سرورق
برنگ بوے گل ہے ہر نفس باد الٰہی میں
تو جو اللہ کا محبوب ہوا خوب ہوا
اللہ رے مرتبہ مرے عجز ونیاز کا
دونوں جہاں میں بوئے محمد ہے بیز
اتنا تو بتا دے مجھے اے ناصح مشفق
بیخود رہے وصال میں بیہوش ہجر میں
یہاں بھی تو وہاں بھی تو زمیں تری فلک تیرا
زباں ہلا دو تو ہو جائے فیصلہ دل کا
اس بزم میں شریک تو جایا نہ جائے گا
دیکھو جو مسکرا کے تم آغوش نقش پا
مجھے کوسیں بلا سے گالیاں دیں
کوئی تجھ پر بے غرض مرتا نہیں
آج راہی جہاں سے داغ ہوا
یہ بات ہے بہار چمن ہی کے واسطے
تجھے نامہ بر قسم ہے یوں ہی دن سے رات کرنا
چپ رہیں گے حیا سے وہ کب تک
آخر کو عشق کفر سے ایمان ہو گیا
ستم ہی کرنا جفا ہی کرنا نگاہ الفت کبھی نہ کرنا
روئے ہم یاس میں اس رنگ کا رونا کیسا
برا ہے شاد کو ناشاد کرنا
تو ہی اپنے ہاتھ سے جب دلربا جاتا رہا
بلا ہے جو دشمن ہوا ہے کسی کا
بتوں نے ہوش سنبھالا جہاں شور آیا
دل کوتا کا تو مری جان جگر چھوڑ دیا
کیا لطف ستم یوں انہیں حاصل نہیں ہوتا
مژہ ہر ایک کو تازہ ملا ہے عشق جاناں کا
سر محفل مجھی سے تجھ کو ظالم پردہ کرنا تھا
محبت میں کرے کیا کچھ کسی سے ہو نہیں سکتا
بلا سے اضطراب ودرد ہی بنکر ٹھہر رہنا
وہ بت کرے خدائی کی باتیں خدا کی شان
تھی نہ تاب ستم تو حضرت دل
یہ کشش تھی حسن جاناں کی کہ اسکی بزم میں
پیکاں یار سینے سے کیونکر نکال دوں
نہ آیانامہ بر اب تک گیا تھا کہہ کے اب آیا
ترے خرام سے برپا ہے شورو شر کیسا
دل نے مجھے تڑپایا آنکھوں نے کیا رسوا
جال زلف سیاہ نے مارا
انکار میکشی نے مجھے کیا مزا دیا
دل پر اضطراب نے مارا
عاشقی سخت تر مصیبت ہے
للہ مجھ سے آنکھ چرایا نہ کیجیے
آنکھ کے منتے ہی باہم چھاگئیں حیرانیاں
گر ذوق سیر ہے کچھ تو دیکھ میرے دل کو
وہ قتل کرکے مجھے مرہر کسی سے پوچھتے ہیں
کیا ذوق ہے کیا شوق ہے سو مرتبہ دیکھوں
باقی جہاں میں قیس نہ فرہاد رہ گیا
دل عاشق اسیراں گیسووں کے جال میں دیکھا
غضب کیا ترے وعدے پر اعتبار کیا
اس سلیقے کی عداوت کہیں دیکھی نہ سنی
جھوک سے سائے کے بھی یہ ناتواں لاغر گرا
مری بزم میں آکے وہ پوچھتے ہیں
تیرا بھی تو حسن ہے دغاباز
کیا مرے ہاتھ سے کھچکر ترا داماں نکلا
رے بیباک کیا کہنا تیرے اس اشارے کا
یارب ہے بخش دنیا بندے کو کام تیرا
تو ہے مشہور دلآزار یہ کیا
جو اف کی دل جلوں نے تیرے تو یہ خاکدان پھونکا
نگہ یار نے کی خانہ خرابی ایسی
جان جاتی دکھائی دیتی ہے
روکنا دل کو کہ شوق زلف دلبر لیچلا
کس نے کہا کہ داغ وفادار مر گیا
سبب کہلا یہ ہمیں ان کے منہ چھپانے کا
غیر کے ساتھ دل میں بھی دیکھا
دو دن بھی کس سے وہ برابر نہیں ملتا
مٹا نہ جب زلف معنبر سے الجھ کر نکلا
جگر کو تھام کے بزم یار سے اٹھا
کبھی تڑپا کے دل پر ہاتھ رکھنا
ذکر مجنوں سے مرے آگ لگی جاتی ہے
عرش وکرسی پہ کیا خدا ملتا
دل مبتلاے لذت آزار ہی رہا
کس کا طرہ کس کا گیسو کس کی کاکل کس کی زلف
دل سے بھی باتیں نہیں کرتا کبھی میں اس لیے
یہ مجھ سے کہنے کو ظالم سر مزار آیا
بے عشق تو جینا مجھے دم بھر نہیں ہوتا
آئینہ تصویر کا تیر ی نہ لیکر رکھ دیا
جہاں میں خیا ڈھونڈھا کیا نہ پایا
کب ہوا اے بت بیگانہ منش تو اپنا
عجب اپنا حال ہوتا جو وصال یار ہوتا
دیکھ لیگا یہ مزا حشر میں جو جائیگا
ظلم کس کس غریب پر نہ کیا
خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا
ایک ہی شکوہ میں سامان وصل کا برہم ہوا
کسکے آنے کا تصور ہے کہ ہر دم ہر وقت
داغ تھا درد تھا کہ الم تھا کچھ تھا
مرا دل وہ تیر نظر لیگیا
کیا چھپے راز آلٰہی دل شیدائی کا
میرے قابو نہ پھروں دل ناشاد آیا
ذرا وصل پر ہواشارا تمہارا
دوست دشمن کو ترے ناز نے اکثر مارا
کچھ سعی سے اقبال میر نہیں ہوتا
ہم بوسہ لیکے ان سے عجب چال کر گئے
اس جفا پر یہ وفا ہے کہ تمہارا شکوہ
کھینچا غم فرقت کا دل تو نے عذاب ایسا
ہمیں زمانے میں بدنام تیری خو نے کیا
شوق ہے اسکو خود نمائی کا
آشنا تو ہے اپنے مطلب کا
وہ رسوائی سے ڈر جائے تو اچھا
بزم اغیار میں تعریف مری ہوتی ہے
کوئی آگے نکل نہیں سکتا
عیش بھی اندوہ فزا ہو گیا
چرا کے دل کوئی چلتا ہوا ہے اے ہمدم
عشق میں دل نے بہت کام نکالا اپنا
یہ قول کسی کا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
میں ہر طرح سے مورد الزام ہو گیا
دیکھ کر بڑی اداجی سے گزر جائیگا
کشتۂ ناز کو کیوں زندہ کریں آکے مسیح
روز جزا قیامت وہ دم باز پرس
جو یوں ہو وصل تو مٹجاے سب رنج ومحن اپنا
تم کو کیا ہر کسی سے ملنا تھا
چمکے مرا داغ جگر صورت خورشید
ہاے مہماں کہاں بہ غم جاناں ہو گا
کرے انصاف دنیا میں اگر آفت کے ماروں کا
ادھر دیکھ لینا اور ادھر دیکھ لینا
اسکی طرف سےدل نہ پھریگا کہ ناصحو
نالہ ہر اک بشر کے جگر سے نکل گیا
وہ جانا پھیر کر چتوں کسی کا
گیا ہے عرش معلی پہ شور نالوں کا
ہم مٹ گئے تو پرسش نام ونشان ہے اب
ردیف الباء
میرے ہی دم سے مہرو وفا کا نشان اب ہے
کیا سببشاد ہے بشاش ہے جی آپ ہی آپ
دل ناکام کے ہیں کام خراب
مہرباں ہوکے جب ملیں گے آپ
ردیف باے فارسی
کم نہیں سامان میں ہنگامہ محشر سے آپ
ردیف تائے فوقانی
بزم دشمن میں نہ کھلنا گل ترکی صورت
ہے طرفہ تماشا سر بازار محبت
شعلہ رو سیکڑوں نظر آئے
شب وصل واں شرم سے رخ پہ زلف
اسواسطے دیتے ہیں وہ ہر روز نیا داغ
وہ عدو کے ساتھ آتے ہیں عیادت کو مری
عالم یاس میں گھبرائے نہ انسان بہت
نہیں سنتے وہ اب ہماری بات
ردیف تائے ہندی
نہ ہوا ایک نگہ سے جو مرا کام تمام
کہاں بتوں نے یہ سینے پہ اپنے کھائی چوٹ
پڑا ہے بل جبیں پر کیا سبب کیا وجہ کیا باعث
ردیف ثائے مثلثلہ
آپ سے ہماری توبہ ہے کہ جو وفا تو کیا عبث
ردیف جیم تازی
روکا ہے کیا رشک بٹھاتا ہی رہا ضعف
وہ میں کہ میسر تھا مجھے ساغر جمشید
جاے آسودگی کہاں ہے آج
غربت کے رنج فاقہ کشی کے ملال کھینچ
میرا جدا فراج ہے انکا جدا فراج
ردیف جیم فارسی
یوں مصور یار کی تصویر کھینچ
یہ جانتے ہیں جان تو جائیگی ایکدن
پکارتی ہے خموشی مری فغاں کی طرح
ردیف حائے حطی
گزری ہے باتوں باتوں میں آدھی شب وصال
میں پوچھتا ہوں آپ سے الفت کو باب میں
دل نہ رہا سینے میں دم کی طرح
ردیف دال مہملہ
ہوئی جیسے زبان یار گستاخ
ردیف خاے معجمہ
نرگسی چشم ہے بلا کی شوخ
بھاگوں علاج درد محبت سے کیوں نہ میں
دل میں ہے غم ورنج والم حرص وہوا بند
ہے قہر اگر اب بھی نہ ہو راز نہاں بند
چھپتی ہے کب چھپانے سے اے خوبروپسند
ہوتی ہے جنس مہرووفا چارسو پسند
نہ ہو کیونکر افضل ہمارا محمد
خدا دے تو دے آرزوے محمد
کھینچی ہیں زمیں پر لکیریں
ردیف راے مہملہ
تمام عالم میں خاک چھانی یہ عشق آخر کو تنگ ہو کر
نہ رکھو حشر پہ موقوف داستاں میری
وہ نازک کہ جامے سے باہر نکل کر
عمر کیونکر نہ بسر کیجیے غافل ہو کر
بخار اچھا نکالا سوز دل نے چشم گریاں پر
یاں دل میں خیال اور ہے واں مد نظر اور
ڈالتے ہو کیوں ڈوپٹے کا تم آنچل دوش پر
دے خوشی کے عوض اندوہ والم گن گن کر
حیف شرمندہ نہیں تو ستم آرا ہو کر
جو اب وصل نکلا آپ کے منہ سے نہیں بنکر
مٹ گئے عشق میں گھر سیکڑوں ویراں ہو کر
دست جنوں کا اور کریں چارہ گر علاج
جو بل ہے تری زلف گرہگیر سے باہر
پوچھا جو ان سے آؤگے کب ہنس کے چپ ہوے
تم لگادو عاشق دلگیر پر
غیر بھی میری طرح کرتے ہیں آہیں کیونکر
حسرت آتی ہے دل ناکام پر
جب وہ آئے شوخیے گفتار پر
میرے دل کو دیکھ کر میری وفا کو دیکھ کر
جانچ لو ہاتھ میں پہلے دل شیدا لیکر
کہا نہ کچھ عرض مدعا پر وہ لے رہے دم کو مسکرا کر
زہے تلاش کہ سرگرم جستجو ہوکر
طبیب کہتےے ہیں کچھ دوا کر حبیب کہتے ہیں بس دعا کر
سو گہر وہ پھرا کرتے ہیں اس گھر سے نکلر کر
بزم اغیار کا ظاہر ہے اثر آنکھوں پر
رہتی ہیں دل میں ایک زمانہ کی خواہشیں
دوستی کا ہو زمانے میں بھروسا کس پر
بوسہ ملا نہ عارض جاناں کا وصل میں
آئے کوئی تو بیٹھ بھی جائے ذرا سی دیر
جو دیکھاو بھی ندکھیوں رخ پر حجاب ہر گز
ردیف زائے منقوطہ
حسرتیں اترا رہی ہیں آرزوئیں شاد ہیں
تم بات میں کردوگے دل مردہ کو زندہ
ردیف سین مہملہ
کیا بیمروت خلق ہے سب جمع ہیں بسمل کے پاس
طالب وصل میں وہ در پئے قتل
ردیف شین معجمہ
وہ سمجھے کیا فلک کینہ خواہ کی گردش
ردیف ضاد معجمہ
اس نگہ سے مجھے فتنے کی طمع
جوش ہے اب شباب کا خاتمہ ہے حجاب کا
ردیف صاد مہملہ
ردیف ظائے معجمہ
ردیف طاے مہملہ
آج ٹھہری مری تمہاری شرط
قول وقسم کی شرم ملاقات کا لحاظ
اس شوق کی نہیں بت قاتل کو اطلاع
ہیں بہت سے عاشق دل گیر جمع
ردیف عین مہملہ
مانند گل ہیں میرے جگر میں چراغ داغ
کیا کہوں اےہمنشیں اس بزم رنگیں کی بہار
ردیف فا
ردیف غین معجمہ
کشتی نہ ہو تباہ کسی نامراد کی
کیوں نہیں تو مجھ سے میری جان صاف
دیکھا نہ ہم سے رشک سے اغیار کی طرف
کدورت کا باعث تو کوئی کھلے
کافر وہ زلف پر شکن ایک اسطرف ایک اس طرف
مٹ گئے افسوس سارے ذوق شوق
ردیف قاف
غم اٹھانے کے ہیں ہزار طریق
ردیف کاف تازی
دعا مانگے دل غمگیں کہاں تک
جاسکے جو نہ آپ کے در تک
ساقیا ابر ہے دے جام شراب ایک پر ایک
ردیف کاف فارسی
کتاب عشق کے الٹے ورق اول سے آخر تک
کیوں نہ جہاں میں عیاں عیب وہنر الگ الگ
ردیف لام
مجھ سا ندے زمانے کو پروردگار دل
وصل کی ٹھہری جو اے ماہ جبیں آج سےکل
ہوا زمانہ پیری عذاب میں داخل
کیوں کہکے دل کا حال کریں ہائے ہائے دل
وہ کب لطف کرتے ہیں بے آزمائے
ردیف میم
چہک گئے ہیں آج اک ساغر سے ہم
شب وصال نہ پتلے ہوبنو حیا کے تم
ڈرتے ہیں چشم وزلف ونگاہ وادا سے ہم
ستم رسیدوں میں لکھے گئے ہیں روز ازل
محشر میں بھی کسی کے اٹھائیں گے ناز ہم
رشک سے غیروں کے جی کھوتے ہیں ہم
ردیف نون
ابھی ہماری محبت کسی کو کیا معلوم
بیکسی صدمۂ ہجراں کی مجھے تاب نہیں
کیا کیا فریب دل کو دیے اضطراب میں
آپ جنکو ہدف تیر نظر کرتے ہیں
مژگاں نے تیری چاک کیے عاشقوں کے دل
ہم تصورمیں بھی جو بات ذرا کہتے ہیں
مجال کسکی ہے اے ستمگر سنائے جو تجھ کو چار باتیں
بتان ماہوش اجڑی ہوئی منزل میں رہتے ہیں
یہ کیا کہا کہ داغ کو پہنچانتے نہیں
کیا کہوں تجھ کو جو فسونگر نکہوں
پردے پردے میں عتاب اچھے نہیں
عذر آنے میں بھی ہے اور بلاتے ہی نہیں
یہ بھی تم جانتے ہو چند ملاقاتوں میں
الٰہی کیا کریں ضبط محبت ہم تو مرتے ہیں
ہے کسی کا تو انتطار تجھے
کیا ملے گاکوئی حسیں نہ کہیں
بھر دیں عجب ادائیں اس شوخ سیم تن میں
شمع رو آپ گو ہوے لیکن
جب کہا اور بھی دنیا میں حسیں اچھے ہیں
ہم تری بزم سے اے یار چلے جاتے ہیں
نالے کرنے دل ناکام برے ہوتے ہیں
مانا کہ لطف عشق میں ہے ہم مگر کہاں
تجھ میں تاثیر ہو گراے کشش دل کچھ بھی
دل میں سما گئی ہیں قیامت کی شوخیاں
دل مہجور کو آزردہ جو پاتا ہوں میں
حضرت دل آپ ہیں جس دھیان میں
زندگی کا نہیں سامان سرمو دل میں
اڑائی خاک تیری جستجو میں ہر کہیں برسوں
الٰہی کیوں نہیں اٹھتی قیامت ماجرا کیا ہے
مجھے دل کی ایذا سے راحت نہیں
قیامت کی تجلی ہے تمہارے روے روشن میں
تمام رات وہ جاگیں وہ سوئیں سارے دن
درد دل کا کوئی پہلو جو نکالوں تو کہوں
کہاں وہ گئے عیش وعشرت کے دن
تمکیں تری شوخی میں تو شوخی ہے حیا میں
صاف کب امتحان لیتے ہیں
میں کہاں اور بزم خواب کہاں
بات میری کبھی سنی ہی نہیں
دل نے سیکھا شکوۂ بیگانگی
کبھی فلک کو برا دل جلوں سے کام نہیں
نظر چرا کے وہ یوں ہر بشر کو دیکھتے ہیں
حال دل تجھ سے دلآزار کہوں یا نہ کہوں
زلفیں رخسار پر نہ آئیں کیوں
فغاں میں آہ میں فریاد میں شیون میں نالے میں
ہم سے جب وعدہ کیا تھا وہ بہت کم سن تھے
کہاں ہے رخت رزاے محتسب ہم بادہ خواروں میں
آپ نے گھر سے نکالا ہمیں ہم جاتے ہیں
صبح تک دل کو دلا سے شب غم دیتے ہیں
دنیا میں وضعدار حسیں اور بھی تو ہیں
دم نہیں دل نہیں دماغ نہیں
وہ مست ناز ہو کہ کسی کی خبر نہیں
فلک دیتا ہے جنکو عیش ان کو غم بھی ہوتے ہیں
ہے لڑکپن کا زمانہ وہ ادا کیا جانیں
گالیاں دیکھ کر پھڑک جاتے ہیں آپ
روح کو چین ہجوم غم دلبر میں نہیں
خدا سے گفتگو ہے اور میں ہوں
کیوں چراتے ہو دیکھ کر آنکھیں
عشق خانہ خراب کے ہاتھوں
مردے عشق کے کچھ وہی جانتے ہیں
گلے ملا ہے وہ مست شباب برسوں میں
چاک ہو پردہ وحشت مجھے منظور نہیں
اسیر دام بلا اور کون ہے میں ہوں
کوئی اب تجھ سےآرزو ہی نہیں
ممکن نہیں کہ تیری محبت کی بہو نہ
ردیف واو
عاشق کے دل میں اور تری آرزو نہ ہو
تم کو چاہا تو خطا کیا ہے بتا دو مجھ کو
موت اس دن کو جو تجھ سے ستم ایجا نہ ہو
کل تک تو آشنا تھے مگر آج غیر ہو
کیوں میری آہ سرداد نہیں ناگوار ہو
معشوق کا جرم ہو عاشق خراب ہو
آئینہ اپنی نظر سے نہ جدا ہونے دو
نکلی فلک سے کب کسی مائل کی آرزو
ہے تاک میں دزدیدہ نظر دیکھیے کیا ہو
کہتے ہیں جس کو حور وہ انسان تمہیں توہو
سچ ہے تیری ہے آرزو مجھ کو
مجھ کو ملا یہ شکوۂ دشنام پر جواب
سیکڑوں کو قتل لاکھوں کو کیا ہے پایمال
دکھانا ہی تمہیں منظور ہے گرروئے روشن کو
پوشیدہ جب ہوا راز کہ منہ میں زباں نہ ہو
یہ سن سن کے مرنا پڑا ہےہر کسی کو
میرےپہلو سے وہ اٹھے غیر کی تعظیم کو
وقت آخر پوچھتے ہو کیا ہماری آرزو
پھر حسرت وارماں وتمنا بھی نہ ہوں گے
ہم تو مرتے ہیں ادا پر دلستاں ہو کوئی ہو
برس پڑے وہ مجھے دیکھ کر خدا کی پناہ
اللہ رے تلوں ابھی کیا تھے ابھی کیا ہو
اے فلک چاہیے جی بہر کے نظارا ہم کو
کر لیا وعدہ انہوں نے ہو گئی تدبیر وصل
کیا خود وعدہ عیاری تو دیکھو
میں نے جو کہا سیر ہو کل روز جزا ہو
وہ آنے کس طرح یہ گیا کس طریق سے
جو دل قابو میں ہو تو کوئی رسواے جہاں کیوں ہو
تری زلفیں بھی ہیں صیاد آنکھیں بھی شکاری ہیں
تم آئینہ ہی نہ ہر بار دیکھتے جاؤ
پہلے یہ شرط مصور سے وہ کر لیتے ہیں
ہمارے دل میں بے کھٹکے محبت اپنی رہنے دو
سب کو ہے تیری یاد کی لذت جدا جدا
حفظ تسلیم ادب خلق تواضع تعظیم
ردیف ہائے ہوز
کیوں کرتے ہو دنیا کی ہر اک بات سے توبہ
طور بیطور ہوے دل کے خدا خیر کرے
یارب ہمیں دے عشق صنم اور زیادہ
کیا لطف وصل ہے جو دوبارہ نہ ہو نصیب
نہیں ہوئی بندے سے طاقت زیادہ
جب وہ بت ہم کلام ہوتا ہے
ردیف یاے تحتانی
اللہ اللہ رے پریشانی مری
جان دیدوں تجھے پر ڈرتا ہوں
تدبیر سے قسمت کی برائی نہیں جاتی
اللہ کیو کیا جواب دوں گا
کتنا باوضع ہے خیال اس کا
ہاتھ نکلے اپنے دونوں کام سے
لگ چلی باد صبا کیا کسی مستانے سے
مرے جاتے ہیں تیری بیوفائی دیکھنے والے
میں نے جو آہ کی تو کہا اس نے غیر سے
مٹ جائے کوئی حسن کی شہرت ہو کسی کی
میرے افسانہ پہ وہ ہو کے خفا کہتے ہیں
عشق میں عیش کے بدلے یہ تباہی کیسی
بتوں کے کوچہ سے ہم دلفگار ہوکے چلے
خوب ہی چلتی ہوئی وہ نرگس مستانہ ہے
جو بے آگ جل جاے وہ دل یہی ہے
کہوں گونہ میں حشر کو تیرے ظلم
عشق میں کچھ پاس کچھ امیدواری چاہیے
نکالو داغ کو اپنے مکاں سے
ہوئی جاتی ہیں کیوں نیچی نگاہیں
وقت انصاف جو تم پاس ہمارے ہوتے
آپ ہی جور کریں آپ ہی پوچھیں مجھ سے
شب وصل ایسی کھلی چاندنی
نفرت ہے حرف وصل سے اچھا یونہیں سہی
گر مرض ہو دوا کرے کوئی
اے لب یار تجھ کو میری قسم
ہر دل میں نئے درد سے ہے یاد کسی کی
دیکھ کر سانولی صورت یوسف بھی کہے
لب یارخنداں ہوا چاہتا ہے
درد بنکر دل میں آنا کوئی تم سے سیکھ جاے
شوخی میں تمکنت ہے تو ہے نازنیں نیاز
نکل جائے یہ حسرت وہ نہیں ہے
کہتے ہیں خواب میں شب وعدہ ہم آئے تھے
پیام کامیاب آئے نہ آئے
منصفی دنیا سے ساری اٹھ گئی
دل مرا لیکے مری جان دغا تم نے تو کی
جفا کی ان بتوں نے یا وفا کی
سرگزشت اپنی فسانہ ہے زمانے کے لیے
بیمثل کیا اس بت کافر کو خدانے
یہ شیشہ نہیں وہ کہ جس میں پری ہے
سردہ سر ہے کہ جو دلدار کے در تک پہونچے
کل داغ سے پوچھا یہ کسی نے کہ بتا تو
صبر آنا تو محبت میں بہت مشکل ہے
یہ کس کی لوہے اے دل مضطر لگی ہوئی
چھوڑا ہے ساتھیوں نے پس کارواں مجھے
ہر گھڑی مجھ کو قسم غیر کی دی جاتی ہے
کوئی کمی نہ کی تھی دل بیقرار نے
کہنے دیتی نہیں کچھ منہ سے محبت تیری
وصل کی شب بھی وہی عادت پرہیز رہی
چلے ہو لیکے دل ہمراہ تم آنا یہاں پر بھی
آرزو یہ ہے کہ نکلے دم تمہارے سامنے
گو دل آزار ہواچھوں کا خیال اچھا ہے
پھرکہیں چھپتی ہے جب ظاہر محبت ہو چکی
یوں چلیے راہ شوق میں جیسےے ہوا چلے
نکال اب تیر سینے سے کہ جان پر الم نکلے
اک دکان میں ابھی رکھ آئے ہیں ہم اپنا دل
دیکھ سکتے نہیں اس بزم میں اغیار مجھے
لگ چلی باد صبا کیا کسی مستانے سے
ہم بھی جگر کو تھا لیں دل کو سنبھال لیں
آتش شوق کو کب دل سے جدا رکھا ہے
جس سے جان برہوں وہ تدبیر جفا کون سی ہے
راز الفت کا نہ ہر اک ہم نشین سے پوچھیے
رنج صحبت سے جو واقف دل شیدا ہو جاے
عشق جس کو نہ ہو ایسا نہیں انساں کوئی
کیا شب ہجر مرے سر پہ بلا لاتی ہے
نہ تمناے ستم یاں نہ وہاں مشق جفا
جاتے تھے منہ چھپائے ہوئے میکدہ کو ہم
آنکھوں سے لڑے گیسو خمدار سے الجھے
ہم تو اس آنکھ کے ہیں دیکھنے والے دیکھو
بیدرد ہیں جو درد کسی کا نہیں رکھتے
جب وہ بت ہم کلام ہوتا ہے
اشک خون رنگ لائے جاتا ہے
یہ آمد ہے کہ آفت ہے نگہ کچھ ہے ادا کچھ ہے
میری تصویر جو دیکھی تو کہا شرما کر
منالیتے ہیں ہر مظلوم کو وہ عذر خواہی سے
اسلیے وصل سے انکار ہے ہم جان گئے
پھر خدا جانے کہاں تم ہم کہاں
کہاں تھے رات کو ہم سے ذرا نگاہ ملے
ساتھ شوخی کے کچھ حجاب بھی ہے
شبنم سے شب ہجر کی ظلمت نہیں جاتی
گلہ کیسا کہاں کا رنج کس کا جاں بلب ہونا
ناروا کیسے ناسزا کہیے
آپ کا اعتبار کون کرے
ہاے وہ دن کہ میر تھی ہمیں رات نئی
تھک تھک کے نہ بیٹھیں گے نہ مرمر کے اٹھیں گے
یہ ٹپکتا ہے تیری چتوں سے
آشفتگی کسی کی اثر کچھ تو کر گئی
فسردہ دل کبھی خلوت نہ انجمن میں رہے
جورکے بعد ہے کیوں لطف یہ عادت کیا ہے
وہ آئے خندہ پیشانی کہیں سے
پوچھتا جا مری مرقد پہ گزرنے والے
ایک تو حسن بلا اس پہ بناوٹ آفت
سرورق
برنگ بوے گل ہے ہر نفس باد الٰہی میں
تو جو اللہ کا محبوب ہوا خوب ہوا
اللہ رے مرتبہ مرے عجز ونیاز کا
دونوں جہاں میں بوئے محمد ہے بیز
اتنا تو بتا دے مجھے اے ناصح مشفق
بیخود رہے وصال میں بیہوش ہجر میں
یہاں بھی تو وہاں بھی تو زمیں تری فلک تیرا
زباں ہلا دو تو ہو جائے فیصلہ دل کا
اس بزم میں شریک تو جایا نہ جائے گا
دیکھو جو مسکرا کے تم آغوش نقش پا
مجھے کوسیں بلا سے گالیاں دیں
کوئی تجھ پر بے غرض مرتا نہیں
آج راہی جہاں سے داغ ہوا
یہ بات ہے بہار چمن ہی کے واسطے
تجھے نامہ بر قسم ہے یوں ہی دن سے رات کرنا
چپ رہیں گے حیا سے وہ کب تک
آخر کو عشق کفر سے ایمان ہو گیا
ستم ہی کرنا جفا ہی کرنا نگاہ الفت کبھی نہ کرنا
روئے ہم یاس میں اس رنگ کا رونا کیسا
برا ہے شاد کو ناشاد کرنا
تو ہی اپنے ہاتھ سے جب دلربا جاتا رہا
بلا ہے جو دشمن ہوا ہے کسی کا
بتوں نے ہوش سنبھالا جہاں شور آیا
دل کوتا کا تو مری جان جگر چھوڑ دیا
کیا لطف ستم یوں انہیں حاصل نہیں ہوتا
مژہ ہر ایک کو تازہ ملا ہے عشق جاناں کا
سر محفل مجھی سے تجھ کو ظالم پردہ کرنا تھا
محبت میں کرے کیا کچھ کسی سے ہو نہیں سکتا
بلا سے اضطراب ودرد ہی بنکر ٹھہر رہنا
وہ بت کرے خدائی کی باتیں خدا کی شان
تھی نہ تاب ستم تو حضرت دل
یہ کشش تھی حسن جاناں کی کہ اسکی بزم میں
پیکاں یار سینے سے کیونکر نکال دوں
نہ آیانامہ بر اب تک گیا تھا کہہ کے اب آیا
ترے خرام سے برپا ہے شورو شر کیسا
دل نے مجھے تڑپایا آنکھوں نے کیا رسوا
جال زلف سیاہ نے مارا
انکار میکشی نے مجھے کیا مزا دیا
دل پر اضطراب نے مارا
عاشقی سخت تر مصیبت ہے
للہ مجھ سے آنکھ چرایا نہ کیجیے
آنکھ کے منتے ہی باہم چھاگئیں حیرانیاں
گر ذوق سیر ہے کچھ تو دیکھ میرے دل کو
وہ قتل کرکے مجھے مرہر کسی سے پوچھتے ہیں
کیا ذوق ہے کیا شوق ہے سو مرتبہ دیکھوں
باقی جہاں میں قیس نہ فرہاد رہ گیا
دل عاشق اسیراں گیسووں کے جال میں دیکھا
غضب کیا ترے وعدے پر اعتبار کیا
اس سلیقے کی عداوت کہیں دیکھی نہ سنی
جھوک سے سائے کے بھی یہ ناتواں لاغر گرا
مری بزم میں آکے وہ پوچھتے ہیں
تیرا بھی تو حسن ہے دغاباز
کیا مرے ہاتھ سے کھچکر ترا داماں نکلا
رے بیباک کیا کہنا تیرے اس اشارے کا
یارب ہے بخش دنیا بندے کو کام تیرا
تو ہے مشہور دلآزار یہ کیا
جو اف کی دل جلوں نے تیرے تو یہ خاکدان پھونکا
نگہ یار نے کی خانہ خرابی ایسی
جان جاتی دکھائی دیتی ہے
روکنا دل کو کہ شوق زلف دلبر لیچلا
کس نے کہا کہ داغ وفادار مر گیا
سبب کہلا یہ ہمیں ان کے منہ چھپانے کا
غیر کے ساتھ دل میں بھی دیکھا
دو دن بھی کس سے وہ برابر نہیں ملتا
مٹا نہ جب زلف معنبر سے الجھ کر نکلا
جگر کو تھام کے بزم یار سے اٹھا
کبھی تڑپا کے دل پر ہاتھ رکھنا
ذکر مجنوں سے مرے آگ لگی جاتی ہے
عرش وکرسی پہ کیا خدا ملتا
دل مبتلاے لذت آزار ہی رہا
کس کا طرہ کس کا گیسو کس کی کاکل کس کی زلف
دل سے بھی باتیں نہیں کرتا کبھی میں اس لیے
یہ مجھ سے کہنے کو ظالم سر مزار آیا
بے عشق تو جینا مجھے دم بھر نہیں ہوتا
آئینہ تصویر کا تیر ی نہ لیکر رکھ دیا
جہاں میں خیا ڈھونڈھا کیا نہ پایا
کب ہوا اے بت بیگانہ منش تو اپنا
عجب اپنا حال ہوتا جو وصال یار ہوتا
دیکھ لیگا یہ مزا حشر میں جو جائیگا
ظلم کس کس غریب پر نہ کیا
خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا
ایک ہی شکوہ میں سامان وصل کا برہم ہوا
کسکے آنے کا تصور ہے کہ ہر دم ہر وقت
داغ تھا درد تھا کہ الم تھا کچھ تھا
مرا دل وہ تیر نظر لیگیا
کیا چھپے راز آلٰہی دل شیدائی کا
میرے قابو نہ پھروں دل ناشاد آیا
ذرا وصل پر ہواشارا تمہارا
دوست دشمن کو ترے ناز نے اکثر مارا
کچھ سعی سے اقبال میر نہیں ہوتا
ہم بوسہ لیکے ان سے عجب چال کر گئے
اس جفا پر یہ وفا ہے کہ تمہارا شکوہ
کھینچا غم فرقت کا دل تو نے عذاب ایسا
ہمیں زمانے میں بدنام تیری خو نے کیا
شوق ہے اسکو خود نمائی کا
آشنا تو ہے اپنے مطلب کا
وہ رسوائی سے ڈر جائے تو اچھا
بزم اغیار میں تعریف مری ہوتی ہے
کوئی آگے نکل نہیں سکتا
عیش بھی اندوہ فزا ہو گیا
چرا کے دل کوئی چلتا ہوا ہے اے ہمدم
عشق میں دل نے بہت کام نکالا اپنا
یہ قول کسی کا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
میں ہر طرح سے مورد الزام ہو گیا
دیکھ کر بڑی اداجی سے گزر جائیگا
کشتۂ ناز کو کیوں زندہ کریں آکے مسیح
روز جزا قیامت وہ دم باز پرس
جو یوں ہو وصل تو مٹجاے سب رنج ومحن اپنا
تم کو کیا ہر کسی سے ملنا تھا
چمکے مرا داغ جگر صورت خورشید
ہاے مہماں کہاں بہ غم جاناں ہو گا
کرے انصاف دنیا میں اگر آفت کے ماروں کا
ادھر دیکھ لینا اور ادھر دیکھ لینا
اسکی طرف سےدل نہ پھریگا کہ ناصحو
نالہ ہر اک بشر کے جگر سے نکل گیا
وہ جانا پھیر کر چتوں کسی کا
گیا ہے عرش معلی پہ شور نالوں کا
ہم مٹ گئے تو پرسش نام ونشان ہے اب
ردیف الباء
میرے ہی دم سے مہرو وفا کا نشان اب ہے
کیا سببشاد ہے بشاش ہے جی آپ ہی آپ
دل ناکام کے ہیں کام خراب
مہرباں ہوکے جب ملیں گے آپ
ردیف باے فارسی
کم نہیں سامان میں ہنگامہ محشر سے آپ
ردیف تائے فوقانی
بزم دشمن میں نہ کھلنا گل ترکی صورت
ہے طرفہ تماشا سر بازار محبت
شعلہ رو سیکڑوں نظر آئے
شب وصل واں شرم سے رخ پہ زلف
اسواسطے دیتے ہیں وہ ہر روز نیا داغ
وہ عدو کے ساتھ آتے ہیں عیادت کو مری
عالم یاس میں گھبرائے نہ انسان بہت
نہیں سنتے وہ اب ہماری بات
ردیف تائے ہندی
نہ ہوا ایک نگہ سے جو مرا کام تمام
کہاں بتوں نے یہ سینے پہ اپنے کھائی چوٹ
پڑا ہے بل جبیں پر کیا سبب کیا وجہ کیا باعث
ردیف ثائے مثلثلہ
آپ سے ہماری توبہ ہے کہ جو وفا تو کیا عبث
ردیف جیم تازی
روکا ہے کیا رشک بٹھاتا ہی رہا ضعف
وہ میں کہ میسر تھا مجھے ساغر جمشید
جاے آسودگی کہاں ہے آج
غربت کے رنج فاقہ کشی کے ملال کھینچ
میرا جدا فراج ہے انکا جدا فراج
ردیف جیم فارسی
یوں مصور یار کی تصویر کھینچ
یہ جانتے ہیں جان تو جائیگی ایکدن
پکارتی ہے خموشی مری فغاں کی طرح
ردیف حائے حطی
گزری ہے باتوں باتوں میں آدھی شب وصال
میں پوچھتا ہوں آپ سے الفت کو باب میں
دل نہ رہا سینے میں دم کی طرح
ردیف دال مہملہ
ہوئی جیسے زبان یار گستاخ
ردیف خاے معجمہ
نرگسی چشم ہے بلا کی شوخ
بھاگوں علاج درد محبت سے کیوں نہ میں
دل میں ہے غم ورنج والم حرص وہوا بند
ہے قہر اگر اب بھی نہ ہو راز نہاں بند
چھپتی ہے کب چھپانے سے اے خوبروپسند
ہوتی ہے جنس مہرووفا چارسو پسند
نہ ہو کیونکر افضل ہمارا محمد
خدا دے تو دے آرزوے محمد
کھینچی ہیں زمیں پر لکیریں
ردیف راے مہملہ
تمام عالم میں خاک چھانی یہ عشق آخر کو تنگ ہو کر
نہ رکھو حشر پہ موقوف داستاں میری
وہ نازک کہ جامے سے باہر نکل کر
عمر کیونکر نہ بسر کیجیے غافل ہو کر
بخار اچھا نکالا سوز دل نے چشم گریاں پر
یاں دل میں خیال اور ہے واں مد نظر اور
ڈالتے ہو کیوں ڈوپٹے کا تم آنچل دوش پر
دے خوشی کے عوض اندوہ والم گن گن کر
حیف شرمندہ نہیں تو ستم آرا ہو کر
جو اب وصل نکلا آپ کے منہ سے نہیں بنکر
مٹ گئے عشق میں گھر سیکڑوں ویراں ہو کر
دست جنوں کا اور کریں چارہ گر علاج
جو بل ہے تری زلف گرہگیر سے باہر
پوچھا جو ان سے آؤگے کب ہنس کے چپ ہوے
تم لگادو عاشق دلگیر پر
غیر بھی میری طرح کرتے ہیں آہیں کیونکر
حسرت آتی ہے دل ناکام پر
جب وہ آئے شوخیے گفتار پر
میرے دل کو دیکھ کر میری وفا کو دیکھ کر
جانچ لو ہاتھ میں پہلے دل شیدا لیکر
کہا نہ کچھ عرض مدعا پر وہ لے رہے دم کو مسکرا کر
زہے تلاش کہ سرگرم جستجو ہوکر
طبیب کہتےے ہیں کچھ دوا کر حبیب کہتے ہیں بس دعا کر
سو گہر وہ پھرا کرتے ہیں اس گھر سے نکلر کر
بزم اغیار کا ظاہر ہے اثر آنکھوں پر
رہتی ہیں دل میں ایک زمانہ کی خواہشیں
دوستی کا ہو زمانے میں بھروسا کس پر
بوسہ ملا نہ عارض جاناں کا وصل میں
آئے کوئی تو بیٹھ بھی جائے ذرا سی دیر
جو دیکھاو بھی ندکھیوں رخ پر حجاب ہر گز
ردیف زائے منقوطہ
حسرتیں اترا رہی ہیں آرزوئیں شاد ہیں
تم بات میں کردوگے دل مردہ کو زندہ
ردیف سین مہملہ
کیا بیمروت خلق ہے سب جمع ہیں بسمل کے پاس
طالب وصل میں وہ در پئے قتل
ردیف شین معجمہ
وہ سمجھے کیا فلک کینہ خواہ کی گردش
ردیف ضاد معجمہ
اس نگہ سے مجھے فتنے کی طمع
جوش ہے اب شباب کا خاتمہ ہے حجاب کا
ردیف صاد مہملہ
ردیف ظائے معجمہ
ردیف طاے مہملہ
آج ٹھہری مری تمہاری شرط
قول وقسم کی شرم ملاقات کا لحاظ
اس شوق کی نہیں بت قاتل کو اطلاع
ہیں بہت سے عاشق دل گیر جمع
ردیف عین مہملہ
مانند گل ہیں میرے جگر میں چراغ داغ
کیا کہوں اےہمنشیں اس بزم رنگیں کی بہار
ردیف فا
ردیف غین معجمہ
کشتی نہ ہو تباہ کسی نامراد کی
کیوں نہیں تو مجھ سے میری جان صاف
دیکھا نہ ہم سے رشک سے اغیار کی طرف
کدورت کا باعث تو کوئی کھلے
کافر وہ زلف پر شکن ایک اسطرف ایک اس طرف
مٹ گئے افسوس سارے ذوق شوق
ردیف قاف
غم اٹھانے کے ہیں ہزار طریق
ردیف کاف تازی
دعا مانگے دل غمگیں کہاں تک
جاسکے جو نہ آپ کے در تک
ساقیا ابر ہے دے جام شراب ایک پر ایک
ردیف کاف فارسی
کتاب عشق کے الٹے ورق اول سے آخر تک
کیوں نہ جہاں میں عیاں عیب وہنر الگ الگ
ردیف لام
مجھ سا ندے زمانے کو پروردگار دل
وصل کی ٹھہری جو اے ماہ جبیں آج سےکل
ہوا زمانہ پیری عذاب میں داخل
کیوں کہکے دل کا حال کریں ہائے ہائے دل
وہ کب لطف کرتے ہیں بے آزمائے
ردیف میم
چہک گئے ہیں آج اک ساغر سے ہم
شب وصال نہ پتلے ہوبنو حیا کے تم
ڈرتے ہیں چشم وزلف ونگاہ وادا سے ہم
ستم رسیدوں میں لکھے گئے ہیں روز ازل
محشر میں بھی کسی کے اٹھائیں گے ناز ہم
رشک سے غیروں کے جی کھوتے ہیں ہم
ردیف نون
ابھی ہماری محبت کسی کو کیا معلوم
بیکسی صدمۂ ہجراں کی مجھے تاب نہیں
کیا کیا فریب دل کو دیے اضطراب میں
آپ جنکو ہدف تیر نظر کرتے ہیں
مژگاں نے تیری چاک کیے عاشقوں کے دل
ہم تصورمیں بھی جو بات ذرا کہتے ہیں
مجال کسکی ہے اے ستمگر سنائے جو تجھ کو چار باتیں
بتان ماہوش اجڑی ہوئی منزل میں رہتے ہیں
یہ کیا کہا کہ داغ کو پہنچانتے نہیں
کیا کہوں تجھ کو جو فسونگر نکہوں
پردے پردے میں عتاب اچھے نہیں
عذر آنے میں بھی ہے اور بلاتے ہی نہیں
یہ بھی تم جانتے ہو چند ملاقاتوں میں
الٰہی کیا کریں ضبط محبت ہم تو مرتے ہیں
ہے کسی کا تو انتطار تجھے
کیا ملے گاکوئی حسیں نہ کہیں
بھر دیں عجب ادائیں اس شوخ سیم تن میں
شمع رو آپ گو ہوے لیکن
جب کہا اور بھی دنیا میں حسیں اچھے ہیں
ہم تری بزم سے اے یار چلے جاتے ہیں
نالے کرنے دل ناکام برے ہوتے ہیں
مانا کہ لطف عشق میں ہے ہم مگر کہاں
تجھ میں تاثیر ہو گراے کشش دل کچھ بھی
دل میں سما گئی ہیں قیامت کی شوخیاں
دل مہجور کو آزردہ جو پاتا ہوں میں
حضرت دل آپ ہیں جس دھیان میں
زندگی کا نہیں سامان سرمو دل میں
اڑائی خاک تیری جستجو میں ہر کہیں برسوں
الٰہی کیوں نہیں اٹھتی قیامت ماجرا کیا ہے
مجھے دل کی ایذا سے راحت نہیں
قیامت کی تجلی ہے تمہارے روے روشن میں
تمام رات وہ جاگیں وہ سوئیں سارے دن
درد دل کا کوئی پہلو جو نکالوں تو کہوں
کہاں وہ گئے عیش وعشرت کے دن
تمکیں تری شوخی میں تو شوخی ہے حیا میں
صاف کب امتحان لیتے ہیں
میں کہاں اور بزم خواب کہاں
بات میری کبھی سنی ہی نہیں
دل نے سیکھا شکوۂ بیگانگی
کبھی فلک کو برا دل جلوں سے کام نہیں
نظر چرا کے وہ یوں ہر بشر کو دیکھتے ہیں
حال دل تجھ سے دلآزار کہوں یا نہ کہوں
زلفیں رخسار پر نہ آئیں کیوں
فغاں میں آہ میں فریاد میں شیون میں نالے میں
ہم سے جب وعدہ کیا تھا وہ بہت کم سن تھے
کہاں ہے رخت رزاے محتسب ہم بادہ خواروں میں
آپ نے گھر سے نکالا ہمیں ہم جاتے ہیں
صبح تک دل کو دلا سے شب غم دیتے ہیں
دنیا میں وضعدار حسیں اور بھی تو ہیں
دم نہیں دل نہیں دماغ نہیں
وہ مست ناز ہو کہ کسی کی خبر نہیں
فلک دیتا ہے جنکو عیش ان کو غم بھی ہوتے ہیں
ہے لڑکپن کا زمانہ وہ ادا کیا جانیں
گالیاں دیکھ کر پھڑک جاتے ہیں آپ
روح کو چین ہجوم غم دلبر میں نہیں
خدا سے گفتگو ہے اور میں ہوں
کیوں چراتے ہو دیکھ کر آنکھیں
عشق خانہ خراب کے ہاتھوں
مردے عشق کے کچھ وہی جانتے ہیں
گلے ملا ہے وہ مست شباب برسوں میں
چاک ہو پردہ وحشت مجھے منظور نہیں
اسیر دام بلا اور کون ہے میں ہوں
کوئی اب تجھ سےآرزو ہی نہیں
ممکن نہیں کہ تیری محبت کی بہو نہ
ردیف واو
عاشق کے دل میں اور تری آرزو نہ ہو
تم کو چاہا تو خطا کیا ہے بتا دو مجھ کو
موت اس دن کو جو تجھ سے ستم ایجا نہ ہو
کل تک تو آشنا تھے مگر آج غیر ہو
کیوں میری آہ سرداد نہیں ناگوار ہو
معشوق کا جرم ہو عاشق خراب ہو
آئینہ اپنی نظر سے نہ جدا ہونے دو
نکلی فلک سے کب کسی مائل کی آرزو
ہے تاک میں دزدیدہ نظر دیکھیے کیا ہو
کہتے ہیں جس کو حور وہ انسان تمہیں توہو
سچ ہے تیری ہے آرزو مجھ کو
مجھ کو ملا یہ شکوۂ دشنام پر جواب
سیکڑوں کو قتل لاکھوں کو کیا ہے پایمال
دکھانا ہی تمہیں منظور ہے گرروئے روشن کو
پوشیدہ جب ہوا راز کہ منہ میں زباں نہ ہو
یہ سن سن کے مرنا پڑا ہےہر کسی کو
میرےپہلو سے وہ اٹھے غیر کی تعظیم کو
وقت آخر پوچھتے ہو کیا ہماری آرزو
پھر حسرت وارماں وتمنا بھی نہ ہوں گے
ہم تو مرتے ہیں ادا پر دلستاں ہو کوئی ہو
برس پڑے وہ مجھے دیکھ کر خدا کی پناہ
اللہ رے تلوں ابھی کیا تھے ابھی کیا ہو
اے فلک چاہیے جی بہر کے نظارا ہم کو
کر لیا وعدہ انہوں نے ہو گئی تدبیر وصل
کیا خود وعدہ عیاری تو دیکھو
میں نے جو کہا سیر ہو کل روز جزا ہو
وہ آنے کس طرح یہ گیا کس طریق سے
جو دل قابو میں ہو تو کوئی رسواے جہاں کیوں ہو
تری زلفیں بھی ہیں صیاد آنکھیں بھی شکاری ہیں
تم آئینہ ہی نہ ہر بار دیکھتے جاؤ
پہلے یہ شرط مصور سے وہ کر لیتے ہیں
ہمارے دل میں بے کھٹکے محبت اپنی رہنے دو
سب کو ہے تیری یاد کی لذت جدا جدا
حفظ تسلیم ادب خلق تواضع تعظیم
ردیف ہائے ہوز
کیوں کرتے ہو دنیا کی ہر اک بات سے توبہ
طور بیطور ہوے دل کے خدا خیر کرے
یارب ہمیں دے عشق صنم اور زیادہ
کیا لطف وصل ہے جو دوبارہ نہ ہو نصیب
نہیں ہوئی بندے سے طاقت زیادہ
جب وہ بت ہم کلام ہوتا ہے
ردیف یاے تحتانی
اللہ اللہ رے پریشانی مری
جان دیدوں تجھے پر ڈرتا ہوں
تدبیر سے قسمت کی برائی نہیں جاتی
اللہ کیو کیا جواب دوں گا
کتنا باوضع ہے خیال اس کا
ہاتھ نکلے اپنے دونوں کام سے
لگ چلی باد صبا کیا کسی مستانے سے
مرے جاتے ہیں تیری بیوفائی دیکھنے والے
میں نے جو آہ کی تو کہا اس نے غیر سے
مٹ جائے کوئی حسن کی شہرت ہو کسی کی
میرے افسانہ پہ وہ ہو کے خفا کہتے ہیں
عشق میں عیش کے بدلے یہ تباہی کیسی
بتوں کے کوچہ سے ہم دلفگار ہوکے چلے
خوب ہی چلتی ہوئی وہ نرگس مستانہ ہے
جو بے آگ جل جاے وہ دل یہی ہے
کہوں گونہ میں حشر کو تیرے ظلم
عشق میں کچھ پاس کچھ امیدواری چاہیے
نکالو داغ کو اپنے مکاں سے
ہوئی جاتی ہیں کیوں نیچی نگاہیں
وقت انصاف جو تم پاس ہمارے ہوتے
آپ ہی جور کریں آپ ہی پوچھیں مجھ سے
شب وصل ایسی کھلی چاندنی
نفرت ہے حرف وصل سے اچھا یونہیں سہی
گر مرض ہو دوا کرے کوئی
اے لب یار تجھ کو میری قسم
ہر دل میں نئے درد سے ہے یاد کسی کی
دیکھ کر سانولی صورت یوسف بھی کہے
لب یارخنداں ہوا چاہتا ہے
درد بنکر دل میں آنا کوئی تم سے سیکھ جاے
شوخی میں تمکنت ہے تو ہے نازنیں نیاز
نکل جائے یہ حسرت وہ نہیں ہے
کہتے ہیں خواب میں شب وعدہ ہم آئے تھے
پیام کامیاب آئے نہ آئے
منصفی دنیا سے ساری اٹھ گئی
دل مرا لیکے مری جان دغا تم نے تو کی
جفا کی ان بتوں نے یا وفا کی
سرگزشت اپنی فسانہ ہے زمانے کے لیے
بیمثل کیا اس بت کافر کو خدانے
یہ شیشہ نہیں وہ کہ جس میں پری ہے
سردہ سر ہے کہ جو دلدار کے در تک پہونچے
کل داغ سے پوچھا یہ کسی نے کہ بتا تو
صبر آنا تو محبت میں بہت مشکل ہے
یہ کس کی لوہے اے دل مضطر لگی ہوئی
چھوڑا ہے ساتھیوں نے پس کارواں مجھے
ہر گھڑی مجھ کو قسم غیر کی دی جاتی ہے
کوئی کمی نہ کی تھی دل بیقرار نے
کہنے دیتی نہیں کچھ منہ سے محبت تیری
وصل کی شب بھی وہی عادت پرہیز رہی
چلے ہو لیکے دل ہمراہ تم آنا یہاں پر بھی
آرزو یہ ہے کہ نکلے دم تمہارے سامنے
گو دل آزار ہواچھوں کا خیال اچھا ہے
پھرکہیں چھپتی ہے جب ظاہر محبت ہو چکی
یوں چلیے راہ شوق میں جیسےے ہوا چلے
نکال اب تیر سینے سے کہ جان پر الم نکلے
اک دکان میں ابھی رکھ آئے ہیں ہم اپنا دل
دیکھ سکتے نہیں اس بزم میں اغیار مجھے
لگ چلی باد صبا کیا کسی مستانے سے
ہم بھی جگر کو تھا لیں دل کو سنبھال لیں
آتش شوق کو کب دل سے جدا رکھا ہے
جس سے جان برہوں وہ تدبیر جفا کون سی ہے
راز الفت کا نہ ہر اک ہم نشین سے پوچھیے
رنج صحبت سے جو واقف دل شیدا ہو جاے
عشق جس کو نہ ہو ایسا نہیں انساں کوئی
کیا شب ہجر مرے سر پہ بلا لاتی ہے
نہ تمناے ستم یاں نہ وہاں مشق جفا
جاتے تھے منہ چھپائے ہوئے میکدہ کو ہم
آنکھوں سے لڑے گیسو خمدار سے الجھے
ہم تو اس آنکھ کے ہیں دیکھنے والے دیکھو
بیدرد ہیں جو درد کسی کا نہیں رکھتے
جب وہ بت ہم کلام ہوتا ہے
اشک خون رنگ لائے جاتا ہے
یہ آمد ہے کہ آفت ہے نگہ کچھ ہے ادا کچھ ہے
میری تصویر جو دیکھی تو کہا شرما کر
منالیتے ہیں ہر مظلوم کو وہ عذر خواہی سے
اسلیے وصل سے انکار ہے ہم جان گئے
پھر خدا جانے کہاں تم ہم کہاں
کہاں تھے رات کو ہم سے ذرا نگاہ ملے
ساتھ شوخی کے کچھ حجاب بھی ہے
شبنم سے شب ہجر کی ظلمت نہیں جاتی
گلہ کیسا کہاں کا رنج کس کا جاں بلب ہونا
ناروا کیسے ناسزا کہیے
آپ کا اعتبار کون کرے
ہاے وہ دن کہ میر تھی ہمیں رات نئی
تھک تھک کے نہ بیٹھیں گے نہ مرمر کے اٹھیں گے
یہ ٹپکتا ہے تیری چتوں سے
آشفتگی کسی کی اثر کچھ تو کر گئی
فسردہ دل کبھی خلوت نہ انجمن میں رہے
جورکے بعد ہے کیوں لطف یہ عادت کیا ہے
وہ آئے خندہ پیشانی کہیں سے
پوچھتا جا مری مرقد پہ گزرنے والے
ایک تو حسن بلا اس پہ بناوٹ آفت
Thanks, for your feedback
अध्ययन जारी रखने के लिए कृपया कोड अंकित करें। कुछ सुरक्षा कारणों से यह आवश्यक है। इस सहयोग के लिए आपके आभारी होंगे।