سر ورق
پیش لفظ
فہرست
گزارشِ مرتب
باب اول: تاریخی پس منظر
باب دوم: ادبی پس منظر
باب سوم: حیاتِ حسرت
تصنیف
باب چہارم: دوسروں نے حسرت کے بارے میں کیا لکھا ہے
باب پنجم: متعلقین حسرت
باب ششم: حسرت کی شاعری
باب ہفتم: حسرت کی زبان
دیوانِ حسرت عظیم آبادی
ہمارے کاش کچھ بھی کام یہ اانے کے کام آتا
ہو جو نہ مبتلا تو خبر دار عشق کا
بھرے ہے آج ہر ساعت مرا دل سو جگہ اٹکا
عشق پوشیدہ نمایاں نہ ہوا تھا سو ہوا
عزیزو تم نہ کچھ اس کو کہو، ہوا سو ہوا
نہ ہو گر رام مجھ سے وہ بتِ خود کام کیا ہوگا
کیوں مرے آزاد دل کو عشق کا یہ غم لگا
ابتدائے آشنائی سے رہا نا آشنا
ہے رشکِ وصل سے غمِ دلدار ہی بھلا
مجھے تھا چاؤ ہنوز اس کی آشنائی کا
گر عشق سے واقف مرے محبوب نہ ہوتا
نہ چھٹا ہاتھ سے یک لحظہ گریباں میرا
ہوا اتفاق اگر تجھ ہے ہم شرابی کا
اسے ہر چند شب مستی میں ہم نے بے خبر پایا
نہ ہووے جس جگہ یارو وہ یارِ مہرباں اپنا
جب عشق میں جاتا ہے نکل نام کسو کا
بس کہ اغیار کا دل میں مرے ڈر بیٹھ گیا
اگر چہ دل مرا خوش کرنا کچھ ضرور نہ تھا
غیر کے ساتھ ترا کل کا وہ جانا کیا تھا
یہ خستہ دل ہلاک ہے تیرِ نگاہ کا
منہ لگانے مجھے دو دن سے جو وہ یار لگا
میاں جو رات کو تو گھر سے سج بنا نکلا
مت آپ کو کھنچ دور اتنا
بر سررحم نہ وہ شوخ ستمگر دیکھا
اب تجھ سے پھرا یہ دل ناکام ہمارا
پاتا ہوں تجھ کو ملول اے دلِ شیدائی کیا
کہاں سے رخ پہ ترے خط مشکبار آیا
اس باغ میں کوئی گلِ رخسار نہ ہوگا
آناہی چھوڑا ادھر دل میں ترے آئی کیا
ہر اک بہ امتیاز میاں تیرے گھر رہا
ہے یاد تجھ سے مرا وہ شرحِ حال دینا
ہم سے کیا ایسا ہوا پیارے جو شرمانے لگا
آگے کچھ عشق کا میرے کہیں مذکور نہ تھا
ہو ا بے خود میں کچھ احوال نہ جانااپنا
یار نے حیف کبھی یار نہ جانا اپنا
جوں ہوں فرق خاکساراں سرکشاں کے زیر پا
چھوڑا تنہا مجھ کو جب وہ شمعِ محفل سے اٹھا
قیدِ الفت میں ہمیں لا پہلے دل بستہ کیا
میں دل اٹھانے کو ہوں منتظر بہانے کا
نہ لیجو بھول کر دل نام تو ترکِ محبت کا
وصل کی شب صبح دم جب برسے جانا
جس طرف ہم نے بھر نگہ دیکھا
ماہر و رات مگر گھر سے تو در پر نکلا
سوز و گداز دیکھ دلِ داغ داغ کا
اس بے سرو پا آہ سے کیا ربط اثر کا
اس زلف سے دل ہو کر آزاد بہت رویا
ماجرا پوچھ نہ کچھ دل کی گرفتاری کا
ہر طرف شہر میں شہرہ ہے تری خوبی کا
وہ بھی کیا دن تھے کہ جز عشق سروکار نہ تھا
جس کا میسر نہ تھا بھر کے نظر دیکھنا
بس کہ دلکش ہے ترا یہ کھینچنا شمشیر کا
یار ابتدائے عشق سے بے راز ہی رہا
کل میں اس کوچے سے جو آنکلا
فتنہ جو تری نرگسِ فتان میں دیکھا
کہنے میں نہیں آتا جو تجھ سے جدا دیکھا
سر نوشت اپنی ہے جوں شمع دمادم رونا
میں اس سے دردِ دل خستہ بے کہے نہ رہا
ہر گھڑی مت روٹھ اس سے پھیرپل میں مل نہ جا
دیکھے نالاں مجھے جو بلبل سا
حسن کو اس کے خط کا داغ لگا
آج ادھر کو جو گزر کر گیا
ہم بیدلوں سے کیوں ترا دل بے خطا پھر آ
سمجھ کے بے آبرو نہ گنتا تھا وہ ہمیں خاکسار اپنا
چشم ہی میر نہ وہ تر کر گیا
پوچھا کبھی نہ حال دل بے قرار کا
مرا آنسو بچشمِ تر نہ بیٹھا ہے نہ بیٹھے گا
ہوں تیری خاکِ رہ میں ہم آغوش نقشِ پا
پڑتا ہے راہ میں مرا مدحوش نقش پا
قضا نے نقشِ خط اس صورت تصویر پر لکھا
مہربانی سے وہ گھر کس کے نہ آیا تنہا
نہ خفا ہو میں ترے گھر سے نکل جاؤں گا
ایک دم میرے برسے تو نہ گیا
تمہارے ان لبِ شیریں سے جن نے کام لیا
وہ شوخ نپٹ خراب نکلا
آیا افسوس جو شب خواب میں جاناں میرا
دل نے پایا جو مرے مژدہ تری پاتی کا
نکلا جو گھر سے سج کے وہ شمع چکل بنا
میرے نزدیک نہ آیا وہ رہا دور سدا
راہم میں دلدار کو باتوں لگا کس نے لیا
رشک سے غیر کے نت مجھ کو نرا ہے مرنا
دل لگالے میرا وہ گمرہ گیا
دامن ہے میرا دشت کا دامان دوسرا
ہر چند اس نے ہم کو کہا تھا نہ سودیا
ہو گئے اغیار سب یار اس کی یاری کے سبب
پاک اشک سے بھی دیدۂ تر ہو ویگا یارب
عشق میں روزی ہے ہم کو کلفتِ ایام سب
جب ملے تو مجھ سے ہے اے شوخ سرتاپا ادب
ہے کسی کی نرگس مخمور سے خانہ خراب
جاتا کہیں کو تجھ کو جو سن پاوے آفتاب
وہ شوخ حیلہ بازو بہا نہ طلب ہے اب
اک وقت ہم تھے یار تھا اور راگ و رنگ و خواب
کسی کو سہل ہے کاٹے اگر زمین کا سانپ
دم لے اے ناصح رکھ اپنے یہ لبِ اظہار چپ
محبت کے نشے والوں کوے خانے سے کیا نسبت
تری سی طرح کوئی دل لے جا سکتا ہے کیا قدرت
رکھے ہے وہ لبِ میگوں شراب سے نسبت
عاشق ہوا وہ جواں این گل دیگر شگفت
ہم عشق امردوں میں ۃیں مردِ خدا پرست
بعد مدت بنی تھی اس سے ملاقات کی بات
غیر اس سے کامراں ہے مری بن نہ آئی بات
خوں سے رنگیں ہے مرے دیوار تیری در سمیت
کب تلک دیکھا کروں میں اس باٹ
ہے آج خاطر غمگیں کو خار خارنپٹ
تیری جفائے عشق سہی بے وفا عبث
نہ ہو مفرور کیوں وہ نازنین آج
شوخ غنچے کی طرح برزدہ دامان ہے آج
پھرتے ہیں خوش چشم جیسے اس دل مخروں کے بیچ
یک مدت سے خیال رخِ دلدار کے بیچ
کوئی کیا سمجھے جو کچھ ہے دل و دلدار کے بیچ
گل نہ دیکھا ترا ہم رنگ گلستان کے بیچ
ہجر کے طالع پڑی ہے اپنے غم خانے کی طرح
دیکھا میں اس کو غیر سے کل رات بے طرح
پہلے ہی ہم سے ملا وہ بے مروت کس طرح
رقیب روسیہ ایسا بھی تو نہ تھا گستاخ
آبِ خون دل سے ہے تیرا گل رخسار سرخ
یا الٰہی مرا دلدار سلامت باشد
بے وفا کھائی ہے گر تونے وفا کی سوگند
ہمارا حال نپٹ اب تو تنگ ہے صیاد
خیر کی رکھتے ہیں ہم تو عشق کے گھر سے امید
ترے غم میں دل ناشاد ہے شاد
کب مئے انگور کا ہو ذائقہ ایسا لذیذ
بھیجوں تا اس مہِ نو خط کو میں لکھ کر کاغذ
لکھ دے ایسا کوئی محبوب کی حب کا تعویذ
جس قدر فتنے ہیں نازِ مہوشاں کے زیرِ سر
قاصد خوش فال لایا اس کے آنے کی خبر
جان کرکہتا ہے ہم سے اپنے جانے کی خبر
مت کہو اس گلبدن بن ہم سے آتی ہے بہار
ہرآن محبت اسے دکھلائے ہے کچھ اور
رہے ہے چین یوں اس کی جبیں پر
رکھا پا جہاں میں نگارا زمیں پر
نہ کہ الفت سے اے کم التفات پر سخن بس کر
وہ عیسیٰ لب ہووے اس جاں بلب سے ہم سخن کیونکر
دورِ خط میں دیکھ اس گلبرگِ خنداں کی بہار
منتظر کب سے ہوں آتو ذرا گھر سے باہر
کیونکر نہ کرے یار ترا ناز فلک پر
آتا ہوں جب اس گلی سے سو سو خواری کھینچ کر
غیروں سے یوں تلطف گھر سے بلا بلا کر
مفرور مت ہو جسن پر عاشق سے استغنا نہ کر
ہر گز اس کو نظرِ لطف نہیں میرے پر
کہاں جاگا وبال بے سبب تعزیر بھی آخر
پیشہ اپنا، خواہش سے شیوۂ محبت کر
یار کرتا ہے سفر گلشن میں آتی ہے بہار
سمجھے کچھ اور تھے ہم اور اسے پایا کچھ اور
وے لطف کہاں میں وہ منانا مجھے لڑلڑ
دل یار تیری وعدہ خلافی سے پھٹ گیا
سنگیں دلوں کا غم مری چھاتی کا ہے پہاڑ
دل نے ترکِ بے خودی کی بات کب مانی ہنوز
پھبتا ہے تس سے حسن پہ اے خوش خرام ناز
نہ دیکھا تجھ سا بیگانۂ وفا ہرگز
بے خبر ہے میرے دل دینے سے وہ دلبر ہنوز
یارو یہ مرا عشق کا عنوان کسی روز
سب طرح کیوں نہ ہووے خاطرِ دلدار عزیز
غیر یوں بولا دمِ قتل مرے یار کے پاس
عشق سے اس کے ہے یہ جی مرا بیزار کہ بس
دیکھ لی ناقص تمیزی تیری معشوقی کہ بس
آنا ہی چھوٹ گیا یار کا اب میرے پاس
قدر کچھ میری نہ جانی تو نے اے ناحق شناس
اس قدر میں نے اسے رات کیا یاد کہ بس
رہے سینہ میں میرے شش جہت سے مشتعل آتش
اپنے گلرخ بنا لگتی ہے گلستاں آتش
وہ بے درد دل تو مرا کر چکا خوش
عشق میں ہوتا اختیار اے کاش
اس دل سنگیں سے کب جا میرے سینے کا خراش
وفا کے ہیں خوان پر نوالے ز آب اول دوم بہ آتش
ساقی ہیں روزِ نو بہار یگ دو سہ چار پنج و شش
دور سے دیکھ کے اس کو نہ ہو دل اپنا خوش
بلائے جاں ہوا اس ہفتہ دوست کا اخلاص
ہر چشم کو ہے عشق میں دیدار یار فرض
دل کے لینے ہی سے رکھتا تھا وہ دلدار غرض
داغِ دل ہم کو ملا اس گلِ خنداں کے عوض
اگر چہ عشق میں معشوق کے جفا ہے شرط
ہر کسی سے ہے اسے ربط نہاں سے اختلاط
نہ پوچھ عشق میں اے ہم نشیں ہمارا حظ
کس بتِ بے باک سے ہم کو بھڑایا الحفیظ
درد میں لاتا ہے گوش دل مرا نامِ و داع
کون ہے محفل میں تیری مانع دیدارِ شمع
خورشید سا رکھے ہے مرا اشتہار داغ
اپنا ہم رنگ نہ پایا کبھی دلدار دریغ
پھر گیا ہم سے دل اس شوخِ ستم گار کا حیف
منظور اس کو اپنی ہے بیداد کی طرف
گھر اس کے نہیں کچھ مرا اغیار مخالف
ہے اہلِ دل سے جیسا وہ دلدار بر خلاف
ہم عشق سوا کم ہیں کسی نام سے واقف
سو زباں ہوں تو کہے شمعِ شب تارِ فراق
مضطرب حال نہیں کچھ بہ تمنا مشتاق
معشوقوں میں ذرا بھی ہو گر امتیاز عشق
پیارے بے دردوں کی ایسی غم گساری کب تلک
رحم مجھ پر کریں ہیں دوست سے یے دشمن تک
حسن کے جو رو جفا لطف و کرم چاروں ایک
عشق میں جیسا جلاتی ہے ہمارا تن آگ
ہم عاشقوں کو کرکے فراموش آج کل
وصل اس کا بہت دور کھنچا اے کششِ دل
کیا کہوں تجھ سے مری جان میں شب کا احوال
بو بہار آئی چمن میں کھلے گل برسرِ گل
پھر ی سی دیکھتا ہوں اس چمن کی کچھ ہوا بلبل
کس چشم میں ہیں ایسی سخن سازیوں کے ڈول
گل کے آنے کی خبر تونے سنائی بلبل
راہ رستے میں تو یوں رہتا ہے اگر ہم سے مل
جو ہو دو چار بھی دیدارِ یار ہے مشکل
تنگ گو کنجِ قفس سے ہے تو آئی بلبل
کب تلک پیوے گا تو تر دامنوں سے مل کے مل
وفا سے دلبروں کی باز آ دل
لب جلاتا ہے مرے سوزِ جگر کا احوال
دیکھیں نہ تجھے نہ آویں گے ہم
ہوا ہے اس پہ مرا عشق ہو بہو معلوم
ہر طرف ہے اس سے میرے دل کے لگ جانے میں دھوم
نہ غرض ننگ سے رکھتے ہیں نہ کچھ نام سے کام
مانگتا ہوں سو غریبی سے، نہیں دیتے ہو تم
شفقتِ دل سے کہاں یارودل آرا کا پیام
کب تلک دیکھیں تجھے دور سے حیران ہیں ہم
لینے پایا نہ وہ طناز مرا نام تمام
کرتے ہیں ہر صبحدم اٹھ طوف مے خانے کو ہم
صرف اس کے گر چکا میں دین اور دنیا تمام
دھوم رونے کی مرے دیکھ بنے دریا سن
عیب معشوق کا کب اہل وفا کہتے ہیں
گل و شمع و قمر کے تئیں ترا ساتو روے نکو نہیں
بھولے سے ادھر کو دے جب آن نکلتے ہیں
تپا کرتا ہے دل ہر لحظہ لب پر رہتی ہیں آہیں
کیا جو اس نے ہم سے ترک الفت اس کو کہتے ہیں
جیسے کہ جانِ شیریں چپیدہ ہے بدن میں
میں بے بس اور یارِ ستمگر سے بس نہیں
تمہاری دوستی اور آشنائیاں دیکھیں
اس خاکِ کو سے ان دنوں میں پاکشیدہ ہوں
میں ایک مشتِ خاک بدر و آفریدہ ہوں
ہم سے وحشت اسے کیا کہتے ہیں
ساقیا پاتا ہوں میں رنگِ پری شیشے میں
کبھی بھرتے ہیں نالے اور کبھی ہم آہ کرتے ہیں
سر پہ خاک اپنے میں دن رات کروں یا نہ کروں
باغباں اک بار تو ہو مجھ کو بھی بارِ چمن
آہ و نالہ کے تردد میں تو تقصیر نہیں
چشمِ تر سے مری یوں لختِ جگر جھڑتے ہیں
تجھ سے اپنا دردِ دل اور غم پیار ے کیا کہیں
بھر نظر دیکھا ہے جب سے وہ گلِ سیراب میں
میسر اس کے ہمیں در کا خاکبوس نہیں
آیا خط روے مبارک پر وہ زیبائی کہاں
مجھ سا بیتابیِ دل کا کوئی اب باب نہیں
یاد آتی ہیں جب دل میں ویں طرز ملاقاتیں
کیا ہیں یے زور آوری کی ہم سے اب بیزاریاں
غم سے خوں کب تلک اپنا دلِ ناشاد کریں
ہم فریبیوں میں ترے یارِ دورنگ آتے ہیں
میں جدائی میں بھی دلدار سے مہجور نہیں
اب تو اغیار تجھے رات کو گھر رکھتے ہیں
جب میں کہا بتا ترے کیوں کر جیا کروں
رہتی ہے میری آہ کہیں اور اثر کہیں
دل کسی ڈھب جو تری قید سے آزاد کروں
بار تیری بزم میں اے یار پا سکتے نہیں
دورِ خط ہے وہ تری گرمیِ بازار کہاں
جو ہمیں چاہے اس کے چاکر ہیں
عاشق کو خوباں کا ہیکو پہلے اتنا پیار کریں
مجھ سے رہتا ہے فقط نا آشنا میں کیا کروں
ترے جمال سے پیارے جدا ہوئی آنکھیں
مشتاق ہو کل رات جو گھر اس کے گیا میں
ایکدم خشک مرا دیدۂ تر ہے کہ نہیں
اس کے کوچے میں میں کیا آتا ہوں کیا جاتا ہوں
ہم گنہگاروں سے گو مہرو وفا لازم نہیں
شبِ فرقت فغاں و نالہ وزاری ہے اور میں ہوں
اب چھپا رہ سکے یہ قصہ مشہور کہاں
بہت خوش نگاہوں کو ہم دیکھتے ہیں
خوش رہ تو ہم سے خوش اگر اے خوبرو نہیں
میں جب آؤں تو اداسی مجھے بتلاتے ہو
بے وفا گو ملے نہ تو مجھ کو
گر کوئی لیتا ہے میرا نام اس کے روبرو
یار ہے جب التفاتِ گاہ گاہی بھی نہ ہو
آہ و افغاں سے بہت حال سنایا تجھ کو
ہم سے ہوتا ہے اگر یار جدا ہونے دو
اس کے کوچے میں گیا اب تو قدم گڑ ہو سو ہو
برداشت ہم کریں وہ دل آزار کچھ کہو
ہوتا بندہ رخ تیرا سا پا سکتا ہے منہ دیکھو
اب عشق ہے بے قیاس مجھ کو
گل رخو عاشق بے برگ و نواسے بولو
کیا عیش ہے تو پاس ہو اور موسم برسات ہو
دل مرا لے کے میاں جان طلب کرتے ہو
کم نگاہی سے کم ادھر دیکھو
ہمنشیں بزم میں جاناں کی نہ لیجا ہم کو
کب تلک ہم کو نہ آوے گا نظر دیکھیں تو
یار بے درد گیا دل بھی گیا یار کے ساتھ
ہم غریبوں پہ کہاں جام کہاں ہے ششہ
نہ مارا اتنی بھی تو لافِ وفا اے بلہوس چپ رہ
محو ہوں حورو پری میرے پریزاد کو دیکھ
شرمگیں چشم اس بتِ محجوب کی ہے کم نگاہ
ہمیں گر قتل کرنا ہے تو اے خونخوار بسم اللہ
ہوا ہے عشق سے وہ میرے آگاہ
صحبتیں کیا کیا رہیں تھیں مجھے دلدار کے ساتھ
دل ہم کو ملا وہ کچھ دلدار سو یہ تحفہ
وصل کی بات اب تو آئی ہاتھ
زبس گردِدوئی سے ہے مصفا چشم آئینہ
آشنا کب ہوہے یہ ذکر دلِ شاد کے ساتھ
درد دل کہنے لگا اس سے جو ڈرتے ڈرتے
خوش گزرے تھا وقت ہمارا کیا خاصی وہ مدت تھی
ہوا خواہی میں جس کی خانماں میں نے لٹایا ہے
میری اس کی کبھی کچھ بات نہ ہونے پائی
ان دونوں گھر کا خانہ خدا کون غیر ہے
کسی ڈھب کاش تو اے شوخ پسر چاہے مجھے
ہم اور وہ اک وقت آپس میں زور محبت رکھتے تھے
ایک بارہ ایسی ترک ملاقات ہو گئی
شتاب میرا مہِ کوچہ گرد آتا ہے
گلشن میں قد کشی کی جو تیری خبر گئی
رات جوں شمع تو گزری مجھے روتے روتے
وہ رشکِ پر ی دور سے جس دم نظر آوے
نگاہِ لطف تو ہو گزری اور پیاروں سے
ایک دم دوری نہ تھی تاب اس سمن اندام سے
کبھی احوال دل پوچھے جو ہم سے یار کیا کہیے
ہم اک عاشق دعا گو طالبِ دیدار ہیں تیرے
نیاز عاشق کی وہ شوخِ سراپا ناز کیا سمجھے
جب دل کی مجھے خاطر دلگیر نظر آئی
جس کا ہم دم مارتے تھے حیف وے ہمدم گئے
ترے گھر غیر کے رہنے کے صدقے
بے ذوق جینا عشق سے پھیکا نرا رکھے
وہ کیا بولے مرے نامے کا سن کر نام کیا جانے
عشق میں یار اگر وفا نہ کرے
غیر کا دل جو ہوا وہ سرو قامت ہائے رے
بتر پیش از اجل مرنے سے یہ بد زندگانی ہے
محرم نہ کرتا کاش تو عیشِ وصال سے
نہ پہنچے سرو تجھ کو ہمسری اس سروِ قامت کی
ہم سیہ روزوں سے کیوں وہ زلف بل کھانے لگی
عشق میں گل کے جو نالاں بلبل غمناک ہے
تیری الفت سے نپٹ طبع ہے دلگیر اپنی
کیا عہد وفا کوئی ہو سناک سے باندھے
اس گلی سے غیر سے آزردہ ہو کر اٹھ چلے
رو برو اس کے نظر ہم سے اٹھائی نہ گئی
چشمِ تر میری ہمیشہ ترے غبفب پر ہے
لہو کا اس کے پیاسا ہو اگر یہ چشم تر ہووے
آخر حسن بھی بد خوئی تمہاری نہ گئی
ہمارا گر نہیں تو غم گسار اے یار کیا کیجے
خونِ دل کھایا زبس تیری دل آزاری سے
صیاد نے قفس میں کیا دام سے مجھے
دلِ بیتاب کو چاچند تابِ انتظار آوے
ہنستا وہ گلعذار آتا ہے
بس کہ رہتی ہے گدازِ غم سے بے تابی مجھے
کیا حالِ دل کہیں ہم اے دلستاں تم سے
خاکساروں پہ جو جور اس سے برا ہوتا ہے
چاہے سو ہمیں کر تو گنہگار ہیں تیرے
مے تلخِ محبت عشق جس دل کو چکھا دیوے
اس کو ہم سے نہ محبت نہ وفا ہے گاہے
بلا دلچسپ وہ موزوں شمائل سرو بالا ہے
محرومی ہی میں حیف کٹی وصل کی شب بھی
ہم تو پاتے ہی نہیں اپنی کہیں جا خالی
جس جا گہ سے وہ سن کے مری آہ کو گزرے
کروں دل خار خارِ گل سے خالی یاد کے آگے
خبر گر نہ لے یارِ جانی ہماری
اس یار بے وفا سے ہم کو گلہ نہ پہنچے
ہم آپ کو تو عشق میں برباد کریں گے
خونِ دل رونے سے منہ پر جسے رنگ آتا ہے
آیا ہے مرے قتل کو تو تیغِ علم لے
سرخ اس کے تئیں دیکھ مجھے آگ لگی ہے
عشق کی آتش مین دل کو ہی لے
غیروں سے گوارا اسے بوسہ طلبی ہے
کروں میں قطع نظر وصل یار سے اب کے
عشق سے دل کی بہت ہم نے خبر داری کی
غیر کا جب کام دل بو سے سے شیریں کیجے
کسر کیا شان میں ہو جس کے شہ زوروں کی
کبھی دیکھا نہ ہنس کے ہم سے وہ شیریں ادا بولے
جس نے دیکھا بھر نگہ پھر بیخودی سے دنگ ہے
میری اس پیاری جھب سے آنکھ لگی
کرے عاشق پہ وہ بیداد جتنا اس کا جی چاہے
دردِ دل کیا عاشق بے دل سے پوچھا چاہئے
نپٹ پہ حالِ دل کچھ رسمسا ہے
ناز میں مت آکہ میرے ہیں خریدار کئی
دل خوں سے ہے لبا لب تیری شکایتوں سے
جاں دوں میں پر نہ دیکھوں تجھ کو جاناں تو سہی
عجب شادی محبت میں دل ناشاد کو پہنچے
دفع دلگیری کا کرنا نہیں آساں مجھ سے
کب تک وہ کمر میرے دل چاک پہ باندھے
ہمارے ساتھ ہی بیگانۂ وفا تو ہے
اب تو تری گلی سے کرکے سفر رہیں گے
بے تکلف ہو کے گر غیروں کے گھر جایاکیے
چند روز وہ بے مہر گرم کیوں ملا مجھ سے
یارو دنیا ہووے اور عشق کا عالم ہووے
ناخدا ترسی سے تم نت ہم سے شرماتے رہے
بے رخی ہم سے گھر آئے پہ بہر صورت ہے
ہاتھ سے اس کے ہو جب سر اپنا خنجر کے تلے
زمانے کا ستم خاطر کو کم ناشاد کرتاہے
ہوئی کیا ہاے وے دلجوئیاں اے نازنیں تیری
بے سبب کوچے میں جاتا ہوں زبس دلدار کے
دور اس مہرو سے ہم شام و سحر رویا کیے
بات جانے کی تری جب مجھے یاد آتی ہے
بھر عمر تیری کیا کیا جفائیں نہ میں سہی
یار میں مہرو مروت تیر جھوڑی چھوڑی
بے مروت یار نے مطلق وفا داری نہ کی
یارب تو اس سے منہ کو مرے دل کے موڑ دے
تیری ہمشکل کوئی صورتِ زیبا نہ بنی
وہ تم نہ ہو جو کسی سے ہرگز وفا کا وعدہ وفا کروگے
مجھے پاتا ہے جب وہ سنگدل غمگین ہنس دیوے
مجھ پہ کرتے ہو نرا بیداد یو نہیں چاہئے
آپ ایدھر کدھر کو آئے تھے
دنیامیں کچھ بھاتا نہیں جز عشق و رسوائی مجھے
آج مکھڑے پہ ترے حسن و صفا اور ہی ہے
کسی پر کوئی یوں جفا نہ کرے
کون ہے ایسا جو اس سے دل لگا کر چھوڑ دے
اک لب تلے ہنس دنیا اور چپکے سے گالی ہے
آمد آمد تری کب تک یونہی جی میرا لے
اپنی کوشش کی رسائی ہو چکی
یار نے یاد مری دل سے بھلائی کیسی
غیر سے ہر شب اسے خلوت مے نوشی ہے
عشق میں مجھ پر جو گزری اس کی کیا تقصیر تھی
دلستاں ہو پہ نرے دل کے ستانے والے
تو وہی بے خبر اور جاں یہاں لب پر آئی
اے کاش مری اس کی کچھ بات سی بن نکلے
سینہ تو ڈھونڈ لیا متصل اپنا ہم نے
گھٹا آتی ہے امڈی اس ہجوم وشورِ افغاں سے
قفس تنگ میں بال و پر بلبل کترے
شب بیاں جو اپنے سوزِ دل کے افسانے ہوے
نہ رہا کچھ بھی اثر حسن کا خط آنے سے
اسے مجھ سے جدا کیا تونے
چاہے جو اور کو اس سے دلِ دلخواہ بھٹے
نعت
سلام
مخمس کا ایک بند
مثمن
رباعیات
اشعارحسرت تذکروں میں
فہرست کتب
رسائل اور اخبارات
چند مستند آراء
AUTHORحسرتؔ عظیم آبادی
YEAR1978
CONTRIBUTORریختہ
PUBLISHER ترقی اردو بورڈ، نئی دہلی
AUTHORحسرتؔ عظیم آبادی
YEAR1978
CONTRIBUTORریختہ
PUBLISHER ترقی اردو بورڈ، نئی دہلی
سر ورق
پیش لفظ
فہرست
گزارشِ مرتب
باب اول: تاریخی پس منظر
باب دوم: ادبی پس منظر
باب سوم: حیاتِ حسرت
تصنیف
باب چہارم: دوسروں نے حسرت کے بارے میں کیا لکھا ہے
باب پنجم: متعلقین حسرت
باب ششم: حسرت کی شاعری
باب ہفتم: حسرت کی زبان
دیوانِ حسرت عظیم آبادی
ہمارے کاش کچھ بھی کام یہ اانے کے کام آتا
ہو جو نہ مبتلا تو خبر دار عشق کا
بھرے ہے آج ہر ساعت مرا دل سو جگہ اٹکا
عشق پوشیدہ نمایاں نہ ہوا تھا سو ہوا
عزیزو تم نہ کچھ اس کو کہو، ہوا سو ہوا
نہ ہو گر رام مجھ سے وہ بتِ خود کام کیا ہوگا
کیوں مرے آزاد دل کو عشق کا یہ غم لگا
ابتدائے آشنائی سے رہا نا آشنا
ہے رشکِ وصل سے غمِ دلدار ہی بھلا
مجھے تھا چاؤ ہنوز اس کی آشنائی کا
گر عشق سے واقف مرے محبوب نہ ہوتا
نہ چھٹا ہاتھ سے یک لحظہ گریباں میرا
ہوا اتفاق اگر تجھ ہے ہم شرابی کا
اسے ہر چند شب مستی میں ہم نے بے خبر پایا
نہ ہووے جس جگہ یارو وہ یارِ مہرباں اپنا
جب عشق میں جاتا ہے نکل نام کسو کا
بس کہ اغیار کا دل میں مرے ڈر بیٹھ گیا
اگر چہ دل مرا خوش کرنا کچھ ضرور نہ تھا
غیر کے ساتھ ترا کل کا وہ جانا کیا تھا
یہ خستہ دل ہلاک ہے تیرِ نگاہ کا
منہ لگانے مجھے دو دن سے جو وہ یار لگا
میاں جو رات کو تو گھر سے سج بنا نکلا
مت آپ کو کھنچ دور اتنا
بر سررحم نہ وہ شوخ ستمگر دیکھا
اب تجھ سے پھرا یہ دل ناکام ہمارا
پاتا ہوں تجھ کو ملول اے دلِ شیدائی کیا
کہاں سے رخ پہ ترے خط مشکبار آیا
اس باغ میں کوئی گلِ رخسار نہ ہوگا
آناہی چھوڑا ادھر دل میں ترے آئی کیا
ہر اک بہ امتیاز میاں تیرے گھر رہا
ہے یاد تجھ سے مرا وہ شرحِ حال دینا
ہم سے کیا ایسا ہوا پیارے جو شرمانے لگا
آگے کچھ عشق کا میرے کہیں مذکور نہ تھا
ہو ا بے خود میں کچھ احوال نہ جانااپنا
یار نے حیف کبھی یار نہ جانا اپنا
جوں ہوں فرق خاکساراں سرکشاں کے زیر پا
چھوڑا تنہا مجھ کو جب وہ شمعِ محفل سے اٹھا
قیدِ الفت میں ہمیں لا پہلے دل بستہ کیا
میں دل اٹھانے کو ہوں منتظر بہانے کا
نہ لیجو بھول کر دل نام تو ترکِ محبت کا
وصل کی شب صبح دم جب برسے جانا
جس طرف ہم نے بھر نگہ دیکھا
ماہر و رات مگر گھر سے تو در پر نکلا
سوز و گداز دیکھ دلِ داغ داغ کا
اس بے سرو پا آہ سے کیا ربط اثر کا
اس زلف سے دل ہو کر آزاد بہت رویا
ماجرا پوچھ نہ کچھ دل کی گرفتاری کا
ہر طرف شہر میں شہرہ ہے تری خوبی کا
وہ بھی کیا دن تھے کہ جز عشق سروکار نہ تھا
جس کا میسر نہ تھا بھر کے نظر دیکھنا
بس کہ دلکش ہے ترا یہ کھینچنا شمشیر کا
یار ابتدائے عشق سے بے راز ہی رہا
کل میں اس کوچے سے جو آنکلا
فتنہ جو تری نرگسِ فتان میں دیکھا
کہنے میں نہیں آتا جو تجھ سے جدا دیکھا
سر نوشت اپنی ہے جوں شمع دمادم رونا
میں اس سے دردِ دل خستہ بے کہے نہ رہا
ہر گھڑی مت روٹھ اس سے پھیرپل میں مل نہ جا
دیکھے نالاں مجھے جو بلبل سا
حسن کو اس کے خط کا داغ لگا
آج ادھر کو جو گزر کر گیا
ہم بیدلوں سے کیوں ترا دل بے خطا پھر آ
سمجھ کے بے آبرو نہ گنتا تھا وہ ہمیں خاکسار اپنا
چشم ہی میر نہ وہ تر کر گیا
پوچھا کبھی نہ حال دل بے قرار کا
مرا آنسو بچشمِ تر نہ بیٹھا ہے نہ بیٹھے گا
ہوں تیری خاکِ رہ میں ہم آغوش نقشِ پا
پڑتا ہے راہ میں مرا مدحوش نقش پا
قضا نے نقشِ خط اس صورت تصویر پر لکھا
مہربانی سے وہ گھر کس کے نہ آیا تنہا
نہ خفا ہو میں ترے گھر سے نکل جاؤں گا
ایک دم میرے برسے تو نہ گیا
تمہارے ان لبِ شیریں سے جن نے کام لیا
وہ شوخ نپٹ خراب نکلا
آیا افسوس جو شب خواب میں جاناں میرا
دل نے پایا جو مرے مژدہ تری پاتی کا
نکلا جو گھر سے سج کے وہ شمع چکل بنا
میرے نزدیک نہ آیا وہ رہا دور سدا
راہم میں دلدار کو باتوں لگا کس نے لیا
رشک سے غیر کے نت مجھ کو نرا ہے مرنا
دل لگالے میرا وہ گمرہ گیا
دامن ہے میرا دشت کا دامان دوسرا
ہر چند اس نے ہم کو کہا تھا نہ سودیا
ہو گئے اغیار سب یار اس کی یاری کے سبب
پاک اشک سے بھی دیدۂ تر ہو ویگا یارب
عشق میں روزی ہے ہم کو کلفتِ ایام سب
جب ملے تو مجھ سے ہے اے شوخ سرتاپا ادب
ہے کسی کی نرگس مخمور سے خانہ خراب
جاتا کہیں کو تجھ کو جو سن پاوے آفتاب
وہ شوخ حیلہ بازو بہا نہ طلب ہے اب
اک وقت ہم تھے یار تھا اور راگ و رنگ و خواب
کسی کو سہل ہے کاٹے اگر زمین کا سانپ
دم لے اے ناصح رکھ اپنے یہ لبِ اظہار چپ
محبت کے نشے والوں کوے خانے سے کیا نسبت
تری سی طرح کوئی دل لے جا سکتا ہے کیا قدرت
رکھے ہے وہ لبِ میگوں شراب سے نسبت
عاشق ہوا وہ جواں این گل دیگر شگفت
ہم عشق امردوں میں ۃیں مردِ خدا پرست
بعد مدت بنی تھی اس سے ملاقات کی بات
غیر اس سے کامراں ہے مری بن نہ آئی بات
خوں سے رنگیں ہے مرے دیوار تیری در سمیت
کب تلک دیکھا کروں میں اس باٹ
ہے آج خاطر غمگیں کو خار خارنپٹ
تیری جفائے عشق سہی بے وفا عبث
نہ ہو مفرور کیوں وہ نازنین آج
شوخ غنچے کی طرح برزدہ دامان ہے آج
پھرتے ہیں خوش چشم جیسے اس دل مخروں کے بیچ
یک مدت سے خیال رخِ دلدار کے بیچ
کوئی کیا سمجھے جو کچھ ہے دل و دلدار کے بیچ
گل نہ دیکھا ترا ہم رنگ گلستان کے بیچ
ہجر کے طالع پڑی ہے اپنے غم خانے کی طرح
دیکھا میں اس کو غیر سے کل رات بے طرح
پہلے ہی ہم سے ملا وہ بے مروت کس طرح
رقیب روسیہ ایسا بھی تو نہ تھا گستاخ
آبِ خون دل سے ہے تیرا گل رخسار سرخ
یا الٰہی مرا دلدار سلامت باشد
بے وفا کھائی ہے گر تونے وفا کی سوگند
ہمارا حال نپٹ اب تو تنگ ہے صیاد
خیر کی رکھتے ہیں ہم تو عشق کے گھر سے امید
ترے غم میں دل ناشاد ہے شاد
کب مئے انگور کا ہو ذائقہ ایسا لذیذ
بھیجوں تا اس مہِ نو خط کو میں لکھ کر کاغذ
لکھ دے ایسا کوئی محبوب کی حب کا تعویذ
جس قدر فتنے ہیں نازِ مہوشاں کے زیرِ سر
قاصد خوش فال لایا اس کے آنے کی خبر
جان کرکہتا ہے ہم سے اپنے جانے کی خبر
مت کہو اس گلبدن بن ہم سے آتی ہے بہار
ہرآن محبت اسے دکھلائے ہے کچھ اور
رہے ہے چین یوں اس کی جبیں پر
رکھا پا جہاں میں نگارا زمیں پر
نہ کہ الفت سے اے کم التفات پر سخن بس کر
وہ عیسیٰ لب ہووے اس جاں بلب سے ہم سخن کیونکر
دورِ خط میں دیکھ اس گلبرگِ خنداں کی بہار
منتظر کب سے ہوں آتو ذرا گھر سے باہر
کیونکر نہ کرے یار ترا ناز فلک پر
آتا ہوں جب اس گلی سے سو سو خواری کھینچ کر
غیروں سے یوں تلطف گھر سے بلا بلا کر
مفرور مت ہو جسن پر عاشق سے استغنا نہ کر
ہر گز اس کو نظرِ لطف نہیں میرے پر
کہاں جاگا وبال بے سبب تعزیر بھی آخر
پیشہ اپنا، خواہش سے شیوۂ محبت کر
یار کرتا ہے سفر گلشن میں آتی ہے بہار
سمجھے کچھ اور تھے ہم اور اسے پایا کچھ اور
وے لطف کہاں میں وہ منانا مجھے لڑلڑ
دل یار تیری وعدہ خلافی سے پھٹ گیا
سنگیں دلوں کا غم مری چھاتی کا ہے پہاڑ
دل نے ترکِ بے خودی کی بات کب مانی ہنوز
پھبتا ہے تس سے حسن پہ اے خوش خرام ناز
نہ دیکھا تجھ سا بیگانۂ وفا ہرگز
بے خبر ہے میرے دل دینے سے وہ دلبر ہنوز
یارو یہ مرا عشق کا عنوان کسی روز
سب طرح کیوں نہ ہووے خاطرِ دلدار عزیز
غیر یوں بولا دمِ قتل مرے یار کے پاس
عشق سے اس کے ہے یہ جی مرا بیزار کہ بس
دیکھ لی ناقص تمیزی تیری معشوقی کہ بس
آنا ہی چھوٹ گیا یار کا اب میرے پاس
قدر کچھ میری نہ جانی تو نے اے ناحق شناس
اس قدر میں نے اسے رات کیا یاد کہ بس
رہے سینہ میں میرے شش جہت سے مشتعل آتش
اپنے گلرخ بنا لگتی ہے گلستاں آتش
وہ بے درد دل تو مرا کر چکا خوش
عشق میں ہوتا اختیار اے کاش
اس دل سنگیں سے کب جا میرے سینے کا خراش
وفا کے ہیں خوان پر نوالے ز آب اول دوم بہ آتش
ساقی ہیں روزِ نو بہار یگ دو سہ چار پنج و شش
دور سے دیکھ کے اس کو نہ ہو دل اپنا خوش
بلائے جاں ہوا اس ہفتہ دوست کا اخلاص
ہر چشم کو ہے عشق میں دیدار یار فرض
دل کے لینے ہی سے رکھتا تھا وہ دلدار غرض
داغِ دل ہم کو ملا اس گلِ خنداں کے عوض
اگر چہ عشق میں معشوق کے جفا ہے شرط
ہر کسی سے ہے اسے ربط نہاں سے اختلاط
نہ پوچھ عشق میں اے ہم نشیں ہمارا حظ
کس بتِ بے باک سے ہم کو بھڑایا الحفیظ
درد میں لاتا ہے گوش دل مرا نامِ و داع
کون ہے محفل میں تیری مانع دیدارِ شمع
خورشید سا رکھے ہے مرا اشتہار داغ
اپنا ہم رنگ نہ پایا کبھی دلدار دریغ
پھر گیا ہم سے دل اس شوخِ ستم گار کا حیف
منظور اس کو اپنی ہے بیداد کی طرف
گھر اس کے نہیں کچھ مرا اغیار مخالف
ہے اہلِ دل سے جیسا وہ دلدار بر خلاف
ہم عشق سوا کم ہیں کسی نام سے واقف
سو زباں ہوں تو کہے شمعِ شب تارِ فراق
مضطرب حال نہیں کچھ بہ تمنا مشتاق
معشوقوں میں ذرا بھی ہو گر امتیاز عشق
پیارے بے دردوں کی ایسی غم گساری کب تلک
رحم مجھ پر کریں ہیں دوست سے یے دشمن تک
حسن کے جو رو جفا لطف و کرم چاروں ایک
عشق میں جیسا جلاتی ہے ہمارا تن آگ
ہم عاشقوں کو کرکے فراموش آج کل
وصل اس کا بہت دور کھنچا اے کششِ دل
کیا کہوں تجھ سے مری جان میں شب کا احوال
بو بہار آئی چمن میں کھلے گل برسرِ گل
پھر ی سی دیکھتا ہوں اس چمن کی کچھ ہوا بلبل
کس چشم میں ہیں ایسی سخن سازیوں کے ڈول
گل کے آنے کی خبر تونے سنائی بلبل
راہ رستے میں تو یوں رہتا ہے اگر ہم سے مل
جو ہو دو چار بھی دیدارِ یار ہے مشکل
تنگ گو کنجِ قفس سے ہے تو آئی بلبل
کب تلک پیوے گا تو تر دامنوں سے مل کے مل
وفا سے دلبروں کی باز آ دل
لب جلاتا ہے مرے سوزِ جگر کا احوال
دیکھیں نہ تجھے نہ آویں گے ہم
ہوا ہے اس پہ مرا عشق ہو بہو معلوم
ہر طرف ہے اس سے میرے دل کے لگ جانے میں دھوم
نہ غرض ننگ سے رکھتے ہیں نہ کچھ نام سے کام
مانگتا ہوں سو غریبی سے، نہیں دیتے ہو تم
شفقتِ دل سے کہاں یارودل آرا کا پیام
کب تلک دیکھیں تجھے دور سے حیران ہیں ہم
لینے پایا نہ وہ طناز مرا نام تمام
کرتے ہیں ہر صبحدم اٹھ طوف مے خانے کو ہم
صرف اس کے گر چکا میں دین اور دنیا تمام
دھوم رونے کی مرے دیکھ بنے دریا سن
عیب معشوق کا کب اہل وفا کہتے ہیں
گل و شمع و قمر کے تئیں ترا ساتو روے نکو نہیں
بھولے سے ادھر کو دے جب آن نکلتے ہیں
تپا کرتا ہے دل ہر لحظہ لب پر رہتی ہیں آہیں
کیا جو اس نے ہم سے ترک الفت اس کو کہتے ہیں
جیسے کہ جانِ شیریں چپیدہ ہے بدن میں
میں بے بس اور یارِ ستمگر سے بس نہیں
تمہاری دوستی اور آشنائیاں دیکھیں
اس خاکِ کو سے ان دنوں میں پاکشیدہ ہوں
میں ایک مشتِ خاک بدر و آفریدہ ہوں
ہم سے وحشت اسے کیا کہتے ہیں
ساقیا پاتا ہوں میں رنگِ پری شیشے میں
کبھی بھرتے ہیں نالے اور کبھی ہم آہ کرتے ہیں
سر پہ خاک اپنے میں دن رات کروں یا نہ کروں
باغباں اک بار تو ہو مجھ کو بھی بارِ چمن
آہ و نالہ کے تردد میں تو تقصیر نہیں
چشمِ تر سے مری یوں لختِ جگر جھڑتے ہیں
تجھ سے اپنا دردِ دل اور غم پیار ے کیا کہیں
بھر نظر دیکھا ہے جب سے وہ گلِ سیراب میں
میسر اس کے ہمیں در کا خاکبوس نہیں
آیا خط روے مبارک پر وہ زیبائی کہاں
مجھ سا بیتابیِ دل کا کوئی اب باب نہیں
یاد آتی ہیں جب دل میں ویں طرز ملاقاتیں
کیا ہیں یے زور آوری کی ہم سے اب بیزاریاں
غم سے خوں کب تلک اپنا دلِ ناشاد کریں
ہم فریبیوں میں ترے یارِ دورنگ آتے ہیں
میں جدائی میں بھی دلدار سے مہجور نہیں
اب تو اغیار تجھے رات کو گھر رکھتے ہیں
جب میں کہا بتا ترے کیوں کر جیا کروں
رہتی ہے میری آہ کہیں اور اثر کہیں
دل کسی ڈھب جو تری قید سے آزاد کروں
بار تیری بزم میں اے یار پا سکتے نہیں
دورِ خط ہے وہ تری گرمیِ بازار کہاں
جو ہمیں چاہے اس کے چاکر ہیں
عاشق کو خوباں کا ہیکو پہلے اتنا پیار کریں
مجھ سے رہتا ہے فقط نا آشنا میں کیا کروں
ترے جمال سے پیارے جدا ہوئی آنکھیں
مشتاق ہو کل رات جو گھر اس کے گیا میں
ایکدم خشک مرا دیدۂ تر ہے کہ نہیں
اس کے کوچے میں میں کیا آتا ہوں کیا جاتا ہوں
ہم گنہگاروں سے گو مہرو وفا لازم نہیں
شبِ فرقت فغاں و نالہ وزاری ہے اور میں ہوں
اب چھپا رہ سکے یہ قصہ مشہور کہاں
بہت خوش نگاہوں کو ہم دیکھتے ہیں
خوش رہ تو ہم سے خوش اگر اے خوبرو نہیں
میں جب آؤں تو اداسی مجھے بتلاتے ہو
بے وفا گو ملے نہ تو مجھ کو
گر کوئی لیتا ہے میرا نام اس کے روبرو
یار ہے جب التفاتِ گاہ گاہی بھی نہ ہو
آہ و افغاں سے بہت حال سنایا تجھ کو
ہم سے ہوتا ہے اگر یار جدا ہونے دو
اس کے کوچے میں گیا اب تو قدم گڑ ہو سو ہو
برداشت ہم کریں وہ دل آزار کچھ کہو
ہوتا بندہ رخ تیرا سا پا سکتا ہے منہ دیکھو
اب عشق ہے بے قیاس مجھ کو
گل رخو عاشق بے برگ و نواسے بولو
کیا عیش ہے تو پاس ہو اور موسم برسات ہو
دل مرا لے کے میاں جان طلب کرتے ہو
کم نگاہی سے کم ادھر دیکھو
ہمنشیں بزم میں جاناں کی نہ لیجا ہم کو
کب تلک ہم کو نہ آوے گا نظر دیکھیں تو
یار بے درد گیا دل بھی گیا یار کے ساتھ
ہم غریبوں پہ کہاں جام کہاں ہے ششہ
نہ مارا اتنی بھی تو لافِ وفا اے بلہوس چپ رہ
محو ہوں حورو پری میرے پریزاد کو دیکھ
شرمگیں چشم اس بتِ محجوب کی ہے کم نگاہ
ہمیں گر قتل کرنا ہے تو اے خونخوار بسم اللہ
ہوا ہے عشق سے وہ میرے آگاہ
صحبتیں کیا کیا رہیں تھیں مجھے دلدار کے ساتھ
دل ہم کو ملا وہ کچھ دلدار سو یہ تحفہ
وصل کی بات اب تو آئی ہاتھ
زبس گردِدوئی سے ہے مصفا چشم آئینہ
آشنا کب ہوہے یہ ذکر دلِ شاد کے ساتھ
درد دل کہنے لگا اس سے جو ڈرتے ڈرتے
خوش گزرے تھا وقت ہمارا کیا خاصی وہ مدت تھی
ہوا خواہی میں جس کی خانماں میں نے لٹایا ہے
میری اس کی کبھی کچھ بات نہ ہونے پائی
ان دونوں گھر کا خانہ خدا کون غیر ہے
کسی ڈھب کاش تو اے شوخ پسر چاہے مجھے
ہم اور وہ اک وقت آپس میں زور محبت رکھتے تھے
ایک بارہ ایسی ترک ملاقات ہو گئی
شتاب میرا مہِ کوچہ گرد آتا ہے
گلشن میں قد کشی کی جو تیری خبر گئی
رات جوں شمع تو گزری مجھے روتے روتے
وہ رشکِ پر ی دور سے جس دم نظر آوے
نگاہِ لطف تو ہو گزری اور پیاروں سے
ایک دم دوری نہ تھی تاب اس سمن اندام سے
کبھی احوال دل پوچھے جو ہم سے یار کیا کہیے
ہم اک عاشق دعا گو طالبِ دیدار ہیں تیرے
نیاز عاشق کی وہ شوخِ سراپا ناز کیا سمجھے
جب دل کی مجھے خاطر دلگیر نظر آئی
جس کا ہم دم مارتے تھے حیف وے ہمدم گئے
ترے گھر غیر کے رہنے کے صدقے
بے ذوق جینا عشق سے پھیکا نرا رکھے
وہ کیا بولے مرے نامے کا سن کر نام کیا جانے
عشق میں یار اگر وفا نہ کرے
غیر کا دل جو ہوا وہ سرو قامت ہائے رے
بتر پیش از اجل مرنے سے یہ بد زندگانی ہے
محرم نہ کرتا کاش تو عیشِ وصال سے
نہ پہنچے سرو تجھ کو ہمسری اس سروِ قامت کی
ہم سیہ روزوں سے کیوں وہ زلف بل کھانے لگی
عشق میں گل کے جو نالاں بلبل غمناک ہے
تیری الفت سے نپٹ طبع ہے دلگیر اپنی
کیا عہد وفا کوئی ہو سناک سے باندھے
اس گلی سے غیر سے آزردہ ہو کر اٹھ چلے
رو برو اس کے نظر ہم سے اٹھائی نہ گئی
چشمِ تر میری ہمیشہ ترے غبفب پر ہے
لہو کا اس کے پیاسا ہو اگر یہ چشم تر ہووے
آخر حسن بھی بد خوئی تمہاری نہ گئی
ہمارا گر نہیں تو غم گسار اے یار کیا کیجے
خونِ دل کھایا زبس تیری دل آزاری سے
صیاد نے قفس میں کیا دام سے مجھے
دلِ بیتاب کو چاچند تابِ انتظار آوے
ہنستا وہ گلعذار آتا ہے
بس کہ رہتی ہے گدازِ غم سے بے تابی مجھے
کیا حالِ دل کہیں ہم اے دلستاں تم سے
خاکساروں پہ جو جور اس سے برا ہوتا ہے
چاہے سو ہمیں کر تو گنہگار ہیں تیرے
مے تلخِ محبت عشق جس دل کو چکھا دیوے
اس کو ہم سے نہ محبت نہ وفا ہے گاہے
بلا دلچسپ وہ موزوں شمائل سرو بالا ہے
محرومی ہی میں حیف کٹی وصل کی شب بھی
ہم تو پاتے ہی نہیں اپنی کہیں جا خالی
جس جا گہ سے وہ سن کے مری آہ کو گزرے
کروں دل خار خارِ گل سے خالی یاد کے آگے
خبر گر نہ لے یارِ جانی ہماری
اس یار بے وفا سے ہم کو گلہ نہ پہنچے
ہم آپ کو تو عشق میں برباد کریں گے
خونِ دل رونے سے منہ پر جسے رنگ آتا ہے
آیا ہے مرے قتل کو تو تیغِ علم لے
سرخ اس کے تئیں دیکھ مجھے آگ لگی ہے
عشق کی آتش مین دل کو ہی لے
غیروں سے گوارا اسے بوسہ طلبی ہے
کروں میں قطع نظر وصل یار سے اب کے
عشق سے دل کی بہت ہم نے خبر داری کی
غیر کا جب کام دل بو سے سے شیریں کیجے
کسر کیا شان میں ہو جس کے شہ زوروں کی
کبھی دیکھا نہ ہنس کے ہم سے وہ شیریں ادا بولے
جس نے دیکھا بھر نگہ پھر بیخودی سے دنگ ہے
میری اس پیاری جھب سے آنکھ لگی
کرے عاشق پہ وہ بیداد جتنا اس کا جی چاہے
دردِ دل کیا عاشق بے دل سے پوچھا چاہئے
نپٹ پہ حالِ دل کچھ رسمسا ہے
ناز میں مت آکہ میرے ہیں خریدار کئی
دل خوں سے ہے لبا لب تیری شکایتوں سے
جاں دوں میں پر نہ دیکھوں تجھ کو جاناں تو سہی
عجب شادی محبت میں دل ناشاد کو پہنچے
دفع دلگیری کا کرنا نہیں آساں مجھ سے
کب تک وہ کمر میرے دل چاک پہ باندھے
ہمارے ساتھ ہی بیگانۂ وفا تو ہے
اب تو تری گلی سے کرکے سفر رہیں گے
بے تکلف ہو کے گر غیروں کے گھر جایاکیے
چند روز وہ بے مہر گرم کیوں ملا مجھ سے
یارو دنیا ہووے اور عشق کا عالم ہووے
ناخدا ترسی سے تم نت ہم سے شرماتے رہے
بے رخی ہم سے گھر آئے پہ بہر صورت ہے
ہاتھ سے اس کے ہو جب سر اپنا خنجر کے تلے
زمانے کا ستم خاطر کو کم ناشاد کرتاہے
ہوئی کیا ہاے وے دلجوئیاں اے نازنیں تیری
بے سبب کوچے میں جاتا ہوں زبس دلدار کے
دور اس مہرو سے ہم شام و سحر رویا کیے
بات جانے کی تری جب مجھے یاد آتی ہے
بھر عمر تیری کیا کیا جفائیں نہ میں سہی
یار میں مہرو مروت تیر جھوڑی چھوڑی
بے مروت یار نے مطلق وفا داری نہ کی
یارب تو اس سے منہ کو مرے دل کے موڑ دے
تیری ہمشکل کوئی صورتِ زیبا نہ بنی
وہ تم نہ ہو جو کسی سے ہرگز وفا کا وعدہ وفا کروگے
مجھے پاتا ہے جب وہ سنگدل غمگین ہنس دیوے
مجھ پہ کرتے ہو نرا بیداد یو نہیں چاہئے
آپ ایدھر کدھر کو آئے تھے
دنیامیں کچھ بھاتا نہیں جز عشق و رسوائی مجھے
آج مکھڑے پہ ترے حسن و صفا اور ہی ہے
کسی پر کوئی یوں جفا نہ کرے
کون ہے ایسا جو اس سے دل لگا کر چھوڑ دے
اک لب تلے ہنس دنیا اور چپکے سے گالی ہے
آمد آمد تری کب تک یونہی جی میرا لے
اپنی کوشش کی رسائی ہو چکی
یار نے یاد مری دل سے بھلائی کیسی
غیر سے ہر شب اسے خلوت مے نوشی ہے
عشق میں مجھ پر جو گزری اس کی کیا تقصیر تھی
دلستاں ہو پہ نرے دل کے ستانے والے
تو وہی بے خبر اور جاں یہاں لب پر آئی
اے کاش مری اس کی کچھ بات سی بن نکلے
سینہ تو ڈھونڈ لیا متصل اپنا ہم نے
گھٹا آتی ہے امڈی اس ہجوم وشورِ افغاں سے
قفس تنگ میں بال و پر بلبل کترے
شب بیاں جو اپنے سوزِ دل کے افسانے ہوے
نہ رہا کچھ بھی اثر حسن کا خط آنے سے
اسے مجھ سے جدا کیا تونے
چاہے جو اور کو اس سے دلِ دلخواہ بھٹے
نعت
سلام
مخمس کا ایک بند
مثمن
رباعیات
اشعارحسرت تذکروں میں
فہرست کتب
رسائل اور اخبارات
چند مستند آراء
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔