیارت سے نہ ترساؤ
منھ دیکھکے بیساختہ چلائی وہ نادان
دل ہلنے لگا سہم کے بولی وہ دل افگار
رباعی
یہ کہکے بڑھی پھاڑ کے ننھا سا گریبان
شیعوں میں دبیراب نہیں مقدورفغانکا
جاروب کش فرش عزاعرش علا ہے
یوسف ہیں فدا جسپہ یہ بازار ہے کسکا
اے شمس وقمر نور کی محفل ہے یہ محفل
مجمع کو تفاخر ہے کہ اثنا عشری ہوں
آئینہ ہے دیکھو صف ماتم کی صفائی
یہ کون جواں ہے جسے روتی ہے جوانی
ماتم کا مرقع ہے کہ خاموش ہے مجلس
اٹھارہویں سال اب جو نہیں سایہ یہ کیا ہے
رخ وہ کہ حسینان عرب جسپہ ہیں شیدا
یہ غم ہے غم مرگ جوانانۂ اکبر
محتاج کفن لاش ہے کس فخر جہاں کی
کیوں یارو کنایہ ہی سے دل ہوگیا پارا
حق دوست ہیں حق گو ہیں یہ ہیں حق کے طلبگار
کھانے کی تمنا ہے نہ پانی کی تمنا
بادل کیطرح رنمیں عدو چھائے ہوئے ہیں
چہرے سے مصیبت بھی تحمل بھی عیاں ہے
ہم ہیں یہ ماتم کی صفیں دیکھ کے ہرسو
اکبر کی ہر اک بات پہ تھراتی ہے بانو
جنت یہ کنیزوں کی ہے کیوں شاہ کے گلفام
چاروں طرف اکبر کی خوشامد کا ہے سامان
پالا تھا اسی دن کے لئے تو کہ جدا ہو
ان جٹی بھووں میں جوبل آیاتو غضب ہے
پردیس نہںی بھوک نہیں پیاس نہیں ہے
اکبر کی گذارش ہے کہ منگوائیں سواری
پانی سے نہالوں کو ہراسب نے کیا ہے
کافی ہے تری چاہ جوپانی نہ ملے گا
رخصت تو بھلا مانگی پہ افسوس نہ آیا
گر نخل لگاتا ہے کوئی اے مرے گلفام
نعم البدل اکبر کا ابھی گھر میں ہے موجود
اکبر نے یہ کی عرض کہ خادم کا ادب کیا
کچھ بانوئے بیکس کو جواب اسکا نہ آیا
وہ بولی یہ مشکل ہے یہ دشوار ہے واری
ناگاہ نمودار ہوئی زینب غمناک
بولے علی اکبر تمھیں کہہ آئیں پھوپی سے
اکبر کے سنانے کو یہ کہتی تھی زباں سے
بانونے کہا کان میں اکبر کے خبردار
پھر رونے لگی بیٹھ کے واں زینب ناچار
جو بات ہو سچ اسکا براماننا کیا ہے
پاس آکے کہا زیب بیکس نے بہ رقت
ہٹ ہٹ کے وہ بولی کہ نہ یہ ذکر نکالو
ہیں تیغ سے کٹتے یہ گلا دیکھ سکوں گی
اکبر نے کہا آپ کی الفت کے میں قربان
کہتی رہیں بھابھی وہ ہیں حقدار تمھاری
زینب نے بہت آپکو اکبر سے چھڑایا
پھر تو یہ پکاری وہ ید اللہ کی جائی
عمامہ نے تو گیسوؤں کو بیچ میں ڈالا
بڑھکر علی اکبر نے قنات ایک اٹھائی
للہ سر پاک کے نہوڑانے کو دیکھو
گردوں کی طرف دیکھ کے شہ نے یہ سنایا
بندہ کوئی اس شکل کا بیٹا نہیں رکھتا
سرمہ کی جو خواہش مہ وخوشید نے پائی
نکلا وہ مرا دونکا چمن ہو نیکو تاراج
پھر دم کئے آئے کئی فرزند حسیں پر
اکبر جو ہوئے جلوہ فگن دامن زیں پر
سودا برضا ہوتا ہے بازار میں تیرے
شہزادے نے جلوہ جو کیا خانۂ زیں پر
لشکر میں خبر دار یہ لیکر خبر آئے
اک عالم حیرت تھا چہ لاہوت چہ ناسوت
وہ رخش تھا یا ابلق ایام کا اقبال
خادم ادب چرخ کو دوڑے کہ ٹہر جا
داغ کف موسی ید بیضا کیا ہم نے
رہوار کے کاوے سے زمیں چرخ میں آئی
تن پررہ معبود میں ہم سر نہیں رکھتے
ماتھے کا عرق پاک کیا انگلی سے بارے
احکام یزید اور میں اور اپنے امور اور
ساماں سے کوی صاحب ایماں نہیں ہوتا
حصہ میں اگر ہم ابھی تیور کو بدل دیں
لقمان نے حکمت کی سند پائی ہمیں سے
یثرب میں سب آتے ہیں زیارت کو ہماری
خاموش ہیں ہم حکم جناب شہ دیں سے
کیوں حجت اللہ سے ہر شے پہ ہے تکرار
بندوں نے بنایا ہو جسے کیوں وہ خدا ہے
لینے کی روا کے نہ مناہی کروواری
سنتے ہو ادب تم بھی نہ زینب کا بھلانا
ناگاہ یہ آواز ہوئی خیمہ سے پیدا
تری مرے دادا کیلئے عرش سے شمشیر
اس نیزے سے یہ سہم کے تڑپا وہ کمینہ
تھا ہالۂ تائید خدا میں میں قمر شاہ
ناگہہ عمر سعد نے طارق کو پکارا
گو نیزے کے فن میں بہت اس نحس نے کدکی
ناگہہ بن طارق عمر بد سیرآیا
چھوٹا جو خدنگ انکا تو چلائے کہہ ومہ
گردش کی نہ آنکھوں نے نہ جنبش سروپانے
خورشید نے پھر نیزہ کرن کا نہ ہلایا
چکر میں زمیں آگئی یوں گرد پھرایا
بعد اسکے صف جنگ سے اک صف شکن آیا
طلحہ بن طارق نے پھرا شہب کو اوڑایا
پھر دست مبارک سے جو اس نحس کو چھوڑا
مصراع سے مصرع ہوا ضم تیغ اجل کا
پانی نے اسے آپکی تلوار کو سونپا
مصراع ہوا رو بروے مطلع اسلام
دل فتح کا تازہ کیا اس خضر جواں نے
پھر تو قدم اسطرح بڑھارخش جری کا
للکارا یہ افسر کو جری تول کے تلوار
یہ تیغ گری ہر سربد خوپہ تڑپ کر
کڑکیت بھی کڑکے یہی رن ہے یہی میداں
پھر روکے کہا ہائے بہن فاطمہ صغرا
ہاتھ اپنا کلیجے سے اٹھا کر وہ پکارا
بینائی کو کیا پوچھتے ہو جاں نہیں ہائے
آواز پر اکبر کی علی کا پسر آیا
آوازدی بانونے میں اس یاد کے قربان
ناگاہ اٹھا پردۂ در آل عبا کا
بانو عقب پر وہ کھڑی کرتی تھی زاری
اکبر نے اشارہ کیا آنسو نہ بہاؤ
بچہ نہ مواتھا کوئی مجھ سوختہ جاں کا
بانونے کہا دیکھئے تو آپ اودھر کو
بھابی جو کہیں یہ سو کر وبھول نہ جاؤ
سیدا نیاں لے آئیں ردا اسکو اڑھا کر
للہ مرے صاحب غیرت کو مناؤ
اپنے میں کیا اکبر غازی نے تبسم
سرآپکے زانو سے سرکتا ہے دوہائی
فردوس کے پھولوں سے مہکتا ہے جو سب گھر
کیوں سوگ کا سامان کروں یا نہ کرونمیں
پردیکھ کے منھ مردے کا زینب کو پکارا
یوں مردیکے ماتھے کو چمکتے نہیں دیکھا
پھر لاش سے لپٹی کہ میں قرباں علی اکبر
پہلے سے خبر مرگ جوانی کی جو پاتی
تیرب کا کفن پہنو گے یا کعبہ کا بیٹا
پیارے کہو صغرا کیلئے بھیجوں سواری
اسنت دبیر اب تو سخن ہے تار اعجاز
رباعی
آدم کا داورس بنی آدم میں کون ہے
سرتاج عرش زیب وہ کرسی بلند
ہر ایک حرف نام مبارک کا ہے حسین
بسم اللہ اور حمد سے آغاز گر نہ ہو
لب پر تبسم آنکھ رخ نازنیں پہ وا
روشن ہے اب مشارق الانوار سے قمر
مصحف ابھی نہ تھا کوئی جز صورت حسین
یوسف تھا نہ کلیم نہ کنعاں نہ کوہ طور
یہ کہکے مثل غنچہ ہنسا ابن بو تراب
بولا ذقن پہ دست ادب رکھ کے وہ مسن
گویا ہو اخوزاداۂ میکال وجبرئیل
با میں علی کے لعل کی تھیں غیرت گہر
اس قوم سے جہاد وہ ہمنے کئے ہزار
پنجہ ہزار فرقے تھے اس قوم میں تمام
تھاسن وسال آدم اول اسی قدر
کی شرح انکی قوم پہ توحید ذوالجلال
بچپن میں تھی یہ علم امام امم کی شان
پہونچا جو اس مقام پہ زہرا کا نور عین
فرماں روائے کوفہ تھے جب حضرت امیر
نایاب یہ گھر ہیں مگر جو ہری کہاں
مکارنے کہا کہ تامل ہے اس میں کیا
یوں مڑگئے حسین سوئے شمر بد گہر
اک دن حسین ابن علی شافع انام
مولا کے گوش زد جو یہ اسکی صدا ہوئی
پوچھا بچھا نیکے لئے بستر ہے بولا ہے
سرحم کئے حسین گئے پیش شاہ دیں
اقرار سے قرار دل شمر کو دیا
پوچھا اندھیرا رہتا ہے شبکو کہ روشنی
آتا تھا یاں غلام ابھی کس سرور سے
بولے ستائے گا یہ مقرر کہا ستائے
فرمایا یہ اسیر تو قاتل تمھارا ہے
ہمنام کبریا نے کہا لو تو اس کا نام
آساں ہے مال ودولت وجاگیر بخشا
بولے علی یہ شرکا ہے بانی کہا کہ خیر
بولے ستم کریگا ستم پر کہا میں خوش
اللہ دوست چاہئے دشمن یہ ہے تو ہو
بابا نبی کی شرع کے تابع ہیں خاص وعام
تقسیم سیم وزر کی ہے اہل سخا کا کام
بابا خداے پاک کی رحمت کا واسطہ
فرمایا ہے یہ درپے آزار بولے ہو
یوں واسطے دئے جو خوزادے نے برملا
یہ ہمسے روٹھتے ہیں ہم انکو مناتے ہیں
ٹوکے گا شمر انکا چمن شفیع ہیں
اس لطف کا بیاں تھا کہ دلپر اثر کیا
اب آگے وہ بیاں ہے کہ تھراتے ہیں فلک
پھر خادموں کو حکم دیا جاؤ جلد جاؤ
اے شمر بھولیونہ تو احساں حسین کا
خدام لائے شمر کو حیدر کے سامنے
ظالم سے یہ خطاب شہ خوش نہاد ہے
خیمہ فرات سے جو اٹھا یا تو شمر نے
آتے ہیں یادشہ کو بہت مرتضیٰ علی
رن سے حسین جانب بیت الشرف چلے
مثل جنازہ ہاتھونپہ گھر میں حسین آئے
شہ بولے میں غریب ہوں کیا میرا آسرا
آوازدی کہ عترت اطہار السلام
جائیں گے ان کے پاس ہمیں وہ نہ آئیں گے
چو خود بلا میں ہو وہ کسی کو بچائے کیا
آسان سب ہے ایک بلا کیا ہزار کیا
فاقے کئی گذرگئے کیا ہم سے ہوسکا
صدقے خدا کے یہ بھی سب آسان کردیا
بخشدۂ مقاصد شاہ وگدا وہی
یونس کا بطن حوت میں مونس خدارہا
بولے حرم کہ اوسپہ ہے تکیہ سدا ہمیں
انصار تھے جباب رسالت کے یا نہیں
نکلے حرم سے روتے ہوئے شاہ دیں پناہ
کی عرشیوں نے غربت شپیر پر فغاں
گویا یہ عرض کرتا تھا خادم نثار ہو
شہ بولے تم نبی کی امانت ہو میں امیں
کاہیکو حلق پاک کا پھر بوسہ لیں گے ہم
لکھا ہے تھوڑی دور گئے تھے شہ زمن
دیتی ہے یہ ندا کہ میں قربان بھائی جان
یہ خادم قدیم جناب امام تھے
حضرت مڑے جو سوئے قفا کانپ کانپ کر
القصہ مل کے بھائی بہن پھر جدا ہوئے
ریتی کی بھاپ سے ہوئی جاتی ہے آنکھ بند
گردل جھکا کے ہرنے یہ شہ نے کیا قرار
کی عرض سچ ہے آس تھی جنکی وہ مرگئے
الفت سے ہاتھ سر پہ پھرایا اور آہ کی
قابو میں شاہ کے نہ رہا دل ہلا جگر
شہ نے کہا وہ کیا ہے بتاؤ نثار میں
حصہ سے تیغ ابرو ے سلطان دیں تلی
پوچھا کہ میں سوار ہوں بی بی کی ہے رضا
ابتک قدیم سے ہے یہ دستور جا بجا
ناکہہ پکارا شمر کہ اے شاہ دیں پناہ
جب رخش تیز پا ہوا محشر بپا ہوا
آمد بہار کی چمن کر بلا میں ہے
شہرت ہے شہر جلالت جہاں جہاں
کیسا عزیز یوسف کنعاں جلو میں ہیں
اجالے آسماں پہ ستارے ادب ادب
دہلی زباں پہ ادھر لافتا ادھر
اس روز سے ہے چار عناصر کی ابتدا
دھویں اور کروروں میں یکتا وہ بندہ ہے
مضمون ذوالجناح نیا باندھتے ہیں ہم
گھوڑوں کا سایہ وقت تگ وپوزمیں یہ ہے
کیا تو سن سپہر کرے اس سے ہشت مشت
سن لو نسب یہ رخش بڑا قوم دار ہے
بڑھنے میں دم کے بال الجھتے ہیں بال سے
گردش سے اسکی دور میں عاجز زمانہ ہے
لکھنے کی اور پڑھنے کی ابجد سے ہے بنا
لاکھوں کمال اسمیں ہیں لکھے کہاں تلک
قالب نسیم اسکا یہ روح نسیم ہے
ہد ہد کی طرح صاحب تاج اسکے ہیں فقیر
حضرت نے غافلوں سے کہا ہوشیار ہو
شہ دست حق پرست کو رکھے لجام پر
میکال رووح نام مرے خادمونکے ہیں
میں عالموں کو سامنے اسدم بلاؤ تو
میں جان ہوں رسول کی ہیں انس وجاں گواہ
ہم میں خدا کا علم ہے علم خدا میں ہم
ہاشم کے گھر کو دیکھے اور اپنے گھرانیکو
مانا یزید صاحب دولت ہے ہم نہیں
اکبر کے غم میں جسکا گریبان ہے قبا
فوج اسکے پاس بھی ہے پہ فوج خدا کہاں
میں بات پر یزید کا ہم سے مقابلہ
عزت نے دین و کفر کو آئینہ کردیا
عرس اسکا جبرئیل کا پر ہو نہ ہوئے گا
ہرے ہیں قبلہ اہل زمن نبی
یثرب کو اور نجف کو مڑے شاہ دیں پناہ
آئی ندا گواہ ترا ذوالجلال ہے
واں تو یہ وحی جنگ بڑھی آسمان سے
خالی نیام سبز ہوا ذوالفقار سے
دیتا ہوا ندایہ یہ نقیب ادب بڑھا
حیراں تھی عقل تیغ کے عزوقار سے
واں پہلے صف کشی ہوئی دریا پہ نا گہاں
اعراب خوب رکھتی تھی مولا کی ذوالفقار
یاں قبلہ روکھڑی ہوئی شمشیر جاں ستاں
چمکی غضب سے لشکر ابن زیاد پر
واں چار سو مخالفوں کے مکروزور تھا
جو جو کھڑے تھے منھ کے وہی منہ کی کھاگئے
پھول اڑگئے جو ڈھال کے خرمن سے ملگئی
آگے کبھی بڑھی کبھی پیچھے کو پھر پڑی
نیزہ تنا جو سامنے اس کے سناں نہ تھی
جس مورچے میں لیلیٰ تیغ دوسر گئی
تنہا جگر نہ فوج ستمگر کے آب تھے
بھاگا جو ہوش اڑکے تو للکارنے لگی
گاف شگاف بنکے درون جگر گئی
چھائی جو سر پہ شامیوں کے رات ہوگئی
کی ہواپہ یہ تو ہوا سے کدھر گئی
لبے لی پیاس یادنہ لشکر کی موت یاد
لوں لیکے جان فوج بدایماں بھی لے گئی
گاہ چلتے چلتے رکی راہ میں حسام
کہتے تھے پیدلوں سے سواراوقتلوالحسین
حضرت کے رونیوالوں نے پایا یہ دل کہاں
مولانے ذوالفقار کو زیب میاں کیا
اے حاضرین بزم غم بادشاہ دیں
اب رادیان دفتر غم کرتے ہیں بیاں
ٹرپیں زیادہ سب سے مگر حضرت بتول
ماتھے سے منھ پہ منھ سے بہاریش پر لہو
کہتی تھیں روکے مریم وحوا سے بار بار
نودن تلک تو فاطمہ پر جو ہوا ہوا
تسبیح خواں جناں میں جو طائر تھے باداب
گرپڑتے کیوں درختوں سے طائر نہ ایکبار
اب حالاں عرش سے پوچھو یہ غم کا حال
ناگاہ غل ہوا درجنت پہ ہائے ہائے
روکر کہا مدینہ میں تو اب کوئی نہیں
دل تھامے فاطمہ گئیں جبریل کے قریں
چلا میں فاطمہ مرے جبریل کو بلاؤ
ہے ہے حضور آپ ہویں بے لپر ابھی
جبریل کہہ رہے تھے وہاں یہ بہ شوروشین
بیٹھے لپٹ کے فاطمہ سے سب ادھر ادھر
زہرانے پوچھا کھ مری زینب پہ کیا ہوا
ڈھونڈھوں کہاں پکاروں کہا کس جگہ گئے
دستور ہے سفر کا زمانے میں صبحدم
ہم نےنورحم شمر پہ کھایا تھا بھائجان
ہے ہے ابھی تو پڑھتے تھے تم عصر کی نماز
رباعی
ایسے بھی انقلاب جہاں میں نہیں ہوے
ہوس ہستی فلک نہ قبا یہ ہیں
اب رشتہ دار سوزن ادریس ہے قلم
سرتاج کائنات حسن اور حسین ہیں
اک ماں سے کہہ رہا تھا میں عیدی جو پاؤنگا
جو گھر تھے زیر سایۂ دیوار مرتضا
مکتب سے بچے آتے تھے عیدی لئے ہوئے
گھر گھر تھے طفل جمع بزرگوں کے آس پاس
یاں اشک آبدار کے قطرے تھے زیب تن
یثرب میں سنکے چار طرف عید کی خبر
عسرت پہ اپنی روکے یہ معصومہ نے کہا
ماں بولی ہم تو دونو کے قربان جاتے ہیں
اماں لباس عید بنا دو ابھی ابھی
عسرت سے گوکہ ششدرو دلگیر ہیں حضور
بیٹوں نے عرض کی کہ بجا اے فلک جناب
گر سال بھر جبیں گے تو دیکھیں گے پھر یہ عید
یوں رشتہ سخن کو دیا پیاروں نے جو طول
اہل عبا ہیں جان رسول زمن ہیں ہم
کل عید کی نماز کو سب لوگ آئیں گے
ہم نے بہت حضور کا پاس ادب کیا
خیاط شام عید ہوا ناگہاں بحال
صدّیقہ کو نہ خواب تھا نہ چین زینہار
گویا ہوئی یہ دختر پیغمبر زمن
مرمایا فاطمہ نے بھلا میرا کیا قصور
کپڑے کہاں ہیں ان کو جودونگی دم سحر
ایوب کی خبر تو قلق میں لیا کیا
نوجانتا ہے یاں ہے نہ خیاط نے لباس
یارب دروغ گوتری خیر النسا نہیں
کل سب لباس فاخرہ پہنیں گے جا بجا
خیبر کشا کی زوجہ نے در کو جودا کیا
مجھکو یقین تھا نہ انہیں تو رولائے گا
مشغول تھیں دعا میں ابھی اشرف النسا
خیر النسا نے سجدہ میں سرت کو جھکا دیا
تشریف صبح عید کو خیر الورا جو لائے
دو موزے تھے وہ تحفہ زمیں جنسے سر فراز
رکھے پر انکے سر پہ عمامے جو یک دگر
بیٹوں سے تم نے نام جو خیاط کا لیا
ناگاہ کی نواسوں نے نانا سے التماس
کی عرض فاطمہ نے مجھے کچھ نہیں خبر
منھ چوم کر نبی نے کہا ہاں نواسو ہاں
پوچھا نبی نے رنگ تو بولا وہ خوش کلام
ابریق وطشت جلد بس اب کیجئے طلب
جبریل مثل رنگ پریدہ فلک سے آئے
اس رخت سبز گوں نے حسن کو یہ خوش کیا
کی عرض جلد رنگئے نہ دیر اب لگائیے
مشغول شکر میں ہمہ تن پختبن ہوے
ابریق نے خمیدہ سردست سر کیا
پھر حلہ جلد جلدا وتارا حسین نے
میں عید کو تو مہر نبوت پہ تھے قدم
ہے عید کو حسین نے کی یوں جہانکی دید
خیاط جنکا خازن باغ جناں ہوا
آئے قریب مسند پیغمبر خدا
تھی عید سب شہید قضا کے گلے ملے
وہ عید کیا تھی خاتمہ پخبتن کا دن
دیب بھی تھی قریب سناشہ کا یہ کلام
سہ بولے زخم نیزے کا میرے جگر میں ہے
کھبراکے فضہ دوڑی سوے شاہ حق شناس
پھر سب لہو بھرے ہوے کپڑے اوتار کے
منظور ہے کہ رخت کہن ہو کفن مرا
یاتو حرم خموش کھڑے تھے بحال یاس
ناگہہ بہن کو حکم شہ کربلاہوا
بہر مدد کسی نے ندادی رسول کو
کاہ لائی رخت کہن بنت مرتضا
تشریف لائیے کہ یہ وقت اخیر ہے
چلارہی تھی کوئی کہ احسان کیجئے
پے تھے زیر جامہ نیا شاہ بے وطن
جلدی سے شہ نے زیب کمرذوالفقار کی
شہ نے کہا خموش مری بے وطن بہن
بولی وہ کانپ کر کہ بہن بے ردا پھرے
پٹکا علی کا اس نے اٹھایا باشک وآہ
مانند عمر طے کیا مقتل کی راہ کو
سبکو دواع شاہ نے بارد گر کیا
دیکھا جو بانونے کہ شہ بحر و بر چلے
آگے جلو میں خاک بسر تھے ابو تراب
بولا عمر وہ کون ہیں کیا انکے نام ہیں
پیاسا ہوں پر ہوں خضر بھی آب بقا بھی ہوں
کیوں ذبح کرتا ہے میں خدا کا خلیل ہوں
چالیس آفتاب ہیں اس شمس کے سوا
کوثر کی آبروہوں میں رضواں کی آبرو
جس کی زمیں فلک ہے میں وہ آسمان ہوں
جو کچھ ہمیں خبر ہے کسی کو خبر نہیں
نوراپنا ہوگا جبکہ جزو کل نہ ہوئیں گے
دل مصطفےٰ کا ہوں کہ میں نورالٰہ ہوں
آدم کا فخر ہوں کہ میں عالی وقار ہوں
دیکھوں تو کون ہے یہ اسیر غم ومحن
سب متفق مٹانے پہ اس بیخطا کے ہیں
مدوجوہو صلاح تمھاری کہاں رہوں
جب بھی کہو تو جاؤں وطن کو مع حرم
پیاروسکا قتل جسکو کہ اپنی خبر نہیں
رودوباش کوہ کی بھی ہوئے ناگوار
سب پھر پڑے سقر کو رہ تو بہ چھوڑ کر
مقبول یہ گذارش تیغ دوسرہوئی
سنکر کلام سیدّ معجز کلام کا
ہلنے لگے نیام میں لب ذوالفقار کے
جولال امام دیں کا جور ہوار ہوگیا
ہاری کوتاز یانہ ہر اک تاررگ ہوا
قربان ذوالجناح پراور ذولفقار پر
کی جست وخیز زخش نے ہلتے ہی باگ کے
جب یہ رجز پڑھا فرس نامدار نے
انکے جگر کا نیزے سے زخمی ہوا جگر
حیراں بیان تیغ سے چھوٹے بڑے ہوئے
پہلا سوار تو بنی کردگار ہے
مرکے مرغ روح عقاب قضا اوڑا
روح جدا وہ شعلۂ قہر خدا جدا
یاب بہشت رونق اسلام فتح جنگ
تاب ہوئی زرہ جو بدن پر یہ چل گئی
چین جبیں کی طرح جبیں سے نکل گئی
ہر سر پہ تھی حسام دوسرسین کی طرح
بارش تھی آب تیغ کی برسات سے فزوں
اک وار میں سواروں کی صف سے یہ پار تھی
ہر شیر مثل آہوے وحشی نہاں ہوا
کل سلح عجب تہ تیغ دوسربنی
ناگاہ غل اٹھا کہ دوہائی ہے یا حسین
اللہ رے رحم تیغ کو روکا امام نے
اللہ رے رحم تیغ کو روکا امام نے
ناگاہ آیاسامنے خولی بے حیا
ناگہہ امام پاک گرے خاک پاک پر
لکھا ہے جب جگر پہ لگا تھا یہ تیرا آہ
اتنے میں بہر ذبح بڑھا شمر نا بکار
نام ونسب کچھ اس نے بتایا ہے یا نہیں
بس بس یہ بے گناہ ہے یہ بے گناہ ہے
چلاے مصطفےٰ کہ ٹہراے لعیں ٹھر
لوں نام ان مقاموں کا کیونکر زباں سے آہ
خنجر تھا کند جس سے کٹا خنجر حسین
یہ بھی نہ جانا شمر نے کیا کہتے ہیں رسول
لے تو ہی کہہ نہیں یہ پیمبر کا پیارا ہے
جو رگ کٹی گلے کی یہ پیدا ہوئی صدا
پمر بحر ابن کعب نے مطلق نہ کیا حیا
رس وطیور جن وملک نوحہ خواں ہوے
تھارن میں شہ کی لاش پہ انبوہ اشقیا
اسے کاپیر ہن ہوا افضال کردگار
رباعی
بس اے دبیر چاک ہے پیوند جسم وجاں
یارب مجھے مرقع خلد بریں دکھا
یارب چہل چراغ کی دل کو لگی ہے لو
جاؤں وہا تو دل میں نہ حب وطن رہے
یارب کبھی جہاں میں وہ دن بھی آئیگا
عصیاں ہیں سنگ راہ قدم لنگ راہ تنگ
اک جان اور ہزار تمنا ہے اے کریم
یاس اک طرف حیات سے بھی قطع آس ہے
دل مردہ سینہ مرقد تاریک وتارہے
اس دائم المرض کی دوا تیرے ہاتھ ہے
پیری نے سب اثاثہ مرا ضبط کر لیا
آدم کو خلد اور مجھے کربلا نصیب
ان طائروں کا جلد سنا مجھکو شورشین
وہ پاؤں ہے فلک جو اس سر زمیں پہ ہے
رضوان نامور کو مبارک درجناں
اے قبۂ منورہ قلبی لک الفدا
اب کر بلا سے شکوۂ در د فراق ہے
حیدر سے سعی کیجئے اے سرورہدا
لو جنت نجف سے جناب امیر آئے
اب صبر زیر مشق تزلزل یا حسین
اب زندگی ہے شاق مدد یا علی مدد
اک فوج بیشمار کھڑی ہے سوے یمیں
کرمدحت حسین اسی میں نجات ہے
موزوں ہوشان مصحف ناطق کی اس نمط
سعدی سے بوستان وگلستاں نہ باج لوں
ہمدے میں شان رب صمد جلشانہ
عاس دلقش وکاتب وخط بانی وبنا
اس خدا کا بارنہ کہسارسے اوٹھا
خود بیں نہیں ازل سے خدا بیں حسین ہیں
اللہ رے حسن عقل کہ عشق خدالیا
یوں تو سبھوں کو عشق خدا ہے بقد حال
وہ بار کیا تھا ہجرت یثرب سفر کا داغ
اپنا تو ہے یہ ورد کہ قرباں حسین کے
وہ بار کیا تھا دربدری اہل بیت کی
ہمت یہ کی حسین نے امت کے واسطے
یہ بار جب پسند شہ کربلا ہوا
جب دیکھتے ہیں اسکی طرف تھر تھراتے ہیں
نولاکھ کی جفائیں برابر اٹھا چکے
زین العبا کوراز امامت بتا چکے
اب فرض عین سب کو خیال حسین ہے
کیا حال ہوگیا ہے مری بیوطن کا آہ
یہ ہم نہیں حضور نے بہلا دیا جسے
یہ جو کہا سکینہ نہ ٹھرا سبھوں کا دم
زیب جواب دیتی ہیں فاقہ ہے تیسرا
شہ بولے بے جدائی کے چار انہیں ہمیں
ایسی ہٹیں بہن کی ہمیں بھی خوش آتی ہیں
ہم سے تو لی اب ان سے رضا لو تو جانیں ہم
ہاتھ اپنا پھر سکینہ کے سینے پہ رکھدیا
اب یاں وہ درد ناک روایت کروں بیاں
میں ندالہ بچوں سے یہ صبر کم ہوے
دوبار گاہ ہوگئی خالی حسین سے
پالا کی کانپ کانپ کے وہ نور چشم شاہ
زینب پکاری ٹوٹ پڑا ہم پہ آسمان
آئی جودرپہ خیمے کے پایا حسین کو
زینب پچھاڑیں کھاتی تھیں خیمہ میں جلجا
شہ نے کہا سبب نہ ہوا اسکا آشکار
اس بوس طبع طرز نہ حاشا بگڑنے پائے
لو ایک تو برآئی یہ اماں کی آرزو
یم کو ندا کی اوٹھے شاہ اتقیا
اس صدا یہ عرش سے اے حامل بلا
لاریب جرم ہے جوکہیں چاند رخ کو ہم
آْیا جلو میں سلطنت حشر کا علم
اللہ رے جلال وتجمل حضور کا
آمد پڑھوں حسین کی اس دھوم دھام سے
اللہ رے جلوس حسینی کی آب وتاب
مہر سواری خلف شافع امم
شمع وچراغ وآئینہ وصبح وآفتاب
سرح بزر گی رخ وکاکل دراز ہے
حقدار امید ورا گروہا گروہ ہیں
منصور اک فرشتہ ہے ذیقدروذبوقار
عقبےٰ ہے دہنے ہاتھ تو دنیا سوے یسار
آیا ہے ایک پاؤں ابھی یاں رکاب میں
مرکب حسین کا ہے نہ کیونکر ہو یہ حسیں
آواز ہاں اشارہ ران جنبش عناں
گھوڑا ہے یہ کہ جسکو ہے کوڑا کڑی نگاہ
لو اشہب فلم کو نہ معلوم کیا ہوا
لو ہوگئی مددشہ دلدل سوار کی
مشہور ہے بلال خوش اخلاص کی آذاں
دنیا میں جسکی تیزروی کی پکار ہے
آئینے آفتاب کے یہ کس حلب سے آئے
ایسی زمین زور پہاڑوں کا گھٹ گیا
ہے جوف جوش میں ہے پوق اب خروش میں
میں وردالسلام ہے واں ذکر الصلٰوت
میں قدم سے سبزہ میں طوطی کی جان ہے
یوں رن میں تاج بخش ملوک زمانہ آے
آگے جلو میں جن میں ہیں ملائک جنوں کے بعد
ملتی نہیں مسیح کو واں نبض آسماں
کافر آدان دیتے ہیں ناقوس توڑ کر
وارث ہیں ہم جناب شہ ذوالفقار کے
ہے لہو خداونبی کی قںسم تمھیں
ہم عالم بقا وفنا ہیں خدا کے بعد
ہیں نسب ہے ہم ساکوئی فی زماننا
رطب اللساں رجز میں ابھی تھی زبان پاک
یہ جدیہ کدیہ سعی یہ کورشش یہ اہتمام
نور خدا ہے فاطمہ کے نورعین میں
پھر ضبط ہو سکا نہ علی کی حسام سے
اس پھل سے طرفہ پھول کھلے ایک وار میں
ربیع دوسر کو سرپہ بٹھاتے تھے خاص وعام
ہٹھاد ہاتھ کھینچ کے بڑھی تیغ جانستاں
پھیرا جو سوئے آئینہ ذوالفقار منھ
سیفی کی طرح یاں سے چلی سیف قلعہ گیر
یہ صف کی صف قلم وہ پرے کا پراقلم
جسدم چمک چمک کے یہ جوشن پہ جاپڑی
ناگاہ اک جوان قومی البطحی لقب
سب کرو فرتھا جمع سواری کے درمیاں
ناگاہ اک ہرن ہواصحرا سے آشکار
مشغول تھے جہاد میں یوں شاہ تشنہ کام
دہنے کو آہوان ہنر مند کی قطار
لولگ گئی خدا سے پھر اس تلخ کام کو
نازل بلائے تازہ ہوئی سر پہ ناگہاں
دیوانہ دار دل سے یہ کہتا تھا وہ جری
لولگ گئی خدا سے پھر اس تلخ کام کو
حضرت کو عرضیاں تو میں لکھتا رہا مدام
کروں خاک میں نصیب کسی کو ملا نہ دے
اب اس قمر لقا کو مرا آخری سلام
حیت یہ تھی دکھائیگا خالق وہ روز جب
کیا لیا حمایتی نہیں اس خستہ تن کے ہیں
یوں درد دل حسین سے کہتا تھا دوستدار
تھرا کے شیر نے بہ فصاحت کیا کلام
یہ کہکے سوئے دشت چلا شیر نوحہ کر
گھیرا نہیں غلام نے بھی اسکو بے سبب
سرسے ٹپک کے تاج بڑھا قیس نامدار
بدلے کسے پکارتا تھا تو دم ہراس
اس نے کہا زبان کو لکنت ہے کسقدر
رکھ پر طمانچے مار کے بولا وہ قدرداں
اس نے کہا علاج نہ اس داغ کا کیا
فرما کے یہ نظر سے نہاں ہوگئے امام
یہ کہتے تھے کہ زین پہ تڑپے شہ ہدا
فوجیں جھکی ہیں خیمہ کو اس آن الغیاث
رباعی
دازدی حسین نے مضطر نہ ہوہم آئے
رباعی
ثابت جو انتقال نجوم وقمر ہوا
بیزار کیا اجل بھی ہے زینب کے نام سے
واں سینہ چاک چاند کے غم میں سحر کا تھا
جب شامیوں میں صبح کی نوبت کا غل ہوا
ناگاہ داخلہ ہوا خیمے میں شاہ کا
کل صبح یہ نمازی خیر النسا کہاں
اس گھر میں آج حشر بپا ہوگا صاحبو
ناگہہ چمک ہوئی در دولت پہ نور کی
یھی تھی پردہ ڈالے جو بانوے خوش لقب
لب پردہ کے تلے سے چچا نے بڑھائے ہات
یاں فشاں حسین نے یاقوت لب کئے
سوکھے لبوں کو چوم کے عباس نے کہا
بھائی حسین آپ نہیں تو بہن کہاں
یہ سنکے تو شی خانہ کو زینب چلی اوداس
وہ بولی کیا ردا بھی ستمگر اوتاریں گے
رو کر حسین بولے سنو حکم ذوالمنن
اشہر کہاں سدھارتے ہو کچھ بتاؤ تو
کردن جھکا کے آگے بڑھے شاہ بحر وبر
لو اب نہ ضد کرو کہ یہ کار ثواب ہے
سہ بولے عید گاہ شہیداں میں جائینگے
ماں کو پکاری سنئے پدر کیا سناتے ہیں
کیوں اماں جانے دونگی تو بابا پھر آئینگے
یہ سنکے جی میں رنج یتیمی سما گیا
عارض پہ ایک ہاتھ دہرے ایک کان پر
یہ سنتے ہی تڑپ گئے سلطان کائنات
آیا نظر یہ عالم غش میں ابھی مجھے
اب ہوگیا یقین کہ ہونگے یہ سب ستم
عباس کی طرف سے بھی ٹوٹی جو دلکی آس
شہ نے نگاہ غور سے کی سوے فوج شام
تسلیم گاہ میں ہوئی مجرے کی دھوم دھام
پردہ اٹھاکے ڈیوڑھی زینب کی نظر
عباس واں رواں ہوے کرسی بچھی یہاں
گردن ہلا کے شاہ نے دو نیمچے اوٹھائے
بیٹوں نے دی ندا کہ ہے مرنا محال کیا
زینب پکاریں بس بہت اخلاص میں نہ آؤ
شفقت سے والدہ نے کہی اس گھڑی یہ بات
قاسم کی ماں سے مڑکے یہ اس نے کیا کلام
حضرت نے بھانجوں کو گلے سے لگا لیا
بھائی کو چاہتے ہیں علم بخشیں شاہ دیں
زینب نے پھر نظارہ کیا روے شاہ کا
مستاق اس کلام کے تھے شاہ التقیا
گھر میں گئے اور آئے شتابی وہ مہ لقا
زینب کے لاڈلوں نے یہ بڑھ کر کیا کلام
حضہ سے دختر اسد اللہ نے کہا
نذریں لگے دکھانے جو انان حیدری
کھینچا تھا یوں علم طرف بازوے امام
ہنسکر پکارا شاہ نے اپنے فدائی کو
ناگاہ اوقتلو کی صدا تافلک گئی
بولا ہماکہ ہدہد خلد آشیاں یہ ہے
اٹھ اٹھ کے پھیلے رنمیں بگولے نشانوں کے
ابن علی کے بخت رسانے رسائی کی
اصطبل سے نسیم بہاری عیاں ہوئی
سرعت میں بسکہ تیزردوں سے وہ پیش تھا
نولاکھ ظالموں کا یورش دفعتن ہوا
فرما کے یا علی شہ صفدر ہوے سوار
اور دگاہ آمد فوج الہٰ سے
جھولے سے آکے خاک پہ سویا جو شیر خوار
بالیں حسینوں نے اٹھائیں جو ناگہاں
رن تھا عرق سے تازیوں کے خوف عرق میں
تیغ دنیام سے تھے سب آگشت دردہاں
رغبت سے نور عین علی نے جو کی نظر
آلش زباں جو کھنچ کے ہوئی ناگہاں بلند
روح القدس پلک کے زرہ مردمک کی ڈھال
عرب سیر بیشہ سرعت کی لی کہاں
اصحان صبر وشجاعت کا وقت ہے
عزت کلہ میں صفونپہ ہزار انقلاب آئے
ماریں تھی وہ تیغ سفید آب زیر کاہ
ناگاہ رستمانہ بڑھا ایک پہلواں
پسپا ہوئے عجم میں عرب جاکے چند بار
میں ہوں مکیں دوش نبی ہر مکاں کا فخر
فرمایا یاد گار سپاہ قلیل ہوں
کی ہل اتا خدانے عطا ہمکو بھوک میں
پرجوں کو اپنی مہر سے شمس وقمر ملے
پیر وہمارے نانا کو جوروز یہ ہوا
روشن پدر کا زور ہے دنیا پہ دین پر
جھوما سپر کو روک کے منھ پر وہ روسیاہ
چودہ خدا کے دوست ہیں لے رہیں انمیں ہم
سن آیہ مباہلہ میں چار تن ہیں بس
مطلب ہر ایک حق کی عنایت سے بن گیا
چلایا ابن سعد تمھیں ہے خیال کیا
آیا جلال میں اسدا شجع جہاں
اس نے بھی حملہ غالب کونین پر کیا
پھر تو بڑھے جنودو قشوں سب پئے جدال
حملہ کیا امام سلیماں وقار نے
دم مارا جس نے صاف سراسکا قلم کیا
سایہ گرا تو بولی سنبھل میرے ساتھ چل
میزان تیغ اپنے ہنر تولنے لگی
جوہر کا سلسلہ تھا مگر مچھلیوں کا جال
مہ کے حواس خمسہ پہ تھے ششجہت نثار
ماس ہنر میں سبزہ جوہر کی تھی پکار
کہہ اس سرے تھی زخموں میں اور گاہ اس سرے
اس سے نہ کوئی پہلوے امن واماں چھٹا
اک ضرب میں یہ رنگ کے سورنگ کرتی تھی
آگاہ اہل علم ہیں میں کیا بیاں کروں
سایہ دونیم رنگ دونیم اور بود ونیم
ایماں وکفر توبہ وعصیاں دم جہاد
اسکے خیال سایہ سے بسمل جو تھے حزیں
ہر سو یہی تھا شور یہی صوت الغیاث
ناگاہ آفتاب پہ شہ کی نظر پڑی
اب یوں بیاں کرتے ہیں ارباب اعتبار
وہ لو وہ بھاپ ریت کی وہ جسم نازنیں
جرات نہ کی رسولوں نے یہ وہ مقام تھا
آئے ہے اس جفا کا بیاں وامصیبتاہ
لکھتے ہیں یہ مصائب جرجیس نیکنام
اکدفعہ سنگدل نے کیا انکو سنگسار
پھر خلعت حیات جو حق نے عطا کیا
باقی کوئی نہ انپہ جفاے جہاں رہی
آئی ندا کہ صبر وتحمل یہاں نہیں
صابر کو لے گئے اسی جنگل میں روسیاہ
زندہ ہوا میں دفن رہ کردگار میں
یہ سنکے اپنی فوج سے اسنے کہا کہ ہاں
دل خال پر حسین کے رویا وہ نامدار
آسان کیا ملک نہ یہاں پر ہلا سکے
آئی ندا کہ ہم پہ عیاں سب کا حال ہے
لب یہ زیادہ پیٹنے رونیکا ہے مقام
لو مومنو لرزتا ہے اب دشت کربلا
دہڑکا یہ ہے کہ ذبح نہ ہو جائیں شاہ دیں
جرجیس کا مریض پسر بے دوانہ تھا
ان حادثوں میں سبط نبی زخم کھاتے ہیں
ان واسطوں سے ہل گیا شپیر کا جگر
آیا جو ہوش بولی پیمبر کا واسطہ
تاحشر وہ نہ بھولیگی زینب خدا گواہ
دوڑی بلک کے اور گری دختر علی
یہ بین کرکے منھ پہ ملا منھ کو ایکبار
اس یاس کے کلام سے چھاتی جو پھٹ گئی
اتنے میں تازیانہ لئے اک شقی چلا
جاؤسدھارو ہمکو گلے سے لگا چکیں
اب انجمن میں شور قیامت ہے اے دبیر
یہ کہہ کے خیمہ گاہ کو وہ خستہ دل گئی
وہ بولی غم سے آپ کے یہ غم نہیں سوا
رباعی
بولے علی خدا ہے بہت تم پہ مہرباں
تم کو محمد عربی کا ہے یہ پیام
تعظیم کی علی کی ہر اک نیکنام نے
کوہ رقیم پر جو علی کا گذر ہوا
پھر کاشف علوم نے ان سے کیا سوال
پیارا خدا کا بندہ ہے کوئی حسین نام
نو دن تو عین خواب میں آنسو بہاتے ہیں
ہم خواب میں بھی دیکھتے تھے آپ ہی کی راہ
کل ہوتے ہی سحر کے قیامت کا وقت ہے
شانہ ہوگا کوئی کہ لاشہ اٹھا کے لائے
یہ سن کے نیند کیسی کہ جاتا ہے دلکا چین
رسا علی کو دیکے یہ بولے وہ بے ریا
شبیر سے لپٹ گئے محبوب کروگار
اس گفتگو سے اونکا جگر تھر تھرا گیا
نانا یہی نہ ہم پہ بلا آئے گی پھر آئے
منھ دیکھتا تھا کنبہ کارو کروہ نیکذات
اب عرض ہے یہ اہل عزا کی جناب میں
فرمایا ہاں محبوں کی اسمیں نجات ہے
قرآں میں انکے رتبونکے کیا کیا بیان ہیں
اس اشک میں بھرے ہیں فوائد ہزارہا
اصحاب کہف کا تمھیں دستور چاہیے
سو سروقد خزاں نے کئے جبکہ پائیمال
عبرت سرایہ باغ ہے پیش ذوی العقول
سر پر کھڑی ہوئی ہے گھڑی انقلاب کی
حال گذشتگاں نہ کہلا کچھ کہ کیا ہوا
بیہوش ہیں سمند کی گردن پہ سر جھکائے
دکھلاؤں اب مرقع گلزار کربلا
دنیا اسی عزا کے لئے برقرار ہے
سرتاج اغنیانے کیا فتح سے خطاب
پانچوں کو دیکھنے لگے مڑکرشہ انام
جسدم ہوا یہ حال شہنشاہ کربلا
مہلت نہیں کہ تیر بدن سے جدا کریں
اسوقت درپہ خیمہ کے زینب تھی سامنے
حضرت سے پھر امام زماں نے کیا بیاں
پوچھا ؔظفر سے کیا تری خاطر ہے زیب وزین
دیکھا بلانے یاس سے روے گل بتول
باقی رہاجو صبر اسے یہ سنا دیا
ہادی نے قصد پھر بھی ہدایت ہی کا کیا
اس وقت یہ قضا وقدر کی ندا ہوئی
سب رنج بعد میرے اٹھانا خوشی خوشی
زہرا کے مہر میں نہیں دریا نہیں سہی
سچ کہیو تم میں رحم کے قابل ہوں یا نہیں
خیر الانام خیر النسا فاتح حنین
جسکا غبار نور ہے وہ خاکسار ہوں
نو جسکے آفتاب ہیں وہ آسماں ہوں میں
روزوں میں اور عیدوں میں جمعہ ہے انتخاب
دامن ہے جسکا گوشہ جنت وہ باغ ہوں
کینہ جدا ہے جس سے وہ سینہ ہمارا ہے
بابی کی شکل منھ میں درآیا وہ اژدہا
خاموش رہ گئی یہ رجز سنکے سب سپاہ
قرآں ہے ایک اور نبی مشرقین ایک
ماکہہ وہ سانپ کانپ کے رن سے رواں ہوا
رخشندگی تیغ کہوں یا جہندگی
اللہ ریے آبداری تیغ شررفشاں
پوچھا جو ذوالفقار نے فتنہ کدھر گیا
اس سے الجھ گئی کبھی اس سے الجھ گئی
کہنی تھی بار بار قضا کیا ہے میں ہوں میں
ہر سو تھا شور تیغ کا کچھ اور ڈھنگ ہے
گہہ ہمدمی صور سرافیل کرتی تھی
آنکھونمیں خواب راحت وعیش وطرب دونیم
بے نام وبے نشان تھا ہر اک پہلو انکا اسم
قالب کی تو یہ دشمن جاں تھی دم نگاہ
مل کر چلی فلک سے تو بجلی جدا ہوئی
بہر عدو بلاتھی شہ کربلا کی تیغ
موج زرہ کا تیغ کی گرمی سے تھا یہ حال
ہر حملے میں سپاہ لعیں کو اولٹ دیا
صر صر قدم قدم تھی فدا ذوالجناح پر
برسا رہی تھی خون کا مینھ تیغ شعلہ بار
سب حربے اک بدن پہ برابر لگاتے تھے
نصرت پکاری واہ ید اللہ کے خلف
شہ بولے دیکھ صبر دکھا نیکا وقت ہے
یہ سنکے خود نیام میں تیغ دوسر گئی
ناگہہ نگیں خاتم پیغمبراں گرا
مشتاق بہر ذبح بڑھے افسران کیں
سب تھم گئے مگر نہ تھما بد شیم
وہ بولا کوئی ہوگا میں دیکھوں بھلا کدھر
شہ بولے اور کوئی نہیں یہ بہن بہن
وہ رونا بیکسی کا وہ گھبرانا یاس کا
تھم جا خدا کو مان حبیب خدا کو مان
اب آیا وہ مقام کہ غش ہونگے مومنیں
یہ کہتے کہے سست ہوئی دم اولٹ گیا
سونپا کسے بہن کو یہ پوچھونگی بھائی سے
اے شمر میں گلے سے لگالوں تو ذبح کر
اے شمر پاس بھائی کے آؤں جو تو کہے
رباعی
ناگاہ ظلم تازہ عمر نے بپا کیا
حیدری صف میں حسینی علم آتے ہونگے
جن سے روشن ہے مدینہ وہ قمر آتے ہیں
مری بی بی کی امیرانہ سواری ہوگی
جب حرم قلعہ شیریں کے برابر آئے
شوکت آمد سادات کا سن سنکے بیاں
تھا خیال اسکو کہ چو گرد تو یاد رہونگے
کہتی تھی قاسم وکبریٰ کی ہوئی ہے شادی
بی بی گودی میں سکینہ کو بٹھائے ہونگی
صد آراستہ کی سبط پیمبر کے لئے
رن زہرا کی تو تم نے بھی سنی ہوگی خبر
دولدی سامنے دروازے کے پردیکی قنات
ہاں راہ میں برپا ہو اشور ماتم
عقدے کھجائینگے جب ہونٹ ہلا دینگے حسین
ایک عورت نے یہ باہر سے پکارا نا گاہ
بےتحاشا وہ یہ کہتی ہوئی دوڑی باہر
کہا شوہر سے خبر لاکہ یہ غل ہے کیسا
جسکا بابا ہے علی شیر خدا وہ زینب
پیٹ کر منھ کہا شیر یں نے بہن ہو نہ خفا
کون بھائی مری بی بی کا ہے شاہ شہدا
بخدا حضرت زینب تو انھیں کہتے ہیں ہم
کہا شیریں نے کہ بس بس ہوا دل کو آرام
آہ کی طرح روانہ ہوئی پھر وہ ناچار
شہر بانو بھی بھلا واں تجھے آئی تھی نظر
یاد ہے جب کہ لٹی شاہ عجم کی سرکار
درے تھامے ہوئے ہاتھوں میں کئی سوکفار
ایک لشکر ہے کئی کوس کے گردے میں پڑا
ھر کی اور طلائی ہیں علم بو قلموں
بن ہے رقص ہے اور انجمن آرائی ہے
یک بیک کانپ کے بانوے عجم چلائی
سویقیں ہے کہ شہ دیں نے اسے شاد کیا
کوئی کہتا ہے بڑے شیر کو مارا میں نے
یہ سخن قہر کا شیریں نے سناواں جسدم
کہا بانونے میں واری یہ نہ کہہ چلا کر
بال بکھرا کے نہ منھ اپنا چھپاؤ اماں
جاکے تسلیم شہ دیں کو کروں گی جسدم
کربلا میں مرے بابا نے نہ پایا پانی
جان شیریں میں نہ باقی رہی سنکر یہ بیاں
ہائے کچھ میری سمجھ میں نہیں آتا یہ حال
یہ بیاں تھا کہ گذر سامنے شیریں کا ہوا
پاؤں ننگے میں نکل آئی ہوں مشتاق امام
کہا بانونے کہ کیونکر تجھے آیا باور
سر اکبر پہ پھر اٹھ اٹھ کے کئے نظارے
خواب میں فاطمہ نے اسکو مسلمان کیا
پاؤں پر گرکے کہا سر تو اٹھاؤ بی بی
درد دل اس سے کچھ اظہار کروں یا نہ کروں
منھ پہ پلہ لیا شیریں نے یہ کر نییلگی بین
سر ہمشکل نبی خم ہوا شرمانے لگا
ہاتھ شیریں کا پکڑ کر اٹھی بانوئے حزیں
غور سے اس نے نظر کی جو سر شہ کی طرف
تم تو جنت کو سدھارے میں بلاؤں کسکو
میں تیرے آنے کے قربان ابا عبد اللہ
اس نے انگشت شہادت سے اشارہ یہ کیا
گود میں آئے ہو تو منھ سے بھی بولو آقا
پھر کئے بین کہ ہے ہے مرے آقا ہے ہے
دوڑی پھیلائے ہوئے دست تمنا شیریں
یہ فغاں سنتے ہی کانپا سر سلطاں امم
بس دبیر اب نہ بیاں کر تو بیان شیریں
رباعی
معجزے سے ہوا گویا یا یہ سبط رسول
رباعی
وہ کون رسول جزو کل قبلۂ ایماں
سرسبز ہو یارب سخن اس ہیچمداں کا
مہماں جو کیا عرش معلےٰ پہ تو کیا تھا
ہم انکا ہے جو فرش پہ وہ عرش بریں پر
مبعوث رسالت پہ ہوے جب شہ لولاک
عرض یہ کی بندے کا قریے میں مکاں ہے
سلطان کلام فصحا ہے سخن انکا
اب طوطی خامہ ہے نواسنج وشکریار
اس نے کہا وہ کون کہا حیدر کرار
دن ہوا گھر اسکا کہ دختر ہوئی پیدا
اقرار کیا مخبر صادق نے دعا کا
رماؤ دعا بندے کے حق میں یہ خدا سے
یہ سنتے ہی گریاں ہوا وہ واقف انجام
یہ مژدہ نبی کو دیا اس اہل وفا نے
طالع سے بدونیک کے خوب آپ ہیں محرم
یہ دیکھ کے سکتہ ہوا عامر کے پسر کو
پیارے جو ہم ان کو ہیں تو وہ ہمکو ہیں پیارے
وہ بولا دعا مانگو نہ یہ وقت خدالائے
ان باتوں پہ انگشت بدنداں ہوئے مولا
یہ کھ کے در فاطمہ پہ آیا وہ غمناک
حق کی نگہہ مہر سے سرمہ جو یہ پایا
کچھ ہوش سنبھالا جو عنایات خدا سے
اس خاک کا سر مہ جو دیا آنکھوں میں گہرا
اک مشت اسے فضہ نے اکسیر عطا کی
وہ بولی میں راغب کبھی باطل پہ نہونگی
حاضر ہوئی پیش نظر ہند خوش ایماں
ماں نے کہا میں کون وہ مالک ہیں تمھاری
کہہ حب وطن ہے کہ مدینے کی ہے الفت
اس حکم کی طاعت وہیں زہرانے ادا کی
کہتے ہیں طہارت جسے وہ رخت بدن تھا
دیکھا اسے اور خوش ہوئی معصومہ ذبحاہ
پر طوطی ہنداسکو کہے کیوں یہ سخنور
زہرا پہ جو روشن ہوئی یہ مہر ومحبت
جاتا تھا جو گھر سے وہ دل فاطمہ کا چین
تائید زباں سے تو فصاحت میں ہوا نام
بلقیس بنی ہند سلیمان رمن کی
ناگاہ چھپا خاک میں خورشید نبوت
تاشام جو مانند قمر ہندی تھی مشہور
القصہ کہ عبد اللہ عامر کی رضا سے
فارغ جو ہوے سوگ شہ قلعہ شکن سے
مروان نے حاکم کو لکھا خفیہ یہ ناگاہ
کونین کی دولت ہے مجھے خدمت شپیر
وہ بولے ادب تو ہمیں خود مد نظر ہے
فی الفور پئے نور چلے شام کے ناری
یہ بندۂ معبود ہے وہ بندۂ زرہے
وہ عار ہے فخر ہے وہ ننگ یہ ہے نام
وہ تخت نشیں دوزخ اسفل کا مکیں ہے
فریاد کی اس نے کہ ڈرو قہر خدا سے
وہ زہر ہلاہل یہ مجھے آب بقا ہے
پوشاک مری چھیں لوزیور مرا لے لو
جدا سکا بھلا فحر رسولان زمن ہے
وہ ناریہ فردوس وہ زقوم یہ طوبا
آئی یہ ندا صابردشاکر رہو واری
مظلوم نے بھائی سے کہا کیا کروں بھائی
لے جا کے اتارا اسے بے پیر کے در میں
لشکر نے کیا گرد سے اسکے نہ کنارا
لکھتا ہے یہ راوی ستم حاکم بے پیر
تحصیل شہادت کا ہے بچپن سے ارادا
القصہ طلاق اسکو دیا شہ نے باکراہ
دیا پہ ہے غش مرتا ہے تو جینے پہ ظالم
جاشہر خموشاں میں کہ عبرت کی وہ جاہے
یہ ظلم اور ابن شہ لولاک کے اوپر
پتھر نہ لگا دیں گے آئینہ پہ ظالم
جمشید خداوندی حق جام پہ بھولا
پہونچا یہ نوشتہ جو شہ جن وبشر کا
تو خوش ہے کہ ذلت ہوئی اک خاص خدا کی
اس شقہ کے پڑھتے ہی ہوئی ہند کو حیرت
پھر پشت پہ خط کی یہ کیا ہند کو تحریر
ہر سمت لہو برسا غم شاہ زمن میں
اسکو تو یہی تذکرہ تھا اور یہی یاد
زینب کے تصور میں یہ کہتی تھی وہ ششدر
بولا مری بیعت کا جو فرمائیں وہ اقرار
کوٹھے کے تلے آتے ہی حاکم کو بلایا
تشویش و تردد میں نماز اس نے ادا کی
سنتی ہوں کہیں ہے ترے لشکر کی چڑھائی
گلرنگ دروبام ہوئے روم سے تاشام
زخمی ہوئے تھے جبکہ شہ مرداں
آہوش میں غافل نہ شراب اتنی پیا کر
ہنسکر کہا ظالم نے کہ مارے گئے شپیر
مکار پکارا کہ میں پھر اور کہوں کیا
مجھکوا انہیں باتوں سے تری آتا ہے وسواس
نعرہ کیا اس نے کہ بڑا ہے تو فسادی
بے رخ ہوا ان باتوں سے وہ اور پکارا
سنکر یہ سخن اوٹھ گیا وہ ہوکے پشیماں
پوچھا کوئی بندی تو نہیں شام میں آئی
حالات ہوں کس طرح رقم لشکر شر کے
کی عرض کنیزوں نے مفصل نہیں معلوم
زنجیر ہے پہنے مراعا بد ساخوزادا
نزدیک رہا جبکہ درحاکم گمراہ
سوکھے پہ تو وہ چڑھ نہ سکی حال تھا تغیر
اس واقعے سے شہریوں نے شرم وحیا کی
تھا پشت پہ سب لوٹ کا اسباب برابر
فہمیدہ ہوتم خود نہیں سمجھا نیکے قابل
اتنے میں کھلا تخت پہ واں طشت طلائی
دو کرسیاں لے آئیں کنیزیں وہاں فورن
تھرا گئی حاکم کی بہن اس کے سخن پر
بانوے حزیں سہم کے عابد کو پکاری
کہہ ہند کے آنے سے یہ کیا حال ہے جی کا
لرزے امرا کانپ گیا حاکم خود سر
بے پردگی ہند سے اتنا تو ہے مضطر
شرما کے محل میں گیا وہ حاکم مکار
پھر جوڑ کے ہاتھوں کو یہ بولی وہ خوش ایماں
خلعت جو اسے دو کوئی پھناؤں میں بھائی
یہ نوحہ تھا کہ ہند قریب آگئی ناگاہ
زینب پہ نظر فضہ نے کی سر کو اٹھا کے
صاحب ابھی ہوش آسنا ہے مجھ بے سردپاکو
حیرت سے وہ چلائی کہ شاہ شہدا کون
زہرا کا گھرانا مجھے کیا بھول گیا ہے
زینب نے فغاں کی کہ یہ اصرار غضب ہے
حیران تھی میں کون شہ کرب وبلا ہے
اسدم سرشہ طشت میں تڑپا کئی باری
زینب ہے وہ زینب کہ تو ہے جنکی نمکخوار
حضرت مرے گھر قتل کے میدان سے آئے
رباعی
آقا کہو لشکر کو کہاں چھوڑ کے آئے
ایوب ترے صبروشکیبائی کے صدقے
منبر نشین انجمن شاہ دیں ہوں میں
محسوب انبیا ہیں یہاں اشکباروں میں
واجب ہے شبشجہت پہ تو لاے پختن
بیٹھو ادب سے یاں یہ ادب کا مقام ہے
دیکھو حواس خمسہ ہوے ان کے ہمعدد
گویا زبان داور ارض وسمایہ ہیں
ایک ایک تن جورتبہ میں یکتا ہے پیش رب
ہر فرد کو خدانے دیا خمسۂ حواس
اب نظم میں حدیث کا ہے ترجمہ شروع
ادل اسی نوید پہ سر میں نے خم کیا
سب نے طلب یہ گوہر راز نہاں کیا
اول تو پخجتن ہیں سردارانبیا
لیکن ادھر تو سجدے سے فارغ جبیں ہوئی
سجدہ میں چوتھی بار میں تھا اپنا سر جھکائے
آخر کہا کہ جان لو بر ترحسین کو
سنکر یہ وحی سجدۂ ثانی کیا ادا
کیوں منصفویہ حق تھا ولاے رسول کا
عرس بریں کے آل عبا گو شوارے ہیں
صد شکر حق نے شیعہ آل عبا کیا
لو شیعو! یہ تمھارے تفا خر کا ہے مقام
بالاتفاق لکھتے ہیں یہ عالمان دیں
حلق حسین وبرش خنجر حذر حذر
حاشا یہ امت شہ لولاک میں نہیں
کس کلمہ گو نے چھینے ہیں سیدانی کے گہر
لکھا ہے روز قتل کی جب دھوپ ڈھل چکی
اس عہد میں جو شیعہ عالی وقار تھے
یہ شیعہ اس زمانے میں پیدا ہوے نہ ہائے
صد حیف کچھ رعایت قول خدانہ کی
پھر ہنسکے یوں کیا عمر وشمر سے کلام
بولی سکینہ مجھ پہ ذرا رحم کھائیو
برچھی پہ سر حسین کا بدذات لے چلے
پیش یزید شاہ امم کا جو سر گیا
نیزے پہ ہے جلوس ہمارے امام کا
تھے سر کے راس وچپ ملک وحور ننگے سر
اک بے ادب نے نیزے کو فوراً جھکا دیا
سرپیٹتی یہ رہ گئی وہ سررواں ہوا
کہتے ہیں اس جمال پہ سب کو دک ومسن
میزان صبح وشام میں پیش سر مبیں
شامی پکارے صبح نبی جلوہ گر ہوئی
سر گرم جلوہ سر کا جور خسارہ ہوگیا
بینی سے روشنی کا بلندی پہ ہے ظہور
حاجب کی طرح ابروے زیبا نظر جو آئیں
ابروکے آگے طاق زبر جد خفیف ہے
ہے شرم عارض ولب ودنداں سے آب آب
چشم دوم سے بینی وابرو ہیں یوں بہم
نزدیک چشم راست ہے یوں بینی امام
اپنے طبق میں تاروں کے بھر کر درخوش آب
گویا یہ خشک لب ہے ہلال مہ صیام
اک مومنہ یہ کہتی ہے میں نے جو کی نظر
کل تھا یہ کس شہید کا جلوہ نما ہے سر
لے جاتے تھے جدھر سر شاہ انام کو
سب سے ملازمان یزیدی نے یہ کہا
رکھا ہے نام آپ خدا نے مرا حسین
راضی ہوں سرپھرے مرا نیزہ پہ در بدر
اب مشتری جو ہر بازارانتقام
روتی تھی خلق سنکے بیان سرامام
لب غازیوں نے تازی ضیغم فگن لئے
بادل غم حسین کے ہر دل پہ چھاگئے
اک شیعہ حسین کی ہمت کروں رقم
شعریٰ کے پر سے کو کوئی سوئے وطن چلا
گھر سے چلا دمشق کو تنہا وہ باخدا
القصہ گھر سے خاک اوڑاتا ہوا چلا
بولی وہ خوش عقیدہ خوشا حال مرحبا
یوسف کی طرح غرق تھا دل سر کی چاہ میں
خدمت یہ کی یزید کی جو مدعا ملا
رویا یہ شیعہ دیدۂ حسرت سے زار زار
پر دلکو واں ظہور عجائب سے تھا نہ چین
واری بہشت سے ترے زواراائے ہیں
نکلی دہن سے شیشہ کے نکہت گلاب کی
سوئے نجف وہ شام سے پچھلے پہر چلا
یوں فرق شاہ چاہ سے نکلا بہ حسن وجاہ
ہاتھ اس نے دھوکے آبرو وجاں سے ایک رات
پہاں رہا یہ خضر کی صورت نگاہ سے
چالیس لونڈیاں لئے خدمت کیواسطے
گذری خبر یہ حاکم شامی کو صبح گاہ
اک شب کو رفتہ رفتہ وہاں پہونچا یہ جواں
اک بولی گال مرا تو چراغ شعور ہے
باہر سے اس کنیز نے چلا کے یہ کہا
باہر نکل کے ایک کنیزک نے کی نظر
معمول سے کنیزوں نے حاضر کیا طعام
خورشید بانو نے اسے گھبرا کے دی صدا
اک نے کہا کہ ہوگا سکندر یہ نیکذات
اک نے کہا نجف میں ہے قبرا بوتر اب
موتی ہو یا کچھ اور ہواے بندۂ خدا
وہ بولی اشتیاق کا دلپر وفور ہے
ہدیہ ہے اسکا باغ جناں دے سکیگی تو
بولا محب مجھے نہیں پرواے مال ہے
یہ سنکے اور شوق بڑھا پھر کیا سوال
کہہ باہر آتی تھی کبھی خیمے میں جاتی تھی
آخر کری وہ خیمے میں غش کھا کے فرش پر
ٹولی کی یاد دل میں فراموش دو جہاں
الجھا کے دل کو یہ گئی بستر پہ سونے کو
غصے سے بولے آہ تھے کچھ خبر نہیں
یہ کہتی تھی کہ دیکھی کیا ہے وہ نوحہ گر
وہ بولی آہ کیا کروں صدمہ ہے جان پر
پھر سینے پر محب کے گھر نے کیا قرار
یہ دیکھتے ہی دل پہ وفور تعب ہوا
کس گھر کا ہے چراغ یہ ہے ہے بجھا ہوا
ٹکڑے ہے اسکے سوگ میں عیسیٰ کا جیب پاک
آہستہ اک کنیز ادھر سے گئی ادھر
فارغ جو اس فغاں سے ہوئی وہ جگر کباب
سجادہ زیر چوب پھر آراستہ کیا
کیوں صاحبو بتاؤ یہ در ہے کہ لال ہے
مہمان میرے کہہ تری دعوت میں کیا کروں
بابا مرا ولی خدا ہے گواہ
گھبرا کے وہ پکاری نہیں وامصیبتا
کی عرض لونڈیوں نے گریبان کرکے چاک
مڑ مڑ کے شہ کے سر کو لگیں دیکھنے وہ سب
میں راکب براق کے کاندھے کا ہوں سوار
دو بھائی ہم ہیں خاصۂ یزداں حسن حسین
اک بار پھر کے گرد سے شاہ مشرقین
رونیکا اجر دیگا تمھیں رب مشرقین
دل کو یہ ماتم شہدا میں مزہ ملا
برپا فغاں وآہ کے پھر غلغلے ہوئے
لکھا ہے جبکہ پاؤں کو رعشہ ہوا کمال
الہام رونے میں ہوا ان سبکو ناگہاں
اس روز شور سے کیا ماتم حسین کا
حوران خلد آئیں کہلے سر برہسنہ پا
فوارہ سارواں ہوئی ہر سر سے خونکی وہار
حوروں کو اس گھڑی یہ ہوا عرش سے خطاب
وہ بولے سب حسین پہ تیرے نثار ہیں
پھیلا ک ہاتھ ایک بزرگ انمیں سے بڑھا
رب میں اب تڑپتے ہیں یوں شیر کردگار
خورشید بانو اس کے برابر تھی ننگے سر
یہ کہنا تھا کہ مرقد پر نور شق ہوا
بھائی تیرے ہاتھ سے لو گا سر حسین
چلائی آئے فاتحہ خوان بتول آئے
لٹ کر سفر سے یوں کوئی سلطاں پھرا نہیں
اب اے دبیر طاقت نظوبیاں سے طاق
ہر ایک روز تم مری تربت پہ آتے تھے
اے شیر لے نجف میں ہوا تیرا داخلا
رباعی
مختصر فہرست کتبخانہ ریاض التجارت چوک لکھنؤ
سرورق
تمہید از خیبر
مرزا دبیر علیہ الرحمہ
قطعات تاریخ ترتیب وطباعت مثالی از شعرائے نامی بحساب ابجد
قطعہ تاریخ طبع سبع مثالی مصنفہ حقیر سید سرفراز حسین خیبر رضوی
قطعہ تاریخ از جناب چودھیر سید نظیر الحسن صاحب فوق رضوی اسپشل مجسٹریٹ وریس مہابن ضلع متھرا ارشد تلامذہ حضرت اوج مرحوم
قطعہ تاریخ از جناب چوھر سید مسعود الحسن صاحب قیسؔ رضوی خلف عالیجناب
صرف چند صریح غلطیوں کی تصحیح کیواسطے غلطنامہ درج کیا جاتا ہے
گلشن میں ہوا تخت نشیں شاہ بہاری
سلطان بہاری نے تجمل جو دکھایا
کوفہ میں بہار آئی جو گلگشت چمن کو
وہ موسم گل رنگ پہ کوفے کے چمن میں
لشکر وہ درختوں کا وہ شاخوں کی سنانیں
نیزے صف سبزہ نے جو تانے سوے گردوں
ناگاہ ہوا بدلی اٹھا جنگ کو باراں
پھر لیکے قلم فرونگہداشت اوٹھالی
مصرع میں جو موزوں میں کروں خوبی گلزار
ہے طبع کو فوارونکی مدحت میں روانی
وہ جشن وہ سبزے کا نیا فرش لب نہر
وہ مشک بدوش ابر کا ہر باغ میں آنا
ہے موسم گل حسن پہ گلزار جہاں ہے
وہاں ملتے ہیں بچھڑے ہوئے باپ آکے بسر سے
کوفہ میں بہار آئی شفا پاتے ہیں بیمار
دیکھے کوئی انصاف کی نظروں سے خدا را
گذری ہے نگاہ شہ والا سے یہ تحریر
غش آگیا ہے قبر میں نانا کو تمھارے
مرقد پہ نبی کے جو گئے سیّد والا
لکھے ہیں یہ خط کوفیوں نے اے شہ ابرار
شپیر نے عمامہ کو پھر قبر پہ رکھا
رو رو کے یہ کہنے لگا زہرا کا مسافر
تن خاک میں ملجائے تو سراوج سناں پائے
درکار نہیں مجھکو جہاں کا سرو ساماں
جب سینہ اٹھاتے تھے لحد سے شہ والا
لو میں کو رلوادیا مولا کی دعا نے
یہ میں نہیں کہتا نہو اصغرہدف تیر
عتول ہوا اٹھارہ برس کا مرا بیٹا
خط دیکے یہ مسلم سے کہا شہ نے کہ جاؤ
سوم تھی رجب کی جومدینہ ہوا ویراں
پھر زیب وہ رکن ومقام آکے ہوے شاہ
ہر قاصد کوفہ نے یہ کی عرض کہ باشاہ
کعبہ سے چلا ایلچی نائب حیدر
پانی بہت ان رہبرون نے دشت میں ڈھونڈھا
لکھا ہے سر راہ عدم آگئے رہبر
وارو ہوئے اس بادیہ میں ششدروحیراں
کیا رحم ہے ان مردوں کو خود جاکے اٹھایا
دیکھا یہ عریضہ تو نہ سنبھلادل پر غم
شہ بولے ابھی سے نہ کمر توڑو یہ کہکر
پھر کھینچ کے مدشاہ کو عرضی میں یہ لکھا
فرمان دہ کونین کا پہونچا جو یہ فرمان
اب لکھ۔تے ہیں یوں واقعۂ مسلم ذیجاہ
ہر حلبہ میں مشتاق یہ سب کہتے تھے رو رو
کوفہ میں وکیل شہ جن وبشر آیا
مسلم نے بھی یہ سن لیا بعضو کی ز بانی
وہ کہتا تھا مسلم کو ابھی تجھ سے میں لونگا
مسلم کو جو مہمان کرے وہ ہے گنہگار
جب پڑتا تھا دُرّہ تو وہ یہ کرتا تھا تصریر
کر قطع زباں ہاتھ اٹھاتا ہوں میں جاں سے
کوفہ میں جو پابند بلا ہوگئے مسلم
وہ شہر پر آفت وہ تلاطم وہ شب تار
یاں رشتہ بیعت کو ستمگاروں نے توڑا
وارد ہوانا گاہ در طوعہ پہ ششدر
طوعہ گئی اور جام لبالب دیا لاکر
آخر کہا طوعہ نے کہ اے بیکس وتنہا
اک دوست جو ہانی تھا ہواقید وہ غمخوار
پر دیکھ کے طوعہ کی طرف بولے یہ رو کر
اصول کو بڑھا کر یہ پکاری وہ خوش ایماں
کھ جانے کو طوعہ نے کہا جبکہ کئی بار
حیرت ہوئی طوعہ کو یہ بولی وہ حق آگاہ
لشکر کی ہوئی خانۂ طوعہ پہ چڑھائی
ناگہ پسر طوعہ نے یہ تذکرے سن پائے
لکھا ہے نویں رات تھی ذالحجہّ کی یہ آہ
یثرب کے مسافر کی مدد کرنے کو آؤ
پھر تھام لیا مسلم مظلوم کا داماں
تھامہر ابھی زین فلک پر نہ مزیّن
درپے ہوا کیوں ابن زیاد اسکا گہنہ کیا
مسلم نے کہا ضامن جنت ہوں میں تیرا
کہتے ہیں جسے روح وہ کیا ہے بدن انکا
بیٹھے ہوئے ہیں سب یہ محب شرابرار
تاریخ نہم صبح شہادت ہے نمودار
ہاں مشتریاں قمر برج فصاحت
روشن ہے رخ پاک سے اللہ کی قدرت
اللہ ری تمناے ضیاے رخ انور
آئینہ ہو اس رخ کے حضور آنکے حیراں
چہرہ چمنستان تجّلی خدا ہے
پیشانی پر نور کی کیا شان کہیں ہم
خورشید فلک پیش جبیں ذرّہ سے کمتر
ہے چشم جو بیمار تو پلکوں سے ہے پیدا
اب چیں جبیں کی میں بیاں کیا کروں تاثیر
یہ سب تو عبارت ہے معانی کروں اظہار
ابرو کے تلے کیجئے بینی کا نظارا
اس مدح سے کچھ دل نہ شگفتہ ہوا میرا
ہیں دوا بردہے عیاں بینیٔ اطہر
پیداشب کا کل سے سیہ روزیٔ اعدا
کا کل ہے کہ ہے رشتہ گلدستۂ رخسار
غنچہ نہ کہوں لب کو غنچہ ہے تنک ظرف
تعریف دہن میں تو دہن بستہ ہے میرا
سینے کو لکھوں سطحۂ آب در غلطاں
اب چاہ زنخداں کا سنو تازہ بیان واہ
نازک شکم صاف پہ یوں ناف نمایاں
ہے گوہر دنداں کا ترو خشک میں شہرا
ہر ساکن کعبہ کا ہے یہ قول سپر پر
دیکھو سراعلیٰ پہ ذرا خود کا عالم
قد کو نہ کہوں سر وگلستان کے برابر
انگشت اشارت جو نہ ہو تیغ کی پیدا
بیاد صف ہو تو سن کا ٹھرتے نہیں مضموں
کر خط شعاعی کی طرح لاکھ زباں ہو
صحراب عبادت ہے کماں آپ کی گویا
ملوار وہ ہے اس سے جو تشبیھ کا دھیان آئے
یہ چست اجل ست ڈپیراوریہ جواں ہے
غصہ سے جو سرخ آنکھ ہو اسکی دم جولاں
کیوں مومنو تصویر ہر اوّل نظر آئی
ہیں شش جہت اس توسن چالاک سے ششدر
پر گرد جو معلوم ہوا گنبد گرداں
برسانے لگے آگ عدد طیش میں آکے
اک حملہ میں مارا چہل وپنج کو اکبار
وہ بولے کہاں انکی ضیافت کا ہے ساماں
یاں سے تو سربام بدن جاتا تھا تنہا
اعجاز خلیل ایلچی لشہ نے دکھایا
چھالے تن نازک پہ نظر آتے تھے صدہا
سیلاب دم تیغ کی تھی چار طرف گشت
نیزہ کہیں مرکز جو ہوا گاف جگر کا
دریا یہ چڑھا ظالموں کے خون کا اکبار
ان آبلوں میں گرم عنانی کا یہ تھا حال
لشکر یہ خبر حاکم کوفہ ہوا دل تنگ
مدت سے سنا تھا جو نہ حال شروالا
کہتے ہیں کہ کہنے لگا اک ظالم گمراہ
یہ کہتے ہی غش ہوگئے گھوڑے سے گرے ہاے
ناگہہ لب ودنداں پہ لگا سنگ جفا کار
القصّہ کہ حاکم نے حضور اپنے بلایا
فرمایا کہ حاشا جو تاسف ہو کچھ اپنا
حاکم کا جو فرماں عمر سعد نے پایا
پھر طوعہ نے ہونٹوں سے لگایا وہ پیالا
تقصیر ہوئی بخشیوں لکھنے پہ نا جانا
ذیج کی نویں عرفہ کادن قتل کا ساماں
بیوہ ہے مری خواہر عباس دلاور
روداد بہت وقفہ کم اے شاہ خوش انجام
حمران کے فرزند سے حاکم ہوا گویا
ڈر کر کوئی کہتا تھا پناہ اے مرے اللہ
جاد نے تب بازوئے مسلم کو لیا تھام
خط لکھ کے عمر کو دیا اور بولے یہ آقا
کعبہ سے اسی روز روانہ ہوے تھے شاہ
کوفہ کی طرف شاہ نے منھ اپنا پھرایا
تب دھیان میں شپیر کے مسلم یہ پکارے
کوفہ کی زمین نے سر رفعت کیا پیدا
پیر پکارے ترا بابا ہے بہت دور
کیا روتے ہو لوگو مرے بابا کو پکارو
سر پیٹ کے سر ننھا سا حضرت کو پکاری
چہروں پہ طمانچے حرم شہ نے لگائے
پرلاش کو کوچوں میں پھراتے تھے جو بد خواہ
مظلومیٔ مسلم پہ دبیراب تو بکا کر
سر پیٹنے کی جاہے گر اجبکہ وہ لاشا
قاتل نے لگائی سر مسلم پہ جو شمشیر
آیا عروج پرسہ گشتی ستان مہر
جب ماہ نے نوافل شب کو ادا کیا
کلگونۂ شفق جو ملا حور صبح نے
پیدا ہوا سپیدۂ طلعت نشان صبح
بڑھ کر نقیب نور پکارا سحر سحر
یونس دہاں ماہیٔ شب میں نہاں ہوا
جلاد چرخ نے رخ آفاق فق کیا
مغرب میں جبکہ غرق جہاز قمر ہوا
کانٹوں میں جو گھرا ہوا تھا مالک جناں
کہسار اوج نیر قدرت سے دنگ تھے
ہمارے مقام سیر سے جاتے نظر پڑے
مغرب میں غل تھا گلشن انجم ہے پائمال
لکھ لے ملازمان حسینی کا خط وخال
تھا شام سے برہمن شب جو قمر پرست
معبود سے تھے مرغ سحر طالب فلاح
دیکھا جو حسن خامۂ خورشید پر ضیا
آئی صداے خضر کہ لبیک یا امام
وہ نور وہ سپیدہ وہ صبح اجل نما
تمغا ہے غازیوں کے لئے خوف ذوالجلال
کھا ہے باوضو تھے امام ملک خصال
فرمایا ذوالفقار سے ہے وقت یاوری
کلثوم کو پکاری وہ حیرت کی مبتلا
نام سلاح سنکے حرم پر چھری چلی
یوں صبحدم غلاف میں ہے تیغ اشکبار
شہ نے کہا خدا تو ہے گرہم نہیں نہیں
نگاہ الوداع بھی آعاز ہوگئی
زینب کا سینہ پھٹ گیا جی سننا گیا
عابد کو اک صحیفہ کیا شاہ نے عطا
تکلیف ہر امام کی ہے اسمیں حسب حال
یہ سنتے ہی سکینہ ہوئی ششدروحزیں
وعدہ قسم کے ساتھ اگر ہو تو مانیں ہم
یہ کہتے تھے کہ جانب پہلو پڑی نظر
بھولا طلوع صبح کے جلوے کو روز گار
القصہ اس کو دیکے تسلی ہزار ہا
مجرائی بار گاہ میں آئے ادھر ادھر
تشریف جانب دردولت حسین لائے
مثل براق نازکناں آیا ذوالجناح
پھر تو ہزاروں ہاتھ اٹھے رن میں ایکبار
عصمت سراسے جبکہ برآمد ہوئے جناب
لپٹے ہوئے رکاب وعناں سے تھے شاد شاد
جلوہ فلک فلک تھا تجلّی زمیں زمیں
سب ماہرو تھے شاہ پہ ہالہ کئے ہوئے
رن کو رواں سواری سلطان دیں ہوئی
کیا شاہ کی شکوہ سواری کہوں میں واہ
اللہ رے حسن یوسف بازار حیدری
یوں شہ نے کی درست صف میمنہ نخست
وہ تن پہ زیب اسلحہ وہ صف کشی کی شان
آقا تھے روح چار عنا صریہ جاں نثار
فارغ نماز روزہ وحج وزکات سے
اک ایک خضر لشکر والیاس قافلہ
کلمہ حسین کی وہ محبت کا پڑھتے تھے
بہر زرہ تیغوں کے جوہر اوتار لیں
آہنگ جنگ پر ہوئے آہنگ جابجا
ناگاہ مثل موج بڑھی فوج بدشعار
ہادی چلا ہدایت امّت کے واسطے
مثل نظر حیا ہوئی چشم عمر سے دور
وارث ہے انبیائے اولوالعزم کا حسین
چن لے سپاہ میں فصحائے عرب کو اب
یوں ظالموں سے فرق پہ ٹھرے شہ ہدا
ہرفرد کی عمر نے پڑھی فرد خال وخط
والفجر صبح آج کی ہے اے گروہ شام
پہلے خطاب قاریوں سے شۂ نے یہ کیا
یٰسین میں ہے خطبۂ تعریف مصطفا
ان دو گروہوں نے تو کیا راس وچپ مقام
میں نے کسی کے بیٹے پہ کی ہو اگر جفا
مقروض ہوں کسیکا نہ تقصیر دار ہوں
میں ہوں امیر شش جہت وحاکم زمن
ہوجاتی ہے بشر سے خطا اب بھی بازآد
میں شہسوار دوش بشیر ونذیر ہوں
طوبیٰ ہے جسکا میوہ وہ باغ عطا ہونمیں
بیجا اگر کہوں تو نہ مانو گلا نہیں
کرحکم دے زمین کو ابن ابو تراب
ہر لفظ کے امام نے معنی دکھا دئے
لو بولو نام شرع مٹاتے ہوتم کہ ہم
بابا مرارسول کا قائم مقام ہے
شہ نے کہا یہی تو ہیں اسرار کردگار
فرمایا خیر حق سے ہے پیارا نہ گھر نہ سر
یہ کہہ کے اپنی فوج کی جانب پھرے امام
آنکھوں سے پردہ اٹھ گیا دیکھا یہ اس گھڑی
آوازدی غلام کو آمجھکو تھام لے
حرنے کہا خدا کی طرف سے ہے یہ ندا
شاباش کہہ کے گھوڑے کو اترا وہ نامدار
فی الفور لیکے نام شہنشاہ ذوالفقار
حرنے زمین پر سرسجدہ جھکا دیا
خوش ہو خدا کے ہاتھ ہے تیرا ہر ایک کار
لیکن لباس کرنے لگا جبکہ زیب تن
تیغوں کے شعلے لیکے بڑھے گبر بدسیر
دریا کی طرح موج پہ تھی فوج اہل نار
ڈھالوں کا ابر بڑھتے ہی راہوار کے گھٹا
غل تھا کہ مشرکوں سے مسلماں جدا ہوا
پہونچا قریب فوج خدا جب وہ باوفا
زینب کے کان میں یہ خبر پہونچی ناگہاں
یاں حرکو رو کا ہاشمیوں نے ادھر ادھر
حرکو بھی جوش الفت شپیر آگیا
خود منفعل ہوں مجھکو گنہ کانہ طعنہ دو
یہ سنکے شہ کے گرد پھرے شہ کے خیر خواہ
اپنے قصور پر اسے خود اعتراف ہے
ھلجائیگا سلام ہی سے پرورش کا حال
فضّہ پکارتی ہوئی یہ آئی ناگہاں
پہنے جو ہوں میں حلّہ وہ حیدر کی ہے عطا
آقا کے ساتھ حر سوئے عصمت سرا چلا
سرسے عمامہ پھینک کے حرنے کہا کہ آہ
میں خواب میں تھا کوفہ کی بازار کو رواں
لو یجہ کی نویں سے یہیں ہے بتول پاک
دو یا میں اس بیان پہ رویا میں خوب سا
کجرے کو میں جھکا تو پکاری وہ نیک خو
زینب پکاری یہ تو کہی میرے دلکی بات
بڑھکر سوار ہونے لگا حرنا مور
توبہ کی اس غلام نے یہ خواب دیکھکر
ناگہہ پڑی وداع ہر اول کی دھوم دھام
اب ہے یہاں اشارۂ تائید کبریا
زینب ہوئیں زبان کرم سے گہر فشاں
رن کو رواں ہے تابع فرماں حسین کا
کیوں یارو لوگے نامۂ آزادی سقر
ہر جز وہے عناصر اربع کا انتخاب
سلماں کا فخر ہے یہ مسلمان باوفا
سلطان حسن حر کا رخ بے نظیر ہے
رخ ابجد مطالعہ میں قاف میم رے
پاؤں کو کوہ سر کو کھوں چرخ ہفتمیں
کیا وصف خال رخ کا قلمبند کیجئے
بالذات اوج عقد ثریا نہیں ہوا
محراب کعبہ لب ہیں دہن حجرۂ حرم
عارض سے بدر ہوئے معارض یہ کیا مجال
بینی کے گرد سر ہیں یہ ابرو جدا جدا
دانتوں کو موتی کہتے ہیں اہل سخن تمام
دل صاف سینہ صاف بدن صاف واہ واہ
ہر پنجہ سے عیاں ید قدرت ہے صفا
ہاتھوں کو شاح سروبتاتے ہیں خاص و عام
پیش بیاض گردن حر صبح جیسے شام
وصف زرہ سے شاد ہوئے صاحب ہنر
چار آئینے نے اور ہی صورت دکھائی ہے
چار آئینے ہیں حر کے شرف پر گواہ چار
آنکھوں کے حلقے اب میں زرہ میں لگا ہوں
شیریں ادا وہ رخش پری روہے زیر راں
شہگام اگر چلے کبھی یہ غیرت پری
اس رخش پر سوار جو آیا یہ صف شکن
پرکار سے یہ کاوے میں جولاں زیاد ہے
سمجھا عمر کہ نرم ہوا کچھ دل سپاہ
کھولا کسی نے جینے سے ہوکر تبنگ تبنگ
ہر صف میں غل تھا کون ہے یارب یہ باوقار
گردن ہلا کے شہ کے ہرا دل نے دی ندا
فولاد پوش بصرہ وروم وعراق وشام
اللہ رے شنا ور شمشیر آبدار
غواص تیغ خرکابراے شناوری
عواص تھی یہ تیغ کہ دریا تھی یہ حسام
حرحملہ در ہوا کہ اسد حملہ ور ہوا
ڈردر کے آب تیغ سے سب کوچ کر گئے
ہمدم دم حسام کا اعدا کا دم ہوا
یاں تک شرر فگن ہوئی شمشیر شعلہ تاب
شق کرکے سینہ تیغ گری قعر دل میں واہ
سرداروں پر جو دار کیا کہہ کےیا حسین
دلسوزااشقیا جو بنی تیغ برق دم
شمشیر حر کے رعب سے بسمل تھے اشقیا
آہن رہا تھے سنگدلوں کے دل دنے
لیکر کماں بڑھے قدرانداز ناگہاں
پہلا نشانہ ناوک حرکا پناہ تھی
پریاں تھیں محو تیر عجب چال چلتا تھا
اتنے میں نیزہ دار بڑھے تان کر سناں
چمکایا جس نے نیزہ کو دوڑا کے راہوار
کاندھے پہ رکھ کے نیزہ بڑھا شیر نیزہ دار
دریا لہو کے حر کی شجاعت سے بہہ گئے
حرشہ کے پاؤں چوم کے رنکی طرف چلا
زینب نے درپہ آکے کہا ثر کو مرحبا
حرنے کہا جو پانی ذرا سا ہو مرحمت
خالی ہوا سپاہ سے جب عرصۂ قتال
مشتاق مرگ رن میں گیا حر باوفا
دوڑے پیادہ کہہ کے یہ ہمشیر سے امام
یہ کہہ رہا تھا ظالموں سے حرنا مور
بولے حسین جامرے مہمان الوداع
پھیلا کے ہاتھ شہ نے کہا جاکے متصل
کہتے ہیں جب قریب رہی شہ کی بارگاہ
مقتل میں آکے دیکھتا کیا ہے علی کا لال
عارض پہ حرکے شاہ نے عارض کو رکھدیا
اصحاب نے کہا کہ بجا لائیں ملکے ہم
سب روکے بولے ہم تو ہیں حاضر ابھی مگر
پہونچے جو درپہ لاش لئے شاہدیں پناہ
کہنے لگے حسین کے اصحاب نامدار
میں جاں بلب ہوں طعنۂ اعدا سے مجھکو کیا
تو اپنے دہنے ہاتھ کی جانب تو کر نظر
آنسو ہر ایک فقرے پہ مولا کے تھے رواں
شہ بولے بس کڑھانہ مرے دلکو مرتے دم
یہ کہتے تھے کہ دیکھتے کیا ہیں شہ زمن
صل سے لاش حر کو تو اس طرح لاشاہ لے
رومال فاطمہ کا جولائی وہ دل حزیں
رونے کی جاہے اور یہ ہے پیٹنے کی جا
رباعی
بس اے دبیر لرزے میں ہے چرخ چنبری
سوبی کی شاخ تیثۂ قدرت نے کی قلم
لو امن ہے کبریا کا سراپردۂ جلال
پرچم ہے کس علم کا شعاع آفتاب کی
صبح جہاد شاہ ثریا جناب ہے
نور خدا سے قالب خیر الامم بنا
موجود کارخانۂ قدرت میں کیا نہیں
جب شاہ انبیا کو ہوئی خواہش علم
اب رایت زباں سر منبر علم کروں
قدسی یہ سنکے جانب طوبیٰ ہوئے ہوا
کی عرض قدسیوں نے کہ صدقت یاودو
طوبیٰ نے بھی زبان ادب سے کیا خطاب
کاٹی جو شاخ سبز فرشتوں نے ایکبار
چلائی سرکو پیٹ کے وہ حور خوش سیر
سب سے سوا تھا حور چہارم کا شورشین
القصّہ قدسیوں نے بارشاد کبریا
قدسی پکارے نام کہا اس نے بھر کے آہ
کیا شان ہے علم کی عجب عزوجاہ ہے
اب دیکھئے کسے یہ حسینی علم ملے
فوج خدا میں میں بھی ہیں طلبگار جابجا
حمزۂ کے سرپر سایہ فگن یہ ہمارہا
الفت کے جوش میں جو علم یان لچک گیا
اولاد پر سوال علم کا جوہے گمان
فضّہ کو حکم دیتی ہے زینب کہ رنمیں جا
ہر چند سب پہ شاق ہے امیدو انتظار
کس دن کے واسطے طلب رایت ظفر
ناگہہ وہاں حسین کا جاسوس معتبر
عباس لائے گوشہ میں اسکو علاحدہ
ڈرہے کہ چاک بنت علی کا جگر نہ ہو
اب دیکھئے مرقع ترتیب فوج شام
دنیا میں ہیں جو نام بر آور وہ اہل شر
گھاٹوں کا منتظم ہے حصین زبون صفات
یان ابتک نشان بھی علمدار کا نہیں
غازی کے پاس آئے جو ہم شکل مصطفےٰ
بولا وہ سر جھکا کے بجا کہتے ہیں حضور
حامل علم کاوان ہے بن سعد کا غلام
ہیں چچا بھتیجوں میں ہوتی تھیں یان بہم
پھر نو ملازمان شہ کربلا بڑھے
پھر رفع سب کی دلشکنی کا تعب کیا
کس شے پہ ہوگا حسن طلب کا ہمیں خیال
انساں تو کیا ملک بھی نہیں ایسے مستقل
پھر ہاتھ میں لیا علم شافع امم
یہ حکم ذوالجلال جو پاتے تھے جبرئیل
ناطق ہوا یہ مصحف ناطق ادھر ادھر
کھولا ابھی جو مصحف خاتون دوسرا
چھاتی سے سر لگا کے دعا دی امام نے
پرنذ دے کے عون ومحمد ملک شیم
جاسوس نے عمر کے جو دیکھا یہ ماجرا
کچھ کم نہیں نسب میں یہ سیف خدا سے ہیں
اے کشتیاں بھی میوونکی اور سروجام بھی
کردن اٹھا کے کہنے لگا شمر بدشعور
روٹھے ہیں اک علم پہ یہ شاہ انام سے
پر سر کے بھل دلیرونکی خدمت میں جائیو
خم ہوکے قدیہ کیا شمر نے کلام
سینہ پہ ہاتھ رکھ کے پکاراوہ بدشیم
آگے گمان بد ہوا پیچھے وہ بدگماں
آتا ہے رحم دونوں کے بچپن پہ دمبدم
حیراں ہیں سب یہ آپکے ماموں نے کیا کیا
شپیراب علم بھی جو دیں تو نہ لیجئے
کل خدا سے عاقبت اندیش ہیں حضور
لو فوج وملک ومال وخزانہ بس اور کیا
اللہ رے پاس شرع شہنشاہ انبیا
ہر قوم دہردیارکے یاں بھی ہیں کجکلاہ
یہ سنکے آپ میں نہ محمد رہے نہ عون
سرتاج تشنگاں کا جوسر کاٹ لائینگے
چلایا شمر لوابھی مسلم کا خوں بہا
اوصبح کاذب افق شام تیرہ فام
لایا ہے دوعلم بھی تو مکار ہے بڑا
نعرہ کیا علی کے نواسوں نے یک بیک
کل روز حشرانکی عدالت کو دیکھنا
اوجاہل شریعت پیغمبر انام
اس بار کے اٹھانیکو طاقت بھی چاہئے
ہمدوش حمزہ حیدر کرارتھے نہ تھے
دروازے اس چمن کے ہیں دوا ک سے اک جدا
یاں روز اک طلسم بنا اور بگڑ گیا
اوشمر کس شمار میں تو اور ترا یزید
ہم اور وہ ہیں ایک تجھے ہے خیال کیا
ارشاد ذوالمنن سے اگر بہر امتحاں
ہر فرد شوق نامہ ہستی ہے یک قلم
دیکھنے زرہ کے چشم نے ہم سے نہ صف شکن
انبار سیم وزر کے جواہل درم لگائیں
ان کو علم ملا تو ہمیں کو ملا علم
قدرت یہ ہے کہ غیب کے اسرار دیکھ لیں
عرش علا ہے فرش ضیا گر حسین
عباس این شیر خدا مدظلہ
قاتل کو جام دیتے ہیں تعذیر کے عوض
ناگاہ بار گاہ حسینی ہلی تمام
حافظ خدا ہے اماں کے پردے کی فکر کیا
آنکھوں میں بیحیائی ہے یا کچھ حیا بھی ہے
تم نیک ہو تمھاری بلا جانے مکروفند
تلوار سے نہ مارا تو یوں مارا بے خطا
لالچ کا بھی زباں پہ سخن لایا ہوئے گا
نزدیک تھا کہ دونوں کا دل آب آب ہو
دوڑیں وفور طیش سے حود زینب حزیں
ماموں سے اپنے پوچھ لیا تھا جواب دو
کلثوم یاں کھڑی تھیں پس پردہ بیقرار
شیروں سے در کے بھاگ کیا شمر مگاں
قدرت خدا کی اپنے بزرگوں سے آن بان
ہے ہے مجھے تو اور یہ وسواس اب ہوا
قبلہ کو ہاتھ اٹھا کے پکارے وہ مہ لقا
قرآن پہ ہاتھ رکھنے کو موجود ہیں غلام
زینب پکاری میں تو ہوئی سب میں سرنگوں
وہ بولے ہاں سکوت کی لائے نہ تاب ہم
شمر زباں دراز پہ تھا اختیار کیا
منھ سوکھتا ہے کہتے ہوئے چھوٹے مامو نجان
مجموعہ سودعاؤں کا ہے جوشن کبیر
مادر یہ سنکے دونوں پر ہونے لگی نثار
جوشن ہیں دو پر ایک صغیر اک کبیر ہے
خاصان خاص حضرت رب العلایہ ہیں
ناگہہ محل میں غرق بہ خوں آئے شاہ دیں
ان کی ثنا کریں گے بھلا کیا ہمہ شما
وہ گر پڑے حسین کے قدمونپہ دوڑ کر
اب جعفری گلوں سے وداع بہار ہے
حضرت سے ملتجی ہوئی خود زینب حزیں
زینب کا حر کی لاش پہ ساماں کوئی نہیں
عباس کو علم جو کیا آپ نے عطا
شہ نے کہا سعیدازل ہیں یہ نیکخو
آگے جو ان کا رنگ ہوا اور کیا کہوں
حضرت کے فدیوں کو شہادت کا شوق ہے
زانوئے فکر پر شہدیں نے دہری جبیں
بولیں مقیم کعبۂ اعظم تھے جب امام
بیسا ختہ تڑپ گئے دل کو پکڑکے شاہ
بولے حرم یہ صبر کے معنی ہیں آفریں
انگور میوہ میوہ سے اولاد ہے مراد
کی عرض آشکار یہ تعبیر ہوگی کب
سرمہ لگایا مدنگہ کی سلائی سے
ابن خلیل راہ خدا میں ہوئے فدا
اک گوشہ میں گئی وہ جگر گوشوں کولئے
بولیں کہ جو صلاح ہوراضی میں دل حنیں
سرمہ تھا یا وہ نور کے اقلیم کا سواد
موتی کی ثمر میں وہ بلوریں کلائیاں
پہنایا جامہ زیبوں کو اپنے لباس جنگ
جوشن وہ بازؤں پہ زبر جد کے آشکار
یہ دونوں دولھا آئے جو خدمت میں شاہ کی
زینب کو تھانہم سے عجب طرح کا ہراس
پھر زیور سلاح سنواراپئے جدال
جھاڑی مژہ کے پنجہ سے پھر زلف متکفام
جب قبلہ رو کھڑے ہوئے مثل صف نماز
جب بندگی کو ہیں تو خودائی کے واسطے
دو جانیں ایک جان کے بدلے قبول ہوں
دنیا ہے اے کریم تو سائل کو بے سوال
تقدیر انکی موت مجھے ایسی راس لائے
گلگوں بہار بوقلموں سے جناں نما
اصطبل سے مرقع صر صر رواں ہوئے
ناگاہ بے فروغ ہو اشرق خیام
شاہین فکر نظم کے یاں بال وپر گرے
میں اور ثنا علی کے نواسوں کی کیا مجال
لو شیعو آمد آمدروح الامیں ہوئی
باریک بال سے بھی جو گھس کر زبان ہو
چمکا وہ پرچم علم فضل ذوالمنن
جانا نہ کچھ بھی اپنے سخن کو دم بیاں
بالیدہ فخر سے ہوئی اب خاطر لمول
طالب نہیں صلے کا امیر وفقیر سے
بھرتے ہیں آسماں سے تگا ورقدم قدم
بسم اللہ اب کہو وہ خوزادے ہوئے سوار
پھیلے ہوئے نقیب تو رن بولنے لگا
مرے سے ان دلیرونکے سرکش ہیں بائمال
ہے شمر کس شمار میں مارا اگر تو کیا
ناگاہ باد پا ہوئے ساکن سرزمیں
معجز نما ہیں روز ولادت سے مامونجان
پیغمبر اپنے حضرت خیرالانام ہیں
صدیقۂ ازل نے کیا شکر کبریا
کم کم اٹھایا دامن زہرا سے اپنا سر
دل میں کہا یہود نے حیرت کا ہے محل
اگر یہودیوں نے نبی سے کیا سوال
دنیا تھی شبکو میری ولادت سے باغ باغ
بیت الشرف کے درپہ کیا فضہ نے قیام
بولا یہ مسکرا کے وہ حیدر کا یاد گار
پھر عرض کی یہ خدمت ابن بتول میں
تہلیل جو کہے وہ نبی کا بھی نام لے
ناموں ہمارے ہیں وہ سخی دو جہاں کے شاہ
کیا تھی بساط جعفر وحیدر کے سامنے
کیوں یہ شرف کسی نے زمانے میں پائے ہیں
نقارے پر جو چوب پڑی صاف اٹھی یہ دھوم
پانی تم اس سخی کو نہیں دیتے بوند بھر
اسوقت بھی عزیز ہے امت حضور کو
سنکر رجز لرزگئے مرواں گیرو دار
منھ دیکھکر محمد عالی مقام کا
ناگاہ تیرہ بختوں نے کی ابتداے حرب
آئے تھے دو گروہ ادھر سے جو بہر جنگ
چمکا یمیں کو نیمچۂ عون نامور
غصّہ میں پایا نیزے کا پھل ترک کورنے
وہ بولے یاد فاتح خیبر میں جھوم کر
بڑھکر لگائی عون نے بھی تیغ بے پناہ
پھر تو اوچھل اوچھل کے فلک پرگئی زمیں
بسمل علیٰ یہ بط یہ ضبط اس دغا میں تھے
بولے وہ مہر دیکھ کے اس آفتاب کی
ناگاہ اذن عون خدا عون کو ملا
گرتا تھا غول غول پہ اٹھتا تھا غل پہ غل
صفدر نے نوک تیغ کو پٹکے پہ رکھ دیا
بازوے عون نے بھی ادھر آزمائی تیغ
میکال وجبرئیل وسرافیل نے وہیں
جو پہلواں بڑھا ہوس کا رزار میں
پہونچے گا آفتاب تو مغرب میں وقت شام
بصرہ کے جیش رے کے قشوں روم کے جنود
طوفان آب تیغ سے حیراں ہوا عمر
اول نبی کے کنبے میں شہ کی بہن لٹی
قاصد کی شکل بن کے کوئی ان کے پاس جائے
عبد اللہ ابن جعفر طیّار گھر میں ہے
اب شور حشر حیدری وجعفری کریں
پہلے قیامت آئی حسینی سپاہ میں
پوچھا دلیروں نے کہ توقف کا کیا سبب
مڑنا تھا بس کہ اہل دغا وقت پاگئے
لو خنجر فریب ہوا رن میں کار گر
اتنے میں پردۂ درماتم سرا اٹھا
شانہ ہلا کے فضّہ نے زینب کودی ندا
ناگاہ آئے قاسم وعباس نوحہ گر
بن بیٹوں کی پھوپھی کو دلاسا دو میر یجان
بچپن کی موت کا ہے پسینہ جبین پر
سنتا تھا یہ کہ شکر کے سجدے ادا کئے
سودا خدا کی راہ میں تم نے عجب کیا
تحسین اے خدا وپیمبر کے محسنو
پوچھیں جو وہ کہ تم نے سلوک ایسا کیا کیا
باورنہ ہو تو مجھ پہ تم اتنا کرم کرو
تھرا کے عین غش میں یہ بولے وہ دل کباب
واجب ہر اک کنیز پہ ہیں مالکوں کے کام
آئی نداے غیب یہ ساماں نہ ہوئیگا
ناگاہ کلیجہ تھام کے تڑپے وہ باوفا
لکھنا ہے تو یہ لکھئے کہ اہل وفا ہیں یہ
کلثوم کو پکاری بہن کی مدد کو آؤ
سب نے سرحین کی زینب کو دی قسم
نشتر لگا رہے ہیں دل بیقرار میں
جب خوب رو چکیں تو کئے یہ غضب کے بین
یہ سنکے پیٹتے ہوئے سادات ہٹ گئے
پیٹے عمامہ پھینک کے لاشوں پہ شاہ دیں
البر پکارے ہم سے کہو کیا ہے التماس
یہ سنکے مطمئن ہوئے وہ غازی وغنی
پھر اپنے خوں میں کلمے کی انگلی کو کرکے تر
رباعی
بس خامۂ دبیر یہ دفتر ہے نا تمام
لو حاضرین بزم غم بادشاہ دیں
نزدیک ہے کہ پردۂ افلاک چاک ہو
اے چرخ تیری شرم وحیا آج کیا ہوئی
دے صبح کیا ہوا کہ ترا جیب چاک ہے
اے آسماں زمین عدم میں نہاں ہو آج
یہ دن وہ ہیں کہ بیکس وناچار ہیں حرم
بے رحم لے کے سر سر درکہاں کہاں
ماتم کے دن ہیں اور بندھی ہیں رسن سے ہات
ہاں روئیں اہل بزم کہ گریاں ہیں اہلیت
خوشبو ہے عطر خلق سے دربار مصطفا
اس کے حرم ہیں جوکہ رسول انام ہے
مرقوم ہے کہ حاتم فیاض کا پسر
بھرائیں منھ پہ بال کہ زانوپہ رکھیں سر
بولے یہ خلق دیکھ کے اصحاب نیکنام
یارو تمھیں بزرگی معبود کی قسم
قرآں کے جامہ سے ہے فزوں جسکی زیب وزین
فرمایا مصطفےٰ نے نہ برہم ہو اسقدر
حاتم نے راہ حق میں فقط مال وزر دیا
غل ہے کہ حرب گاہ سے بیداد گر پھرے
بندی میں ہے یہ شان سکینہ کی ہر قدم
ان کے لئے کسی نے عباواں بچھا نہ دی
القصّہ انجمن میں حرم بے نقاب آئے
پردہ اٹھا مگر درہفتم کا آہ جب
ناری کی بارگاہ کے دروازے سات ہیں
وہ رو کے بولی سچ ہے نہ کیوں شرمسار ہو
مہر خدا کا چشمہ ہے روے قمر فشاں
غل پڑگیا جلال خدا سر بسر یہ ہے
صل علی تجلیٔ رخسار باصفا
اچھا خوشی سے تخت پہ وہ دشمن خدا
دانتوں کے عقدے کھول رہا ہے لب امام
کیا منھ جو ہم وہاں وزباں کا کریں بیاں
ہر چند بند چشم خلائق نواز ہے
بینی کا قرب دیدۂ حق بیں ظہور ہے
اس نے کہا کہاں وہ امام انام تھے
بولا وہ منھ پھرا کے یہ اب تک سنا نہیں
بولا یزید دیکھ کے سرکی شکوہ وشاں
ہمت میں فوج فوج میں یکتا ہر اک دلیر
بولا ادب سے جوڑ کے ہاتھونکو وہ شریر
شربت کہاں کہ تلخ تھی مہمانوں کو حیات
جوڑا شہانا پہنا کہ چاک آستیں ہوئی
آئے جو معرکہ میں یہ دولھا بنے ہوئے
چہرہ تھا بدر اختر تابندہ خال تھا
رخ تھا جلال قہر خدا اوس دلیر کا
تیرہ برس کا سن تھا مہ چاردہ کانور
فتنے پہ فتنے اور ستم پر ستم گرا
سب احتیاج مند ہیں حاجت روا علی
رنگت کی جابھری تھی گل رومیں نازکی
دانتوں سے اور ہونٹوں سے تھا منکشف یہ جال
ناگہہ کئے کلام لب آبدارسے
جسکے گدا ہیں دونو جہاں یہ وہ بندہ ہے
جنگکا خدانے ساتھ نباہا وہ ہم ہیں ہم
انپر دلاوری میں کوئی ورنہ ہوسکا
کیا کیا ہمارے جد کا نہیں امتحاں ہوا
بچپن سے ہم نے بھی یہ سروہی سنبھالی ہے
آٹھوں پہر لگائی ہے چورنگ بارہا
سرسبز جوازل سے ہے اسکا نہال ہوں
جسکی کہ مبتدا ہے ازل وہ خبر ہیں ہم
یہ کہہ کے لی جو باگ ہوا حشر چار سو
تصویر انکی آنکھ کے آگے ہے اس گھڑی
میں رنگ وبو ہوں پھول حسن بوستاں علی
ہقسوم نیک تھا کہ یہ جاہ وچشم ہوئے
عباس اس دلیر کو کم عمر جان کے
چمکا کے راہوار کو چمکارنے لگے
فرما کے واہ واہ علمدار پھر گئے
ہر نعل آسماں کے لئے گوشوارہ تھا
پر تو خدا تھا بتوں کی زبان پر
ہر جاپہ برق بارقہ تھی اور نہیں بھی تھی
کہہ سکل پنبہ زار صفوں کو جلاتی تھی
جنوں کی برق آہ تھی بن بن چمک گئی
وہ ایک تیغ اور شرر اسکے ہزار تیغ
اوپھرے ہوئے تھے جوہر شمشیر جانتاں
بھالا سنبھالا جس نے وہ تھرا کے گر پڑا
آئی سرد نپہ تیغ تو محشر بپا کیا
اک بیت فی المثل مع مرکب تھا ہر سوار
کھولے یہ جو ہر اپنے کہ دم بند کر دیا
ملتے تھے آب تیغ سے چہرے سپاہ کے
گہہ نوک پر سہپر کے گنبد کو دہر لیا
اس نے کہا کہ ہاں مجھے بتلا تو کیا ہوا
کاٹا جو تیر کو تو کمال سے لپٹ گئی
بولا یزید یاں تو مرے ہوش جاتے ہیں
بیہوش زین پر خلف مجتبا ہوا
بسمل کئے تھے اس نے نمودی کئی جواں
سننا تھا یہ کہ ٹوٹ پڑے لاش پر سوار
ہے ہے زبان شمر سے نکلا جو یہ سخن
صدقہ جوانی علی اکبر کا جلد آؤ
سن لو جگر پہ نیزہ کے کھانیکا ذکر ہے
اس نوحہ سے یزید کا تھرا گیا جگر
سنتے ہی ذکر حملۂ عباس اس گھڑی
حاکم پکارا خیر سنا آگے کیا ہوا
دریا کے کھاٹ تیغ سے کوسوں بڑھائیں
عالم نے سوئے شمر اشارہ کیا کہ ہاں
ردیف لقا کا وصف کیا اس نے برملا
بولا یزید ہوگئے عباس جب تمام
زانو پہ ہاتھ مار کے چلا یا وہ شریر
آخر بیان بچہ کا نام ونسب کیا
سن وہ کہ رحم کھائے ہر اک گبراور یہود
پہونچا کے لاش اکبر عالی وقار کو
کی عرض تین جاوہ پکارا کہاں کہاں
کہدو کہ کھولدے پھوپی اماں کا بھی گلا
دیکھا بہت یزید نے ششماہی کا جمال
ننھا سا سر اٹھا کے جولایا وہ ناگہاں
دنیا میں ایسے حادثہ بھی کم گذرتے ہیں
برچھی جدا کلیجہ سے کی اور یہ دی صدا
اس نے کہا پھرا اے شہ ابرار کیا کروں
اسوقت خانہ زاد کا تھرا گیا جگر
یاں بھی بہت کڑھا تھا مرا دل خدا گواہ
اس نے کہا کہ رحمدل اتنا نہیں غلام
اسوقت نکلی شہ کی بہن شوروشین سے
نازیست وہ حسین کی غربت نہ بھولے گی
جالوں یہاں سے میں تو سرانکااتار تو
پھر تو ہماری تیغیں تھیں اور لاشونکے گلے
میں کیا کہوں کہ دوڑ کے مرّہ نے کیا کیا
اسوقت تک تھے سب شہدا کے تنونپہ سر
جو حاشیہ کی طرح طرفدار نہ ہوں گے
جتنے ہمداں ہیں وہ مرے مرتبہ داں ہیں
ہر باغ ہے گلچیں مرے مضموں کے چمن کا
سیفی کا نمونہ مری شمشیر زباں ہے
ممدوح مرا نام خدا سیف خدا ہے
یکتائی کے سانچے میں شبیہ انکی دہلی ہے
یہ بزم مقدس ہے فرشتوں کی گذرگاہ
کون اس کے سوا دادرس کون ومکاں ہے
شمع قدروشن کے دو پروانے پہ پر ہیں
یہ پروہ ہماجن کے ہوا خواہ سلیمان
جو عزو شرف جعفر طیارنے پائے
ہر شہپر زیبا ہے ورق صنع خدا کا
نے شمس جناں میں نہ قمر جلوہ فگن ہے
دنیا میں نہ آئے تھے اور افسانہ تھا انکا
محشر میں بجھائیگا عزاد ارونکی جو پیاس
قدرانکی کہلی مخبر صادق کی زبانی
آئینہ کے مانند تھا رن پیش پیمبر
رو رو کے کہا احمد مرسل نے قضارا
یوں تبصرہ میں کلک صداقت سے ہے مسطور
ناگاہ پیمبر نے کہا ہائے برادر
حیدر کو خبر دی یہ رسول دوسرا نے
پرلاش کے چوگرد فرشتوں کے پرے ہیں
اسدم سوئے میدان ستم دیکھئے مولا
کیا دیکھتے ہیں رن کی طرف مڑکے پیمبر
بدہ گیا حیدر نے کہ ہے اوجپہ تقدیر
جب مطلع قدرت سے ہوروشن وہ ستارا
سنکر یہ تمنا شہ لولاک پکارے
زہرا کوئی دوتین برس اور ہے مہماں
ہے عین سراسم کہ ہوں گے یہ علمدار
ناگاہ ندا آئی کہ ہم نام رکھیں گے
والی وہ کہاں رہتی ہے بتلاؤمیں جاؤں
مسجد سے گھر اپنے گیا وہ قبلۂ عالم
اطفال قریشی ہوں پس پشت میں واری
حیدر نے کہا سب یہ چشم ہوئیں گے زہرا
پیدا ہو جو عباس تو میں گود میں پالوں
مقدور مجھے اسکی تو اضع کا کہاں ہے
یہ سن کے نہ تاب آئی محمد کے وصی کو
زہرا نے کہا اور بھی احسان کرے گی
زہرا یہ بیاں سن کے ہوئیں سخت پریشان
ابتو نہ ولادت ہے نہ دیدار ہے زہرا
زہرا نے تو عباس کی حسرت میں قضا کی
زینب نے عجب نام لیا پیار سے اس آں
چلائی سعادت کہ سعید ازل آیا
کون نیک گھڑی نیک جگہ نیک وہ گھر نیک
شاہ شہدا آئے جو منھ دیکھنے کو پاس
فرزندیٔ شپیر گرامی ہو مبارک
بوسہ دیارخسار پہ شاہ شہدا نے
ہنستے ہوئے ناگاہ حسین وحسن آئے
حضرت نے اشارہ کیا پاس انکے نہ آؤ
ہم بھائی کے دیدار کے بھوکے ہو میں واری
القصّہ کہ ہردم ہوئی توقیر زیادہ
اتنے میں کہا ماں نے کہ آفدیۂ شپیر
فرمائشیں ماں پر تھیں کہ اے پیر وزہرا
یوں سنتے تھے ارشاد شہ ارض وسما کو
افضل یہ ہنر میں ہوئے سب اہل ہنر سے
ماں کہتی تھی شپیر تو بھائی ہیں تمھارے
اللہ رکھے انکی غلامی میں ابدتک
یک جان ودوقالب تو زبانونپہ ہے اکثر
شہ ان سے رضا مند تھے یہ شہ سے رضا مند
زہرا کی محبت کا سنا تھا جو فسانا
ہر بار یہ نوحہ ہے لب قبر سے جاری
لیکر علم آئے سر تربت شہ ابرار
ناگاہ کیا تجربہ الفت کا خدانے
ترتیب سواری میں ادھر تھے شہ ابرار
پرسا تو دیا مادر قاسم کو بلاکے
لکھا ہے لٹی جب دل زہرا کی کمائی
عباس پھرے گرد لحد سر کو جھکاکے
ماہ رکب آخر تھا کہ یثرب ہوا برباد
زینب نے کہا خیر ہو کیا اسکی ہے تعبیر
اتنے میں سکینہ نے کئے آکے اشارے
شہ بنے کہا قاسم نے دیا داغ دوبارا
پہلے نظر آیا کہ سراماں کا کھلا ہے
تم زندہ ہو اور اپنی اجل آئی ابھی سے
گھوڑے پہ چڑہائے گا تمہیں بھائی تمہارا
عباس پکارے کہ بھلا مشک تو لاؤ
مثکیزہ ادھر لائی وہ بنت شہ والا
غازی نے یہ سنکر سر تسلیم جھکایا
اسوار ہوا جلد علمدار گرامی
ہر چند رنڈا پے کا بڑا جبر وستم ہے
ناگھ دردولت پہ سواری کا ہوا غل
عباس سے کیا زین مزین نظر آیا
اللہ رے طمانچہ رخ روشن کی چمک کا
یکدفعہ پھری مردنی چہرے پہ اجل کے
نومنواب نظم کے میدان کو دیکھو
گھوڑا جو تڑپ کر تہ راں بول رہا ہے
مانند اذاں غلغلے ہیں صل علی کے
جب باگ ہلی آمد محشر نظر آئی
جاسوس عمر گوشوں میں استادہ ہے غمناک
اللہ رے نور بدن پاک کا سایا
اک حاشیہ اس روے کتابی کا ہے قرآں
خادم ہیں شجاع ان کے یہ ہیں عین سجا عت
یہ بھوک یہ پیاس اور یہ جہاں کا ستم وغدر
کیا چشم ہے کیا غازی حق ہیں کی نظر ہے
گودانت ہیں تیس مگر غور کی جا ہے
شپیر ہیں نام اور نگینہ ہے یہ سینہ
وہ مطلع ابروجو ہے توحید خدا میں
کیا دیکھتا ہے سعد کافرزند بدا طوار
کی عرض سبرداروں نے بھی آنکھ بدل کے
اس حسن سے دریا کو علمدار رواں ہیں
ناگہہ علموں نے سر تسلیم جھکائے
پھر دیکھ کے آئے کئ جاسوس قضارا
خوش ہوکے عمر نے دیا جو سوسو نکو انعام
اسوار ہوا جب اسد اللہ کا پیارا
اب غل ہے کہ مرنے کیلئے آتے ہیں اکبر
ملتا ہے مٹائے سے کہیں فاطمہ کا نام
جو مصحف ناطق کا ہوا خواہان ئپے تفسیر
کیوں عرش مکاں کون ہے شپیر ہے شپیر
پوچھے جو قمر نور خدا کون بشر ہے
یہ نور خدا آب بقا خاک شفا ہیں
کب نوح کو یہ پیاس کا طوفاں نظر آیا
گر عرش کہے کس کا عمل فرش تک ہے
گلے میں ہے میرا فرس تیز قدم شیر
اعجاز کے گل کھلتے ہیں گلشن میں ہمارے
عباس نے فرمایا بھلا خیر نہ مانو
جنت ہے ولانار عداوت ہے ہماری
جانے دو مجھے نہر پہ گر صلح کی ہے چاہ
عباس نے فرمایا بھلا خیر نہ مانو
سب ضرب دم تیغ سے الموت پکارے
ہر سوجو کیا قلزم لشکر کا نظارا
باراں کی دعا تیغ پہ جوہر سے رقم تھی
طوفاں کی طرح فوج بڑھی جوش دغا سے
طغیانی آب وشرر تیغ دو دم سے
خاشاک صفت لشکر ملعوں کو بہایا
جب اٹھ کے گری تیغ صف دشمن دیں پر
گوخوف سے خود عازم دوزخ تھی ستمگار
صرصر عقب رخش خوش انداز نہ آئی
سرشار کھڑی تھیں جو صفیں نشۂ مے میں
تلوار کی بجلی خس وخاشاک سے نکلی
رن تیغ اور چرخ گریزاں ہوارن سے
دریا سے مخاطب ہوا حیدر کا وہ جانی
اڑ اڑ کے یہ رنگ سیہ فوج نے گھیرا
شیرانہ یہ شمشیر جو پاس آئی جھپٹ کر
دن میں جو کسی روکنے والے کو نہ پایا
منھ پیٹ کے بانو یہ سکینہ کو پکاری
چہرہ شہ بیکس کا ہوازردقضا را
دریا سے عجب شان بنائے ہوئے نکلے
یاں ایک بلندی درخیمہ کے جوتھی پاس
ناگاہ ہوا عرصۂ مقتل تہ وبالا
کیوں صاحبو سرننگے میں اب خیمہ سے جاؤں
زینب نے جو گردن طرف نہر پھرائی
شرما کے یہ کہنے لگی وہ نازو نکی پالی
دیکھا کہ علمدار کو قربانی کی ہے عید
سیدانی نے منھ اکبر مظلوم کا دیکھا
پھر بیوۂ مسلم کو پکاری وہ دل افگار
ہے درد زباں حیدر کرار امامی
جاکر درخیمہ پہ کسی نے یہ سنایا
غازی نے دعا دی کہ ہمیشہ رہو آباد
شہ بولے لپٹ کر یہ برا اور ترے صدقے
یہ کہکے تبسم کیا پھر لب نہ ہلایا
پھر لاش پہ یہ مرثیہ پڑھنے لگے رو کر
عباس نہ ہوگا یہ کسی اہل وفا سے
سیدانیوں میں لاشہ عباس جو آیا
ہے ایک روایت میں کہ لاشے کو سنبھالا
ناگاہ کہاں ماں سے سکینہ نے یہ کیا ہے
اب لاش پہ ہر سوگ نشیں اشک بہائے
زینب نے کہا سونے کی یہ کون گھڑی ہے
جعفر کے عزادار ہوئے تھے مرے نانا
زینب نے ردالاش پہ جلدی سے اوڑھائی
پھر گود سے ماں کی وہ تڑپ کراترآئی
اماں مجھے عمو کی زیارت سے نہ ترساؤ
منھ دیکھکے بیساختہ چلائی وہ نادان
دل ہلنے لگا سہم کے بولی وہ دل افگار
رباعی
یہ کہکے بڑھی پھاڑ کے ننھا سا گریبان
شیعوں میں دبیراب نہیں مقدورفغانکا
جاروب کش فرش عزاعرش علا ہے
یوسف ہیں فدا جسپہ یہ بازار ہے کسکا
اے شمس وقمر نور کی محفل ہے یہ محفل
مجمع کو تفاخر ہے کہ اثنا عشری ہوں
آئینہ ہے دیکھو صف ماتم کی صفائی
یہ کون جواں ہے جسے روتی ہے جوانی
ماتم کا مرقع ہے کہ خاموش ہے مجلس
اٹھارہویں سال اب جو نہیں سایہ یہ کیا ہے
رخ وہ کہ حسینان عرب جسپہ ہیں شیدا
یہ غم ہے غم مرگ جوانانۂ اکبر
محتاج کفن لاش ہے کس فخر جہاں کی
کیوں یارو کنایہ ہی سے دل ہوگیا پارا
حق دوست ہیں حق گو ہیں یہ ہیں حق کے طلبگار
کھانے کی تمنا ہے نہ پانی کی تمنا
بادل کیطرح رنمیں عدو چھائے ہوئے ہیں
چہرے سے مصیبت بھی تحمل بھی عیاں ہے
ہم ہیں یہ ماتم کی صفیں دیکھ کے ہرسو
اکبر کی ہر اک بات پہ تھراتی ہے بانو
جنت یہ کنیزوں کی ہے کیوں شاہ کے گلفام
چاروں طرف اکبر کی خوشامد کا ہے سامان
پالا تھا اسی دن کے لئے تو کہ جدا ہو
ان جٹی بھووں میں جوبل آیاتو غضب ہے
پردیس نہںی بھوک نہیں پیاس نہیں ہے
اکبر کی گذارش ہے کہ منگوائیں سواری
پانی سے نہالوں کو ہراسب نے کیا ہے
کافی ہے تری چاہ جوپانی نہ ملے گا
رخصت تو بھلا مانگی پہ افسوس نہ آیا
گر نخل لگاتا ہے کوئی اے مرے گلفام
نعم البدل اکبر کا ابھی گھر میں ہے موجود
اکبر نے یہ کی عرض کہ خادم کا ادب کیا
کچھ بانوئے بیکس کو جواب اسکا نہ آیا
وہ بولی یہ مشکل ہے یہ دشوار ہے واری
ناگاہ نمودار ہوئی زینب غمناک
بولے علی اکبر تمھیں کہہ آئیں پھوپی سے
اکبر کے سنانے کو یہ کہتی تھی زباں سے
بانونے کہا کان میں اکبر کے خبردار
پھر رونے لگی بیٹھ کے واں زینب ناچار
جو بات ہو سچ اسکا براماننا کیا ہے
پاس آکے کہا زیب بیکس نے بہ رقت
ہٹ ہٹ کے وہ بولی کہ نہ یہ ذکر نکالو
ہیں تیغ سے کٹتے یہ گلا دیکھ سکوں گی
اکبر نے کہا آپ کی الفت کے میں قربان
کہتی رہیں بھابھی وہ ہیں حقدار تمھاری
زینب نے بہت آپکو اکبر سے چھڑایا
پھر تو یہ پکاری وہ ید اللہ کی جائی
عمامہ نے تو گیسوؤں کو بیچ میں ڈالا
بڑھکر علی اکبر نے قنات ایک اٹھائی
للہ سر پاک کے نہوڑانے کو دیکھو
گردوں کی طرف دیکھ کے شہ نے یہ سنایا
بندہ کوئی اس شکل کا بیٹا نہیں رکھتا
سرمہ کی جو خواہش مہ وخوشید نے پائی
نکلا وہ مرا دونکا چمن ہو نیکو تاراج
پھر دم کئے آئے کئی فرزند حسیں پر
اکبر جو ہوئے جلوہ فگن دامن زیں پر
سودا برضا ہوتا ہے بازار میں تیرے
شہزادے نے جلوہ جو کیا خانۂ زیں پر
لشکر میں خبر دار یہ لیکر خبر آئے
اک عالم حیرت تھا چہ لاہوت چہ ناسوت
وہ رخش تھا یا ابلق ایام کا اقبال
خادم ادب چرخ کو دوڑے کہ ٹہر جا
داغ کف موسی ید بیضا کیا ہم نے
رہوار کے کاوے سے زمیں چرخ میں آئی
تن پررہ معبود میں ہم سر نہیں رکھتے
ماتھے کا عرق پاک کیا انگلی سے بارے
احکام یزید اور میں اور اپنے امور اور
ساماں سے کوی صاحب ایماں نہیں ہوتا
حصہ میں اگر ہم ابھی تیور کو بدل دیں
لقمان نے حکمت کی سند پائی ہمیں سے
یثرب میں سب آتے ہیں زیارت کو ہماری
خاموش ہیں ہم حکم جناب شہ دیں سے
کیوں حجت اللہ سے ہر شے پہ ہے تکرار
بندوں نے بنایا ہو جسے کیوں وہ خدا ہے
لینے کی روا کے نہ مناہی کروواری
سنتے ہو ادب تم بھی نہ زینب کا بھلانا
ناگاہ یہ آواز ہوئی خیمہ سے پیدا
تری مرے دادا کیلئے عرش سے شمشیر
اس نیزے سے یہ سہم کے تڑپا وہ کمینہ
تھا ہالۂ تائید خدا میں میں قمر شاہ
ناگہہ عمر سعد نے طارق کو پکارا
گو نیزے کے فن میں بہت اس نحس نے کدکی
ناگہہ بن طارق عمر بد سیرآیا
چھوٹا جو خدنگ انکا تو چلائے کہہ ومہ
گردش کی نہ آنکھوں نے نہ جنبش سروپانے
خورشید نے پھر نیزہ کرن کا نہ ہلایا
چکر میں زمیں آگئی یوں گرد پھرایا
بعد اسکے صف جنگ سے اک صف شکن آیا
طلحہ بن طارق نے پھرا شہب کو اوڑایا
پھر دست مبارک سے جو اس نحس کو چھوڑا
مصراع سے مصرع ہوا ضم تیغ اجل کا
پانی نے اسے آپکی تلوار کو سونپا
مصراع ہوا رو بروے مطلع اسلام
دل فتح کا تازہ کیا اس خضر جواں نے
پھر تو قدم اسطرح بڑھارخش جری کا
للکارا یہ افسر کو جری تول کے تلوار
یہ تیغ گری ہر سربد خوپہ تڑپ کر
کڑکیت بھی کڑکے یہی رن ہے یہی میداں
پھر روکے کہا ہائے بہن فاطمہ صغرا
ہاتھ اپنا کلیجے سے اٹھا کر وہ پکارا
بینائی کو کیا پوچھتے ہو جاں نہیں ہائے
آواز پر اکبر کی علی کا پسر آیا
آوازدی بانونے میں اس یاد کے قربان
ناگاہ اٹھا پردۂ در آل عبا کا
بانو عقب پر وہ کھڑی کرتی تھی زاری
اکبر نے اشارہ کیا آنسو نہ بہاؤ
بچہ نہ مواتھا کوئی مجھ سوختہ جاں کا
بانونے کہا دیکھئے تو آپ اودھر کو
بھابی جو کہیں یہ سو کر وبھول نہ جاؤ
سیدا نیاں لے آئیں ردا اسکو اڑھا کر
للہ مرے صاحب غیرت کو مناؤ
اپنے میں کیا اکبر غازی نے تبسم
سرآپکے زانو سے سرکتا ہے دوہائی
فردوس کے پھولوں سے مہکتا ہے جو سب گھر
کیوں سوگ کا سامان کروں یا نہ کرونمیں
پردیکھ کے منھ مردے کا زینب کو پکارا
یوں مردیکے ماتھے کو چمکتے نہیں دیکھا
پھر لاش سے لپٹی کہ میں قرباں علی اکبر
پہلے سے خبر مرگ جوانی کی جو پاتی
تیرب کا کفن پہنو گے یا کعبہ کا بیٹا
پیارے کہو صغرا کیلئے بھیجوں سواری
اسنت دبیر اب تو سخن ہے تار اعجاز
رباعی
آدم کا داورس بنی آدم میں کون ہے
سرتاج عرش زیب وہ کرسی بلند
ہر ایک حرف نام مبارک کا ہے حسین
بسم اللہ اور حمد سے آغاز گر نہ ہو
لب پر تبسم آنکھ رخ نازنیں پہ وا
روشن ہے اب مشارق الانوار سے قمر
مصحف ابھی نہ تھا کوئی جز صورت حسین
یوسف تھا نہ کلیم نہ کنعاں نہ کوہ طور
یہ کہکے مثل غنچہ ہنسا ابن بو تراب
بولا ذقن پہ دست ادب رکھ کے وہ مسن
گویا ہو اخوزاداۂ میکال وجبرئیل
با میں علی کے لعل کی تھیں غیرت گہر
اس قوم سے جہاد وہ ہمنے کئے ہزار
پنجہ ہزار فرقے تھے اس قوم میں تمام
تھاسن وسال آدم اول اسی قدر
کی شرح انکی قوم پہ توحید ذوالجلال
بچپن میں تھی یہ علم امام امم کی شان
پہونچا جو اس مقام پہ زہرا کا نور عین
فرماں روائے کوفہ تھے جب حضرت امیر
نایاب یہ گھر ہیں مگر جو ہری کہاں
مکارنے کہا کہ تامل ہے اس میں کیا
یوں مڑگئے حسین سوئے شمر بد گہر
اک دن حسین ابن علی شافع انام
مولا کے گوش زد جو یہ اسکی صدا ہوئی
پوچھا بچھا نیکے لئے بستر ہے بولا ہے
سرحم کئے حسین گئے پیش شاہ دیں
اقرار سے قرار دل شمر کو دیا
پوچھا اندھیرا رہتا ہے شبکو کہ روشنی
آتا تھا یاں غلام ابھی کس سرور سے
بولے ستائے گا یہ مقرر کہا ستائے
فرمایا یہ اسیر تو قاتل تمھارا ہے
ہمنام کبریا نے کہا لو تو اس کا نام
آساں ہے مال ودولت وجاگیر بخشا
بولے علی یہ شرکا ہے بانی کہا کہ خیر
بولے ستم کریگا ستم پر کہا میں خوش
اللہ دوست چاہئے دشمن یہ ہے تو ہو
بابا نبی کی شرع کے تابع ہیں خاص وعام
تقسیم سیم وزر کی ہے اہل سخا کا کام
بابا خداے پاک کی رحمت کا واسطہ
فرمایا ہے یہ درپے آزار بولے ہو
یوں واسطے دئے جو خوزادے نے برملا
یہ ہمسے روٹھتے ہیں ہم انکو مناتے ہیں
ٹوکے گا شمر انکا چمن شفیع ہیں
اس لطف کا بیاں تھا کہ دلپر اثر کیا
اب آگے وہ بیاں ہے کہ تھراتے ہیں فلک
پھر خادموں کو حکم دیا جاؤ جلد جاؤ
اے شمر بھولیونہ تو احساں حسین کا
خدام لائے شمر کو حیدر کے سامنے
ظالم سے یہ خطاب شہ خوش نہاد ہے
خیمہ فرات سے جو اٹھا یا تو شمر نے
آتے ہیں یادشہ کو بہت مرتضیٰ علی
رن سے حسین جانب بیت الشرف چلے
مثل جنازہ ہاتھونپہ گھر میں حسین آئے
شہ بولے میں غریب ہوں کیا میرا آسرا
آوازدی کہ عترت اطہار السلام
جائیں گے ان کے پاس ہمیں وہ نہ آئیں گے
چو خود بلا میں ہو وہ کسی کو بچائے کیا
آسان سب ہے ایک بلا کیا ہزار کیا
فاقے کئی گذرگئے کیا ہم سے ہوسکا
صدقے خدا کے یہ بھی سب آسان کردیا
بخشدۂ مقاصد شاہ وگدا وہی
یونس کا بطن حوت میں مونس خدارہا
بولے حرم کہ اوسپہ ہے تکیہ سدا ہمیں
انصار تھے جباب رسالت کے یا نہیں
نکلے حرم سے روتے ہوئے شاہ دیں پناہ
کی عرشیوں نے غربت شپیر پر فغاں
گویا یہ عرض کرتا تھا خادم نثار ہو
شہ بولے تم نبی کی امانت ہو میں امیں
کاہیکو حلق پاک کا پھر بوسہ لیں گے ہم
لکھا ہے تھوڑی دور گئے تھے شہ زمن
دیتی ہے یہ ندا کہ میں قربان بھائی جان
یہ خادم قدیم جناب امام تھے
حضرت مڑے جو سوئے قفا کانپ کانپ کر
القصہ مل کے بھائی بہن پھر جدا ہوئے
ریتی کی بھاپ سے ہوئی جاتی ہے آنکھ بند
گردل جھکا کے ہرنے یہ شہ نے کیا قرار
کی عرض سچ ہے آس تھی جنکی وہ مرگئے
الفت سے ہاتھ سر پہ پھرایا اور آہ کی
قابو میں شاہ کے نہ رہا دل ہلا جگر
شہ نے کہا وہ کیا ہے بتاؤ نثار میں
حصہ سے تیغ ابرو ے سلطان دیں تلی
پوچھا کہ میں سوار ہوں بی بی کی ہے رضا
ابتک قدیم سے ہے یہ دستور جا بجا
ناکہہ پکارا شمر کہ اے شاہ دیں پناہ
جب رخش تیز پا ہوا محشر بپا ہوا
آمد بہار کی چمن کر بلا میں ہے
شہرت ہے شہر جلالت جہاں جہاں
کیسا عزیز یوسف کنعاں جلو میں ہیں
اجالے آسماں پہ ستارے ادب ادب
دہلی زباں پہ ادھر لافتا ادھر
اس روز سے ہے چار عناصر کی ابتدا
دھویں اور کروروں میں یکتا وہ بندہ ہے
مضمون ذوالجناح نیا باندھتے ہیں ہم
گھوڑوں کا سایہ وقت تگ وپوزمیں یہ ہے
کیا تو سن سپہر کرے اس سے ہشت مشت
سن لو نسب یہ رخش بڑا قوم دار ہے
بڑھنے میں دم کے بال الجھتے ہیں بال سے
گردش سے اسکی دور میں عاجز زمانہ ہے
لکھنے کی اور پڑھنے کی ابجد سے ہے بنا
لاکھوں کمال اسمیں ہیں لکھے کہاں تلک
قالب نسیم اسکا یہ روح نسیم ہے
ہد ہد کی طرح صاحب تاج اسکے ہیں فقیر
حضرت نے غافلوں سے کہا ہوشیار ہو
شہ دست حق پرست کو رکھے لجام پر
میکال رووح نام مرے خادمونکے ہیں
میں عالموں کو سامنے اسدم بلاؤ تو
میں جان ہوں رسول کی ہیں انس وجاں گواہ
ہم میں خدا کا علم ہے علم خدا میں ہم
ہاشم کے گھر کو دیکھے اور اپنے گھرانیکو
مانا یزید صاحب دولت ہے ہم نہیں
اکبر کے غم میں جسکا گریبان ہے قبا
فوج اسکے پاس بھی ہے پہ فوج خدا کہاں
میں بات پر یزید کا ہم سے مقابلہ
عزت نے دین و کفر کو آئینہ کردیا
عرس اسکا جبرئیل کا پر ہو نہ ہوئے گا
ہرے ہیں قبلہ اہل زمن نبی
یثرب کو اور نجف کو مڑے شاہ دیں پناہ
آئی ندا گواہ ترا ذوالجلال ہے
واں تو یہ وحی جنگ بڑھی آسمان سے
خالی نیام سبز ہوا ذوالفقار سے
دیتا ہوا ندایہ یہ نقیب ادب بڑھا
حیراں تھی عقل تیغ کے عزوقار سے
واں پہلے صف کشی ہوئی دریا پہ نا گہاں
اعراب خوب رکھتی تھی مولا کی ذوالفقار
یاں قبلہ روکھڑی ہوئی شمشیر جاں ستاں
چمکی غضب سے لشکر ابن زیاد پر
واں چار سو مخالفوں کے مکروزور تھا
جو جو کھڑے تھے منھ کے وہی منہ کی کھاگئے
پھول اڑگئے جو ڈھال کے خرمن سے ملگئی
آگے کبھی بڑھی کبھی پیچھے کو پھر پڑی
نیزہ تنا جو سامنے اس کے سناں نہ تھی
جس مورچے میں لیلیٰ تیغ دوسر گئی
تنہا جگر نہ فوج ستمگر کے آب تھے
بھاگا جو ہوش اڑکے تو للکارنے لگی
گاف شگاف بنکے درون جگر گئی
چھائی جو سر پہ شامیوں کے رات ہوگئی
کی ہواپہ یہ تو ہوا سے کدھر گئی
لبے لی پیاس یادنہ لشکر کی موت یاد
لوں لیکے جان فوج بدایماں بھی لے گئی
گاہ چلتے چلتے رکی راہ میں حسام
کہتے تھے پیدلوں سے سواراوقتلوالحسین
حضرت کے رونیوالوں نے پایا یہ دل کہاں
مولانے ذوالفقار کو زیب میاں کیا
اے حاضرین بزم غم بادشاہ دیں
اب رادیان دفتر غم کرتے ہیں بیاں
ٹرپیں زیادہ سب سے مگر حضرت بتول
ماتھے سے منھ پہ منھ سے بہاریش پر لہو
کہتی تھیں روکے مریم وحوا سے بار بار
نودن تلک تو فاطمہ پر جو ہوا ہوا
تسبیح خواں جناں میں جو طائر تھے باداب
گرپڑتے کیوں درختوں سے طائر نہ ایکبار
اب حالاں عرش سے پوچھو یہ غم کا حال
ناگاہ غل ہوا درجنت پہ ہائے ہائے
روکر کہا مدینہ میں تو اب کوئی نہیں
دل تھامے فاطمہ گئیں جبریل کے قریں
چلا میں فاطمہ مرے جبریل کو بلاؤ
ہے ہے حضور آپ ہویں بے لپر ابھی
جبریل کہہ رہے تھے وہاں یہ بہ شوروشین
بیٹھے لپٹ کے فاطمہ سے سب ادھر ادھر
زہرانے پوچھا کھ مری زینب پہ کیا ہوا
ڈھونڈھوں کہاں پکاروں کہا کس جگہ گئے
دستور ہے سفر کا زمانے میں صبحدم
ہم نےنورحم شمر پہ کھایا تھا بھائجان
ہے ہے ابھی تو پڑھتے تھے تم عصر کی نماز
رباعی
ایسے بھی انقلاب جہاں میں نہیں ہوے
ہوس ہستی فلک نہ قبا یہ ہیں
اب رشتہ دار سوزن ادریس ہے قلم
سرتاج کائنات حسن اور حسین ہیں
اک ماں سے کہہ رہا تھا میں عیدی جو پاؤنگا
جو گھر تھے زیر سایۂ دیوار مرتضا
مکتب سے بچے آتے تھے عیدی لئے ہوئے
گھر گھر تھے طفل جمع بزرگوں کے آس پاس
یاں اشک آبدار کے قطرے تھے زیب تن
یثرب میں سنکے چار طرف عید کی خبر
عسرت پہ اپنی روکے یہ معصومہ نے کہا
ماں بولی ہم تو دونو کے قربان جاتے ہیں
اماں لباس عید بنا دو ابھی ابھی
عسرت سے گوکہ ششدرو دلگیر ہیں حضور
بیٹوں نے عرض کی کہ بجا اے فلک جناب
گر سال بھر جبیں گے تو دیکھیں گے پھر یہ عید
یوں رشتہ سخن کو دیا پیاروں نے جو طول
اہل عبا ہیں جان رسول زمن ہیں ہم
کل عید کی نماز کو سب لوگ آئیں گے
ہم نے بہت حضور کا پاس ادب کیا
خیاط شام عید ہوا ناگہاں بحال
صدّیقہ کو نہ خواب تھا نہ چین زینہار
گویا ہوئی یہ دختر پیغمبر زمن
مرمایا فاطمہ نے بھلا میرا کیا قصور
کپڑے کہاں ہیں ان کو جودونگی دم سحر
ایوب کی خبر تو قلق میں لیا کیا
نوجانتا ہے یاں ہے نہ خیاط نے لباس
یارب دروغ گوتری خیر النسا نہیں
کل سب لباس فاخرہ پہنیں گے جا بجا
خیبر کشا کی زوجہ نے در کو جودا کیا
مجھکو یقین تھا نہ انہیں تو رولائے گا
مشغول تھیں دعا میں ابھی اشرف النسا
خیر النسا نے سجدہ میں سرت کو جھکا دیا
تشریف صبح عید کو خیر الورا جو لائے
دو موزے تھے وہ تحفہ زمیں جنسے سر فراز
رکھے پر انکے سر پہ عمامے جو یک دگر
بیٹوں سے تم نے نام جو خیاط کا لیا
ناگاہ کی نواسوں نے نانا سے التماس
کی عرض فاطمہ نے مجھے کچھ نہیں خبر
منھ چوم کر نبی نے کہا ہاں نواسو ہاں
پوچھا نبی نے رنگ تو بولا وہ خوش کلام
ابریق وطشت جلد بس اب کیجئے طلب
جبریل مثل رنگ پریدہ فلک سے آئے
اس رخت سبز گوں نے حسن کو یہ خوش کیا
کی عرض جلد رنگئے نہ دیر اب لگائیے
مشغول شکر میں ہمہ تن پختبن ہوے
ابریق نے خمیدہ سردست سر کیا
پھر حلہ جلد جلدا وتارا حسین نے
میں عید کو تو مہر نبوت پہ تھے قدم
ہے عید کو حسین نے کی یوں جہانکی دید
خیاط جنکا خازن باغ جناں ہوا
آئے قریب مسند پیغمبر خدا
تھی عید سب شہید قضا کے گلے ملے
وہ عید کیا تھی خاتمہ پخبتن کا دن
دیب بھی تھی قریب سناشہ کا یہ کلام
سہ بولے زخم نیزے کا میرے جگر میں ہے
کھبراکے فضہ دوڑی سوے شاہ حق شناس
پھر سب لہو بھرے ہوے کپڑے اوتار کے
منظور ہے کہ رخت کہن ہو کفن مرا
یاتو حرم خموش کھڑے تھے بحال یاس
ناگہہ بہن کو حکم شہ کربلاہوا
بہر مدد کسی نے ندادی رسول کو
کاہ لائی رخت کہن بنت مرتضا
تشریف لائیے کہ یہ وقت اخیر ہے
چلارہی تھی کوئی کہ احسان کیجئے
پے تھے زیر جامہ نیا شاہ بے وطن
جلدی سے شہ نے زیب کمرذوالفقار کی
شہ نے کہا خموش مری بے وطن بہن
بولی وہ کانپ کر کہ بہن بے ردا پھرے
پٹکا علی کا اس نے اٹھایا باشک وآہ
مانند عمر طے کیا مقتل کی راہ کو
سبکو دواع شاہ نے بارد گر کیا
دیکھا جو بانونے کہ شہ بحر و بر چلے
آگے جلو میں خاک بسر تھے ابو تراب
بولا عمر وہ کون ہیں کیا انکے نام ہیں
پیاسا ہوں پر ہوں خضر بھی آب بقا بھی ہوں
کیوں ذبح کرتا ہے میں خدا کا خلیل ہوں
چالیس آفتاب ہیں اس شمس کے سوا
کوثر کی آبروہوں میں رضواں کی آبرو
جس کی زمیں فلک ہے میں وہ آسمان ہوں
جو کچھ ہمیں خبر ہے کسی کو خبر نہیں
نوراپنا ہوگا جبکہ جزو کل نہ ہوئیں گے
دل مصطفےٰ کا ہوں کہ میں نورالٰہ ہوں
آدم کا فخر ہوں کہ میں عالی وقار ہوں
دیکھوں تو کون ہے یہ اسیر غم ومحن
سب متفق مٹانے پہ اس بیخطا کے ہیں
مدوجوہو صلاح تمھاری کہاں رہوں
جب بھی کہو تو جاؤں وطن کو مع حرم
پیاروسکا قتل جسکو کہ اپنی خبر نہیں
رودوباش کوہ کی بھی ہوئے ناگوار
سب پھر پڑے سقر کو رہ تو بہ چھوڑ کر
مقبول یہ گذارش تیغ دوسرہوئی
سنکر کلام سیدّ معجز کلام کا
ہلنے لگے نیام میں لب ذوالفقار کے
جولال امام دیں کا جور ہوار ہوگیا
ہاری کوتاز یانہ ہر اک تاررگ ہوا
قربان ذوالجناح پراور ذولفقار پر
کی جست وخیز زخش نے ہلتے ہی باگ کے
جب یہ رجز پڑھا فرس نامدار نے
انکے جگر کا نیزے سے زخمی ہوا جگر
حیراں بیان تیغ سے چھوٹے بڑے ہوئے
پہلا سوار تو بنی کردگار ہے
مرکے مرغ روح عقاب قضا اوڑا
روح جدا وہ شعلۂ قہر خدا جدا
یاب بہشت رونق اسلام فتح جنگ
تاب ہوئی زرہ جو بدن پر یہ چل گئی
چین جبیں کی طرح جبیں سے نکل گئی
ہر سر پہ تھی حسام دوسرسین کی طرح
بارش تھی آب تیغ کی برسات سے فزوں
اک وار میں سواروں کی صف سے یہ پار تھی
ہر شیر مثل آہوے وحشی نہاں ہوا
کل سلح عجب تہ تیغ دوسربنی
ناگاہ غل اٹھا کہ دوہائی ہے یا حسین
اللہ رے رحم تیغ کو روکا امام نے
اللہ رے رحم تیغ کو روکا امام نے
ناگاہ آیاسامنے خولی بے حیا
ناگہہ امام پاک گرے خاک پاک پر
لکھا ہے جب جگر پہ لگا تھا یہ تیرا آہ
اتنے میں بہر ذبح بڑھا شمر نا بکار
نام ونسب کچھ اس نے بتایا ہے یا نہیں
بس بس یہ بے گناہ ہے یہ بے گناہ ہے
چلاے مصطفےٰ کہ ٹہراے لعیں ٹھر
لوں نام ان مقاموں کا کیونکر زباں سے آہ
خنجر تھا کند جس سے کٹا خنجر حسین
یہ بھی نہ جانا شمر نے کیا کہتے ہیں رسول
لے تو ہی کہہ نہیں یہ پیمبر کا پیارا ہے
جو رگ کٹی گلے کی یہ پیدا ہوئی صدا
پمر بحر ابن کعب نے مطلق نہ کیا حیا
رس وطیور جن وملک نوحہ خواں ہوے
تھارن میں شہ کی لاش پہ انبوہ اشقیا
اسے کاپیر ہن ہوا افضال کردگار
رباعی
بس اے دبیر چاک ہے پیوند جسم وجاں
یارب مجھے مرقع خلد بریں دکھا
یارب چہل چراغ کی دل کو لگی ہے لو
جاؤں وہا تو دل میں نہ حب وطن رہے
یارب کبھی جہاں میں وہ دن بھی آئیگا
عصیاں ہیں سنگ راہ قدم لنگ راہ تنگ
اک جان اور ہزار تمنا ہے اے کریم
یاس اک طرف حیات سے بھی قطع آس ہے
دل مردہ سینہ مرقد تاریک وتارہے
اس دائم المرض کی دوا تیرے ہاتھ ہے
پیری نے سب اثاثہ مرا ضبط کر لیا
آدم کو خلد اور مجھے کربلا نصیب
ان طائروں کا جلد سنا مجھکو شورشین
وہ پاؤں ہے فلک جو اس سر زمیں پہ ہے
رضوان نامور کو مبارک درجناں
اے قبۂ منورہ قلبی لک الفدا
اب کر بلا سے شکوۂ در د فراق ہے
حیدر سے سعی کیجئے اے سرورہدا
لو جنت نجف سے جناب امیر آئے
اب صبر زیر مشق تزلزل یا حسین
اب زندگی ہے شاق مدد یا علی مدد
اک فوج بیشمار کھڑی ہے سوے یمیں
کرمدحت حسین اسی میں نجات ہے
موزوں ہوشان مصحف ناطق کی اس نمط
سعدی سے بوستان وگلستاں نہ باج لوں
ہمدے میں شان رب صمد جلشانہ
عاس دلقش وکاتب وخط بانی وبنا
اس خدا کا بارنہ کہسارسے اوٹھا
خود بیں نہیں ازل سے خدا بیں حسین ہیں
اللہ رے حسن عقل کہ عشق خدالیا
یوں تو سبھوں کو عشق خدا ہے بقد حال
وہ بار کیا تھا ہجرت یثرب سفر کا داغ
اپنا تو ہے یہ ورد کہ قرباں حسین کے
وہ بار کیا تھا دربدری اہل بیت کی
ہمت یہ کی حسین نے امت کے واسطے
یہ بار جب پسند شہ کربلا ہوا
جب دیکھتے ہیں اسکی طرف تھر تھراتے ہیں
نولاکھ کی جفائیں برابر اٹھا چکے
زین العبا کوراز امامت بتا چکے
اب فرض عین سب کو خیال حسین ہے
کیا حال ہوگیا ہے مری بیوطن کا آہ
یہ ہم نہیں حضور نے بہلا دیا جسے
یہ جو کہا سکینہ نہ ٹھرا سبھوں کا دم
زیب جواب دیتی ہیں فاقہ ہے تیسرا
شہ بولے بے جدائی کے چار انہیں ہمیں
ایسی ہٹیں بہن کی ہمیں بھی خوش آتی ہیں
ہم سے تو لی اب ان سے رضا لو تو جانیں ہم
ہاتھ اپنا پھر سکینہ کے سینے پہ رکھدیا
اب یاں وہ درد ناک روایت کروں بیاں
میں ندالہ بچوں سے یہ صبر کم ہوے
دوبار گاہ ہوگئی خالی حسین سے
پالا کی کانپ کانپ کے وہ نور چشم شاہ
زینب پکاری ٹوٹ پڑا ہم پہ آسمان
آئی جودرپہ خیمے کے پایا حسین کو
زینب پچھاڑیں کھاتی تھیں خیمہ میں جلجا
شہ نے کہا سبب نہ ہوا اسکا آشکار
اس بوس طبع طرز نہ حاشا بگڑنے پائے
لو ایک تو برآئی یہ اماں کی آرزو
یم کو ندا کی اوٹھے شاہ اتقیا
اس صدا یہ عرش سے اے حامل بلا
لاریب جرم ہے جوکہیں چاند رخ کو ہم
آْیا جلو میں سلطنت حشر کا علم
اللہ رے جلال وتجمل حضور کا
آمد پڑھوں حسین کی اس دھوم دھام سے
اللہ رے جلوس حسینی کی آب وتاب
مہر سواری خلف شافع امم
شمع وچراغ وآئینہ وصبح وآفتاب
سرح بزر گی رخ وکاکل دراز ہے
حقدار امید ورا گروہا گروہ ہیں
منصور اک فرشتہ ہے ذیقدروذبوقار
عقبےٰ ہے دہنے ہاتھ تو دنیا سوے یسار
آیا ہے ایک پاؤں ابھی یاں رکاب میں
مرکب حسین کا ہے نہ کیونکر ہو یہ حسیں
آواز ہاں اشارہ ران جنبش عناں
گھوڑا ہے یہ کہ جسکو ہے کوڑا کڑی نگاہ
لو اشہب فلم کو نہ معلوم کیا ہوا
لو ہوگئی مددشہ دلدل سوار کی
مشہور ہے بلال خوش اخلاص کی آذاں
دنیا میں جسکی تیزروی کی پکار ہے
آئینے آفتاب کے یہ کس حلب سے آئے
ایسی زمین زور پہاڑوں کا گھٹ گیا
ہے جوف جوش میں ہے پوق اب خروش میں
میں وردالسلام ہے واں ذکر الصلٰوت
میں قدم سے سبزہ میں طوطی کی جان ہے
یوں رن میں تاج بخش ملوک زمانہ آے
آگے جلو میں جن میں ہیں ملائک جنوں کے بعد
ملتی نہیں مسیح کو واں نبض آسماں
کافر آدان دیتے ہیں ناقوس توڑ کر
وارث ہیں ہم جناب شہ ذوالفقار کے
ہے لہو خداونبی کی قںسم تمھیں
ہم عالم بقا وفنا ہیں خدا کے بعد
ہیں نسب ہے ہم ساکوئی فی زماننا
رطب اللساں رجز میں ابھی تھی زبان پاک
یہ جدیہ کدیہ سعی یہ کورشش یہ اہتمام
نور خدا ہے فاطمہ کے نورعین میں
پھر ضبط ہو سکا نہ علی کی حسام سے
اس پھل سے طرفہ پھول کھلے ایک وار میں
ربیع دوسر کو سرپہ بٹھاتے تھے خاص وعام
ہٹھاد ہاتھ کھینچ کے بڑھی تیغ جانستاں
پھیرا جو سوئے آئینہ ذوالفقار منھ
سیفی کی طرح یاں سے چلی سیف قلعہ گیر
یہ صف کی صف قلم وہ پرے کا پراقلم
جسدم چمک چمک کے یہ جوشن پہ جاپڑی
ناگاہ اک جوان قومی البطحی لقب
سب کرو فرتھا جمع سواری کے درمیاں
ناگاہ اک ہرن ہواصحرا سے آشکار
مشغول تھے جہاد میں یوں شاہ تشنہ کام
دہنے کو آہوان ہنر مند کی قطار
لولگ گئی خدا سے پھر اس تلخ کام کو
نازل بلائے تازہ ہوئی سر پہ ناگہاں
دیوانہ دار دل سے یہ کہتا تھا وہ جری
لولگ گئی خدا سے پھر اس تلخ کام کو
حضرت کو عرضیاں تو میں لکھتا رہا مدام
کروں خاک میں نصیب کسی کو ملا نہ دے
اب اس قمر لقا کو مرا آخری سلام
حیت یہ تھی دکھائیگا خالق وہ روز جب
کیا لیا حمایتی نہیں اس خستہ تن کے ہیں
یوں درد دل حسین سے کہتا تھا دوستدار
تھرا کے شیر نے بہ فصاحت کیا کلام
یہ کہکے سوئے دشت چلا شیر نوحہ کر
گھیرا نہیں غلام نے بھی اسکو بے سبب
سرسے ٹپک کے تاج بڑھا قیس نامدار
بدلے کسے پکارتا تھا تو دم ہراس
اس نے کہا زبان کو لکنت ہے کسقدر
رکھ پر طمانچے مار کے بولا وہ قدرداں
اس نے کہا علاج نہ اس داغ کا کیا
فرما کے یہ نظر سے نہاں ہوگئے امام
یہ کہتے تھے کہ زین پہ تڑپے شہ ہدا
فوجیں جھکی ہیں خیمہ کو اس آن الغیاث
رباعی
دازدی حسین نے مضطر نہ ہوہم آئے
رباعی
ثابت جو انتقال نجوم وقمر ہوا
بیزار کیا اجل بھی ہے زینب کے نام سے
واں سینہ چاک چاند کے غم میں سحر کا تھا
جب شامیوں میں صبح کی نوبت کا غل ہوا
ناگاہ داخلہ ہوا خیمے میں شاہ کا
کل صبح یہ نمازی خیر النسا کہاں
اس گھر میں آج حشر بپا ہوگا صاحبو
ناگہہ چمک ہوئی در دولت پہ نور کی
یھی تھی پردہ ڈالے جو بانوے خوش لقب
لب پردہ کے تلے سے چچا نے بڑھائے ہات
یاں فشاں حسین نے یاقوت لب کئے
سوکھے لبوں کو چوم کے عباس نے کہا
بھائی حسین آپ نہیں تو بہن کہاں
یہ سنکے تو شی خانہ کو زینب چلی اوداس
وہ بولی کیا ردا بھی ستمگر اوتاریں گے
رو کر حسین بولے سنو حکم ذوالمنن
اشہر کہاں سدھارتے ہو کچھ بتاؤ تو
کردن جھکا کے آگے بڑھے شاہ بحر وبر
لو اب نہ ضد کرو کہ یہ کار ثواب ہے
سہ بولے عید گاہ شہیداں میں جائینگے
ماں کو پکاری سنئے پدر کیا سناتے ہیں
کیوں اماں جانے دونگی تو بابا پھر آئینگے
یہ سنکے جی میں رنج یتیمی سما گیا
عارض پہ ایک ہاتھ دہرے ایک کان پر
یہ سنتے ہی تڑپ گئے سلطان کائنات
آیا نظر یہ عالم غش میں ابھی مجھے
اب ہوگیا یقین کہ ہونگے یہ سب ستم
عباس کی طرف سے بھی ٹوٹی جو دلکی آس
شہ نے نگاہ غور سے کی سوے فوج شام
تسلیم گاہ میں ہوئی مجرے کی دھوم دھام
پردہ اٹھاکے ڈیوڑھی زینب کی نظر
عباس واں رواں ہوے کرسی بچھی یہاں
گردن ہلا کے شاہ نے دو نیمچے اوٹھائے
بیٹوں نے دی ندا کہ ہے مرنا محال کیا
زینب پکاریں بس بہت اخلاص میں نہ آؤ
شفقت سے والدہ نے کہی اس گھڑی یہ بات
قاسم کی ماں سے مڑکے یہ اس نے کیا کلام
حضرت نے بھانجوں کو گلے سے لگا لیا
بھائی کو چاہتے ہیں علم بخشیں شاہ دیں
زینب نے پھر نظارہ کیا روے شاہ کا
مستاق اس کلام کے تھے شاہ التقیا
گھر میں گئے اور آئے شتابی وہ مہ لقا
زینب کے لاڈلوں نے یہ بڑھ کر کیا کلام
حضہ سے دختر اسد اللہ نے کہا
نذریں لگے دکھانے جو انان حیدری
کھینچا تھا یوں علم طرف بازوے امام
ہنسکر پکارا شاہ نے اپنے فدائی کو
ناگاہ اوقتلو کی صدا تافلک گئی
بولا ہماکہ ہدہد خلد آشیاں یہ ہے
اٹھ اٹھ کے پھیلے رنمیں بگولے نشانوں کے
ابن علی کے بخت رسانے رسائی کی
اصطبل سے نسیم بہاری عیاں ہوئی
سرعت میں بسکہ تیزردوں سے وہ پیش تھا
نولاکھ ظالموں کا یورش دفعتن ہوا
فرما کے یا علی شہ صفدر ہوے سوار
اور دگاہ آمد فوج الہٰ سے
جھولے سے آکے خاک پہ سویا جو شیر خوار
بالیں حسینوں نے اٹھائیں جو ناگہاں
رن تھا عرق سے تازیوں کے خوف عرق میں
تیغ دنیام سے تھے سب آگشت دردہاں
رغبت سے نور عین علی نے جو کی نظر
آلش زباں جو کھنچ کے ہوئی ناگہاں بلند
روح القدس پلک کے زرہ مردمک کی ڈھال
عرب سیر بیشہ سرعت کی لی کہاں
اصحان صبر وشجاعت کا وقت ہے
عزت کلہ میں صفونپہ ہزار انقلاب آئے
ماریں تھی وہ تیغ سفید آب زیر کاہ
ناگاہ رستمانہ بڑھا ایک پہلواں
پسپا ہوئے عجم میں عرب جاکے چند بار
میں ہوں مکیں دوش نبی ہر مکاں کا فخر
فرمایا یاد گار سپاہ قلیل ہوں
کی ہل اتا خدانے عطا ہمکو بھوک میں
پرجوں کو اپنی مہر سے شمس وقمر ملے
پیر وہمارے نانا کو جوروز یہ ہوا
روشن پدر کا زور ہے دنیا پہ دین پر
جھوما سپر کو روک کے منھ پر وہ روسیاہ
چودہ خدا کے دوست ہیں لے رہیں انمیں ہم
سن آیہ مباہلہ میں چار تن ہیں بس
مطلب ہر ایک حق کی عنایت سے بن گیا
چلایا ابن سعد تمھیں ہے خیال کیا
آیا جلال میں اسدا شجع جہاں
اس نے بھی حملہ غالب کونین پر کیا
پھر تو بڑھے جنودو قشوں سب پئے جدال
حملہ کیا امام سلیماں وقار نے
دم مارا جس نے صاف سراسکا قلم کیا
سایہ گرا تو بولی سنبھل میرے ساتھ چل
میزان تیغ اپنے ہنر تولنے لگی
جوہر کا سلسلہ تھا مگر مچھلیوں کا جال
مہ کے حواس خمسہ پہ تھے ششجہت نثار
ماس ہنر میں سبزہ جوہر کی تھی پکار
کہہ اس سرے تھی زخموں میں اور گاہ اس سرے
اس سے نہ کوئی پہلوے امن واماں چھٹا
اک ضرب میں یہ رنگ کے سورنگ کرتی تھی
آگاہ اہل علم ہیں میں کیا بیاں کروں
سایہ دونیم رنگ دونیم اور بود ونیم
ایماں وکفر توبہ وعصیاں دم جہاد
اسکے خیال سایہ سے بسمل جو تھے حزیں
ہر سو یہی تھا شور یہی صوت الغیاث
ناگاہ آفتاب پہ شہ کی نظر پڑی
اب یوں بیاں کرتے ہیں ارباب اعتبار
وہ لو وہ بھاپ ریت کی وہ جسم نازنیں
جرات نہ کی رسولوں نے یہ وہ مقام تھا
آئے ہے اس جفا کا بیاں وامصیبتاہ
لکھتے ہیں یہ مصائب جرجیس نیکنام
اکدفعہ سنگدل نے کیا انکو سنگسار
پھر خلعت حیات جو حق نے عطا کیا
باقی کوئی نہ انپہ جفاے جہاں رہی
آئی ندا کہ صبر وتحمل یہاں نہیں
صابر کو لے گئے اسی جنگل میں روسیاہ
زندہ ہوا میں دفن رہ کردگار میں
یہ سنکے اپنی فوج سے اسنے کہا کہ ہاں
دل خال پر حسین کے رویا وہ نامدار
آسان کیا ملک نہ یہاں پر ہلا سکے
آئی ندا کہ ہم پہ عیاں سب کا حال ہے
لب یہ زیادہ پیٹنے رونیکا ہے مقام
لو مومنو لرزتا ہے اب دشت کربلا
دہڑکا یہ ہے کہ ذبح نہ ہو جائیں شاہ دیں
جرجیس کا مریض پسر بے دوانہ تھا
ان حادثوں میں سبط نبی زخم کھاتے ہیں
ان واسطوں سے ہل گیا شپیر کا جگر
آیا جو ہوش بولی پیمبر کا واسطہ
تاحشر وہ نہ بھولیگی زینب خدا گواہ
دوڑی بلک کے اور گری دختر علی
یہ بین کرکے منھ پہ ملا منھ کو ایکبار
اس یاس کے کلام سے چھاتی جو پھٹ گئی
اتنے میں تازیانہ لئے اک شقی چلا
جاؤسدھارو ہمکو گلے سے لگا چکیں
اب انجمن میں شور قیامت ہے اے دبیر
یہ کہہ کے خیمہ گاہ کو وہ خستہ دل گئی
وہ بولی غم سے آپ کے یہ غم نہیں سوا
رباعی
بولے علی خدا ہے بہت تم پہ مہرباں
تم کو محمد عربی کا ہے یہ پیام
تعظیم کی علی کی ہر اک نیکنام نے
کوہ رقیم پر جو علی کا گذر ہوا
پھر کاشف علوم نے ان سے کیا سوال
پیارا خدا کا بندہ ہے کوئی حسین نام
نو دن تو عین خواب میں آنسو بہاتے ہیں
ہم خواب میں بھی دیکھتے تھے آپ ہی کی راہ
کل ہوتے ہی سحر کے قیامت کا وقت ہے
شانہ ہوگا کوئی کہ لاشہ اٹھا کے لائے
یہ سن کے نیند کیسی کہ جاتا ہے دلکا چین
رسا علی کو دیکے یہ بولے وہ بے ریا
شبیر سے لپٹ گئے محبوب کروگار
اس گفتگو سے اونکا جگر تھر تھرا گیا
نانا یہی نہ ہم پہ بلا آئے گی پھر آئے
منھ دیکھتا تھا کنبہ کارو کروہ نیکذات
اب عرض ہے یہ اہل عزا کی جناب میں
فرمایا ہاں محبوں کی اسمیں نجات ہے
قرآں میں انکے رتبونکے کیا کیا بیان ہیں
اس اشک میں بھرے ہیں فوائد ہزارہا
اصحاب کہف کا تمھیں دستور چاہیے
سو سروقد خزاں نے کئے جبکہ پائیمال
عبرت سرایہ باغ ہے پیش ذوی العقول
سر پر کھڑی ہوئی ہے گھڑی انقلاب کی
حال گذشتگاں نہ کہلا کچھ کہ کیا ہوا
بیہوش ہیں سمند کی گردن پہ سر جھکائے
دکھلاؤں اب مرقع گلزار کربلا
دنیا اسی عزا کے لئے برقرار ہے
سرتاج اغنیانے کیا فتح سے خطاب
پانچوں کو دیکھنے لگے مڑکرشہ انام
جسدم ہوا یہ حال شہنشاہ کربلا
مہلت نہیں کہ تیر بدن سے جدا کریں
اسوقت درپہ خیمہ کے زینب تھی سامنے
حضرت سے پھر امام زماں نے کیا بیاں
پوچھا ؔظفر سے کیا تری خاطر ہے زیب وزین
دیکھا بلانے یاس سے روے گل بتول
باقی رہاجو صبر اسے یہ سنا دیا
ہادی نے قصد پھر بھی ہدایت ہی کا کیا
اس وقت یہ قضا وقدر کی ندا ہوئی
سب رنج بعد میرے اٹھانا خوشی خوشی
زہرا کے مہر میں نہیں دریا نہیں سہی
سچ کہیو تم میں رحم کے قابل ہوں یا نہیں
خیر الانام خیر النسا فاتح حنین
جسکا غبار نور ہے وہ خاکسار ہوں
نو جسکے آفتاب ہیں وہ آسماں ہوں میں
روزوں میں اور عیدوں میں جمعہ ہے انتخاب
دامن ہے جسکا گوشہ جنت وہ باغ ہوں
کینہ جدا ہے جس سے وہ سینہ ہمارا ہے
بابی کی شکل منھ میں درآیا وہ اژدہا
خاموش رہ گئی یہ رجز سنکے سب سپاہ
قرآں ہے ایک اور نبی مشرقین ایک
ماکہہ وہ سانپ کانپ کے رن سے رواں ہوا
رخشندگی تیغ کہوں یا جہندگی
اللہ ریے آبداری تیغ شررفشاں
پوچھا جو ذوالفقار نے فتنہ کدھر گیا
اس سے الجھ گئی کبھی اس سے الجھ گئی
کہنی تھی بار بار قضا کیا ہے میں ہوں میں
ہر سو تھا شور تیغ کا کچھ اور ڈھنگ ہے
گہہ ہمدمی صور سرافیل کرتی تھی
آنکھونمیں خواب راحت وعیش وطرب دونیم
بے نام وبے نشان تھا ہر اک پہلو انکا اسم
قالب کی تو یہ دشمن جاں تھی دم نگاہ
مل کر چلی فلک سے تو بجلی جدا ہوئی
بہر عدو بلاتھی شہ کربلا کی تیغ
موج زرہ کا تیغ کی گرمی سے تھا یہ حال
ہر حملے میں سپاہ لعیں کو اولٹ دیا
صر صر قدم قدم تھی فدا ذوالجناح پر
برسا رہی تھی خون کا مینھ تیغ شعلہ بار
سب حربے اک بدن پہ برابر لگاتے تھے
نصرت پکاری واہ ید اللہ کے خلف
شہ بولے دیکھ صبر دکھا نیکا وقت ہے
یہ سنکے خود نیام میں تیغ دوسر گئی
ناگہہ نگیں خاتم پیغمبراں گرا
مشتاق بہر ذبح بڑھے افسران کیں
سب تھم گئے مگر نہ تھما بد شیم
وہ بولا کوئی ہوگا میں دیکھوں بھلا کدھر
شہ بولے اور کوئی نہیں یہ بہن بہن
وہ رونا بیکسی کا وہ گھبرانا یاس کا
تھم جا خدا کو مان حبیب خدا کو مان
اب آیا وہ مقام کہ غش ہونگے مومنیں
یہ کہتے کہے سست ہوئی دم اولٹ گیا
سونپا کسے بہن کو یہ پوچھونگی بھائی سے
اے شمر میں گلے سے لگالوں تو ذبح کر
اے شمر پاس بھائی کے آؤں جو تو کہے
رباعی
ناگاہ ظلم تازہ عمر نے بپا کیا
حیدری صف میں حسینی علم آتے ہونگے
جن سے روشن ہے مدینہ وہ قمر آتے ہیں
مری بی بی کی امیرانہ سواری ہوگی
جب حرم قلعہ شیریں کے برابر آئے
شوکت آمد سادات کا سن سنکے بیاں
تھا خیال اسکو کہ چو گرد تو یاد رہونگے
کہتی تھی قاسم وکبریٰ کی ہوئی ہے شادی
بی بی گودی میں سکینہ کو بٹھائے ہونگی
صد آراستہ کی سبط پیمبر کے لئے
رن زہرا کی تو تم نے بھی سنی ہوگی خبر
دولدی سامنے دروازے کے پردیکی قنات
ہاں راہ میں برپا ہو اشور ماتم
عقدے کھجائینگے جب ہونٹ ہلا دینگے حسین
ایک عورت نے یہ باہر سے پکارا نا گاہ
بےتحاشا وہ یہ کہتی ہوئی دوڑی باہر
کہا شوہر سے خبر لاکہ یہ غل ہے کیسا
جسکا بابا ہے علی شیر خدا وہ زینب
پیٹ کر منھ کہا شیر یں نے بہن ہو نہ خفا
کون بھائی مری بی بی کا ہے شاہ شہدا
بخدا حضرت زینب تو انھیں کہتے ہیں ہم
کہا شیریں نے کہ بس بس ہوا دل کو آرام
آہ کی طرح روانہ ہوئی پھر وہ ناچار
شہر بانو بھی بھلا واں تجھے آئی تھی نظر
یاد ہے جب کہ لٹی شاہ عجم کی سرکار
درے تھامے ہوئے ہاتھوں میں کئی سوکفار
ایک لشکر ہے کئی کوس کے گردے میں پڑا
ھر کی اور طلائی ہیں علم بو قلموں
بن ہے رقص ہے اور انجمن آرائی ہے
یک بیک کانپ کے بانوے عجم چلائی
سویقیں ہے کہ شہ دیں نے اسے شاد کیا
کوئی کہتا ہے بڑے شیر کو مارا میں نے
یہ سخن قہر کا شیریں نے سناواں جسدم
کہا بانونے میں واری یہ نہ کہہ چلا کر
بال بکھرا کے نہ منھ اپنا چھپاؤ اماں
جاکے تسلیم شہ دیں کو کروں گی جسدم
کربلا میں مرے بابا نے نہ پایا پانی
جان شیریں میں نہ باقی رہی سنکر یہ بیاں
ہائے کچھ میری سمجھ میں نہیں آتا یہ حال
یہ بیاں تھا کہ گذر سامنے شیریں کا ہوا
پاؤں ننگے میں نکل آئی ہوں مشتاق امام
کہا بانونے کہ کیونکر تجھے آیا باور
سر اکبر پہ پھر اٹھ اٹھ کے کئے نظارے
خواب میں فاطمہ نے اسکو مسلمان کیا
پاؤں پر گرکے کہا سر تو اٹھاؤ بی بی
درد دل اس سے کچھ اظہار کروں یا نہ کروں
منھ پہ پلہ لیا شیریں نے یہ کر نییلگی بین
سر ہمشکل نبی خم ہوا شرمانے لگا
ہاتھ شیریں کا پکڑ کر اٹھی بانوئے حزیں
غور سے اس نے نظر کی جو سر شہ کی طرف
تم تو جنت کو سدھارے میں بلاؤں کسکو
میں تیرے آنے کے قربان ابا عبد اللہ
اس نے انگشت شہادت سے اشارہ یہ کیا
گود میں آئے ہو تو منھ سے بھی بولو آقا
پھر کئے بین کہ ہے ہے مرے آقا ہے ہے
دوڑی پھیلائے ہوئے دست تمنا شیریں
یہ فغاں سنتے ہی کانپا سر سلطاں امم
بس دبیر اب نہ بیاں کر تو بیان شیریں
رباعی
معجزے سے ہوا گویا یا یہ سبط رسول
رباعی
وہ کون رسول جزو کل قبلۂ ایماں
سرسبز ہو یارب سخن اس ہیچمداں کا
مہماں جو کیا عرش معلےٰ پہ تو کیا تھا
ہم انکا ہے جو فرش پہ وہ عرش بریں پر
مبعوث رسالت پہ ہوے جب شہ لولاک
عرض یہ کی بندے کا قریے میں مکاں ہے
سلطان کلام فصحا ہے سخن انکا
اب طوطی خامہ ہے نواسنج وشکریار
اس نے کہا وہ کون کہا حیدر کرار
دن ہوا گھر اسکا کہ دختر ہوئی پیدا
اقرار کیا مخبر صادق نے دعا کا
رماؤ دعا بندے کے حق میں یہ خدا سے
یہ سنتے ہی گریاں ہوا وہ واقف انجام
یہ مژدہ نبی کو دیا اس اہل وفا نے
طالع سے بدونیک کے خوب آپ ہیں محرم
یہ دیکھ کے سکتہ ہوا عامر کے پسر کو
پیارے جو ہم ان کو ہیں تو وہ ہمکو ہیں پیارے
وہ بولا دعا مانگو نہ یہ وقت خدالائے
ان باتوں پہ انگشت بدنداں ہوئے مولا
یہ کھ کے در فاطمہ پہ آیا وہ غمناک
حق کی نگہہ مہر سے سرمہ جو یہ پایا
کچھ ہوش سنبھالا جو عنایات خدا سے
اس خاک کا سر مہ جو دیا آنکھوں میں گہرا
اک مشت اسے فضہ نے اکسیر عطا کی
وہ بولی میں راغب کبھی باطل پہ نہونگی
حاضر ہوئی پیش نظر ہند خوش ایماں
ماں نے کہا میں کون وہ مالک ہیں تمھاری
کہہ حب وطن ہے کہ مدینے کی ہے الفت
اس حکم کی طاعت وہیں زہرانے ادا کی
کہتے ہیں طہارت جسے وہ رخت بدن تھا
دیکھا اسے اور خوش ہوئی معصومہ ذبحاہ
پر طوطی ہنداسکو کہے کیوں یہ سخنور
زہرا پہ جو روشن ہوئی یہ مہر ومحبت
جاتا تھا جو گھر سے وہ دل فاطمہ کا چین
تائید زباں سے تو فصاحت میں ہوا نام
بلقیس بنی ہند سلیمان رمن کی
ناگاہ چھپا خاک میں خورشید نبوت
تاشام جو مانند قمر ہندی تھی مشہور
القصہ کہ عبد اللہ عامر کی رضا سے
فارغ جو ہوے سوگ شہ قلعہ شکن سے
مروان نے حاکم کو لکھا خفیہ یہ ناگاہ
کونین کی دولت ہے مجھے خدمت شپیر
وہ بولے ادب تو ہمیں خود مد نظر ہے
فی الفور پئے نور چلے شام کے ناری
یہ بندۂ معبود ہے وہ بندۂ زرہے
وہ عار ہے فخر ہے وہ ننگ یہ ہے نام
وہ تخت نشیں دوزخ اسفل کا مکیں ہے
فریاد کی اس نے کہ ڈرو قہر خدا سے
وہ زہر ہلاہل یہ مجھے آب بقا ہے
پوشاک مری چھیں لوزیور مرا لے لو
جدا سکا بھلا فحر رسولان زمن ہے
وہ ناریہ فردوس وہ زقوم یہ طوبا
آئی یہ ندا صابردشاکر رہو واری
مظلوم نے بھائی سے کہا کیا کروں بھائی
لے جا کے اتارا اسے بے پیر کے در میں
لشکر نے کیا گرد سے اسکے نہ کنارا
لکھتا ہے یہ راوی ستم حاکم بے پیر
تحصیل شہادت کا ہے بچپن سے ارادا
القصہ طلاق اسکو دیا شہ نے باکراہ
دیا پہ ہے غش مرتا ہے تو جینے پہ ظالم
جاشہر خموشاں میں کہ عبرت کی وہ جاہے
یہ ظلم اور ابن شہ لولاک کے اوپر
پتھر نہ لگا دیں گے آئینہ پہ ظالم
جمشید خداوندی حق جام پہ بھولا
پہونچا یہ نوشتہ جو شہ جن وبشر کا
تو خوش ہے کہ ذلت ہوئی اک خاص خدا کی
اس شقہ کے پڑھتے ہی ہوئی ہند کو حیرت
پھر پشت پہ خط کی یہ کیا ہند کو تحریر
ہر سمت لہو برسا غم شاہ زمن میں
اسکو تو یہی تذکرہ تھا اور یہی یاد
زینب کے تصور میں یہ کہتی تھی وہ ششدر
بولا مری بیعت کا جو فرمائیں وہ اقرار
کوٹھے کے تلے آتے ہی حاکم کو بلایا
تشویش و تردد میں نماز اس نے ادا کی
سنتی ہوں کہیں ہے ترے لشکر کی چڑھائی
گلرنگ دروبام ہوئے روم سے تاشام
زخمی ہوئے تھے جبکہ شہ مرداں
آہوش میں غافل نہ شراب اتنی پیا کر
ہنسکر کہا ظالم نے کہ مارے گئے شپیر
مکار پکارا کہ میں پھر اور کہوں کیا
مجھکوا انہیں باتوں سے تری آتا ہے وسواس
نعرہ کیا اس نے کہ بڑا ہے تو فسادی
بے رخ ہوا ان باتوں سے وہ اور پکارا
سنکر یہ سخن اوٹھ گیا وہ ہوکے پشیماں
پوچھا کوئی بندی تو نہیں شام میں آئی
حالات ہوں کس طرح رقم لشکر شر کے
کی عرض کنیزوں نے مفصل نہیں معلوم
زنجیر ہے پہنے مراعا بد ساخوزادا
نزدیک رہا جبکہ درحاکم گمراہ
سوکھے پہ تو وہ چڑھ نہ سکی حال تھا تغیر
اس واقعے سے شہریوں نے شرم وحیا کی
تھا پشت پہ سب لوٹ کا اسباب برابر
فہمیدہ ہوتم خود نہیں سمجھا نیکے قابل
اتنے میں کھلا تخت پہ واں طشت طلائی
دو کرسیاں لے آئیں کنیزیں وہاں فورن
تھرا گئی حاکم کی بہن اس کے سخن پر
بانوے حزیں سہم کے عابد کو پکاری
کہہ ہند کے آنے سے یہ کیا حال ہے جی کا
لرزے امرا کانپ گیا حاکم خود سر
بے پردگی ہند سے اتنا تو ہے مضطر
شرما کے محل میں گیا وہ حاکم مکار
پھر جوڑ کے ہاتھوں کو یہ بولی وہ خوش ایماں
خلعت جو اسے دو کوئی پھناؤں میں بھائی
یہ نوحہ تھا کہ ہند قریب آگئی ناگاہ
زینب پہ نظر فضہ نے کی سر کو اٹھا کے
صاحب ابھی ہوش آسنا ہے مجھ بے سردپاکو
حیرت سے وہ چلائی کہ شاہ شہدا کون
زہرا کا گھرانا مجھے کیا بھول گیا ہے
زینب نے فغاں کی کہ یہ اصرار غضب ہے
حیران تھی میں کون شہ کرب وبلا ہے
اسدم سرشہ طشت میں تڑپا کئی باری
زینب ہے وہ زینب کہ تو ہے جنکی نمکخوار
حضرت مرے گھر قتل کے میدان سے آئے
رباعی
آقا کہو لشکر کو کہاں چھوڑ کے آئے
ایوب ترے صبروشکیبائی کے صدقے
منبر نشین انجمن شاہ دیں ہوں میں
محسوب انبیا ہیں یہاں اشکباروں میں
واجب ہے شبشجہت پہ تو لاے پختن
بیٹھو ادب سے یاں یہ ادب کا مقام ہے
دیکھو حواس خمسہ ہوے ان کے ہمعدد
گویا زبان داور ارض وسمایہ ہیں
ایک ایک تن جورتبہ میں یکتا ہے پیش رب
ہر فرد کو خدانے دیا خمسۂ حواس
اب نظم میں حدیث کا ہے ترجمہ شروع
ادل اسی نوید پہ سر میں نے خم کیا
سب نے طلب یہ گوہر راز نہاں کیا
اول تو پخجتن ہیں سردارانبیا
لیکن ادھر تو سجدے سے فارغ جبیں ہوئی
سجدہ میں چوتھی بار میں تھا اپنا سر جھکائے
آخر کہا کہ جان لو بر ترحسین کو
سنکر یہ وحی سجدۂ ثانی کیا ادا
کیوں منصفویہ حق تھا ولاے رسول کا
عرس بریں کے آل عبا گو شوارے ہیں
صد شکر حق نے شیعہ آل عبا کیا
لو شیعو! یہ تمھارے تفا خر کا ہے مقام
بالاتفاق لکھتے ہیں یہ عالمان دیں
حلق حسین وبرش خنجر حذر حذر
حاشا یہ امت شہ لولاک میں نہیں
کس کلمہ گو نے چھینے ہیں سیدانی کے گہر
لکھا ہے روز قتل کی جب دھوپ ڈھل چکی
اس عہد میں جو شیعہ عالی وقار تھے
یہ شیعہ اس زمانے میں پیدا ہوے نہ ہائے
صد حیف کچھ رعایت قول خدانہ کی
پھر ہنسکے یوں کیا عمر وشمر سے کلام
بولی سکینہ مجھ پہ ذرا رحم کھائیو
برچھی پہ سر حسین کا بدذات لے چلے
پیش یزید شاہ امم کا جو سر گیا
نیزے پہ ہے جلوس ہمارے امام کا
تھے سر کے راس وچپ ملک وحور ننگے سر
اک بے ادب نے نیزے کو فوراً جھکا دیا
سرپیٹتی یہ رہ گئی وہ سررواں ہوا
کہتے ہیں اس جمال پہ سب کو دک ومسن
میزان صبح وشام میں پیش سر مبیں
شامی پکارے صبح نبی جلوہ گر ہوئی
سر گرم جلوہ سر کا جور خسارہ ہوگیا
بینی سے روشنی کا بلندی پہ ہے ظہور
حاجب کی طرح ابروے زیبا نظر جو آئیں
ابروکے آگے طاق زبر جد خفیف ہے
ہے شرم عارض ولب ودنداں سے آب آب
چشم دوم سے بینی وابرو ہیں یوں بہم
نزدیک چشم راست ہے یوں بینی امام
اپنے طبق میں تاروں کے بھر کر درخوش آب
گویا یہ خشک لب ہے ہلال مہ صیام
اک مومنہ یہ کہتی ہے میں نے جو کی نظر
کل تھا یہ کس شہید کا جلوہ نما ہے سر
لے جاتے تھے جدھر سر شاہ انام کو
سب سے ملازمان یزیدی نے یہ کہا
رکھا ہے نام آپ خدا نے مرا حسین
راضی ہوں سرپھرے مرا نیزہ پہ در بدر
اب مشتری جو ہر بازارانتقام
روتی تھی خلق سنکے بیان سرامام
لب غازیوں نے تازی ضیغم فگن لئے
بادل غم حسین کے ہر دل پہ چھاگئے
اک شیعہ حسین کی ہمت کروں رقم
شعریٰ کے پر سے کو کوئی سوئے وطن چلا
گھر سے چلا دمشق کو تنہا وہ باخدا
القصہ گھر سے خاک اوڑاتا ہوا چلا
بولی وہ خوش عقیدہ خوشا حال مرحبا
یوسف کی طرح غرق تھا دل سر کی چاہ میں
خدمت یہ کی یزید کی جو مدعا ملا
رویا یہ شیعہ دیدۂ حسرت سے زار زار
پر دلکو واں ظہور عجائب سے تھا نہ چین
واری بہشت سے ترے زواراائے ہیں
نکلی دہن سے شیشہ کے نکہت گلاب کی
سوئے نجف وہ شام سے پچھلے پہر چلا
یوں فرق شاہ چاہ سے نکلا بہ حسن وجاہ
ہاتھ اس نے دھوکے آبرو وجاں سے ایک رات
پہاں رہا یہ خضر کی صورت نگاہ سے
چالیس لونڈیاں لئے خدمت کیواسطے
گذری خبر یہ حاکم شامی کو صبح گاہ
اک شب کو رفتہ رفتہ وہاں پہونچا یہ جواں
اک بولی گال مرا تو چراغ شعور ہے
باہر سے اس کنیز نے چلا کے یہ کہا
باہر نکل کے ایک کنیزک نے کی نظر
معمول سے کنیزوں نے حاضر کیا طعام
خورشید بانو نے اسے گھبرا کے دی صدا
اک نے کہا کہ ہوگا سکندر یہ نیکذات
اک نے کہا نجف میں ہے قبرا بوتر اب
موتی ہو یا کچھ اور ہواے بندۂ خدا
وہ بولی اشتیاق کا دلپر وفور ہے
ہدیہ ہے اسکا باغ جناں دے سکیگی تو
بولا محب مجھے نہیں پرواے مال ہے
یہ سنکے اور شوق بڑھا پھر کیا سوال
کہہ باہر آتی تھی کبھی خیمے میں جاتی تھی
آخر کری وہ خیمے میں غش کھا کے فرش پر
ٹولی کی یاد دل میں فراموش دو جہاں
الجھا کے دل کو یہ گئی بستر پہ سونے کو
غصے سے بولے آہ تھے کچھ خبر نہیں
یہ کہتی تھی کہ دیکھی کیا ہے وہ نوحہ گر
وہ بولی آہ کیا کروں صدمہ ہے جان پر
پھر سینے پر محب کے گھر نے کیا قرار
یہ دیکھتے ہی دل پہ وفور تعب ہوا
کس گھر کا ہے چراغ یہ ہے ہے بجھا ہوا
ٹکڑے ہے اسکے سوگ میں عیسیٰ کا جیب پاک
آہستہ اک کنیز ادھر سے گئی ادھر
فارغ جو اس فغاں سے ہوئی وہ جگر کباب
سجادہ زیر چوب پھر آراستہ کیا
کیوں صاحبو بتاؤ یہ در ہے کہ لال ہے
مہمان میرے کہہ تری دعوت میں کیا کروں
بابا مرا ولی خدا ہے گواہ
گھبرا کے وہ پکاری نہیں وامصیبتا
کی عرض لونڈیوں نے گریبان کرکے چاک
مڑ مڑ کے شہ کے سر کو لگیں دیکھنے وہ سب
میں راکب براق کے کاندھے کا ہوں سوار
دو بھائی ہم ہیں خاصۂ یزداں حسن حسین
اک بار پھر کے گرد سے شاہ مشرقین
رونیکا اجر دیگا تمھیں رب مشرقین
دل کو یہ ماتم شہدا میں مزہ ملا
برپا فغاں وآہ کے پھر غلغلے ہوئے
لکھا ہے جبکہ پاؤں کو رعشہ ہوا کمال
الہام رونے میں ہوا ان سبکو ناگہاں
اس روز شور سے کیا ماتم حسین کا
حوران خلد آئیں کہلے سر برہسنہ پا
فوارہ سارواں ہوئی ہر سر سے خونکی وہار
حوروں کو اس گھڑی یہ ہوا عرش سے خطاب
وہ بولے سب حسین پہ تیرے نثار ہیں
پھیلا ک ہاتھ ایک بزرگ انمیں سے بڑھا
رب میں اب تڑپتے ہیں یوں شیر کردگار
خورشید بانو اس کے برابر تھی ننگے سر
یہ کہنا تھا کہ مرقد پر نور شق ہوا
بھائی تیرے ہاتھ سے لو گا سر حسین
چلائی آئے فاتحہ خوان بتول آئے
لٹ کر سفر سے یوں کوئی سلطاں پھرا نہیں
اب اے دبیر طاقت نظوبیاں سے طاق
ہر ایک روز تم مری تربت پہ آتے تھے
اے شیر لے نجف میں ہوا تیرا داخلا
رباعی
مختصر فہرست کتبخانہ ریاض التجارت چوک لکھنؤ
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔