دیوان غالبؔ غزلیات
نقش فریادی ہے کسکی شوخئ تحریر کا
جز قیسؔ اور کوئی نہ آیا بروئے کار
کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑاپا یا
دل مرا سوز نہاں سے بے محابہ جل گیا
شوقؔ ہر رنگ رقیب سرو ساماں نکلا
دھمکیؔ میں مر گیا جو نہ باب نبرد تھا
ستائش گر ہے زاہد اسقدر جس باغ رضواں کا
دہر میں نقش وفا وجہ تسلی نہ ہوا
نہ ہوگا یک بیاباں ماندگی سے ذوق کم میرا
شب کہ برق سوز دل سے زہرۂ برآب تھا
بزم شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا
اک ایک قطرہ کا مجھے دنیا پڑا حساب
نالۂ دل میں شب انداز اثر نایاب تھا
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آسا ں ہونا
شب خمار شوق ساقی رستخیز اندازہ تھا
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
دوست غمخواری میں میری سعی فرمائینگے کیا
ہوس کو ہے نشاط کا ر کیا کیا
پئے نذر کرم تحفہ ہے شرم نار سائی کا
درخورقہ وغضب جب کوئی ہم سانہ ہوا
گرنہ اندوہ شب فرقت بیاں ہوجائیگا
دردمنت کش دوا نہ ہوا
گلہ ہے شوق کو دل میں تھی بنگی جاکا
جب بہ تقریب سفر یار نے محمل باندھا
یک ذرّۂ زمیں نہیں بیکار باغ کا
پھر مجھے دیدۂ تریاد آیا
لب خشک در تشنگی مردگاں کا
شب کہ وہ مجلس فروز خلوت ناموس تھا
رشک کہتا ہے کہ اس کا غیر سے اخلاص حیف
ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا
سرمہ مفت نظر ہوں مری قیمت یہ ہے
جور سے باز آئے پر باز آئیں کیا
عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
پھر ہوا وقت کہ ہو بال کشاموج شراب
باب الباء
باب التاء
آمد خطہ سے ہوا ہے سرد جو بازار دوست
افسوس کہ دیداں کا کیا رزق فلک نے
گلشن میں بندوبست برنگ دگر ہے آج
باب الجیم
باب جیم فارسی
نفس نہ انجمن آرزو سے باہر کھینچ
حسن غمزہ کی کشاکش سے چھٹامیرے بعد
باب دالمہملہ
باب راء مہملہ
بلا سے ہیں جو یہ پیش نظر درودیوار
کیوں چل گیا نہ تاب رخ یار دیکھ کر
گھر جب بنا لیا ترے در پر کہے بغیر
ہے بسکہ ہر اک ان کے اشار میں نشاں اور
لرزتا ہے مرا دل زحمت مہر درخشاں پر
جنوں کی دستگیری کس سے ہو گرنہ ہو عریانی
لازم تھا کہ دیکھو مرارستا کوئی دن اور
وسعت سعی کرم دیکھ کہ سرتاسرخاک
باب زاء معجمہ
باب سین
نہ گل نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز
مژدہ اے ذوق اسیری کہ نظر آتا ہے
جادۂ رہ خور کو وقت شام ہے تار شعاع
نہ لیوے گر خس جوہر طراوت سبزۂ خط سے
باب عین مہملہ
باب شین معجمہ
زخم پر چھڑکیں کہاں طفلان بے پروانمک
باب کاف تازی
بیم رقیب سے نہیں کرتے و داع ہوش
باب الفاء
باب کاف فارسی
گر تجھ کو ہے یقین اجابت دعا نہ مانگ
ہے کس قدر ہلاک فریب وفائے گل
باب اللام
غم نہیں ہوتا ہے آزاد وں کو پیش ازیک نفس
باب المیم
باب النون
لوں دام بخت خفتہ سے یک خواب خوش ولے
کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں
آبرو کیا خاک اس گل کی کہ گلشن میں نہیں
ہم سے کھل جاؤ بوقت مے پرستی ایک دن
عہدے سے مدح ناز کے باہر نہ آسکا
ہم پر جفا سے ترک وفا کا گماں نہیں
مانع دشت نوردی کوئی تدبیر نہیں
مت مرد مک دیدہ میں سمجھویہ نگاہیں
ملتی ہے خوئے یار سے نارا التہاب میں
کل کے لئے کر آج نہ خست شراب میں
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
ذکر میرا بہ بدی بھی اسے منظور نہیں
دونوں جہاں دیکے وہ سمجھے یہ خوش رہا
نالہ جز حسن طلب اے ستم ایجاد نہیں
نہیں کہ مجھ کو قیامت کا اعتقاد نہیں
ترے تو سن کو صبا باندھتے ہیں
دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں
سب کہاں کچھ لالہ وگل میں نمایاں ہوگئیں
دیوانگی سے دوش پہ زنار بھی نہیں
مرے جہاں کے اپنی نظر میں خاک نہیں
غنچۂ نا شگفتہ کو دور سے مت دکھا کہ یوں
باب الواؤ
قفس میں ہوں گر اچھا بھی نہ جانیں میرے ستون کو
دھوتا ہوں جب میں پینے کو اس سیم تن کے پانوؔ
واں پہنچ کر جو غش آتا پیہم ہے ہم کو
تم جانو تم کو غیر سے جور سم وراہ ہو
گئی وہ بات کہ ہو گفتگو تو کیونکر ہو
رہئے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
باب ہاء ہوز
باب الیاء
ازمہر تابہ ذرّہ دل و دل ہے آئینہ
صد جلوہ رو برو ہے جو مژگاں اٹھائیے
بساط عجز میں تھا ایک دل یکقطرہ خوں وہ بھی
ہے بزم بتاں میں سخن آزردہ لبوں سے
حاصل سے ہاتھ دھو بیٹھ اے آرزو خرامی
غم دنیا سے گر پائی بھی فرصت سر اٹھانے کی
درد سے میرے تجھکو بیقراری ہائے ہائے
گر خامشی سے قائدہ اخفائے حال ہے
سر گشتگی میں عالم ہستی میں یاس ہے
ایک جا حرف وفا لکھا تھا سو بھی مٹ گیا
مری ہستی فضائے حیرت آباد تمنا ہے
عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی
اس بزم میں مجھے نہیں بنتی حیا کئے
ہے آرمیدگی میں نکو ہش بجا مجھے
رفتار عمر قطع رہ اضطراب ہے 68
دیکھنا قسمت کہ آپ اپنے پہ رشک آجائے ہے
گرم فریاد رکھا شکل نہانی نے مجھے
دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی
کوئی دن گر زندگانی اور ہے
تسکیں کو ہم نہ روئیں جو ذوق نظر ملے
کوئی امید بر نہیں آتی
دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
پھر کچھ اک دل کو بیقراری ہے
کہتے تو ہو تم سب کہ بت غالیہ مو آئے
مجنوں تہمت کش تسکیں نہ ہو گر شادمانی کی
بے اعتدالیوں سے سبک سب میں ہم ہوئے
جونہ نقد داغ دل کی کرے شعلہ پاسبانی
ظلمت کدہ میں میرے شب غم کا جوش ہے
پابدامن ہو رہا ہوں بکسہ میں صحرانورد
ہجوم غم سے یاں تک سرنگونی مجھ کو حاصل ہے
حسن مہ گرچہ بہ ہنگام کمال اچھا ہے
نہ ہوئی گر مرے مرنے سے تسلی نہ سہی
عجب نشاط سے جلاّد کے چلے ہیں ہم آگے
شکوہ کے نام سے بے مہر خفا ہوتا ہے
میں انھیں چھیڑوں اور کچھ نہ کہیں
غیر لیں محفل میں بوسے جام کے
پھر اس انداز سے بہار آئی
تغافل دوست ہوں میرا دماغ عجز عالی ہے
نقش ناز بت طنازبآغوش رقیب
ہے وصل ہجر عالم تمکین وضبط میں
سیماب پشت گرمی آئینہ دے ہے ہم
ہر قدم دورئ منزل ہے نمایاں مجھ سے
چاک کی خواہش اگر وحشت بہ عریانی کرے
نکتہ چیں ہے غم دل اسکو سنائے نہ بنے
فریاد کی کوئی لے نہیں ہے
تپش سے میری وقف کشمکش ہر تار بستر ہے
کرے ہے بادہ ترے لب سے کسب رنگ فروغ
نہ پوچھ نسخۂ مرہم جراحت دل کا
دیا ہے دل اگر اس کو بشر ہے کیا کہئے
دیکھکر در پردہ گرم دامن افشانی مجھے
حضور شاہ میں اہل سخن کی آزمائش ہے
یاد ہے شادی میں بھی ہنگامۂ یارب مجھے
زبسکہ مشق تماشا جنوں علامت ہے
کبھی نیکی بھی اسکے جی میں گر آجائے ہے مجھ سے
لاغر اتنا ہوں کہ گر تو بزم میں جاوے مجھے
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
کہوں جو حال تو کہئے ہو مدّعا کہئے
عرض نازشوخئ لو نداں برائے خندہ ہے
رونے سے اور عشق میں بیباک ہو گئے
نشہ بادشاداب رنگ و ساز ہا مست طرب
جب تک دہان زخم نہ پیدا کرے کوئی
ابن مریم ہوا کرے کوئی
باغ پاکر خفقانی یہ ڈرا تا ہے مجھے
بہت سہے غم گیتی شراب کم کیا ہے
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
روندی ہوئی ہے کو کبۂ شہر یار کی
لب عیسیٰ کی جنبش کرتی ہے گہوارہ جنبانی
جس جانسیم شانہ کش زلف یار ہے
آئینہ کیو ں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے
شبنم پہ گل لالہ نہ خالی زاد ا ہے
منظور تھی یہ شکل تجلّی کو نور کی
غم کھانے میں بودا دل ناکام بہت ہے
مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کئے ہوئے
نویدا من ہے بیداد دوست جاں کے لئے
قصائد
ساز یک ذرّہ نہیں فیض چمن سے بیکار
مطلع ثانی
قصیدہ
دہر جز جلوۂ یکتائی معشوق نہیں
قصیدہ
کہہ چکا میں تو سب کچھ اب تو کہہ
زہر غم کر چکا تھا میرا کام
غزل
قصیدہ
صبح دم دروازۂ خاور کھلا
کنج میں بیٹھا رہوں یوں پر کھلا
غزل
پھر ہوا مدحت طرازی کا خیال
ہاں دل در د مند زمزمہ ساز
در صفت انبہ
قطعات
در مدح ڈلی
گئے وہ دن کہ نادانستہ غیروں کی وفاداری
ہے جو صاحب کے کف دست پہ یہ چکنی ڈلی
نہ پوچھ اس کی حقیقت حضور والا نے
منظور ہے گزارش احوال واقعی
بیان مصنف
قطعہ
خوش ہواے بخت کہ ہے آج ترے سر سہرا
نصرۃ الملک بہادر مجھے بتلا کہ مجھے
مدح
اے شاہ جہانگیر جہاں بخش جہاندار
متفرقات
ہے چار شنبہ آخر ماہ صفر چلو
درمدح شاہ
افطار صوم کی کچھ اگر دست گاہ ہو
قطعہ
اے شہنشاہ آسماں اور رنگ
گذارش مصنّف بحضور شاہ
قطعہ تاریخ
سہل تھا سہل ولے یہ سخت مشکل آپڑی
قطعات
قطعہ
خجستہ انجمن طوئے میرزاجعفر
سیہ گلیم ہوں لازم ہے میرا نام نہ لے
قطعہ تاریخ دیگر
رباعیات
دیوان غالبؔ غزلیات
نقش فریادی ہے کسکی شوخئ تحریر کا
جز قیسؔ اور کوئی نہ آیا بروئے کار
کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑاپا یا
دل مرا سوز نہاں سے بے محابہ جل گیا
شوقؔ ہر رنگ رقیب سرو ساماں نکلا
دھمکیؔ میں مر گیا جو نہ باب نبرد تھا
ستائش گر ہے زاہد اسقدر جس باغ رضواں کا
دہر میں نقش وفا وجہ تسلی نہ ہوا
نہ ہوگا یک بیاباں ماندگی سے ذوق کم میرا
شب کہ برق سوز دل سے زہرۂ برآب تھا
بزم شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا
اک ایک قطرہ کا مجھے دنیا پڑا حساب
نالۂ دل میں شب انداز اثر نایاب تھا
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آسا ں ہونا
شب خمار شوق ساقی رستخیز اندازہ تھا
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
دوست غمخواری میں میری سعی فرمائینگے کیا
ہوس کو ہے نشاط کا ر کیا کیا
پئے نذر کرم تحفہ ہے شرم نار سائی کا
درخورقہ وغضب جب کوئی ہم سانہ ہوا
گرنہ اندوہ شب فرقت بیاں ہوجائیگا
دردمنت کش دوا نہ ہوا
گلہ ہے شوق کو دل میں تھی بنگی جاکا
جب بہ تقریب سفر یار نے محمل باندھا
یک ذرّۂ زمیں نہیں بیکار باغ کا
پھر مجھے دیدۂ تریاد آیا
لب خشک در تشنگی مردگاں کا
شب کہ وہ مجلس فروز خلوت ناموس تھا
رشک کہتا ہے کہ اس کا غیر سے اخلاص حیف
ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا
سرمہ مفت نظر ہوں مری قیمت یہ ہے
جور سے باز آئے پر باز آئیں کیا
عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
پھر ہوا وقت کہ ہو بال کشاموج شراب
باب الباء
باب التاء
آمد خطہ سے ہوا ہے سرد جو بازار دوست
افسوس کہ دیداں کا کیا رزق فلک نے
گلشن میں بندوبست برنگ دگر ہے آج
باب الجیم
باب جیم فارسی
نفس نہ انجمن آرزو سے باہر کھینچ
حسن غمزہ کی کشاکش سے چھٹامیرے بعد
باب دالمہملہ
باب راء مہملہ
بلا سے ہیں جو یہ پیش نظر درودیوار
کیوں چل گیا نہ تاب رخ یار دیکھ کر
گھر جب بنا لیا ترے در پر کہے بغیر
ہے بسکہ ہر اک ان کے اشار میں نشاں اور
لرزتا ہے مرا دل زحمت مہر درخشاں پر
جنوں کی دستگیری کس سے ہو گرنہ ہو عریانی
لازم تھا کہ دیکھو مرارستا کوئی دن اور
وسعت سعی کرم دیکھ کہ سرتاسرخاک
باب زاء معجمہ
باب سین
نہ گل نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز
مژدہ اے ذوق اسیری کہ نظر آتا ہے
جادۂ رہ خور کو وقت شام ہے تار شعاع
نہ لیوے گر خس جوہر طراوت سبزۂ خط سے
باب عین مہملہ
باب شین معجمہ
زخم پر چھڑکیں کہاں طفلان بے پروانمک
باب کاف تازی
بیم رقیب سے نہیں کرتے و داع ہوش
باب الفاء
باب کاف فارسی
گر تجھ کو ہے یقین اجابت دعا نہ مانگ
ہے کس قدر ہلاک فریب وفائے گل
باب اللام
غم نہیں ہوتا ہے آزاد وں کو پیش ازیک نفس
باب المیم
باب النون
لوں دام بخت خفتہ سے یک خواب خوش ولے
کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں
آبرو کیا خاک اس گل کی کہ گلشن میں نہیں
ہم سے کھل جاؤ بوقت مے پرستی ایک دن
عہدے سے مدح ناز کے باہر نہ آسکا
ہم پر جفا سے ترک وفا کا گماں نہیں
مانع دشت نوردی کوئی تدبیر نہیں
مت مرد مک دیدہ میں سمجھویہ نگاہیں
ملتی ہے خوئے یار سے نارا التہاب میں
کل کے لئے کر آج نہ خست شراب میں
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
ذکر میرا بہ بدی بھی اسے منظور نہیں
دونوں جہاں دیکے وہ سمجھے یہ خوش رہا
نالہ جز حسن طلب اے ستم ایجاد نہیں
نہیں کہ مجھ کو قیامت کا اعتقاد نہیں
ترے تو سن کو صبا باندھتے ہیں
دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں
سب کہاں کچھ لالہ وگل میں نمایاں ہوگئیں
دیوانگی سے دوش پہ زنار بھی نہیں
مرے جہاں کے اپنی نظر میں خاک نہیں
غنچۂ نا شگفتہ کو دور سے مت دکھا کہ یوں
باب الواؤ
قفس میں ہوں گر اچھا بھی نہ جانیں میرے ستون کو
دھوتا ہوں جب میں پینے کو اس سیم تن کے پانوؔ
واں پہنچ کر جو غش آتا پیہم ہے ہم کو
تم جانو تم کو غیر سے جور سم وراہ ہو
گئی وہ بات کہ ہو گفتگو تو کیونکر ہو
رہئے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
باب ہاء ہوز
باب الیاء
ازمہر تابہ ذرّہ دل و دل ہے آئینہ
صد جلوہ رو برو ہے جو مژگاں اٹھائیے
بساط عجز میں تھا ایک دل یکقطرہ خوں وہ بھی
ہے بزم بتاں میں سخن آزردہ لبوں سے
حاصل سے ہاتھ دھو بیٹھ اے آرزو خرامی
غم دنیا سے گر پائی بھی فرصت سر اٹھانے کی
درد سے میرے تجھکو بیقراری ہائے ہائے
گر خامشی سے قائدہ اخفائے حال ہے
سر گشتگی میں عالم ہستی میں یاس ہے
ایک جا حرف وفا لکھا تھا سو بھی مٹ گیا
مری ہستی فضائے حیرت آباد تمنا ہے
عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی
اس بزم میں مجھے نہیں بنتی حیا کئے
ہے آرمیدگی میں نکو ہش بجا مجھے
رفتار عمر قطع رہ اضطراب ہے 68
دیکھنا قسمت کہ آپ اپنے پہ رشک آجائے ہے
گرم فریاد رکھا شکل نہانی نے مجھے
دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی
کوئی دن گر زندگانی اور ہے
تسکیں کو ہم نہ روئیں جو ذوق نظر ملے
کوئی امید بر نہیں آتی
دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
پھر کچھ اک دل کو بیقراری ہے
کہتے تو ہو تم سب کہ بت غالیہ مو آئے
مجنوں تہمت کش تسکیں نہ ہو گر شادمانی کی
بے اعتدالیوں سے سبک سب میں ہم ہوئے
جونہ نقد داغ دل کی کرے شعلہ پاسبانی
ظلمت کدہ میں میرے شب غم کا جوش ہے
پابدامن ہو رہا ہوں بکسہ میں صحرانورد
ہجوم غم سے یاں تک سرنگونی مجھ کو حاصل ہے
حسن مہ گرچہ بہ ہنگام کمال اچھا ہے
نہ ہوئی گر مرے مرنے سے تسلی نہ سہی
عجب نشاط سے جلاّد کے چلے ہیں ہم آگے
شکوہ کے نام سے بے مہر خفا ہوتا ہے
میں انھیں چھیڑوں اور کچھ نہ کہیں
غیر لیں محفل میں بوسے جام کے
پھر اس انداز سے بہار آئی
تغافل دوست ہوں میرا دماغ عجز عالی ہے
نقش ناز بت طنازبآغوش رقیب
ہے وصل ہجر عالم تمکین وضبط میں
سیماب پشت گرمی آئینہ دے ہے ہم
ہر قدم دورئ منزل ہے نمایاں مجھ سے
چاک کی خواہش اگر وحشت بہ عریانی کرے
نکتہ چیں ہے غم دل اسکو سنائے نہ بنے
فریاد کی کوئی لے نہیں ہے
تپش سے میری وقف کشمکش ہر تار بستر ہے
کرے ہے بادہ ترے لب سے کسب رنگ فروغ
نہ پوچھ نسخۂ مرہم جراحت دل کا
دیا ہے دل اگر اس کو بشر ہے کیا کہئے
دیکھکر در پردہ گرم دامن افشانی مجھے
حضور شاہ میں اہل سخن کی آزمائش ہے
یاد ہے شادی میں بھی ہنگامۂ یارب مجھے
زبسکہ مشق تماشا جنوں علامت ہے
کبھی نیکی بھی اسکے جی میں گر آجائے ہے مجھ سے
لاغر اتنا ہوں کہ گر تو بزم میں جاوے مجھے
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
کہوں جو حال تو کہئے ہو مدّعا کہئے
عرض نازشوخئ لو نداں برائے خندہ ہے
رونے سے اور عشق میں بیباک ہو گئے
نشہ بادشاداب رنگ و ساز ہا مست طرب
جب تک دہان زخم نہ پیدا کرے کوئی
ابن مریم ہوا کرے کوئی
باغ پاکر خفقانی یہ ڈرا تا ہے مجھے
بہت سہے غم گیتی شراب کم کیا ہے
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
روندی ہوئی ہے کو کبۂ شہر یار کی
لب عیسیٰ کی جنبش کرتی ہے گہوارہ جنبانی
جس جانسیم شانہ کش زلف یار ہے
آئینہ کیو ں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے
شبنم پہ گل لالہ نہ خالی زاد ا ہے
منظور تھی یہ شکل تجلّی کو نور کی
غم کھانے میں بودا دل ناکام بہت ہے
مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کئے ہوئے
نویدا من ہے بیداد دوست جاں کے لئے
قصائد
ساز یک ذرّہ نہیں فیض چمن سے بیکار
مطلع ثانی
قصیدہ
دہر جز جلوۂ یکتائی معشوق نہیں
قصیدہ
کہہ چکا میں تو سب کچھ اب تو کہہ
زہر غم کر چکا تھا میرا کام
غزل
قصیدہ
صبح دم دروازۂ خاور کھلا
کنج میں بیٹھا رہوں یوں پر کھلا
غزل
پھر ہوا مدحت طرازی کا خیال
ہاں دل در د مند زمزمہ ساز
در صفت انبہ
قطعات
در مدح ڈلی
گئے وہ دن کہ نادانستہ غیروں کی وفاداری
ہے جو صاحب کے کف دست پہ یہ چکنی ڈلی
نہ پوچھ اس کی حقیقت حضور والا نے
منظور ہے گزارش احوال واقعی
بیان مصنف
قطعہ
خوش ہواے بخت کہ ہے آج ترے سر سہرا
نصرۃ الملک بہادر مجھے بتلا کہ مجھے
مدح
اے شاہ جہانگیر جہاں بخش جہاندار
متفرقات
ہے چار شنبہ آخر ماہ صفر چلو
درمدح شاہ
افطار صوم کی کچھ اگر دست گاہ ہو
قطعہ
اے شہنشاہ آسماں اور رنگ
گذارش مصنّف بحضور شاہ
قطعہ تاریخ
سہل تھا سہل ولے یہ سخت مشکل آپڑی
قطعات
قطعہ
خجستہ انجمن طوئے میرزاجعفر
سیہ گلیم ہوں لازم ہے میرا نام نہ لے
قطعہ تاریخ دیگر
رباعیات
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.