سرورق
ردیف الف
لاؤں کہاں سے حوصلہ آرزوے سپاس کا
لطف تونے جو کیا بھی تو عجب کام کیا
پاس کا دل پہ کچھ اثر نہ ہوا
جو راہ غم میں ترا پائمال ہو نہ سکا
دل مایوس کو گرویدہ گفتار کرلینا
اک خلش ہوتی ہے محسوس رگ جاں کے قریب
ردیف ب
ردیف ت
جانفزا تھی کسقدر یارب ہوائے کوے دوست
ردیف ج
نامرادی کا دل زار کو شکوا ہے عبث
ردیف ث
رنگ یہ لایا ہجوم ساغرو پیمانہ آج
اے غم عشق اے متاع فلاح
ردیف ح
خوں بیجرمی سے اپنی دیکھکر تلوار سرخ
ردیف خ
دشوار ہے اے ملامت اے پند
ردیف د
ابتو اٹھ سکتا نہیں آنکھوں سے بار انتظار
ردیف ذ
ردیف ر
کچھ ور دول سے بڑھکے ہے درد جگر لذیذ
ردیف ز
تیر غم کا ہے دل نشانہ ہنوز
ردیف ش
ہے غضب ہنگامۂ فصل بہار ابکی برس
ردیف س
پیمان وفا نہ کر فراموش
ردیف ص
کچھ نہ ابدال سے پہنچا ہے نہ اوتاد سے فیض
کیون نہ مقبول ہو دعائے خلوص
ردیف ط
ردیف ض
نہ کر بزم ساقی میں انکار واعظ
ردیف غ
دل نہ تھا رنج ہجر یار کا داغ
ردیف ع
الوداع اے ماہ رمضان الوداع
ردیف ف
وصل کی شب رواں ہے سوے فراق
ردیف ق
وہ شوخ عجب کیا ہے مجھسے جو نہیں واقف
ردیف ک
محروم طرب ہے دل دلگیر ابھی تک
ردیف ل
ازبسکہ حسن یار ہے خوبی سے جان دل
روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام
ردیف م
کام لوں ناکامیونے عشق کا کہنا کروں
ردیف ن
اثر عشق سے نکلیں جو تمھارے آنسو
ردیف و
ردیف ہ
قابو میں نہیں ہے دل شیدا اے مدنیہ
نگاہ یار جسے آشناے راز کرے
ردیف ی
ردیف الف
خانقہ سے تادرپیر مغاں لیجائیگا
شکوۂ غم ترے حضور کیا
کبھی کی تھی جواب دوا کیجئے گا
سب سے شوخی ہے اک ہمیں سے حیا
منزل وصل یار ہے پیدا
رنگ تیری شفق جمالی کا
آئی جو انکی یاد مزا دل ٹھہر گیا
شوق وصال یار کے قابل بنا دیا
اک جو لے دے کے ہمیں شیوۂ یاری آیا
جواب انسے ملنا دوبارا نہوگا
عہد یک عمر فراغت سے بھی خوشتر گزرا
ہر گھڑی وردلب شوق ہے افسانہ ترا
ان میں دیکھا جو ماجرا دیکھا
ترے حسن کا دور دورارہیگا
دعا میں ذکر کیوں ہو مدعا کا
کوچہ اس فتنۂ دوراں کا دکھا کر چھوڑا
دل ہے بیشک نور حق سے فیضیاب
چاندنی رات میں پھولوں کا ہے زیور کیا خوب
ردیف ب
انکی محفل میں پاکے جام شراب
پنہاں شدنت دو گونہ شد خواب
ساکت پاس ہیں جان ودل ناکام شباب
ہم شکوۂ فلک ہی کرینگے حضور دوست
اس شوخ کے آنے کی تمنا ہے قیامت
بتاے نہ کیوں غم کو جان محبت
ردیف ت
ردیف ث
نعم البدل ہے عیش جہانکا ملال دوست
لطف تو گراختیار مانیست
ترک جفا کی ان سے تمنا نکر عبث
ردیف ح
تجھسے جو درد دل کا بھی ہوتا نہیں علاج
وہ دیکھنے جو بام پر آئے بہار صبح
ردیف ج‘‘
شجر غم ہے آشیانۂ روح
دختر ترے پہلو میں نہاں ہے گستاخ
اہل دل ہیں فداے نغمۂ روح
ردیف ح
کرم ساقی میخانہ مبارک باشد
وہ ہوں جیلان سے آکر میر بغداد
اے درد تو بپایۂ درماں ہیدہ باد
وہ ہوں جیلان سے آکر میر بغداد
ردیف د
ردیف ذ
انکو سوا مجھے خراب نکر
حاصل جو ہو درد محبت کے لذائذ
ہوگئی کثرت نظر
دل ہے ترے وصل کا طلبگار
کند یا خوب ہمکو پہ یار نکر
ابروے ونغمہ صحن گلزار
استادہ ہوے صفوف ابرار
در حجرۂ حسن کا نکر باز
السلام اے شہ بشیر ونذیر
پیمان لطف وعہد وفارا نگا ہدار
میہماں اور میہمان عزیز
ہم کہیں تا کجا حدیث نیاز
ہواے برشگالی ہے ہوس خیز
جلوۂ حق کو ہے نظر کی تلاش
ہر در دہر مرض کی دوا ہے تمھارے پاس
نارسائی میں بھی رہے اے کاش
ردیف ش
ردیف س
ردیف ص
جان ہے اپنی آب وگل کی خلش
دشمن ہر عاقل وفرزانہ باش
آنکھوں میں نور جلوۂ بے کیف وکم ہے حاص
نہ ہو آپ آشناے خلوص
کیونکر کہیں کہ ہمپہ اطاعت نہیں سے فرض
سرخیٔ حسن ہے ملبوس نگار عارض
ردیف ض
دلر بائی تھی آشتی سے غرض
ردیف ظ
الفت نہ مودّت نہ مروت کے شرائط
حور کا ذکر ہے کیا کیا بزبان واسط
ردیف ط
ردیف غ
عشق ہے جان ومال اہل سماع
ردیف ع
غم وفکر وشوق وتمنا سے فارغ
ظلمتیں دلکی سب ہوئیں مرفوع
ردیف ف
آئینہ دیکھئے کہ سب آئے نظر وروغ
نظر اس رخ پہ ہے ادب کے خلاف
مونس بیکساں در ود شریف
جیتے ہیں درد محبت کے سہارے عاشق
ردیف ورق
امام برحق اہل رضا سلام علیک
ردیف ک
رنج بیجا پہ کیا ہمنے جو اظہار ملال
ردیف ل
نہ کیا بار غم کسی نے قبول
ردیف م
سیہ کار تھے باصفا ہوگئے ہم
رنج راحت ہے سکون غم ہجراں کی قسم
کرو کچھ تو ارشاد یا غوث الاعظم
ردیف نون
ایدل انکو وفا کی خوہی نہیں
عشق میں جذب کیا اثر بھی نہیں
فیض محبت سے ہے قید محن
لطف کی ان سے التجا نہ کریں
کچھ میرے حال زار کی انکو خبر نہیں
نہ سہی گر انھیں خیال نہیں
ہم دیر سے نظارۂ خوباں میں لگے ہیں
اک طرفہ ماجرا ہے در کوے میفروشاں
یہ کس بزم کے ہم نکالے ہو ہے ہیں
کب وہ بلاتے ہیں دو بارا ہمیں
اب ہم میں بھلا زیست کے آثار کہاں ہیں
نغمہ و مے کا حکم عام نہیں
یکرہ بد یار غم گذر کن
حسن کے ہم ہلاک وید بھی ہیں
ردیف و
حال کیا انسے باربار کہیں
ردیف و
نامرادوں کو شاد کام کرو
ہم حال انھیں یوں دلکا سنانے میں لگے ہیں
لاکھ اس شوخ جفا کار سے پرہیز کرو
جسنے سونگھی ہے تری زلف سیہ کار کی بو
اپنے آپے میں نہیں شوق کے مارے گیسوا
خلش خار سے خدا کی پناہ
آرزو لازم ہے وجہ آرزو ہو یا نہ ہو
خیال غیر حق دل سے مٹا دو یارسول اللہ
ردیف ہ
دشمن شیوۂ وفا شدۂ
ردیف ی
حسرت کشان درد ہیں لب تشنگان عاشقی
برکتیں سب ہیں عیاں دولت روحانی کی
گھبرا کے تغافل سے تمنا ہے ستم کی
اور بھی ہوگئے بیگانہ وہ غفلت کرکے
سقرر کچھ نہ کچھ اسمیں رقیبونکی بھی سازش
مہیائے ترک تمنا نہیں ہے
خوسمجھ میں نہیں آتی ترے دیوانوں کی
وہ جب یہ کہتے ہیں تجھ سے خطا ضرور ہوئی
کیا کام انھیں پرسش ارباب وفا سے
ہوتی ہے روز بارش عرفاں مرے لئے
جنوں نے دل سے وہ جس بھی مٹادی
ہجر میں یاد یار آتی ہے
چلی سابر متی میں آج کیا ہے
ہے عشق میں حال کی خرابی
آسان حقیقی ہے نہ کچھ سہل مجازی
بجا ہے دل زار کی ناصبوری
مرا ایماں عجب کیا ہے جو ایمان تصوف ہے
ہیں وہ باوصف شان خود کامی
اگر شوق کی رہنمائی نہ ہوگی
روشن جمال یار سے دنیاے عشق ہے
ترے درد سے جسکو نسبت نہیں ہے
آہ دل عشاق نواساز نہیں ہے
وہ چپ ہوگئے مجھسے کیا کہتے کہتے
اک انکے سوا جب نہ تھے ہم کسی کے
مرید آپکے اہل صفا کے پیر ہوے
پہلے کہیں خدا اسے شوق شکار دے
علی کے لال زہرا کے دلارے
عاشق کو ہوئی فناے فانی
کیا کیا نہ ہجر میں ترے ناشاد کر چکے
ترک شان کج ادائی کیجئے
گمرہوں کی رہنمائی کیجئے
تیری جفا بھی ہے وفا اے بکمال دلبری
کسقدر دشوار تھی ہم پر جدائی آپ کی
خبر کیا تھی ترے عزم سفر کی
تراوش کرتے ہیں رنگینیاں کب اپنے مضمون سے
عقدہ وصال یار کا حل ہو تو جانیے
منحصر وقت مقرر پہ ملاقات ہوئی
کوشش وصال یار کی معذور ہوچکی
گلشن میں نہ دل بلبل ناکام لگائے
باقی ہے جو کچھ کچھ خلش درد کبھو کی
آنکھ تیری بھی ناسحر نہ لگے
ہر دم رضائے یار سے نزدیک ہم رہے
عرفان عشق نام میرے مقام کا
وہ کہتے ہیں پھر تجکھو آنا پڑے گا
یونہیں مائل ہے سراس در کی جبیں سائی کا بہ
شکر الطاف نہیں شکوۂ بیداد نہیں
وفا تجھسے اے بیوفا چاہتا ہوں
مظہر شان کبر یا صلّ علیٰ محمد
مرے بعد گزرے وہ مشق ستم سے
تجھکو اے محو نغافل میری پرا ہے نہیں
وہ دن اب یاد آتے ہیں کہ رہتے تھے بہم دونوں
ترے غم مے مدد جب دل نے چاہی
طلب عادت نہیں اہل رضا کی
یار شہر کوئے بار آنے لگی
سرورق
ردیف الف
لاؤں کہاں سے حوصلہ آرزوے سپاس کا
لطف تونے جو کیا بھی تو عجب کام کیا
پاس کا دل پہ کچھ اثر نہ ہوا
جو راہ غم میں ترا پائمال ہو نہ سکا
دل مایوس کو گرویدہ گفتار کرلینا
اک خلش ہوتی ہے محسوس رگ جاں کے قریب
ردیف ب
ردیف ت
جانفزا تھی کسقدر یارب ہوائے کوے دوست
ردیف ج
نامرادی کا دل زار کو شکوا ہے عبث
ردیف ث
رنگ یہ لایا ہجوم ساغرو پیمانہ آج
اے غم عشق اے متاع فلاح
ردیف ح
خوں بیجرمی سے اپنی دیکھکر تلوار سرخ
ردیف خ
دشوار ہے اے ملامت اے پند
ردیف د
ابتو اٹھ سکتا نہیں آنکھوں سے بار انتظار
ردیف ذ
ردیف ر
کچھ ور دول سے بڑھکے ہے درد جگر لذیذ
ردیف ز
تیر غم کا ہے دل نشانہ ہنوز
ردیف ش
ہے غضب ہنگامۂ فصل بہار ابکی برس
ردیف س
پیمان وفا نہ کر فراموش
ردیف ص
کچھ نہ ابدال سے پہنچا ہے نہ اوتاد سے فیض
کیون نہ مقبول ہو دعائے خلوص
ردیف ط
ردیف ض
نہ کر بزم ساقی میں انکار واعظ
ردیف غ
دل نہ تھا رنج ہجر یار کا داغ
ردیف ع
الوداع اے ماہ رمضان الوداع
ردیف ف
وصل کی شب رواں ہے سوے فراق
ردیف ق
وہ شوخ عجب کیا ہے مجھسے جو نہیں واقف
ردیف ک
محروم طرب ہے دل دلگیر ابھی تک
ردیف ل
ازبسکہ حسن یار ہے خوبی سے جان دل
روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام
ردیف م
کام لوں ناکامیونے عشق کا کہنا کروں
ردیف ن
اثر عشق سے نکلیں جو تمھارے آنسو
ردیف و
ردیف ہ
قابو میں نہیں ہے دل شیدا اے مدنیہ
نگاہ یار جسے آشناے راز کرے
ردیف ی
ردیف الف
خانقہ سے تادرپیر مغاں لیجائیگا
شکوۂ غم ترے حضور کیا
کبھی کی تھی جواب دوا کیجئے گا
سب سے شوخی ہے اک ہمیں سے حیا
منزل وصل یار ہے پیدا
رنگ تیری شفق جمالی کا
آئی جو انکی یاد مزا دل ٹھہر گیا
شوق وصال یار کے قابل بنا دیا
اک جو لے دے کے ہمیں شیوۂ یاری آیا
جواب انسے ملنا دوبارا نہوگا
عہد یک عمر فراغت سے بھی خوشتر گزرا
ہر گھڑی وردلب شوق ہے افسانہ ترا
ان میں دیکھا جو ماجرا دیکھا
ترے حسن کا دور دورارہیگا
دعا میں ذکر کیوں ہو مدعا کا
کوچہ اس فتنۂ دوراں کا دکھا کر چھوڑا
دل ہے بیشک نور حق سے فیضیاب
چاندنی رات میں پھولوں کا ہے زیور کیا خوب
ردیف ب
انکی محفل میں پاکے جام شراب
پنہاں شدنت دو گونہ شد خواب
ساکت پاس ہیں جان ودل ناکام شباب
ہم شکوۂ فلک ہی کرینگے حضور دوست
اس شوخ کے آنے کی تمنا ہے قیامت
بتاے نہ کیوں غم کو جان محبت
ردیف ت
ردیف ث
نعم البدل ہے عیش جہانکا ملال دوست
لطف تو گراختیار مانیست
ترک جفا کی ان سے تمنا نکر عبث
ردیف ح
تجھسے جو درد دل کا بھی ہوتا نہیں علاج
وہ دیکھنے جو بام پر آئے بہار صبح
ردیف ج‘‘
شجر غم ہے آشیانۂ روح
دختر ترے پہلو میں نہاں ہے گستاخ
اہل دل ہیں فداے نغمۂ روح
ردیف ح
کرم ساقی میخانہ مبارک باشد
وہ ہوں جیلان سے آکر میر بغداد
اے درد تو بپایۂ درماں ہیدہ باد
وہ ہوں جیلان سے آکر میر بغداد
ردیف د
ردیف ذ
انکو سوا مجھے خراب نکر
حاصل جو ہو درد محبت کے لذائذ
ہوگئی کثرت نظر
دل ہے ترے وصل کا طلبگار
کند یا خوب ہمکو پہ یار نکر
ابروے ونغمہ صحن گلزار
استادہ ہوے صفوف ابرار
در حجرۂ حسن کا نکر باز
السلام اے شہ بشیر ونذیر
پیمان لطف وعہد وفارا نگا ہدار
میہماں اور میہمان عزیز
ہم کہیں تا کجا حدیث نیاز
ہواے برشگالی ہے ہوس خیز
جلوۂ حق کو ہے نظر کی تلاش
ہر در دہر مرض کی دوا ہے تمھارے پاس
نارسائی میں بھی رہے اے کاش
ردیف ش
ردیف س
ردیف ص
جان ہے اپنی آب وگل کی خلش
دشمن ہر عاقل وفرزانہ باش
آنکھوں میں نور جلوۂ بے کیف وکم ہے حاص
نہ ہو آپ آشناے خلوص
کیونکر کہیں کہ ہمپہ اطاعت نہیں سے فرض
سرخیٔ حسن ہے ملبوس نگار عارض
ردیف ض
دلر بائی تھی آشتی سے غرض
ردیف ظ
الفت نہ مودّت نہ مروت کے شرائط
حور کا ذکر ہے کیا کیا بزبان واسط
ردیف ط
ردیف غ
عشق ہے جان ومال اہل سماع
ردیف ع
غم وفکر وشوق وتمنا سے فارغ
ظلمتیں دلکی سب ہوئیں مرفوع
ردیف ف
آئینہ دیکھئے کہ سب آئے نظر وروغ
نظر اس رخ پہ ہے ادب کے خلاف
مونس بیکساں در ود شریف
جیتے ہیں درد محبت کے سہارے عاشق
ردیف ورق
امام برحق اہل رضا سلام علیک
ردیف ک
رنج بیجا پہ کیا ہمنے جو اظہار ملال
ردیف ل
نہ کیا بار غم کسی نے قبول
ردیف م
سیہ کار تھے باصفا ہوگئے ہم
رنج راحت ہے سکون غم ہجراں کی قسم
کرو کچھ تو ارشاد یا غوث الاعظم
ردیف نون
ایدل انکو وفا کی خوہی نہیں
عشق میں جذب کیا اثر بھی نہیں
فیض محبت سے ہے قید محن
لطف کی ان سے التجا نہ کریں
کچھ میرے حال زار کی انکو خبر نہیں
نہ سہی گر انھیں خیال نہیں
ہم دیر سے نظارۂ خوباں میں لگے ہیں
اک طرفہ ماجرا ہے در کوے میفروشاں
یہ کس بزم کے ہم نکالے ہو ہے ہیں
کب وہ بلاتے ہیں دو بارا ہمیں
اب ہم میں بھلا زیست کے آثار کہاں ہیں
نغمہ و مے کا حکم عام نہیں
یکرہ بد یار غم گذر کن
حسن کے ہم ہلاک وید بھی ہیں
ردیف و
حال کیا انسے باربار کہیں
ردیف و
نامرادوں کو شاد کام کرو
ہم حال انھیں یوں دلکا سنانے میں لگے ہیں
لاکھ اس شوخ جفا کار سے پرہیز کرو
جسنے سونگھی ہے تری زلف سیہ کار کی بو
اپنے آپے میں نہیں شوق کے مارے گیسوا
خلش خار سے خدا کی پناہ
آرزو لازم ہے وجہ آرزو ہو یا نہ ہو
خیال غیر حق دل سے مٹا دو یارسول اللہ
ردیف ہ
دشمن شیوۂ وفا شدۂ
ردیف ی
حسرت کشان درد ہیں لب تشنگان عاشقی
برکتیں سب ہیں عیاں دولت روحانی کی
گھبرا کے تغافل سے تمنا ہے ستم کی
اور بھی ہوگئے بیگانہ وہ غفلت کرکے
سقرر کچھ نہ کچھ اسمیں رقیبونکی بھی سازش
مہیائے ترک تمنا نہیں ہے
خوسمجھ میں نہیں آتی ترے دیوانوں کی
وہ جب یہ کہتے ہیں تجھ سے خطا ضرور ہوئی
کیا کام انھیں پرسش ارباب وفا سے
ہوتی ہے روز بارش عرفاں مرے لئے
جنوں نے دل سے وہ جس بھی مٹادی
ہجر میں یاد یار آتی ہے
چلی سابر متی میں آج کیا ہے
ہے عشق میں حال کی خرابی
آسان حقیقی ہے نہ کچھ سہل مجازی
بجا ہے دل زار کی ناصبوری
مرا ایماں عجب کیا ہے جو ایمان تصوف ہے
ہیں وہ باوصف شان خود کامی
اگر شوق کی رہنمائی نہ ہوگی
روشن جمال یار سے دنیاے عشق ہے
ترے درد سے جسکو نسبت نہیں ہے
آہ دل عشاق نواساز نہیں ہے
وہ چپ ہوگئے مجھسے کیا کہتے کہتے
اک انکے سوا جب نہ تھے ہم کسی کے
مرید آپکے اہل صفا کے پیر ہوے
پہلے کہیں خدا اسے شوق شکار دے
علی کے لال زہرا کے دلارے
عاشق کو ہوئی فناے فانی
کیا کیا نہ ہجر میں ترے ناشاد کر چکے
ترک شان کج ادائی کیجئے
گمرہوں کی رہنمائی کیجئے
تیری جفا بھی ہے وفا اے بکمال دلبری
کسقدر دشوار تھی ہم پر جدائی آپ کی
خبر کیا تھی ترے عزم سفر کی
تراوش کرتے ہیں رنگینیاں کب اپنے مضمون سے
عقدہ وصال یار کا حل ہو تو جانیے
منحصر وقت مقرر پہ ملاقات ہوئی
کوشش وصال یار کی معذور ہوچکی
گلشن میں نہ دل بلبل ناکام لگائے
باقی ہے جو کچھ کچھ خلش درد کبھو کی
آنکھ تیری بھی ناسحر نہ لگے
ہر دم رضائے یار سے نزدیک ہم رہے
عرفان عشق نام میرے مقام کا
وہ کہتے ہیں پھر تجکھو آنا پڑے گا
یونہیں مائل ہے سراس در کی جبیں سائی کا بہ
شکر الطاف نہیں شکوۂ بیداد نہیں
وفا تجھسے اے بیوفا چاہتا ہوں
مظہر شان کبر یا صلّ علیٰ محمد
مرے بعد گزرے وہ مشق ستم سے
تجھکو اے محو نغافل میری پرا ہے نہیں
وہ دن اب یاد آتے ہیں کہ رہتے تھے بہم دونوں
ترے غم مے مدد جب دل نے چاہی
طلب عادت نہیں اہل رضا کی
یار شہر کوئے بار آنے لگی
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔