سر ورق
زچشم خون فشان بے آبرو کن ابر گریان را
بحمد ایزدی ترکن زبانِ گوہر افشان را
برائے نام بھی اپنا نہ کچھ باقی نشان رکھنا
زبان پر ذکر حمد ایزدی ہر دم رواں رکھنا
جب نہ تھا یہ عالم ایجاد کیا موجود تھا
موحد بن کے ہے وحدت کا جسنے مدعا پایا
نہ کر اندیشۂ امروز و فردا
بشہرا و طریقت جس نے کامل رہنما پایا
ذرہ شوتا نسبتے حاصل کنی باآفتاب
حاضر و ناظر ہے وہ خلاق اکبر روز و شب
جب اکھڑ جائے چمن سے آشیاں عندلیب
ہے کیوں بندہ پابند غم روز و شب
ہم بھی وصفِ گل میں ہوں ہمداستان عندلیب
ہے چاروں طرف جلوہ گر اس کی صورت
آنکھیں کھول اور دیکھ روشن ہر طرف انواردات
بدلتے رہتے ہیں دنیا کے حالات
جو گھر کا مال ہے سب کردی خیرات
تو پہلے آئینہ دل کی کر صفا صورت
ترے مرنے کی سب ہیں منتظر صبح و مساوارث
نہ چھوڑ اپنا کوئی ترکہ کسی کو مت بنا وارث
دوستی میں تج کو دےسکتے ہیں کیا آرام دوست
رات دن شام و سحر آئیگا تیرے کام سچ
موم کر دیتی ہے پتھر کو صداے مستغیث
حق کے در پر بے دھڑک جاتے تو جائے مستغیث
مرد کافر کو دکھاتا ہے رہ اسلام سچ
ہے مال و زر کا تری گھر میں جمع جتنا گنج
بڑھ گیا اس خاک کے پتلے کا کیوں اتنا مزاج
پہلے بھی تجھ سے بہت تھے اہل تاج
پکار خالق اکبر کے نام کی تسبیح
دیدہ بکشاؤ بچشم دل ببین اظہار روح
کریگا نکتۂ وحدت کی کوئی کیا تشریح
بھلائی کرلے کسی سے کہ آج کی تاریخ
صلح کو جانتے ہیں اہل صلاح
جہاں میں آیا تھا تو پہلے بھی کسی تاریخ
بازیان تازہ دکھاتا ہے مجھے ہر بار چرخ
بندہ ہو کر اگر ہو تو گستاخ
کس قدر رکھتا ہے اپنا حوصلہ انسان فراخ
ہو آؤ حرص کا جب تک نہ توڑیں ہم پیوند
ہر چہ خواہد میکند خلاق اکبر نیک و بد
جو خود ہے بندۂ محتاج اسپہ کیا امید
وہی بندہ ہے غم سے آزاد
رہے گا کب تلک یہ خانہ آباد
خدا کے روبرو کر اپنے فریاد
نہ کر لکھ لکھ کے کالے اسقدر اے بنجر کاغذ
ہے اسی دام تعلق میں یہ بندہ ماخوذ
لکھ ایسا ذوق و شوق حق میں اے اہل نظر کاغذ
بندہ عاجز کے لئے کرتا ہے اتنا زور و شور
خوشی سے مان سرور حکم تقدیر
مل کے بیٹھو دوستوبہر عبادت باربار
حق سے وہ پائے دولت دیدار بار بار
وحدت کا کر زبان سے اقرقار باربار
عاجزی کر عاجزی اے خاکسار
ورد کر نام خدا لیل و نہار
کیے ہیں نفس نے اس طرح دانت تجھ پر تیز
آنکھ مت حق کی عبادت سے چرانا روز روز
فی الحقیقت وہ خدا لے کار ساز
وقت مشکل سب کی لیتا ہے خبر بندہ نواز
خدا کی ذات کو ہر ایک دم سمجھنا پاس
جیتے جی کرتا ہے کب دنیا سے دنیا وار بس
لائی جو خبس اچھی اس بازار میں وہ پائی خبس
کارکن سرگرم ہر شام و سحر درکار باش
دور ہی سے سونگھ اس گلشن کی باس
عاشق روے مسیحائی اگر بیمار باش
خدا کی رکھتا ہے جو بندۂ خدا خواہش
سر جھکا سرور کہ حق تجھ کو کرے ہمتاے عرش
حق وپہ سمتا ہے بندہ حق نیوش
در بدر اس آدمی کو بھیکھ منگوانی ہے حرص
خدا کے بندوں سے کر بندۂ خدا اخلاس
ہے دین و مذہب وملت کا مقتدا اخلاص
خدا کے رستے میں رہبر بنا تو ایسا شخص
خود غرض خد مطلبوں سے کچھ بھی مت رکھنا غرض
بندہ کی آپ سنتا ہے حق بار بار غرض
ہم نے مرد پا خبر پایا تو پایا بعض بعض
ہے مقید بندگی کا آج بندہ بعض بعض
بندگی کا بندگان حق سے ہے اظہار شرط
آشنا مطلب کا ہے ہر اپنا بیگانہ فقط
منزل دنیا نہیں جائے نشاط
ہو سکے کیونکر خدا کے علم پر بندہ محیط
نکال ان کو جو ہیں موجود اغلاط
مرد باتدبیر کرتا ہے بہر کار احتیاط
پہلے دن جو خامۂ قدرت نے لکھا لفظ لفظ
فقط ہے اپنی خلقت کا وہ خلاق جہاں حافظ
سمجھ لے سوچ لے اب اپنے کام کا موقع
گذر یہ مفت اگر آج جائے گا موقع
اگر ہو جلنے سے موقوف ایک دم بھر شمع
وہ بخش روشنی اہل جہاں کو بنکر شمع
اپنے مولیٰ کی طرف رکھ ہر گھڑی اپنا رجوع
دوستوں میں باعث رنج و نزاع
جمع کرتا ہے آدمی طماع
رنگ و بوے باغ عالم سے معطر کر دماغ
خلق سے خالق کا ہم کو مل گیا پورا سراغ
اپنے گم گشتہ کا اسنے پالیا سارا سراغ
دل میں کر روشن محبت کا چراغ
یہ کیسا باغ ہے دنیا کا ایک عمدا باغ
ہے کس نے دیکھائی کوئی اور اس طرح کا باغ
کتنا ناطاقت ہے عاجز ناتواں انسان ضعیف
سینہ رکھ اپنا صفا اے سینہ صاف
خدا کے واسطے ہر وقت کر میان انصاف
مرد شایق کو مقام قرب تک پہونچا ے شوق
تو اپنے سینہ کا آئینہ اس قدر رکھ معاف
نہ طالب مال کا ہے اور نہ ہی خواہاں زر عاشق
لہو پیتا ہے کھاتا ہے فقط لخت جگر عاشق
کر مطالعہ دفترِ وحدت کا سرور ہر ورق
تعلق کا نہو دنیا میں مشتاق
ہزاروں گرچہ کیے ہیں خدا نے پیدا رنگ
ہے رات دن میں بدلتا زمانہ کیا کیا رنگ
ہر ایک چیز سے ہے ذات کبریا نزدیک
اپنے دل کو تنگدستی میں نرکھراے یار تنگ
حرص کا انسان کو رکھتا ہے سدا آزار تنگ
سمجھ لو ذات الہی کو وائما نزدیک
کرے فخر اسقدر کس بات پر خاک
ٹیرھے چکر کھاتا ہے گردوں گرداں آجکل
رنگ ڈھنگ اپنا دکھاتا ہے نرالا پھول پھول
گلشن دنیا میں آکر ہم نے دیکھا پھول پھول
دل بنا رہبر کہ دلبر تک تجھے پہونچائے دل
کیوں نہ اس مرد خدا کا استقامت پائے دل
بشہراہِ طریقیت ایسی چل چال
اگر تو کام کا بندہ ہے ہر گھڑی کر کام
کدھر کو جسم سے جائے گی جان نہیں معلوم
قیام تھا ترا پہلے کہاں نہیں معلوم
عزیزو دنیا کا بےفائدہ ہے کھانا غم
نرکھ دل میں کچھ مال و دولت کا غم
رہ راستی سے اٹھا مت قدم
فقط اک دم میں جو چاہیں جناب کبریا کردیں
سب کو ہے اس دار فانی میں بقا دو چار دن
خدا کے نام سے نام اپنا ایسا کر روشن
عمر کے باقی جو ہیں اے بے حیا دو چار دن
فقط حق کو سمجھ اپنا نگہبان
عزیزو کونسی ہستی پہ نازاں
لفظ لفظ و حرف حرف و نقطہ نقطہ دیکھ لو
کوئی دن بستان عالم کا تماشا دیکھ لو
کسی گھر پر نجاؤ اور نہ گھڑکاؤ کسی در کو
محبت کی اگر لگ جائیں پر انسان بے پر کو
کرونہ گفتگو دنیا کی اہل عرفان سے
خدا کا بندۂ سالک سے راستہ پوچھو
ڈھونڈھتا پھرتا ہے جس کو چار سو
خلوص دل سے کرے بندگی اگر بندہ
نہ ڈھونڈھو حق کو زمین پر نہ آسمان ڈھونڈھو
خدا پہ رکھتا ہے ہر صاحب یقین تکیہ
ہمیشہ جس کا رکھتا ہے خدا وندِ جہان پردہ
بنا اپنے سینہ کو روشن نگینہ
کس جگہ جانے وہ عالی خاندان جاتے رہے
آدمی ہو کر اگر ہوجائے حیوان آدمی
اب کہاں وہ اپنے ہم مجلس جوان جاتی رہے
برا نہ باقی رہے گا نہ اور بھلا باقی
خدا کی آج ہی جتنی ہے کرادا باقی
راضی رکھ خلقت کو خالق کی رضا کے واسطے
ہاتھ پھیلائے رہو ہر دم دعا کے واسطے
گزری کچھ تکلیف میں یا گزری اچھی زندگی
غیر کو چھوڑ اگر حق کی رضا چاہتا ہے
سر افرازی بدرگاہِ الہی اس نے پائی ہے
نہ نکلے گی چمن سے عندلیب زار جیتے جی
ہمیشہ کر جنابِ حق میں زاری
طمع کی کیسی بیماری ہے بھاری
رحلت اس دنیا سے دنیا وار جب کر جائیں گے
مسدس
مخمس برغزل مصنف
مخمس برغزل مصنف
مخمس برغزل مصنف
مخمس برغزل مصنف
مخمس برغزل مصنف
ترکیب بند
کوئی دن میں جب گزر جائے گا تو
پہلے اس ہستی کی ہستی تھی کہاں
فی الحقیقت تو ہے پتلا خاک کا
وقت پر حامی ترا ہو جائے گا کون
ہے غرور اے نوجوان کس بات پر
بے عبادت قرب ملتا ہے کہیں
جلوۂ حق جابجا ہے دیکھ لے
کب تلک آخر رہے گا جلوہ گر
دیکھ کیا دنیا کی رنگین ہے بہار
دولتِ دنیا کی پر دامت کرو
کیسی خوش خطی سے ہے لکھی گئی
خاتمہ الطبع
تاریخات طبع
سر ورق
زچشم خون فشان بے آبرو کن ابر گریان را
بحمد ایزدی ترکن زبانِ گوہر افشان را
برائے نام بھی اپنا نہ کچھ باقی نشان رکھنا
زبان پر ذکر حمد ایزدی ہر دم رواں رکھنا
جب نہ تھا یہ عالم ایجاد کیا موجود تھا
موحد بن کے ہے وحدت کا جسنے مدعا پایا
نہ کر اندیشۂ امروز و فردا
بشہرا و طریقت جس نے کامل رہنما پایا
ذرہ شوتا نسبتے حاصل کنی باآفتاب
حاضر و ناظر ہے وہ خلاق اکبر روز و شب
جب اکھڑ جائے چمن سے آشیاں عندلیب
ہے کیوں بندہ پابند غم روز و شب
ہم بھی وصفِ گل میں ہوں ہمداستان عندلیب
ہے چاروں طرف جلوہ گر اس کی صورت
آنکھیں کھول اور دیکھ روشن ہر طرف انواردات
بدلتے رہتے ہیں دنیا کے حالات
جو گھر کا مال ہے سب کردی خیرات
تو پہلے آئینہ دل کی کر صفا صورت
ترے مرنے کی سب ہیں منتظر صبح و مساوارث
نہ چھوڑ اپنا کوئی ترکہ کسی کو مت بنا وارث
دوستی میں تج کو دےسکتے ہیں کیا آرام دوست
رات دن شام و سحر آئیگا تیرے کام سچ
موم کر دیتی ہے پتھر کو صداے مستغیث
حق کے در پر بے دھڑک جاتے تو جائے مستغیث
مرد کافر کو دکھاتا ہے رہ اسلام سچ
ہے مال و زر کا تری گھر میں جمع جتنا گنج
بڑھ گیا اس خاک کے پتلے کا کیوں اتنا مزاج
پہلے بھی تجھ سے بہت تھے اہل تاج
پکار خالق اکبر کے نام کی تسبیح
دیدہ بکشاؤ بچشم دل ببین اظہار روح
کریگا نکتۂ وحدت کی کوئی کیا تشریح
بھلائی کرلے کسی سے کہ آج کی تاریخ
صلح کو جانتے ہیں اہل صلاح
جہاں میں آیا تھا تو پہلے بھی کسی تاریخ
بازیان تازہ دکھاتا ہے مجھے ہر بار چرخ
بندہ ہو کر اگر ہو تو گستاخ
کس قدر رکھتا ہے اپنا حوصلہ انسان فراخ
ہو آؤ حرص کا جب تک نہ توڑیں ہم پیوند
ہر چہ خواہد میکند خلاق اکبر نیک و بد
جو خود ہے بندۂ محتاج اسپہ کیا امید
وہی بندہ ہے غم سے آزاد
رہے گا کب تلک یہ خانہ آباد
خدا کے روبرو کر اپنے فریاد
نہ کر لکھ لکھ کے کالے اسقدر اے بنجر کاغذ
ہے اسی دام تعلق میں یہ بندہ ماخوذ
لکھ ایسا ذوق و شوق حق میں اے اہل نظر کاغذ
بندہ عاجز کے لئے کرتا ہے اتنا زور و شور
خوشی سے مان سرور حکم تقدیر
مل کے بیٹھو دوستوبہر عبادت باربار
حق سے وہ پائے دولت دیدار بار بار
وحدت کا کر زبان سے اقرقار باربار
عاجزی کر عاجزی اے خاکسار
ورد کر نام خدا لیل و نہار
کیے ہیں نفس نے اس طرح دانت تجھ پر تیز
آنکھ مت حق کی عبادت سے چرانا روز روز
فی الحقیقت وہ خدا لے کار ساز
وقت مشکل سب کی لیتا ہے خبر بندہ نواز
خدا کی ذات کو ہر ایک دم سمجھنا پاس
جیتے جی کرتا ہے کب دنیا سے دنیا وار بس
لائی جو خبس اچھی اس بازار میں وہ پائی خبس
کارکن سرگرم ہر شام و سحر درکار باش
دور ہی سے سونگھ اس گلشن کی باس
عاشق روے مسیحائی اگر بیمار باش
خدا کی رکھتا ہے جو بندۂ خدا خواہش
سر جھکا سرور کہ حق تجھ کو کرے ہمتاے عرش
حق وپہ سمتا ہے بندہ حق نیوش
در بدر اس آدمی کو بھیکھ منگوانی ہے حرص
خدا کے بندوں سے کر بندۂ خدا اخلاس
ہے دین و مذہب وملت کا مقتدا اخلاص
خدا کے رستے میں رہبر بنا تو ایسا شخص
خود غرض خد مطلبوں سے کچھ بھی مت رکھنا غرض
بندہ کی آپ سنتا ہے حق بار بار غرض
ہم نے مرد پا خبر پایا تو پایا بعض بعض
ہے مقید بندگی کا آج بندہ بعض بعض
بندگی کا بندگان حق سے ہے اظہار شرط
آشنا مطلب کا ہے ہر اپنا بیگانہ فقط
منزل دنیا نہیں جائے نشاط
ہو سکے کیونکر خدا کے علم پر بندہ محیط
نکال ان کو جو ہیں موجود اغلاط
مرد باتدبیر کرتا ہے بہر کار احتیاط
پہلے دن جو خامۂ قدرت نے لکھا لفظ لفظ
فقط ہے اپنی خلقت کا وہ خلاق جہاں حافظ
سمجھ لے سوچ لے اب اپنے کام کا موقع
گذر یہ مفت اگر آج جائے گا موقع
اگر ہو جلنے سے موقوف ایک دم بھر شمع
وہ بخش روشنی اہل جہاں کو بنکر شمع
اپنے مولیٰ کی طرف رکھ ہر گھڑی اپنا رجوع
دوستوں میں باعث رنج و نزاع
جمع کرتا ہے آدمی طماع
رنگ و بوے باغ عالم سے معطر کر دماغ
خلق سے خالق کا ہم کو مل گیا پورا سراغ
اپنے گم گشتہ کا اسنے پالیا سارا سراغ
دل میں کر روشن محبت کا چراغ
یہ کیسا باغ ہے دنیا کا ایک عمدا باغ
ہے کس نے دیکھائی کوئی اور اس طرح کا باغ
کتنا ناطاقت ہے عاجز ناتواں انسان ضعیف
سینہ رکھ اپنا صفا اے سینہ صاف
خدا کے واسطے ہر وقت کر میان انصاف
مرد شایق کو مقام قرب تک پہونچا ے شوق
تو اپنے سینہ کا آئینہ اس قدر رکھ معاف
نہ طالب مال کا ہے اور نہ ہی خواہاں زر عاشق
لہو پیتا ہے کھاتا ہے فقط لخت جگر عاشق
کر مطالعہ دفترِ وحدت کا سرور ہر ورق
تعلق کا نہو دنیا میں مشتاق
ہزاروں گرچہ کیے ہیں خدا نے پیدا رنگ
ہے رات دن میں بدلتا زمانہ کیا کیا رنگ
ہر ایک چیز سے ہے ذات کبریا نزدیک
اپنے دل کو تنگدستی میں نرکھراے یار تنگ
حرص کا انسان کو رکھتا ہے سدا آزار تنگ
سمجھ لو ذات الہی کو وائما نزدیک
کرے فخر اسقدر کس بات پر خاک
ٹیرھے چکر کھاتا ہے گردوں گرداں آجکل
رنگ ڈھنگ اپنا دکھاتا ہے نرالا پھول پھول
گلشن دنیا میں آکر ہم نے دیکھا پھول پھول
دل بنا رہبر کہ دلبر تک تجھے پہونچائے دل
کیوں نہ اس مرد خدا کا استقامت پائے دل
بشہراہِ طریقیت ایسی چل چال
اگر تو کام کا بندہ ہے ہر گھڑی کر کام
کدھر کو جسم سے جائے گی جان نہیں معلوم
قیام تھا ترا پہلے کہاں نہیں معلوم
عزیزو دنیا کا بےفائدہ ہے کھانا غم
نرکھ دل میں کچھ مال و دولت کا غم
رہ راستی سے اٹھا مت قدم
فقط اک دم میں جو چاہیں جناب کبریا کردیں
سب کو ہے اس دار فانی میں بقا دو چار دن
خدا کے نام سے نام اپنا ایسا کر روشن
عمر کے باقی جو ہیں اے بے حیا دو چار دن
فقط حق کو سمجھ اپنا نگہبان
عزیزو کونسی ہستی پہ نازاں
لفظ لفظ و حرف حرف و نقطہ نقطہ دیکھ لو
کوئی دن بستان عالم کا تماشا دیکھ لو
کسی گھر پر نجاؤ اور نہ گھڑکاؤ کسی در کو
محبت کی اگر لگ جائیں پر انسان بے پر کو
کرونہ گفتگو دنیا کی اہل عرفان سے
خدا کا بندۂ سالک سے راستہ پوچھو
ڈھونڈھتا پھرتا ہے جس کو چار سو
خلوص دل سے کرے بندگی اگر بندہ
نہ ڈھونڈھو حق کو زمین پر نہ آسمان ڈھونڈھو
خدا پہ رکھتا ہے ہر صاحب یقین تکیہ
ہمیشہ جس کا رکھتا ہے خدا وندِ جہان پردہ
بنا اپنے سینہ کو روشن نگینہ
کس جگہ جانے وہ عالی خاندان جاتے رہے
آدمی ہو کر اگر ہوجائے حیوان آدمی
اب کہاں وہ اپنے ہم مجلس جوان جاتی رہے
برا نہ باقی رہے گا نہ اور بھلا باقی
خدا کی آج ہی جتنی ہے کرادا باقی
راضی رکھ خلقت کو خالق کی رضا کے واسطے
ہاتھ پھیلائے رہو ہر دم دعا کے واسطے
گزری کچھ تکلیف میں یا گزری اچھی زندگی
غیر کو چھوڑ اگر حق کی رضا چاہتا ہے
سر افرازی بدرگاہِ الہی اس نے پائی ہے
نہ نکلے گی چمن سے عندلیب زار جیتے جی
ہمیشہ کر جنابِ حق میں زاری
طمع کی کیسی بیماری ہے بھاری
رحلت اس دنیا سے دنیا وار جب کر جائیں گے
مسدس
مخمس برغزل مصنف
مخمس برغزل مصنف
مخمس برغزل مصنف
مخمس برغزل مصنف
مخمس برغزل مصنف
ترکیب بند
کوئی دن میں جب گزر جائے گا تو
پہلے اس ہستی کی ہستی تھی کہاں
فی الحقیقت تو ہے پتلا خاک کا
وقت پر حامی ترا ہو جائے گا کون
ہے غرور اے نوجوان کس بات پر
بے عبادت قرب ملتا ہے کہیں
جلوۂ حق جابجا ہے دیکھ لے
کب تلک آخر رہے گا جلوہ گر
دیکھ کیا دنیا کی رنگین ہے بہار
دولتِ دنیا کی پر دامت کرو
کیسی خوش خطی سے ہے لکھی گئی
خاتمہ الطبع
تاریخات طبع
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.