سرورق
سخنہائے گفتنی
غزلیات
شوق ہررنگ رقیب سروساماں نکلا
دہر میں نقش وفا وجہ تسلّی نہ ہوا
دھمکی میں مرگیا جو نہ باب نبرد تھا
محرم نہیں ہے تو ہی نواہاے راز کا
ستایش گر ہے زاہد اس قدر جس باغ رضواں کا
بزم شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا
شب کہ برق سوز دل سے زہرہ ابر آب تھا
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
ایک ایک قطرہ کا مجھے دینا پڑا حساب
شب خمار شوق ساقی رستخیز اندازہ تھا
یہ نہ تھی ہماری قسمت کی وصال یار ہوتا
دوست غمخواری میں میری سعی فرمائینگے کیا
ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا
در خور سہر وغضب جب کوئی ہمسانہ ہوا
پئے نذر کرم تحفہ ہے شرم نارسائی کا
گرنہ اندوہ شب فرقت بیاں ہوجائیگا
گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگئی جاکا
درد منت کش دوانہ ہوا
گھر ہمارا جو نہ روتے بھی تو ویراں ہوتا
میں اور بزم مے سے یوں تشنہ کام آؤں
جب بتقریب سفر یار نے محمل باندھا
قطرۂ مے بسکہ حیرت سے نفس پرور ہوا
یک ذرّۂ زمیں نہیں بیکار باغ کا
پھر مجھے دیدہ تریاد آیا
وہ مری چین جبیں سے غم پنہاں سمجھا
ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا
لب خشک در تشنگی مردگاں کا
عرض نیاز عشق کے قابل نہیں رہا
آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے
شب کہ وہ مجلس فروز خلوت ناموس تھا
تو دوست کسی کا بھی ستمگر نہ ہوا تھا
ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا
رشک کہتا ہے کہ اس کا غیر سے اخلاص حیف!
غافل بہ وہم ناز خود آرا ہے ورنہ یاں
جور سے باز آئے پر باز آئیں کیا
لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی
نہ ہوگا یک بیاباں ماندگی سے ذوق کم میرا
شمار سبحہ مرغوب بت مشکل پسند آیا
دل ہوا کشمکش چارۂ زحمت میں تمام
سراپا رہن عشق وناگزیر الفت ہستی
پھر ہوا وقت کہ ہو بال کشا موج شراب
ردیف ب
ردیف ت
افسوس کہ دیداں کا کیا رزق فلک نے
رہا گر کوئی تا قیامت سلامت
مندگئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں غالب
ردیف د
ردیف ج
ردیف چ
گلشن میں بندوبست برنگ دگر ہے آج
حسن غمزے کی کشاکش سے چھٹا میرے بعد
نفس نہ انجمن آرزو سے باہر کھینچ
ردیف ر
گھر جب بنا لیا ترے در پرکہے بغیر
بلا سے ہیں جو یہ پیش نظر درو دیوار
کیوں جل گیا نہ تاب رخ یار دیکھ کر
لرزتا ہے مرا دل زخمت مہر درخشاں پر
ہے بسکہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور
لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دن اور
جنوں کی دست گیری کس سے ہوگر ہو نہ عریانی
صفائے حیر آئینہ ہے سامان زنگ آخر
ردیف ز
فارغ مجھے نہ جان کہ مانند صبح ومہر
مژدہ اے ذوق اسیری کہ نظر آتا ہے
ردیف س
ردیف ش
نہ لیوے گر خس جوہر طراوت سبزۂ خط سے
جادۂ رہ خور کو وقت شام ہے تار شعاع
ردیف ع
ردیف ف
زخم پر چھڑکیں کہاں طفلان بے پروا نمک
ردیف ک
بیم رقیب سے نہیں کرتے وداع ہوش
ردیف گ
آہ کو چاہئے اک عمر اثر ہونے تک
ہے تجھ کو گر یقین اجابت دعا نہ مانگ
ردیف ل
ہے کس قدر ہلاک فریب وفاے گل
غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش ازیک نفس
ردیف م
ردیف ن
لوں دام بخت خفتہ سے یک خواب خوش ولے
کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں
وہ فراق اور وہ وصال کہاں
مہرباں ہوکے بلا لو مجھے چاہو جس وقت
عہدے سے مدح ناز کے باہر نہ آسکا
آبرو کیا خاک اس گل کی جو گلشن میں نہیں
ہم سے کھل جاؤ بوقت مے پرستی ایک دن
ہم پر جفا سے ترک وفا کا گماں نہیں
برشگال گریۂ عاشق ہے دیکھا چاہیے
مانع دشت نوروی کوئی تدبیر نہیں
عشق تاثیر سے نومید نہیں
جہاں تیرا نفقش قدم دیکھتے ہیں
کل کے لیے کر آج نہ خست شراب میں
ملتی ہے خوئے یار سے نارالتہاب میں
ذکر میرا بہ بدی بھی اسے منظور نہیں
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھیے تھمے
دو نو جہاں دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا
نالہ جز حسن طلب اے ستم ایجاد نہیں
قیامت ہے کہ سن لیلیٰ کا دشت قیس میں آنا
دل لگا کر لگ گیا ان کو بھی تنہا بیٹھنا
یہ ہم جو ہجر میں دیوار ودر کو دیکھتے ہیں
ہوگئی ہے غیر کی شیریں بیانی کار گر
تیرے تو سن کو صبا باندھتے ہیں
نہیں کہے کہ شب مہ میں کیا برائی ہے
سب کہاں کچھ لالہ وگل میں نمایاں ہوگئیں
دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں
دیوانگی سے دوش پہ زنار بھی نہیں
مزے جہاں کے اپنی نظر میں خاک نہیں
نہیں ہے زخم کوئی بخیے کے درخور مرے تن میں
دل ہی تو ہے نہ سنگ وخشت درد سے بھر نہ آئے کیوں
غنچۂ نا شگفتہ کو دور سے مت دکھا کہ یوں
قفس میں ہوں گر اچھابھی نہ جانیں میرے شیون کو
وارستہ اس سے ہیں کہ محبت ہی کیوں نہ ہو
حسد سے دل اگر افسردہ ہے گرم تماشا ہو
کعبہ میں جارہا تو نہ دو طعنہ کیا کہیں
ردیف و
دھوتا ہوں جب میں پینے کو اس سمیتن کے پانؤ
واں پہنچ کر جو غش آتا پئے ہم ہے ہم کو
تم جانو تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو
کسی کو دے کے دل کوئی نواسنج فغاں کیوں ہو
ازمہر تا بہ ذرّہ دل و دل ہے آئینہ
رہئے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
مسجد کے زیر سایہ خرابات چاہیے
ردیف ی
صد جلوہ رو برو ہے جو مژگاں اٹھائیے
ردیف ہ
بساط عجز میں تھا ایک دل یک قطرہ خوں وہ بھی
ہے بزم بتاں میں سخن آزردہ لبوں سے
تاہم کو شکایت کی بھی باقی نہ رہے جا
حاصل سے ہاتھ دھو بیٹھ اے آرزو خرامی
گھر میں تھا کیا کہ تراغم اسے غارت کرتا
کیا تنگ ہم ستم زدگاں کا جہاں ہے
درد سے میرے ہے تجھ کو بیقراری ہاے ہاے
غم دنیا سے گرپائی بھی فرست سراٹھانے کی
تیرے دل میں گرنہ تھا آشوب غم کا حوصلہ
سرگشتگی میں عالم ہستی سے یاس ہے
گرخامشی سے فائدہ اخفاے حال ہے
تم اپنے شکوے کی باتیں نہ کھود کھود کے پوچھو
مری ہستی فضاے چرت آباد تمنا ہے
پینس میں گزرتے ہیں جو کوچے سے وہ میرے
ایک جا حرف وفا لکھتا تھا سو بھی مٹ گیا
چشم خوباں خامشی میں بھی نوا پرداز ہے
ہے آرمیدگی میں نکھ ہش بجا مجھے
عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی
دیکھنا قسمت کہ آپ اپنے پہ رشک آجائے ہے
اس بزم میں مجھے نہیں بنتی حیا کیے
رفتار عمر قطع رہ اضطراب ہے
کار گاہ ہستی میں لالہ داغ ساماں ہے
گرم فریاد رکھا شکل نہالی نے مجھے
سادگی پر اس کی مرجانے کی حسرت دل میں ہے
تسکیں کو ہم نہ روئیں جو ذوق نظر ملے
دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی
کوئی امید بر نہیں آتی
اے ساکنان کوچۂ دلدار دیکھنا
دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
پرھ کچھ اک دل کو بیقراری ہے
کہتے تو ہو تم سب کہ بت غالیہ مو آئے
پھر جگر کھودنے لگا ناخن
جنوں تہمت کش تسکیں نہ ہو گر شادمانی کی
ظلمت کدے میں میرے شب غم کا جوش ہے
بے اعتدالیوں سے سبک سب میں ہم ہوئے
جو نقد داغ دل کی کرے شعلہ پاسبانی
عجب نشاط سے جلاّد کے چلے ہیں ہم آگے
نہ ہوئی گر مرے مرنے سے تسلی نہ سہی
شکوے کے نام سے بے مہر خفا ہوتا ہے
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
آکہ مری جان کو قرار نہیں ہے
میں انھیں چھیڑوں اور کچھ نہ کہیں
جس بزم میں تو ناز سے گفتار میں آوے
حسن مہ گرچہ بہ ہنگام کمال اچھا ہے
پا بہ دامن ہو رہا ہوں سبکہ میں صحرا انورد
غیر لیں محفل میں بوسے جام کے
پھر اس انداز سے بہار آئی
تغافل دوست ہوں میرا دماغ عجز عالی ہے
نقش ناز بت طناز بہ آغوش رقیب
کب وہ سنتا ہے کہانی میری
گلشن کو تری صحبت از بسکہ خوش آئی ہے
ہے وصل ہجر عالم تمکین وضبط میں
چاہیے اچھو کو جتنا چاہیے
جس زخم کی ہوسکتی ہو تدبیر رفو کی
سیماب پشت گرمی آئینہ دے ہے ہم
نکتہ چیں ہے غم دل اس کو سنائے نہ بنے
ہر قدم دوری منزل ہے نمایاں مجھ سے
وہ آکے خواب میں تسکین اضطراب تو دے
خطر ہے رشتۂ الفت رگ گردن نہ ہوجائے
چاک کی خواہش اگر وحشت بہ عریانی کرے
تپش سے میری وقف کشمکش ہر تار بستر ہے
کرے ہے بادہ ترے لب سے کسب رنگ فروغ
نہ پوچھ نسخۂ مرہم جراحت دل کا
کیوں نہ ہوچشم بتاں محو تغافل کیوں نہ ہو
ہم رشک کو اپنے بھی گوارا نہیں کرت
دیا ہے دل اگر اس کو بشر ہے کیا کہیے
دیکھ کر در پردہ گرم دامن افشانی مجھے
کبھی نیکی بھی اُس کے جی میں گر آجاے ہے مجھ سے
حضور شاہ میں اہل سخن کی آزمایش ہے
زبسکہ مشق تماشا جنوں علامت ہے
لاغر اتنا ہوں کہ گر تو بزم میں جاوے مجھے
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
رونے سے اور عشق میں بیباک ہوگئے
کہوں جو حال تو کہتے ہو مدّعا کہیے
حسن بے پروا خریدار متاع جلوہ ہے
جب تک دہان زخم نہ پیدا کرے کوئی
نشہ ہاشاداب رنگ وساز ہامست طرب
ابن مریم ہوا کرے کوئی
بہت سہی غم گیتی شراب کم کیا ہے
کوہ کے ہوں بار خاطر گر صدا ہو جائیے
روندی ہوئی ہے کوکبۂ شہر یار کی
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
باغ پاکر خفقانی یہ ڈراتا ہے مجھے
مستی بذوق غفلت ساقی ہلاک ہے
جس جانسیم شانہ کش زلف یار ہے
ہجوم نالہ حیرت عاجز عرض یک افغاں ہے
آمد سیلاب طوفان صدائے آب ہے
ہوں میں بھی تماشائی نیرنگ تمنا
خموشیوں میں تماشا ادا نکلتی ہے
آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے
شبنم بہ گل ولالہ نہ خالی زاداہے
منظور تھی یہ شکل تجلی کو نور کی
غم کھانے میں بودا دل ناکام بہت ہے
مدّت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے
نوید امن ہے بیداد دوست جاں کے لیے
سازیک ذرّہ نہںی فیض چمن سے بیکار
قصائد
دہر جز جلوۂ یکتائی معشوق نہیں
ہاں مہ نوسنیں ہم اس کانام
صبحدم دروازۂ خادرکھلا
در صفت انبہ
ہاں دل درد مند زمزمہ ساز
اےشہنشاہ فلک منظر وبے مثل ونظیر
قطعات
گئے وہ دن کہ نادانستہ غیروں کی وفاداری
کلکتہ کا جو ذکر کیا تونے ہمنشیں
ہے جو صاحب کے کف دست پہ یہ چکنی ڈلی
درتعریف ڈلی
سہرا
خوش ہواے بخت کہ ہے آج ترے سر سہرا
منظور ہے گزارش احوال واقعی
در مدح شاہ
ہے چار شنبہ آخر ماہ صفر چلو
نصرت الملک بہادر مجھے بتلا کہ مجھے
مدح
اے شاہ جہانگیر جہاں بخش جہاندار
گزارش مصنف بحضور شاہ
افطار صوم کی کچھ اگر دست گاہ ہو
اے شہنشاہ آسماں اورنگ
رباعیات
ہوئی جب میرزا جعفر کی شادی
سہل تھا مسہل ولے یہ سخت مشکل آپڑی
سیہ گلیم ہوں لازم ہے میرا نام نہ لے
خجستہ انجمن طوے میر زا جعفر
بعد از اتمام بمم عید اطفال
بھیجی ہے جو مجھ کو شاہ ججاہ نے دال
دل تھا کہ جو جان درد تمہید سہی
ہیں شہ میں صفات ذوالجلالی باہم
ہے خلق حسد قماش لڑنے کے لیے
دکھ جی کے پسند ہوگیا ہے غالب
دل سخت نژند ہوگیا ہے گویا
مشکل ہے زبس کلام میرا اے دل
حق شہ کی بقا سے خلق کو شاد کرے
اس رشتہ میں لاکھ تارموں بلکہ سوا
ہم گرچہ بنے سلام کرنے والے
کہتے ہیں کہ اب وہ مردم آزار نہیں
ان میم کی بیجوں کو کوئی کیا جانے
سامان خورو خواب کہاں سے لاؤں
انتخاب کلام غالب
فریب صنعت ایجاد کا تماشا دیکھ
ہم غلط سمجھے تھے لیکن زخم دل پر رحم کر
تماشائے گلشن تمنّائے چیدن
زلف خیال نازک واظہار بیقرار
دو نوجہاں دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا
وہ زندہ ہم ہیں کہ ہیں روشناس خلق اے خضر
وفا کیسی کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہرا
بہت دنوں میں تغافل نے تیرے پیدا کی
ہے آدمی بجاے خود اک محشر خیال
ربط یک شیرازۂ وحشت ہیں اجزائے بہار
کمال بندگئی گل ہے رہن آزادی
یک گام بیخودی سے لوٹیں بہار صحرا
گل کھلے غنچے چٹکنے لگے اور صبح ہوئی
ساغر جلوۂ سرشار ہے ہر ذرّۂ خاک
اسد یہ عجزوبے سامانیٔ فرعون تو أم ہے
ممکن نہیں کہ بھول کے بھی آرمیدہ ہوں
شکوہ وشکر کو ثمر بیم وامید کا سمجھ
فریاد کی کوئی لے نہیں ہے
قہر ہو یا بلا ہو جو کچھ ہو
بس ہجوم نا امیدی خاک میں مل جائیگی
چاک مت کر جیب بے ایام گل
کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب
ہے کہاں تمنّا کا دوسرا قدم یارب
منظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے
دام ہر موج میں ہے حلقۂ صد کام نہنگ
ابر روتا ہے کہ بزم طرب آمادہ کرو
نفس نہ انجمن آرزو سے باہر کھینچ
بندگی میں بھی وہ آزادہ و خود بیں ہیں کہ ہم
ہے جہاں فکر کشید نہاے نقش روے یار
جو تھا سو موج رنگ کے دھو کے میں مرگیا
خبر نگہ کو نگہ چشم کو عدو جانے
میں ہوں مشتاق جفا مجھ پہ جفا اور سہی
یارب ہمیں تو خواب میں بھی مت دکھائیو
عرض سرشک پر ہے فضا ے زمانہ تنگ
نہاں ہے گوہر مقصود جیب خود شناسی میں
INTRODUCTION
FOREWORD
سرورق
سخنہائے گفتنی
غزلیات
شوق ہررنگ رقیب سروساماں نکلا
دہر میں نقش وفا وجہ تسلّی نہ ہوا
دھمکی میں مرگیا جو نہ باب نبرد تھا
محرم نہیں ہے تو ہی نواہاے راز کا
ستایش گر ہے زاہد اس قدر جس باغ رضواں کا
بزم شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا
شب کہ برق سوز دل سے زہرہ ابر آب تھا
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
ایک ایک قطرہ کا مجھے دینا پڑا حساب
شب خمار شوق ساقی رستخیز اندازہ تھا
یہ نہ تھی ہماری قسمت کی وصال یار ہوتا
دوست غمخواری میں میری سعی فرمائینگے کیا
ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا
در خور سہر وغضب جب کوئی ہمسانہ ہوا
پئے نذر کرم تحفہ ہے شرم نارسائی کا
گرنہ اندوہ شب فرقت بیاں ہوجائیگا
گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگئی جاکا
درد منت کش دوانہ ہوا
گھر ہمارا جو نہ روتے بھی تو ویراں ہوتا
میں اور بزم مے سے یوں تشنہ کام آؤں
جب بتقریب سفر یار نے محمل باندھا
قطرۂ مے بسکہ حیرت سے نفس پرور ہوا
یک ذرّۂ زمیں نہیں بیکار باغ کا
پھر مجھے دیدہ تریاد آیا
وہ مری چین جبیں سے غم پنہاں سمجھا
ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا
لب خشک در تشنگی مردگاں کا
عرض نیاز عشق کے قابل نہیں رہا
آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے
شب کہ وہ مجلس فروز خلوت ناموس تھا
تو دوست کسی کا بھی ستمگر نہ ہوا تھا
ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا
رشک کہتا ہے کہ اس کا غیر سے اخلاص حیف!
غافل بہ وہم ناز خود آرا ہے ورنہ یاں
جور سے باز آئے پر باز آئیں کیا
لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی
نہ ہوگا یک بیاباں ماندگی سے ذوق کم میرا
شمار سبحہ مرغوب بت مشکل پسند آیا
دل ہوا کشمکش چارۂ زحمت میں تمام
سراپا رہن عشق وناگزیر الفت ہستی
پھر ہوا وقت کہ ہو بال کشا موج شراب
ردیف ب
ردیف ت
افسوس کہ دیداں کا کیا رزق فلک نے
رہا گر کوئی تا قیامت سلامت
مندگئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں غالب
ردیف د
ردیف ج
ردیف چ
گلشن میں بندوبست برنگ دگر ہے آج
حسن غمزے کی کشاکش سے چھٹا میرے بعد
نفس نہ انجمن آرزو سے باہر کھینچ
ردیف ر
گھر جب بنا لیا ترے در پرکہے بغیر
بلا سے ہیں جو یہ پیش نظر درو دیوار
کیوں جل گیا نہ تاب رخ یار دیکھ کر
لرزتا ہے مرا دل زخمت مہر درخشاں پر
ہے بسکہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور
لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دن اور
جنوں کی دست گیری کس سے ہوگر ہو نہ عریانی
صفائے حیر آئینہ ہے سامان زنگ آخر
ردیف ز
فارغ مجھے نہ جان کہ مانند صبح ومہر
مژدہ اے ذوق اسیری کہ نظر آتا ہے
ردیف س
ردیف ش
نہ لیوے گر خس جوہر طراوت سبزۂ خط سے
جادۂ رہ خور کو وقت شام ہے تار شعاع
ردیف ع
ردیف ف
زخم پر چھڑکیں کہاں طفلان بے پروا نمک
ردیف ک
بیم رقیب سے نہیں کرتے وداع ہوش
ردیف گ
آہ کو چاہئے اک عمر اثر ہونے تک
ہے تجھ کو گر یقین اجابت دعا نہ مانگ
ردیف ل
ہے کس قدر ہلاک فریب وفاے گل
غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش ازیک نفس
ردیف م
ردیف ن
لوں دام بخت خفتہ سے یک خواب خوش ولے
کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں
وہ فراق اور وہ وصال کہاں
مہرباں ہوکے بلا لو مجھے چاہو جس وقت
عہدے سے مدح ناز کے باہر نہ آسکا
آبرو کیا خاک اس گل کی جو گلشن میں نہیں
ہم سے کھل جاؤ بوقت مے پرستی ایک دن
ہم پر جفا سے ترک وفا کا گماں نہیں
برشگال گریۂ عاشق ہے دیکھا چاہیے
مانع دشت نوروی کوئی تدبیر نہیں
عشق تاثیر سے نومید نہیں
جہاں تیرا نفقش قدم دیکھتے ہیں
کل کے لیے کر آج نہ خست شراب میں
ملتی ہے خوئے یار سے نارالتہاب میں
ذکر میرا بہ بدی بھی اسے منظور نہیں
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھیے تھمے
دو نو جہاں دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا
نالہ جز حسن طلب اے ستم ایجاد نہیں
قیامت ہے کہ سن لیلیٰ کا دشت قیس میں آنا
دل لگا کر لگ گیا ان کو بھی تنہا بیٹھنا
یہ ہم جو ہجر میں دیوار ودر کو دیکھتے ہیں
ہوگئی ہے غیر کی شیریں بیانی کار گر
تیرے تو سن کو صبا باندھتے ہیں
نہیں کہے کہ شب مہ میں کیا برائی ہے
سب کہاں کچھ لالہ وگل میں نمایاں ہوگئیں
دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں
دیوانگی سے دوش پہ زنار بھی نہیں
مزے جہاں کے اپنی نظر میں خاک نہیں
نہیں ہے زخم کوئی بخیے کے درخور مرے تن میں
دل ہی تو ہے نہ سنگ وخشت درد سے بھر نہ آئے کیوں
غنچۂ نا شگفتہ کو دور سے مت دکھا کہ یوں
قفس میں ہوں گر اچھابھی نہ جانیں میرے شیون کو
وارستہ اس سے ہیں کہ محبت ہی کیوں نہ ہو
حسد سے دل اگر افسردہ ہے گرم تماشا ہو
کعبہ میں جارہا تو نہ دو طعنہ کیا کہیں
ردیف و
دھوتا ہوں جب میں پینے کو اس سمیتن کے پانؤ
واں پہنچ کر جو غش آتا پئے ہم ہے ہم کو
تم جانو تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو
کسی کو دے کے دل کوئی نواسنج فغاں کیوں ہو
ازمہر تا بہ ذرّہ دل و دل ہے آئینہ
رہئے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
مسجد کے زیر سایہ خرابات چاہیے
ردیف ی
صد جلوہ رو برو ہے جو مژگاں اٹھائیے
ردیف ہ
بساط عجز میں تھا ایک دل یک قطرہ خوں وہ بھی
ہے بزم بتاں میں سخن آزردہ لبوں سے
تاہم کو شکایت کی بھی باقی نہ رہے جا
حاصل سے ہاتھ دھو بیٹھ اے آرزو خرامی
گھر میں تھا کیا کہ تراغم اسے غارت کرتا
کیا تنگ ہم ستم زدگاں کا جہاں ہے
درد سے میرے ہے تجھ کو بیقراری ہاے ہاے
غم دنیا سے گرپائی بھی فرست سراٹھانے کی
تیرے دل میں گرنہ تھا آشوب غم کا حوصلہ
سرگشتگی میں عالم ہستی سے یاس ہے
گرخامشی سے فائدہ اخفاے حال ہے
تم اپنے شکوے کی باتیں نہ کھود کھود کے پوچھو
مری ہستی فضاے چرت آباد تمنا ہے
پینس میں گزرتے ہیں جو کوچے سے وہ میرے
ایک جا حرف وفا لکھتا تھا سو بھی مٹ گیا
چشم خوباں خامشی میں بھی نوا پرداز ہے
ہے آرمیدگی میں نکھ ہش بجا مجھے
عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی
دیکھنا قسمت کہ آپ اپنے پہ رشک آجائے ہے
اس بزم میں مجھے نہیں بنتی حیا کیے
رفتار عمر قطع رہ اضطراب ہے
کار گاہ ہستی میں لالہ داغ ساماں ہے
گرم فریاد رکھا شکل نہالی نے مجھے
سادگی پر اس کی مرجانے کی حسرت دل میں ہے
تسکیں کو ہم نہ روئیں جو ذوق نظر ملے
دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی
کوئی امید بر نہیں آتی
اے ساکنان کوچۂ دلدار دیکھنا
دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
پرھ کچھ اک دل کو بیقراری ہے
کہتے تو ہو تم سب کہ بت غالیہ مو آئے
پھر جگر کھودنے لگا ناخن
جنوں تہمت کش تسکیں نہ ہو گر شادمانی کی
ظلمت کدے میں میرے شب غم کا جوش ہے
بے اعتدالیوں سے سبک سب میں ہم ہوئے
جو نقد داغ دل کی کرے شعلہ پاسبانی
عجب نشاط سے جلاّد کے چلے ہیں ہم آگے
نہ ہوئی گر مرے مرنے سے تسلی نہ سہی
شکوے کے نام سے بے مہر خفا ہوتا ہے
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
آکہ مری جان کو قرار نہیں ہے
میں انھیں چھیڑوں اور کچھ نہ کہیں
جس بزم میں تو ناز سے گفتار میں آوے
حسن مہ گرچہ بہ ہنگام کمال اچھا ہے
پا بہ دامن ہو رہا ہوں سبکہ میں صحرا انورد
غیر لیں محفل میں بوسے جام کے
پھر اس انداز سے بہار آئی
تغافل دوست ہوں میرا دماغ عجز عالی ہے
نقش ناز بت طناز بہ آغوش رقیب
کب وہ سنتا ہے کہانی میری
گلشن کو تری صحبت از بسکہ خوش آئی ہے
ہے وصل ہجر عالم تمکین وضبط میں
چاہیے اچھو کو جتنا چاہیے
جس زخم کی ہوسکتی ہو تدبیر رفو کی
سیماب پشت گرمی آئینہ دے ہے ہم
نکتہ چیں ہے غم دل اس کو سنائے نہ بنے
ہر قدم دوری منزل ہے نمایاں مجھ سے
وہ آکے خواب میں تسکین اضطراب تو دے
خطر ہے رشتۂ الفت رگ گردن نہ ہوجائے
چاک کی خواہش اگر وحشت بہ عریانی کرے
تپش سے میری وقف کشمکش ہر تار بستر ہے
کرے ہے بادہ ترے لب سے کسب رنگ فروغ
نہ پوچھ نسخۂ مرہم جراحت دل کا
کیوں نہ ہوچشم بتاں محو تغافل کیوں نہ ہو
ہم رشک کو اپنے بھی گوارا نہیں کرت
دیا ہے دل اگر اس کو بشر ہے کیا کہیے
دیکھ کر در پردہ گرم دامن افشانی مجھے
کبھی نیکی بھی اُس کے جی میں گر آجاے ہے مجھ سے
حضور شاہ میں اہل سخن کی آزمایش ہے
زبسکہ مشق تماشا جنوں علامت ہے
لاغر اتنا ہوں کہ گر تو بزم میں جاوے مجھے
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
رونے سے اور عشق میں بیباک ہوگئے
کہوں جو حال تو کہتے ہو مدّعا کہیے
حسن بے پروا خریدار متاع جلوہ ہے
جب تک دہان زخم نہ پیدا کرے کوئی
نشہ ہاشاداب رنگ وساز ہامست طرب
ابن مریم ہوا کرے کوئی
بہت سہی غم گیتی شراب کم کیا ہے
کوہ کے ہوں بار خاطر گر صدا ہو جائیے
روندی ہوئی ہے کوکبۂ شہر یار کی
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
باغ پاکر خفقانی یہ ڈراتا ہے مجھے
مستی بذوق غفلت ساقی ہلاک ہے
جس جانسیم شانہ کش زلف یار ہے
ہجوم نالہ حیرت عاجز عرض یک افغاں ہے
آمد سیلاب طوفان صدائے آب ہے
ہوں میں بھی تماشائی نیرنگ تمنا
خموشیوں میں تماشا ادا نکلتی ہے
آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے
شبنم بہ گل ولالہ نہ خالی زاداہے
منظور تھی یہ شکل تجلی کو نور کی
غم کھانے میں بودا دل ناکام بہت ہے
مدّت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے
نوید امن ہے بیداد دوست جاں کے لیے
سازیک ذرّہ نہںی فیض چمن سے بیکار
قصائد
دہر جز جلوۂ یکتائی معشوق نہیں
ہاں مہ نوسنیں ہم اس کانام
صبحدم دروازۂ خادرکھلا
در صفت انبہ
ہاں دل درد مند زمزمہ ساز
اےشہنشاہ فلک منظر وبے مثل ونظیر
قطعات
گئے وہ دن کہ نادانستہ غیروں کی وفاداری
کلکتہ کا جو ذکر کیا تونے ہمنشیں
ہے جو صاحب کے کف دست پہ یہ چکنی ڈلی
درتعریف ڈلی
سہرا
خوش ہواے بخت کہ ہے آج ترے سر سہرا
منظور ہے گزارش احوال واقعی
در مدح شاہ
ہے چار شنبہ آخر ماہ صفر چلو
نصرت الملک بہادر مجھے بتلا کہ مجھے
مدح
اے شاہ جہانگیر جہاں بخش جہاندار
گزارش مصنف بحضور شاہ
افطار صوم کی کچھ اگر دست گاہ ہو
اے شہنشاہ آسماں اورنگ
رباعیات
ہوئی جب میرزا جعفر کی شادی
سہل تھا مسہل ولے یہ سخت مشکل آپڑی
سیہ گلیم ہوں لازم ہے میرا نام نہ لے
خجستہ انجمن طوے میر زا جعفر
بعد از اتمام بمم عید اطفال
بھیجی ہے جو مجھ کو شاہ ججاہ نے دال
دل تھا کہ جو جان درد تمہید سہی
ہیں شہ میں صفات ذوالجلالی باہم
ہے خلق حسد قماش لڑنے کے لیے
دکھ جی کے پسند ہوگیا ہے غالب
دل سخت نژند ہوگیا ہے گویا
مشکل ہے زبس کلام میرا اے دل
حق شہ کی بقا سے خلق کو شاد کرے
اس رشتہ میں لاکھ تارموں بلکہ سوا
ہم گرچہ بنے سلام کرنے والے
کہتے ہیں کہ اب وہ مردم آزار نہیں
ان میم کی بیجوں کو کوئی کیا جانے
سامان خورو خواب کہاں سے لاؤں
انتخاب کلام غالب
فریب صنعت ایجاد کا تماشا دیکھ
ہم غلط سمجھے تھے لیکن زخم دل پر رحم کر
تماشائے گلشن تمنّائے چیدن
زلف خیال نازک واظہار بیقرار
دو نوجہاں دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا
وہ زندہ ہم ہیں کہ ہیں روشناس خلق اے خضر
وفا کیسی کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہرا
بہت دنوں میں تغافل نے تیرے پیدا کی
ہے آدمی بجاے خود اک محشر خیال
ربط یک شیرازۂ وحشت ہیں اجزائے بہار
کمال بندگئی گل ہے رہن آزادی
یک گام بیخودی سے لوٹیں بہار صحرا
گل کھلے غنچے چٹکنے لگے اور صبح ہوئی
ساغر جلوۂ سرشار ہے ہر ذرّۂ خاک
اسد یہ عجزوبے سامانیٔ فرعون تو أم ہے
ممکن نہیں کہ بھول کے بھی آرمیدہ ہوں
شکوہ وشکر کو ثمر بیم وامید کا سمجھ
فریاد کی کوئی لے نہیں ہے
قہر ہو یا بلا ہو جو کچھ ہو
بس ہجوم نا امیدی خاک میں مل جائیگی
چاک مت کر جیب بے ایام گل
کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب
ہے کہاں تمنّا کا دوسرا قدم یارب
منظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے
دام ہر موج میں ہے حلقۂ صد کام نہنگ
ابر روتا ہے کہ بزم طرب آمادہ کرو
نفس نہ انجمن آرزو سے باہر کھینچ
بندگی میں بھی وہ آزادہ و خود بیں ہیں کہ ہم
ہے جہاں فکر کشید نہاے نقش روے یار
جو تھا سو موج رنگ کے دھو کے میں مرگیا
خبر نگہ کو نگہ چشم کو عدو جانے
میں ہوں مشتاق جفا مجھ پہ جفا اور سہی
یارب ہمیں تو خواب میں بھی مت دکھائیو
عرض سرشک پر ہے فضا ے زمانہ تنگ
نہاں ہے گوہر مقصود جیب خود شناسی میں
INTRODUCTION
FOREWORD
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.