سر ورق
فہرست مضامین
دیباچہ
یاں ہوش سے بیزار ہو ابھی نہیں جاتا
یہ کس قیامت کی بے کسی ہے نہ میں ہی اپنا نہ یار میرا
ساقی اسی میں ڈال سے سب میکدے کے خم
ناوکِ ناز ترا کوئی خطا کرتا ہے
ٹوٹا طلسم، ہستی فانی کے راز کا
خلق کہتی ہے جسے دل ترے دیوانے کا
بے اجل کا نہ اپنا کسی عنواں نکلا
تری ترچھی نظر کا تیر ہے مشکل سے نکلے گا
کسی کے ایک اشارے میں کس کو کیا نہ ملا
وائے نادانی یہ حسرت تھی کہ ہوتا درکھلا
کچھ کم تو ہوا رنجِ فراوانِ تمنا
وہ میری عیادت کو آئے ہیں دمِ آخر
مدت سے ہے دل خانۂ ویرانِ تمنا
ہے شانِ عبودیت مصروفِ دعا ہونا
نہیں منظور تپِ ہجر کا رسوا ہونا
قربانِ عشق موت بھی آئی تو کیا ہوا
یہ ضبط بھی ادب آموزِ امتحاں نہ ہوا
وحشت عشق نے جب ہوش میں لانا چاہا
مجھ کو مرے نصیب نے روزِ ازل نہ کیا دیا
کچھ اس طرح تڑپ کر میں بیقرار رویا
بہتے بہتے سارے آنسو بہ گئے
شوق سے ناکامی کی بدولت کوچۂ دل ہی چھوٹ گیا
وہ پوچھتے ہیں ہجر میں ہے اضطراب کیا
وہ جی گیا جو عشق میں جی سے گزر گیا
سایہ بھی جس پہ میرے نشیمن کا پڑ گیا
دیکھنا پھر حشر میں کیا حشر برپا ہوگیا
آہ بتوں پر دل کیا آیا ہاتھ ہی سے نادان گیا
جلوۂ رخ آفتابِ حشر سے کچھ کم نہیں
ہو مبارک سر نوشہ پہ معطر سہرا
جنسِ دل ہو مشتریٰ دل بہت
یہ عکسِ زلف سے ہے ساغر شراب میں سانپ
آنکھ اٹھائی ہی تھی کہ کھائی چوٹ
جی گیا دیکھ کے ان ہاتوں کا لکھا کاغذ
فغاں کے پردے میں سن میری داستاں صیاد
کون اٹھائے مری وفا کے ناز
کرنہ فریاد خموشی میں اثر پیدا کر
اللہ اللہ یہ شانِ کشتۂ ناز
دور لیجا ہٹا کے سرحدِ ناز
لب منزلِ فغاں ہے نہ پہلو مکانِ داغ
اہل نظر کی آنکھو میں ہو کیوں نہ جائے عشق
گزر گیا انتظار حد سے یہ وعدۂ ناتمام کب تک
کیا کہیں کیوں خاموش ہوئے ہیں سن کے تری فرقت کی خبر ہم
خاک بسر تجھ سے صبا اور ہم
دل اور دل میں یاد کسی خوش خرام کی
آئینہ جلوۂ معشوقِ ازل کا میں ہوں
نگہ ناز کو گھونگھٹ ہی کے اندر رکھئے
مجھ کو شکایتِ ستم ناروا نہیں
جانتا ہوں کہ مرادل مرے پہلو میں نہیں
جس دلربا سے ہم نے آنکھیں لڑائیاں ہیں
خراب لذتِ دیدار یار ہم بھی ہیں
چراغِ کشتۂ آرام گاہِ بے نشانی ہوں
وحشت دل لب وہ اگلا سا ستانا چھوڑ دے
فرقت میں تارِ اشک ہے ہر تار آستیں
مرکر ترے خیال کو ٹالے ہوئے تو ہیں
مآلِ سوزِ غم ہائے نہانی دیکھتے جاؤ
اب آنکھ اٹھتی ہے وہ جنبش ہوئی ہلکی سی مژگاں کو
اے زمین لکھنؤ اے آسمانِ لکھنو
اپنی جنت مجھے دکھلا نہ سکا تو واعظ
تو جانِ مدعائے دل اور دل جگہ جگہ
کس قدر جذبۂ آلہی خنجر قاتل میں ہے
یوں چلے گر جانبِ دلبر چلے
ہے ایک میرے پاس بھی کہتے ہیں دل جسے
ہم سے اے بے اثری ظلم یہ کیوں کر اٹھے
کسی کو کیا مرے سود وزیاں سے
شکایت سے کرتے ہیں عذرِ شکایت
کسی کی یادِ مژگاں دل میں جب نشتر چبھوتی ہے
یاد آجاتے ہیں جب وہ اگلی صحب کے مزے
لحد میں چین سے رہنے نہ دیگی یاد اس غم کی
تم نے جاناہی نہیں دردِ جگر کیا چیز ہے
نہیں کہ وحشتِ دل چارہ گر نہیں ہے مجھے
گردش وہی یہاں بھی سپہر کہن میں تھی
ادا سے آڑ میں خنجر کی منہ چھپائے ہوئے
ابتدائے عشق ہی لطفِ شباب آنے کو ہے
یہ ہستی دو روزہ گویا کہ نہیں فانی
مجھے آہ کا ہے رونا جو یہ بے اثر نہوتی
ارماں کہاں ضعف میں تاثیر الم کے
اب لب پہ وہ ہنگامۂ فریاد نہیں ہے
ہم اپنے جی سے گزرے یوں سحر کی
دیا اک جان کے دشمن کو دل جاں نذرِ دلبر کی
مانا کہ بات وعدۂ فردا پہ ٹل گئی
عشق نے دل میں جگہ کی تو قضا بھی آئی
مجھے قسم ہے ترے صبر آزمانے کی
گو ہستی تھی خوابِ پریشاں نیند کچھ ایسی گہر تھی
کم ہے یا بڑھ گئی وحشت ترے دیوانوں کی
چمکا دیا ہے رنگ چمنِ لالہ زار نے
عیش جہاں باعثِ نشاط نہیں ہے
بشر میں عکسِ موجوداتِ عالم ہمنے دیکھا ہے
مجھے مرنے کی حسرت کار مشکل کی تمنا ہے
نصیب ہو بھی تو کیا لطف وصل یار میں ہے
دیکھ فانی وہ کوئی حشر اٹھاتا آیا
دشمنِ جاں تھے تو جانِ مدعا کیوں ہوگئے
کی وفا یر سے ایک ایک جفا کے بدلے
ہے جو اس کانِ ملاحت سے طلبہ گارِ نمک
محشر میں عذرِ قتل بھی ہے خوں بہا بھی ہے
ہر تصور جلوۂ صورت کا کفر انگیز ہے
مطلب ہے ضبطِ عشق سے تاثیر دردِ عشق
روح کا آنسوؤں بھری آنکھوں میں پاتر اب ہے
متفرق
قصیدہ بطرز ترکیب بند
تھی دعا اپنی بھی مدت سے کہ اب کی اے خدا
کیوں نہ اس کالج کو فخر اپنے مقدر پر رہے
رباعیات
قطعات
کتبۂ قبرِ فانی
در حمد حق سبحانہ تعالیٰ
بے نقط
علم
دنیا اور دنیا کے دوست
درِ فنا
نظم بہ تقریب جلسہ سالانہ اردو ئے معلیٰ کالج علی گڑھ
غزل
عرض حال
در مذمت غمازی
قطعات تاریخ دیوان فانی
قطعہ تاریخ از جناب خان بہادر احمد علی خاں صاحب میکش
از نتیجہ فکر جناب محمد نوشہ علی خاں صاحب حامی بدایونی
قطعہ تاریخ جناب چودھری محمد ابراہیم صاحب خلیل بدایونی
سر ورق
فہرست مضامین
دیباچہ
یاں ہوش سے بیزار ہو ابھی نہیں جاتا
یہ کس قیامت کی بے کسی ہے نہ میں ہی اپنا نہ یار میرا
ساقی اسی میں ڈال سے سب میکدے کے خم
ناوکِ ناز ترا کوئی خطا کرتا ہے
ٹوٹا طلسم، ہستی فانی کے راز کا
خلق کہتی ہے جسے دل ترے دیوانے کا
بے اجل کا نہ اپنا کسی عنواں نکلا
تری ترچھی نظر کا تیر ہے مشکل سے نکلے گا
کسی کے ایک اشارے میں کس کو کیا نہ ملا
وائے نادانی یہ حسرت تھی کہ ہوتا درکھلا
کچھ کم تو ہوا رنجِ فراوانِ تمنا
وہ میری عیادت کو آئے ہیں دمِ آخر
مدت سے ہے دل خانۂ ویرانِ تمنا
ہے شانِ عبودیت مصروفِ دعا ہونا
نہیں منظور تپِ ہجر کا رسوا ہونا
قربانِ عشق موت بھی آئی تو کیا ہوا
یہ ضبط بھی ادب آموزِ امتحاں نہ ہوا
وحشت عشق نے جب ہوش میں لانا چاہا
مجھ کو مرے نصیب نے روزِ ازل نہ کیا دیا
کچھ اس طرح تڑپ کر میں بیقرار رویا
بہتے بہتے سارے آنسو بہ گئے
شوق سے ناکامی کی بدولت کوچۂ دل ہی چھوٹ گیا
وہ پوچھتے ہیں ہجر میں ہے اضطراب کیا
وہ جی گیا جو عشق میں جی سے گزر گیا
سایہ بھی جس پہ میرے نشیمن کا پڑ گیا
دیکھنا پھر حشر میں کیا حشر برپا ہوگیا
آہ بتوں پر دل کیا آیا ہاتھ ہی سے نادان گیا
جلوۂ رخ آفتابِ حشر سے کچھ کم نہیں
ہو مبارک سر نوشہ پہ معطر سہرا
جنسِ دل ہو مشتریٰ دل بہت
یہ عکسِ زلف سے ہے ساغر شراب میں سانپ
آنکھ اٹھائی ہی تھی کہ کھائی چوٹ
جی گیا دیکھ کے ان ہاتوں کا لکھا کاغذ
فغاں کے پردے میں سن میری داستاں صیاد
کون اٹھائے مری وفا کے ناز
کرنہ فریاد خموشی میں اثر پیدا کر
اللہ اللہ یہ شانِ کشتۂ ناز
دور لیجا ہٹا کے سرحدِ ناز
لب منزلِ فغاں ہے نہ پہلو مکانِ داغ
اہل نظر کی آنکھو میں ہو کیوں نہ جائے عشق
گزر گیا انتظار حد سے یہ وعدۂ ناتمام کب تک
کیا کہیں کیوں خاموش ہوئے ہیں سن کے تری فرقت کی خبر ہم
خاک بسر تجھ سے صبا اور ہم
دل اور دل میں یاد کسی خوش خرام کی
آئینہ جلوۂ معشوقِ ازل کا میں ہوں
نگہ ناز کو گھونگھٹ ہی کے اندر رکھئے
مجھ کو شکایتِ ستم ناروا نہیں
جانتا ہوں کہ مرادل مرے پہلو میں نہیں
جس دلربا سے ہم نے آنکھیں لڑائیاں ہیں
خراب لذتِ دیدار یار ہم بھی ہیں
چراغِ کشتۂ آرام گاہِ بے نشانی ہوں
وحشت دل لب وہ اگلا سا ستانا چھوڑ دے
فرقت میں تارِ اشک ہے ہر تار آستیں
مرکر ترے خیال کو ٹالے ہوئے تو ہیں
مآلِ سوزِ غم ہائے نہانی دیکھتے جاؤ
اب آنکھ اٹھتی ہے وہ جنبش ہوئی ہلکی سی مژگاں کو
اے زمین لکھنؤ اے آسمانِ لکھنو
اپنی جنت مجھے دکھلا نہ سکا تو واعظ
تو جانِ مدعائے دل اور دل جگہ جگہ
کس قدر جذبۂ آلہی خنجر قاتل میں ہے
یوں چلے گر جانبِ دلبر چلے
ہے ایک میرے پاس بھی کہتے ہیں دل جسے
ہم سے اے بے اثری ظلم یہ کیوں کر اٹھے
کسی کو کیا مرے سود وزیاں سے
شکایت سے کرتے ہیں عذرِ شکایت
کسی کی یادِ مژگاں دل میں جب نشتر چبھوتی ہے
یاد آجاتے ہیں جب وہ اگلی صحب کے مزے
لحد میں چین سے رہنے نہ دیگی یاد اس غم کی
تم نے جاناہی نہیں دردِ جگر کیا چیز ہے
نہیں کہ وحشتِ دل چارہ گر نہیں ہے مجھے
گردش وہی یہاں بھی سپہر کہن میں تھی
ادا سے آڑ میں خنجر کی منہ چھپائے ہوئے
ابتدائے عشق ہی لطفِ شباب آنے کو ہے
یہ ہستی دو روزہ گویا کہ نہیں فانی
مجھے آہ کا ہے رونا جو یہ بے اثر نہوتی
ارماں کہاں ضعف میں تاثیر الم کے
اب لب پہ وہ ہنگامۂ فریاد نہیں ہے
ہم اپنے جی سے گزرے یوں سحر کی
دیا اک جان کے دشمن کو دل جاں نذرِ دلبر کی
مانا کہ بات وعدۂ فردا پہ ٹل گئی
عشق نے دل میں جگہ کی تو قضا بھی آئی
مجھے قسم ہے ترے صبر آزمانے کی
گو ہستی تھی خوابِ پریشاں نیند کچھ ایسی گہر تھی
کم ہے یا بڑھ گئی وحشت ترے دیوانوں کی
چمکا دیا ہے رنگ چمنِ لالہ زار نے
عیش جہاں باعثِ نشاط نہیں ہے
بشر میں عکسِ موجوداتِ عالم ہمنے دیکھا ہے
مجھے مرنے کی حسرت کار مشکل کی تمنا ہے
نصیب ہو بھی تو کیا لطف وصل یار میں ہے
دیکھ فانی وہ کوئی حشر اٹھاتا آیا
دشمنِ جاں تھے تو جانِ مدعا کیوں ہوگئے
کی وفا یر سے ایک ایک جفا کے بدلے
ہے جو اس کانِ ملاحت سے طلبہ گارِ نمک
محشر میں عذرِ قتل بھی ہے خوں بہا بھی ہے
ہر تصور جلوۂ صورت کا کفر انگیز ہے
مطلب ہے ضبطِ عشق سے تاثیر دردِ عشق
روح کا آنسوؤں بھری آنکھوں میں پاتر اب ہے
متفرق
قصیدہ بطرز ترکیب بند
تھی دعا اپنی بھی مدت سے کہ اب کی اے خدا
کیوں نہ اس کالج کو فخر اپنے مقدر پر رہے
رباعیات
قطعات
کتبۂ قبرِ فانی
در حمد حق سبحانہ تعالیٰ
بے نقط
علم
دنیا اور دنیا کے دوست
درِ فنا
نظم بہ تقریب جلسہ سالانہ اردو ئے معلیٰ کالج علی گڑھ
غزل
عرض حال
در مذمت غمازی
قطعات تاریخ دیوان فانی
قطعہ تاریخ از جناب خان بہادر احمد علی خاں صاحب میکش
از نتیجہ فکر جناب محمد نوشہ علی خاں صاحب حامی بدایونی
قطعہ تاریخ جناب چودھری محمد ابراہیم صاحب خلیل بدایونی
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔