سرورق
حدیث فیض اوبرلب گر آید
الٰہی تار ہے گردوں گردان
جو مطلع پیش چشم دل ربا ابدوے جاناں کا
بھاتا نہیں اپنے تئیں جہکترایہ بہم کا
جلوہ کیا دیکھیں سراپا اسکے حسن پاک کا
خورشید وماہ میں یہ جہمکے ہے نور تیرا
بت تو راحت ہے ہمیں نیند میں جانا اپنا
کہا نا نہیں خوش آتا پینا نہیں خوش آتا
غم کا جو پترا اپنے دل تنگ میں کثیرا
غش دیکھ کے ہو خال لب یار بکوڑا
دبکی اور اس زلف کی الجہاد جب جانا تیرا
متاع دل وہ ہماری لیا لیا نہ لیا
جہاں وہیں اپنی بند ہی ہے ونانکوی جاسکیکانہ جاسکیگا
ذرہ نہ وفا کیا تو کبھو جفا پہ رنا جفا پہ رنا
چھوڑ کر دروازہ اسکا جائیں کسکے در بھلا
بیطرح روٹھا تھا مجھسے بار شبکو ہمنشیں
خجل ہیں دل گرم وچشم تر سے خلیل وآتش کلیم ودریا
ذکر دانتوں حاجوانکے چلتے چلتے چل گیا
خنجر ناز تیرا ہے جو لہو کا پیاسا
اس غنچہ دہن کے ہوں مقربے دہنی کا
ہر چند ابر تر ہے اے ساقی دتا ہوا
حیف دنیا کو جو میں رہیکا مسکن سمجھا
نگاہ خود بین کو دیکھ میری گھر تمین تولہ کثر ماشا یمن
وہ غمزۂ چشم آہ جگر کاتنے دوراً
دم زون میں آہ دم کا سلسلہ جاتا رہا
دل سے تا چشم اشک کا یہاں نادپرپانی چترہا
میں عشق پیچ سان جو شب اس ے لپت گیا
ہوئی پے نور شمع دمہ نہ یہ جہمکی نہ وہ جہمکا
دامن ہے روکش دل پر داغ دوسرا
عجب ہے شیشۂ مے ابتہاج کا پتلا
ہم بد ہیں تو ملیگا تمہیں بیک دوسرا
ہے آہ برق ارو اشک خون ہے سیلاب آتش کا
مژگان ترکا اپنے جو مذکور چل پڑا
چارہ گربس یہی آتی ہے دوار اس کہلا
اس عشق نے جی لیا ہمارا
ہے جو مرضی تو میں گلی سے چلا
نظروں میں کسکے دل میرا منظور پھر ہوا
کام ایک وار میں کیا جان فگار کا
بندہ کہائے ہے میرے گردوں جناب کا
دے تو گلگشت باغ میں بوسا
کچھ ابکے اپنے تئیں باغباں نے بھول گیا
کیونکہ پیمانہ بنا سکتا ہے میری خاک کا
جب سے اس میں تیرے گھوڑا لگا
برس گیا ہے اے ساقی سحاب کا ٹکرا
جوش چشم پر آب میں دیکھا
کیا کیا کلال تجھسے بہ از مثت گل بنا
وہ گرم خون دل داغ داغ کا تپکا
دمبدم کیونکہ نہو جاے یہ بسمل تھندّا
نالۂ دل ضعف سے لب پر نکلکر رہ گیا
دہو یا ہے کسنے منہ جو یہ ہے رنگ آب کا
ہستی سے ہے عدم تک ایکدن ضرور جانا
ہم ترستے ہیں جدا تر سے ہے جانانہ جدا
عارض جدا ہیں اسکے گل یاسمن جدا
عشق کا دلمیں مکان تھا مجھے معلوم نتھا
شاخ مژہ پہ جلوہ ہوا دلکے لخت کا
یوں نہ ہر بات پہ تیوڑی بت بیباک چرہا
ماہ نوکی طرح شہرہ لاغری سے ہے میرا
عارض لالہ گون پہ ہے کا کل مشکفام کیا
اسے اتنا کہیو تو قاصد اکروں حال کیا میں رقم پہلا
حیف اب تلک نہ ساقی جام شراب چمکا
دم صبح رخ سے اسکے جو اتھا نقاب آدھا
سنبل ہوا عش زلف وہ جس آن مرورا
اسکی بیدتہب چلی تھی تیغ نگاہ
کیا تیرے ہو نٹھوں نے باتوں میں فقط گل کسرا
تار مژگان سے ہر اک لخت کا گل باندھ دیا
راستاد ہوا جبکہ میری آہ کا جھنڈا
ضد غیر سے ہم ہے ادھر آ اودھر نجا
میں ہوں دیوانہ ای گلشن کے سنبل اور سنبل کا
شگفتہ لالہ خون سے ہے باغ بستی کا
رو برو اسکے دہن کے نہیں رو غنچہ کا
غرض بلبل صبح سن غنچہ نے لب کھولا تو تھا
شہرت وحشت دل نے ہمیں بن بن کھنچا
چاندنی میں جو وہ شب فرش بچھا لوٹ گیا
خط جو تیرے لب شریں پہ ستمگر نکلا
وحشت سے اوڑا جوکہ گریباں کا تکرا
یوں دل ہے میرا ذوق مئے ناب میں ڈوبا
اے داے انتظاری آنکھوں میں جان پہچا
ہم پشیگان کو اسکے غم کیوں نہووے دونا
صبح جوں دست صبا سے گلکا داماں ہت گیا
کیا کیا کیا نہ قیس دیوانے کی بات کیا
کیا ہے شغل پیدا گر نہیں جی کے لگانے کا
عشق نے روز از جسکے تئیں عین کیا
سینہ جلا ہے جون جوں چشموں نے آب چھڑکا
ہمنے جانے نہ ہمیں یار نے جانا اپنا
خواب میں یار کی صورت مجھے دکھلائی کیا
مجھے وصف زلف تیرا کیا ہوا اے جادوا دا
برگشتہ ان مژوں سے جو عالم اولٹ گیا
تصور دیدۂ تر میں بند ناکس زلف درہم کا
عریوں زیر زلف اس رخپہ ہے جوں دانہ شبنم کا
عرق اس زلف سے یوں چہرہ پہ دہلتے دیکھا
زر اندوزی پہ دنیا میں کمر مت باندہ اے منعم
لخت دل اشک ساہتھ بد امن پک کیا
زخم چنگا ہو چکا بس اس دل دلگیر کا
جب ازل سے ہر کو صد چاک پیراہن ملا
ملامت اب نکرنا صح کہ تو کیوں دل دیا اپنا
شکوہ سوا میرے ہنیں غیروں سے اسکو ذکر
خدا جانے بت خود فام آتا ہے نہیں آتا
الٰہی کون مجنوں وش یہاں دیوانہ رنگیں تھا
نکر تا عشق گریہ دل تبو اتنا خوار کیوں ہوتا
شب اسکے رخسے قطرہ عرق کا جو دہل گیا
کیا چشم رکھے زیست کی بیمار نگہہ کا
دل میرا رہکھتی ہے وہ زلف گرہ گیر سدا
طبیبوں سے ہوا اور مان نہ میرے جوش سودا کا
سیراب سے ہو کیونکر خنجر وہ جنگ جو کا
اس زار دلمیں شب کوئی پانی جہکولتا تھا
چشموں کا ترے جسکو میخانہ نظر آیا
نہیں شب وہ جو تجھ بن اک غضب مجھپر نہیں ہوتا
اٹھ کئے کب کے ہے باراں سبکبار شتاب
رخ ہے اسکا آب وتاب آفتاب وماہتاب
دل اسطرحسے تو اس شوخ مست خواب کو داب
مجھسے بھی ہونشہ میں دلارام لب طلب
طرح آمد کی بہار ان نے ہے ڈالی کیا خوب
پر تو فکن تھی کسیکی یہ شمشیر زیر آب
سوئے گل سے لک کے ہمارے وہ رات خوب
کب آئینہ میں اسکے ہے تصویر تہ آب
یوں آئینہ میں ہے اس رحکی تاب در تہ آب
کیوں مجھسے خفا ہوگئے اک آنمیں صاحب
زلف وابرو کہ ترے یار ہیں مارو عقرب
ساقی تیری شراب کو آتش کہوں کہ آب
یاقوت ولعل میں جو کیا امتیاز خوب
اے عندلیب گرچہ ہے گل بھی ہزار خوب
تیزاور آبدار ہیں ابروے یار خوب
جسدم میں انکے وصل سے تھا کامیاب شب
اکدن تھے وہ کہ یار تھا پہلو میں تنگ وخواب
یار کرتا تھا جو شبکو شب مہتاب میں خواب
باغباں باغکی رکھتا ہے تو جون گل سیراب
حق کی درگاہ میں بٹتا ہے اثر آخر شب
عشق اس خوش چشم کا رکھتا نہیں کر ہے حباب
بس مجھسے نہ لڑ کھتے ہیں اور لڑکے چلے آپ
خیال زلفمیں ایسے ہیں اشک چشم تر غایب
رکھتے ہیں اب بھی نشۂ شب کا خمار آپ
نالہ ہاے زار تپش گل نکر ہر بار چپ
بادسے بلبل بستان نے لڑے صبح کے وقت
آبھی حیران کر نہ یار بہت
غنچے کہتے ہیں چمنمیں جبکہ آتی ہے سنت
سویا وہ چاندنی میں جو بالاے بام رات
سینہ ہے باغ داغ کی دولت
خضرت دل آگے کہلاتے تھے انا تم بہت
بعد مدت کے میری انسے ملاقات تھی رات
ہے بدیے نیکی کا یہاں نفع وضرورسبت مدست
تنہا ملے تو اس سے کھوں اک ضرور بات
جہاں کے باغمیں آئی بصد بھار سبنت
رکھکر میری نبض دل مد ہوش پہ انگشت
انتظار یمین گئی آہ گذر آدھی رات
کھ باد صبا کچھ نوکلستان کی حکایت
جلوہ اپنا مجھے دکھلاے ہے دن رات سنت
دنپہ دن گد زرے چلے جاتے ہیں اور رات پہ رات
چمکے یوں حین سلام اس مہ کے سرپر پشت دست
کچھ کرنے ضرور آپ سے ہے ایکد وگھڑی بات
جو شکل چاندسنی یاد آگئی تمہاری رات
ہمیں جوں شررہے مہلت یہاں ایکدم غنیمت
کوئی چوری تو کیجئے اثبات
دیتا ہوں جان ہجر میں کہتا ہوں ہاے دوست
اس بت کو زلف کی ہے ہر تار کی حفاظت
چلوں رکھے وہ اپنے رخ پر صفا کے اوت
پھر منہ میرے طرف سے ایمیری جان نہ لیت
گلچیں سے چمنمیں جو ہوئے صبحکو کہت پت
پوچھتا ہے وہ نہیں اس پاس جاتے ہو عبث
دل شکن بلبل کا گلچیں ہے گلستانمیں عبث
بس بات بات پر تونہ کر گلعذار بحث
کیوں خفا مجھ سے ہو رہے ہو عبث
خفگی کی نہ کرو بات عبث
تو دہونڈے ہے دل غافل یہاں کدھر مراث
نہ دست وحشت اک اپنے گرییانکا ہوا وارث
کیوں نہ دلکو خوف ہو دیکھ ابروے دلدار کج
ساقی ہے زور جلوۂ ماہ تمام آج
آیا جو نقد دل تیری زلفوں کے کام آج
کس گل کی کھلی تہ قبا آج
کل کا نہ کروں میں کیوں گلا آج
سخت حیران ہوں نہیں بیمائے دلکا علاج
تک کھول غنچہ لب کا میرے اے صبا مزاج
ماہ کنعان جو گیا مصر کے بازار کے بیچ
کس رنگ غنچہ لب وہ کہلے پھر سخن کے بیچ
کیا سوز دل چلیکے تیرے تھا بدن کے بیچ
حالت بزم دگر گون جو ہوئی آن کے بیچ
دل رہائی کی ہے ان زلفوں سے تدبیروں کے بیچ
مردمک یوں ہیں میرے دیدۂ پر آب کے بیچ
کہیو ایقاصد جو ہو تیری وہ قاتل تک پہنچ
جب سے آئی ہے نظر ناف تیرے خواب کے بیچ
مقسوم کا اپنے میں کسو سے کہوں کیا پیچ
اس شوخ کے ہیں غمزۂ خونخوار بیطرح
عشق سے جان اب بچاؤں کسطرح
لو میں اسکی کہنچتا ہوں ااہ سوزان تابصبح
ہم جو گئے بسوئے گلستان علی الصباح
مثل صبا گیا جو میرا گل علی الصباح
نہ مرجان کی ہو سمرن شیخ بی کافور کی تسبیح
رنگ میں سے سرخ یوں ہے روے جاناں وقت صبح
نکالا ساقیٔ خورشید سرزروزن صبح
یہ بگولا کیا ہے سر گردان ہے اس مخرون کی روح
چہرہ سے اپنے یار جو برقع اٹھائے صبح
ہیں سپعند داغ فرقت دلپہ اخگر کی طرح
ساقی کے چشم مست ہیں وہ نیمخواب سرخ
رنگ گل چمن ہے اے بلبل ہزار شوخ
ہوتا ہے گرچہ رنگ گلوں کا ہزار سرخ
سرخ کے مانند ہیں یہاں اشک خونیں روز سرخ
گل بین ہزار سبزو سفید وسیاہ سرخ
جب کریں ناوک مژگان جگر میں سوراخ
کہتا ہنیں میں دے ہے مجھے روز گار چرخ
دہن دہن سے لگا اسکے مدتوں کے بعد
دل ہے تیری ہوا میں باد صبا ہے شاہد
نہ بنا گوش فقط نور سحر کے مانند
دلکو بھلاؤں میں جاسوے گلستان تا چند
تیرا برقع میں رہیگا رخ تابان تا چند
دل تھا ہے خون ہوا ےہے جگر یک نشد دوشد
کیا وہ سنجاف تماجی کی ہے دامان کے گرد
بیطرح دل سے اب ہوئی آہ سحر بلند
قد وہ ہے شعر چیدہ کے مانند
شب جو ہوئی اس سے
رخ ہے وہ آفتاب کے مانند
آصنم بر میں خدا کی سوکند
ہر ایک صبح جو نحلے ہے شرق سے خورشید
شرخ اس بت کی جبیں پر جب لگے کو کو کے بوند
جسم آدم کل ہے ملک آب و آتش خاک و ساد
رخ دکھا برقع سے سر کی سوگند
ہے میرے دیدۂ ترکی سوگند
کیونکر کہوں قد کو تیرے شمشاد کے مانند
ہوا ہے جب سے قدیار کا نہاں بلند
اس زلف کی جو پڑگئی تقدیر سے کمند
ایجوان اب دہو کے کراشک ندم سے رو سفید
تو بھی پوشاک سبح ای ساقی گلفام سفید
تو بھی سج زیور الماس اے خود فام سفید
نامہ برویجو میرا تو اسے جا کر کاغذ
کیا پوچھتے ہو زلف رخ یار کا گھمنڈ
جو تم اے نو خطو لکھتے نہیں میرے تئیں کاغذ
لیے سر سے پانو تک ہے تن خوشقدان لذیذ
سطریں مرگان کی ان آنکھوں نہیں زیر و زبر
اب اسکی ہوئی گرمی بازار ہے کچھ اور
بہتر نہیں ہے آنکھ لڑانا ادھر اودھر
جو خط و خال سے ہے لب یار سر بمہر
انجم نہ کس روش سے ہوں غش اسکے خال پر
گوش مضمون سے میرے رکھتے ہیں لوگ اوپر کے پر
آوے تک بحر سر شک اپنا جو طغیانی پر
عالم مستی میں کر ساقی نظر جوش بہار
احوال دل کسی سے اپنا نہ گفتہ بہتر
شاہ کیا کیا ہوگئے ہیں اس رنمیں کے تخت پر
ایک ثابت نہیں وحشت سے گریباں میں تار
مرد مک طوفان پہ ہیں جو چشم تر میں بیٹھ کر
دم میں جاتا ہے بدل گردش ایام کا دور
داغ غم عشق کا سوزان ہے جگر کے اندر
آرۂ ظلم سے یوں سوشجر جان کوحیر
دیکھیں روٹھا ہے وہ منے کیونکر
اس رخپہ جو ہے زلف سیہ فام ادھر ادھر
کہلے گل ہیں ساقی گلستان کے اندر
کسکے یہ غمرٔہ سفاک ہیں خونخوار ہے پر
عالم میں حوبرو نہیں اسکی مثال اور
باغمیں صبحکو بیٹھا وہ ہوا کے رخ پر
عجب گرتی تھی شب جوے چمن سے آب کی چادر
ناصح پھا ہوں دام میں دل کے میں آن کر
اس پری کے زلف کے سودے میں ہوں دیوانہ وار
پتا کوئی نہ کھر کا اے باد صبح ہل کر
اس بت کی زلف سے نو کالے اکثر نہ بل کر
جیب و دامان دیکھو ہر شب تارہیں بستر کے تر
وہ نور سے ہے لبا لب شراب کا ساغر
ساقی وہ مے دے جسکی ہوتا ثیر گرم تر
ہے نالۂ دل اپنا وہ سر سبز ہوا پر
رکھ سرہانے ہنو غصّہ اے صنم یکتہ پر
منگوں ہوں بوسہ تو دو ہو گالی سوال دیگر جوب دیگر
ہم نے اس گلعذار کی خاطر
ابروے یارنے توتا ہے غرور شمشیر
کیا پتنگے کو تھی اپنے جی سے جانے کی خبر
یوں کہے ہے عاشقوں پر تیر جاناں چھور یہ کر
جو سرو گلشن نے قد کشتی کی تو آبنی قمریوں کی جان پر
یہ عالم نور کا ہے اس جبیں پر
دل لگا یا جان کا سودا کیا ہوں جان کر
مہر رخ ہے جلوہ گر آدھا ادھر آدھا اودھر
فرہاد تیری جابگی جان کوہ کے اوپر
اوڑتا ہے پر پروکا وہ سرخنگ ہوا پر
آہ دل اور اسکی مژگان ایک ترکش کے ہیں تیر
ہمخواب ایک رات بھی ہو وہ نگار گر
ہیں اپنے کام می پیوستہ طاق ابروے یار
صبح تک ماہ روبحہ ہے نظر تاروں پر
مت جا ای میری آہ حزیں آسمان پر
کون آئے میرے نالۂ شبگیر کے منھ پر
گر لگاوے وہ خدنگ ازرہ کین میرے پر
پہلے تیشہ سے سر حزوبہر ندبیر چیر
جلوہ گر اسکے نہیں رنگ حنا نا خن پر
قرص مہ کہانے سے کم ہوئے ہے کب لرزۂ مہر
سروہی کب ہے فقط چلنے پہ دامن باندہ کر
مدتوں سے کچھ نہیں معلوم حال کوئی بار
پہلوانوں کی طرح گار قدم کشتی پر
دیتا ہے ساقی جام بھر سارا ادھر آدھا اودھر
اے دست جنوں میرا نہ دامان تکا کر
تیغ نالہ کسنے کھینچے ہے چمن میں داف وار
ساتھ کیا لائے تھے کیا بس لیچلے ہم باندھ کر
گلگشت کرکے باغ کی پانونمیں تار توڑ
وصل تیرا مجھے آتا ہے نظر دور دراز
دلکو میرے جلائیے ہے وہ شمع خانہ سوز
اب کےوہ باد بھاری کی ہوئی تاثیر سبز
میکشی کی ہے ہوا کسکو تہ خاک ہنوز
سینہ داغ ہیں جو میرے دل کے آسپاس
خال ہے پار کی جو ابروئے خمدار کے پاس
اے دل نکر تو زلف سیہ فام کی ہوس
ایک دل ہے سوداغ دار افسوس
پھرے ہے کاہیکو خالی دماغ میں فانوس
غمزے تیرے ہیں چشم کے اے یار سو پچاس
بہرا جو ساقی نے شب کو ایاغ ور مجلس
چمن میں آئیں ہیں کیوں ہمصفر سوئے قفس
کب تک میں جلوں غم کے ستمگر نہ آتش
لاگے بفلک نالۂ عشاق سے آتش
آہوں کی جوروشن ہے دل تنگ میں آتش
آہ کی شب جو ہوئی دل سے نمایاں آتش
اے عشق ماہیے ہجر غم میں سمندر آتش الم بارے ہیں
رکھ کوزہ گراں کار ز آب و گل دآتش
یوں عشق نے دی ہونک دل تنگ میں آتش
موسم ہے خوش ہوا خوش وابربہار خوش
ساقی پلا شراب کہ ابرو ہوا ہے خوش
اس زلف سے دل ہوگا بہ تدبیر مرحض
کس ادا سے دیکھو وہ خوش ادا کرتی ہے رقص
موسے ہے رشتہ جان تار نظر خاصی الخاص
رنبا ہنا نہیں آسان اے مہربان اخلاص
اے ابر تجکو کسکی ہوا چشم تر کا فیض
کیا خوشی کا ہو ہمارے دل دلگیر سے ربط
شمع پر گرنہ پتنگے نہیں تعجیل ہے شرط
لبھاے یار رکھتے ہیں کیا بکد گر میں ربط
یوں کروں میں کوہ و صحرا بیچ آبادی تو شرط
خوشنما ہے کیا خط رخسار جاناں بے نقط
سنتا ہوں مجھپہ تو ہے خفا سچہ ہے یا غلط
صبح غنچوں کی صدا پر تھی جو بلبل محظوظ
شمع سان چشم نے کیا اشک کے قطرات شروع
پھر بہاراں کے ہوے باغمیں ایام شروع
کیوں پتنگے کو جلا کرتوہے گریان اے شمع
نہ اپنی دید سے ہو مجکو نوجوان مانع
آج برقع سے مہ رخ جو تمہارا ہے طلوع
کیوں اے دل غافل ہے تو تدبیر کے تابع
یہاں جسم زار عشق میں تیرے ہیں داغ داغ
اسطرح عاشق ہیں اپنے کوئی دلدارونمیں جمع
گل نہ کردے تا نسیم صبح گلشن میں چراغ
یوں لخت دل ہیں چشم کے مژگان میں چراغ
لے شام سے سحر تئیں سوتا نہیں چراغ
ایسی نہ تیغ ہند ہے نے اصفہان کی تیغ
شعلۂ فانوس سان ہے جان میرے تن کا چراغ
ہے سایلان ابر گھر میں صدف
بوئے نخوت سے بھرا ہے غنچہ و گل کا دماغ
خون سے کلک مژہ لکھنے لگے شنجرف کے حرف
کیا ہے مستوں کی جمی صف اسطرف اور اسطرف
کب سیہ بختوں سے ہے تو چرخ نا انصاف صاف
ناوک انداز عجب ہے تیری مژگان کی صف
بہیں نہ اشک تو جلنے سے ہو نفس موقوف
دل نذر کروں ہووے جو وہ حور موافق
گریہ سے یہاں فقط نہیں مژگان لہو میں غرق
اسقدر اسکا سمایا ہے دل تنگ میں عشق
اسکے خط درخسار میں دن رات ہے فرق
دل نہ دیگا کبھو رہائی عشق
تیرے ہیں جلوۂ ابرو کے جیسے ہم مشتاق
اسکی موہوم ہے کمر تحقیق
دل اسکے ہو ازلف گرہ گیر کے لایق
دل اپنا یوں ہے یار کی تصویر کا ورق
روز سنتا ہوں گلستان کی خبر ایک نہ ایک
لڑے شب جو اس سے نظر یک بیک
غمزے خون ریز تیرے کچھ نہیں کم ایک سے ایک
الگی دل میں میرے یوں مڑہ یار کی لوک
آنکھوں میں رنگ یار چمکتا ہے اب تلک
یار ہم یوں ہیں یکد گر میں ایک
چلنے میں دیکھ کر تیرے قد کی لٹک جھٹک
مثل مہر صبح افشاں سے ہے اس رو پر چمک
ملتفت اس گل خوشرد سے ہیں شاخ و گل و برگ
دکھلا دیا جو پان کا وہ ہنستے ہنستے رنگ
برق چشمک نے کسو کے پھونک دے وہ تن میں آگ
اسکے رخساروں سا کب ہے گل کارنگ نیم رنگ
گرچہ ہے لعل کا بھی حوب دل سنگ میں رنگ
لگے حوذبین کو کیوں نہ پیارا دل
ساقیا لیکے چلیں شیشہ مل بر سر گل
ایسی کیا بات صبا انکے تو دے کانمیں ڈال
یوں پر ہیں اپنے گود میں لخت جگر کے پھول
شاید کہ اس جگہ ہے کوئی دفن تفتہ دل
ابرو اور دلکی گرہ واکرکے ٹک پی ملکے مل
صبح مت دست دتاسف شبکو ہمسے مل کے مل
کہتا تھا شب پتنگ یہ شمع لگن سے کل
فصل گل ہے کہلکے غنچے ہورہے ہیں گل
یار کے دلکی گرہ ناخن تدبیر سے کھول
ہر چند گھرا اسکا ہے میرے گھر کے مقابل
آئینہ تو مت رکھ رخ زیبا کے مقابل
اورہنی جایی کی اس سرپہ ہے جوں جال پہ جال
قشقہ دیاوہ سرخ ہے نارک دماغ گول
گل عندلیب کو تو گلستان سے مت نکال
گلگیر نمظ جاے ہے پروانہ کہ لوں گل
اس رشک مہ کو دیکھے دل اپنا گہرآہے ہم
پھر جی سے ملے تو ملاقات کریں ہم
غش ےوگیا میں دیکھ کے اسکا ساروے گل
گلہائے باغ پر ہے فقط کب صبا کا حکم
لب پر دھڑے مسی کی جمانے لگے ہو تم
ہیں خوار رشک کل کی ہوا میں ہو اسے ہم
کچھ پاے نہ ابتک شجر عشق سے برہم
یاد کار دہر بن آتے ہیں ایسے کام کم
حلقہ زلف اسکے رخ پر ہے چراغ صبح وشام
جی کئے ہیں نذر دل کے ساتھ ہم
وہ نگا ہیں دل اور اینکے جو ہیں لبت ہم
جی جاے پہ مات اس سے اتھا نیکے نہیں ہم
کہنے پائے تھے ہم حال نہ ہیہات تمام
ارے شوخ صنم تجھے سرکی قسم ادھر ابکرم ادھر ابکرم
غم کہا قیس کو تو پہنچ عدم تھوک کے ہم
مدت میں مجسے مثل گل ایجان کھلے ہو تم
حسن کا اسکے تو ہے عاشق بدنام سے نام
ساقی سورکھتے ہیں امید تیری ذات سے ہم
کہئے کیونکر تجھے غلمان سے اور حور سے کم
دشت الفت میں ہیں سر گردان کہیں کباد دلکو ہم
پانے کی تھی جو بات سے اسکو پناہے ہم
گرچہ غرق چاہ غم ہیں جوں مہ کنعان ہم
واربستہ یہاں ہے جسم سے دم اور دم سے ہم
عارض سے اسکے بویے صبا اور صبا سے ہم
الفت رکھے ہے ہم سے چمن اور چمن سے ہم
میں نے دیوار پہ اب اسکے لگائیں آنکھیں
مہروش نے جو جھرو کے سے لڑائیں آنکھیں
تیر نالوں کے میرے جب سے کہ پر پھوٹے ہیں
نمود خط ہے کہ کچھ ملف کی ہے سر کی چھانوں
یار کے دیدہ و دل دیتے خبردونو ہیں
گئے یوں شبکو ہم اس رشک ماہ کے گھر میں
کیا نہ باتیں آپنے فرمائیاں
لیتے ہیں دلکو کسطرح بولے وہ مسکراکے یوں
فضل حق گام اجل سے جو بچاویے تو بچیں
دسپ دیا اور انکی انگشتیں وہ جو چوبیس ہیں
مثال آئینہ صورت نظر آتی ہے کانوں میں
وصل کی شب وہ کچھ آتے ہیں بگڑ جاتے ہیں
وہ چشم مست دیدۂ ساغر سے کم نہیں
نہ بیٹھا آکے کبھو گلعذار پہلو میں
خربوں کو عاشقوں سے محبت ذرا نہیں
دھوئے وہ دست حنائیے کو اگر پانی میں
کوئی شب سورہیں ہم تم لپٹ اے یار آسمیں
نہ پوچھو نقشہ اسکی شکل کا ملتا ہے کس کس میں
مئے گل رنگ ہوں جیون نیلو فریے شیشہ میں
آرزو ہے بر میں پردہ سیمبر آتا نہیں
ہم جو شکل انکی دیکھ رہے ہیں
اس دفن کی جو چاہ کرتے ہیں
جون بادہ ہووے جام بلّور پر صفا میں
نئے ہیں بہت اور پرانے بہت ہیں
کیونکہ اپنا نہ اسے ناصح نادان دل دوں
جو حال دل میرا ہے سو تم سے نہاں نہیں
ان چشم میں ہیں دیکھیں جب سے حیا و شیر میں
مژہ میں جس سلیقے اشک ہم اکثر پروتے ہیں
کس پری سے اسکی آنکھیں لڑگئیں
پترا صبحدم جو ساقی نظر آفتاب تجہ بن
شوخ کی کیا ہیں لجائیں ہوئیں پاری آنکھیں
ساقی اتنا بھی تغافل تیرا کام آتا نہیں
ایکدن وہ تھے کہ تھے زمزمہ میں نوشوں میں
یوسف کے سرد سب ہیں خریدار اندنوں
عشق کے چہرہ پہ ظاہر ہے نشانی اندنوں
کشور حسن کے چرچا ہوا بار ازدن میں
جنوں میں پر از خون ہے مژگان و دامن
جان من زلفوں کا تیر جو میں سودائی ہوں
ہم بھی یوسف کو اپنے لانے ہیں
ملکے بیٹھے تھے کہ با جا ہے کجر اتنے میں
ہوا ہے ابرھے بارش ہے ہیں بھیتی ہوئیں جھلیں
تو دیکھ فی میری نظر سے فلک یہ بجلی زمیں پہ باران
چھائیں ہوئیں گھٹائیں ہیں کیا کالی کالیاں
کل لخت جگر سے ہے بہار دامن مژگاں
اسکی خیال سے جب تصویر کھنچتا ہوں
یہ تیری ناف ڈالی جب سے ہے گرداب حیرت میں
یہ نرم نرم یہ نازک یہ پیارے پیار پانوں
جو لخت دل سر تار مژہ پہ آتے ہیں
دونو ہیں ایک بلا اسکے پریشان زلفیں
پھولوں کا میری جان نہ پھر مار گلے میں
ونان آئنہ ہے اگے اور خود پرستیان ہیں
دیدار کو ہم انکے کب سے کثہرے ہوے ہیں
نہ کس روش رہے روشن دل ودماغ چمن
ہوا امتحان کا یقین پر یقین
ارادہ ہے تیرے غمزوں کا مجکو جان سے مارین
وہ دیکھتے ہی بنیں کب کسیکے بس میں ہیں
اشک خونیں سے رگ گل ہوے خار دامن
نادان بھی نہیں ہوں جو دانا نہیں ہوں میں
دل قسم دے گلے کی کہتے ہیں
تجھ بن بھرارہے ہے میری آب چشم میں
کام بن آتا نہیں کچھ کیا چلے جاتے ہیں دن
جان من بھر خدا آدر چمن
پازیب تیرے کیا ہیں طرحدار پانؤں میں
زلفیں یہ کسنے واسطے شانہ کے کہولیاں
نالۂ دل جو گیا چرخ بریں کے تہ میں
وہ تیور بدل کچھ غضب دیکھتے ہیں
اتنا دل تنگ ہے اے غنچہ گلستاں میں کیوں
ہوں جب وصل قسمت میں تو کیا بن آئیں تدبیریں
ہم تیری چاہ میں جو روتے ہیں
کاوش مژگان کا اسکے حال تمسے کیا کہوں
میں کہا بیٹھ ٹک اگر تو لکا کہنے انہوں
جہاں چاہتا جی ہے وہاں دیکھتے ہیں
گلی میں تند خوکے کسطرح جاویں نہ ہم لرزاں
ہے جی میں کہ اب بانون میں ارمان سے نکالوں
سینہ سے سینہ تو ملے تو ملیں
کیوں نہ رم خوردہ وہ تیری ہوں خوش آنکھیں برو
بھرا جو ساقی نے شبکو اباغ مجلس میں
اس لئے پروانہ جلکر جی دیا ہے آگ میں
شمع سان محفل میں اے ساقی براے نام ہوں
گری میں میرے دل کے ہیں داغ اب سے روشن
شمع سے پروانہ شب کمہتا تھا مل ایکدم کہیں
رنگ نزاکت اسکی یہ ہے لال پائنوں میں
چہکا دے اے رشک ماہ یافی تو مجکو یوں اس سحاب ترمیں
ایسا ہوا مشام معطر کبھو نہیں
ساقی کی چشم مست سے حالت ہوئی ہمیں
ایک پل بھر میرے پاس ٹھہرتا ہے نہیں
گو بلبلیں ہزار ہر ایک گل کو بو کریں
ساقی اتنی نہ پلا بادہ کہ بکتے جاویں
دامان وجیب کا ہے وہ دشمن دراستین
ازار اس شوخ کی ہے زیر دامان
لیچلا شوق دل اب دیکھیں وہ گھر ہے کہ نہیں
مگہ یار یہ بس تیغ زنے خوب نہیں
ہیں داغ دل افزوں میرے تاروں سے دو چنداں
تک اسے دکھلا دے اپنے زلف دکا کل باغ میں
اس لئے حوانش کی میں کچھ بات کروں یانکروں
تیری زلف سیہ کو کیوں نہ دل ہو دیکھکر لرزاں
غضب یہ مجھپہ ہوے غم اے دوستاں دونوں
حکم ہے مجھکو میں گفتار کروں یا نکروں
اے فلک کیا ہدف تیر بلا میں ہیں ہوں
رہے ہے یار ظاہر نکہت غنچہ ساپنہاں میں
ہوئے ہیں تجپہ پروانے کئے دل ہم بھی سنتے ہیں
جواے نو خط اس دل زار کی تجھے شرح گریہ رقم کروں
یہ سوچ ہے گہر یار کے جاؤں کہ نجاؤں
کیا صورتیں بتوں کی کافر بنائبان ہیں
یہاں دلمیں آنکھوں میں ظالم عمر بے تیرے پھرتے ہیں
جو ہیں غم الم ہجر میں بندہ پرور رجو بولو تو نولوں نہ بولو نہ بولوں
مردوں کو سینہ بتلادل چھپین جاتیاں ہیں
ہیں آن داد ادل کے طلبگار کسے دوں
اتھیں چونک خاکسے خفتگان یہ رکھیں ہیں دہن تیرے کیونگرو
دیکھیں خدا ملائے کب اس بت پر غرور کو
ہے قدّ یار سر وگلستان آرزو
صبح اب جلوہ نما جیسا ہے شام ایسا ہو
تم تو اتے ہیں ابھی کہتے ہو گہر جانے دو
ساقیا سیر چمن کچھ نہیں جب تو ہی ہنو
کیا کہوں چشم ترکے رونے کو
توڑا سنگ جورسے دلکے جو کل آئینہ کو
دیکھو صیّاد وکہیں مست توڑ کر پر چھوڑ دو
مجھ بخت سیہ پر نہ تو دہاندل سے خفا ہو
میں کا ساقی جو دیا جام ہے ہمکو تمکو
بتکدہ میں وہ نہیں ہے تو حرم میں ہو تو ہو
بولو نگا یہ پکار کے میں سب کے رو برو
وہاں سے ہم تلک آیا نہ کچھ پیام کبھو
حال دل کیا ہے میرا ایک نظر تو دیکھو
یہ کب کہا میں کہ میرا کہا سنو ہی سنو
رخسار ریا ایسے ہیں با آب و تاب دو
آج کیوں جام تو اتر تم ادھر دیتے ہو
چشم جو اشکبار ہیں دونو
چاہتا ہوں مفت کب دل نقد لیکر مول دو
ہے اسکا سینہ جوں آئینہ جسمیں صفا منہ دیکھو
تیر غمزوں کا ہدف اپنے بنایا دل کو
دتیا آرام تھا شب رسک قمر کا پہلو
ابر ہے ساقی نہیں میں آہ یہ ہو وہ نہو
میں کہا ایک ہے تو رشک قمر دیکھا تو
جو دلبری کرے دلدار ہو تو ایسا ہو
بھری ہوئی ہے کسو کے دماغ میں حوشبو
یوں اپنے دلمیں ہے پر تو فکن اباغ کی بو
اپنے مجروح سے تک آنکھ لڑاتے جاؤ
تصور میں تیرے تہمتے نہیں ہیں ایک پل آنسو
ساقی ہو میں ہو یار ہو مینا و جام ہو
نہ آپ بات بھی کرتے ہیں نے نگاہ کبھو
سینو تو ید ساقی کو مستو پکار لو
کب تک نہ دوں میں ہات سے صبرو قرار کو
دل میں مت دے راہ عمر رفتہ سے افسوس کو
ساقیا بھرآئے ہے اس دیدۂ تر میں لہو
حلاوت زندگی کی خانہ بر بادوں سے مت پوچھو
دکھایا شب اسے جوں اپنے دل کے سوز پنہاں کو
برنگ غنچہ جب دل عندلیب طبع کا خون ہو
فکر معنی میں تو کہا خون جگر میں غوطہ
گوندہ مت پانی سے مشاطہ میرے لو ہو سے گوندہ
رشتۂ جان لیکے میرا کا کل خوشبو سے گونتھ
ابر کیا جیتے گا تو جا شرط چشم تر سے باندھ
جل گئے پر بھی نہ پوچھے خبر پروانہ
کل میں بک شعر پڑھا کرکے جو موزوں تازہ
دیکھ کر چاہ تیری رشک قمر دلو کے ساتھ
ہے عشق بلاے بد گر دیدہ و دانستہ
نخون دل ہوں لکھا حال تنگ پر نامہ
وہ لعل کا ہے اسکے گریبان کا مکّمہ
ہے غیرت خورشید تیرے کان کا حلقہ
وہ آفتاب فلک کے ہے کاخ میں شعلہ
مجھے اس شوخ سے پہنچا ادا وان کا تحفہ
بزم میں ہادئے ہر پیر و جوان ہے شیشہ
ہوئیگا تیغ قضا سے قلم ایک آن میں ہاتھ
بولا میں تم ملونہ بھلا کیا مضابقہ
خال ہیں اس مہ کے رخساروں پہ وہ
ساقی پہنچ اب باغ میں بدلی ہے سوا کچھ
جو برگ لالہ پہ ہے مشکناب کا نقطہ
راہ دیوانہ جدا ہے اور ہے یانے کی راہ
اےشانہ یہ کہلیگی تجھی سے کٹھن گرہ
رہ جاوشب نہیں کہ ہے گھر کا مقدّمہ
قلق سے پھٹ گیا شب جو دل بیتاب کا پردہ
عینک کی پیر مرد سمجھ مت اودھار آنکھ
گل سے ہے تازہ و تر غنچہ دہن یار کا منہ
داغ ہے دیکھ منہ اسکا مہ تاباں کا منہ
قد ہے رشک سروکا خانہ خراب فاختہ
تکمہ اور کیا رخ پر نور تیرا واہ ہے یہ
دیتا ہوں میں دل تو یہ ہے کیا تم سے زیادہ
آتا ہے گھر وہ میرے مہمان سے زیادہ
بشکل مہر جو دیکھا سحر تمہارا منہ
ساقی نہیں ہواے شراب دو آتشہ
مہر اسکی نو کیونکر کہوں کم اور زیادہ
ہواور تیرے رخ کی جھلک اس سے زیادہ
کیا حال ہے یہ پوچھ خبر آن کر ذرہ
کیا چمکے ہے اس مہ کے گوہر کا ہر ایک دانہ
میں روؤں اور ہنسے وہ لابیان ہے خندہ و گریہ
مکھڑا نہ چھہاؤ مجھے دکھلا کے اجی واہ
نظر پڑا تیرے فندق کا آب میں شعلہ
تاب دل اب نہیں آتی ہے نظر آدھوں آدہ
دبدہ پر آب ہے کیوں چشم نہ بھر آئینہ
لیگیا اس سرو قدنے دلکو رونا فایدہ
گلرو کسو کا میں نہیں کوچہ میں خار راہ
تیری دوری میں انجانہ خراب چشم آئینہ
میرے ہیں ضعف آنسوروان آہستہ آہستہ
جلاے بال وپر آخر کوہائے پروانہ
جلتے ہی ہوگیا آخر نفس پروانہ
متبسم ہے باغ میں غنچہ
عشق مشکل ہے دلا اسکو مت آسان سمجھ
ایکدن وہ تھے کہ ہم خوش تھے وہ خود کام کے ساتھ
کس آتش عشق شمعرونے دیا ہے پھر دلپہ داغ تازہ
ٹک برس دل کہو لکر یکبار اے ابر سیاہ
نوید تجسے میں کہتا ہوں ہمنشیں تازہ
اسکی تصویر لکھی کیا ہے یہ بہزاد کا منہ
نرگس کسے تکے ہے چمن میں نگاہ باندہ
ہے بہار گلشن معنی میرا ہر ریختہ
شکل فانوس تھی تن کا ہوا کاشانہ
ہوتا ہے جسکے دیکھے روشن دماغ و دیدہ
دوری میں چشم تر کے جورونے کی فکر کی
زلف دلدار کیا نظر آئی
نیاز دلبر ہے نازو لبرا دہر سے یہ ہے اودھر سے وہ ہے
نہ آخر کھینچ سکی شکل اسکی مانی
نگہ شوخ کام کریے ہے
جھولے کے ہیں نجانین کس دلربا کے جھوکے
ہوئی بربادآگے انکے آب وتاب موتی کی
تو لو تو ایک بھی ہنین ماشے کے آدمی
سخن کلہ کے جو آتے تھے لب پہ آنہ سکے
دزد حنا جو تیرے ہاتوں سے آلگا ہے
اسکی چتوں سے نظر برق بلا تھی کیا تھی
آمد فصل بہاراں میں تو گلشن چھوڑدے
شیشۂ بادہ کر اے ساقی گلفام تھی
حلاوت اس لب شیریں کی اسکا ہی دہن جانے
برقع سے اسکے باہر ابرو نکل گئی تھی
یاد آئے نہ کیونکر مجھے ہر بار کسو کی
طرفیں جو ہو چاہ مزا اور ہی کچھ ہے
کیا ہے نازک رگ گل اسکی کمر کے آگے
شوخ نے لی جو جان میں چسکی
کیا کیا بہار لوٹے ہے سینہ کے یار کی
دھوم تھی اک کرچہ میری آہ کی
حباب آسا ہے نادان جو تہ افلاک گھر نانہ ہے
موتی کی لڑ جو کان میں انکے لٹک گئی
جل مواشب جو پتنگ اپنی سیہ روزی سے
کیا ساقیا شراب پلانے میں ڈھیل ہے
درزمیں شعر تخم فکر ڈالے ہی بنے
سر سے بار خرداب عشق میں ڈالے ہی بنے
دل میں در داب کمال ہوتا ہے
بولا نہ اسے حال میرا جاکے کسونے
ساقی بہار کولے نظر کچھ بسنت کی
دلدار نہیں وہ جو دل آزار نہیں ہے
چہل تھی دلمیں سواسکے ساہنہ ہی جاتی رہی
عجب ہے ابر کیفیت سے تک یہ تشریف لا ساقی
چشم سے میرے اشک یہ دھل نکلے
وہاہ اے آہ سحر تدبیر ایسی چاہئے
عشق میں جان کو بھی کھو بیٹھے
ہم اس آتشکدہ سے جل نکلے
خورشید سادھوندوں ہوں تجھے کام یہی ہے
اس غم نے داغ الفت یوں بر جگر بہائے
تیغ نگہ لگائیں تبر مژہ چلائے
شعر سنکر میرے کہتے ہیں سخنور کتنے
آگے ہیں بڑے اسکے کئی جور اٹھانے
کچھ ایسی گئی اپنی جوانی کہ نجانے
جو درد دل ہے میرا بے یار کون جانے
دکھ گیا منہ میرا نت منتین کرتے کرتے
تکلیف سیر باغ نہ دالے اے ہوس مجھے
نہ وہ ہیں ہم نہ وہ تو ہے نہ وہ زمانا ہے
چشموں سے کیا بہے ہے لیل ونہار پانی
بس ایے جنوں تو اٹھا ہاتھ میرے کینے سے
چاشنی لب سے تیرے جسنے کہ پائے ہوگی
کرتے ہو بلبلو تم کیا فکر آشیاں کی
اور بھی کچھ وہ چاہ ہوتی ہے
بے حجا بانہ چلے آئیے اور سورہئے
دیا اس شمعرو کو دل یہ ہمدم کیا کیا تونے
عشق آسان ہے یہ مشکل ایک ہے
ایک ہے شیخ و بر ہمن دیر وبیت اللہ ہے
درد فراق سے تیرے یہاں رنگ زرد ہے
باز رہے نہ گر سنہ جستجوئے معاش سے
افزود ہوا عشق میں غم کم کہو کیا ہے
تو پیار رکھے جو ہم پہ پیارے
ہوارشک چمن سینہ بہار داغ خرمان سے
تر آوے کیوں نہ ایکعالم میری اس چشم گریاں سے
اس زلف کے کوچہ میں اسدل نے بھی جالی ہے
مسی کیا تیرہ بختی کا تیرے اس لب پہ مسکن ہے
صبح کیا موج صب جانب گلذار چلی
اس سیم بدن کے ہم یوں درپہ ہیں جم بیٹھے
خیال تکمۂ مہ رو گریبان گیر ہے جب سے
شب وصل صنم ہے آج اے ہمدم کسودھب سے
دلمیں میرے نہ پڑے کیونکہ گرہ خالوں سے
میرا ہر قطرۂ اشک اسقدر گر کر اوچھلتا ہے
بیکلی سے یوں شب فرفتمین ہم بیٹھے اوٹھے
یہاں دم باز پسین لب پہ چلا آتا ہے
یہاں نام ونقش کر سوئے ملک عدم اوٹھے
اے مردم اشک چشم جوشب لبر یہ ہم اٹھے
انہیں جو میں دیکھ رونے لا گا تو وہ لگے کھل کھلا کے ہنسے
چشم کرم غیر پر تجھکو اکر شرط ہے
خالق ہے نوا درست یہ تیری نشو نما ہے
اے شیخ کفر مت کہہ پتھر سواے کیا ہے
یہ کبھو اسنے نہ پوچھا مجھے غمخواری سے
اسکی بندہا ہوزلف میں جو دل نہ کھل سکے
خوف سے تیرے نکل سینہ سے دم بھا گے ہے
راہ ورسم عشق میرے دلسے پوچھا چاہئے
جو یہاں ساتھ آئے تھے کم رہ گئے
پتنگ کیوں نہ میرے شمعروپہ بل جاوے
غشمین بیدم ہوں جان لیکن ہے
اصلاح خط کے پاگئے تصویر آپ کی
داغ غم ہجر سے معمور ہے
دن بھر حال گذرتا ہے نہ شب گذریے ہے
جدا ہر ایک کا اے شیخ رسم و آئین ہے
سب درکناراور مدارات رہ گئی
حسن کے اسکی ہر ایک لحظہ صا اور رہی ہے
دیرای شیخ مدرسا ہے مجھے
ہم راہ دیکھ دیکھ جہاں سے گذر گئے
مجکو اس میخواربن جینا بہت دشوار ہے
ایکدم بھی بھولتے نہیں تیرے قدم مجھے
تصور نکلے اس مہرو کاکب اس ذیدۂ تر سے
نالہ ہے سرد اشک کے ہیں جو ٹیار بھی
سرمیں بت نوخط نے بلایا لوں کو پالے
ساقیا بزم چمن میں ہے تیری جا خالی
گل افشان آج جاے اشک میری چشم نگران ہے
ہم دل جلے جو آہ بھریں تن بھڑک اٹھے
صبح کون آیا تھا یہاں اے باغبان کہہ تو مجھے
جوے گلشن میں جو وہ چھینٹے پڑے پانی کے
عشق میں ایسی تیری جان پہ مشکل کیا ہے
جو پری بزم میں شب رشک قمر بیٹھ گئی
پیچ کرتا ہے تیرا طرّۂ پہچان مجھ سے
سانس ٹھنڈی کسو مایوس کی کیا چلتی ہے
اندنوں اشک سے کیوں آنکھ بھری رہتی ہے
بزم میخانہ میں جامد ہوش یار اکثر بنے
چشمک میں اس صنم کے ہے تاثیر برق کی
خوشقدی اپنے یہ کچھ سروبہت تنتا ہے
کہتے ہیں گیا قیس پابان ہے خالی
دل جالگا یہ کس بت خانہ خراب سے
کیوں نہ بھر آئیے نہ دردیدۂ دشمن پانی
چمکی ماتھے پہ جو چلوں سے تمہاری چمکی
سودا سونارن سے ہے بادہ پنی آپ کی
ضعف دل جاسکون کیا کوئے جاناں دور ہے
مکان دلمیں غافل یار کا ہر دم جھمکا ہے
کسو کی شکل کا جو چشم نقشہ دلمیں گھڑتی ہے
دلا بیطرح آنکھ اس شوخ کی چلون سے لڑتی ہے
تیغ نالہ سے میرے سدرہ کا ڈالا اوڑجاے
اب دلکو ہے بے چینی آنکھوں کو ہے بیخوابی
یار آغوشمیں ہے دور میے و جام بھی ہے
کرتا ہے دور بین میں نظر ایک آنکھ سے
شکل کھینچی پہ کہچی اسکی نہ آنی بانی
جب آرزو تیری پائے نگار پڑتی ہے
چاہ ذقن کی اسکی کیوں چاہ میں پڑا ہے
دل سرو کو مت دیجوای قمرئے تقریری
ہم خیال یار میں رہتے ہیں سوتے جاگتے
دیکھئے کیا اتنا کب تار نظر باریک ہے
شب ہے باقی ابھی ایجان گھڑی آدہ کھڑی
ناصحو جی سے ہیں ہم ہات اٹھانے والے
کیا صبا بولی کان میں گل کے
ہیں جو بگولے دشت می ںاٹھتے قیس نے دھوم مچائی ہے
قد تیرا رشک سرد گلشن ہے
آہ دل کونسی شب غلغلہ افکن نہ رہی
میرا دل زلف میں لٹکا دیا ہے
اسکے کوچہ سے صبا تو جو ادھر آئی ہے
کسکی آمد ہے بندھی جو سبروستان کے پرے
جو بوسہ طلب میں کیا ڈرتے ڈرتے
بہ چشم آؤنگا میں تجھ تک صبا کہیو یہ جانان سے
یاد کر ہمکو بھی ساقی کوئی پیمانے سے
مرگان سے اسکے آجو لگی بات میں جھرحی
پڑھتے تھے الف تم اور لکھتے تھے جب تختی
ہمیشہ ماہ تیرے غش رخ وجبین پہ رہے
اس شوخ کی مزاج ہے نازک دلابڑی
چہرہ پہ پری روکے تو تاک لگاتا ہے
حلقہ در حلقہ تیری زلف گرہ گیر بنی
خط ہمکو لگا لکھنے خط جب سے نکالا ہے
کچھ لگی فضل پہ کام اپنے ہنر کی کنجی
ہیں انکی کچن عشق کی شطرنج کے مہرے
گوہر جان بھی گیا اور آبرو بالکل کئی
میں حال کہا تمسے تم الٹے گلا سمجھے
جس سے کہ ہے شرف سووہ آدم میں کچھ نوہے
رخ مہ روپہ داغ خال کا ابدل تو ہم ہے
ربط اسکو زیادہ نہ ادھر ہے نہ ادھر ہے
آئے ہیں ابھی وہ گھر جاتے ہیں کیسے
قد اسکا دیکھ قمری بس عشق سر وبھولی
یوں مرہ سے میری ہر لخت جگر گرتا ہے
اپنے مثل حباب ہستی ہے
دیر وکعبہ کا دور رستا ہے
جہاںکے وہ جو لگے حجرہ میں شب جلوں سے
شعلہ روبن شمع سان بہاں تیرہ صورت ہوگئی
میری آنکھوں کو یکسوئی ہے شاید چشم سوزن سے
غنچوںکو جو کدآن پڑی ہے اسکے دہن کے ساتھ تری
اینٹھ سے اپنی جگہ رہتے ہیں بل کھا ہم بھی
برنگ شمع ہمکو عشق اب کیا کیا دیکھاتا ہے
رخ اسکا آئینہ ہے یا گل شاداب ہے کیا ہے
ہمارے چشم حیرت سے کہوں پر ہے کبھو خالی
لکھ صانع قدرت تیری تصویر دو چشمی
نہ تھی کالی گھٹا کا کل نے اسکے دلکو گھیری تھی
غنچہ سان نازک کرے کب شعر موزوں ہر کوئی
جو میرے دل نے بتوں کی چاہ کی
غم میں اے صبر دل نہورخصت کھڑے کھڑے
طفل دلکو اپنے دوں کسطرح تسکین شیر سے
کیوں نہ چمکے تیری ابرومیرے سرکالے شے
الحذر نالۂ شبگیر کے سنّاٹے سے
زور موباف کا اس زلف سبہ میں زر ہے
دیدۂ نرکا میرے دیکھ کے گھرا پانی
سر شک چشم یہ ناصح نہ بے لگاو ہے
چلتے چلتے نازسے ہوکر لگانے لگ گئے
یہ کھ کر صیاد ایسی کیا ہوئی تقصیر بلبل سے
غنچہ کچھ دم جو دہن سے تیرے دلبر مارے
نہ سمجھو چین سے ہیں خضگان زمیں کے تلے
بر میں جو تو نہیں تو گہر اپنا اوجاڑ ہے
عبث چاہتا دل ہے یاری تمہاری
معطر اور عنبر بار ہے دہ یار کی چوٹی
عشق ہوے اس مہ پہ بزم شب کی یہ صورت ہوئی
بار اس محفل سے اکثر بیٹھے بیٹھے اٹھ گئے
بتان سنگدل کے عشقمیں یار تو مشکل ہے
بحسن وعشق کوئی ہمسر نہ میرا ہے نہ تیرا ہے
موج آب جو ادھر سبزہ اودھر لرہائے ہے
مرشد کے یوں ہوں طالب ابدل بنے بنائے
تیر غمزوں سے ہدف جیسے دل وجان ہوگئے
انکو مجھسے شرم ابھی اے ہمنشیں تھوری سے ہے
گلقند وسیب واملہ کب چاہئے مجھے
جی کو بلا مول لیا چاہئے
بیمار چشم کار ہوں بیمار تابکے
نہیں ہے عقدۂ زلف سیاہ کی گٹھری
شام سے صبح ملک رہتے ہے صبح اچھی
فردیات
سوز دل اپنا ہاے میں اب کیا کروں رقم
بہتر کے ہے میرے سینۂ نوران میں کیا عتک
اے رشک صد قمر تیری رکھتا ہوں دلمیں یاد
فرقت سے ہے تیری گل لالہ کے دلپہ داغ
تیرے غم فراق میں اے یار غمگسار
اب نوبہار ہے تیرے ملنے کی دلمیں آس
تجھ بن اے زلف یار پریشان ہوں رات دن
اے لب شکر تو جب تلک آغوشمیں تھا تنگ
اب بیوفایہ کب تئیں جورو جفا بھلا
ایکدم بھی ہولتا نہیں مجھ دل سے تو کبھو
وہ دن بھی یاد تھے جو ہم آغوش تھے مدام
پھرتے ہی اسکے مائے پھرا ایک آسمان
دور فلک بوند خوشی کی سنائے کب
مطرب خموشی کیا ہے گلو کی تیری صدا
ناصح میں گفتگو تیری کب یک سنا کروں
ہے تار ساقیا شب مہتاب اس بعیر
کیا جانتا تھا عشق میں جنجال ہوئیگا
محرم کہاں جو لطف سے تک آسکے یاس جائے
اے مرغ دل میں پہلے ہی تجکو کہا نتھا
تسکین مجھے کو دبتے ہو جب تب ابدوستو
کیا شرح غم لب آگے کسو کو سنائے
ہمدم سے میں پوچھا تجکو کسکی ہے چاہ کہہ اے نادان
کیا کروں کجروشی تو سن گردوں کی رقم
جسپہ ہوتا ہے گھر بار تیرا ابر کرم
خواب سے یکبار جوہنیں آنکھ کھل گئی صبح کو
آئینہ حیران ہوے سنکے تیری گفتگو
وصف تیرا کیا کہوں اے شمع بزم گفتگو
کرے ہے ابر گھر بار گوہر افشانے
عجب ہے ذات منزہ شبیہ نورانی
نہیں ہے ایکطرح پر زمانۂ نیرنگ
کیا ہے راون بھی تو وہ ہے بلونت
خاور سے کیوں نہ نکلے
تیرے کرم سے ہے جوشہ خاور آفتاب
اسکی شعاع رخ سے ہو ہر اختر آفتاب
قفس میں آہ بک پر بستہ طایر
ماجرا چاہ کن کا تک سنیو
آب کے سرما سے کانپتی ہے ہوا
ایک پر کہہ کے ناری سنگ
اودوہ سما پوترہ بترے ماہنن
ایک منکہہ ہے جگمین یکا
بہن ہنسے بہائے جو رو وین
اے دوا چھوڑ گیا کب سے وہ لشکر والا
شکل حوّا کی کسیکو نہ بنارے انا
باہر آہے وہ کھڑا جاگتا ہے گھر والا
چھتر یہ مجھسے تو کیوں کرتی ہے ہر آ ن بوا
روزاٹھ مجھکو وہ راتوں کو ستانے ہیں ودا
کیا کہوں اس جوان کی بات بوا
چپکتی لئے انہوں نے دوا شب جو ران میں
نغمہ ایک تازہ سناؤنگی میری انّا جان
چل ددا پائنوں کو مہندی میں لگا نیکی نہیں
کچھ دوارات تو کچھ جائے ہوئے شام ابھی
کیا نیا گھنا پناؤں میں سن اے پنہا جان
کہہ دے دداپسند نہیں گل کی اوڑھنی
نت سخندان ہیں خریدار سخن
AUTHORराय गुलाब चंद हमदम
CONTRIBUTORअंजुमन तरक़्क़ी उर्दू (हिन्द), देहली
PUBLISHER मतबा सरकार फ़ैज़ आसार, हैदराबाद
AUTHORराय गुलाब चंद हमदम
CONTRIBUTORअंजुमन तरक़्क़ी उर्दू (हिन्द), देहली
PUBLISHER मतबा सरकार फ़ैज़ आसार, हैदराबाद
سرورق
حدیث فیض اوبرلب گر آید
الٰہی تار ہے گردوں گردان
جو مطلع پیش چشم دل ربا ابدوے جاناں کا
بھاتا نہیں اپنے تئیں جہکترایہ بہم کا
جلوہ کیا دیکھیں سراپا اسکے حسن پاک کا
خورشید وماہ میں یہ جہمکے ہے نور تیرا
بت تو راحت ہے ہمیں نیند میں جانا اپنا
کہا نا نہیں خوش آتا پینا نہیں خوش آتا
غم کا جو پترا اپنے دل تنگ میں کثیرا
غش دیکھ کے ہو خال لب یار بکوڑا
دبکی اور اس زلف کی الجہاد جب جانا تیرا
متاع دل وہ ہماری لیا لیا نہ لیا
جہاں وہیں اپنی بند ہی ہے ونانکوی جاسکیکانہ جاسکیگا
ذرہ نہ وفا کیا تو کبھو جفا پہ رنا جفا پہ رنا
چھوڑ کر دروازہ اسکا جائیں کسکے در بھلا
بیطرح روٹھا تھا مجھسے بار شبکو ہمنشیں
خجل ہیں دل گرم وچشم تر سے خلیل وآتش کلیم ودریا
ذکر دانتوں حاجوانکے چلتے چلتے چل گیا
خنجر ناز تیرا ہے جو لہو کا پیاسا
اس غنچہ دہن کے ہوں مقربے دہنی کا
ہر چند ابر تر ہے اے ساقی دتا ہوا
حیف دنیا کو جو میں رہیکا مسکن سمجھا
نگاہ خود بین کو دیکھ میری گھر تمین تولہ کثر ماشا یمن
وہ غمزۂ چشم آہ جگر کاتنے دوراً
دم زون میں آہ دم کا سلسلہ جاتا رہا
دل سے تا چشم اشک کا یہاں نادپرپانی چترہا
میں عشق پیچ سان جو شب اس ے لپت گیا
ہوئی پے نور شمع دمہ نہ یہ جہمکی نہ وہ جہمکا
دامن ہے روکش دل پر داغ دوسرا
عجب ہے شیشۂ مے ابتہاج کا پتلا
ہم بد ہیں تو ملیگا تمہیں بیک دوسرا
ہے آہ برق ارو اشک خون ہے سیلاب آتش کا
مژگان ترکا اپنے جو مذکور چل پڑا
چارہ گربس یہی آتی ہے دوار اس کہلا
اس عشق نے جی لیا ہمارا
ہے جو مرضی تو میں گلی سے چلا
نظروں میں کسکے دل میرا منظور پھر ہوا
کام ایک وار میں کیا جان فگار کا
بندہ کہائے ہے میرے گردوں جناب کا
دے تو گلگشت باغ میں بوسا
کچھ ابکے اپنے تئیں باغباں نے بھول گیا
کیونکہ پیمانہ بنا سکتا ہے میری خاک کا
جب سے اس میں تیرے گھوڑا لگا
برس گیا ہے اے ساقی سحاب کا ٹکرا
جوش چشم پر آب میں دیکھا
کیا کیا کلال تجھسے بہ از مثت گل بنا
وہ گرم خون دل داغ داغ کا تپکا
دمبدم کیونکہ نہو جاے یہ بسمل تھندّا
نالۂ دل ضعف سے لب پر نکلکر رہ گیا
دہو یا ہے کسنے منہ جو یہ ہے رنگ آب کا
ہستی سے ہے عدم تک ایکدن ضرور جانا
ہم ترستے ہیں جدا تر سے ہے جانانہ جدا
عارض جدا ہیں اسکے گل یاسمن جدا
عشق کا دلمیں مکان تھا مجھے معلوم نتھا
شاخ مژہ پہ جلوہ ہوا دلکے لخت کا
یوں نہ ہر بات پہ تیوڑی بت بیباک چرہا
ماہ نوکی طرح شہرہ لاغری سے ہے میرا
عارض لالہ گون پہ ہے کا کل مشکفام کیا
اسے اتنا کہیو تو قاصد اکروں حال کیا میں رقم پہلا
حیف اب تلک نہ ساقی جام شراب چمکا
دم صبح رخ سے اسکے جو اتھا نقاب آدھا
سنبل ہوا عش زلف وہ جس آن مرورا
اسکی بیدتہب چلی تھی تیغ نگاہ
کیا تیرے ہو نٹھوں نے باتوں میں فقط گل کسرا
تار مژگان سے ہر اک لخت کا گل باندھ دیا
راستاد ہوا جبکہ میری آہ کا جھنڈا
ضد غیر سے ہم ہے ادھر آ اودھر نجا
میں ہوں دیوانہ ای گلشن کے سنبل اور سنبل کا
شگفتہ لالہ خون سے ہے باغ بستی کا
رو برو اسکے دہن کے نہیں رو غنچہ کا
غرض بلبل صبح سن غنچہ نے لب کھولا تو تھا
شہرت وحشت دل نے ہمیں بن بن کھنچا
چاندنی میں جو وہ شب فرش بچھا لوٹ گیا
خط جو تیرے لب شریں پہ ستمگر نکلا
وحشت سے اوڑا جوکہ گریباں کا تکرا
یوں دل ہے میرا ذوق مئے ناب میں ڈوبا
اے داے انتظاری آنکھوں میں جان پہچا
ہم پشیگان کو اسکے غم کیوں نہووے دونا
صبح جوں دست صبا سے گلکا داماں ہت گیا
کیا کیا کیا نہ قیس دیوانے کی بات کیا
کیا ہے شغل پیدا گر نہیں جی کے لگانے کا
عشق نے روز از جسکے تئیں عین کیا
سینہ جلا ہے جون جوں چشموں نے آب چھڑکا
ہمنے جانے نہ ہمیں یار نے جانا اپنا
خواب میں یار کی صورت مجھے دکھلائی کیا
مجھے وصف زلف تیرا کیا ہوا اے جادوا دا
برگشتہ ان مژوں سے جو عالم اولٹ گیا
تصور دیدۂ تر میں بند ناکس زلف درہم کا
عریوں زیر زلف اس رخپہ ہے جوں دانہ شبنم کا
عرق اس زلف سے یوں چہرہ پہ دہلتے دیکھا
زر اندوزی پہ دنیا میں کمر مت باندہ اے منعم
لخت دل اشک ساہتھ بد امن پک کیا
زخم چنگا ہو چکا بس اس دل دلگیر کا
جب ازل سے ہر کو صد چاک پیراہن ملا
ملامت اب نکرنا صح کہ تو کیوں دل دیا اپنا
شکوہ سوا میرے ہنیں غیروں سے اسکو ذکر
خدا جانے بت خود فام آتا ہے نہیں آتا
الٰہی کون مجنوں وش یہاں دیوانہ رنگیں تھا
نکر تا عشق گریہ دل تبو اتنا خوار کیوں ہوتا
شب اسکے رخسے قطرہ عرق کا جو دہل گیا
کیا چشم رکھے زیست کی بیمار نگہہ کا
دل میرا رہکھتی ہے وہ زلف گرہ گیر سدا
طبیبوں سے ہوا اور مان نہ میرے جوش سودا کا
سیراب سے ہو کیونکر خنجر وہ جنگ جو کا
اس زار دلمیں شب کوئی پانی جہکولتا تھا
چشموں کا ترے جسکو میخانہ نظر آیا
نہیں شب وہ جو تجھ بن اک غضب مجھپر نہیں ہوتا
اٹھ کئے کب کے ہے باراں سبکبار شتاب
رخ ہے اسکا آب وتاب آفتاب وماہتاب
دل اسطرحسے تو اس شوخ مست خواب کو داب
مجھسے بھی ہونشہ میں دلارام لب طلب
طرح آمد کی بہار ان نے ہے ڈالی کیا خوب
پر تو فکن تھی کسیکی یہ شمشیر زیر آب
سوئے گل سے لک کے ہمارے وہ رات خوب
کب آئینہ میں اسکے ہے تصویر تہ آب
یوں آئینہ میں ہے اس رحکی تاب در تہ آب
کیوں مجھسے خفا ہوگئے اک آنمیں صاحب
زلف وابرو کہ ترے یار ہیں مارو عقرب
ساقی تیری شراب کو آتش کہوں کہ آب
یاقوت ولعل میں جو کیا امتیاز خوب
اے عندلیب گرچہ ہے گل بھی ہزار خوب
تیزاور آبدار ہیں ابروے یار خوب
جسدم میں انکے وصل سے تھا کامیاب شب
اکدن تھے وہ کہ یار تھا پہلو میں تنگ وخواب
یار کرتا تھا جو شبکو شب مہتاب میں خواب
باغباں باغکی رکھتا ہے تو جون گل سیراب
حق کی درگاہ میں بٹتا ہے اثر آخر شب
عشق اس خوش چشم کا رکھتا نہیں کر ہے حباب
بس مجھسے نہ لڑ کھتے ہیں اور لڑکے چلے آپ
خیال زلفمیں ایسے ہیں اشک چشم تر غایب
رکھتے ہیں اب بھی نشۂ شب کا خمار آپ
نالہ ہاے زار تپش گل نکر ہر بار چپ
بادسے بلبل بستان نے لڑے صبح کے وقت
آبھی حیران کر نہ یار بہت
غنچے کہتے ہیں چمنمیں جبکہ آتی ہے سنت
سویا وہ چاندنی میں جو بالاے بام رات
سینہ ہے باغ داغ کی دولت
خضرت دل آگے کہلاتے تھے انا تم بہت
بعد مدت کے میری انسے ملاقات تھی رات
ہے بدیے نیکی کا یہاں نفع وضرورسبت مدست
تنہا ملے تو اس سے کھوں اک ضرور بات
جہاں کے باغمیں آئی بصد بھار سبنت
رکھکر میری نبض دل مد ہوش پہ انگشت
انتظار یمین گئی آہ گذر آدھی رات
کھ باد صبا کچھ نوکلستان کی حکایت
جلوہ اپنا مجھے دکھلاے ہے دن رات سنت
دنپہ دن گد زرے چلے جاتے ہیں اور رات پہ رات
چمکے یوں حین سلام اس مہ کے سرپر پشت دست
کچھ کرنے ضرور آپ سے ہے ایکد وگھڑی بات
جو شکل چاندسنی یاد آگئی تمہاری رات
ہمیں جوں شررہے مہلت یہاں ایکدم غنیمت
کوئی چوری تو کیجئے اثبات
دیتا ہوں جان ہجر میں کہتا ہوں ہاے دوست
اس بت کو زلف کی ہے ہر تار کی حفاظت
چلوں رکھے وہ اپنے رخ پر صفا کے اوت
پھر منہ میرے طرف سے ایمیری جان نہ لیت
گلچیں سے چمنمیں جو ہوئے صبحکو کہت پت
پوچھتا ہے وہ نہیں اس پاس جاتے ہو عبث
دل شکن بلبل کا گلچیں ہے گلستانمیں عبث
بس بات بات پر تونہ کر گلعذار بحث
کیوں خفا مجھ سے ہو رہے ہو عبث
خفگی کی نہ کرو بات عبث
تو دہونڈے ہے دل غافل یہاں کدھر مراث
نہ دست وحشت اک اپنے گرییانکا ہوا وارث
کیوں نہ دلکو خوف ہو دیکھ ابروے دلدار کج
ساقی ہے زور جلوۂ ماہ تمام آج
آیا جو نقد دل تیری زلفوں کے کام آج
کس گل کی کھلی تہ قبا آج
کل کا نہ کروں میں کیوں گلا آج
سخت حیران ہوں نہیں بیمائے دلکا علاج
تک کھول غنچہ لب کا میرے اے صبا مزاج
ماہ کنعان جو گیا مصر کے بازار کے بیچ
کس رنگ غنچہ لب وہ کہلے پھر سخن کے بیچ
کیا سوز دل چلیکے تیرے تھا بدن کے بیچ
حالت بزم دگر گون جو ہوئی آن کے بیچ
دل رہائی کی ہے ان زلفوں سے تدبیروں کے بیچ
مردمک یوں ہیں میرے دیدۂ پر آب کے بیچ
کہیو ایقاصد جو ہو تیری وہ قاتل تک پہنچ
جب سے آئی ہے نظر ناف تیرے خواب کے بیچ
مقسوم کا اپنے میں کسو سے کہوں کیا پیچ
اس شوخ کے ہیں غمزۂ خونخوار بیطرح
عشق سے جان اب بچاؤں کسطرح
لو میں اسکی کہنچتا ہوں ااہ سوزان تابصبح
ہم جو گئے بسوئے گلستان علی الصباح
مثل صبا گیا جو میرا گل علی الصباح
نہ مرجان کی ہو سمرن شیخ بی کافور کی تسبیح
رنگ میں سے سرخ یوں ہے روے جاناں وقت صبح
نکالا ساقیٔ خورشید سرزروزن صبح
یہ بگولا کیا ہے سر گردان ہے اس مخرون کی روح
چہرہ سے اپنے یار جو برقع اٹھائے صبح
ہیں سپعند داغ فرقت دلپہ اخگر کی طرح
ساقی کے چشم مست ہیں وہ نیمخواب سرخ
رنگ گل چمن ہے اے بلبل ہزار شوخ
ہوتا ہے گرچہ رنگ گلوں کا ہزار سرخ
سرخ کے مانند ہیں یہاں اشک خونیں روز سرخ
گل بین ہزار سبزو سفید وسیاہ سرخ
جب کریں ناوک مژگان جگر میں سوراخ
کہتا ہنیں میں دے ہے مجھے روز گار چرخ
دہن دہن سے لگا اسکے مدتوں کے بعد
دل ہے تیری ہوا میں باد صبا ہے شاہد
نہ بنا گوش فقط نور سحر کے مانند
دلکو بھلاؤں میں جاسوے گلستان تا چند
تیرا برقع میں رہیگا رخ تابان تا چند
دل تھا ہے خون ہوا ےہے جگر یک نشد دوشد
کیا وہ سنجاف تماجی کی ہے دامان کے گرد
بیطرح دل سے اب ہوئی آہ سحر بلند
قد وہ ہے شعر چیدہ کے مانند
شب جو ہوئی اس سے
رخ ہے وہ آفتاب کے مانند
آصنم بر میں خدا کی سوکند
ہر ایک صبح جو نحلے ہے شرق سے خورشید
شرخ اس بت کی جبیں پر جب لگے کو کو کے بوند
جسم آدم کل ہے ملک آب و آتش خاک و ساد
رخ دکھا برقع سے سر کی سوگند
ہے میرے دیدۂ ترکی سوگند
کیونکر کہوں قد کو تیرے شمشاد کے مانند
ہوا ہے جب سے قدیار کا نہاں بلند
اس زلف کی جو پڑگئی تقدیر سے کمند
ایجوان اب دہو کے کراشک ندم سے رو سفید
تو بھی پوشاک سبح ای ساقی گلفام سفید
تو بھی سج زیور الماس اے خود فام سفید
نامہ برویجو میرا تو اسے جا کر کاغذ
کیا پوچھتے ہو زلف رخ یار کا گھمنڈ
جو تم اے نو خطو لکھتے نہیں میرے تئیں کاغذ
لیے سر سے پانو تک ہے تن خوشقدان لذیذ
سطریں مرگان کی ان آنکھوں نہیں زیر و زبر
اب اسکی ہوئی گرمی بازار ہے کچھ اور
بہتر نہیں ہے آنکھ لڑانا ادھر اودھر
جو خط و خال سے ہے لب یار سر بمہر
انجم نہ کس روش سے ہوں غش اسکے خال پر
گوش مضمون سے میرے رکھتے ہیں لوگ اوپر کے پر
آوے تک بحر سر شک اپنا جو طغیانی پر
عالم مستی میں کر ساقی نظر جوش بہار
احوال دل کسی سے اپنا نہ گفتہ بہتر
شاہ کیا کیا ہوگئے ہیں اس رنمیں کے تخت پر
ایک ثابت نہیں وحشت سے گریباں میں تار
مرد مک طوفان پہ ہیں جو چشم تر میں بیٹھ کر
دم میں جاتا ہے بدل گردش ایام کا دور
داغ غم عشق کا سوزان ہے جگر کے اندر
آرۂ ظلم سے یوں سوشجر جان کوحیر
دیکھیں روٹھا ہے وہ منے کیونکر
اس رخپہ جو ہے زلف سیہ فام ادھر ادھر
کہلے گل ہیں ساقی گلستان کے اندر
کسکے یہ غمرٔہ سفاک ہیں خونخوار ہے پر
عالم میں حوبرو نہیں اسکی مثال اور
باغمیں صبحکو بیٹھا وہ ہوا کے رخ پر
عجب گرتی تھی شب جوے چمن سے آب کی چادر
ناصح پھا ہوں دام میں دل کے میں آن کر
اس پری کے زلف کے سودے میں ہوں دیوانہ وار
پتا کوئی نہ کھر کا اے باد صبح ہل کر
اس بت کی زلف سے نو کالے اکثر نہ بل کر
جیب و دامان دیکھو ہر شب تارہیں بستر کے تر
وہ نور سے ہے لبا لب شراب کا ساغر
ساقی وہ مے دے جسکی ہوتا ثیر گرم تر
ہے نالۂ دل اپنا وہ سر سبز ہوا پر
رکھ سرہانے ہنو غصّہ اے صنم یکتہ پر
منگوں ہوں بوسہ تو دو ہو گالی سوال دیگر جوب دیگر
ہم نے اس گلعذار کی خاطر
ابروے یارنے توتا ہے غرور شمشیر
کیا پتنگے کو تھی اپنے جی سے جانے کی خبر
یوں کہے ہے عاشقوں پر تیر جاناں چھور یہ کر
جو سرو گلشن نے قد کشتی کی تو آبنی قمریوں کی جان پر
یہ عالم نور کا ہے اس جبیں پر
دل لگا یا جان کا سودا کیا ہوں جان کر
مہر رخ ہے جلوہ گر آدھا ادھر آدھا اودھر
فرہاد تیری جابگی جان کوہ کے اوپر
اوڑتا ہے پر پروکا وہ سرخنگ ہوا پر
آہ دل اور اسکی مژگان ایک ترکش کے ہیں تیر
ہمخواب ایک رات بھی ہو وہ نگار گر
ہیں اپنے کام می پیوستہ طاق ابروے یار
صبح تک ماہ روبحہ ہے نظر تاروں پر
مت جا ای میری آہ حزیں آسمان پر
کون آئے میرے نالۂ شبگیر کے منھ پر
گر لگاوے وہ خدنگ ازرہ کین میرے پر
پہلے تیشہ سے سر حزوبہر ندبیر چیر
جلوہ گر اسکے نہیں رنگ حنا نا خن پر
قرص مہ کہانے سے کم ہوئے ہے کب لرزۂ مہر
سروہی کب ہے فقط چلنے پہ دامن باندہ کر
مدتوں سے کچھ نہیں معلوم حال کوئی بار
پہلوانوں کی طرح گار قدم کشتی پر
دیتا ہے ساقی جام بھر سارا ادھر آدھا اودھر
اے دست جنوں میرا نہ دامان تکا کر
تیغ نالہ کسنے کھینچے ہے چمن میں داف وار
ساتھ کیا لائے تھے کیا بس لیچلے ہم باندھ کر
گلگشت کرکے باغ کی پانونمیں تار توڑ
وصل تیرا مجھے آتا ہے نظر دور دراز
دلکو میرے جلائیے ہے وہ شمع خانہ سوز
اب کےوہ باد بھاری کی ہوئی تاثیر سبز
میکشی کی ہے ہوا کسکو تہ خاک ہنوز
سینہ داغ ہیں جو میرے دل کے آسپاس
خال ہے پار کی جو ابروئے خمدار کے پاس
اے دل نکر تو زلف سیہ فام کی ہوس
ایک دل ہے سوداغ دار افسوس
پھرے ہے کاہیکو خالی دماغ میں فانوس
غمزے تیرے ہیں چشم کے اے یار سو پچاس
بہرا جو ساقی نے شب کو ایاغ ور مجلس
چمن میں آئیں ہیں کیوں ہمصفر سوئے قفس
کب تک میں جلوں غم کے ستمگر نہ آتش
لاگے بفلک نالۂ عشاق سے آتش
آہوں کی جوروشن ہے دل تنگ میں آتش
آہ کی شب جو ہوئی دل سے نمایاں آتش
اے عشق ماہیے ہجر غم میں سمندر آتش الم بارے ہیں
رکھ کوزہ گراں کار ز آب و گل دآتش
یوں عشق نے دی ہونک دل تنگ میں آتش
موسم ہے خوش ہوا خوش وابربہار خوش
ساقی پلا شراب کہ ابرو ہوا ہے خوش
اس زلف سے دل ہوگا بہ تدبیر مرحض
کس ادا سے دیکھو وہ خوش ادا کرتی ہے رقص
موسے ہے رشتہ جان تار نظر خاصی الخاص
رنبا ہنا نہیں آسان اے مہربان اخلاص
اے ابر تجکو کسکی ہوا چشم تر کا فیض
کیا خوشی کا ہو ہمارے دل دلگیر سے ربط
شمع پر گرنہ پتنگے نہیں تعجیل ہے شرط
لبھاے یار رکھتے ہیں کیا بکد گر میں ربط
یوں کروں میں کوہ و صحرا بیچ آبادی تو شرط
خوشنما ہے کیا خط رخسار جاناں بے نقط
سنتا ہوں مجھپہ تو ہے خفا سچہ ہے یا غلط
صبح غنچوں کی صدا پر تھی جو بلبل محظوظ
شمع سان چشم نے کیا اشک کے قطرات شروع
پھر بہاراں کے ہوے باغمیں ایام شروع
کیوں پتنگے کو جلا کرتوہے گریان اے شمع
نہ اپنی دید سے ہو مجکو نوجوان مانع
آج برقع سے مہ رخ جو تمہارا ہے طلوع
کیوں اے دل غافل ہے تو تدبیر کے تابع
یہاں جسم زار عشق میں تیرے ہیں داغ داغ
اسطرح عاشق ہیں اپنے کوئی دلدارونمیں جمع
گل نہ کردے تا نسیم صبح گلشن میں چراغ
یوں لخت دل ہیں چشم کے مژگان میں چراغ
لے شام سے سحر تئیں سوتا نہیں چراغ
ایسی نہ تیغ ہند ہے نے اصفہان کی تیغ
شعلۂ فانوس سان ہے جان میرے تن کا چراغ
ہے سایلان ابر گھر میں صدف
بوئے نخوت سے بھرا ہے غنچہ و گل کا دماغ
خون سے کلک مژہ لکھنے لگے شنجرف کے حرف
کیا ہے مستوں کی جمی صف اسطرف اور اسطرف
کب سیہ بختوں سے ہے تو چرخ نا انصاف صاف
ناوک انداز عجب ہے تیری مژگان کی صف
بہیں نہ اشک تو جلنے سے ہو نفس موقوف
دل نذر کروں ہووے جو وہ حور موافق
گریہ سے یہاں فقط نہیں مژگان لہو میں غرق
اسقدر اسکا سمایا ہے دل تنگ میں عشق
اسکے خط درخسار میں دن رات ہے فرق
دل نہ دیگا کبھو رہائی عشق
تیرے ہیں جلوۂ ابرو کے جیسے ہم مشتاق
اسکی موہوم ہے کمر تحقیق
دل اسکے ہو ازلف گرہ گیر کے لایق
دل اپنا یوں ہے یار کی تصویر کا ورق
روز سنتا ہوں گلستان کی خبر ایک نہ ایک
لڑے شب جو اس سے نظر یک بیک
غمزے خون ریز تیرے کچھ نہیں کم ایک سے ایک
الگی دل میں میرے یوں مڑہ یار کی لوک
آنکھوں میں رنگ یار چمکتا ہے اب تلک
یار ہم یوں ہیں یکد گر میں ایک
چلنے میں دیکھ کر تیرے قد کی لٹک جھٹک
مثل مہر صبح افشاں سے ہے اس رو پر چمک
ملتفت اس گل خوشرد سے ہیں شاخ و گل و برگ
دکھلا دیا جو پان کا وہ ہنستے ہنستے رنگ
برق چشمک نے کسو کے پھونک دے وہ تن میں آگ
اسکے رخساروں سا کب ہے گل کارنگ نیم رنگ
گرچہ ہے لعل کا بھی حوب دل سنگ میں رنگ
لگے حوذبین کو کیوں نہ پیارا دل
ساقیا لیکے چلیں شیشہ مل بر سر گل
ایسی کیا بات صبا انکے تو دے کانمیں ڈال
یوں پر ہیں اپنے گود میں لخت جگر کے پھول
شاید کہ اس جگہ ہے کوئی دفن تفتہ دل
ابرو اور دلکی گرہ واکرکے ٹک پی ملکے مل
صبح مت دست دتاسف شبکو ہمسے مل کے مل
کہتا تھا شب پتنگ یہ شمع لگن سے کل
فصل گل ہے کہلکے غنچے ہورہے ہیں گل
یار کے دلکی گرہ ناخن تدبیر سے کھول
ہر چند گھرا اسکا ہے میرے گھر کے مقابل
آئینہ تو مت رکھ رخ زیبا کے مقابل
اورہنی جایی کی اس سرپہ ہے جوں جال پہ جال
قشقہ دیاوہ سرخ ہے نارک دماغ گول
گل عندلیب کو تو گلستان سے مت نکال
گلگیر نمظ جاے ہے پروانہ کہ لوں گل
اس رشک مہ کو دیکھے دل اپنا گہرآہے ہم
پھر جی سے ملے تو ملاقات کریں ہم
غش ےوگیا میں دیکھ کے اسکا ساروے گل
گلہائے باغ پر ہے فقط کب صبا کا حکم
لب پر دھڑے مسی کی جمانے لگے ہو تم
ہیں خوار رشک کل کی ہوا میں ہو اسے ہم
کچھ پاے نہ ابتک شجر عشق سے برہم
یاد کار دہر بن آتے ہیں ایسے کام کم
حلقہ زلف اسکے رخ پر ہے چراغ صبح وشام
جی کئے ہیں نذر دل کے ساتھ ہم
وہ نگا ہیں دل اور اینکے جو ہیں لبت ہم
جی جاے پہ مات اس سے اتھا نیکے نہیں ہم
کہنے پائے تھے ہم حال نہ ہیہات تمام
ارے شوخ صنم تجھے سرکی قسم ادھر ابکرم ادھر ابکرم
غم کہا قیس کو تو پہنچ عدم تھوک کے ہم
مدت میں مجسے مثل گل ایجان کھلے ہو تم
حسن کا اسکے تو ہے عاشق بدنام سے نام
ساقی سورکھتے ہیں امید تیری ذات سے ہم
کہئے کیونکر تجھے غلمان سے اور حور سے کم
دشت الفت میں ہیں سر گردان کہیں کباد دلکو ہم
پانے کی تھی جو بات سے اسکو پناہے ہم
گرچہ غرق چاہ غم ہیں جوں مہ کنعان ہم
واربستہ یہاں ہے جسم سے دم اور دم سے ہم
عارض سے اسکے بویے صبا اور صبا سے ہم
الفت رکھے ہے ہم سے چمن اور چمن سے ہم
میں نے دیوار پہ اب اسکے لگائیں آنکھیں
مہروش نے جو جھرو کے سے لڑائیں آنکھیں
تیر نالوں کے میرے جب سے کہ پر پھوٹے ہیں
نمود خط ہے کہ کچھ ملف کی ہے سر کی چھانوں
یار کے دیدہ و دل دیتے خبردونو ہیں
گئے یوں شبکو ہم اس رشک ماہ کے گھر میں
کیا نہ باتیں آپنے فرمائیاں
لیتے ہیں دلکو کسطرح بولے وہ مسکراکے یوں
فضل حق گام اجل سے جو بچاویے تو بچیں
دسپ دیا اور انکی انگشتیں وہ جو چوبیس ہیں
مثال آئینہ صورت نظر آتی ہے کانوں میں
وصل کی شب وہ کچھ آتے ہیں بگڑ جاتے ہیں
وہ چشم مست دیدۂ ساغر سے کم نہیں
نہ بیٹھا آکے کبھو گلعذار پہلو میں
خربوں کو عاشقوں سے محبت ذرا نہیں
دھوئے وہ دست حنائیے کو اگر پانی میں
کوئی شب سورہیں ہم تم لپٹ اے یار آسمیں
نہ پوچھو نقشہ اسکی شکل کا ملتا ہے کس کس میں
مئے گل رنگ ہوں جیون نیلو فریے شیشہ میں
آرزو ہے بر میں پردہ سیمبر آتا نہیں
ہم جو شکل انکی دیکھ رہے ہیں
اس دفن کی جو چاہ کرتے ہیں
جون بادہ ہووے جام بلّور پر صفا میں
نئے ہیں بہت اور پرانے بہت ہیں
کیونکہ اپنا نہ اسے ناصح نادان دل دوں
جو حال دل میرا ہے سو تم سے نہاں نہیں
ان چشم میں ہیں دیکھیں جب سے حیا و شیر میں
مژہ میں جس سلیقے اشک ہم اکثر پروتے ہیں
کس پری سے اسکی آنکھیں لڑگئیں
پترا صبحدم جو ساقی نظر آفتاب تجہ بن
شوخ کی کیا ہیں لجائیں ہوئیں پاری آنکھیں
ساقی اتنا بھی تغافل تیرا کام آتا نہیں
ایکدن وہ تھے کہ تھے زمزمہ میں نوشوں میں
یوسف کے سرد سب ہیں خریدار اندنوں
عشق کے چہرہ پہ ظاہر ہے نشانی اندنوں
کشور حسن کے چرچا ہوا بار ازدن میں
جنوں میں پر از خون ہے مژگان و دامن
جان من زلفوں کا تیر جو میں سودائی ہوں
ہم بھی یوسف کو اپنے لانے ہیں
ملکے بیٹھے تھے کہ با جا ہے کجر اتنے میں
ہوا ہے ابرھے بارش ہے ہیں بھیتی ہوئیں جھلیں
تو دیکھ فی میری نظر سے فلک یہ بجلی زمیں پہ باران
چھائیں ہوئیں گھٹائیں ہیں کیا کالی کالیاں
کل لخت جگر سے ہے بہار دامن مژگاں
اسکی خیال سے جب تصویر کھنچتا ہوں
یہ تیری ناف ڈالی جب سے ہے گرداب حیرت میں
یہ نرم نرم یہ نازک یہ پیارے پیار پانوں
جو لخت دل سر تار مژہ پہ آتے ہیں
دونو ہیں ایک بلا اسکے پریشان زلفیں
پھولوں کا میری جان نہ پھر مار گلے میں
ونان آئنہ ہے اگے اور خود پرستیان ہیں
دیدار کو ہم انکے کب سے کثہرے ہوے ہیں
نہ کس روش رہے روشن دل ودماغ چمن
ہوا امتحان کا یقین پر یقین
ارادہ ہے تیرے غمزوں کا مجکو جان سے مارین
وہ دیکھتے ہی بنیں کب کسیکے بس میں ہیں
اشک خونیں سے رگ گل ہوے خار دامن
نادان بھی نہیں ہوں جو دانا نہیں ہوں میں
دل قسم دے گلے کی کہتے ہیں
تجھ بن بھرارہے ہے میری آب چشم میں
کام بن آتا نہیں کچھ کیا چلے جاتے ہیں دن
جان من بھر خدا آدر چمن
پازیب تیرے کیا ہیں طرحدار پانؤں میں
زلفیں یہ کسنے واسطے شانہ کے کہولیاں
نالۂ دل جو گیا چرخ بریں کے تہ میں
وہ تیور بدل کچھ غضب دیکھتے ہیں
اتنا دل تنگ ہے اے غنچہ گلستاں میں کیوں
ہوں جب وصل قسمت میں تو کیا بن آئیں تدبیریں
ہم تیری چاہ میں جو روتے ہیں
کاوش مژگان کا اسکے حال تمسے کیا کہوں
میں کہا بیٹھ ٹک اگر تو لکا کہنے انہوں
جہاں چاہتا جی ہے وہاں دیکھتے ہیں
گلی میں تند خوکے کسطرح جاویں نہ ہم لرزاں
ہے جی میں کہ اب بانون میں ارمان سے نکالوں
سینہ سے سینہ تو ملے تو ملیں
کیوں نہ رم خوردہ وہ تیری ہوں خوش آنکھیں برو
بھرا جو ساقی نے شبکو اباغ مجلس میں
اس لئے پروانہ جلکر جی دیا ہے آگ میں
شمع سان محفل میں اے ساقی براے نام ہوں
گری میں میرے دل کے ہیں داغ اب سے روشن
شمع سے پروانہ شب کمہتا تھا مل ایکدم کہیں
رنگ نزاکت اسکی یہ ہے لال پائنوں میں
چہکا دے اے رشک ماہ یافی تو مجکو یوں اس سحاب ترمیں
ایسا ہوا مشام معطر کبھو نہیں
ساقی کی چشم مست سے حالت ہوئی ہمیں
ایک پل بھر میرے پاس ٹھہرتا ہے نہیں
گو بلبلیں ہزار ہر ایک گل کو بو کریں
ساقی اتنی نہ پلا بادہ کہ بکتے جاویں
دامان وجیب کا ہے وہ دشمن دراستین
ازار اس شوخ کی ہے زیر دامان
لیچلا شوق دل اب دیکھیں وہ گھر ہے کہ نہیں
مگہ یار یہ بس تیغ زنے خوب نہیں
ہیں داغ دل افزوں میرے تاروں سے دو چنداں
تک اسے دکھلا دے اپنے زلف دکا کل باغ میں
اس لئے حوانش کی میں کچھ بات کروں یانکروں
تیری زلف سیہ کو کیوں نہ دل ہو دیکھکر لرزاں
غضب یہ مجھپہ ہوے غم اے دوستاں دونوں
حکم ہے مجھکو میں گفتار کروں یا نکروں
اے فلک کیا ہدف تیر بلا میں ہیں ہوں
رہے ہے یار ظاہر نکہت غنچہ ساپنہاں میں
ہوئے ہیں تجپہ پروانے کئے دل ہم بھی سنتے ہیں
جواے نو خط اس دل زار کی تجھے شرح گریہ رقم کروں
یہ سوچ ہے گہر یار کے جاؤں کہ نجاؤں
کیا صورتیں بتوں کی کافر بنائبان ہیں
یہاں دلمیں آنکھوں میں ظالم عمر بے تیرے پھرتے ہیں
جو ہیں غم الم ہجر میں بندہ پرور رجو بولو تو نولوں نہ بولو نہ بولوں
مردوں کو سینہ بتلادل چھپین جاتیاں ہیں
ہیں آن داد ادل کے طلبگار کسے دوں
اتھیں چونک خاکسے خفتگان یہ رکھیں ہیں دہن تیرے کیونگرو
دیکھیں خدا ملائے کب اس بت پر غرور کو
ہے قدّ یار سر وگلستان آرزو
صبح اب جلوہ نما جیسا ہے شام ایسا ہو
تم تو اتے ہیں ابھی کہتے ہو گہر جانے دو
ساقیا سیر چمن کچھ نہیں جب تو ہی ہنو
کیا کہوں چشم ترکے رونے کو
توڑا سنگ جورسے دلکے جو کل آئینہ کو
دیکھو صیّاد وکہیں مست توڑ کر پر چھوڑ دو
مجھ بخت سیہ پر نہ تو دہاندل سے خفا ہو
میں کا ساقی جو دیا جام ہے ہمکو تمکو
بتکدہ میں وہ نہیں ہے تو حرم میں ہو تو ہو
بولو نگا یہ پکار کے میں سب کے رو برو
وہاں سے ہم تلک آیا نہ کچھ پیام کبھو
حال دل کیا ہے میرا ایک نظر تو دیکھو
یہ کب کہا میں کہ میرا کہا سنو ہی سنو
رخسار ریا ایسے ہیں با آب و تاب دو
آج کیوں جام تو اتر تم ادھر دیتے ہو
چشم جو اشکبار ہیں دونو
چاہتا ہوں مفت کب دل نقد لیکر مول دو
ہے اسکا سینہ جوں آئینہ جسمیں صفا منہ دیکھو
تیر غمزوں کا ہدف اپنے بنایا دل کو
دتیا آرام تھا شب رسک قمر کا پہلو
ابر ہے ساقی نہیں میں آہ یہ ہو وہ نہو
میں کہا ایک ہے تو رشک قمر دیکھا تو
جو دلبری کرے دلدار ہو تو ایسا ہو
بھری ہوئی ہے کسو کے دماغ میں حوشبو
یوں اپنے دلمیں ہے پر تو فکن اباغ کی بو
اپنے مجروح سے تک آنکھ لڑاتے جاؤ
تصور میں تیرے تہمتے نہیں ہیں ایک پل آنسو
ساقی ہو میں ہو یار ہو مینا و جام ہو
نہ آپ بات بھی کرتے ہیں نے نگاہ کبھو
سینو تو ید ساقی کو مستو پکار لو
کب تک نہ دوں میں ہات سے صبرو قرار کو
دل میں مت دے راہ عمر رفتہ سے افسوس کو
ساقیا بھرآئے ہے اس دیدۂ تر میں لہو
حلاوت زندگی کی خانہ بر بادوں سے مت پوچھو
دکھایا شب اسے جوں اپنے دل کے سوز پنہاں کو
برنگ غنچہ جب دل عندلیب طبع کا خون ہو
فکر معنی میں تو کہا خون جگر میں غوطہ
گوندہ مت پانی سے مشاطہ میرے لو ہو سے گوندہ
رشتۂ جان لیکے میرا کا کل خوشبو سے گونتھ
ابر کیا جیتے گا تو جا شرط چشم تر سے باندھ
جل گئے پر بھی نہ پوچھے خبر پروانہ
کل میں بک شعر پڑھا کرکے جو موزوں تازہ
دیکھ کر چاہ تیری رشک قمر دلو کے ساتھ
ہے عشق بلاے بد گر دیدہ و دانستہ
نخون دل ہوں لکھا حال تنگ پر نامہ
وہ لعل کا ہے اسکے گریبان کا مکّمہ
ہے غیرت خورشید تیرے کان کا حلقہ
وہ آفتاب فلک کے ہے کاخ میں شعلہ
مجھے اس شوخ سے پہنچا ادا وان کا تحفہ
بزم میں ہادئے ہر پیر و جوان ہے شیشہ
ہوئیگا تیغ قضا سے قلم ایک آن میں ہاتھ
بولا میں تم ملونہ بھلا کیا مضابقہ
خال ہیں اس مہ کے رخساروں پہ وہ
ساقی پہنچ اب باغ میں بدلی ہے سوا کچھ
جو برگ لالہ پہ ہے مشکناب کا نقطہ
راہ دیوانہ جدا ہے اور ہے یانے کی راہ
اےشانہ یہ کہلیگی تجھی سے کٹھن گرہ
رہ جاوشب نہیں کہ ہے گھر کا مقدّمہ
قلق سے پھٹ گیا شب جو دل بیتاب کا پردہ
عینک کی پیر مرد سمجھ مت اودھار آنکھ
گل سے ہے تازہ و تر غنچہ دہن یار کا منہ
داغ ہے دیکھ منہ اسکا مہ تاباں کا منہ
قد ہے رشک سروکا خانہ خراب فاختہ
تکمہ اور کیا رخ پر نور تیرا واہ ہے یہ
دیتا ہوں میں دل تو یہ ہے کیا تم سے زیادہ
آتا ہے گھر وہ میرے مہمان سے زیادہ
بشکل مہر جو دیکھا سحر تمہارا منہ
ساقی نہیں ہواے شراب دو آتشہ
مہر اسکی نو کیونکر کہوں کم اور زیادہ
ہواور تیرے رخ کی جھلک اس سے زیادہ
کیا حال ہے یہ پوچھ خبر آن کر ذرہ
کیا چمکے ہے اس مہ کے گوہر کا ہر ایک دانہ
میں روؤں اور ہنسے وہ لابیان ہے خندہ و گریہ
مکھڑا نہ چھہاؤ مجھے دکھلا کے اجی واہ
نظر پڑا تیرے فندق کا آب میں شعلہ
تاب دل اب نہیں آتی ہے نظر آدھوں آدہ
دبدہ پر آب ہے کیوں چشم نہ بھر آئینہ
لیگیا اس سرو قدنے دلکو رونا فایدہ
گلرو کسو کا میں نہیں کوچہ میں خار راہ
تیری دوری میں انجانہ خراب چشم آئینہ
میرے ہیں ضعف آنسوروان آہستہ آہستہ
جلاے بال وپر آخر کوہائے پروانہ
جلتے ہی ہوگیا آخر نفس پروانہ
متبسم ہے باغ میں غنچہ
عشق مشکل ہے دلا اسکو مت آسان سمجھ
ایکدن وہ تھے کہ ہم خوش تھے وہ خود کام کے ساتھ
کس آتش عشق شمعرونے دیا ہے پھر دلپہ داغ تازہ
ٹک برس دل کہو لکر یکبار اے ابر سیاہ
نوید تجسے میں کہتا ہوں ہمنشیں تازہ
اسکی تصویر لکھی کیا ہے یہ بہزاد کا منہ
نرگس کسے تکے ہے چمن میں نگاہ باندہ
ہے بہار گلشن معنی میرا ہر ریختہ
شکل فانوس تھی تن کا ہوا کاشانہ
ہوتا ہے جسکے دیکھے روشن دماغ و دیدہ
دوری میں چشم تر کے جورونے کی فکر کی
زلف دلدار کیا نظر آئی
نیاز دلبر ہے نازو لبرا دہر سے یہ ہے اودھر سے وہ ہے
نہ آخر کھینچ سکی شکل اسکی مانی
نگہ شوخ کام کریے ہے
جھولے کے ہیں نجانین کس دلربا کے جھوکے
ہوئی بربادآگے انکے آب وتاب موتی کی
تو لو تو ایک بھی ہنین ماشے کے آدمی
سخن کلہ کے جو آتے تھے لب پہ آنہ سکے
دزد حنا جو تیرے ہاتوں سے آلگا ہے
اسکی چتوں سے نظر برق بلا تھی کیا تھی
آمد فصل بہاراں میں تو گلشن چھوڑدے
شیشۂ بادہ کر اے ساقی گلفام تھی
حلاوت اس لب شیریں کی اسکا ہی دہن جانے
برقع سے اسکے باہر ابرو نکل گئی تھی
یاد آئے نہ کیونکر مجھے ہر بار کسو کی
طرفیں جو ہو چاہ مزا اور ہی کچھ ہے
کیا ہے نازک رگ گل اسکی کمر کے آگے
شوخ نے لی جو جان میں چسکی
کیا کیا بہار لوٹے ہے سینہ کے یار کی
دھوم تھی اک کرچہ میری آہ کی
حباب آسا ہے نادان جو تہ افلاک گھر نانہ ہے
موتی کی لڑ جو کان میں انکے لٹک گئی
جل مواشب جو پتنگ اپنی سیہ روزی سے
کیا ساقیا شراب پلانے میں ڈھیل ہے
درزمیں شعر تخم فکر ڈالے ہی بنے
سر سے بار خرداب عشق میں ڈالے ہی بنے
دل میں در داب کمال ہوتا ہے
بولا نہ اسے حال میرا جاکے کسونے
ساقی بہار کولے نظر کچھ بسنت کی
دلدار نہیں وہ جو دل آزار نہیں ہے
چہل تھی دلمیں سواسکے ساہنہ ہی جاتی رہی
عجب ہے ابر کیفیت سے تک یہ تشریف لا ساقی
چشم سے میرے اشک یہ دھل نکلے
وہاہ اے آہ سحر تدبیر ایسی چاہئے
عشق میں جان کو بھی کھو بیٹھے
ہم اس آتشکدہ سے جل نکلے
خورشید سادھوندوں ہوں تجھے کام یہی ہے
اس غم نے داغ الفت یوں بر جگر بہائے
تیغ نگہ لگائیں تبر مژہ چلائے
شعر سنکر میرے کہتے ہیں سخنور کتنے
آگے ہیں بڑے اسکے کئی جور اٹھانے
کچھ ایسی گئی اپنی جوانی کہ نجانے
جو درد دل ہے میرا بے یار کون جانے
دکھ گیا منہ میرا نت منتین کرتے کرتے
تکلیف سیر باغ نہ دالے اے ہوس مجھے
نہ وہ ہیں ہم نہ وہ تو ہے نہ وہ زمانا ہے
چشموں سے کیا بہے ہے لیل ونہار پانی
بس ایے جنوں تو اٹھا ہاتھ میرے کینے سے
چاشنی لب سے تیرے جسنے کہ پائے ہوگی
کرتے ہو بلبلو تم کیا فکر آشیاں کی
اور بھی کچھ وہ چاہ ہوتی ہے
بے حجا بانہ چلے آئیے اور سورہئے
دیا اس شمعرو کو دل یہ ہمدم کیا کیا تونے
عشق آسان ہے یہ مشکل ایک ہے
ایک ہے شیخ و بر ہمن دیر وبیت اللہ ہے
درد فراق سے تیرے یہاں رنگ زرد ہے
باز رہے نہ گر سنہ جستجوئے معاش سے
افزود ہوا عشق میں غم کم کہو کیا ہے
تو پیار رکھے جو ہم پہ پیارے
ہوارشک چمن سینہ بہار داغ خرمان سے
تر آوے کیوں نہ ایکعالم میری اس چشم گریاں سے
اس زلف کے کوچہ میں اسدل نے بھی جالی ہے
مسی کیا تیرہ بختی کا تیرے اس لب پہ مسکن ہے
صبح کیا موج صب جانب گلذار چلی
اس سیم بدن کے ہم یوں درپہ ہیں جم بیٹھے
خیال تکمۂ مہ رو گریبان گیر ہے جب سے
شب وصل صنم ہے آج اے ہمدم کسودھب سے
دلمیں میرے نہ پڑے کیونکہ گرہ خالوں سے
میرا ہر قطرۂ اشک اسقدر گر کر اوچھلتا ہے
بیکلی سے یوں شب فرفتمین ہم بیٹھے اوٹھے
یہاں دم باز پسین لب پہ چلا آتا ہے
یہاں نام ونقش کر سوئے ملک عدم اوٹھے
اے مردم اشک چشم جوشب لبر یہ ہم اٹھے
انہیں جو میں دیکھ رونے لا گا تو وہ لگے کھل کھلا کے ہنسے
چشم کرم غیر پر تجھکو اکر شرط ہے
خالق ہے نوا درست یہ تیری نشو نما ہے
اے شیخ کفر مت کہہ پتھر سواے کیا ہے
یہ کبھو اسنے نہ پوچھا مجھے غمخواری سے
اسکی بندہا ہوزلف میں جو دل نہ کھل سکے
خوف سے تیرے نکل سینہ سے دم بھا گے ہے
راہ ورسم عشق میرے دلسے پوچھا چاہئے
جو یہاں ساتھ آئے تھے کم رہ گئے
پتنگ کیوں نہ میرے شمعروپہ بل جاوے
غشمین بیدم ہوں جان لیکن ہے
اصلاح خط کے پاگئے تصویر آپ کی
داغ غم ہجر سے معمور ہے
دن بھر حال گذرتا ہے نہ شب گذریے ہے
جدا ہر ایک کا اے شیخ رسم و آئین ہے
سب درکناراور مدارات رہ گئی
حسن کے اسکی ہر ایک لحظہ صا اور رہی ہے
دیرای شیخ مدرسا ہے مجھے
ہم راہ دیکھ دیکھ جہاں سے گذر گئے
مجکو اس میخواربن جینا بہت دشوار ہے
ایکدم بھی بھولتے نہیں تیرے قدم مجھے
تصور نکلے اس مہرو کاکب اس ذیدۂ تر سے
نالہ ہے سرد اشک کے ہیں جو ٹیار بھی
سرمیں بت نوخط نے بلایا لوں کو پالے
ساقیا بزم چمن میں ہے تیری جا خالی
گل افشان آج جاے اشک میری چشم نگران ہے
ہم دل جلے جو آہ بھریں تن بھڑک اٹھے
صبح کون آیا تھا یہاں اے باغبان کہہ تو مجھے
جوے گلشن میں جو وہ چھینٹے پڑے پانی کے
عشق میں ایسی تیری جان پہ مشکل کیا ہے
جو پری بزم میں شب رشک قمر بیٹھ گئی
پیچ کرتا ہے تیرا طرّۂ پہچان مجھ سے
سانس ٹھنڈی کسو مایوس کی کیا چلتی ہے
اندنوں اشک سے کیوں آنکھ بھری رہتی ہے
بزم میخانہ میں جامد ہوش یار اکثر بنے
چشمک میں اس صنم کے ہے تاثیر برق کی
خوشقدی اپنے یہ کچھ سروبہت تنتا ہے
کہتے ہیں گیا قیس پابان ہے خالی
دل جالگا یہ کس بت خانہ خراب سے
کیوں نہ بھر آئیے نہ دردیدۂ دشمن پانی
چمکی ماتھے پہ جو چلوں سے تمہاری چمکی
سودا سونارن سے ہے بادہ پنی آپ کی
ضعف دل جاسکون کیا کوئے جاناں دور ہے
مکان دلمیں غافل یار کا ہر دم جھمکا ہے
کسو کی شکل کا جو چشم نقشہ دلمیں گھڑتی ہے
دلا بیطرح آنکھ اس شوخ کی چلون سے لڑتی ہے
تیغ نالہ سے میرے سدرہ کا ڈالا اوڑجاے
اب دلکو ہے بے چینی آنکھوں کو ہے بیخوابی
یار آغوشمیں ہے دور میے و جام بھی ہے
کرتا ہے دور بین میں نظر ایک آنکھ سے
شکل کھینچی پہ کہچی اسکی نہ آنی بانی
جب آرزو تیری پائے نگار پڑتی ہے
چاہ ذقن کی اسکی کیوں چاہ میں پڑا ہے
دل سرو کو مت دیجوای قمرئے تقریری
ہم خیال یار میں رہتے ہیں سوتے جاگتے
دیکھئے کیا اتنا کب تار نظر باریک ہے
شب ہے باقی ابھی ایجان گھڑی آدہ کھڑی
ناصحو جی سے ہیں ہم ہات اٹھانے والے
کیا صبا بولی کان میں گل کے
ہیں جو بگولے دشت می ںاٹھتے قیس نے دھوم مچائی ہے
قد تیرا رشک سرد گلشن ہے
آہ دل کونسی شب غلغلہ افکن نہ رہی
میرا دل زلف میں لٹکا دیا ہے
اسکے کوچہ سے صبا تو جو ادھر آئی ہے
کسکی آمد ہے بندھی جو سبروستان کے پرے
جو بوسہ طلب میں کیا ڈرتے ڈرتے
بہ چشم آؤنگا میں تجھ تک صبا کہیو یہ جانان سے
یاد کر ہمکو بھی ساقی کوئی پیمانے سے
مرگان سے اسکے آجو لگی بات میں جھرحی
پڑھتے تھے الف تم اور لکھتے تھے جب تختی
ہمیشہ ماہ تیرے غش رخ وجبین پہ رہے
اس شوخ کی مزاج ہے نازک دلابڑی
چہرہ پہ پری روکے تو تاک لگاتا ہے
حلقہ در حلقہ تیری زلف گرہ گیر بنی
خط ہمکو لگا لکھنے خط جب سے نکالا ہے
کچھ لگی فضل پہ کام اپنے ہنر کی کنجی
ہیں انکی کچن عشق کی شطرنج کے مہرے
گوہر جان بھی گیا اور آبرو بالکل کئی
میں حال کہا تمسے تم الٹے گلا سمجھے
جس سے کہ ہے شرف سووہ آدم میں کچھ نوہے
رخ مہ روپہ داغ خال کا ابدل تو ہم ہے
ربط اسکو زیادہ نہ ادھر ہے نہ ادھر ہے
آئے ہیں ابھی وہ گھر جاتے ہیں کیسے
قد اسکا دیکھ قمری بس عشق سر وبھولی
یوں مرہ سے میری ہر لخت جگر گرتا ہے
اپنے مثل حباب ہستی ہے
دیر وکعبہ کا دور رستا ہے
جہاںکے وہ جو لگے حجرہ میں شب جلوں سے
شعلہ روبن شمع سان بہاں تیرہ صورت ہوگئی
میری آنکھوں کو یکسوئی ہے شاید چشم سوزن سے
غنچوںکو جو کدآن پڑی ہے اسکے دہن کے ساتھ تری
اینٹھ سے اپنی جگہ رہتے ہیں بل کھا ہم بھی
برنگ شمع ہمکو عشق اب کیا کیا دیکھاتا ہے
رخ اسکا آئینہ ہے یا گل شاداب ہے کیا ہے
ہمارے چشم حیرت سے کہوں پر ہے کبھو خالی
لکھ صانع قدرت تیری تصویر دو چشمی
نہ تھی کالی گھٹا کا کل نے اسکے دلکو گھیری تھی
غنچہ سان نازک کرے کب شعر موزوں ہر کوئی
جو میرے دل نے بتوں کی چاہ کی
غم میں اے صبر دل نہورخصت کھڑے کھڑے
طفل دلکو اپنے دوں کسطرح تسکین شیر سے
کیوں نہ چمکے تیری ابرومیرے سرکالے شے
الحذر نالۂ شبگیر کے سنّاٹے سے
زور موباف کا اس زلف سبہ میں زر ہے
دیدۂ نرکا میرے دیکھ کے گھرا پانی
سر شک چشم یہ ناصح نہ بے لگاو ہے
چلتے چلتے نازسے ہوکر لگانے لگ گئے
یہ کھ کر صیاد ایسی کیا ہوئی تقصیر بلبل سے
غنچہ کچھ دم جو دہن سے تیرے دلبر مارے
نہ سمجھو چین سے ہیں خضگان زمیں کے تلے
بر میں جو تو نہیں تو گہر اپنا اوجاڑ ہے
عبث چاہتا دل ہے یاری تمہاری
معطر اور عنبر بار ہے دہ یار کی چوٹی
عشق ہوے اس مہ پہ بزم شب کی یہ صورت ہوئی
بار اس محفل سے اکثر بیٹھے بیٹھے اٹھ گئے
بتان سنگدل کے عشقمیں یار تو مشکل ہے
بحسن وعشق کوئی ہمسر نہ میرا ہے نہ تیرا ہے
موج آب جو ادھر سبزہ اودھر لرہائے ہے
مرشد کے یوں ہوں طالب ابدل بنے بنائے
تیر غمزوں سے ہدف جیسے دل وجان ہوگئے
انکو مجھسے شرم ابھی اے ہمنشیں تھوری سے ہے
گلقند وسیب واملہ کب چاہئے مجھے
جی کو بلا مول لیا چاہئے
بیمار چشم کار ہوں بیمار تابکے
نہیں ہے عقدۂ زلف سیاہ کی گٹھری
شام سے صبح ملک رہتے ہے صبح اچھی
فردیات
سوز دل اپنا ہاے میں اب کیا کروں رقم
بہتر کے ہے میرے سینۂ نوران میں کیا عتک
اے رشک صد قمر تیری رکھتا ہوں دلمیں یاد
فرقت سے ہے تیری گل لالہ کے دلپہ داغ
تیرے غم فراق میں اے یار غمگسار
اب نوبہار ہے تیرے ملنے کی دلمیں آس
تجھ بن اے زلف یار پریشان ہوں رات دن
اے لب شکر تو جب تلک آغوشمیں تھا تنگ
اب بیوفایہ کب تئیں جورو جفا بھلا
ایکدم بھی ہولتا نہیں مجھ دل سے تو کبھو
وہ دن بھی یاد تھے جو ہم آغوش تھے مدام
پھرتے ہی اسکے مائے پھرا ایک آسمان
دور فلک بوند خوشی کی سنائے کب
مطرب خموشی کیا ہے گلو کی تیری صدا
ناصح میں گفتگو تیری کب یک سنا کروں
ہے تار ساقیا شب مہتاب اس بعیر
کیا جانتا تھا عشق میں جنجال ہوئیگا
محرم کہاں جو لطف سے تک آسکے یاس جائے
اے مرغ دل میں پہلے ہی تجکو کہا نتھا
تسکین مجھے کو دبتے ہو جب تب ابدوستو
کیا شرح غم لب آگے کسو کو سنائے
ہمدم سے میں پوچھا تجکو کسکی ہے چاہ کہہ اے نادان
کیا کروں کجروشی تو سن گردوں کی رقم
جسپہ ہوتا ہے گھر بار تیرا ابر کرم
خواب سے یکبار جوہنیں آنکھ کھل گئی صبح کو
آئینہ حیران ہوے سنکے تیری گفتگو
وصف تیرا کیا کہوں اے شمع بزم گفتگو
کرے ہے ابر گھر بار گوہر افشانے
عجب ہے ذات منزہ شبیہ نورانی
نہیں ہے ایکطرح پر زمانۂ نیرنگ
کیا ہے راون بھی تو وہ ہے بلونت
خاور سے کیوں نہ نکلے
تیرے کرم سے ہے جوشہ خاور آفتاب
اسکی شعاع رخ سے ہو ہر اختر آفتاب
قفس میں آہ بک پر بستہ طایر
ماجرا چاہ کن کا تک سنیو
آب کے سرما سے کانپتی ہے ہوا
ایک پر کہہ کے ناری سنگ
اودوہ سما پوترہ بترے ماہنن
ایک منکہہ ہے جگمین یکا
بہن ہنسے بہائے جو رو وین
اے دوا چھوڑ گیا کب سے وہ لشکر والا
شکل حوّا کی کسیکو نہ بنارے انا
باہر آہے وہ کھڑا جاگتا ہے گھر والا
چھتر یہ مجھسے تو کیوں کرتی ہے ہر آ ن بوا
روزاٹھ مجھکو وہ راتوں کو ستانے ہیں ودا
کیا کہوں اس جوان کی بات بوا
چپکتی لئے انہوں نے دوا شب جو ران میں
نغمہ ایک تازہ سناؤنگی میری انّا جان
چل ددا پائنوں کو مہندی میں لگا نیکی نہیں
کچھ دوارات تو کچھ جائے ہوئے شام ابھی
کیا نیا گھنا پناؤں میں سن اے پنہا جان
کہہ دے دداپسند نہیں گل کی اوڑھنی
نت سخندان ہیں خریدار سخن
Thanks, for your feedback
अध्ययन जारी रखने के लिए कृपया कोड अंकित करें। कुछ सुरक्षा कारणों से यह आवश्यक है। इस सहयोग के लिए आपके आभारी होंगे।