سرورق
یہاں بھی تو وہاں بھی تو زمیں تیری فلک تیرا
عدوئے سامری فن دیکھے اعجاز رقم میرا
ردیف الف
اللہ شوق دےمجھے نعت شریف کا
صبر لے زاہد نافہم نہ میخواروں کا
ہو گئے پر خون دل عشاق ہو کر زیر پا
گر میرے بت ہوش ربا کو نہیں دیکھا
آج راہی جہاں سے داغ ہوا
آخر کو عشق کفر سے ایمان ہو گیا
ثبات بحر جہاں میں اپنا فقط مثال حباب دیکھا
اس بزم میں شریک تو جایا نہ جائے گا
یوں وہ پیغام سے تو آئے گا
کرے انصاف دنیا میں اگر آفت کے ماروں کا
ہو کے ظاہر تو کیسا عشق نے اک حشر بپا
کیا لہواس اس سخت جاں کا عشق میں سم ہو گیا
کی ترک مئے تو مائل پندار ہو گیا
نالہ ہر اک بشر کے جگر سے نکل گیا
جو سر میں زلف کا سودا تھا سب نکال دیا
سو حسرتیں تو آئیں گیا ایک دل گیا
ستم ہی کرنا جفا ہی کرنا نگاہ الفت کبھی نہ کرنا
نہ جانا جان کا ایسا کسی نے جلد کھو جانا
ہو اہے جب سے شہرہ اس عدوئے دین وایماں کا
کب سے شب فراق ہوں مشتاق دید کا
زندہ عیسی کا نام کرنا تھا
حلقۂ زنجیر سے کم دور پیمانہ نہ تھا
بلا اضطراب ودرد ہی بن کر ٹھہر رہنا
ترے خرام سے برپا ہے شورو شر کیسا
غم کو میں عشق میں غمخوار دل وجاں سمجھا
ہے مجھ کو خبر رات کو جو تیرے قریں تھا
خال زلف سیاہ نے مارا
نہ آیا نامہ پر ابتک گیا تھا کہہ کے اب آیا
جو عاشقی میں خاک ہوا کیمیا ہوا
اے اہل بزم چشم مروت کو کیسا ہوا
دل میں تو کفر تیرے تجھ پر غضب خدا کا
غضب کیا ترے وعدے پر اعتبار کیسا
سرخی لب نے کیا ہے خون اس نخچیر کا
باقی جہاں میں قیس نہ فرہاد رہ گیا
جوڑ کے شہباز نظر پر گرا
جھونک سے سائے کے بھی یہ ناتواں لاغر گرا
وہ زمانہ نظر نہیں آتا
سینے میں اب کہاں وہ جوش وہ بھی تھا اک وبال سا
جلوہ اس کا نظر نہیں آتا
کن بیکسوں کا پردہ یہ چرخ کہن ہوا
نہ کبھی جیب خجالت سے یہاں سر نکلا
منتوں سے بھی نہ وہ حور شمائل آیا
طور کیوں خاک ہوا نور ترا نار نہ تھا
تیر اس کا چلتے چلتے جب پریشاں ہو گیا
وہ بات کون سی گزری جو اضطراب نہ تھا
بشر نے خاک پایا لعل پایا یا گہر پایا
کیونکر اس نگہ ناز سے جینا ہوگا
آئینہ تصویر کا تیرے نہ لے کر رکھ دیا
کب ہوا اے بت بیگانہ منش تو اپنا
کیوں کہا یہ کسی سے کیا مطلب
نامہ بر کہتا ہے اب لاتا ہوں دلبر کا جواب
ردیف بائے موحدہ
ہم مٹ گئے تو پرشش نام ونشاں ہے اب
ردیف بائے موحدہ
کم نہیں سامان میں ہنگامہ محشر سے آپ
مہرباں ہو کے جب ملیں گے آپ
ردیف تاء فوقانی
کب بات ہو بغیر خوشامد وہاں درست
ہے طرفہ تماشا سر بازار محبت
گئی ہے نہ فرقت کی جائے گی رات
نگاہ یار نے اس شوق سے لگائی چوٹ
ردیف تائے ہندی
تو نہ کر نخوت شباب بہت
ردیف ثائے مثلثہ
اب سے ہماری تو بہ ہے کہ جو وفا تو کیا عبث
ردیف جیم تازی
آیا ہے جھوم جھوم کے ابر بہار آج
ردیف جیم فارسی
غربت کے رنج فاقہ کشی کے ملال کھینچ
یوں مصور یار کی تصویر کھینچ
پکارتی ہے خموشی مری زباں کی طرح
ردیف حائے حطی
دل نہ رہا سینے میں دم کی طرح
ہوئی جب سے زبان یار گستاخ
ردیف دال مہملہ
ردیف خائے معجمہ
اس نے اگر کرم بھی کیا تو جفا کے بعد
ہے قہر اگر اب بھی نہ ہو راز نہاں بند
دل میں ہے غم ورنج والم حرص و ہوا بند
آنکھ سے گرتی ہےخون دل افگار کی بوند
چھپتی ہے کب چھپائے سے اے خوبرو پسند
نہ ہو کیونکر افضل ہمارا محمد
لاکھ لکھیے انہیں اندوہ ومحن کا کاغذ
چاہوں جو پئے مزار تعویذ
ردیف ذال معجمہ
تمام عالم کی خاک چھانی یہ عشق آخر کو تنگ ہو کر
ردیف رائے مہملہ
رکھتے اب بہر عیادت نہ قدم گن گن کر
کیا ہے دیندار اس صنم کو ہزار طوفاں اٹھا اٹھا کر
جو دکھاؤ بھی نہ دیکھوں رخ پر حجاب ہر گز
ردیف زائے منقولہ
کیا بیمروت خلق ہے سب جمع ہیں بسمل کے پاس
ردیف سین مہملہ
وہ سمجھے کیا فلک کینہ خواہ کی گردش
ردیف شین معجمہ
مری موت خواب میں دیکھ کر ہوئے خوب اپنی نظر سے خوش
ردیف صاد مہملہ
یہ نہ کہئے کہ نہیں کام کی حرص
آئے وہ بیوفا یہاں اس کی بلا کو کیا غرض
ردیف صاد معجمہ
ردیف طائے مہملہ
میں اور حرف شکوہ غلط اے صنم غلط
ردیف عین مہملہ
غم جاوید ہے ہم سے محظوظ
اس شوق کی نہیں بت قاتل کو اطلاع
ردیف ظائے معجمہ
کیسی حیا وشرم طبیعت کے برخلاف
مانند گل ہیں میرے جگر میں چراغ داغ
ردیف غین معجمہ
ردیف فا
غم اٹھانے کے ہیں ہزار طریق
ردیف قاف
ردیف کاف فارسی
دعا مانگے دل غم گیں کہاں تک
کیوں ہ جہاں میں ہو عیاں عیب وہنر الگ الگ
ردیف کاف تازی
ردیف لام
مجھ سا نہ دے زمانے کو پروردگار دل
ردیف میم
چھک گئے ہیں آج اک ساغر سے ہم
شب وصال نہ پتلے بنوحیا کے تم
ردیف نون
بے کسی صدمۂ ہجراں کی مجھے تاب نہیں
کیا کیا فریب دل کو دئیے اضطراب میں
الٰہی کیا کریں ضبط محبت ہم تو مرتے ہیں
سوزوگداز عشق کا لذت چشیدہ ہوں
میرا چرچا ہوا نہ کس کس میں
بھر دیں عجب ادائیں اس سوخ سیم تن میں
جب کہا اور بھی دنیا میں حسیں اچھے ہیں
ساز یہ کینہ ساز کیا جانیں
نالے کرنے دل ناکام برےہوتے ہیں
دل میں گھر یار کے پیکاں کئے بیٹھے ہیں
پھرا پیامبر اپنا خراب رستے میں
زاہد نہ کہہ پری کہ یہ مستانے آدمی ہیں
مے کشو مژدہ کہ گھنگھور گھٹائیں آئیں
ہم تری بزم سے اے یار چلے جاتے ہیں
شوخ نے تیرے کام کیا اک نگاہ میں
بھولے بھٹکے جو ترے گھر میں چلے آتے ہیں
کشتۂ یاس ہوں مقتول تمنا ہوں میں
دل مہجور کو آزردہ جو پاتا ہوں میں
باغ میں گل کھلے جاتےہیں کہ وہ آتے ہیں
یہ لوگ کیا اسے رسوائے عام کرتے ہیں
جوش گریہ سے یہ آنکھیں ابر نیساں ہو گئیں
حضرت دل آپ ہیں جس دھیان میں
دل کو بہلاؤں کہاں تک کہ بہلتا ہی نہیں
دل ہی تو ہے نہ آئے کیوں دم ہی تو ہے نہ جائے کیوں
کس مصیبت سے بسر ہم شب غم کرتے ہیں
کہاں وہ گئے عیش وعشرت کے دن
جب سر رہ گزار پھرتے ہیں
یہ سن سن کے مرنا پڑا ہر کسی کو
ردیف واؤ
سچ ہے تیری ہے آرزو مجھ کو
وہ طریق مہرو رہ وفا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کیا ڈبوئے گا ترے عشق کا قلزم مجھ کو
عرضہ حشر میں اللہ کرے گم مجھ کو
جو دل قابو میں ہو تو کوئی رسوائے جہاں کیوں ہو
ردیف ہائے ہوز
لڑ گئی یار گلعذار سے آنکھ
مجھ کو جنت میں نہ راحت ہوگی
ردیف یائے تحتانی
بے لاگ ہے تیغ جنگ جوکی
جب وہ بت ہم کلام ہوتا ہے
اللہ اللہ رے پریشانی مری
اشک خوں رنگ لائے جاتا ہے
ہر بات میں کافر کی کیا آن نکلتی ہے
داغ ہر چند جہاں گرد ہے سودائی ہے
طبیعت کوئی دن میں بھر جائےگی
جفا کی ان بتوں نے یاوفاکی
منصفی دنیا سے ساری اٹھ گئی
ہوں تو دیوانہ مگر خالی نہیں تدبیر سے
چارہ گر ہم ہوش میں آئیں گے کیا تدبیر سے
چھوڑا ہے ساتھیوں نے پس کارواں مجھے
ہر گھڑی تجھ کو قسم غیر کی دی جاتی ہے
کوئی کمی نہ کی تھی دل بیقرار نے
کہنے دیتی نہیں کچھ منہ سےمحبت تیری
محبت کا اثر جاتا کہاں ہے
سرورق
یہاں بھی تو وہاں بھی تو زمیں تیری فلک تیرا
عدوئے سامری فن دیکھے اعجاز رقم میرا
ردیف الف
اللہ شوق دےمجھے نعت شریف کا
صبر لے زاہد نافہم نہ میخواروں کا
ہو گئے پر خون دل عشاق ہو کر زیر پا
گر میرے بت ہوش ربا کو نہیں دیکھا
آج راہی جہاں سے داغ ہوا
آخر کو عشق کفر سے ایمان ہو گیا
ثبات بحر جہاں میں اپنا فقط مثال حباب دیکھا
اس بزم میں شریک تو جایا نہ جائے گا
یوں وہ پیغام سے تو آئے گا
کرے انصاف دنیا میں اگر آفت کے ماروں کا
ہو کے ظاہر تو کیسا عشق نے اک حشر بپا
کیا لہواس اس سخت جاں کا عشق میں سم ہو گیا
کی ترک مئے تو مائل پندار ہو گیا
نالہ ہر اک بشر کے جگر سے نکل گیا
جو سر میں زلف کا سودا تھا سب نکال دیا
سو حسرتیں تو آئیں گیا ایک دل گیا
ستم ہی کرنا جفا ہی کرنا نگاہ الفت کبھی نہ کرنا
نہ جانا جان کا ایسا کسی نے جلد کھو جانا
ہو اہے جب سے شہرہ اس عدوئے دین وایماں کا
کب سے شب فراق ہوں مشتاق دید کا
زندہ عیسی کا نام کرنا تھا
حلقۂ زنجیر سے کم دور پیمانہ نہ تھا
بلا اضطراب ودرد ہی بن کر ٹھہر رہنا
ترے خرام سے برپا ہے شورو شر کیسا
غم کو میں عشق میں غمخوار دل وجاں سمجھا
ہے مجھ کو خبر رات کو جو تیرے قریں تھا
خال زلف سیاہ نے مارا
نہ آیا نامہ پر ابتک گیا تھا کہہ کے اب آیا
جو عاشقی میں خاک ہوا کیمیا ہوا
اے اہل بزم چشم مروت کو کیسا ہوا
دل میں تو کفر تیرے تجھ پر غضب خدا کا
غضب کیا ترے وعدے پر اعتبار کیسا
سرخی لب نے کیا ہے خون اس نخچیر کا
باقی جہاں میں قیس نہ فرہاد رہ گیا
جوڑ کے شہباز نظر پر گرا
جھونک سے سائے کے بھی یہ ناتواں لاغر گرا
وہ زمانہ نظر نہیں آتا
سینے میں اب کہاں وہ جوش وہ بھی تھا اک وبال سا
جلوہ اس کا نظر نہیں آتا
کن بیکسوں کا پردہ یہ چرخ کہن ہوا
نہ کبھی جیب خجالت سے یہاں سر نکلا
منتوں سے بھی نہ وہ حور شمائل آیا
طور کیوں خاک ہوا نور ترا نار نہ تھا
تیر اس کا چلتے چلتے جب پریشاں ہو گیا
وہ بات کون سی گزری جو اضطراب نہ تھا
بشر نے خاک پایا لعل پایا یا گہر پایا
کیونکر اس نگہ ناز سے جینا ہوگا
آئینہ تصویر کا تیرے نہ لے کر رکھ دیا
کب ہوا اے بت بیگانہ منش تو اپنا
کیوں کہا یہ کسی سے کیا مطلب
نامہ بر کہتا ہے اب لاتا ہوں دلبر کا جواب
ردیف بائے موحدہ
ہم مٹ گئے تو پرشش نام ونشاں ہے اب
ردیف بائے موحدہ
کم نہیں سامان میں ہنگامہ محشر سے آپ
مہرباں ہو کے جب ملیں گے آپ
ردیف تاء فوقانی
کب بات ہو بغیر خوشامد وہاں درست
ہے طرفہ تماشا سر بازار محبت
گئی ہے نہ فرقت کی جائے گی رات
نگاہ یار نے اس شوق سے لگائی چوٹ
ردیف تائے ہندی
تو نہ کر نخوت شباب بہت
ردیف ثائے مثلثہ
اب سے ہماری تو بہ ہے کہ جو وفا تو کیا عبث
ردیف جیم تازی
آیا ہے جھوم جھوم کے ابر بہار آج
ردیف جیم فارسی
غربت کے رنج فاقہ کشی کے ملال کھینچ
یوں مصور یار کی تصویر کھینچ
پکارتی ہے خموشی مری زباں کی طرح
ردیف حائے حطی
دل نہ رہا سینے میں دم کی طرح
ہوئی جب سے زبان یار گستاخ
ردیف دال مہملہ
ردیف خائے معجمہ
اس نے اگر کرم بھی کیا تو جفا کے بعد
ہے قہر اگر اب بھی نہ ہو راز نہاں بند
دل میں ہے غم ورنج والم حرص و ہوا بند
آنکھ سے گرتی ہےخون دل افگار کی بوند
چھپتی ہے کب چھپائے سے اے خوبرو پسند
نہ ہو کیونکر افضل ہمارا محمد
لاکھ لکھیے انہیں اندوہ ومحن کا کاغذ
چاہوں جو پئے مزار تعویذ
ردیف ذال معجمہ
تمام عالم کی خاک چھانی یہ عشق آخر کو تنگ ہو کر
ردیف رائے مہملہ
رکھتے اب بہر عیادت نہ قدم گن گن کر
کیا ہے دیندار اس صنم کو ہزار طوفاں اٹھا اٹھا کر
جو دکھاؤ بھی نہ دیکھوں رخ پر حجاب ہر گز
ردیف زائے منقولہ
کیا بیمروت خلق ہے سب جمع ہیں بسمل کے پاس
ردیف سین مہملہ
وہ سمجھے کیا فلک کینہ خواہ کی گردش
ردیف شین معجمہ
مری موت خواب میں دیکھ کر ہوئے خوب اپنی نظر سے خوش
ردیف صاد مہملہ
یہ نہ کہئے کہ نہیں کام کی حرص
آئے وہ بیوفا یہاں اس کی بلا کو کیا غرض
ردیف صاد معجمہ
ردیف طائے مہملہ
میں اور حرف شکوہ غلط اے صنم غلط
ردیف عین مہملہ
غم جاوید ہے ہم سے محظوظ
اس شوق کی نہیں بت قاتل کو اطلاع
ردیف ظائے معجمہ
کیسی حیا وشرم طبیعت کے برخلاف
مانند گل ہیں میرے جگر میں چراغ داغ
ردیف غین معجمہ
ردیف فا
غم اٹھانے کے ہیں ہزار طریق
ردیف قاف
ردیف کاف فارسی
دعا مانگے دل غم گیں کہاں تک
کیوں ہ جہاں میں ہو عیاں عیب وہنر الگ الگ
ردیف کاف تازی
ردیف لام
مجھ سا نہ دے زمانے کو پروردگار دل
ردیف میم
چھک گئے ہیں آج اک ساغر سے ہم
شب وصال نہ پتلے بنوحیا کے تم
ردیف نون
بے کسی صدمۂ ہجراں کی مجھے تاب نہیں
کیا کیا فریب دل کو دئیے اضطراب میں
الٰہی کیا کریں ضبط محبت ہم تو مرتے ہیں
سوزوگداز عشق کا لذت چشیدہ ہوں
میرا چرچا ہوا نہ کس کس میں
بھر دیں عجب ادائیں اس سوخ سیم تن میں
جب کہا اور بھی دنیا میں حسیں اچھے ہیں
ساز یہ کینہ ساز کیا جانیں
نالے کرنے دل ناکام برےہوتے ہیں
دل میں گھر یار کے پیکاں کئے بیٹھے ہیں
پھرا پیامبر اپنا خراب رستے میں
زاہد نہ کہہ پری کہ یہ مستانے آدمی ہیں
مے کشو مژدہ کہ گھنگھور گھٹائیں آئیں
ہم تری بزم سے اے یار چلے جاتے ہیں
شوخ نے تیرے کام کیا اک نگاہ میں
بھولے بھٹکے جو ترے گھر میں چلے آتے ہیں
کشتۂ یاس ہوں مقتول تمنا ہوں میں
دل مہجور کو آزردہ جو پاتا ہوں میں
باغ میں گل کھلے جاتےہیں کہ وہ آتے ہیں
یہ لوگ کیا اسے رسوائے عام کرتے ہیں
جوش گریہ سے یہ آنکھیں ابر نیساں ہو گئیں
حضرت دل آپ ہیں جس دھیان میں
دل کو بہلاؤں کہاں تک کہ بہلتا ہی نہیں
دل ہی تو ہے نہ آئے کیوں دم ہی تو ہے نہ جائے کیوں
کس مصیبت سے بسر ہم شب غم کرتے ہیں
کہاں وہ گئے عیش وعشرت کے دن
جب سر رہ گزار پھرتے ہیں
یہ سن سن کے مرنا پڑا ہر کسی کو
ردیف واؤ
سچ ہے تیری ہے آرزو مجھ کو
وہ طریق مہرو رہ وفا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کیا ڈبوئے گا ترے عشق کا قلزم مجھ کو
عرضہ حشر میں اللہ کرے گم مجھ کو
جو دل قابو میں ہو تو کوئی رسوائے جہاں کیوں ہو
ردیف ہائے ہوز
لڑ گئی یار گلعذار سے آنکھ
مجھ کو جنت میں نہ راحت ہوگی
ردیف یائے تحتانی
بے لاگ ہے تیغ جنگ جوکی
جب وہ بت ہم کلام ہوتا ہے
اللہ اللہ رے پریشانی مری
اشک خوں رنگ لائے جاتا ہے
ہر بات میں کافر کی کیا آن نکلتی ہے
داغ ہر چند جہاں گرد ہے سودائی ہے
طبیعت کوئی دن میں بھر جائےگی
جفا کی ان بتوں نے یاوفاکی
منصفی دنیا سے ساری اٹھ گئی
ہوں تو دیوانہ مگر خالی نہیں تدبیر سے
چارہ گر ہم ہوش میں آئیں گے کیا تدبیر سے
چھوڑا ہے ساتھیوں نے پس کارواں مجھے
ہر گھڑی تجھ کو قسم غیر کی دی جاتی ہے
کوئی کمی نہ کی تھی دل بیقرار نے
کہنے دیتی نہیں کچھ منہ سےمحبت تیری
محبت کا اثر جاتا کہاں ہے
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.