سرورق
حافظ اگر ہو عدل رسالت مآب کا
قطرہ ہے بحر بھی کر ملو تراب کا
نائب اس شہ کے ہوے مہدی ذیشان پیدا
جس طرح سے تن انساں پہ ہوا سر پیدا
نیمۂ شیعبان کو جو صاحب زمان پیدا ہوا
مصطفیٰ کا نائب و آرام جان پیدا ہوا
فصل گل آتے ہی شہروں سے نکل جاؤں گا
بیخودی نے ہواگر شرم کا پردا الٹا
سہواً جو مجھ سے شکوہ بیداد ہوگیا
رخ اسکا خط سے مہر لب بام ہو گیا
خلوت کا باب بند جو تھا باز ہوگیا
خنجر جو اس کے ہاتھ کا بے آب ہو گیا
فرقت میں پی شراب تو ناسور ہوگیا
یوں راہ معرفت میں یہ چالاک ہو گیا
وہ شوخ پھر جو مائل تنویر ہو گیا
کاٹا سر اس نے ہم پہ یہ احسان ہو گیا
اک بوسہ لیکے مفت گنہگار ہو گیا
واعظ کا سب وہ بند فراموش ہوگیا
سامان وصل یار کا شاہانہ ہوگیا
تیغ پر آب جو کھینچے ہوئے جلاد آیا
جلے دل کا دھواں ایسا تو ہوتا
قطرۂ اشک کب ہے گوہر سا
فلک جانا گزر ایسا تو ہوتا
گردش دیتا ہے ہر وقت مقدر اپنا
خون غیروں میں نہ ہوگا کبھی شامل میرا
وہ پیٔ قتل جو کھینچے ہوئے خنجر آیا
دل کو جلا کر انہیں آتا ہے ستانا کیسا
تربت میں یاد ابروے خمدار لے گیا
صورت حضرت موسی جو نظارا ہوتا
بتوتم جو بگڑے تو کیا ہوگیا
جو قید بتاں سے رہا ہو گیا
ہجر میں جب پیام یار آیا
قبر میں عشق بتاں جسم کی شامل نہ آیا
لخت دل چشم میں کب اشک کے شامل آیا
دل جوانی میں سوی گیسوے قاتل آیا
گرم آہوں کا عنادل کے جو لو کا آیا
جان لیکر گیا جب وہ بت ترسا آیا
ہے ستم اب بھی نہ تو گر مجھے بسمل ٹھہرا
عکس آئینہ میں عارض کے مقابل ٹھہرا
وہ رخ پہ دال کے اپنی نقاب کیا کرتا
سفید بالوں پہ اپنے خضاب کیا کرتا
کسکو اس غمکدہ دہر میں شاداں دیکھا
وصف لکھوں جو دیدہ تر کا
داغ کھائے ہوئے کب سے دل مضطر میرا
ابرتجھ سے بھی مرے قبر پر آیانہ گیا
مٹی دینے کے لئے آپ سے آیا نہ گیا
کب مثل ماہ داغ میرے دل میں رہ گیا
صحرا میں گر دباد کا جھوکا جو چل گیا
مشکل کشا کا نام جو منہ سے نکل گیا
دل جلا وہ ہوں مجھے نفع وضرر کیا کرتا
کعبہ دل کو مرے زیروزبر کیا کرتا
کسبکی طور پر کیا جاکے جستجو کرتا
مانع دید مجھے گربت پرفن ہوتا
حال موسی پہ نہ گردید کا روشن ہوتا
ریگ پر جب میں طپاں صورت بسمل ہوا
تیغ نگاہ شوخ کا گھایل نہیں رہا
جو نام ساقی کوثر نکل گیا ہوتا
نیلے نہ ہوں تو پھر میں وہ زخم بدن خراب
ردیف باے موحدہ
بگڑا وہ مجھ سے آج خریدار بے سبب
ہم صفیر وپہر کے کیسے ہواے عندلیب
گر اثر اپنا دیکھائیں نالہ ہاے عندلیب
بہتر اگر میں نورمیں شمس وقمر سے آپ
ردیف باے فارسی
ہیں آج کل کے صورت آئینہ بار دوست
ردیف تاے فوقانی
ہے قصد طور پر میں کروں جستجوے دوست
پیش نظر مجھے جو ہے ہر وقت روے دوست
تائے ہندی
اے ترک بد کی ہے کسی سے کمر کی چوٹ
ردیف ثائے مثلث
منہ پہ ڈالی ہو تم نقاب عبث
سوز دل میں ہوں شراب عبث
ہے کوک مور کے ابر بہار کے باعث
ہوں دل شکستہ نہ کیوں چشم یار کے باعث
چھپایا ہے یوں رخ روشن نقاب کے باعث
ہے شکل تیر سرمہ دنبالہ دار آج
ردیف جیم تازی
ساقی پلا دے جام مئے خوشگوار آج
ہو کیوں نہ عشق زلف میں حناد بال آج
کٹوائے ناخنوں کو جو وہ خوش جمال آج
دے کیوں نہ دور چشم ترا مجھ کو یار پیچ
ردیف جیم فارسی
ردیف حائے حطی
جگہ دو آنکھ میں اپنی اگر نظر کی طرح
بے جبر گہر کسی سے نہ چھوٹا کسی طرح
گردش مجھے رہی ہے جو قبل نما کی طرح
ہر دم سفر ہے نالہ دل ہے ورا کی طرح
کیونکر نہ ہو زخموں سے مرا رنگ بدن سرخ
ردیف خاے معجمہ
دندان ہیں کہاں پانسے اے غنچہ دہن سرخ
جل جل کے یوں ہوا دل خانہ خراب سرخ
میں تو نہ یہ حنا کا لگاتا خضاب سرخ
کیوں نہ ہو پھر مجھے پابندی زنجیر پسند
ردیف دال مہملہ
بے اثر کیا ہوں مجھے نالہ شبگیر پسند
نہ تو مہتاب نہ ہے مہر کی تنویر پسند
مجھ دل جلے کے یار کو یوں ہے فغاں پسند
کیوں کر نہ بچپنے سے مجھے ہو فغان پسند
ردیف دال ہندی
یوں یار کو ہے ابروے خمدار پر گھمنڈ
ردیف ذال معجمہ
لکھوں گا خوں سے ہد ہد کے میں اگر تعویذ
ہیں آج گومرے ظاہر میں بے اثر تعویذ
وقت تحریر سیہ کرتا ہے خانہ کاغذ
قلزم حسن کو رو رو کے جو لکھا کاغذ
رحمت خدا کے آہ دل شعلہ بار پر
ردیف راے معجمہ
عاشق ہیں ہم جو مرکے بھی چشمان یار پر
پہونچ وہ جائیں گے جلدی عدم کے منزل پر
چلی خوشی میں چہرے جب گلوی بسمل پر
ہواقرار نہ اک آن بھی فنا ہو کر
اگر وہ وصل میں جائیگا بے مزا ہو کر
راضی کہیں تو ہو وہ مرے امتحان پر
نظر آئے نہ کیوں نقشہ اجل کا آپ سے صورت پر
عشق ہے صیاد صحن گلشن پر
سرگشتہ میں ہوں قطع مراحل کے کیا خبر
آنکھوں کو پارۂ جگر ودل کے کیا خبر
رہتا ہے مجھ سے ہجر میں اس بار سےبگاڑ
ردیف رائے ہندی
ردیف زائے مہملہ
ذبح کرتے ہی شب وصل گجر کی آواز
تھی شب وصل ہی تک مرغ سحر کی آواز
بھائے بلبل کو نہ کیوں مرغ چمن کی آواز
یاد دلواے ہے ایک غنچہ دہن کے آواز
ردیف سین مہملہ
اے قلب چھوڑ ابروے جلاد کے ہوس
شعلہ داغ نہیں یہ دل بیتاب کے پاس
مدت سے گوہے وصل پری زاد کی ہوس
نورے افشاں کے ہیں پیشانئے بایاب کے پاس
ردیف شین معجمہ
ایسی ہے دل کو کوچۂ دلدار کی تلاش
یوں دل کو ہے مرے کسی رخسار کی تلاش
ہے نیمجاں کو ابروے جلاد کی تلاش
سا دل کو یوں ہے اس دل ناشاد کی تلاش
ردیف صاد مہملہ
ہے جاے مغز سر میں بشر کی ہواے حرص
میرے نظر میں کیوں نہ ہو عزو وقار حرص
آئے جو اڑ کے دل میں ہمارے غبار حرص
ناصح کسی کو کب ہے ترے گفتگو سے فیض
ردیف ضاد معجمہ
عسرت زدہ کو فرش زر افشاں سے کیا غرض
ہو مرغ روح کو تن بیجاں سے کیا غرض
ردیف طاے مہملہ
کی لاکھ میں نے دیدہ گر یاں کے احتیاط
یوں ہے دلوں کو نرگس جادو سے ارتباط
اس دل کو یوں ہے تیرے پہلو سے ارتباط
ردیف ظاے معجمہ
گلشن دہر میں رنگین ہے بیان واعظ
جستجو کرکے بھی پایا نہ نشان واعظ
کون انکا ہے دوسرا حافظ
ردیف عین مہملہ
شب بھر جلیں جو سوز جگر سے بسان شمع
لاے اگر مزار پہ کوئی جلا کے شمع
لاتے ہیں یوں مزار پہ میرے بچاکے شمع
لحد پہ میرے جو وہ شمع رو جلائے چراغ
ردیف غین معجمہ
آیا نہ ایک حال پہ ہم کو نظر چراغ
میرا مسیح آکے جلائے اگر چراغ
ردیف فائے مستقلہ
حلقی نہیں ہیں دام کے گر خلقہاے زلف
دیدہ دل ہے مرا دیدہ روزن کے طرف
ردیف قاف
دل لیچلا ہے درد جدائی شب فراق
دل کو ہے دید عارض جاناں کا اشتیاق
ردیف کاف
دیکھئے مجھ کو رہے دید کے حسرت کب تک
دیکھیں آتا ہے نظر طور پہ جلوہ کب تک
یون ہے بہار پر مرے خم بدن کا رنگ
ردیف گاف فارسی
میرے آنکھوں میں کھپا گیسوے خمدار کا رنگ
خالی ہے وقت نزع جو سینہ میں جائے دل
ردیف لام
کیوں عشق میں ہوے نہ کبھی رہنماے دل
جہاں کا اوج ہو کیا خاکسار کے قابل
ہم صفیرو نہیں گلشن میں نشان بلبل
کب فصل گل میں دور ہیں غنچہ دہن سے ہم
ردیف میم
نقص قوت سے سوے صورت برکار قدم
سینےمیں کیوں نہ دل کو ہو داغ جگر سے کام
یوں رہیں میرے طرف زلف چلیپا آنکھیں
ردیف نون
دل کو برباد جو کرتے ہو یہ گھر ہے کہ نہیں
یا الٰہی کوئی یہاں اہل نظر ہے کہ نہیں
جو ہوئے کشمکش دید یار آنکھوں میں
یہی ہیں پہلوے غرہ حضور کی باتیں
مانند بوے گل میں عدم کورمیدہ ہوں
دل خستہ کے وہ گر زلقوں میں جارکھتی
طالب نہ نام کے ہیں نہ خواہان نشاں کے ہیں
تو تو غیروں پر مرے وہ تری الفت نہ کریں
کلیم طور پہ قصد سوال ہے کہ نہیں
تیر جب اس قدر انداز کے چل جاتے ہیں
مخمس برغزل تدبیر الدولہ منشی مضفر علی خاں صاحب مرحوم متخلص اسیر
ناوک آہ جو چل جاتے ہیں
یہ فوج وہ ہے جسکو کبھی برہمی نہیں
دل توڑتا ہے توڑئے بند لگا گھر نہیں
نقد کے ساتھ زرولعل وگہر دیتی ہیں
مردہ صد سالہ جی اٹھے دم میں
کمر کسی ہے ارادے رہ عدم کے ہیں
راہ حق میں جو قتل ہوتے ہیں
کیا کیا نہیں کمال مرے دو واہ میں
یارب ہمارے دل کو ہوا کیا بہار میں
یوں ہے خیال گیسوے جاناں مزار میں
آخرہوا شباب لو عشق بتاں کہاں
میں خاک پاکہاں دررفعت نشاں کہاں
اسکے کوچے میں روز جاتے ہیں
داغ پر داغ دل پہ کھاتے ہیں
پہلو میں میرے آج جو وہ مہ لقا نہیں
صبح بہار ہے وہ رخ باصفا نہیں
آخر کیا یہ خاک کہ میرا پتا نہیں
طبع فقیر خلق میں رفعت نشاں نہیں
دل میں یاد بت بے پیر لئے جاتا ہوں
پاس وحشی جو آنکلتے ہیں
طاق ابرد پہ انکے خال نہیں
ردیف واو
بعد مردن تو نہ رنجش کو بڑھاتے جاؤ
یاد جب آگئی وہ زلف پریشاں مجھ کو
اے بخت نار سا مرے اس تک خبر نہ ہو
کیوں تیرہ دود دل سے مرےآسماں نہ ہو
ہستی اہل عشق مثال کمر تو ہو
نہ تو دنیا ہے ملے اور نہ عقبی مجھ کو
ہوں وہ مجنوں کہ دیا دشت نے دھوکا مجھ کو
تمہارے جور پہ دل کیوں یہ بیقرار نہ ہو
اے برہمن نہ ستانا کبھی دیوانوں کو
تم اپنے زلفوں پہ سر رکھ کے مجھ کو رونے دو
ہمارے نالہ شب میں اثر تو ہونے دو
زندہ ٹھوکر سے ہزاروں ہی کیا کرتے ہیں
سحر دکھلاے اگر نرگس جادو مجھ کو
نہ کیوں ہو حضرت موسیٰ سے گفتگو مجھ کو
دیکھوں نہ کیوں میں خط رخ رشک ماہ کو
کب سمجھتا ہے یہ سمجھا نے کو
ردیف ہائے ہوز
پیدا ہوا ازل سے میں رنج ومحن کے ساتھ
رہتی ہیں گردشیں مجھے شمس وقمر کے ساتھ
شب وصال جو پہلو میں یار آتاہے
ردیف یاے تحتانی
در بدر پھرتا ہوں میں اک مہ کامل کے لئے
غنچوں کے روبروے دہن منہ بگڑ گئے
جستجو باغ میں کے سرولب جو کے لئے
بدن میں روح سماے ہے کب قضا کے لئے
لبوں پہ ضبط سے آہ رسا نہیں آتی
شباب میں جوکوئی رشک زال ہوتا ہے
ادھر کو عشق گلے کا یہ ہار ہوتا ہے
جو عشق مژہ یار پیدا ہوا ہے
گردن پہ جب وہ خنجر ناز وادا چلے
انکی باتوں میں جو کچھ درد کے پہلو نکلے
کب جام مے ہے چہرہ قاتل کے سامنے
ترک دنیا کو کیا جاہ وتجمل کے لیے
آہیں کھینچی ہیں فغاں ہونے کو ہے
میرا غباردوش ہوا پر بلند ہے
جو قرض آپ پہ ہے وہ ادا نہیں کرتے
صیاد کا ہے خوف تو گلشن کو چھوڑ دے
شب ہجراں میں نہ گر اسکے زیارت
نسبت ہے مجھ فقیر کو دنیا میں شاہ سے
تیغ و سناں کو اور تن بسمل کو دیکھئے
جلے دل کو عبث جلاتاہے
چکھیں گے ذائقے یہ عذاب الیم کے
قتل کرتا نہیں بیدادی ہے
فیض خالق کے نہ گر جود وسخا کے ہوتے
جو ٹوتا ہے کوئی شیشہ جام ہوتا ہے
وہ سرومست جو گرم خرام ہوتا ہے
دل کو اب ہوے نہ گردش کہ اجل حاضر ہے
خاتلوون سے گر جدا کرتے
آئی قدم جو قبر پہ اک شہسوار کے
منظور امتحاں ہیں ابروے یار کے
کشتہ ہوئے ہیں ہم جو مے خوشگوار کے
سماں دریا کا دل بہلا رہا ہے
ہم ہو گئے تمام ملاقات رہ گئے
اہل جہاں پہ قدر کھلی تب سحاب کے
بعد فنا ہوئے ہے عنایت سحاب کے
اٹھ کے آتے ہیں لحد سے ترے رونے والے
آنسو بھرے آنکھوں سے نکلنے نہیں دیتے
جنوں آج رسوا کیا چاہتا ہے
مضموں بلیغ ہیں تو فصاحت بیاں میں ہے
کب آہ آتشیں مرے درد جگر میں ہے
طرفہ یہ سیر ہجر کے رنج ومحن میں ہے
اسطرح چشم زار مرا پیرہن میں ہے
اشک کے چشم میں وہ کثرت ہے
جان ٹھوکر سے فقط مردوں میں کب آئی ہے
شب وصل میں یوں سحر ہوگئے
شب ہجر میں یو بسر ہوگئی
کیا چھوٹے دل جلوں سے زمانے میں گھر کبھی
ثابت ہوا یہ دود دل پر غبار سے
ناخن کٹے جو دہر میں اس خوش جمال کے
پیش نظر جو حسن ہیں اک خوش جمال کے
عا علی کیوں نہ ہو انساں میں دہائی تیری
لے چلے نقد دل وجاں کو جدائی تیری
یاعلی کیوں نہ ہو کونین میں شہرت تیرے
ہاتھ پکڑے گی یہاں تو مرا رحمت تیرا
ناطقے بند کرے کیوں نہ طلاقت تیری
سوز دل کیوں نہ مجھے شاق ہو فرقت میری
سپہ ہجر کے چڑھائے ہے
موت سر پر جو میرے آئے ہے
جان ہونٹوں پہ میرے آئی ہے
کب رخ یار پر عیاں تل ہے
جب خزاں کے چمنستاں پہ بلا آتی ہے
ساتھ کب اشکوں کے ہچکی کی صدا آتی ہے
آئی جب نجد میں لیلیٰ تو پریشاں آئے
کفن میں کب تیرے در کا غبار لیکے چلے
گہر سے اپنے جو وہ یوسف سر بازار چلے
نہ خاک ہوکے بھی حاصل ہو اقرار مجھے
کسی کا اب نہیں خبر تیرے اعتبار مجھے
دل میں عشق مژہ بار نہ آنے پائے
لب پہ حرف طب وعار نہ آنے پائے
وحشیوں میں ترے جب شورفغاں ہوتا ہے
فصل گل آتی ہے کیسا یہ سماں ہوتاہے
بعد مرنے کے مرے قبر پہ قرآں رہے
ذات باری کو کوئی کیا جانے
غرق ہونے کو کوئی کیا جانے
ادھر تو جو بتوں پر یار کے جوانی ہے
غصے میں ہاتھ تیغ پہ جو ہیں دھرے ہوئے
گیسوے مشک فام جو رخ پر بکھر گئے
کوہ وصحرا میں جو تونے کیا برباد مجھے
نصیب دشمنان کچھ آج غم ہے
عبث وصال ہو غیر وں کا تم چھپائے ہوئے
ہیں وہ غم دوست خوشی کو جو سدا غم سمجھے
درد وتپ ہجراں کا مداوا نہیں کرتے
حق باطل میں اگر تم سے لڑائی ہوتی
شب فراق میں راحت نظر نہیں آتے
دھوپ میں کرکے جو طے راہ سفر آتا ہے
حسن تو بندش مضموں کہیں سے نکلے
اسم تاریخی دیوان فاخر گلشن منظوم سن 1300ھ
آمد فصل بہاری کا جو ساماں ہوتا
ردیف الف
لاکھ لکھا کرے حاسد مرے دیواں کا جواب
ردیف باے موحدہ
بغض مجھ سے تو نہ تھا گیسوے جاناں کو آپ
ردیف باے ہندی
کیوں نہ سنبل کرے اس گیسوے پیچاں کے صفت
ردیف تاے فوقانی
ردیف تاے ہندی
نکلے آہوں سے ترے ہجر میں یوں جاں جھٹ پٹ
ردیف ثاے مثلثہ
دعوی دانتوں سے ترے ہے درغلطاں کو عبث
ردیف جیم ہندی
ردیف جیم
کشور حسن کو خط نے کیا اے جان تاراج
کیوں نہ آباد ہوں پھر خانہ دیراں اس پانچ
تیغ قاتل نے کیا شہر خموشاں آباد
ردیف دال مہملہ
ردیف دال ہندی
بھیجے فرقت میں جو وہ عیسیٰ دوراں کاغذ
یوں ہے عشاق کو نور رخ جاناں پہ گھمنڈ
ردیف ذال معجمہ
ہمسری میری کرے مرغ خوش الحان کیونکر
ردیف راے مہملہ
بے پتنگوں کے اگر شمع شبستاں ہو اجاڑ
ردیف راے ہندی
ردیف زاے معجمہ
جوش وحشت میں نئے ہوے ہیں ساماں ہر روز
جوش وحشت میں ہوئے ہے جو بیاباں کی ہوس
ردیف سین مہملہ
جبکہ تربت میں مرا ہوں دل نالاں خاموش
ردیف شین معجمہ
ردیف صاد مہملہ
ہو قفس کیوں نہ پئے بلبل نالاں مخصوص
یوں ہے ان آنکھوں کو دید لب جاناں سے غرض
ردیف ضاد معجمہ
ردیف طاے مطبقہ
صورت قیس مجھے ہو جو بیاباں سے ربط
ردیف ظاے معجمہ
فرقت یار سے جب ہوں نہ نبی جان محفوظ
ردیف عین مہملہ
ہوگا مجھ زار کو کیونکر ترا درماں مانع
ردیف فاے مستفلہ
دل نے کب پایا ترے چاہ زنخداں کا سراغ
ردیف غین معجمہ
دل جو آیاہے مرے ابروے جارنکی طرف
دل عشاق کا یوں ہے رخ جاناں مشتاق
ردیف قاف
دیکھئے جوش جنوں کے رہیں ساماں کب تک
ردیف کاف تازی
دیکھ لے غیظ میں جب عارض جاناں کا رنگ
ردیف گاف
ردیف لام
خلق میں جبکہ ہو ہو دشمن ایمان قاتل
ردیف میم
کھاؤں کیا عشق میں اس بت کے میں ایماں کے قسم
ردیف نون
اسطرح ہے قبا میں تن جاناں روشن
اک ذرا نبض مریض شب ہجراں دیکھو
ردیف واو
دشت وحشت میں نہ ہو جب کوے انساں ہمراہ
ردیف ہاے ہوز
حاجت خضر نہیں وادی ایماں کے لیے
ردیف الیاء
بیاں وصف ہوں کیونکر کلام فاخر کے
قطعہ تاریخ
اسم تاریخی دیوان فاخر گلشن نظم سن 1300ھ
راہ پر صورت آواز دراہو کہ نہ ہو
ردیف بائے موحدہ
بغیر بادہ وصل انقلاب ہو کہ نہ ہو
روئے تاے فوقانی
امید وبیم حیاب وممات ہو کہ نہ ہو
بلاے قید سے دل مستغیث ہو کہ نہ ہو
روئے ثائے مثلث
روئے جیم معجم
بحال بوسۂ لب سے مزاج ہو کہ نہ ہو
روئے حاے حطی
زبان عراق میں آکر فصیح ہو کہ نہ ہو
لقب جو شاہ ہوروزی فراخ ہو کہ نہ ہو
روے خاے معجم
روے دال مہملہ
عشق بازی میں حیا سے مجھے کد ہو کہ نہ ہو
ترے فراق میں دل درد مند ہو کہ نہ ہو
روے ذال معجم
وہ مہر ہے سوے عشاق حاذ ہو کہ نہ ہو
روئے رائے مہملہ
مرض ہجر میں آثار سحر ہو کہ نہ ہو
ہجو غم میرے دل پر نثار ہو کہ نہ ہو
مژہ کے عشق سے عاشق کو ناز ہو کہ نہ ہو
روے زاے معجمہ
روے سین مہملہ
دور جام مے روتا ر نفس ہو کہ نہ ہو
روے شین معجمہ
جنوں کے جوش میں جوش خروش ہو کہ نہ ہو
حساب حشر سے فاخر خلاص ہو کہ نہ ہو
غلط جو شعر ہو پھر اعتراض ہو کہ نہ ہو
روے صاد مہملہ
روے ضاد معجمہ
جو ہم بغل ہو وہ مہ اختلاط ہو کہ نہ ہو
روے ظائے معجمہ
روے طاے مطبقہ
نہ آئے نزع میں جب وہ نزاع ہو کہ نہ ہو
روے عین مہملہ
ظہور تیرے کرم کا حفیظ ہو کہ نہ ہو
روے غین معجمہ
ہو آئینہ جو دل اسکا تو صاف ہو کہ نہ ہو
روے فاے معجمہ
بسمل زلف سے سینے میں داغ ہو کہ نہ ہو
روے قاف
پھنکے جو صور تو روحوں کو شاق ہو کہ نہ ہو
آتشیں داغ کے شعلوں میں لپک ہو کہ نہ ہو
روے کاف
روئے لام
تمہارے آنکھوں کا دل کو خیال ہو کہ نہ ہو
روے میم
عشق میں ابروئے قاتل کے ستم ہو کہ نہ ہو
تیغ خونخوار سے زخمی میرا تن ہو کہ نہ ہو
روئے نون
دود دل ابر کے مانند رواں ہو کہ نہ ہو
عرش وافلاک وزمیں پر تو ہی تو ہو کہ نہ ہو
روے واؤ
روئے ہائے ہوز
ملک توکل کا شاہ ہو کہ نہ ہو
تیر جب دل پہ پڑے پار مرے ہو کہ نہ ہو
روئے یاء
سرورق
حافظ اگر ہو عدل رسالت مآب کا
قطرہ ہے بحر بھی کر ملو تراب کا
نائب اس شہ کے ہوے مہدی ذیشان پیدا
جس طرح سے تن انساں پہ ہوا سر پیدا
نیمۂ شیعبان کو جو صاحب زمان پیدا ہوا
مصطفیٰ کا نائب و آرام جان پیدا ہوا
فصل گل آتے ہی شہروں سے نکل جاؤں گا
بیخودی نے ہواگر شرم کا پردا الٹا
سہواً جو مجھ سے شکوہ بیداد ہوگیا
رخ اسکا خط سے مہر لب بام ہو گیا
خلوت کا باب بند جو تھا باز ہوگیا
خنجر جو اس کے ہاتھ کا بے آب ہو گیا
فرقت میں پی شراب تو ناسور ہوگیا
یوں راہ معرفت میں یہ چالاک ہو گیا
وہ شوخ پھر جو مائل تنویر ہو گیا
کاٹا سر اس نے ہم پہ یہ احسان ہو گیا
اک بوسہ لیکے مفت گنہگار ہو گیا
واعظ کا سب وہ بند فراموش ہوگیا
سامان وصل یار کا شاہانہ ہوگیا
تیغ پر آب جو کھینچے ہوئے جلاد آیا
جلے دل کا دھواں ایسا تو ہوتا
قطرۂ اشک کب ہے گوہر سا
فلک جانا گزر ایسا تو ہوتا
گردش دیتا ہے ہر وقت مقدر اپنا
خون غیروں میں نہ ہوگا کبھی شامل میرا
وہ پیٔ قتل جو کھینچے ہوئے خنجر آیا
دل کو جلا کر انہیں آتا ہے ستانا کیسا
تربت میں یاد ابروے خمدار لے گیا
صورت حضرت موسی جو نظارا ہوتا
بتوتم جو بگڑے تو کیا ہوگیا
جو قید بتاں سے رہا ہو گیا
ہجر میں جب پیام یار آیا
قبر میں عشق بتاں جسم کی شامل نہ آیا
لخت دل چشم میں کب اشک کے شامل آیا
دل جوانی میں سوی گیسوے قاتل آیا
گرم آہوں کا عنادل کے جو لو کا آیا
جان لیکر گیا جب وہ بت ترسا آیا
ہے ستم اب بھی نہ تو گر مجھے بسمل ٹھہرا
عکس آئینہ میں عارض کے مقابل ٹھہرا
وہ رخ پہ دال کے اپنی نقاب کیا کرتا
سفید بالوں پہ اپنے خضاب کیا کرتا
کسکو اس غمکدہ دہر میں شاداں دیکھا
وصف لکھوں جو دیدہ تر کا
داغ کھائے ہوئے کب سے دل مضطر میرا
ابرتجھ سے بھی مرے قبر پر آیانہ گیا
مٹی دینے کے لئے آپ سے آیا نہ گیا
کب مثل ماہ داغ میرے دل میں رہ گیا
صحرا میں گر دباد کا جھوکا جو چل گیا
مشکل کشا کا نام جو منہ سے نکل گیا
دل جلا وہ ہوں مجھے نفع وضرر کیا کرتا
کعبہ دل کو مرے زیروزبر کیا کرتا
کسبکی طور پر کیا جاکے جستجو کرتا
مانع دید مجھے گربت پرفن ہوتا
حال موسی پہ نہ گردید کا روشن ہوتا
ریگ پر جب میں طپاں صورت بسمل ہوا
تیغ نگاہ شوخ کا گھایل نہیں رہا
جو نام ساقی کوثر نکل گیا ہوتا
نیلے نہ ہوں تو پھر میں وہ زخم بدن خراب
ردیف باے موحدہ
بگڑا وہ مجھ سے آج خریدار بے سبب
ہم صفیر وپہر کے کیسے ہواے عندلیب
گر اثر اپنا دیکھائیں نالہ ہاے عندلیب
بہتر اگر میں نورمیں شمس وقمر سے آپ
ردیف باے فارسی
ہیں آج کل کے صورت آئینہ بار دوست
ردیف تاے فوقانی
ہے قصد طور پر میں کروں جستجوے دوست
پیش نظر مجھے جو ہے ہر وقت روے دوست
تائے ہندی
اے ترک بد کی ہے کسی سے کمر کی چوٹ
ردیف ثائے مثلث
منہ پہ ڈالی ہو تم نقاب عبث
سوز دل میں ہوں شراب عبث
ہے کوک مور کے ابر بہار کے باعث
ہوں دل شکستہ نہ کیوں چشم یار کے باعث
چھپایا ہے یوں رخ روشن نقاب کے باعث
ہے شکل تیر سرمہ دنبالہ دار آج
ردیف جیم تازی
ساقی پلا دے جام مئے خوشگوار آج
ہو کیوں نہ عشق زلف میں حناد بال آج
کٹوائے ناخنوں کو جو وہ خوش جمال آج
دے کیوں نہ دور چشم ترا مجھ کو یار پیچ
ردیف جیم فارسی
ردیف حائے حطی
جگہ دو آنکھ میں اپنی اگر نظر کی طرح
بے جبر گہر کسی سے نہ چھوٹا کسی طرح
گردش مجھے رہی ہے جو قبل نما کی طرح
ہر دم سفر ہے نالہ دل ہے ورا کی طرح
کیونکر نہ ہو زخموں سے مرا رنگ بدن سرخ
ردیف خاے معجمہ
دندان ہیں کہاں پانسے اے غنچہ دہن سرخ
جل جل کے یوں ہوا دل خانہ خراب سرخ
میں تو نہ یہ حنا کا لگاتا خضاب سرخ
کیوں نہ ہو پھر مجھے پابندی زنجیر پسند
ردیف دال مہملہ
بے اثر کیا ہوں مجھے نالہ شبگیر پسند
نہ تو مہتاب نہ ہے مہر کی تنویر پسند
مجھ دل جلے کے یار کو یوں ہے فغاں پسند
کیوں کر نہ بچپنے سے مجھے ہو فغان پسند
ردیف دال ہندی
یوں یار کو ہے ابروے خمدار پر گھمنڈ
ردیف ذال معجمہ
لکھوں گا خوں سے ہد ہد کے میں اگر تعویذ
ہیں آج گومرے ظاہر میں بے اثر تعویذ
وقت تحریر سیہ کرتا ہے خانہ کاغذ
قلزم حسن کو رو رو کے جو لکھا کاغذ
رحمت خدا کے آہ دل شعلہ بار پر
ردیف راے معجمہ
عاشق ہیں ہم جو مرکے بھی چشمان یار پر
پہونچ وہ جائیں گے جلدی عدم کے منزل پر
چلی خوشی میں چہرے جب گلوی بسمل پر
ہواقرار نہ اک آن بھی فنا ہو کر
اگر وہ وصل میں جائیگا بے مزا ہو کر
راضی کہیں تو ہو وہ مرے امتحان پر
نظر آئے نہ کیوں نقشہ اجل کا آپ سے صورت پر
عشق ہے صیاد صحن گلشن پر
سرگشتہ میں ہوں قطع مراحل کے کیا خبر
آنکھوں کو پارۂ جگر ودل کے کیا خبر
رہتا ہے مجھ سے ہجر میں اس بار سےبگاڑ
ردیف رائے ہندی
ردیف زائے مہملہ
ذبح کرتے ہی شب وصل گجر کی آواز
تھی شب وصل ہی تک مرغ سحر کی آواز
بھائے بلبل کو نہ کیوں مرغ چمن کی آواز
یاد دلواے ہے ایک غنچہ دہن کے آواز
ردیف سین مہملہ
اے قلب چھوڑ ابروے جلاد کے ہوس
شعلہ داغ نہیں یہ دل بیتاب کے پاس
مدت سے گوہے وصل پری زاد کی ہوس
نورے افشاں کے ہیں پیشانئے بایاب کے پاس
ردیف شین معجمہ
ایسی ہے دل کو کوچۂ دلدار کی تلاش
یوں دل کو ہے مرے کسی رخسار کی تلاش
ہے نیمجاں کو ابروے جلاد کی تلاش
سا دل کو یوں ہے اس دل ناشاد کی تلاش
ردیف صاد مہملہ
ہے جاے مغز سر میں بشر کی ہواے حرص
میرے نظر میں کیوں نہ ہو عزو وقار حرص
آئے جو اڑ کے دل میں ہمارے غبار حرص
ناصح کسی کو کب ہے ترے گفتگو سے فیض
ردیف ضاد معجمہ
عسرت زدہ کو فرش زر افشاں سے کیا غرض
ہو مرغ روح کو تن بیجاں سے کیا غرض
ردیف طاے مہملہ
کی لاکھ میں نے دیدہ گر یاں کے احتیاط
یوں ہے دلوں کو نرگس جادو سے ارتباط
اس دل کو یوں ہے تیرے پہلو سے ارتباط
ردیف ظاے معجمہ
گلشن دہر میں رنگین ہے بیان واعظ
جستجو کرکے بھی پایا نہ نشان واعظ
کون انکا ہے دوسرا حافظ
ردیف عین مہملہ
شب بھر جلیں جو سوز جگر سے بسان شمع
لاے اگر مزار پہ کوئی جلا کے شمع
لاتے ہیں یوں مزار پہ میرے بچاکے شمع
لحد پہ میرے جو وہ شمع رو جلائے چراغ
ردیف غین معجمہ
آیا نہ ایک حال پہ ہم کو نظر چراغ
میرا مسیح آکے جلائے اگر چراغ
ردیف فائے مستقلہ
حلقی نہیں ہیں دام کے گر خلقہاے زلف
دیدہ دل ہے مرا دیدہ روزن کے طرف
ردیف قاف
دل لیچلا ہے درد جدائی شب فراق
دل کو ہے دید عارض جاناں کا اشتیاق
ردیف کاف
دیکھئے مجھ کو رہے دید کے حسرت کب تک
دیکھیں آتا ہے نظر طور پہ جلوہ کب تک
یون ہے بہار پر مرے خم بدن کا رنگ
ردیف گاف فارسی
میرے آنکھوں میں کھپا گیسوے خمدار کا رنگ
خالی ہے وقت نزع جو سینہ میں جائے دل
ردیف لام
کیوں عشق میں ہوے نہ کبھی رہنماے دل
جہاں کا اوج ہو کیا خاکسار کے قابل
ہم صفیرو نہیں گلشن میں نشان بلبل
کب فصل گل میں دور ہیں غنچہ دہن سے ہم
ردیف میم
نقص قوت سے سوے صورت برکار قدم
سینےمیں کیوں نہ دل کو ہو داغ جگر سے کام
یوں رہیں میرے طرف زلف چلیپا آنکھیں
ردیف نون
دل کو برباد جو کرتے ہو یہ گھر ہے کہ نہیں
یا الٰہی کوئی یہاں اہل نظر ہے کہ نہیں
جو ہوئے کشمکش دید یار آنکھوں میں
یہی ہیں پہلوے غرہ حضور کی باتیں
مانند بوے گل میں عدم کورمیدہ ہوں
دل خستہ کے وہ گر زلقوں میں جارکھتی
طالب نہ نام کے ہیں نہ خواہان نشاں کے ہیں
تو تو غیروں پر مرے وہ تری الفت نہ کریں
کلیم طور پہ قصد سوال ہے کہ نہیں
تیر جب اس قدر انداز کے چل جاتے ہیں
مخمس برغزل تدبیر الدولہ منشی مضفر علی خاں صاحب مرحوم متخلص اسیر
ناوک آہ جو چل جاتے ہیں
یہ فوج وہ ہے جسکو کبھی برہمی نہیں
دل توڑتا ہے توڑئے بند لگا گھر نہیں
نقد کے ساتھ زرولعل وگہر دیتی ہیں
مردہ صد سالہ جی اٹھے دم میں
کمر کسی ہے ارادے رہ عدم کے ہیں
راہ حق میں جو قتل ہوتے ہیں
کیا کیا نہیں کمال مرے دو واہ میں
یارب ہمارے دل کو ہوا کیا بہار میں
یوں ہے خیال گیسوے جاناں مزار میں
آخرہوا شباب لو عشق بتاں کہاں
میں خاک پاکہاں دررفعت نشاں کہاں
اسکے کوچے میں روز جاتے ہیں
داغ پر داغ دل پہ کھاتے ہیں
پہلو میں میرے آج جو وہ مہ لقا نہیں
صبح بہار ہے وہ رخ باصفا نہیں
آخر کیا یہ خاک کہ میرا پتا نہیں
طبع فقیر خلق میں رفعت نشاں نہیں
دل میں یاد بت بے پیر لئے جاتا ہوں
پاس وحشی جو آنکلتے ہیں
طاق ابرد پہ انکے خال نہیں
ردیف واو
بعد مردن تو نہ رنجش کو بڑھاتے جاؤ
یاد جب آگئی وہ زلف پریشاں مجھ کو
اے بخت نار سا مرے اس تک خبر نہ ہو
کیوں تیرہ دود دل سے مرےآسماں نہ ہو
ہستی اہل عشق مثال کمر تو ہو
نہ تو دنیا ہے ملے اور نہ عقبی مجھ کو
ہوں وہ مجنوں کہ دیا دشت نے دھوکا مجھ کو
تمہارے جور پہ دل کیوں یہ بیقرار نہ ہو
اے برہمن نہ ستانا کبھی دیوانوں کو
تم اپنے زلفوں پہ سر رکھ کے مجھ کو رونے دو
ہمارے نالہ شب میں اثر تو ہونے دو
زندہ ٹھوکر سے ہزاروں ہی کیا کرتے ہیں
سحر دکھلاے اگر نرگس جادو مجھ کو
نہ کیوں ہو حضرت موسیٰ سے گفتگو مجھ کو
دیکھوں نہ کیوں میں خط رخ رشک ماہ کو
کب سمجھتا ہے یہ سمجھا نے کو
ردیف ہائے ہوز
پیدا ہوا ازل سے میں رنج ومحن کے ساتھ
رہتی ہیں گردشیں مجھے شمس وقمر کے ساتھ
شب وصال جو پہلو میں یار آتاہے
ردیف یاے تحتانی
در بدر پھرتا ہوں میں اک مہ کامل کے لئے
غنچوں کے روبروے دہن منہ بگڑ گئے
جستجو باغ میں کے سرولب جو کے لئے
بدن میں روح سماے ہے کب قضا کے لئے
لبوں پہ ضبط سے آہ رسا نہیں آتی
شباب میں جوکوئی رشک زال ہوتا ہے
ادھر کو عشق گلے کا یہ ہار ہوتا ہے
جو عشق مژہ یار پیدا ہوا ہے
گردن پہ جب وہ خنجر ناز وادا چلے
انکی باتوں میں جو کچھ درد کے پہلو نکلے
کب جام مے ہے چہرہ قاتل کے سامنے
ترک دنیا کو کیا جاہ وتجمل کے لیے
آہیں کھینچی ہیں فغاں ہونے کو ہے
میرا غباردوش ہوا پر بلند ہے
جو قرض آپ پہ ہے وہ ادا نہیں کرتے
صیاد کا ہے خوف تو گلشن کو چھوڑ دے
شب ہجراں میں نہ گر اسکے زیارت
نسبت ہے مجھ فقیر کو دنیا میں شاہ سے
تیغ و سناں کو اور تن بسمل کو دیکھئے
جلے دل کو عبث جلاتاہے
چکھیں گے ذائقے یہ عذاب الیم کے
قتل کرتا نہیں بیدادی ہے
فیض خالق کے نہ گر جود وسخا کے ہوتے
جو ٹوتا ہے کوئی شیشہ جام ہوتا ہے
وہ سرومست جو گرم خرام ہوتا ہے
دل کو اب ہوے نہ گردش کہ اجل حاضر ہے
خاتلوون سے گر جدا کرتے
آئی قدم جو قبر پہ اک شہسوار کے
منظور امتحاں ہیں ابروے یار کے
کشتہ ہوئے ہیں ہم جو مے خوشگوار کے
سماں دریا کا دل بہلا رہا ہے
ہم ہو گئے تمام ملاقات رہ گئے
اہل جہاں پہ قدر کھلی تب سحاب کے
بعد فنا ہوئے ہے عنایت سحاب کے
اٹھ کے آتے ہیں لحد سے ترے رونے والے
آنسو بھرے آنکھوں سے نکلنے نہیں دیتے
جنوں آج رسوا کیا چاہتا ہے
مضموں بلیغ ہیں تو فصاحت بیاں میں ہے
کب آہ آتشیں مرے درد جگر میں ہے
طرفہ یہ سیر ہجر کے رنج ومحن میں ہے
اسطرح چشم زار مرا پیرہن میں ہے
اشک کے چشم میں وہ کثرت ہے
جان ٹھوکر سے فقط مردوں میں کب آئی ہے
شب وصل میں یوں سحر ہوگئے
شب ہجر میں یو بسر ہوگئی
کیا چھوٹے دل جلوں سے زمانے میں گھر کبھی
ثابت ہوا یہ دود دل پر غبار سے
ناخن کٹے جو دہر میں اس خوش جمال کے
پیش نظر جو حسن ہیں اک خوش جمال کے
عا علی کیوں نہ ہو انساں میں دہائی تیری
لے چلے نقد دل وجاں کو جدائی تیری
یاعلی کیوں نہ ہو کونین میں شہرت تیرے
ہاتھ پکڑے گی یہاں تو مرا رحمت تیرا
ناطقے بند کرے کیوں نہ طلاقت تیری
سوز دل کیوں نہ مجھے شاق ہو فرقت میری
سپہ ہجر کے چڑھائے ہے
موت سر پر جو میرے آئے ہے
جان ہونٹوں پہ میرے آئی ہے
کب رخ یار پر عیاں تل ہے
جب خزاں کے چمنستاں پہ بلا آتی ہے
ساتھ کب اشکوں کے ہچکی کی صدا آتی ہے
آئی جب نجد میں لیلیٰ تو پریشاں آئے
کفن میں کب تیرے در کا غبار لیکے چلے
گہر سے اپنے جو وہ یوسف سر بازار چلے
نہ خاک ہوکے بھی حاصل ہو اقرار مجھے
کسی کا اب نہیں خبر تیرے اعتبار مجھے
دل میں عشق مژہ بار نہ آنے پائے
لب پہ حرف طب وعار نہ آنے پائے
وحشیوں میں ترے جب شورفغاں ہوتا ہے
فصل گل آتی ہے کیسا یہ سماں ہوتاہے
بعد مرنے کے مرے قبر پہ قرآں رہے
ذات باری کو کوئی کیا جانے
غرق ہونے کو کوئی کیا جانے
ادھر تو جو بتوں پر یار کے جوانی ہے
غصے میں ہاتھ تیغ پہ جو ہیں دھرے ہوئے
گیسوے مشک فام جو رخ پر بکھر گئے
کوہ وصحرا میں جو تونے کیا برباد مجھے
نصیب دشمنان کچھ آج غم ہے
عبث وصال ہو غیر وں کا تم چھپائے ہوئے
ہیں وہ غم دوست خوشی کو جو سدا غم سمجھے
درد وتپ ہجراں کا مداوا نہیں کرتے
حق باطل میں اگر تم سے لڑائی ہوتی
شب فراق میں راحت نظر نہیں آتے
دھوپ میں کرکے جو طے راہ سفر آتا ہے
حسن تو بندش مضموں کہیں سے نکلے
اسم تاریخی دیوان فاخر گلشن منظوم سن 1300ھ
آمد فصل بہاری کا جو ساماں ہوتا
ردیف الف
لاکھ لکھا کرے حاسد مرے دیواں کا جواب
ردیف باے موحدہ
بغض مجھ سے تو نہ تھا گیسوے جاناں کو آپ
ردیف باے ہندی
کیوں نہ سنبل کرے اس گیسوے پیچاں کے صفت
ردیف تاے فوقانی
ردیف تاے ہندی
نکلے آہوں سے ترے ہجر میں یوں جاں جھٹ پٹ
ردیف ثاے مثلثہ
دعوی دانتوں سے ترے ہے درغلطاں کو عبث
ردیف جیم ہندی
ردیف جیم
کشور حسن کو خط نے کیا اے جان تاراج
کیوں نہ آباد ہوں پھر خانہ دیراں اس پانچ
تیغ قاتل نے کیا شہر خموشاں آباد
ردیف دال مہملہ
ردیف دال ہندی
بھیجے فرقت میں جو وہ عیسیٰ دوراں کاغذ
یوں ہے عشاق کو نور رخ جاناں پہ گھمنڈ
ردیف ذال معجمہ
ہمسری میری کرے مرغ خوش الحان کیونکر
ردیف راے مہملہ
بے پتنگوں کے اگر شمع شبستاں ہو اجاڑ
ردیف راے ہندی
ردیف زاے معجمہ
جوش وحشت میں نئے ہوے ہیں ساماں ہر روز
جوش وحشت میں ہوئے ہے جو بیاباں کی ہوس
ردیف سین مہملہ
جبکہ تربت میں مرا ہوں دل نالاں خاموش
ردیف شین معجمہ
ردیف صاد مہملہ
ہو قفس کیوں نہ پئے بلبل نالاں مخصوص
یوں ہے ان آنکھوں کو دید لب جاناں سے غرض
ردیف ضاد معجمہ
ردیف طاے مطبقہ
صورت قیس مجھے ہو جو بیاباں سے ربط
ردیف ظاے معجمہ
فرقت یار سے جب ہوں نہ نبی جان محفوظ
ردیف عین مہملہ
ہوگا مجھ زار کو کیونکر ترا درماں مانع
ردیف فاے مستفلہ
دل نے کب پایا ترے چاہ زنخداں کا سراغ
ردیف غین معجمہ
دل جو آیاہے مرے ابروے جارنکی طرف
دل عشاق کا یوں ہے رخ جاناں مشتاق
ردیف قاف
دیکھئے جوش جنوں کے رہیں ساماں کب تک
ردیف کاف تازی
دیکھ لے غیظ میں جب عارض جاناں کا رنگ
ردیف گاف
ردیف لام
خلق میں جبکہ ہو ہو دشمن ایمان قاتل
ردیف میم
کھاؤں کیا عشق میں اس بت کے میں ایماں کے قسم
ردیف نون
اسطرح ہے قبا میں تن جاناں روشن
اک ذرا نبض مریض شب ہجراں دیکھو
ردیف واو
دشت وحشت میں نہ ہو جب کوے انساں ہمراہ
ردیف ہاے ہوز
حاجت خضر نہیں وادی ایماں کے لیے
ردیف الیاء
بیاں وصف ہوں کیونکر کلام فاخر کے
قطعہ تاریخ
اسم تاریخی دیوان فاخر گلشن نظم سن 1300ھ
راہ پر صورت آواز دراہو کہ نہ ہو
ردیف بائے موحدہ
بغیر بادہ وصل انقلاب ہو کہ نہ ہو
روئے تاے فوقانی
امید وبیم حیاب وممات ہو کہ نہ ہو
بلاے قید سے دل مستغیث ہو کہ نہ ہو
روئے ثائے مثلث
روئے جیم معجم
بحال بوسۂ لب سے مزاج ہو کہ نہ ہو
روئے حاے حطی
زبان عراق میں آکر فصیح ہو کہ نہ ہو
لقب جو شاہ ہوروزی فراخ ہو کہ نہ ہو
روے خاے معجم
روے دال مہملہ
عشق بازی میں حیا سے مجھے کد ہو کہ نہ ہو
ترے فراق میں دل درد مند ہو کہ نہ ہو
روے ذال معجم
وہ مہر ہے سوے عشاق حاذ ہو کہ نہ ہو
روئے رائے مہملہ
مرض ہجر میں آثار سحر ہو کہ نہ ہو
ہجو غم میرے دل پر نثار ہو کہ نہ ہو
مژہ کے عشق سے عاشق کو ناز ہو کہ نہ ہو
روے زاے معجمہ
روے سین مہملہ
دور جام مے روتا ر نفس ہو کہ نہ ہو
روے شین معجمہ
جنوں کے جوش میں جوش خروش ہو کہ نہ ہو
حساب حشر سے فاخر خلاص ہو کہ نہ ہو
غلط جو شعر ہو پھر اعتراض ہو کہ نہ ہو
روے صاد مہملہ
روے ضاد معجمہ
جو ہم بغل ہو وہ مہ اختلاط ہو کہ نہ ہو
روے ظائے معجمہ
روے طاے مطبقہ
نہ آئے نزع میں جب وہ نزاع ہو کہ نہ ہو
روے عین مہملہ
ظہور تیرے کرم کا حفیظ ہو کہ نہ ہو
روے غین معجمہ
ہو آئینہ جو دل اسکا تو صاف ہو کہ نہ ہو
روے فاے معجمہ
بسمل زلف سے سینے میں داغ ہو کہ نہ ہو
روے قاف
پھنکے جو صور تو روحوں کو شاق ہو کہ نہ ہو
آتشیں داغ کے شعلوں میں لپک ہو کہ نہ ہو
روے کاف
روئے لام
تمہارے آنکھوں کا دل کو خیال ہو کہ نہ ہو
روے میم
عشق میں ابروئے قاتل کے ستم ہو کہ نہ ہو
تیغ خونخوار سے زخمی میرا تن ہو کہ نہ ہو
روئے نون
دود دل ابر کے مانند رواں ہو کہ نہ ہو
عرش وافلاک وزمیں پر تو ہی تو ہو کہ نہ ہو
روے واؤ
روئے ہائے ہوز
ملک توکل کا شاہ ہو کہ نہ ہو
تیر جب دل پہ پڑے پار مرے ہو کہ نہ ہو
روئے یاء
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.