تعارف
انتساب
نقش فریادی ہے کس کی شوخئ تحریر کا!
کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا
جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار
دل مرا سوز نہاں سے بے محا باجل گیا
شوق ہر رنگ رقیب سرو ساماں نکلا
دھمکی میں مر گیا ، جو نہ باب نبرد تھا
شمار سبحہ مرغوب بت مشکل پسند آیا
دہر میں نقش وفا وجہ تسلی نہ ہوا
ستائش گر ہے زاہد قد ر جس باغ رضواں کا
سراپا رہن عشق وناگزیر الفت ہستی
نہ ہوگا یک بیاباں ماند گی سے ذوق کم میرا
محرم نہیں ہے توہی نوائے راز کا
شب کہ برق سوز دل سے زہرۂ ابر آب تھا
بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
ایک ایک قطرے کا مجھے دینا پڑا حساب
شب خمار شوق ساقی رستخیر اندازہ تھا
دوست غمخواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا؟
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا
درخور قہر و غضب جب کوئی ہم سانہ ہوا
پأ نذر کرم تحفہ ہے شرم نار سائی کا
گر نہ اندوہ شب فرقت بیاں ہو جائے گا
درد منّت کش دوانہ ہوا
گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگئ جاکا
قطرۂ مے بس کہ حیرت سے نفس پرور ہوا
میں اور بزم مے سے یوں تشنہ کام آؤں!
جب ، بہ تقریب سفر یار نے محمل باندھا
گھر ہمارا جو نہ روتے بھی تو ویراں ہوتا
یک ذرّہ زمیں نہیں بے کار باغ کا
وہ مری چین جبیں سے غم پنہاں سمجھا
پھر مجھے دیدۂ تریاد آیا
ہوئی تاخیر ، تو کچھ باعث تاغیر بھی تھا
تو دوست کسی کا بھی ستم گر نہ ہوا تھا
لب خشک، در تشنگی مرد گاں کا
شب کہ وہ مجلس فروز خلوت ناموس تھا
آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے
عرض نیاز عشق کے قابل نہیں رہا
رشک کہتا ہے کہ اس کا غیر سے اخلاص حیف!
ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا
سرمۂ مفت نظرہوں مری قیمت یہ ہے
جور سے باز آئے پر بازآئیں کیا
لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی
عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
پھر ہوا وقت، کہ ہو بال کشا موج شراب
ردیف ب
افسوس کہ دنداں کا کیا رزق فلک نے
ردیف ت
آمد خط سے ہوا ہے سرد، جو بازار دوست
گلشن میں بندو بست برنگ دگر ہے آج
ردیف ج
نفس نہ انجمن آرزو سے باہر کھینچ
ردیف چ
حسن غمزے کی کشاکش سے چھٹا میرے بعد
ردیف د
بلا سے ہیں جو یہ پیش نظر درو دیوار
ردیف ر
گھر جب بنا لیا ترے در پر کہے بغیر
کیوں جل گیا نہ تاب رخ یاد دیکھ کر
لرزتا ہے مرا دل زحمت مہردرخشاں پر
ہے بس کہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور
صفائے حیرت آئینہ ہے سمامان رنگ آخر
جنوں کی دستگیری کس سے ہو گر ہو نہ عریانی
لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دن اور
حریف مطلب مشکل نہیں ، فسون نیاز
فارغ مجھے نہ جان کہ مانند صبح ومہر
ردیف ز
وسعت سعئ کرم دیکھ کر سرتاسر خاک
کیونکر اس بت سے رکھوں جان عزیز
نہ گل نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز
مژدہ، اے ذوق اسیری کہ نظر آتا ہے
ردیف س
ردیف ش
نہ لیوے گر خش جو ہر طراوت سبزۂ خط سے
جادۂ رہ خور کو وقت شام ہے تار شعاع
ردیف ع
رخ نگار سے ہے سوز جاو دانی شمع
ردیف ف
بیم رقیب سے نہیں کرتے دو داع ہوش
ردیف ک
زخم پر چھڑکیں کہاں طفلان بے پروا نمک
آہ کو چاہئے اک عمر اثر ہونے تک
ردیف گ
گر تجھ کو ہے یقین اجابت دعا نہ مانگ
ہے کس قدر ہلاک فریب ہوائے گل
ردیف ل
غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش ازیک نفس
ردیف م
ردیف ن
مجھ کو دیار غیر میں مارا وطن سے دور
لوں وام نجت خفتہ سے یک خواب خوش ولے
وہ فراق اور وہ وصال کہاں
کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں
آبرو کیاخاک اس گل کی کہ گلشن میں نہیں
عہدے سے مدح ناز کے باہر نہ آسکا
مہر باں ہو کے بلا لو مجھے چاہو جس وقت
ہم سے کھل جاؤ بوقت مے پرستی ایک دن
ہم پر جفا سے ترک وفا کا گماں نہیں
مانع دشت نوردی کوئی تدبیر نہیں
عشق تاثیر سے نومید نہیں
مت مرد مک دیدہ میں سمجھو یہ نگاہیں
بر شگال دیدۂ عاشق ہے دیکھا چاہئے
جہاں تیرا نقش قدم دیکھتے ہیں
ملتی ہے خوئے یار سے نارا التہاب میں
کل کے لئے کر آج نہ خست شراب میں
حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
ذکر میرا بہ بدی بھی اسے منظور نہیں
نالہ جز حسن طلب اے ستم ایجاد نہیں
دونوں جہاں دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا
ہو گئی ہے غیر کہ شیریں زبانی کار گر
نہ کر سر گرم اس کافر کو الفت آزمانے میں
قیامت ہے کہ سن لیلیٰ کا دشت قیس میں آنا
یہ ہم جو بحر میں دیوار و در کو دیکھتے ہیں
نہیں کہ مجھ کو قیامت کا اعتقاد نہیں
تیرے تو سن کو صبا باندھتے ہیں
دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں
دیوانگی سے دوش پہ زنار بھی نہیں
نہیں ہے زخم کوئی نجیئے کے درخور مرے تن میں
مزے جہان کے اپنی نظر میں خاک نہیں
دل ہی تو ہے نہ سنگ وخشت درد سے بھر نہ آئے کیوں؟
غنچہ نا شگفتہ کو دور سے مت دکھا کہ یوں
کعبے میں جارہا تو نہ دو طعنہ کیا کہیں
حسد سے دل اگر افسردہ ہے گرم تماشا ہو
ردیف و
وارستہ اس سے ہیں کہ محبت ہی کیوں نہ ہو
قفس میں ہوں، گر اچھا بھی نہ جانیں میرے شیون کو
دھوتا ہوں جب میں پینے کو اس سیم تن کے پانو
واں اس کو ہول دل ہے تو یاں میں ہوں شرمسار
واں پہنچ کر جو غش آتا پئے ہم ہے ہم کو
قطعہ
لکھنؤ آنے کا باعث نہیں کھلتا یعنی
تم جانو تم کو غیر سے جورسم وراہ ہو
گئی وہ بات کہ ہو گفتگو تو کیوں کر ہو
کسی کو دے کے دل کوئی نواسنج فغاں کیوں ہو؟
رہئے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
از مہر تابہ ذرّہ، دل و دل ہے آئنہ
ہے سبزہ زار ہر درو دیوار غم کدہ
ردیف ہ
ردیف ی
صد جلوہ رو بہ رو ہے جو مژگاں اٹھائیے
مسجد کے زیر سایہ خرابات چاہئے
بساط عجز میں تھا ایک دل یک قطرہ خوں وہ بھی
ہے بزم بتاں میں سخن آزردہ لبوں سے
غم دنیا سے گر پائی بھی فرصت سر اٹھانے کی
گھر میں تھا کیا کہ ترا غم اسے غارت کرتا
حاصل سے ہاتھ دھو بیٹھ اے آرزو خرامی
کیا تنگ ہم ستمزدگاں کا جہاں ہے!
درد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے!
سر گشتگی میں عالم ہستی سے یاس ہے
گر خامشی سے فائدہ اخفائے حال ہے
تم اپنے شکوے کی باتیں نہ کھو د کھود کر پوچھو
مری ہستی فضائے حیرت آباد تمنا ہے
چشم خوباں خامشی میں بھی نوا پرواز ہے
عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی
ہے آرمیدگی میں نکو ہش بجا مجھے
اس بزم میں مجھے نہیں بنتی حیا کیے
رفتار عمر قطع رہ اضطراب ہے
دیکھنا قسمت کہ آپ اپنے پہ رشک آجائے ہے
گرم فریادرکھا شکل نہالی نے مجھے
کار گاہ ہستی میں لالہ داغ ساماں ہے
سادگی پر اس کی مرجانے کی حسرت دل میں ہے
دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی
تسکیں کو ہم نہ روئیں جو ذوق نظر ملے
کوئی دن گر زندگانی اور ہے
کوئی امید بر نہیں آتی
دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے؟
کہتے تو ہو تم سب کہ بت غالیہ مو آئے
پھر کچھ اک دل کو بیقراری ہے
جنوں تہمت کش تسکیں نہ ہو گر شادمانی کی
بے اعتدالیوں سے سبک سب میں ہم ہوئے
جو نہ نقد داغ دل کی کرے شعلہ پاسبانی
ظلمت کدے میں میرے شب غم کا جوش ہے
اے تازہ وار دان بساط ہوائے دل!
قطعہ
نہ ہوئی گر مرے مرنے سے تسلی نہ سہی
عجب نشاط سے جلاّد کے چلے ہیں ہم آگے
شکوے کے نام سے بے مہر خفا ہوتا ہے
خامہ میرا کہ وہ ہے بار بد بزم سخن
قطعہ
ہر اک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
آکہ مری جان کو قرار نہیں ہے
میں انہیں چھیڑوں اور کچھ نہ کہیں
ہجوم غم سے یاں تک سرنگونی مجھ کو حاصل ہے
پابہ دامن ہو رہا ہوں بس کہ میں صحرا نورد
جس بزم میں تو ناز سے گفتار میں آوے
حسن مہ گرچہ بہ ہنگام کمال اچھا ہے
پھر اس انداز سے بہار آئی
غزلیں محفل میں بوسے جام کے
کہ زمیں ہوگئی ہے سر تاسر
تغافل دوست ہو ں میرا دماغ عجز عالی ہے
کب وہ سنتا ہے کہانی میری؟
نقش ناز بت طنازبہ آغوش رقیب
گلشن کو تری صحبت از بس کہ پسند آئی ہے
جس زخم کی ہو سکتی ہو تدبیر رفو کی
سیماب پشت گرمئ آئینہ دے ہے ہم
چاہئے اچھوں کو جتنا چاہئے
ہے وصل ہجر عالم تمکین وضبط میں
ہر قدم دورئ منزل ہے نمایاں مجھ سے
نکتہ چیں ہے غم دل اس کو سنائے نہ بنے
چاک کی خواہش اگر وحشت بہ عریانی کرے
وہ آکے خواب میں تسکین اضطراب تو دے
تپش سے میری وقف کشمکش ہر تار بستر ہے
خطرے ہے رشتۂ الفت رگ گردن نہ ہو جائے
فریاد کی کوئی لے نہیں ہے
نہ پوچھ نسخۂ مرہم جراحت دل کا
ہم رشک کو اپنے بھی گوارا نہیں کرتے
کرے ہے بادہ ترے لب سے کسب رنگ فروغ
کیوں نہ ہو چشم بتاں محو تغافل کیوں نہ ہو؟
دیا ہے دل اگر اس کو بشر ہے کیا کہیّے
دیکھ کر در پردہ گرم دامن افشانی مجھے
یاد ہے شادی میں بھی ہنگامۂ یارب مجھے
حضور شاہ میں اہل سخن کی آزمائش ہے
کبھی نیکی بھی اسکے جی میں گر آجائے ہے مجھ سے
لاغر اتنا ہوں کہ گر تو بزم میں جادے مجھے
زبس کہ مشق تماشا جنوں علامت ہے
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
کہوں جو حال تو کہتے ہو مدعا کہیے
رونے سے اور عشق میں بیاک ہو گئے
نشہ ہا شاداب رنگ و ساز ہامست طرب
حسن بے پروا خریدار متاع جلوہ ہے
غرض ناز شوخی دنداں برائے خندہ ہے
جب تک وہاں زخم نہ پیدا کرے کوئی
ابن مریم ہوا کرے کوئی
بہت سہی غم گیتی شراب کم کیا ہے؟
باغ پاکر خفقانی یہ ڈراتا ہے مجھے
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
روندی ہوئی ہے کو کبۂ شہر یار کی
کوہ کے ہوں باز خاطر گر صدا ہو جائیے
لب عیسیٰ کی جنبش کرتی ہے گہوارہ جنبانی
آمد سیلاب طوفان صدائے آب ہے
مستی بہ ذوق غفلت ساقی ہلاک ہے
ہو ں میں بھی تماشائی نیرنگ تمنا
ہجوم نالہ حیرت عاجز عرض یک افغاں ہے
سیاہی جیسے گر جائے دم تحریر کاغذ پر
خموشیوں میں تماشا ادا نکلتی ہے
جس جانسیم شانہ کش زلف یار ہے
آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے
شبنم بہ گل لالہ نہ خالی زادا ہے
منظور تھی یہ شکل تجلی کو نور کی
غم کھانے میں بودا دل نا کام بہت ہے
مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کئے ہوئے
نویدا من ہے بے داد دوست جاں کیلئے
ساز یک ذرہ نہیں فیض چمن سے بے کار
قصائد
مطلع ثانی
فیض سے تیرے ہے اے شمع شبستان بہار
دہر جز جلوۂ یکتائی معشوق نہیں
منقبت میں
ہا ں مہ نو سنیں ہم اس کا نام
شاہ ظفر کی مدح میں عید الفطر کے موقع پر لکھا گیا
تجھ کو کیا پایہ روشناسی کا
کہہ چکا میں تو سب کچھ اب تو کہہ
غزل
زہر غم کر چکا تھا میرا کام
فن صورت گری میں تیرا گزر
رعد کا کررہی ہے کیا دم بند
صبح دم دروازہ خادرکھلا
تو سن شہ میں وہ خوبی ہے کہ جب
قطعہ
کنج میں بیٹھا رہوں یوں پر کھلا
غزل
پھر ہوا مدحت طرازی کا خیال
مثنوی آموں کی تعریف میں
ہاں دل درد مند زمزمہ ساز
اے شہنشاہ فلک منظر بے مثل و نظیر!
قطعات
کلکتے کا جو ذکر کیا تونے ہم نشیں
گئے وہ دن کہ نادانستہ غیروں کی وفاداری
ہے جو صاحب کے کف دست پہ یہ چکنی ڈلی
نہ پوچھ اس کی حقیقت حضور والا نے
مسی آلودہ سر انگشت حسیناں لکھئیے
سہرا
خوش ہو اے بخت کہ ہے آج ترے سر سہرا
منظور ہے گزارش احوال واقعی
نصرت الملک بہادر! مجھے بتلا کہ مجھے
ہے چار شنبہ آخر ماہ صفر چلو
اے شاہ جہاں گیر جہاں بخش جہاندار
افطار صوم کی کچھ اگر دستگاہ ہو
اے شہنشاہ آسماں اورنگ!
سیہ گلیم ہوں لازم ہے میرا نام نہ لے
خجتہ انجمن طوئے میر ز اجعفر
گو ایک بادشاہ کے سب خانہ زاد ہیں
رباعیات
بعد از اتمام بزم عیدا اطفال
مرحبا سال فرّخی آئیں
وہ اشعار اور قطعات جو دو اوین مروجہ میں نہیں ہیں
قطعہ
ایک اہل درد نے سنسان جو دیکھا قفس
قطعہ تاریخ
اس کتاب طرب نصاب نے جب
غزل
شب وصال میں مونس گیا ہے بن تکیہ
جس دن سے کہ ہم خستہ گرفتار بلا ہیں
میں ہوں مشتاق جفا مجھ پہ جفا اور سہی
بس کہ فعال مایرید ہے آج
بہ رمن شرم ہے باوصف شوخی اہتمام اس کا
دود کو آج اسکے ماتم میں سیہ پوشی ہوئی
پھر وہ سوئے چمن آتا ہے خدا خیر کرے
ہندوستان سایہ گل پائے تخت تھا
ظاہر ہیں میری شکل سے افسوس کے نشاں
ہجوم ریزش خوں کے سبب رنگ اڑ نہیں سکتا
تعارف
انتساب
نقش فریادی ہے کس کی شوخئ تحریر کا!
کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا
جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار
دل مرا سوز نہاں سے بے محا باجل گیا
شوق ہر رنگ رقیب سرو ساماں نکلا
دھمکی میں مر گیا ، جو نہ باب نبرد تھا
شمار سبحہ مرغوب بت مشکل پسند آیا
دہر میں نقش وفا وجہ تسلی نہ ہوا
ستائش گر ہے زاہد قد ر جس باغ رضواں کا
سراپا رہن عشق وناگزیر الفت ہستی
نہ ہوگا یک بیاباں ماند گی سے ذوق کم میرا
محرم نہیں ہے توہی نوائے راز کا
شب کہ برق سوز دل سے زہرۂ ابر آب تھا
بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
ایک ایک قطرے کا مجھے دینا پڑا حساب
شب خمار شوق ساقی رستخیر اندازہ تھا
دوست غمخواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا؟
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا
درخور قہر و غضب جب کوئی ہم سانہ ہوا
پأ نذر کرم تحفہ ہے شرم نار سائی کا
گر نہ اندوہ شب فرقت بیاں ہو جائے گا
درد منّت کش دوانہ ہوا
گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگئ جاکا
قطرۂ مے بس کہ حیرت سے نفس پرور ہوا
میں اور بزم مے سے یوں تشنہ کام آؤں!
جب ، بہ تقریب سفر یار نے محمل باندھا
گھر ہمارا جو نہ روتے بھی تو ویراں ہوتا
یک ذرّہ زمیں نہیں بے کار باغ کا
وہ مری چین جبیں سے غم پنہاں سمجھا
پھر مجھے دیدۂ تریاد آیا
ہوئی تاخیر ، تو کچھ باعث تاغیر بھی تھا
تو دوست کسی کا بھی ستم گر نہ ہوا تھا
لب خشک، در تشنگی مرد گاں کا
شب کہ وہ مجلس فروز خلوت ناموس تھا
آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے
عرض نیاز عشق کے قابل نہیں رہا
رشک کہتا ہے کہ اس کا غیر سے اخلاص حیف!
ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا
سرمۂ مفت نظرہوں مری قیمت یہ ہے
جور سے باز آئے پر بازآئیں کیا
لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی
عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
پھر ہوا وقت، کہ ہو بال کشا موج شراب
ردیف ب
افسوس کہ دنداں کا کیا رزق فلک نے
ردیف ت
آمد خط سے ہوا ہے سرد، جو بازار دوست
گلشن میں بندو بست برنگ دگر ہے آج
ردیف ج
نفس نہ انجمن آرزو سے باہر کھینچ
ردیف چ
حسن غمزے کی کشاکش سے چھٹا میرے بعد
ردیف د
بلا سے ہیں جو یہ پیش نظر درو دیوار
ردیف ر
گھر جب بنا لیا ترے در پر کہے بغیر
کیوں جل گیا نہ تاب رخ یاد دیکھ کر
لرزتا ہے مرا دل زحمت مہردرخشاں پر
ہے بس کہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور
صفائے حیرت آئینہ ہے سمامان رنگ آخر
جنوں کی دستگیری کس سے ہو گر ہو نہ عریانی
لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دن اور
حریف مطلب مشکل نہیں ، فسون نیاز
فارغ مجھے نہ جان کہ مانند صبح ومہر
ردیف ز
وسعت سعئ کرم دیکھ کر سرتاسر خاک
کیونکر اس بت سے رکھوں جان عزیز
نہ گل نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز
مژدہ، اے ذوق اسیری کہ نظر آتا ہے
ردیف س
ردیف ش
نہ لیوے گر خش جو ہر طراوت سبزۂ خط سے
جادۂ رہ خور کو وقت شام ہے تار شعاع
ردیف ع
رخ نگار سے ہے سوز جاو دانی شمع
ردیف ف
بیم رقیب سے نہیں کرتے دو داع ہوش
ردیف ک
زخم پر چھڑکیں کہاں طفلان بے پروا نمک
آہ کو چاہئے اک عمر اثر ہونے تک
ردیف گ
گر تجھ کو ہے یقین اجابت دعا نہ مانگ
ہے کس قدر ہلاک فریب ہوائے گل
ردیف ل
غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش ازیک نفس
ردیف م
ردیف ن
مجھ کو دیار غیر میں مارا وطن سے دور
لوں وام نجت خفتہ سے یک خواب خوش ولے
وہ فراق اور وہ وصال کہاں
کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں
آبرو کیاخاک اس گل کی کہ گلشن میں نہیں
عہدے سے مدح ناز کے باہر نہ آسکا
مہر باں ہو کے بلا لو مجھے چاہو جس وقت
ہم سے کھل جاؤ بوقت مے پرستی ایک دن
ہم پر جفا سے ترک وفا کا گماں نہیں
مانع دشت نوردی کوئی تدبیر نہیں
عشق تاثیر سے نومید نہیں
مت مرد مک دیدہ میں سمجھو یہ نگاہیں
بر شگال دیدۂ عاشق ہے دیکھا چاہئے
جہاں تیرا نقش قدم دیکھتے ہیں
ملتی ہے خوئے یار سے نارا التہاب میں
کل کے لئے کر آج نہ خست شراب میں
حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
ذکر میرا بہ بدی بھی اسے منظور نہیں
نالہ جز حسن طلب اے ستم ایجاد نہیں
دونوں جہاں دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا
ہو گئی ہے غیر کہ شیریں زبانی کار گر
نہ کر سر گرم اس کافر کو الفت آزمانے میں
قیامت ہے کہ سن لیلیٰ کا دشت قیس میں آنا
یہ ہم جو بحر میں دیوار و در کو دیکھتے ہیں
نہیں کہ مجھ کو قیامت کا اعتقاد نہیں
تیرے تو سن کو صبا باندھتے ہیں
دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں
دیوانگی سے دوش پہ زنار بھی نہیں
نہیں ہے زخم کوئی نجیئے کے درخور مرے تن میں
مزے جہان کے اپنی نظر میں خاک نہیں
دل ہی تو ہے نہ سنگ وخشت درد سے بھر نہ آئے کیوں؟
غنچہ نا شگفتہ کو دور سے مت دکھا کہ یوں
کعبے میں جارہا تو نہ دو طعنہ کیا کہیں
حسد سے دل اگر افسردہ ہے گرم تماشا ہو
ردیف و
وارستہ اس سے ہیں کہ محبت ہی کیوں نہ ہو
قفس میں ہوں، گر اچھا بھی نہ جانیں میرے شیون کو
دھوتا ہوں جب میں پینے کو اس سیم تن کے پانو
واں اس کو ہول دل ہے تو یاں میں ہوں شرمسار
واں پہنچ کر جو غش آتا پئے ہم ہے ہم کو
قطعہ
لکھنؤ آنے کا باعث نہیں کھلتا یعنی
تم جانو تم کو غیر سے جورسم وراہ ہو
گئی وہ بات کہ ہو گفتگو تو کیوں کر ہو
کسی کو دے کے دل کوئی نواسنج فغاں کیوں ہو؟
رہئے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
از مہر تابہ ذرّہ، دل و دل ہے آئنہ
ہے سبزہ زار ہر درو دیوار غم کدہ
ردیف ہ
ردیف ی
صد جلوہ رو بہ رو ہے جو مژگاں اٹھائیے
مسجد کے زیر سایہ خرابات چاہئے
بساط عجز میں تھا ایک دل یک قطرہ خوں وہ بھی
ہے بزم بتاں میں سخن آزردہ لبوں سے
غم دنیا سے گر پائی بھی فرصت سر اٹھانے کی
گھر میں تھا کیا کہ ترا غم اسے غارت کرتا
حاصل سے ہاتھ دھو بیٹھ اے آرزو خرامی
کیا تنگ ہم ستمزدگاں کا جہاں ہے!
درد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے!
سر گشتگی میں عالم ہستی سے یاس ہے
گر خامشی سے فائدہ اخفائے حال ہے
تم اپنے شکوے کی باتیں نہ کھو د کھود کر پوچھو
مری ہستی فضائے حیرت آباد تمنا ہے
چشم خوباں خامشی میں بھی نوا پرواز ہے
عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی
ہے آرمیدگی میں نکو ہش بجا مجھے
اس بزم میں مجھے نہیں بنتی حیا کیے
رفتار عمر قطع رہ اضطراب ہے
دیکھنا قسمت کہ آپ اپنے پہ رشک آجائے ہے
گرم فریادرکھا شکل نہالی نے مجھے
کار گاہ ہستی میں لالہ داغ ساماں ہے
سادگی پر اس کی مرجانے کی حسرت دل میں ہے
دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی
تسکیں کو ہم نہ روئیں جو ذوق نظر ملے
کوئی دن گر زندگانی اور ہے
کوئی امید بر نہیں آتی
دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے؟
کہتے تو ہو تم سب کہ بت غالیہ مو آئے
پھر کچھ اک دل کو بیقراری ہے
جنوں تہمت کش تسکیں نہ ہو گر شادمانی کی
بے اعتدالیوں سے سبک سب میں ہم ہوئے
جو نہ نقد داغ دل کی کرے شعلہ پاسبانی
ظلمت کدے میں میرے شب غم کا جوش ہے
اے تازہ وار دان بساط ہوائے دل!
قطعہ
نہ ہوئی گر مرے مرنے سے تسلی نہ سہی
عجب نشاط سے جلاّد کے چلے ہیں ہم آگے
شکوے کے نام سے بے مہر خفا ہوتا ہے
خامہ میرا کہ وہ ہے بار بد بزم سخن
قطعہ
ہر اک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
آکہ مری جان کو قرار نہیں ہے
میں انہیں چھیڑوں اور کچھ نہ کہیں
ہجوم غم سے یاں تک سرنگونی مجھ کو حاصل ہے
پابہ دامن ہو رہا ہوں بس کہ میں صحرا نورد
جس بزم میں تو ناز سے گفتار میں آوے
حسن مہ گرچہ بہ ہنگام کمال اچھا ہے
پھر اس انداز سے بہار آئی
غزلیں محفل میں بوسے جام کے
کہ زمیں ہوگئی ہے سر تاسر
تغافل دوست ہو ں میرا دماغ عجز عالی ہے
کب وہ سنتا ہے کہانی میری؟
نقش ناز بت طنازبہ آغوش رقیب
گلشن کو تری صحبت از بس کہ پسند آئی ہے
جس زخم کی ہو سکتی ہو تدبیر رفو کی
سیماب پشت گرمئ آئینہ دے ہے ہم
چاہئے اچھوں کو جتنا چاہئے
ہے وصل ہجر عالم تمکین وضبط میں
ہر قدم دورئ منزل ہے نمایاں مجھ سے
نکتہ چیں ہے غم دل اس کو سنائے نہ بنے
چاک کی خواہش اگر وحشت بہ عریانی کرے
وہ آکے خواب میں تسکین اضطراب تو دے
تپش سے میری وقف کشمکش ہر تار بستر ہے
خطرے ہے رشتۂ الفت رگ گردن نہ ہو جائے
فریاد کی کوئی لے نہیں ہے
نہ پوچھ نسخۂ مرہم جراحت دل کا
ہم رشک کو اپنے بھی گوارا نہیں کرتے
کرے ہے بادہ ترے لب سے کسب رنگ فروغ
کیوں نہ ہو چشم بتاں محو تغافل کیوں نہ ہو؟
دیا ہے دل اگر اس کو بشر ہے کیا کہیّے
دیکھ کر در پردہ گرم دامن افشانی مجھے
یاد ہے شادی میں بھی ہنگامۂ یارب مجھے
حضور شاہ میں اہل سخن کی آزمائش ہے
کبھی نیکی بھی اسکے جی میں گر آجائے ہے مجھ سے
لاغر اتنا ہوں کہ گر تو بزم میں جادے مجھے
زبس کہ مشق تماشا جنوں علامت ہے
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
کہوں جو حال تو کہتے ہو مدعا کہیے
رونے سے اور عشق میں بیاک ہو گئے
نشہ ہا شاداب رنگ و ساز ہامست طرب
حسن بے پروا خریدار متاع جلوہ ہے
غرض ناز شوخی دنداں برائے خندہ ہے
جب تک وہاں زخم نہ پیدا کرے کوئی
ابن مریم ہوا کرے کوئی
بہت سہی غم گیتی شراب کم کیا ہے؟
باغ پاکر خفقانی یہ ڈراتا ہے مجھے
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
روندی ہوئی ہے کو کبۂ شہر یار کی
کوہ کے ہوں باز خاطر گر صدا ہو جائیے
لب عیسیٰ کی جنبش کرتی ہے گہوارہ جنبانی
آمد سیلاب طوفان صدائے آب ہے
مستی بہ ذوق غفلت ساقی ہلاک ہے
ہو ں میں بھی تماشائی نیرنگ تمنا
ہجوم نالہ حیرت عاجز عرض یک افغاں ہے
سیاہی جیسے گر جائے دم تحریر کاغذ پر
خموشیوں میں تماشا ادا نکلتی ہے
جس جانسیم شانہ کش زلف یار ہے
آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے
شبنم بہ گل لالہ نہ خالی زادا ہے
منظور تھی یہ شکل تجلی کو نور کی
غم کھانے میں بودا دل نا کام بہت ہے
مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کئے ہوئے
نویدا من ہے بے داد دوست جاں کیلئے
ساز یک ذرہ نہیں فیض چمن سے بے کار
قصائد
مطلع ثانی
فیض سے تیرے ہے اے شمع شبستان بہار
دہر جز جلوۂ یکتائی معشوق نہیں
منقبت میں
ہا ں مہ نو سنیں ہم اس کا نام
شاہ ظفر کی مدح میں عید الفطر کے موقع پر لکھا گیا
تجھ کو کیا پایہ روشناسی کا
کہہ چکا میں تو سب کچھ اب تو کہہ
غزل
زہر غم کر چکا تھا میرا کام
فن صورت گری میں تیرا گزر
رعد کا کررہی ہے کیا دم بند
صبح دم دروازہ خادرکھلا
تو سن شہ میں وہ خوبی ہے کہ جب
قطعہ
کنج میں بیٹھا رہوں یوں پر کھلا
غزل
پھر ہوا مدحت طرازی کا خیال
مثنوی آموں کی تعریف میں
ہاں دل درد مند زمزمہ ساز
اے شہنشاہ فلک منظر بے مثل و نظیر!
قطعات
کلکتے کا جو ذکر کیا تونے ہم نشیں
گئے وہ دن کہ نادانستہ غیروں کی وفاداری
ہے جو صاحب کے کف دست پہ یہ چکنی ڈلی
نہ پوچھ اس کی حقیقت حضور والا نے
مسی آلودہ سر انگشت حسیناں لکھئیے
سہرا
خوش ہو اے بخت کہ ہے آج ترے سر سہرا
منظور ہے گزارش احوال واقعی
نصرت الملک بہادر! مجھے بتلا کہ مجھے
ہے چار شنبہ آخر ماہ صفر چلو
اے شاہ جہاں گیر جہاں بخش جہاندار
افطار صوم کی کچھ اگر دستگاہ ہو
اے شہنشاہ آسماں اورنگ!
سیہ گلیم ہوں لازم ہے میرا نام نہ لے
خجتہ انجمن طوئے میر ز اجعفر
گو ایک بادشاہ کے سب خانہ زاد ہیں
رباعیات
بعد از اتمام بزم عیدا اطفال
مرحبا سال فرّخی آئیں
وہ اشعار اور قطعات جو دو اوین مروجہ میں نہیں ہیں
قطعہ
ایک اہل درد نے سنسان جو دیکھا قفس
قطعہ تاریخ
اس کتاب طرب نصاب نے جب
غزل
شب وصال میں مونس گیا ہے بن تکیہ
جس دن سے کہ ہم خستہ گرفتار بلا ہیں
میں ہوں مشتاق جفا مجھ پہ جفا اور سہی
بس کہ فعال مایرید ہے آج
بہ رمن شرم ہے باوصف شوخی اہتمام اس کا
دود کو آج اسکے ماتم میں سیہ پوشی ہوئی
پھر وہ سوئے چمن آتا ہے خدا خیر کرے
ہندوستان سایہ گل پائے تخت تھا
ظاہر ہیں میری شکل سے افسوس کے نشاں
ہجوم ریزش خوں کے سبب رنگ اڑ نہیں سکتا
Thanks, for your feedback
अध्ययन जारी रखने के लिए कृपया कोड अंकित करें। कुछ सुरक्षा कारणों से यह आवश्यक है। इस सहयोग के लिए आपके आभारी होंगे।