استدعا
آرٹ
غزلیات
نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار
دل مرا سوز نہاں سے بے محابا جل گیا
کہتے ہو نہ دینگے ہم دل اگر پڑا پایا
دہر میں نقش وفا وجہ تسلی نہ ہوا
دھمکی میں مر گیا جو نہ باب نبرد تھا
شوق ہر رنگ رقیب سروساماں نکلا
محرم نہیں ہے تو ہی نواہائے راز کا
ستایش گر ہے زاہد اس قدر جس باغ رضواں کا
بزم شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا
شب کہ برق سوز دل سے زہرۂ ابر آپ تھا
ایک ایک قطرہ کا مجھے دینا پڑا حساب
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
شب خمار شوق ساقی رستخیز اندازہ تھا
دوست غمخواری میں میری سعی فرمائینگے کیا
ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا
گرنہ اندوہ شب فرقت بیاں ہوجائیگا
پئے نذر کر م تحفہ ہے شرم نار سائی کا
در خور قہر وغضب جب کوئی ہمسانہ ہوا
گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگئ جا کا
درد منت کش دوا نہ ہوا
گھر ہمارا جو نہ روتے بھی تو ویراں ہوتا
میں اور بزم مے سے یوں تشنہ کام آؤں
جب تقریب سفر یار نے محمل باندھا
وہ مری چین جبیں سے غم پنہاں سمجھا
یک ذرہ زمیں نہیں بیکار باغ کا
پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا
ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا
عرص نیاز عشق کے قابل نہیں رہا
برروئے ششن جہت در آئینہ باز ہے
ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا
رشک کہتا ہے کہ اس کا غیر سے اخلاص حیف!
عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
جورسے باز آئے پر باز آئیں کیا
لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی
غافل بہ وہم ناز خود آرا ہے ورنہ یاں
نہ ہوگا یک بیاباں ماندگی سے ذوق کم میرا
سراپا رہن عشق وناگزیر الفت ہستی
شمار سبحہ مرغوب بت مشکل پسند آیا
ردیف ت
پھر ہوا وقت کہ ہو بال کشاموج شراب
ردیف ب
افسوس کہ دیداں کا کیا رزق فلک نے
لکھتا ہوں اسد سوزش سے سخن گرم
حسن غمزے کی کشا کش سے چھٹا میرے بعد
ردیف چ
گلشن میں بندو بست برنگ دگر ہے آج
ردیف ج
نفس نہ انجمن آرزو سے باہر کھینچ
ردیف د
بلا سے ہیں جو یہ پیش نظر درو دیوار
گھر جب بنا لیا ترے در پر کہے بغیر
ردیف ر
کیوں جل گیا نہ تاب رخ یار دیکھ کر
ہے بسکہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور
لرزتا ہے مرا دل زحمت مہر درخشاں پر
لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دن اور
صفائے حیرت آئینہ ہے سامان زنگ آخر
ردیف ز
فارغ مجھے نہ جان کہ مانند صبح ومہر
ردیف شین
نہ لیوے گر خس جوہر طراوت سبزۂ خط سے
ردیف س
مژدہ اے ذوق اسیری کہ نظر آتا ہے
ردیف ک
جادۂ رہ خور کو وقت شام ہے تار شعاع
ردیف ف
بیم رقیب سے نہیں کرتے وداع ہوش
ردیف ع
زخم پر چھڑکیں کہاں طفلان بے پروا نمک
ردیف گ
ہے تجھ کو گر یقین اجابت دعا نہ مانگ
ردیف ل
ہے کس قدر ہلاک فریب وفائے گل
ردیف م
غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو پیش ازیک نفس
کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں
لوں دام بخت خفتہ سے یک خواب خوش ولے
ردیف ن
آبرو کیا خاک اس گل کی جو گلشن میں نہیں
عہدے سے مدح ناز کے باہر نہ آسکا
ہم پر جفا سے ترک وفا کا گماں نہیں
ہم سے کھل جاؤ بوقت مے پرستی ایک دن
بر شگال گریۂ عاشق ہے دیکھا چاہیے
عشق تاثیر سے نومید نہیں
دل ہی توہے نہ سنگ وخشت درد سے بھر نہ آئے کیوں
حسد سے دل اگر افسردہ ہے گرم تماشا ہو
ردیف ی
ردیف ہ
از مہر تا بہ ذرہ دل ودل ہے آئینہ
صد جلوہ رو برو ہے جو مژگاں اٹھائیے
بساط عجز میں تھا ایک دل یک قطرہ خوں وہ بھی
ہے بزم بتاں میں سخن آزردہ لبوں سے
درد سے میرے ہے تجھ کو بیقراری ہائے ہائے
غم دنیا سے گر پائی بھی فرصت سر اٹھانے کی
کیا تنگ ہم ستم زدگاں کا جہاں ہے
حاصل سے ہاتھ دھو بیٹھ اے آرزو خرامی
سرگشتگی میں عالم ہستی سے یاس ہے
عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی
ہے آرمیدگی میں نکو ہش بجا مجھے
اس بزم میں مجھے نہیں بنتی حیا کئے
رفتار عمر قطع رہ اضطراب ہے
کار گاہ ہستی میں لالہ داغ ساماں ہے
گرم فریاد رکھا شکل نہالی نے مجھے
دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی
تسکیں کو ہم نہ روٹیں جو ذوق نظر ملے
کوئی امید بر نہیں آتی
دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
کہتے تو ہو تم سب کہ بت غالیہ موآئے
جنوں تہمت کش تسکیں نہ ہو گر شادمانیکی
بے اعتدالیوں سے سبک سب میں ہم ہوئے
ظلمت کدے میں میرے شب غم کا جوش ہے
جو نہ نقد داغ دل کی کرے شعلہ پاسبانی
عجب نشاط سے جلاد کے چلے ہیں ہم آگے
نہ ہوئی گر مرے مرنے سے تسلی نہ سہی
شکوے کے نام سے بے مہر خفا ہوتا ہے
جس بزم میں تو ناز سے گفتار میں آوے
حسن مہ گرچہ بہ ہنگام کمال اچھا ہے
پابہ دامن ہو رہا ہوں بسکہ میں صحرا نورد
پھر اس انداز سے بہار آئی
غیر لیں محفل میں بوسے جام کے
کب وہ سنتا ہے کہانی میری
نقش ناز بت طناز بہ آغوش رقیب
تغافل دوست ہو ں میرا دماغ عجز عالی ہے
چاہیئے اچھوں کو جتنا چاہیے
جس زخم کی ہوسکتی ہو تدبیر رفو کی
ہر قدم دوری منزل ہے نمایاں مجھ سے
نکتہ چیں ہے غم دل اس کو سنائے نہ بنے
چاک کی خواہش اگر وحشت بہ عریانی کرے
حضور شاہ میں اہل سخن کی آزمایش ہے
دیا ہے دل اگر اس کو بشر ہے کیا کہیے
دیکھ کر در پردہ گرم دامن افشانی مجھے
کبھی نیکی بھی اس کے جی میں گر آجائے ہے مجھ سے
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
لاغر اتنا ہوں کہ گر تو بزم میں جاوے مجھے
زبسکہ مشق تماشا جنوں علامت ہے
کہوں جو حال ت وکہتے ہو مدعا کہیے
رونے سے اور عشق میں بیباک ہو گئے
نشہ ہاشاداب رنگ و ساز ہامست طرب
جب تک دہان زخم نہ پیدا کرے کوئی
ابن مریم ہوا کرے کوئی
بہت سہی غم گیتی شراب کم کیا ہے
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
باغ پاکر خفقانی یہ ڈراتا ہے مجھے
کوہ کہ ہوں بار خاطر گر صدا ہو جائیے
آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے
دل مدعی ودیدہ بنا مدعا علیہ
غم کھانے میں بودا دل ناکام بہت ہے
منظور تھی یہ شکل تجلی کو نور کی
کرتا ہوں جمع پھر جگر لخت لخت کو
نویدا من ہے بیداد دوست جاں کے لیے
سازیک ذرہ نہیں فیض چمن سے بیکار
قصائد
دہر جز جلوۂ یکتائی معشوق نہیں
ہاں معرنوسنیں ہم اس کا نام
صبح دم دروازۂ خاور کھلا
ہا ں دل درد مند زمزمہ ساز
درصفت انبہ
قطعات
اے شہنشاہ فلک منظر دبے مثل ونظیر
در تعریف ڈلی
گئے وہ دن کہ نا دانستہ غیروں کی وفاداری
کلکتہ کا جو ذکر کیا تونے ہمنشیں
ہے جو صاحب کے کف دست پہ یہ چکنی ڈلی
سہرا
خوش ہوا ے بخت کہ ہے آج ترے مر سہرا
منظور ہے گزارش احوال واقعی
مدح
اے شاہ جہانگیر جہاں بخش جہاندار
در مدح شاہ
نصرت الملک بہادر مجھے بتلا کہ مجھے
گزارش مصنف بحضور شاہ
اے شہنشاہ آسماں اورنگ
ہوئی جب میر زاجعفر کی شادی
گو ایک بادشاہ کے سب خانہ زاد ہیں
خجستہ انجمن طوئے میر زاجعفر
سیہ گلیم ہوں لازم ہے میرا نام نہ لے
بعد از ا تمام بزم عید اطفال
رباعیات
انتخاب
استدعا
آرٹ
غزلیات
نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار
دل مرا سوز نہاں سے بے محابا جل گیا
کہتے ہو نہ دینگے ہم دل اگر پڑا پایا
دہر میں نقش وفا وجہ تسلی نہ ہوا
دھمکی میں مر گیا جو نہ باب نبرد تھا
شوق ہر رنگ رقیب سروساماں نکلا
محرم نہیں ہے تو ہی نواہائے راز کا
ستایش گر ہے زاہد اس قدر جس باغ رضواں کا
بزم شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا
شب کہ برق سوز دل سے زہرۂ ابر آپ تھا
ایک ایک قطرہ کا مجھے دینا پڑا حساب
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
شب خمار شوق ساقی رستخیز اندازہ تھا
دوست غمخواری میں میری سعی فرمائینگے کیا
ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا
گرنہ اندوہ شب فرقت بیاں ہوجائیگا
پئے نذر کر م تحفہ ہے شرم نار سائی کا
در خور قہر وغضب جب کوئی ہمسانہ ہوا
گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگئ جا کا
درد منت کش دوا نہ ہوا
گھر ہمارا جو نہ روتے بھی تو ویراں ہوتا
میں اور بزم مے سے یوں تشنہ کام آؤں
جب تقریب سفر یار نے محمل باندھا
وہ مری چین جبیں سے غم پنہاں سمجھا
یک ذرہ زمیں نہیں بیکار باغ کا
پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا
ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا
عرص نیاز عشق کے قابل نہیں رہا
برروئے ششن جہت در آئینہ باز ہے
ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا
رشک کہتا ہے کہ اس کا غیر سے اخلاص حیف!
عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
جورسے باز آئے پر باز آئیں کیا
لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی
غافل بہ وہم ناز خود آرا ہے ورنہ یاں
نہ ہوگا یک بیاباں ماندگی سے ذوق کم میرا
سراپا رہن عشق وناگزیر الفت ہستی
شمار سبحہ مرغوب بت مشکل پسند آیا
ردیف ت
پھر ہوا وقت کہ ہو بال کشاموج شراب
ردیف ب
افسوس کہ دیداں کا کیا رزق فلک نے
لکھتا ہوں اسد سوزش سے سخن گرم
حسن غمزے کی کشا کش سے چھٹا میرے بعد
ردیف چ
گلشن میں بندو بست برنگ دگر ہے آج
ردیف ج
نفس نہ انجمن آرزو سے باہر کھینچ
ردیف د
بلا سے ہیں جو یہ پیش نظر درو دیوار
گھر جب بنا لیا ترے در پر کہے بغیر
ردیف ر
کیوں جل گیا نہ تاب رخ یار دیکھ کر
ہے بسکہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور
لرزتا ہے مرا دل زحمت مہر درخشاں پر
لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دن اور
صفائے حیرت آئینہ ہے سامان زنگ آخر
ردیف ز
فارغ مجھے نہ جان کہ مانند صبح ومہر
ردیف شین
نہ لیوے گر خس جوہر طراوت سبزۂ خط سے
ردیف س
مژدہ اے ذوق اسیری کہ نظر آتا ہے
ردیف ک
جادۂ رہ خور کو وقت شام ہے تار شعاع
ردیف ف
بیم رقیب سے نہیں کرتے وداع ہوش
ردیف ع
زخم پر چھڑکیں کہاں طفلان بے پروا نمک
ردیف گ
ہے تجھ کو گر یقین اجابت دعا نہ مانگ
ردیف ل
ہے کس قدر ہلاک فریب وفائے گل
ردیف م
غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو پیش ازیک نفس
کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں
لوں دام بخت خفتہ سے یک خواب خوش ولے
ردیف ن
آبرو کیا خاک اس گل کی جو گلشن میں نہیں
عہدے سے مدح ناز کے باہر نہ آسکا
ہم پر جفا سے ترک وفا کا گماں نہیں
ہم سے کھل جاؤ بوقت مے پرستی ایک دن
بر شگال گریۂ عاشق ہے دیکھا چاہیے
عشق تاثیر سے نومید نہیں
دل ہی توہے نہ سنگ وخشت درد سے بھر نہ آئے کیوں
حسد سے دل اگر افسردہ ہے گرم تماشا ہو
ردیف ی
ردیف ہ
از مہر تا بہ ذرہ دل ودل ہے آئینہ
صد جلوہ رو برو ہے جو مژگاں اٹھائیے
بساط عجز میں تھا ایک دل یک قطرہ خوں وہ بھی
ہے بزم بتاں میں سخن آزردہ لبوں سے
درد سے میرے ہے تجھ کو بیقراری ہائے ہائے
غم دنیا سے گر پائی بھی فرصت سر اٹھانے کی
کیا تنگ ہم ستم زدگاں کا جہاں ہے
حاصل سے ہاتھ دھو بیٹھ اے آرزو خرامی
سرگشتگی میں عالم ہستی سے یاس ہے
عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی
ہے آرمیدگی میں نکو ہش بجا مجھے
اس بزم میں مجھے نہیں بنتی حیا کئے
رفتار عمر قطع رہ اضطراب ہے
کار گاہ ہستی میں لالہ داغ ساماں ہے
گرم فریاد رکھا شکل نہالی نے مجھے
دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی
تسکیں کو ہم نہ روٹیں جو ذوق نظر ملے
کوئی امید بر نہیں آتی
دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
کہتے تو ہو تم سب کہ بت غالیہ موآئے
جنوں تہمت کش تسکیں نہ ہو گر شادمانیکی
بے اعتدالیوں سے سبک سب میں ہم ہوئے
ظلمت کدے میں میرے شب غم کا جوش ہے
جو نہ نقد داغ دل کی کرے شعلہ پاسبانی
عجب نشاط سے جلاد کے چلے ہیں ہم آگے
نہ ہوئی گر مرے مرنے سے تسلی نہ سہی
شکوے کے نام سے بے مہر خفا ہوتا ہے
جس بزم میں تو ناز سے گفتار میں آوے
حسن مہ گرچہ بہ ہنگام کمال اچھا ہے
پابہ دامن ہو رہا ہوں بسکہ میں صحرا نورد
پھر اس انداز سے بہار آئی
غیر لیں محفل میں بوسے جام کے
کب وہ سنتا ہے کہانی میری
نقش ناز بت طناز بہ آغوش رقیب
تغافل دوست ہو ں میرا دماغ عجز عالی ہے
چاہیئے اچھوں کو جتنا چاہیے
جس زخم کی ہوسکتی ہو تدبیر رفو کی
ہر قدم دوری منزل ہے نمایاں مجھ سے
نکتہ چیں ہے غم دل اس کو سنائے نہ بنے
چاک کی خواہش اگر وحشت بہ عریانی کرے
حضور شاہ میں اہل سخن کی آزمایش ہے
دیا ہے دل اگر اس کو بشر ہے کیا کہیے
دیکھ کر در پردہ گرم دامن افشانی مجھے
کبھی نیکی بھی اس کے جی میں گر آجائے ہے مجھ سے
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
لاغر اتنا ہوں کہ گر تو بزم میں جاوے مجھے
زبسکہ مشق تماشا جنوں علامت ہے
کہوں جو حال ت وکہتے ہو مدعا کہیے
رونے سے اور عشق میں بیباک ہو گئے
نشہ ہاشاداب رنگ و ساز ہامست طرب
جب تک دہان زخم نہ پیدا کرے کوئی
ابن مریم ہوا کرے کوئی
بہت سہی غم گیتی شراب کم کیا ہے
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
باغ پاکر خفقانی یہ ڈراتا ہے مجھے
کوہ کہ ہوں بار خاطر گر صدا ہو جائیے
آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے
دل مدعی ودیدہ بنا مدعا علیہ
غم کھانے میں بودا دل ناکام بہت ہے
منظور تھی یہ شکل تجلی کو نور کی
کرتا ہوں جمع پھر جگر لخت لخت کو
نویدا من ہے بیداد دوست جاں کے لیے
سازیک ذرہ نہیں فیض چمن سے بیکار
قصائد
دہر جز جلوۂ یکتائی معشوق نہیں
ہاں معرنوسنیں ہم اس کا نام
صبح دم دروازۂ خاور کھلا
ہا ں دل درد مند زمزمہ ساز
درصفت انبہ
قطعات
اے شہنشاہ فلک منظر دبے مثل ونظیر
در تعریف ڈلی
گئے وہ دن کہ نا دانستہ غیروں کی وفاداری
کلکتہ کا جو ذکر کیا تونے ہمنشیں
ہے جو صاحب کے کف دست پہ یہ چکنی ڈلی
سہرا
خوش ہوا ے بخت کہ ہے آج ترے مر سہرا
منظور ہے گزارش احوال واقعی
مدح
اے شاہ جہانگیر جہاں بخش جہاندار
در مدح شاہ
نصرت الملک بہادر مجھے بتلا کہ مجھے
گزارش مصنف بحضور شاہ
اے شہنشاہ آسماں اورنگ
ہوئی جب میر زاجعفر کی شادی
گو ایک بادشاہ کے سب خانہ زاد ہیں
خجستہ انجمن طوئے میر زاجعفر
سیہ گلیم ہوں لازم ہے میرا نام نہ لے
بعد از ا تمام بزم عید اطفال
رباعیات
انتخاب
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.