سرورق
یارب ہے بخش دینا بندے کو کا م تیرا
میں کلمہ گو ہوں خاص خدا ورسول کا
اچھی صورت پہ غضب ٹوٹ کے آنا دلکا
سبب کھلا یہ ہمیں انکے چھپانے کا
حسینوں کی وفا کیسی جفا کیا
دل مجھ سے ترا ہائے ستمگر نہیں ملتا
برا ہے شاد کو ناشاد کرنا
میں راز دل بیاں کروں انجمن میں کیا
توبہ توبہ سر تسلیم جھکایا جاتا
کاش تو گور غریباں پہ مضطر پھرتا
غیر کا میں بھی اگر چاہنے والا ہوتا
دل کو تاکا تو مری جان جگر چھوڑ دیا
غزل مستزاد
جب ان سے حال دل مبتلا کہا تو کہا بچائے تجھ سے خدا
تو ہی اپنے ہاتھ سے جب دلربا جاتا رہا
دیکھے منصور اگر آج زمانہ تیرا
لیچلا جان مری روٹھ کے جانا تیرا
غرض کسکو کرے ماتم ہمارا
بلا سے جو دشمن ہوا ہے کسی کا
قسمت اس کی ہے کہ جس نے اسے پایا تنہا
نہ کیا وعدہ رات کا پورا
قبضہ کرتا ہے ہر ایک حور شمائل اپنا
پردۂ عرفاں نہیں ہے چاک کیا
قطعہ
یاد آتے ہیں وہ اشخاص مصاحب منزل
جذب دل آزما کے دیکھ لیا
اوپری دل سے بپا گریہ وزاری رکھنا
اس التفات پر یہ تغافل ستم ہوا
میری وحشت سے جو اسکا دل حیراں الٹا
روئے انور نہیں دیکھا جاتا
کچھ ہمیں بھی خیال ہو ہی گیا
اب دل ہے مقام بیکسی کا
ظلم کس کس ظریب پر نہ کیا
جہاں تیرے جلوے سے معمور نکلا
زمیں سے قدم عرش پر لے گیا
شکل اصلی سے کبھی رنگ تبد ل نہ ہوا
عرش وکرسی پہ کیا خدا ملتا
جو اب اسطرف سے بھی فی الفور ہوگا
غم اس پر آشکار کیا ہم نے کیا کیا
یہ میں ہزار جگہ حشر میں پکار آیا
بھولا مجھے تو بھول گیا اپنا گھر بھی کیا
تمہارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا
دل عاشوق اسیران گیسوؤں کے جال میں دیکھا
تقلید سے زاہد کی حاصل ہمیں کیا ہوتا
جب وہ ناداں عدو کے گھر میں پڑا
وہ رشک حور شب کو کہیں گھر کے رہ گیا
نامہ ٔ عشق ناشاد نہ دیکھا نہ سنا
وصل کی شب جو فروغ جو کامل دیکھا
ادھر کی سدھ بھی ذرا اے پیا مبر لینا
نہ بدلے آدمی جنت سے بھی بیت الحزن اپنا
جب دھواں دھار گرجتی ہوئی آتی ہےگھٹا
آئینۂ دل نے تماشا کیا
امیدوار ہوں کرم بے حساب کا
غیر پر لطف وکرم بس ہو چکا
عاشق مضطر اگر آرام اپنا دیکھتا
کوئی پھرے نہ قول سے بس فیصلا ہوا
زبان ہلاؤ تو ہو جاے فیصلہ دل کا
عشق میں دل نے بہت کام نکالا اپنا
تم گلے جب نہ ملو لطف ملاقات ہی کیا
دیکھ کر تیری ادا جی سے گزر جائیگا
مایوس ہجر میں دل ناکام ہو گیا
نام زیر آسماں باقی رہا
لو محتسب کا مشرب رندانہ کھل گیا
ادھر دیکھ لینا ادھر دیکھ لینا
تجھے نامہ بر قسم ہے یہیں دن سے رات کرنا
دل مکدر مدام کا نکلا
شوق ہے اسکو خود نمائی کا
آشنا تو ہے اپنے مطلب کا
جس دن وہ مرے قتل کے ساماں میں نہ ہوگا
مقتل ہیں وہ سفاک جو مصروف ستم تھا
تم کو کیا ہر کسی سے ملنا تھا
ردیف الباء
نہیں سنتا ستم ایجاد ہماری یارب
دل ناکام کے ہیں کام خراب
نگاہ لطف سے والا نگاہ ہے محبوب
کیا سبب شاد ہے بشاش ہے جی آپ ہی آپ
ردیف الباء الفارسی
بزم دشمن میں نہ کھلنا گل نر کی صورت
ردیف التاء
بزم میں دیکھا ہے کس حسرت سے میں نے سوے دوست
نہیں سنتے وہ اب ہماری بات
کیجئے قتل کا ابروے اشارہ جھٹ پٹ
ردیف الجیم
پڑا ہے بل جبیں بر کیا سبب کیا وجہ کیا باعث
ردیف الثاء
میرا جدا مزاج ہے انکا جدا مزاج
جائے آسودگی کہاں ہے آج
جس دم رقیب کہنے کوآتے ہیں جھوٹ سچ
ردیف الجیم فارسی
سیکھی شب فراق یہ کس کا غرور صبح
لیتا ہے آدمی ہی سے تو آدمی صلاح
ردیف الحاء
ردیف الخاء
نرگسی چشم ہے بلا کی شوخ
خدا دے تو دے آرزوئے محمد
ملی ہم کو جنت قیامت کے بعد
ردیف دال
اے وعدہ فراموش رہی تجھ کو جفا یاد
ردیف راء مہملہ
حسرت آتی ہے دل ناکام پر
خلوت میں جب کسی کو نہ پایا اور ہر ادھر
آئے کوئی تو بیٹھ بھی جائے ذرا سی دیر
آئے ہیں تیرے کوچہ میں ہم گھر سے نکل کر
کہتے ہیں وہ یہ وصف گل نوبہار پر
جانچ لو ہاتھ میں پہلے دل شیدا لے کر
یوں برس پڑتے ہیں کیا ایسے وفاداروں پر
مزے لوں در کے میں تھوڑے تھوڑے ظلم سہہ سہہ کر
میرے دل کو دیکھ کر میری وفا کو دیکھ کر
یہاں تک تو پہونچا گریباں سے بڑھ کر
اپنی ہو نظر میں ہیچ ہے سارے جہاں کی سیر
طعنہ زن کیوں کر نہ ہو گلزار پر
چبھتا ہے مرے دل میں ترے ناز کا انداز
یا خواجہ معین الدین چشتی سلطان الہند غریب نواز
ردیف الزاء منقوطہ
ردیف سین مہملہ
عرض کرتے ہم جو ہوتے حضرت آدم کے پاس
برسوں رہا ہوں میں کسی نازک بدن کے پاس
سر کو ہے تیرے سنگ در کی تلاش
ردیف شین معجمہ
آزمایا ہے مدام آپ کو بس بس اجی بس
ردیف صادمہملہ
کوئی انسے کرے ہزار اخلاص
وصل چاہوں تو کہیں رہنےدے اپنا اخلاص
ردیف ضاد معجمہ
بیداد و جور و لطف و ترحم سے کیا غرض
ہے یہاں بھی اس بت کافر کو نخوت الحفیظ
ردیف ظاے معجمہ
آج ٹھہرے مری تمہاری شرط
ردیف طاے مہملہ
ہیں بہت سے عاشق دلگیر جمع
ردیف غین مہملہ
ردیف غین معجمہ
دیکھ کر وہ عارض رنگیں ہے یوں دل باغ باغ
کافر وہ زلف پرشکن ایک اسطرف ایک اسطرف
ردیف الفاء
وہ کہتے ہیں دل کی کہاں صاف صاف
ردیف قاف
ہے جمال یار سے تنویر عشق
مٹ گئے افسوس سارے ذوق شوق
ردیف کاف
نہ آئی بات جودل سے زباں تک
رہا جذب دل کا اثر دیر تک
وصل کی ٹھہری جو اے ماہ جبیں آج سے کل
ردیف لام
بیقراری ہوئی آخر سبب چارۂ دل
قطعہ
وہ پیغامبر کی مدارات پیہم
مزہ دے گیاہے شباب اول اول
غزل
رہتا ہے روز اس کی ملاقات کا خیالات
ردیف میم
دیا رقیبوں کو تم نے پیام نام بنام
ابھی ہماری محبت کسی کو کیا معلوم
رشک سے غیروں کے جی کھوتے ہیں ہم
ردیف نون
عذر آنے میں بھی ہے اور بلاتے بھی نہیں
آپ جن کو ہدف تیر نظر کرتے ہیں
چوٹ کھانا دل حزیں نہ کہیں
میں نے چاہا جو تمہیں اس کا گنہگار ہوں میں
اے فلک مورد عتاب ہوں میں
ہم تو فریاد وفغاں آہ وبکا کرتے ہیں
ہم دل کی بات داور محشر سے کیا کہیں
مجھے دل کی ایذا سے راحت نہیں
کہا دل سے میںں نے اسے یاد رکھ
جو یکدلی ہو تو ہو بات کا یقیں سے یقیں
مظہر نور دیں معین الدین
اڑائی خاک تیری جستجو میں ہر کہیں برسوں
حال دل تجھ سے دل آزار کہوں یا نہ کہوں
زلفیں رخسار پر نہ آئیں کیوں
مقضائے وقت کا پابند ہر حالت میں ہوں
دیکھیں تو کیسے فتنے ہیں نیچی نگاہ میں
دور ہی دور سے اقرار ہو ا کرتے ہیں
خواب راحت سے وہ بیدار ہوئے ہیں کہ نہیں
چھین کر دل بت خود کام لئے جاتے ہیں
صاف کب امتحان لیتے ہیں
ناداں ہے دوست کچھ خبر نیک وبد نہیں
دل گیا تم نے لیا ہم کیا کریں
تماشائے دیروحرم دیکھتے ہیں
دل مفت لوں ہرگز نہ دوں وہ یہ کہے میں یوں کہوں
ہزار رنج ومصیبت کے دن گزارے ہیں
یہ لطف زہدو رندی ہے کہ ہر فرقہ میں داخل ہوں
جہاں ہوں جس جگہ ہوں ہمدم اصحاب کا مل ہوں
جل کے ٹھنڈے ہوے ترے غم میں
شکر بھی ٹھیرا شکایت میں کروں تو کیا کروں
اس ادا سے وہ جفا کرتے ہیں
انکو کہاں ہے صبرو تحمل عتاب میں
یا تو ایسی مہربانی مجھ پہ یا کچھ بھی نہیں
زندگی کا نہیں سامان سر مودل میں
کسی کا مجھ کو نہ محتاج رکھ زمانے میں
وہ دشنام لاکھوں مجھے دے رہے ہیں
خط میں لکھے ہوئے رنجش کے کلام آتے ہیں
ہوا رشک عدو بھی عاشقی میں
اثر ہے خارحسرت کے بیان میں
دم نہیں دل نہیں دماغ نہیں
خدا سے گفتگو ہے اور میں ہوں
نیند آئے جو کسی رات یہ ممکن ہی نہیں
صبح تک دل کو دلا سے شب غم دیتے ہیں
کیوں چراتے ہو دیکھ کر آنکھیں
سب لوگ جدھر وہ ہیں ادھر دیکھ رہے ہیں
انکے اک جاں نثار ہم بھی ہیں
یہ تو نہیں کہ تم سا جہاں میں حسیں نہیں
وہ نہایت ہمیں مغرور نظر آتے ہیں
اس نہیں کا کوئی علاج نہیں
اسیر دام بلا اور کون ہے میں ہوں
یہ بت جو دیتے ہیں جھوٹی زباں دیتے ہیں
ردیف واؤ
واعظ برا مزہ ہو اگر یوں عذاب ہو
ہے تاک میں دزدیدہ نظرہ دیکھئے کیا ہو
کیوں وعدۂ وصال سے دل بدگماں نہ ہو
میرے پہلو سے وہ اٹھے غیر کی تعظیم کو
ہمارے دل میں بے کھٹکے محبت اپنی رہنے دو
نہ دنیا سے ملے راحت نہ تجھ سے چین اصلا ہو
عشق تاثیر کرے اور وہ تسخیر بھی ہو
تم آئینہ ہی نہ ہر بار دیکھتے جاؤ
کیوں کرتے ہو دنیا کی ہر اک بات سے توبہ
ردیف ہائے ہوز
کیوں بر سر عتاب ہو کیا اس سے فائدہ
دل کی ہے پرورش خلش ودرد غم کے ساتھ
مانند طور بام پہ دیکھا تو کچھ نہ کچھ
ردیف الیاء
نفرت ہے حرف وصل سے اچھا یو نہیں سہی
دنیا سے کیا غرض جو رہے ہم سے واسط
ایک طوفاں سے غم عشق میں رونا کیا ہے
آرزو ہے وفا کرے کوئی
ہر چند شوخیوں کی حیا پردہ دار ہے
کب وہ چونکے جو شراب عشق سے مستانہ ہے
کلیجا کرے خون وہ دل یہی ہے
غیر ہو ناشاد کیوں کیسی کہی
کہا تھا ہم نے جو کچھ رازواں سے
تاثیر محبت نے کیوں دیر لگائی ہے
کس طرح کہوں قیس ترے دل کو لگی ہے
وقت انصاف جو تم پاس ہمارے ہوتے
وہ قتل کیا اس نے یہ شہرت ہو کسی کی
عشق میں عشق کے بدلے یہ تباہی کیسی
یہ چرچے ہیں ہمیں دونوں کے دم سے
فراق یار میں تسکین دل بیتاب کو ہوتی
اجل روز جدائی کیوں نہ آئی
پھول دن بھر میں تروتازہ کہاں رہتا ہے
پوچھتے ہیں وہ مزاج اچھا تو ہے
لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے
دل کے رہنے کا اعتبار کسے
تم لبھاتے ہو بار بار کسے
ہیں خون دل سے دیدۂ گریاں بھرے ہوئے
ایسے تنگ آئے ہاتھ سے دل کے
کام روکنے کا نہیں ایدل ناداں کوئی
تری محفل میں یہ کثرت کبھی تھی
ہم تیرے کام ایدل مضطر بنائیں گے
گر میرے اشک سرخ سے رنگ حنا ملے
ساقیا دے بھی مئے روح فزا تھوڑی سی
جان سے چھوڑ دے تو اے ستم ایجاد مجھے
تم نے بدلے ہم سے گن گن کے لئے
آئے بھی تو وہ منہ کو چھپائے مرے آگے
یہ جو ہے حکم مرے پاس نہ آئے کوئی
جو نکلا پیچ سے کاکل کے دل زلف دوتا لپٹی
وہ کھینچتے ہیں خنجر براں کبھی کبھی
اک چیز ہے اس عالم ہستی میں بشر بھی
گلشن میں ہرے ہوکے شجر لائے ثمر بھی
ہم سے برگشتہ کسی کی نظر ایسی تو نہ تھی
شکست عہد سے ہوتا ہی کیا ہے
کسی کے ہین جلوے یہاں کیسے کیسے
دئے داغ نے امتحاں کیسے کیسے
قیامت ہے اگر میں نے فغان کی
کبھی ہم سے نہ کہنا تیرا کہنا ہم نہ مانیں گے
نزاکت مانع زور آزمائی ہوتی جاتی ہے
سب سے تم اچھے ہو تم سے مری قسمت اچھی
ہجر کی یہ رات کیسی رات ہے
اب وہ یہ کہہ رہے ہیں مری مان جایئے
اس لئے وصل سے انکار ہے ہم جان گئے
وہ نیم وعدہ کرکے جو خاموش ہو گئے
اس نے جب اک نگاہ دیکھا ہے
ساتھ شوخی کے کچھ حجاب بھی ہے
پھرے راہ سے وہ یہاں آتے آتے
مل گئی بیخودی شوق میں راحت کیسی
جا کر اس بزم میں آجاتی ہے شامت کیسی
کیا خوف ہے ان کے جو ملے داد کسی کی
پرسش جو ان سے ظلم کی روز جزا ہوئی
اطاعت میں اغیار خامی کریں گے
دنیا میں ہیں عیش کے ساماں کوئی دنکے
دل پریشان ہو اجاتا ہے
جنس دل آپ کو مہنگی ہے یاسستی ہے
غیر سے میری طرفداری ہے
دیکھئے عشق میں اب جان رہے یا نہ رہے
خوش کسی حال میں انسان رہا ہے نہ رہے
قیامت ہیں بانکی ادائیں تمہاری
نگہ نکلی نہ دل کی چور زلف عنبریں نکلی
عرض احوال کو گلا سمجھے
دل کو کیا ہو گیا خدا جانے
کمر کی طرح بے نشاں ہے دہن بھی
یہ دل محبوب سبحانی کے صدقے
سیکڑوں ملتے ہیں الزام کے دینے والے
محبت ہے مجھے اس رہگزر سے
لذت سیردگر چشم تمنالے گی
جب سے بسی ہوئی کسی گلگوں قبا میں ہے
ہم اس جہان سے ارمان لیکے جائیں گے
وعدہ پہ ان کی بات بنائی ہوئی سی ہے
ہردم اسی کی دہن سے اسی کا خیال ہے
دل لے ہی چکے ناز سے شوخی سے ہنسی سے
دل جگر سب آبلوں سے بھر چلے
مشکل ہے ان آنکھوں سے خدا کو کوئی دیکھے
اب کیوں نکروں نالہ مجھے ڈر تو نہیں ہے
واہ کس کی دوں جو ہوں دونوں برابر سامنے
نگاہ شوخ جب اس سے لڑ ی ہے
نظر کعبے میں اس بت پر پڑی ہے
ناوک لگا جگر پہ تو دلپر سناں لگی
ابروئے یار کیوں نہ کھنچے اس مثال سے
کل کچھ طبیعت اپنی جو مشکوک ہو گئی
کیجئے انصاف یہ ناحق کا جھگڑا ہم سے ہے
ڈھونڈھتے پھرتے ہیں اک عالم میں شیدائی تجھ سے
جمع ہیں پاک اک زمانے کے
رکھ دیں اگر شبیہ بھی مجھ بادہ نوش کی
دل میں عاشق کے تصور سے کھٹک ہوتی ہے
اچھی کہی کہ عشق میں بیمار کیوں ہوئے
کاوش فلک تفرقہ پرواز ہمیں سے
یہ ٹپکتا ہے رنگ بسمل سے
ملتا ہے محبت کا مزہ زہر فنا سے
مرض عشق کی دوا بھی ہے
مٹے داغ دل آرزو رہ گئی
آئینے سے وہ کہتے ہیں تیری نظر ہوئی
زاہد کو روز حشر پڑی امتحان کی
کب تک کھچے رہو گے کب تک تنی رہیگی
جور کی خو ترے دل سے نہ ستمگار گئی
جلا تھا دل جب کیا تھا نالہ جلایں گے لب جب دعا کریں گے
وہ دل لے کے چپکے سے چلتے ہوئے
وہ لیتے ہیں چٹکی دم گفتار ذرا سی
رہیگا عشق ترا خاک میں ملا کے مجھے
اشعار متفرقات
ردیف تائے ہندی
ردیف جیم فارسی
خمسہ برغزل خود مصنف
خمسہ برغزل شیخ سعدی شیرازی علیہ الرحمۃ
انکو مجرا تھے جوزیر آسماں بیٹھے ہوئے
حضرت عابد کو زندا ں میں بھی تھا اتنا لحاظ
سلام
سلام اس کو کیا جس نے نام چار طرف
رباعیات
قطعۂ تاریخ تہنیت مسند نشینی جناب مستطاب نواب محمد مشتاق علی خاں
قطعات
قطعۂ تاریخ مدارالمہامی جنرل اعظم الدین خان بہادر
قطعۂ تاریخ سالگرہ مبارک حضور پرنور حضرت نظام الملک آصفجاہ نواب میر محبوب علی خاں
تاریخ دیگر سالگرۂ نظام
قطعہ مبارکباد در تقریب ولادت باسعادت دختر نیک اختر حضور پرنور حضرت میر محبوب علیخان
قطعۂ مبارکباد سالگرہ شاہزادی اعلیٰ حضرت پرنور نواب میر محبوب علی خان
تاریخ تصنیف وطبع دیوان جناب مستطاب خادم حضرت حتمی مشیر قیصر ہند نواب کلب علیخان
تاریخ حصول شرف حضوری حضور پرنور اعلیٰ حضرت نواب میر محبوب علی خاں
قطعۂ تہنیت خلعت ریاست نواب مشتاق علیخان بہادر
تاریخ وفات فرزند جناب راجہ گردھاری پرشاد بہادر
تاریخ طبع کلیات میاں منیر صاحب
تاریخ طبع دیوان مرزا محمد قادر بخش تخلص صابر
تاریخ ناول منشی ریاض احمد صاحب خیر آبادی
تاریخ وزارت نواب رفعت جنگ عمدۃ الملک اعظم الامرا امیر اکبر بشیرالدولہ
تاریخ خلعت سر آسما نجاہ بہادر
تاریخ خطاب میجری نواب میجرافسر جنگ بہادر
قطعۂ تاریخ صحت اعظم کاں بہادر مدارالمہام راست رامپور
تاریخ تیاری مکان وباغ نواب قادر الدولہ بہادر
تاریخ باختیار شدن راجہ ہرکشن سنگھ بہادر والی کشن کوٹ ملک پنجاب
قطعہ تاریخ انتقال آفتاب بیگم نور اللہ مرقدہ
تاریخ انتقال نواب دلاور النسا بیگم
قطعۂ تاریخ رحلت حضرت محمد عبد النبی شاہ صاحب مجذوب
تاریخ طبع دیوان منشی اقبال حسین صاحب وکیل راجہ بیکانیر
تاریخ رحلت حضرت سید حسن رسول نام قدس سرہ العزیز
تاریخ طبع دیوان جناب نواب احمد علی خان بہادر
تاریخ مراجعت اعلی حضرتبندگان عالی متعالی مد ظلہ العالی
تاریخ وفات محمد تاج الدین خان صاحب شاہجہاں پوری
قطعہ تاریخ تہنیت عید ذبیحہ
تاریخ سند یافتن فیض محمد خان وکیل ساکن بلند شہر
قطعۂ تاریخ ولادت باسعادت شہزادہ بلند اقبال بادشاہ دکن
قطعۂ تاریخ دیوان جناب مولوی ممتاز احمد صاحب مقیم جوناگڑھ
تاریخ سرفرازی خطاب نواب داورالدولہ داورالملک واور جنگ داور مرزا علیخاں بہادر
تاریخ صید افگنی حضرت بندگان علی متعالی مد ظلہ العالی بادشاہ ملک دکن
قطعۂ تاریخ ترتیب دیوان شہزادۂ رحیم الدین حیا
قطعۂ تاریخ تصنیف واسوخت منشی نجیب الدین صاحب نجیب
تاریخ طبع دیوان مشفقی میر ضامن علی صاحب جلال
قطعۂ تاریخ تقویم میر حیدر علی صاحب حیدر آبادی
قطعہ تاریخ مقتول شدن جنرل محمد اعظم الدین خان بہادر
تارٰک رحلت زمانی بیگم مرحومہ صبیہ محمد ابراہیم خان
تقریظ مثنوی ضیائے دکن مصنفہ مولوی سید باقر خاں صاحب المتخلص بہ ضیا
قطعۂ تاریخ میلاد شریف مصنفہ وزیر الدین صاحب تحصیلدار
قطعۂ مبارکباد جشن عید الفطر
قطعۂ تاریخ مبارکباد ولادت باسعادت فرزند ارجمند نواب رفعت جنگ
قطعہ تاریخ سالگرہ مبارک حضرت بندگان علی متعالی حضور پرنور دام اقبالہ خلد اللہ
قطعۂ تاریخ شکار شیرافگنی اعلیٰ حضرت بندگان عالی متعالی مدظلہ العالی
قطعہ تاریخ انتقال حکیم محمود خان دہلوی نوراللہ مرقدہ
قطعۂ تاریخ صحت اعلیٰ حضرت بندگان علی متعالی
قطعہ تاریخ نو تعمیر پچ محلہ
قطعۂ تاریخ ولادت باسعادت شاہزادۂ دیگر طال اللہ عمرہ
قطعۂ تاریخ ولادت باسعادت شاہزادہ نامور بلند اقبال
قطعۂ تاریخ طبع دیوان معزز
قطعۂ تایخ طبع دیوان خفی
قطعۂ تاریخ تعمیر مسجد حاجی جہانگیر بخش صاحب وقع کانپور
قطعہ تہنیت تسمیہ خوانی فرزند قاضی حسین میاں صاحب بہادر رئیس
مبارکباد ولادت باسعادت فرزند دلبند نواب رفعت جنگ
بتقریب شادی مرزا سراج الدین احمد خان صاحب نبیرۂ نواب ضیاءالدین خانصاحب
بتقریب شادی نواب محمد ممتاز حسین خان بہادر
میں ہوا یادیہ پیما طرف ملک دکن
قصیدۂ مدحیہ حضرت بندگان علی متعالی حضور پرنور نواب میر محبوب علیخان بہادر
وہ طراوت کا اثر ہے کہ دم سیر چمن
خسر وتیر فگن تیغ فگن شیر فگن
صفت فیل
تعریف اسپ
آج وہ روز مبارک ہے وہ ہے یوم سعید
قطعۂ مدحیہ در تہنیت عید الفطر بنام حضرت بندگان عالی متعالی نواب میر محبوب علی خان
یوں سلاطین دکن میں ہے ترادور سعید
جشن آراستۂ شاہ کی مدت ہے مدید
در صفت اسپ
در صفت فیل
قصیدہ در مدح حضرت بندگان عالی متعالی نواب میر محبوب علیخان
کیا جواں بخت وجواں سال ہوا ہے عالم
صاحب طبل وعلم مالک شمشیر وقلم
مطلع ثالث
تعریف اسپ
تعریف فیل
قصیدہ در تہنیت عیدالفطر ومدح اعلیٰ حضرت میر محبوب علی خان
تعریف اسپ
در تعریف فیل
شب کو میں فکر میں تھا خلوتی خلوت گاہ
قصیدہ مدحیہ در تہنیت عیدالاضحیٰ بنام اعلیٰ حضرت میر محبوب علی خان
خسرو ملک دکن پادشہ ظل اللہ
خون اعدا جو بہائے تری خونریز سپاہ
قصیدہ در مدح نواب سکندر جنگ اقبال الدولہ اقتدار الملک وقار الامرا بہادر
سرورق
یارب ہے بخش دینا بندے کو کا م تیرا
میں کلمہ گو ہوں خاص خدا ورسول کا
اچھی صورت پہ غضب ٹوٹ کے آنا دلکا
سبب کھلا یہ ہمیں انکے چھپانے کا
حسینوں کی وفا کیسی جفا کیا
دل مجھ سے ترا ہائے ستمگر نہیں ملتا
برا ہے شاد کو ناشاد کرنا
میں راز دل بیاں کروں انجمن میں کیا
توبہ توبہ سر تسلیم جھکایا جاتا
کاش تو گور غریباں پہ مضطر پھرتا
غیر کا میں بھی اگر چاہنے والا ہوتا
دل کو تاکا تو مری جان جگر چھوڑ دیا
غزل مستزاد
جب ان سے حال دل مبتلا کہا تو کہا بچائے تجھ سے خدا
تو ہی اپنے ہاتھ سے جب دلربا جاتا رہا
دیکھے منصور اگر آج زمانہ تیرا
لیچلا جان مری روٹھ کے جانا تیرا
غرض کسکو کرے ماتم ہمارا
بلا سے جو دشمن ہوا ہے کسی کا
قسمت اس کی ہے کہ جس نے اسے پایا تنہا
نہ کیا وعدہ رات کا پورا
قبضہ کرتا ہے ہر ایک حور شمائل اپنا
پردۂ عرفاں نہیں ہے چاک کیا
قطعہ
یاد آتے ہیں وہ اشخاص مصاحب منزل
جذب دل آزما کے دیکھ لیا
اوپری دل سے بپا گریہ وزاری رکھنا
اس التفات پر یہ تغافل ستم ہوا
میری وحشت سے جو اسکا دل حیراں الٹا
روئے انور نہیں دیکھا جاتا
کچھ ہمیں بھی خیال ہو ہی گیا
اب دل ہے مقام بیکسی کا
ظلم کس کس ظریب پر نہ کیا
جہاں تیرے جلوے سے معمور نکلا
زمیں سے قدم عرش پر لے گیا
شکل اصلی سے کبھی رنگ تبد ل نہ ہوا
عرش وکرسی پہ کیا خدا ملتا
جو اب اسطرف سے بھی فی الفور ہوگا
غم اس پر آشکار کیا ہم نے کیا کیا
یہ میں ہزار جگہ حشر میں پکار آیا
بھولا مجھے تو بھول گیا اپنا گھر بھی کیا
تمہارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا
دل عاشوق اسیران گیسوؤں کے جال میں دیکھا
تقلید سے زاہد کی حاصل ہمیں کیا ہوتا
جب وہ ناداں عدو کے گھر میں پڑا
وہ رشک حور شب کو کہیں گھر کے رہ گیا
نامہ ٔ عشق ناشاد نہ دیکھا نہ سنا
وصل کی شب جو فروغ جو کامل دیکھا
ادھر کی سدھ بھی ذرا اے پیا مبر لینا
نہ بدلے آدمی جنت سے بھی بیت الحزن اپنا
جب دھواں دھار گرجتی ہوئی آتی ہےگھٹا
آئینۂ دل نے تماشا کیا
امیدوار ہوں کرم بے حساب کا
غیر پر لطف وکرم بس ہو چکا
عاشق مضطر اگر آرام اپنا دیکھتا
کوئی پھرے نہ قول سے بس فیصلا ہوا
زبان ہلاؤ تو ہو جاے فیصلہ دل کا
عشق میں دل نے بہت کام نکالا اپنا
تم گلے جب نہ ملو لطف ملاقات ہی کیا
دیکھ کر تیری ادا جی سے گزر جائیگا
مایوس ہجر میں دل ناکام ہو گیا
نام زیر آسماں باقی رہا
لو محتسب کا مشرب رندانہ کھل گیا
ادھر دیکھ لینا ادھر دیکھ لینا
تجھے نامہ بر قسم ہے یہیں دن سے رات کرنا
دل مکدر مدام کا نکلا
شوق ہے اسکو خود نمائی کا
آشنا تو ہے اپنے مطلب کا
جس دن وہ مرے قتل کے ساماں میں نہ ہوگا
مقتل ہیں وہ سفاک جو مصروف ستم تھا
تم کو کیا ہر کسی سے ملنا تھا
ردیف الباء
نہیں سنتا ستم ایجاد ہماری یارب
دل ناکام کے ہیں کام خراب
نگاہ لطف سے والا نگاہ ہے محبوب
کیا سبب شاد ہے بشاش ہے جی آپ ہی آپ
ردیف الباء الفارسی
بزم دشمن میں نہ کھلنا گل نر کی صورت
ردیف التاء
بزم میں دیکھا ہے کس حسرت سے میں نے سوے دوست
نہیں سنتے وہ اب ہماری بات
کیجئے قتل کا ابروے اشارہ جھٹ پٹ
ردیف الجیم
پڑا ہے بل جبیں بر کیا سبب کیا وجہ کیا باعث
ردیف الثاء
میرا جدا مزاج ہے انکا جدا مزاج
جائے آسودگی کہاں ہے آج
جس دم رقیب کہنے کوآتے ہیں جھوٹ سچ
ردیف الجیم فارسی
سیکھی شب فراق یہ کس کا غرور صبح
لیتا ہے آدمی ہی سے تو آدمی صلاح
ردیف الحاء
ردیف الخاء
نرگسی چشم ہے بلا کی شوخ
خدا دے تو دے آرزوئے محمد
ملی ہم کو جنت قیامت کے بعد
ردیف دال
اے وعدہ فراموش رہی تجھ کو جفا یاد
ردیف راء مہملہ
حسرت آتی ہے دل ناکام پر
خلوت میں جب کسی کو نہ پایا اور ہر ادھر
آئے کوئی تو بیٹھ بھی جائے ذرا سی دیر
آئے ہیں تیرے کوچہ میں ہم گھر سے نکل کر
کہتے ہیں وہ یہ وصف گل نوبہار پر
جانچ لو ہاتھ میں پہلے دل شیدا لے کر
یوں برس پڑتے ہیں کیا ایسے وفاداروں پر
مزے لوں در کے میں تھوڑے تھوڑے ظلم سہہ سہہ کر
میرے دل کو دیکھ کر میری وفا کو دیکھ کر
یہاں تک تو پہونچا گریباں سے بڑھ کر
اپنی ہو نظر میں ہیچ ہے سارے جہاں کی سیر
طعنہ زن کیوں کر نہ ہو گلزار پر
چبھتا ہے مرے دل میں ترے ناز کا انداز
یا خواجہ معین الدین چشتی سلطان الہند غریب نواز
ردیف الزاء منقوطہ
ردیف سین مہملہ
عرض کرتے ہم جو ہوتے حضرت آدم کے پاس
برسوں رہا ہوں میں کسی نازک بدن کے پاس
سر کو ہے تیرے سنگ در کی تلاش
ردیف شین معجمہ
آزمایا ہے مدام آپ کو بس بس اجی بس
ردیف صادمہملہ
کوئی انسے کرے ہزار اخلاص
وصل چاہوں تو کہیں رہنےدے اپنا اخلاص
ردیف ضاد معجمہ
بیداد و جور و لطف و ترحم سے کیا غرض
ہے یہاں بھی اس بت کافر کو نخوت الحفیظ
ردیف ظاے معجمہ
آج ٹھہرے مری تمہاری شرط
ردیف طاے مہملہ
ہیں بہت سے عاشق دلگیر جمع
ردیف غین مہملہ
ردیف غین معجمہ
دیکھ کر وہ عارض رنگیں ہے یوں دل باغ باغ
کافر وہ زلف پرشکن ایک اسطرف ایک اسطرف
ردیف الفاء
وہ کہتے ہیں دل کی کہاں صاف صاف
ردیف قاف
ہے جمال یار سے تنویر عشق
مٹ گئے افسوس سارے ذوق شوق
ردیف کاف
نہ آئی بات جودل سے زباں تک
رہا جذب دل کا اثر دیر تک
وصل کی ٹھہری جو اے ماہ جبیں آج سے کل
ردیف لام
بیقراری ہوئی آخر سبب چارۂ دل
قطعہ
وہ پیغامبر کی مدارات پیہم
مزہ دے گیاہے شباب اول اول
غزل
رہتا ہے روز اس کی ملاقات کا خیالات
ردیف میم
دیا رقیبوں کو تم نے پیام نام بنام
ابھی ہماری محبت کسی کو کیا معلوم
رشک سے غیروں کے جی کھوتے ہیں ہم
ردیف نون
عذر آنے میں بھی ہے اور بلاتے بھی نہیں
آپ جن کو ہدف تیر نظر کرتے ہیں
چوٹ کھانا دل حزیں نہ کہیں
میں نے چاہا جو تمہیں اس کا گنہگار ہوں میں
اے فلک مورد عتاب ہوں میں
ہم تو فریاد وفغاں آہ وبکا کرتے ہیں
ہم دل کی بات داور محشر سے کیا کہیں
مجھے دل کی ایذا سے راحت نہیں
کہا دل سے میںں نے اسے یاد رکھ
جو یکدلی ہو تو ہو بات کا یقیں سے یقیں
مظہر نور دیں معین الدین
اڑائی خاک تیری جستجو میں ہر کہیں برسوں
حال دل تجھ سے دل آزار کہوں یا نہ کہوں
زلفیں رخسار پر نہ آئیں کیوں
مقضائے وقت کا پابند ہر حالت میں ہوں
دیکھیں تو کیسے فتنے ہیں نیچی نگاہ میں
دور ہی دور سے اقرار ہو ا کرتے ہیں
خواب راحت سے وہ بیدار ہوئے ہیں کہ نہیں
چھین کر دل بت خود کام لئے جاتے ہیں
صاف کب امتحان لیتے ہیں
ناداں ہے دوست کچھ خبر نیک وبد نہیں
دل گیا تم نے لیا ہم کیا کریں
تماشائے دیروحرم دیکھتے ہیں
دل مفت لوں ہرگز نہ دوں وہ یہ کہے میں یوں کہوں
ہزار رنج ومصیبت کے دن گزارے ہیں
یہ لطف زہدو رندی ہے کہ ہر فرقہ میں داخل ہوں
جہاں ہوں جس جگہ ہوں ہمدم اصحاب کا مل ہوں
جل کے ٹھنڈے ہوے ترے غم میں
شکر بھی ٹھیرا شکایت میں کروں تو کیا کروں
اس ادا سے وہ جفا کرتے ہیں
انکو کہاں ہے صبرو تحمل عتاب میں
یا تو ایسی مہربانی مجھ پہ یا کچھ بھی نہیں
زندگی کا نہیں سامان سر مودل میں
کسی کا مجھ کو نہ محتاج رکھ زمانے میں
وہ دشنام لاکھوں مجھے دے رہے ہیں
خط میں لکھے ہوئے رنجش کے کلام آتے ہیں
ہوا رشک عدو بھی عاشقی میں
اثر ہے خارحسرت کے بیان میں
دم نہیں دل نہیں دماغ نہیں
خدا سے گفتگو ہے اور میں ہوں
نیند آئے جو کسی رات یہ ممکن ہی نہیں
صبح تک دل کو دلا سے شب غم دیتے ہیں
کیوں چراتے ہو دیکھ کر آنکھیں
سب لوگ جدھر وہ ہیں ادھر دیکھ رہے ہیں
انکے اک جاں نثار ہم بھی ہیں
یہ تو نہیں کہ تم سا جہاں میں حسیں نہیں
وہ نہایت ہمیں مغرور نظر آتے ہیں
اس نہیں کا کوئی علاج نہیں
اسیر دام بلا اور کون ہے میں ہوں
یہ بت جو دیتے ہیں جھوٹی زباں دیتے ہیں
ردیف واؤ
واعظ برا مزہ ہو اگر یوں عذاب ہو
ہے تاک میں دزدیدہ نظرہ دیکھئے کیا ہو
کیوں وعدۂ وصال سے دل بدگماں نہ ہو
میرے پہلو سے وہ اٹھے غیر کی تعظیم کو
ہمارے دل میں بے کھٹکے محبت اپنی رہنے دو
نہ دنیا سے ملے راحت نہ تجھ سے چین اصلا ہو
عشق تاثیر کرے اور وہ تسخیر بھی ہو
تم آئینہ ہی نہ ہر بار دیکھتے جاؤ
کیوں کرتے ہو دنیا کی ہر اک بات سے توبہ
ردیف ہائے ہوز
کیوں بر سر عتاب ہو کیا اس سے فائدہ
دل کی ہے پرورش خلش ودرد غم کے ساتھ
مانند طور بام پہ دیکھا تو کچھ نہ کچھ
ردیف الیاء
نفرت ہے حرف وصل سے اچھا یو نہیں سہی
دنیا سے کیا غرض جو رہے ہم سے واسط
ایک طوفاں سے غم عشق میں رونا کیا ہے
آرزو ہے وفا کرے کوئی
ہر چند شوخیوں کی حیا پردہ دار ہے
کب وہ چونکے جو شراب عشق سے مستانہ ہے
کلیجا کرے خون وہ دل یہی ہے
غیر ہو ناشاد کیوں کیسی کہی
کہا تھا ہم نے جو کچھ رازواں سے
تاثیر محبت نے کیوں دیر لگائی ہے
کس طرح کہوں قیس ترے دل کو لگی ہے
وقت انصاف جو تم پاس ہمارے ہوتے
وہ قتل کیا اس نے یہ شہرت ہو کسی کی
عشق میں عشق کے بدلے یہ تباہی کیسی
یہ چرچے ہیں ہمیں دونوں کے دم سے
فراق یار میں تسکین دل بیتاب کو ہوتی
اجل روز جدائی کیوں نہ آئی
پھول دن بھر میں تروتازہ کہاں رہتا ہے
پوچھتے ہیں وہ مزاج اچھا تو ہے
لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے
دل کے رہنے کا اعتبار کسے
تم لبھاتے ہو بار بار کسے
ہیں خون دل سے دیدۂ گریاں بھرے ہوئے
ایسے تنگ آئے ہاتھ سے دل کے
کام روکنے کا نہیں ایدل ناداں کوئی
تری محفل میں یہ کثرت کبھی تھی
ہم تیرے کام ایدل مضطر بنائیں گے
گر میرے اشک سرخ سے رنگ حنا ملے
ساقیا دے بھی مئے روح فزا تھوڑی سی
جان سے چھوڑ دے تو اے ستم ایجاد مجھے
تم نے بدلے ہم سے گن گن کے لئے
آئے بھی تو وہ منہ کو چھپائے مرے آگے
یہ جو ہے حکم مرے پاس نہ آئے کوئی
جو نکلا پیچ سے کاکل کے دل زلف دوتا لپٹی
وہ کھینچتے ہیں خنجر براں کبھی کبھی
اک چیز ہے اس عالم ہستی میں بشر بھی
گلشن میں ہرے ہوکے شجر لائے ثمر بھی
ہم سے برگشتہ کسی کی نظر ایسی تو نہ تھی
شکست عہد سے ہوتا ہی کیا ہے
کسی کے ہین جلوے یہاں کیسے کیسے
دئے داغ نے امتحاں کیسے کیسے
قیامت ہے اگر میں نے فغان کی
کبھی ہم سے نہ کہنا تیرا کہنا ہم نہ مانیں گے
نزاکت مانع زور آزمائی ہوتی جاتی ہے
سب سے تم اچھے ہو تم سے مری قسمت اچھی
ہجر کی یہ رات کیسی رات ہے
اب وہ یہ کہہ رہے ہیں مری مان جایئے
اس لئے وصل سے انکار ہے ہم جان گئے
وہ نیم وعدہ کرکے جو خاموش ہو گئے
اس نے جب اک نگاہ دیکھا ہے
ساتھ شوخی کے کچھ حجاب بھی ہے
پھرے راہ سے وہ یہاں آتے آتے
مل گئی بیخودی شوق میں راحت کیسی
جا کر اس بزم میں آجاتی ہے شامت کیسی
کیا خوف ہے ان کے جو ملے داد کسی کی
پرسش جو ان سے ظلم کی روز جزا ہوئی
اطاعت میں اغیار خامی کریں گے
دنیا میں ہیں عیش کے ساماں کوئی دنکے
دل پریشان ہو اجاتا ہے
جنس دل آپ کو مہنگی ہے یاسستی ہے
غیر سے میری طرفداری ہے
دیکھئے عشق میں اب جان رہے یا نہ رہے
خوش کسی حال میں انسان رہا ہے نہ رہے
قیامت ہیں بانکی ادائیں تمہاری
نگہ نکلی نہ دل کی چور زلف عنبریں نکلی
عرض احوال کو گلا سمجھے
دل کو کیا ہو گیا خدا جانے
کمر کی طرح بے نشاں ہے دہن بھی
یہ دل محبوب سبحانی کے صدقے
سیکڑوں ملتے ہیں الزام کے دینے والے
محبت ہے مجھے اس رہگزر سے
لذت سیردگر چشم تمنالے گی
جب سے بسی ہوئی کسی گلگوں قبا میں ہے
ہم اس جہان سے ارمان لیکے جائیں گے
وعدہ پہ ان کی بات بنائی ہوئی سی ہے
ہردم اسی کی دہن سے اسی کا خیال ہے
دل لے ہی چکے ناز سے شوخی سے ہنسی سے
دل جگر سب آبلوں سے بھر چلے
مشکل ہے ان آنکھوں سے خدا کو کوئی دیکھے
اب کیوں نکروں نالہ مجھے ڈر تو نہیں ہے
واہ کس کی دوں جو ہوں دونوں برابر سامنے
نگاہ شوخ جب اس سے لڑ ی ہے
نظر کعبے میں اس بت پر پڑی ہے
ناوک لگا جگر پہ تو دلپر سناں لگی
ابروئے یار کیوں نہ کھنچے اس مثال سے
کل کچھ طبیعت اپنی جو مشکوک ہو گئی
کیجئے انصاف یہ ناحق کا جھگڑا ہم سے ہے
ڈھونڈھتے پھرتے ہیں اک عالم میں شیدائی تجھ سے
جمع ہیں پاک اک زمانے کے
رکھ دیں اگر شبیہ بھی مجھ بادہ نوش کی
دل میں عاشق کے تصور سے کھٹک ہوتی ہے
اچھی کہی کہ عشق میں بیمار کیوں ہوئے
کاوش فلک تفرقہ پرواز ہمیں سے
یہ ٹپکتا ہے رنگ بسمل سے
ملتا ہے محبت کا مزہ زہر فنا سے
مرض عشق کی دوا بھی ہے
مٹے داغ دل آرزو رہ گئی
آئینے سے وہ کہتے ہیں تیری نظر ہوئی
زاہد کو روز حشر پڑی امتحان کی
کب تک کھچے رہو گے کب تک تنی رہیگی
جور کی خو ترے دل سے نہ ستمگار گئی
جلا تھا دل جب کیا تھا نالہ جلایں گے لب جب دعا کریں گے
وہ دل لے کے چپکے سے چلتے ہوئے
وہ لیتے ہیں چٹکی دم گفتار ذرا سی
رہیگا عشق ترا خاک میں ملا کے مجھے
اشعار متفرقات
ردیف تائے ہندی
ردیف جیم فارسی
خمسہ برغزل خود مصنف
خمسہ برغزل شیخ سعدی شیرازی علیہ الرحمۃ
انکو مجرا تھے جوزیر آسماں بیٹھے ہوئے
حضرت عابد کو زندا ں میں بھی تھا اتنا لحاظ
سلام
سلام اس کو کیا جس نے نام چار طرف
رباعیات
قطعۂ تاریخ تہنیت مسند نشینی جناب مستطاب نواب محمد مشتاق علی خاں
قطعات
قطعۂ تاریخ مدارالمہامی جنرل اعظم الدین خان بہادر
قطعۂ تاریخ سالگرہ مبارک حضور پرنور حضرت نظام الملک آصفجاہ نواب میر محبوب علی خاں
تاریخ دیگر سالگرۂ نظام
قطعہ مبارکباد در تقریب ولادت باسعادت دختر نیک اختر حضور پرنور حضرت میر محبوب علیخان
قطعۂ مبارکباد سالگرہ شاہزادی اعلیٰ حضرت پرنور نواب میر محبوب علی خان
تاریخ تصنیف وطبع دیوان جناب مستطاب خادم حضرت حتمی مشیر قیصر ہند نواب کلب علیخان
تاریخ حصول شرف حضوری حضور پرنور اعلیٰ حضرت نواب میر محبوب علی خاں
قطعۂ تہنیت خلعت ریاست نواب مشتاق علیخان بہادر
تاریخ وفات فرزند جناب راجہ گردھاری پرشاد بہادر
تاریخ طبع کلیات میاں منیر صاحب
تاریخ طبع دیوان مرزا محمد قادر بخش تخلص صابر
تاریخ ناول منشی ریاض احمد صاحب خیر آبادی
تاریخ وزارت نواب رفعت جنگ عمدۃ الملک اعظم الامرا امیر اکبر بشیرالدولہ
تاریخ خلعت سر آسما نجاہ بہادر
تاریخ خطاب میجری نواب میجرافسر جنگ بہادر
قطعۂ تاریخ صحت اعظم کاں بہادر مدارالمہام راست رامپور
تاریخ تیاری مکان وباغ نواب قادر الدولہ بہادر
تاریخ باختیار شدن راجہ ہرکشن سنگھ بہادر والی کشن کوٹ ملک پنجاب
قطعہ تاریخ انتقال آفتاب بیگم نور اللہ مرقدہ
تاریخ انتقال نواب دلاور النسا بیگم
قطعۂ تاریخ رحلت حضرت محمد عبد النبی شاہ صاحب مجذوب
تاریخ طبع دیوان منشی اقبال حسین صاحب وکیل راجہ بیکانیر
تاریخ رحلت حضرت سید حسن رسول نام قدس سرہ العزیز
تاریخ طبع دیوان جناب نواب احمد علی خان بہادر
تاریخ مراجعت اعلی حضرتبندگان عالی متعالی مد ظلہ العالی
تاریخ وفات محمد تاج الدین خان صاحب شاہجہاں پوری
قطعہ تاریخ تہنیت عید ذبیحہ
تاریخ سند یافتن فیض محمد خان وکیل ساکن بلند شہر
قطعۂ تاریخ ولادت باسعادت شہزادہ بلند اقبال بادشاہ دکن
قطعۂ تاریخ دیوان جناب مولوی ممتاز احمد صاحب مقیم جوناگڑھ
تاریخ سرفرازی خطاب نواب داورالدولہ داورالملک واور جنگ داور مرزا علیخاں بہادر
تاریخ صید افگنی حضرت بندگان علی متعالی مد ظلہ العالی بادشاہ ملک دکن
قطعۂ تاریخ ترتیب دیوان شہزادۂ رحیم الدین حیا
قطعۂ تاریخ تصنیف واسوخت منشی نجیب الدین صاحب نجیب
تاریخ طبع دیوان مشفقی میر ضامن علی صاحب جلال
قطعۂ تاریخ تقویم میر حیدر علی صاحب حیدر آبادی
قطعہ تاریخ مقتول شدن جنرل محمد اعظم الدین خان بہادر
تارٰک رحلت زمانی بیگم مرحومہ صبیہ محمد ابراہیم خان
تقریظ مثنوی ضیائے دکن مصنفہ مولوی سید باقر خاں صاحب المتخلص بہ ضیا
قطعۂ تاریخ میلاد شریف مصنفہ وزیر الدین صاحب تحصیلدار
قطعۂ مبارکباد جشن عید الفطر
قطعۂ تاریخ مبارکباد ولادت باسعادت فرزند ارجمند نواب رفعت جنگ
قطعہ تاریخ سالگرہ مبارک حضرت بندگان علی متعالی حضور پرنور دام اقبالہ خلد اللہ
قطعۂ تاریخ شکار شیرافگنی اعلیٰ حضرت بندگان عالی متعالی مدظلہ العالی
قطعہ تاریخ انتقال حکیم محمود خان دہلوی نوراللہ مرقدہ
قطعۂ تاریخ صحت اعلیٰ حضرت بندگان علی متعالی
قطعہ تاریخ نو تعمیر پچ محلہ
قطعۂ تاریخ ولادت باسعادت شاہزادۂ دیگر طال اللہ عمرہ
قطعۂ تاریخ ولادت باسعادت شاہزادہ نامور بلند اقبال
قطعۂ تاریخ طبع دیوان معزز
قطعۂ تایخ طبع دیوان خفی
قطعۂ تاریخ تعمیر مسجد حاجی جہانگیر بخش صاحب وقع کانپور
قطعہ تہنیت تسمیہ خوانی فرزند قاضی حسین میاں صاحب بہادر رئیس
مبارکباد ولادت باسعادت فرزند دلبند نواب رفعت جنگ
بتقریب شادی مرزا سراج الدین احمد خان صاحب نبیرۂ نواب ضیاءالدین خانصاحب
بتقریب شادی نواب محمد ممتاز حسین خان بہادر
میں ہوا یادیہ پیما طرف ملک دکن
قصیدۂ مدحیہ حضرت بندگان علی متعالی حضور پرنور نواب میر محبوب علیخان بہادر
وہ طراوت کا اثر ہے کہ دم سیر چمن
خسر وتیر فگن تیغ فگن شیر فگن
صفت فیل
تعریف اسپ
آج وہ روز مبارک ہے وہ ہے یوم سعید
قطعۂ مدحیہ در تہنیت عید الفطر بنام حضرت بندگان عالی متعالی نواب میر محبوب علی خان
یوں سلاطین دکن میں ہے ترادور سعید
جشن آراستۂ شاہ کی مدت ہے مدید
در صفت اسپ
در صفت فیل
قصیدہ در مدح حضرت بندگان عالی متعالی نواب میر محبوب علیخان
کیا جواں بخت وجواں سال ہوا ہے عالم
صاحب طبل وعلم مالک شمشیر وقلم
مطلع ثالث
تعریف اسپ
تعریف فیل
قصیدہ در تہنیت عیدالفطر ومدح اعلیٰ حضرت میر محبوب علی خان
تعریف اسپ
در تعریف فیل
شب کو میں فکر میں تھا خلوتی خلوت گاہ
قصیدہ مدحیہ در تہنیت عیدالاضحیٰ بنام اعلیٰ حضرت میر محبوب علی خان
خسرو ملک دکن پادشہ ظل اللہ
خون اعدا جو بہائے تری خونریز سپاہ
قصیدہ در مدح نواب سکندر جنگ اقبال الدولہ اقتدار الملک وقار الامرا بہادر
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔